حضرت خَبَّابْ بن اَرَتْ ؓ
حضرت خَبَّابؓ کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن زید سے تھا۔ ان کے والد کا نام اَرَتْ بن جَنْدَلَہ تھا۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بعض کے نزدیک ابو محمد اور ابو یحیٰ بھی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں غلام بنا کر مکہ میں یہ بیچ دیے گئے۔ یہ عُتبہ بن غَزْوَان کے غلام تھے۔ بعض کے نزدیک اُمِّ اَنمار خُزَاعِیہ کے غلام تھے۔ بنو زُہرہ کے حلیف ہوئے۔ اول اسلام لانے والے اصحابؓ میں یہ چھٹے نمبر پر تھے اور ان اولین میں سے ہیں جنہوں نے اپنا اسلام ظاہر کر کے اس کی پاداش میں سخت مصائب برداشت کیے۔ حضرت خَبَّابؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں تشریف لانے اور اس میں دعوت دینے سے پہلے اسلام لائے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 121۔ 122 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ221 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 147 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
مجاہد کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام ظاہر کیا وہ یہ ہیں: حضرت ابوبکرؓ، حضرت خَبَّابؓ، حضرت صُہیبؓ، حضرت بِلالؓ، حضرت عَمَّارؓ اور حضرت سُمَیّؓ ہ والدہ حضرت عَمَّارؓ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چچا ابوطالب کے ذریعہ سے محفوظ رکھا اور حضرت ابوبکرؓ کو خود ان کی قوم نے محفوظ رکھا۔ بہرحال یہ جو لکھنے والا ہےیہ ایک خاص تناظر میں یہ لکھ رہا ہے لیکن یہ بات بہرحال لازمی ہے اور اس لکھنے والے کے ذہن میں بھی شاید یہ نہیں رہا کہ باوجود اس کے جو اس نے لکھا ہے کہ ان کے چچا ابوطالب نے ان کو محفوظ رکھا یا ان کی وجہ سے حفاظت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مشرکین ِمکہ کے ہاتھوں مظالم سے محفوظ نہ رہے اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ محفوظ رہے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے۔ انہیں بھی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ حضرت ابوطالب سمیت ظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ لکھنے والا تو یہ کہتا ہے کہ پھر یہ لوگ تو محفوظ رہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی اس کی ایک سوچ ہے کیونکہ تاریخ تو یہ کہتی ہے کہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہے، نہ حضرت ابوبکرؓ محفوظ رہے لیکن بہرحال وہ پھر اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے کہ یہ تو دونوں محفوظ ہوئے لیکن باقی سب لوگوں کو لوہے کی زرہیں پہنائی گئیں اور انہیں سورج کی شدید دھوپ میں جھلسایا گیا اور جس قدر اللہ نے چاہا انہوں نے لوہے اور سورج کی حرارت کو برداشت کیا۔ شعبی کہتے ہیں کہ حضرت خَبَّابؓ نے بہت صبر کیا اور کفار کے مطالبے یعنی اسلام سے انکار کو منظور نہیں کیا تو ان لوگوں نے ان کی پیٹھ پر گرم گرم پتھر رکھے یہاں تک کہ ان کی پیٹھ سے گوشت جاتا رہا۔ اسد الغابہ کی یہ ساری روایت ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 147 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت خَبَّابؓ کا ایک واقعہ جو حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے وقت پیش آیا اس کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ابھی حضرت حمزہؓ کو اسلام لائے صرف چند دن ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اَور خوشی کا موقع دکھایا یعنی حضرت عمرؓ جو ابھی تک اشد مخالفین میں سے تھے مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا قصہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ بہت سارے لوگوں نے سنا بھی ہوا ہے، پڑھا بھی ہو اہے لیکن یہ تفصیل جو آپؓ نے بیان کی ہے یہ بھی میں بیان کر دیتا ہوں اور یہ بیان کرنا ان کی تاریخ کے لیے ضروری ہے۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی کا مادہ تو زیادہ تھا ہی مگر اسلام کی عداوت نے اسے اور بھی زیادہ کر دیا تھا۔ چنانچہ اسلام سے قبل عمر غریب اور کمزور مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے بہت سخت تکلیف دیا کرتے تھے لیکن جب وہ انہیں تکلیف دیتے دیتے تھک گئے اور ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہ دیکھی تو خیال آیا کیوں نہ اس فتنے کے بانی کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاتمہ کر دیا جاوے۔ یہ خیال آنا تھا کہ تلوار لے کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش شروع کی۔ راستے میں ایک شخص نے انہیں ننگی تلوار ہاتھ میں لیے جاتے دیکھا تو پوچھا۔ عمر! کہاں جاتے ہو؟ عمر نے جواب دیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کرنے جاتا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم محمد کو قتل کرکے بنو عبدمناف سے محفوظ رہ سکو گے؟ ذرا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔ حضرت عمرؓ جھٹ پلٹے، واپس ہوئے اور اپنی بہن فاطمہ کے گھر کا راستہ لیا۔ جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آئی۔ جو خَبَّاب بن اَلْاَرَت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنا رہے تھے۔ عمرؓ نے یہ آواز سنی تو غصہ اور بھی بڑھ گیا۔ جلدی سے گھر میں داخل ہوئے لیکن ان کی آہٹ سنتے ہی خَبَّاب تو فوراً کہیں چھپ گئے اور فاطمہ نے قرآن شریف کے اور اق بھی اِدھر ادھر چھپا دیے۔ حضرت عمرؓ کی بہن کا نام فاطمہ تھا۔ حضرت عمرؓ اندر آئے تو للکار کر کہامیں نے سنا ہے تم اپنے دین سے پھر گئے ہو۔ یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید سے لِپٹ گئے۔ فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو وہ بھی زخمی ہوئیں مگر فاطمہ نے دلیری کے ساتھ کہا۔ ہاں عمر! ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو۔ اب ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے۔ حضرت عمرؓ نہایت سخت آدمی تھے لیکن اس سختی کے پردہ کے نیچے محبت اور نرمی کی بھی ایک جھلک تھی جو بعض اوقات اپنا رنگ دکھاتی تھی۔ بہن کا یہ دلیرانہ کلام سنا، یہ بات سنی تو آنکھ اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ خون میں تربہ تر تھی۔ اس نظارہ کا عمر کے قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر بہن سے کہنے لگے کہ مجھے وہ کلام تو دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے؟ فاطمہ نے کہا کہ میں نہیں دکھاؤں گی کیونکہ تم ان اور اق کو ضائع کر دو گے، ان صفحوں کو ضائع کر دو گے۔ عمر نے جواب دیا۔ نہیں نہیں تم مجھے دکھاؤ۔ میں ضرور واپس کر دوں گا۔ فاطمہ نے کہا مگر تم نجس ہو، ناپاک ہو اور قرآن کو پاکیزگی کی حالت میں ہاتھ لگانا چاہیے۔ پس تم پہلے غسل کر لو تو پھر دکھا دوں گی اور پھر دیکھ لینا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ غالباً ان کا منشا یہ بھی ہو گا کہ غسل کرنے سے عمر کا غصہ بالکل فرو ہو جائے گا اور وہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ جب عمر غسل سے فارغ ہوئے تو فاطمہ نے قرآن کے اور اق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔ انہوں نے اٹھا کر دیکھا تو سورۂ طہٰ کی ابتدائی آیات تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنا شروع کیا اور ایک ایک لفظ اس سعید فطرت کے اندر گھر کیے جاتا تھا اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ پڑھتے پڑھتے جب حضرت عمرؓ اس آیت پر پہنچے کہ
اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔ اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰى کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰى (طٰہٰ: 15-16)
یعنی میں ہی اس دنیا کا واحد خالق و مالک ہوں میرے سوا اور کوئی قابلِ پرستش نہیں۔ پس تمہیں چاہیے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کے لیے اپنی دعاؤں کو وقف کر دو۔ دیکھو ! موعود گھڑی جلد آنے والی ہے مگر ہم اس کے وقت کو مخفی رکھے ہوئے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے کیے کا سچا سچا بدلہ پاسکے۔
جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور سوئی ہوئی فطرت چونک کر بیدار ہو گئی۔ بے اختیار ہو کر بولے۔ یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے۔ خَبَّابؓ نے یہ الفاظ سنے تو فوراً باہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور کہا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی قسم! ابھی کل ہی میَں نے آپؐ کو یہ دعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ !تو عمر ابن الخطاب یا عمرو بن ہشام یعنی ابوجہل میں سے کسی ایک کو ضرور اسلام عطا کر دے۔ حضرت عمرؓ کو اب ایک ایک پل گراں تھی۔ اس کلام کو پڑھنے کے بعد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچاننے کے بعد ان کے لیے اب یہاں ٹِک رہنا بڑا مشکل ہو رہا تھا۔ انہوں نے خَبَّابؓ سے کہا کہ مجھے ابھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ بتاؤ وہ کہاں ہے۔ مگر کچھ ایسے آپے سے باہر ہو رہے تھے کہ تلوار اسی طرح ننگی کھینچ رکھی تھی۔ یہ خیال نہیں آیا کہ تلوار بھی میان میں ڈال لیں۔ ننگی تلوار کو اسی طرح ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ بہرحال اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دارِارقم میں مقیم تھے۔ چنانچہ خَبَّابؓ نے انہیں وہاں کا پتہ بتادیا۔ عمرؓ وہاں گئے اور دروازے پر پہنچ کر زور سے دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازے کی دراڑ میں سے عمر کو ننگی تلوار تھامے ہوئے دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا، ہچکچاہٹ کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دروازہ کھول دو اور حضرت حمزہؓ نے بھی کہا، حضرت حمزہؓ بھی وہاں تھے کہ دروازہ کھول دو۔ اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو بہتر ورنہ اگر نیت بد ہے تو واللہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑادوں گا۔ دروازہ کھولا گیا۔ عمر ننگی تلوار ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوئے۔ ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور عمر کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور کہا عمر کس ارادے سے آئے ہو؟ واللہ میں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لیے نہیں بنائے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کے لیے نہیں بنائے گئے۔ عمرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ ! مَیں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سنے تو خوشی سے جوش میں اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ157تا159)
حضرت خَبَّابؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبے کے سائے میں اپنی چادر پر ٹیک دیے بیٹھے تھے۔ ہم نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ ہمارے لیے نصرت طلب نہیں کریں گے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تنگی کے حالات میں ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان میں سے ایک شخص کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا پھر اسے اس میں گاڑ دیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور وہ اس کے سر پر رکھا جاتا اور اس شخص کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور یہ بات اس کو اس کے دین سے نہ روک سکتی اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں یا پٹھوں سے نوچ کر الگ کر دیا جاتا اور یہ بات اس کو اس کے دین سے نہ روک سکتی۔ پھر آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اللہ اس کام کو یعنی جو میرا مشن ہے اس کو ضرور پورا کرے گا۔ جس مقصد کے لیے میں آیا ہوں وہ ضرور پورا ہو گا، آسانیاں بھی آئیں گی۔ پھر آگے آپؐ نے فرمایا یہاں تک کہ ایک سوار صَنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا۔ صَنعاء اور حضرموت یمن کے دو شہر ہیں اور کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان 216 میل کا فاصلہ ہے۔ بہرحال آپؐ نے فرمایا کہ یہ سفر کرے گا اور اس کو سوائے خدا کے کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔ یا یہ بھی فرمایا کہ نہ اپنی بکریوں پر بھیڑیے کے حملہ آور ہونے کا ڈر ہو گا۔ آپؐ نے فرمایا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ صبر سے یہ ساراکام ہو گا۔ بخاری کی روایت ہے یہ۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر 3612) (معجم البلدان جلد 2صفحہ 311 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
دوسری جگہ یہ روایت اس طرح درج ہوئی ہے۔ حضرت خَبَّابؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے اور آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! کیا آپؐ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے اس قوم کے خلاف جن کی نسبت ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمیں ہمارے دین سے نہ پھیر دیں؟ تو آپؐ نے مجھ سے اپنا چہرہ تین مرتبہ پھیرا۔ چہرہ پرے کر لیا اور جب بھی میں آپؐ سے یہ عرض کرتا تو آپؐ اپنا منہ موڑ لیتے۔ تیسری دفعہ آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صبر کرو۔ خدا کی قسم ! تم سے پہلے خدا کے ایسے مومن بندے گزرے ہیں جن کے سر پر آرا رکھ دیا جاتا اور انہیں دو ٹکڑے کر دیا جاتا مگر وہ اپنے دین سے پیچھے نہ ہٹے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ تمہاری راہیں کھولنے والا اور تمہارے کام بنانے والا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3 صفحہ 431-432کتاب معرفۃ الصحابۃ باب ذکر مناقب خَبَّاب بن الارت حدیث 5643)
