حضرت خَلَّادْ بِن عَمرو بِن جَمُوحْ ؓ
حضرت خَلَّادْ بِن عَمرو بِن جَمُوحْ انصاری صحابی تھے اور بدری صحابہ میں شامل تھے۔ آپ اپنے والد حضرت عَمرو بن جَموح اور بھائیوں حضرت مُعَاذؓ، حضرت ابو ایمنؓ، اور حضرت مُعَوَّذؓ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ حضرت ابوایمن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے بھائی نہیں تھے بلکہ آپ کے والد حضرت عَمرو بن جَموح کے آزاد کردہ غلام تھے۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 184 خَلَّادْ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
جنگ بدر کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر ایک جگہ سُقْیَاکے پاس قیام کیا۔ حضرت عبداللہ بن قَتَادَۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُقْیَا،مدینہ سے باہر ایک جگہ تھی جہاں کنواں بھی تھا ایک، اس کے قریب نماز ادا کی اور اہل مدینہ کے لئے دعا کی۔ حضرت عَدِیّ بنِ اَبیِ الزَّغْبَاء اور بَسْبَسْ بِن عَمْرو اسی جگہ اس قیام کے دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کا اس جگہ قیام کرنا اور اصحاب کا جائزہ لینا بہت اچھا ہے اور ہم اسے نیک فال سمجھتے ہیں کیونکہ جب ہمارے یعنی بنو سلمہ اور اہل حُسَیْکَہ کے درمیان معرکہ ہوا تھا تو ہم نے یہیں پڑاؤ ڈالا تھا۔ اسلام سے پہلے کی پرانی بات بیان کررہے ہیں ۔ مدینہ کے نواح میں ذُبَاب نامی ایک پہاڑ ہے حُسَیْکَہ اس پہاڑکے پاس ہی مقام تھا جہاں بڑی تعداد میں یہود آباد تھے۔ اسی مقام پر کہتے ہیں کہ ہم نے بھی اپنے اصحاب کی حاضری اور جائزہ لیا تھا اور جو لوگ جنگ کی طاقت رکھتے تھے ان کو اجازت دی تھی اور جو ہتھیار اٹھانے کے قابل نہ تھے ان کو واپس بھیج دیا تھا اور پھر ہم نے حُسَیْکَہ کے یہود کی طرف پیش قدمی تھی۔ اس وقت حُسَیْکَہ کے یہود سب یہود پر غالب تھے پس ہم نے انہیں جس طرح چاہا قتل کیا۔ ان کی آپس میں بڑی جنگ ہوئی۔ ا س لئے انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے امید ہے کہ جب ہم لوگ قریش کے مقابل ہوں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ آپؐ کی آنکھوں کو ان سے ٹھنڈک عطا کرے گا یعنی آپؐ کو بھی فتح حاصل ہو گی جس طرح پرانے زمانے میں ہمیں ہو چکی ہے۔
حضرت خَلَّادْ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب دن چڑھا تو میں خُرْبیٰ میں اپنے اہل کے پاس گیا۔ خُرْبیٰ اس محلے کا نام ہے جہاں بنو َسلَمہ کے گھر تھے۔ کہتے ہیں میرے والد حضرت عَمرِو بِن جَمُوح نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ تم لوگ جا چکے ہو۔ پہلی روایت جو بیان ہوئی تھی اس میں یہ لکھا تھا کہ والد عَمرِو بِن جَمُوح کے ہمراہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے لیکن اس روایت سے اور بعد کی روایتوں سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ والد شامل نہیں تھے۔ میں نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سُقْیَا کے میدان میں لوگوں کا جائزہ اور گنتی کروا رہے ہیں ۔ تب حضرت عمروؓ نے کہا کہ کیا ہی نیک فال ہے۔ واللہ! میں امید رکھتا ہوں کہ تم غنیمت حاصل کرو گے اور مشرکین قریش پر کامیابی حاصل کرو گے۔ جس روز ہم نے حُسَیْکَہ کی طرف پیش قدمی کی تھی ہم نے بھی یہیں پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس پرانی بات کی یہ بھی تصدیق کر رہے ہیں جو پہلے روایت میں آ گئی ہےکہ یہودیوں کی آپس میں لڑائی ہوئی تھی۔
حضرت خَلَّادْ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حُسَیْکَہ کا نام بدل کر سُقْیَا رکھ دیا۔ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں اس جگہ کو سُقْیَا کو خرید لوں ۔ لیکن مجھ سے پہلے ہی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اسے دو اونٹوں کے عوض خرید لیا اور بعض کے مطابق سات اَوْقِیَہ یعنی دو سو اسّی درہم کے عوض خریدا تھا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا رَبِحَ الْبَیْعُ یعنی اس کا سودا بہت ہی نفع مند ہے۔ (کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 37-38 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 258 ’’سقیا‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )(وفاء الوفاء جلد 3 صفحہ 1200’’خربی‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1984ء) (لغات الحدیث جلد اوّل صفحہ 82 ’’اوقیہ‘‘ مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور 2005ء)
