حضرت خَوَّاتُ بْنُ جُبَیْر انصاریؓ
حضرت خَوَّاتُ بْنُ جُبَیْر انصاری کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو صالح بھی تھی۔ حضرت خَوَّات ؓ کا تعلق بنو ثَعْلَبَہ سے تھا اور حضرت خَوَّات بن جُبَیْر حضرت عبداللّٰہ بْن جُبَیْر کے بھائی تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد میں درّے کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کے ساتھ مقرر فرمایا تھا،یعنی ان کے بھائی کو (مقرر فرمایا)۔ حضرت خَوَّاتؓدرمیانے قد کے تھے۔ آپؓ نے چالیس ہجری میں 74 برس کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی۔ ایک روایت کے مطابق وفات کے وقت آپؓ کی عمر 94 سال تھی۔ آپؓ مہندی اور وسمہ کا خضاب لگایا کرتے تھے۔ حضرت خَوَّاتُ ؓبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے لیکن راستے میں ایک پتھر کی نوک لگنے سے آپؓ زخمی ہو گئے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو واپس مدینہ بھجوا دیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت اور اجر میں شامل فرمایا۔ گویا آپؓ ان لوگوں کی طرح ہی تھے جو غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ آپؓ غزوۂ احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔
حضرت خَوَّاتُ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مقام مَرَّ الظَّھْرَان میں پڑاؤ کیا۔ کہتے ہیں کہ میں اپنے خیمے سے نکلا تو کچھ عورتیں باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر دلچسپی پیدا ہوئی۔ پس میں واپس گیا اور ایک جُبَّہ پہن کر ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اپنے آپ کو چھپا لیا اور عورتوں کی باتیں سننے کے لئے وہاں بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ڈر گیا اور آپؐ سے کہا کہ میرا اونٹ بھاگ نکلا ہے میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں کھڑا ہو گیا اور فوری طور پہ عرض کیا۔ آپؐ چل پڑے۔ آگے چلے گئے۔ میں بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ آپؐ نے اپنی چادر مجھے پکڑائی جو اوڑھی ہوئی تھی اور جھاڑیوں میں چلے گئے اور رفع حاجت کے بعد آپؐ نے وضو کیا اور واپس آئے۔ آپؐ کی داڑھی سے پانی کے قطرے آپؐ کے سینے پر گر رہے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ مزاح مجھ سے پوچھا کہ اے ابوعبداللہ!اس اونٹ نے کیا کیا؟ اب اونٹ تو کوئی نہیں گُما تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہو گیا تھا کہ ویسے ہی یہ باتیں سننے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ چیز اچھی نہیں ہے۔ بہرحال کہتے ہیں۔ پھر ہم روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد جب بھی آپؐ مجھے ملتے، سلام کرتے اور پوچھتے کہ ابوعبداللہ اس اونٹ نے کیا کیا؟ جب اس طرح بار بار ہونا شروع ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حوالے سے مزاح کے طور پہ مجھے چھیڑتے تھے تو میں مدینہ میں چھپ کر رہنے لگا اور مسجد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے الگ رہنے لگا۔ جب اس بات کو کچھ عرصہ گزر گیا تو مسجد گیا اور نماز کے لئے کھڑا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے حجرے سے باہر تشریف لے آئے۔ آپؐ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ میں اس امید پر نماز لمبی کرتا گیا کہ آپؐ تشریف لے جائیں اور مجھے چھوڑ دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوعبداللہ! جتنی مرضی نماز لمبی کر لو۔ مَیں یہیں ہوں۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کر کے آپؐ کا دل اپنے بارے میں صاف کر دوں گا۔ جب مَیں نے سلام پھیرا تو آپؐ نے فرمایا کہ ابو عبداللہ ! تم پر سلامتی ہو۔ اس اونٹ کے بھاگ جانے کا کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے وہ اونٹ نہیں بھاگا۔ آپؐ نے تین بار فرمایا کہ اللہ تم پر رحم کرے۔ پھر اس کے بعد آپؐ نے کبھی مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 362 تا 364 عبد اللہ بن جبیر،خوات بن جبیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 190 خوات بن جبیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) گویا ایک تو اس بات سے کہ مجھ سے نہ چھپاؤ مجھے پتہ ہے اصل قصہ کیا ہے۔ دوسرے اس طرح بیٹھ کے بلا وجہ لوگوں کی مجلس میں ان کی باتیں سننا جو ہے وہ غلط چیز ہے۔
حضرت خَوَّات ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی۔ جب میں شفا یاب ہو گیا تو آپؐ نے فرمایا۔ اے خَوَّات! تمہارا جسم تندرست ہو گیا ہے۔ پس جو تم نے اللہ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کرو۔ میں نے عرض کیا۔ میں نے اللہ سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کوئی بھی مریض ایسا نہیں کہ جب وہ بیمار ہوتا ہے تو کوئی نذر نہیں مانتا یا نیت نہیں کرتا۔ ضرور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے تندرست کر دے تو میں یہ کروں گا، وہ کروں گا۔ پس اللہ سے کیا ہوا وعدہ وفا کرو۔ جو بھی تم نے بات کہی ہے اسے پورا کرو۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 467 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر مناقب خوات بن جبیر الانصاری حدیث 5750 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) پس یہ ایسی بات ہے جو ہم سب کے لئے قابل غور اور قابل توجہ ہے۔
غزوۂ خندق کے موقع پر جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو قریظہ کی عہد شکنی کی اطلاع ملی تو آپؐ نے ایک وفد ان کی طرف بھیجا۔ اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے وہ واقعہ اس طرح ہے کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بنو قریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا تو آپؐ نے پہلے تو دو تین دفعہ خفیہ خفیہ زُبیر بن العوامؓ کو دریافت حالات کے لئے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے رئیس سعد بن مُعَاذؓ اور سعد بن عُبَادہؓ اور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آ کر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تا کہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنوقریظہ کے مساکن میں پہنچے۔‘‘ جہاں ان کی رہائش تھی، گھر تھے ’’اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدَیْن‘‘ یعنی سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ ’’کی طرف سے معاہدہ کا ذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ ’’جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘ یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے اطلاع دی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 584-585)
یہ بھی ہے کہ صحابہ کی اس صحبت میں حضرت خَوَّاتُ بن جبیر ؓبھی شامل تھے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 456 باب غزوۃ الخندق فی سنۃ خمس مطبوعہ دار ابن حزم 2009ء)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خَوَّاتؓ کو اپنے گھوڑے پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور اس گھوڑے کا نام جَنَاح تھا۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 466 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر مناقب خوات بن جبیر الانصاری حدیث 5747 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت خواتؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت عمرؓ کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے۔ اس قافلے میں ہمارے ساتھ حضرت ابو عُبَیدہ بن جَرَّاحؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی تھے۔ لوگوں نے کہا کہ ہمیں ضِرَار، (ضِرَار بن خَطَّاب قریش کا ایک شاعر تھا جو فتح مکہ پر ایمان لائے تھے) کے اشعار سناؤ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ابوعبداللہ یعنی خَوَّات کو اپنے اشعار سنانے دو۔ اس پر میں انہیں اشعار سنانے لگا یہاں تک کہ سحر ہو گئی۔ تب حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بس کر دو کہ اب وقت سحر ہے۔ (الاصابہ جلد 2صفحہ 292 خوات بن جبیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)(الطبقات الکبریٰ جلد 6صفحہ 10 ضرار بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)