حضرت خَبَّابؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل کے ذمہ میرا قرض تھا۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے آیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں ہرگز تمہارا قرض ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمدؐ کا انکار نہ کرو۔ اس بات کا اعلان نہ کرو کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سے باہر آتا ہوں۔ جب تک تم محمد کا انکار نہ کرو گے میں ادا نہیں کروں گا تو حضرت خَبَّابؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اس سے کہا کہ مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز انکار نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو مرے اور پھر زندہ کیا جائے یعنی ناممکن ہے کہ میں انکار کروں۔ آگے سے اس نے بھی اس طرح کا جواب دیا کہ جب میں مرنے کے بعد زندہ کیا جاؤں گا اور اپنے مال اور اولاد کے پاس آؤں گا تو اس وقت تیرا قرض ادا کر دوں گا۔ اس نے بھی کہہ دیا میں نے تو نہیں دینا۔ حضرت خَبَّابؓ کہتے ہیں کہ اسی کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا۔ اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا۔ کَلَّا سَنَکْتُبُ مَا یَقُوْلُ وَنَمُدُّ لَہٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا۔ وَّنَرِثُہٗ مَا یَقُوْلُ وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا۔ (مریم: 78تا81)
کیا تو نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے ہمارے نشانوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے یقیناً بہت سا مال اور بہت سے بیٹے دیے جائیں گے۔ کیا اس نے غیب کا حال معلوم کر لیا ہے یا خدائے رحمان سے کوئی وعدہ لے لیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہم اس کے اس قول کو محفوظ رکھیں گے اور اس کے عذاب کو لمبا کر دیں گے اور جس چیز پر وہ فخر کر رہا ہے اس کے ہم وارث ہو جائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا ہی آئے گا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 122 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت خَبَّابؓ لوہار تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت الفت رکھتے تھے اور ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ان کی مالکہ کو اس کی خبر ملی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خَبَّابؓ کے پاس آتے ہیں تو وہ گرم گرم لوہا حضرت خَبَّاب کے سر پر رکھنے لگی۔ لوہے کا کام تھا۔ لوہے کو بھٹی میں ڈالتے تھے تو وہ گرم لوہا ان کے سر پر رکھنے لگی۔ حضرت خَبَّاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا: اللہ خَبَّاب کی مدد کر۔ آپؐ نے دعا کی۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روایت میں ہے کہ ان کی مالکہ ام انمار جو تھی اس کے سر میں کوئی بیماری پیدا ہو گئی اور وہ کتوں کی طرح آوازیں نکالتی تھی۔ اس سے کہا گیا کہ تُو داغ لگوا لے۔ یعنی اپنے سر پہ گرم لوہا لگوا۔ چنانچہ حضرت خَبَّابؓ گرم لوہے سے اس کے سر کو داغتے تھے۔ مجبور ہوئی تو پھر وہ حضرت خَبَّاب کے ذریعے سے اپنے سر پہ گرم لوہا لگواتی تھی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 148 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
ابولیلیٰ کِندی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ حضرت خَبَّابؓ حضرت عمرؓ کے پاس آئے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو کہا کہ قریب آ جاؤ کیونکہ سوائے عَمّار بن یاسر کے اس مجلس کا تم سے زیادہ مستحق کوئی نہیں۔ حضرت خَبَّابؓ اپنی پیٹھ کے وہ نشانات دکھانے لگے جو مشرکین کے تکلیف دینے سے پڑ گئے تھے۔ طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 122 خَبَّاب بن ارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک اَور جگہ کمر کے زخم دکھانے کے بارے میں ذرا تفصیل سے اس طرح روایت آتی ہے۔ شعبی سے روایت ہے کہ حضرت خَبَّابؓ حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس آئے۔ انہوں نے حضرت خَبَّابؓ کو اپنی نشست گاہ پر بٹھایا اور فرمایا سطح زمین پر کوئی شخص اس مجلس کا ان سے زیادہ مستحق نہیں سوائے ایک شخص کے۔ حضرت خَبَّابؓ نے کہا اے امیر المومنین !وہ کون ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا وہ بلال ہے۔ حضرت خَبَّابؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین !وہ مجھ سے زیادہ مستحق نہیں ہے کیونکہ بلال جب مشرکوں کے ہاتھ میں تھے تو ان کا کوئی نہ کوئی مددگار تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کو بچا لیا کرتا تھا مگر میرے لیے کوئی نہ تھا جو میری حفاظت کرتا۔ ایک روز میں نے خود کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور میرے لیے آگ جلائی۔ پھر انہوں نے مجھے اس میں ڈال دیا۔ حضرت خَبَّاب کہتے ہیں کہ ایک روز میری یہ حالت تھی۔ مَیں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگوں نے مجھے پکڑ لیا۔ میرے لیے آگ جلائی اور پھر اس میں مجھے ڈال دیا۔ آگ کے کوئلوں پہ جو گرم کوئلے تھے ایک آدمی نے مجھے اس میں پھینک کے اپنا پاؤں میرے سینے پہ رکھ دیا۔ لوگوں نے مجھے اس میں پھینک دیا اور اس کے بعد ایک آدمی نے اپنا پاؤں میرے سینے پہ رکھ دیا تو میری کمر ہی تھی جس نے مجھے گرم زمین سے بچایا یا کہا کہ میری کمر ہی تھی جس نے زمین کو ٹھنڈا کیا۔ پھر انہوں نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا تو وہ برص کی طرح سفید تھی۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 123 خَبَّاب بن ارت دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یعنی گرم کوئلوں پر لٹایا تو کوئی چیز ان کوئلوں کو ٹھنڈا کرنے والی نہیں تھی۔ جسم کی جو کھال اور چربی تھی وہی پگھل کے اس کوٹھنڈا کر رہی تھی۔