حضرت خَلَّادْ کے والد حضرت عَمرِو بِن جَمُوح بدرمیں شامل نہیں ہوئے تھے۔ خَلَّادْ اور آپ کے والد حضرت عَمرِو بِن جَمُوح اور حضرت ابوایمن تینوں غزوۂ اُحُد میں شامل ہوئے تھے اور ان تینوں نے جام شہادت بھی نوش کیا۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 226 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر مناقب عمرو بن الجموحؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)یعنی خود بھی اور بھائی بھی اور والد بھی یہ تینوں جنگ اُحُد میں شامل ہوئے تھے۔ والد ان کے جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ان کی شامل ہونے کی خواہش تھی لیکن ان کی ٹانگ کی مجبوری کی وجہ سے، ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی۔ صحیح نہیں تھے، معذور تھے۔ اس لئے ان کو بدر میں ان کے بیٹوں نے شامل ہونے سے روک دیا تھا۔
حضرت خَلَّادْؓ کے والد حضرت عمرو بن جموحؓ کے بارے میں آتا ہے کہ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تحریک فرمائی تو عمرو کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے ان کے بیٹوں نے انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی معذوروں کو جنگ سے رخصت دی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے بیٹوں نے بھی انہیں روک دیا تھا کہ ہم چار لڑکے لڑنے جا رہے ہیں تو پھر آپ کو کیا ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو رخصت ہے۔ اور پھر یہ باوجود خواہش کے بیٹوں کے کہنے پر جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ لیکن جب اُحُد کا موقع آیا تو عمرو اپنے بیٹوں کو کہنے لگے کہ تم لوگوں نے مجھے بدر میں بھی شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ اُحُد کا موقع آیا ہے تو مجھے روک نہیں سکتے۔ میں لازماً جاؤں گا اور اُحُد میں شریک ہوں گا۔ بہرحال انہوں نے کہا اب تم مجھے روک نہیں سکتے اور میں لازماً اس میں شامل ہوں گا۔ پھر اولاد نے ان کو اُن کی معذوری کے حوالے سے روکنا چاہا تو یہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میں خود ہی حضور سے اجازت لے لوں گا۔ چنانچہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے اس دفعہ پھر مجھے جہاد سے روکنا چاہتے ہیں ۔ پہلے بدر میں روکا تھا۔ اب اُحُد میں بھی جانے نہیں دیتے۔ میں آپؐ کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں ۔ پھر انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دلی مراد قبول کرے گا اور مجھے شہادت عطا فرمائے گا اور میں اپنے اسی لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! بیشک اللہ تعالیٰ کو آپ کی معذوری قبول ہے اور جہاد آپ پہ فرض نہیں ہے لیکن ان کے بیٹوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ ان کو نیک کام سے نہ روکو۔ ان کی دلی تمنا اگر ایسی ہے تو پھر اسے پورا کرنے دو شاید اللہ تعالیٰ انہیں شہادت عطا فرما دے۔ چنانچہ حضرت عمرو نے اپنے ہتھیار لئے اور یہ دعا کرتے ہوئے میدان اُحُد کی طرف روانہ ہوئے کہ۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَھَادَۃَ وَلَا تَرُدَّنِیْ اِلٰی اَھْلِیْ خَائِبًا۔ کہ اے اللہ! مجھے شہادت عطا کرنا اور مجھے اپنے گھر کی طرف ناکام و نامراد واپس لے کر نہ آنا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا کو قبول کیا اور انہوں نے وہاں جام شہادت نوش کیا۔(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 195-196 خَلَّادْ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت خَلَّادْ کی والدہ حضرت ہند بنتِ عَمرو (اُن کے والد کا نام بھی عمرو تھا اور خاوند کا نام بھی) حضرت جابر بن عبداللہ کی پھوپھی تھیں ۔ غزوۂ اُحُد میں حضرت ہِند نے اپنے خاوند، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کو شہادت کے بعد اونٹ پر لادا۔ پھر جب ان کے متعلق حکم ہوا تو انہیں واپس اُحُد لوٹایا گیا اور وہ وہیں اُحُد میں دفن کئے گئے۔(اصابہ جلد 2 صفحہ 287 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
