حضرت خُبَیب بن اِسَافؓ
حضرت خُبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو جُشَم سے تھا اور حضرت خُبیبؓ کا نام ایک دوسرے قول کے مطابق حَبِیب بن یَسَاف بھی بیان ہوا ہے۔ ان کے والد کا نام اِساف ہے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق یَسَافْ بھی بیان ہوا ہے۔ اسی طرح ان کے دادا کا نام عِتَبَہ کے علاوہ عِنَبَہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ467، الانصار و من معھم/ من بنی جشم، دارالکتب العلمیۃ 2001ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ275 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف، داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 683 حبیب بن یساف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت خُبَیبؓ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت ِمسعود تھا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بیٹا ابو کثیر تھا جس کا نام عبداللہ تھا جو جمیلہ بنت عبداللہ بن أُبَی بن سَلُول کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن تھا جو ام وَلَد کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ ایک بیٹی اُنَیسہ تھی جو زینب بنت قیس کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت خُبیبؓ نے ان کی بیوہ یعنی حضرت ابوبکرؓ کی بیوہ حَبِیبہ بنتِ خارجہسے شادی کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ275-276 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 3 صفحہ 153 خُبیب بن اساف دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
حضرت خُبیب بے شک ہجرتِ مدینہ کے وقت مسلمان نہ تھے لیکن پھر بھی انہیں ہجرتِ مدینہ کے وقت مہاجرین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ مسلمان نہیں تھے لیکن انہوں نے بڑی میزبانی کی، مہمان نوازی کی۔ حضرت طلحہ بن عبداللہؓ اور حضرت صُہَیب بن سِنانؓ ان کے گھر ٹھہرے۔ البتہ ایک دوسرے قول کے مطابق حضرت طلحہ، حضرت اَسْعَد بن زُرَارہ کے گھر ٹھہرے تھے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ338، منزل طلحہ و صھیب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ایک روایت کے مطابق انہوں نے حضرت خُبَیب کے ہاں قبا میں سُنْح کے مقام پر قیام کیا تھا۔ یہ سُنح ایک جگہ کا نام ہے جو مدینے کے اطراف بلند دیہات میں ہے۔ جہاں بنی حارث بن خزرج کے لوگ رہا کرتے تھے اس کو کہتے ہیں۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ حضرت خَارِجَہ بن زیدؓ کے گھر ٹھہرے تھے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ348، منزل ابی بکر بقباء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء۔ لُغات الحدیث جلد2 صفحہ 373‘‘ سنح ’’)
غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ276 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف، داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
ایک روایت کے مطابق خُبَیبؓ کا مدینے میں پڑاؤ تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہو گئے۔ تب یہ راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور اسلام قبول کیا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ المجلد الثالث صفحہ 152 خُبیب بن اساف دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
صحیح مسلم میں حضرت خُبَیبؓ کے اسلام قبول کرنے کا ذکر یوں ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے یہ روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے۔ جب آپؐ حرَّۃُ الْوَبَرَۃ جو مدینے سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں پہنچے تو آپؐ کو ایک شخص ملا جس کی جرأت اور بہادری کا ذکر کیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جب اسے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ جب وہ آپؐ سے ملا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپؐ کے ساتھ جانے اور آپؐ کے ساتھ مالِ غنیمت میں حصہ پانے کے لیے آیا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ میں ایمان نہیں لاتا۔ مسلمان نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ واپس چلے جاؤ کیونکہ میں کسی مشرک سے مددنہیں لوں گا۔ وہ فرماتی ہیں کہ وہ چلا گیا یہاں تک کہ پھر جب آپؐ شجرة پہنچے جو ذوالحلیفہ، یہ مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلے پر مقام ہے اور شجرة اس کے پاس ہی ایک مقام ہے۔ بہرحال وہاں جب پہنچے تو وہ شخص پھر آپؐ کو ملا اور پھر ویسا ہی کہا جیسا پہلی مرتبہ کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ویسے ہی فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَوٹ جاؤ۔ مَیں کسی مشرک سے مددنہیں لوں گا۔ پھر وہ لوٹا اور آپ کو بَیدَاء جو ہے (ذُوالْحُلَیْفَہ، مدینہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک اَور مقام ہے۔ شجرة اس کے پاس ہی ایک مقام ہے اور بَیدَاءمقام بھی ادھر ہی ہے۔ یہ دونوں جگہ قریب قریب ہیں بہرحال) پھر وہاں ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا کہ مشرک سے ہم مددنہیں لیں گے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ چلو اب تم میرے ساتھ جا سکتے ہو۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب کراھۃ الاستعانۃ فی الغزو بکافر …… الخ حدیث (1817))(معجم البلدان جلد3 صفحہ 142۔ اکمال المعلم بفوائد المسلم جزء 4 صفحہ 181 کتاب الحج باب امر اھل المدینہ …… دارالوفاء 1998ء)
اس روایت کی شرح میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس شخص کے اسلام قبول کرنے کا ذکر اس روایت میں کیا گیا ہے وہ حضرت خُبیبؓ تھے۔ (البحر المحیط الثجاج فی شرح صحیح الامام مسلم بن الحجاج جلد 31 صفحہ 620 مطبوعہ دار ابن الجوزی ریاض 1434ہجری)
حضرت خُبیب بن اِسافؓ کے اسلام قبول کرنے اور غزوۂ بدر میں شرکت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نور الدین حلبی اپنی کتاب سیرةِ حلبیہ میں بیان کرتے ہیں کہ
مدینے میں حَبِیب بن یَسَافؓ نامی ایک طاقت ور اور بہادر شخص تھا۔ یہ حضرت خُبیب بن اِسَافؓ کا دوسرا نام ہے جو سیرت کی کتب میں لکھا ہوا ہے۔ بہرحال یہ شخص قبیلہ خزرج کا تھا۔ غزوۂ بدر تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ بھی اپنی قوم خزرج کے ساتھ جنگ جیتنے کی صورت میں مالِ غنیمت ملنے کی امید میں جنگ کے لیے روانہ ہوا۔ مسلمان اس کے ساتھ نکلنے پر بہت خوش ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی جنگ میں جائے گا جو ہمارے دین پر ہے۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس جاؤ ہم مشرک کی مددنہیں لینا چاہتے۔ حَبِیب کو یا خُبیب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ واپس لوٹا دیا تھا۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا تُو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے؟ اس نے کہا ہاں اور اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس نے نہایت بہادری کے ساتھ زبردست جنگ کی۔ (السیرة الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ204 باب ذکر مغازیہﷺ / غزوةبدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
مسند احمد بن حنبل میں حضرت خُبیبؓ اپنے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کی تفصیلات یوں بیان کرتے ہیں کہ
میں اور میری قوم کا ایک اَور آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوے کی تیاری فرما رہے تھے اور ہم نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ہم نے عرض کیا کہ یقیناً ہمیں شرم آتی ہے کہ ہماری قوم تو جنگ کے لیے جا رہی ہو اور ہم اس میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ہم نے عرض کیا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً ہم مشرکوں کے خلاف مشرکوں کی مددنہیں چاہیں گے۔ مشرکوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے ہم مشرکوں سے ہی مدد لیں۔ وہ کہتے ہیں یعنی حضرت خُبیبؓ کہتے ہیں کہ اس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس غزوے میں شامل ہوئے۔ میں نے اس جنگ میں ایک شخص کو قتل کیا اور اس نے بھی مجھے چوٹ پہنچائی۔ پھر اس کے بعد جب میں نے اس مقتول شخص کی بیٹی سے شادی کر لی تو وہ کہا کرتی تھی کہ تم اس آدمی کو بھلا نہ سکو گے جس نے تمہیں یہ زخم لگایا ہے۔ اس پر میں کہتا تھا کہ تم بھی اس آدمی کو بھلا نہ پاؤ گی جس نے تمہارے باپ کو جلد آگ میں پہنچایا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ411، حدیث 15855 جدّ خُبیب، عالم الکتب بیروت-لبنان1998ء)