پھر اس بارے میں ایک روایت اس طرح بھی ہے۔ شعبی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت خَبَّابؓ سے ان مصائب کے بارے میں پوچھا جو انہیں مشرکین سے پہنچتے تھے تو انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! میری پیٹھ دیکھیں۔ جب حضرت عمرؓ نے پیٹھ دیکھی تو فرمایا میں نے ایسی پیٹھ کسی کی نہیں دیکھی۔ حضرت خَبَّابؓ نے بتایا کہ آگ جلائی جاتی تھی اور اس پر مجھے گھسیٹا جاتا تھا اور اس آگ کو اور کوئی چیز نہ بجھاتی تھی سوائے میری کمر کی چربی کے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ 148 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خَبَّابؓ کے بارے میں جو بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں وہ غلام ہی تھے۔ چنانچہ خَبَّاب بن الارتؓ ایک غلام تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے۔ وہ نہایت ابتدائی ایام میں آپ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر ایمان لے آئے۔ لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے تھے حتیٰ کہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر ان پر انہیں لٹا دیتے تھے اور اوپر سے چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تھے تا کہ آپؓ کمر نہ ہلا سکیں۔ ان کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہو گئے۔ مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے آپؓ ایک منٹ کے لیے بھی متذبذب نہ ہوئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے۔ آپؓ کی پیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی حکومت کے ایام میں اِنہوں نے اپنے گذشتہ مصائب کا ذکر کیا تو اُنہوں نے اِن سے پیٹھ دکھانے کو کہا۔ جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں۔‘‘ (دنیا کا محسنؐ، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 273)
پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اَور جگہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خَبَّابؓ کی پیٹھ ننگی ہوئی تو ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑہ انسانوں جیسا نہیں، جانوروں جیسا ہے۔ وہ گھبرا گئے اور ان سے دریافت کیا کہ آپؓ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے ’’یعنی حضرت خَبَّابؓ ہنسے‘‘ اور کہا بیماری نہیں یہ یادگار ہے اس وقت کی جب ہم نَومسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روا رکھے جاتے تھے۔ اسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 193)
ان ابتدائی مسلمانوں کو جو غریب بھی تھے اور اکثر غلام بھی تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد جن تکالیف میں سے انہیں گزرنا پڑا جس کا ذکر ابھی ہم نے حضرت خَبَّابؓ کے حوالے سے سنا ہے کہ کبھی آگ پہ لٹا دیا جاتا، کبھی ان کو پتھروں پہ گھسیٹا جاتا۔ یہ تکلیفیں تو انہوں نے برداشت کر لیں اور جب بعد میں اسلام کی ترقی ہوئی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے کس طرح نوازااور ان کا دنیاوی مقام بھی کس طرح قائم فرمایا اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ
حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے زمانۂ خلافت میں مکہ تشریف لائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤساء جو مشہور خاندانوں میں سے تھے ان کے ملنے کے لیے آئے۔ انہیں خیال پیدا ہوا کہ حضرت عمرؓ ہمارے خاندانوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لیے اب جبکہ وہ خود بادشاہ ہیں ہمارے خاندانوں کا بھی پوری طرح اعزاز کریں گے اور ہم پھر اپنی گم گشتہ عزت کو حاصل کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے آپؓ سے باتیں شروع کر دیں۔ ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی مجلس میں حضرت بلالؓ آ گئے۔ تھوڑی دیر گزری تو حضرت خَبَّابؓ آ گئے اور اس طرح یکے بعد دیگرے اول الایمان غلام آتے چلے گئے یعنی شروع میں جو ایمان لانے والے تھے وہ غلام تھے۔ وہ سارے ایک کے بعد دوسراآتے چلے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ان رؤساء یا ان کے آباء کے غلام رہ چکے تھے۔ یہ جو نوجوان رؤساء بیٹھے تھے یا اس وقت کے جو رؤساء بیٹھے تھے یہ سارے آنے والے جو تھے یہ ان کے آباؤ اجداد کے غلام تھے۔ اور جب وہ غلام تھے تو اس وقت اپنی طاقت کے زمانے میں وہ ان پر شدید ترین مظالم بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ہر غلام کی آمد پر اس کا استقبال کیا، جب بھی یہ لوگ حضرت خَبَّابؓ یا حضرت بلالؓ وغیرہ آتے تھے، جب بھی یہ بہت سارے اول الایمان لوگ آئے اور جو غلام بھی تھے کسی زمانے میں۔ جب بھی وہ مجلس میں آتے تو حضرت عمرؓ بڑی اہمیت سے ان کا استقبال کرتے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ہر غلام کی آمد پر اس کا استقبال کیا اور رؤساء سے کہا کہ آپ ذرا پیچھے ہو جائیں۔ رؤساء مجلس میں آگے بیٹھے ہوتے تھے جب یہ پرانے ایمان لانے والے آتے تھے تو آپؓ ان رؤساء کو جو مکہ کے رؤساء تھے کہتے ذرا پیچھے ہٹ جاؤ ان کو آگے بیٹھنے دو حتیٰ کہ وہ نوجوان رؤساء جو آپؓ سے، حضرت عمرؓ سے ملنے آئے تھے ہٹتے ہٹتے دروازے تک پہنچ گئے۔ اس زمانے میں کوئی بڑے بڑے ہال تو ہوتے نہیں تھے، ایک چھوٹا سا کمرہ ہو گا اور چونکہ وہ سب اس میں سما نہیں سکتے تھے اس لیے پیچھے ہٹتے ہٹتے ان رؤساء کو جوتیوں میں بیٹھنا پڑا۔ جب مکہ کے وہ رؤساء جوتیوں میں جا پہنچے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک کے بعد ایک مسلمان غلام آیا اور اس کو آگے بٹھانے کے لیے ان لوگوں کو یا رؤساء کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا تو ان کے دل کو سخت چوٹ لگی۔
حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بھی اس وقت کچھ ایسے سامان پیدا کر دیے کہ یکے بعد دیگرے کئی ایسے مسلمان آ گئے جو کسی زمانے میں کفار کے غلام رہ چکے تھے۔ اگر ایک بار ہی وہ رؤساء پیچھے ہٹتے تو ان کو احساس بھی نہ ہوتا مگر چونکہ بار بار ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اس لیے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔ باہر نکل کر وہ ایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے کہ دیکھو آج ہماری کیسی ذلت و رسوائی ہوئی ہے۔ ایک ایک غلام کے آنے پر ہم کو پیچھے ہٹایا گیا ہے یہاں تک کہ ہم جوتیوں میں جا پہنچے۔ اس پر ان میں سے ایک نوجوان بولا اس میں کس کا قصور ہے؟ عمرؓ کا ہے یا ہمارے باپ دادا کا ہے؟ اگر تم سوچو تو معلوم ہو گا کہ اس میں حضرت عمرؓ کا تو کوئی قصور نہیں۔ یہ ہمارے باپ دادا کا قصور تھا جس کی آج ہمیں سزا ملی کیونکہ خدا نے جب اپنا رسول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے مخالفت کی مگر ان غلاموں نے اس کو قبول کیا اور ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کیا۔ اس لیے آج اگر ہمیں مجلس میں ذلیل ہونا پڑا ہے تو اس میں عمرؓ کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ اس کی یہ بات سن کر دوسرے کہنے لگے کہ ہم نے یہ تو مان لیا کہ یہ ہمارے باپ دادا کے قصور کا نتیجہ ہے مگر کیا اس ذلت کے داغ کو دور کرنے کا کوئی ذریعہ بھی ہے یا کوئی نہیں ہے؟ اس پر سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھ لیں کہ اس کا کیا علاج ہے۔ چنانچہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے اس کو آپ بھی خوب جانتے ہیں اور ہم بھی خوب جانتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ معاف کرنا میں مجبور تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں معزز تھے۔ شاید تمہارے غلام ہوں گے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں یہ لوگ معزز تھے۔ اس لیے میرا بھی فرض تھا کہ میں ان کی عزت کرتا۔ انہوں نے کہا ہم جانتے ہیں یہ ہمارے ہی قصور کا نتیجہ ہے لیکن آیا اس عار کو مٹانے کا بھی کوئی ذریعہ ہے۔ حضرت مصلح موعوؓ د فرماتے ہیں کہ ہم لوگ تو اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آج کل اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ وہ لوگ جو مکہ کے رؤساء تھے انہیں مکہ میں کس قدر رسوخ حاصل تھا لیکن حضرت عمرؓ ان کے خاندانی حالات کو بخوبی جانتے تھے۔ آپؓ مکے میں پیداہوئے تھے یعنی حضرت عمرؓ مکے میں پیدا ہوئے تھے اور مکہ میں بڑے ہوئے تھے اس لیے حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کس قدر عزت رکھتے تھے۔ آپؓ جانتے تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور آپؓ جانتے تھے کہ انہیں کس قدر رعب اور دبدبہ حاصل تھا۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت عمرؓ کے سامنے ایک ایک کر کے یہ تمام واقعات آ گئے اور آپؓ پر رقت طاری ہو گئی۔ اس وقت آپؓ غلبۂ رقت کی وجہ سے بول بھی نہ سکے صرف آپؓ نے ہاتھ اٹھایا اور شمال کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ شمال میں یعنی شام میں بعض اسلامی جنگیں ہو رہی ہیں۔ اگر تم ان جنگوں میں شامل ہو جاؤ تو ممکن ہے اس کا کفارہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ وہاں سے اٹھے اور جلد ہی ان جنگوں میں شامل ہونے کے لیے چل پڑے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ رئیس زادے جتنے تھے ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ سب اسی جگہ شہید ہو گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے خاندانوں کے نام پر سے داغِ ذلت کو مٹا دیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 65تا67)