جب پتہ لگا ہے کہ شہید ہو گئے ہیں تو یہ تینوں کو پہلے مدینہ لانے کے لئے لے کر آئی تھیں ، لیکن پھر واپس لے گئیں اور اس کی تفصیل بھی آگے بیان ہوئی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُحُد کے یہ شہداء اُحُد میں ہی دفن ہوں ۔ اس واقعہ کی تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ حضرت عائشہؓ غزوۂ اُحُد کے بارہ میں خبر لینے کے لئے مدینہ کی عورتوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں ۔ اس وقت تک پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ جب آپؓ، (حضرت عائشہ) حرّہ کے مقام تک پہنچیں تو آپ کی ملاقات ہند بنت عمرو سے ہوئی جو کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی ہمشیرہ تھیں ۔ حضرت ہند اپنی اونٹنی کو ہانک رہی تھیں ۔ اس اونٹنی پر آپ کے شوہر حضرت عَمرو بن جَموح، بیٹے حضرت خَلَّادْ بن عمرو اور بھائی حضرت عبداللہ بن عمرو کی نعشیں تھیں ۔ جب حضرت عائشہؓ نے میدان جنگ کی خبر لینے کی کوشش کی تو حضرت عائشہؓ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ تم پیچھے لوگوں کو کس حال میں چھوڑ آئی ہو؟ اس پر حضرت ہند نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے، جب آپؐ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات نہیں ۔ اس کے بعد حضرت ہند نے یہ آیت پڑھی۔وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا۔وَ کَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ۔ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا (الاحزاب:26) یعنی اور اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے غیض سمیت اس طرح لوٹا دیا کہ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکے اور اللہ مومنوں کے حق میں قتال میں کافی ہو گیا اور اللہ بہت قوی اور کامل غلبہ والا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ اونٹنی پر کون کون ہیں ؟ تب حضرت ہند نے بتایا کہ میرا بھائی ہے، میرا بیٹا خَلَّادْ ہے اور میرے شوہر عَمرِو بِن جَمُوح ہیں ۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ تم انہیں کہاں لئے جاتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لئے لے جا رہی ہوں ۔ پھر وہ اپنے اونٹ کو ہانکنے لگیں تو اونٹ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اس پر وزن زیادہ ہے۔ جس پر حضرت ہند کہنے لگیں کہ یہ تو دو اونٹوں جتناوزن اٹھا لیتا ہے لیکن اس وقت یہ اس کے بالکل الٹ کر رہا ہے۔ پھر انہوں نے اونٹ کو ڈانٹا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ جب انہوں نے اس کا رخ مدینہ کی طرف کیا تو وہ پھر بیٹھ گیا۔ پھر جب انہوں نے اس کا رخ اُحُد کی طرف پھیرا تو اونٹ جلدی جلدی چلنے لگا۔ پھر حضرت ہند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹ مامور کیا گیا ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ یہ مدینہ کی طرف نہ جائے بلکہ اُحُد کی طرف ہی رہے۔ فرمایا کہ کیا تمہارے شوہر نے جنگ پہ جانے سے پہلے کچھ کہا تھا؟ کہنے لگیں جب عَمرو اُحُد کی جانب روانہ ہونے لگے تھے تو انہوں نے قبلہ رُخ ہو کر یہ کہا تھا کہ اے اللہ! مجھے میرے اہل کی طرف شرمندہ کر کے نہ لوٹانا اور مجھے شہادت نصیب کرنا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے اونٹ نہیں چل رہا تھا۔ فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! تم میں سے بعض ایسے نیکو کار لوگ ہیں کہ اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا تعالیٰ ان کی وہ بات ضرور پوری کرتا ہے اور عَمرِو بِن جَمُوح بھی ان میں سے ایک ہیں ۔ پھر آپ نے عَمرِو بِن جَمُوح کی بیوی کو فرمایا کہ اے ہند! جس وقت سے تیرا بھائی شہید ہوا ہے اس وقت سے فرشتے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ اسے کہاں دفن کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان شہداء کی تدفین تک وہیں رکے رہے۔ پھر فرمایا اے ہند! عمرو بن جَموح، تیرا بیٹا خَلَّادْ اور تیرا بھائی عبداللہ جنت میں باہم دوست ہیں ۔ اس پر ہند نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی رفاقت میں پہنچا دے۔ (کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 232-233 غزوہ اُحُد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)