نتیجہ یہی ہے کہ قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ جنہوں نے شروع میں قربانیاں کیں ان کو عزت ملی۔ بعد میں اگر آئے اور اس ذلت کے داغ کو مٹانا ہے تو پھر بھی قربانیوں سے ہی مٹایا جا سکتا ہے۔
جب حضرت خَبَّابؓ اور حضرت مقداد بن عمروؓ نے مدینہ ہجرت کی تو یہ دونوں حضرت کلثوم بن اِلْہَدمؓ کے ہاں ٹھہرے اور حضرت کلثومؓ کی وفات تک انہی کے گھر ٹھہرے رہے۔ حضرت کلثومؓ کی وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدر کی طرف نکلنے سے کچھ عرصےپہلے ہوئی تھی۔ پھر وہ حضرت سعد بن عبادہؓ کی طرف چلے گئے یہاں تک کہ پانچ ہجری میں بنو قریظہ کو فتح کیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 123 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2 صفحہ57 غزوۃ رسول اللّٰہﷺ الی بنی قریظہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خَبَّابؓ اور حضرت خراش بن صِمَّہ کے آزاد کردہ غلام حضرت تمیمؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ ایک دوسرے قول کے مطابق آپؐ نے حضرت خَبَّابؓ کی مؤاخات حضرت جَبْر بن عَتِیکؓ کے ساتھ قائم فرمائی۔ علامہ ابن عبدالبَرّ کے نزدیک پہلی روایت زیادہ صحیح ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 21 خَبَّاب بن الارت دار الجیل بیروت)
حضرت خَبَّابؓ غزوہ ٔبدر، احد اور خندق سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 123 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیہ بیروت، 1990ء)
ابوخالد بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خَبَّابؓ آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپؓ کے دوست آپؓ کے پاس اکٹھے ہوئے ہیں تا کہ آپؓ ان سے کچھ بیان کریں یا انہیں کچھ حکم دیں۔ حضرت خَبَّابؓ نے کہا مَیں انہیں کس بات کا حکم دوں ! ایسا نہ ہو کہ مَیں انہیں کسی ایسی بات کا حکم دوں جو مَیں خودنہیں کرتا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ 149 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
ان لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کا یہ معیار تھا۔
عبداللہ بن خَبَّاب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز پڑھائی اور اس کو بہت لمبا کیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ نے ایسی نماز پڑھائی ہے کہ اس جیسی پہلے کبھی نہیں پڑھائی۔ آپؐ نے فرمایا ہاں یہ رغبت اور خوف کی نماز ہے۔ میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو عطا کی ہیں اور ایک کو روکے رکھا ہے۔ میں نے اللہ سے مانگا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے جو اللہ نے عطا فرما دی۔ میں نے اللہ سے یہ مانگا کہ میری امت پر کوئی دشمن ان کے اغیار میں سے مسلط نہ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما دی۔ بحیثیت امت آج بھی امت قائم ہے اور اگر کوئی مسلط کرتے ہیں تو یہ خود حکومتیں اپنے اوپر مسلط کرتی ہیں۔ بحیثیت امت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قائم ہے۔ اور پھر فرمایا اور میں نے اللہ سے مانگا کہ میری امت باہم ایک دوسرے سے نہ لڑے۔ یہ اللہ نے مجھے عطا نہیں کی۔ (سنن الترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی سوال النبیﷺ ثلاثا فی امتہ حدیث نمبر2175)
اور نتیجہ آج یہ ہے کہ فرقہ بازیاں، کفر کے فتوے یہ سب کچھ چل رہا ہے۔
طارق سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت نے حضرت خَبَّابؓ کی عیادت کی۔ ان لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! خوش ہو جاؤ کہ تم اپنے بھائیوں کے پاس حوضِ کوثر پر جاتے ہو۔ حضرت خَبَّابؓ نے کہا کہ تم نے میرے سامنے ان بھائیوں کا ذکر کیا ہے جو گزر گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اجروں میں سے کچھ نہ پایا اور ہم ان کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ ہمیں دنیا سے وہ کچھ حاصل ہو گیا جس کے متعلق ہم ڈرتے ہیں کہ شاید یہ ہمارے گذشتہ کیے گئے اعمال کا ثواب ہےجو دنیا ہمیں مل گئی۔ یہیں دنیا میں ثواب مل گیا۔ حضرت خَبَّابؓ بہت شدید اور طویل مرض میں مبتلا رہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 149 خَبَّاب بن ارت دار الکتب العلمیۃ بیروت2003ء)
حَارِثَہ بن مُضَرِّب سے مروی ہے کہ میں حضرت خَبَّابؓ کے پاس ان کی عیادت کے لیے آیا۔ وہ سات جگہ سے علاج کی خاطر داغ دیے گئے تھے۔ میں نے انہیں کہتے سنا کہ اگر مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ موت کی تمنا کرے تو مَیں اس کی تمنا کرتا یعنی اتنی تکلیف میں تھے۔ ان کا کفن لایا گیا جو قَبَاطی کپڑے کا تھا۔ باریک کپڑا جو مصر میں تیار ہوتا تھا تو وہ رونے لگے۔ پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ کو ایک چادر کا کفن دیا گیا جو ان کے پاس پاؤں پر کھینچی جاتی تو سر کی جانب سے سکڑ جاتی اور جب سر کی طرف کھینچی جاتی تو پاؤں کی طرف سے سکڑ جاتی یہاں تک کہ ان پر اذخر گھاس ڈالی گئی۔ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ میں ایک دینار کا مالک تھا نہ ایک درہم کا۔ یعنی کچھ بھی میرے پاس نہیں تھا نہ دینار تھا نہ درہم تھا۔ ایک دینار بھی نہیں تھا اور اب کیا حال ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اب میرے مکان کے کونے میں صندوق میں پورے چالیس ہزار درہم ہیں اور مَیں ڈرتا ہوں کہ ہماری طیّب چیزیں ہمیں اس زندگی میں نہ دے دی گئی ہوں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 123 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (لغات الحدیث جلد3 صفحہ484 علی آصف پرنٹرز لاہور 2005ء)
حضرت خَبَّابؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی رضا چاہتے تھے اور ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا۔ ہم میں سے ایسے بھی تھے جو وفات پا گئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہیں کھایا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ہیں۔ اور ہم میں سے ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک گیا اور وہ اس پھل کو چن رہے ہیں۔ حضرت مصعبؓ احد کے دن شہید ہوئے تھے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی تھی کہ جس سے ہم ان کو کفناتے۔ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں نکل جاتے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر نکل جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر اِذْخَر گھاس ڈال دیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا لم یجد کفنا الا ما یواری رأسہ حدیث 1276)
زَید بن وَھْب نے بیان کیا کہ ہم حضرت علیؓ کے ساتھ آ رہے تھے جب وہ جنگ کے بعد صفین سے لَوٹ رہے تھے یہاں تک کہ جب آپؓ کوفہ کے دروازے پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے داہنی طرف سات قبریں ہیں۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ یہ قبریں کیسی ہیں۔ لوگوں نے کہاکہ اے امیر المومنین! آپؓ کے صفین کے لیے نکلنے کے بعد خَبَّابؓ کی وفات ہو گئی۔ انہوں نے وصیت کی کہ کوفہ سے باہر دفن کیا جائے۔ وہاں لوگوں کا دستور تھا کہ اپنے مُردوں کو اپنے صحنوں میں اور اپنے گھروں کے دروازوں کے ساتھ دفن کیا کرتے تھے مگر جب انہوں نے حضرت خَبَّابؓ کو دیکھا کہ انہوں نے باہر دفن کرنے کی وصیت کی تو لوگ بھی دفن کرنے لگے۔ حضرت علیؓ نے کہا اللہ خَبَّاب پر رحم کرے! وہ اپنی خوشی سے اسلام لائے۔ اور انہوں نے اطاعت کرتے ہوئے ہجرت کی۔ اور ایک مجاہد کے طور پر زندگی گزاری۔ اور جسمانی طور پر وہ آزمائے گئے۔ اور جو شخص نیک کام کرے اللہ اس کا اجر ضائع نہیں کرتا یعنی ان کی جسمانی تکلیفیں بیماریاں بہت لمبی چلیں۔ پھر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اور جو شخص نیک کام کرے اللہ اس کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ حضرت علیؓ ان قبروں کے نزدیک گئے اور کہااے رہنے والو جو مومن اور مسلمان ہوتم پر سلامتی ہو۔ تم آگے جا کر ہمارے لیے سامان کرنے والے ہو اور ہم تمہارے پیچھے پیچھے عنقریب تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں اور انہیں بخش دے اور اپنے عفو کے ذریعہ ہم سے اور ان سے درگزر کر۔ خوشخبری ہو اس شخص کو جو آخرت کو یاد کرے اور حساب کے لیے عمل کرے اور جو اس کی ضرورت کو پوری کرنے والی چیزہو وہ اس پر قناعت کرے اور اللہ عزوجل کو راضی رکھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ 149 خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) حضرت علیؓ نے وہاں یہ دعا کی۔
حضرت خَبَّابؓ کی وفات 37؍ ہجری میں 73؍ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 124خَبَّاب بن الارت دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)