غزوۂ بدر میں حضرت خُبیب بن اِسافؓ نے قریشِ مکہ کے سردار اُمَیّہ بن خلف کو قتل کیا تھا جس کا اختصار کے ساتھ مقتول کے نام کا تذکرہ کیے بغیر مسند احمد بن حنبل کی روایت میں تذکرہ ہوا ہے شادی والا واقعہ جو ہے۔
اس واقعہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے علامہ نور الدین حلبی اپنی کتاب‘سیرة حلبیہ ’میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ میدانِ بدر میں مجھے اُمَیّہ بن خلف ملا۔ وہ جاہلیت کے زمانے میں میرا دوست تھا۔ امیہ کے ساتھ اس کا بیٹا علی بھی تھا جس نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ یہ علی ان مسلمانوں میں سے تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے۔ اس وقت ان کے رشتے داروں نے انہیں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ اسلام قبول کیا تھا اور پھر اسلام سے پِھر گئے اور پھر یہ لوگ کفر کی حالت میں مر گئے۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلَائِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْأَرْضِ (النساء: 98) یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ تم کس حال میں رہے؟ وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہم تو وطن میں بہت کم زور بنا دیے گئے تھے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں میں حَارِث بن رَبِیعہ، ابو قیس بن فَاکِہ، ابو قیس بن ولید، عاص بن مُنَبِّہ اور علی بن امیہ تھے۔ علامہ نورالدین حلبی لکھتے ہیں کہ کتاب سیرت ہِشَامِیَہ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّے میں تھے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو ان لوگوں کو ان کے آباء اور رشتے داروں نے مکّے میں ہی روک لیا اور انہیں آزمائش میں ڈالا جس کے نتیجے میں یہ لوگ فتنے میں پڑ گئے اور اسلام سے پِھر گئے، اسلام چھوڑ دیا۔ پھر وہ غزوۂ بدر کے وقت اپنی قوم کے ساتھ نکلے اور یہ سب وہاں قتل ہوئے۔ اس سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے اپنے دین سے نہیں پھرے تھے جبکہ پہلی روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکّے سے ہجرت کرنے سے قبل کفر کی طرف لوٹ چکے تھے۔
بہرحال حضرت عبدالرحمٰنؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس کئی زرہیں تھیں جنہیں میں نے اٹھایا ہوا تھا۔ اس وقت جنگ کا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ جب امیہ نے مجھے دیکھا تو مجھے میرے جاہلیت کے نام سے اے عبد عمرو! کہہ کر پکارا۔ میں نے اس کا جواب نہیں دیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرا نام عبدالرحمٰن رکھا تھا تو فرمایا تھا کہ کیا تم اس نام کو چھوڑنا پسند کرو گے جو تمہارے باپ دادا نے رکھا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! تو امیہ نے کہا کہ میں تو رحمان کو نہیں جانتا۔ جب امیہ نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ جب دوبارہ عبدالرحمٰن کہا تو پھر میں نے جواب دیا۔ بہرحال بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جب امیہ نے انہیں ان کے پرانے نام سے پکارا تھا تو وہ سمجھ تو گئے تھے کہ اس کے مخاطب وہی ہیں مگر انہوں نے اس پکار پر اس لیے جواب نہیں دیا کہ پکارنے والے نے ان کو ایک بُت کا بندہ کہہ کر پکارا تھا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی بڑی حد تک امکان ہے کہ وہ سمجھے ہی نہ ہوں کہ کس کو پکارا گیا ہے کیونکہ وہ نام چھوڑے ہوئے کافی عرصہ ان کو ہو گیا تھا۔ پھر جب امیہ نے انہیں ان کے موجودہ نام سے پکارا تو وہ سمجھ گئے کہ وہی مراد ہیں اور وہ جواب دے کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ تب امیہ نے ان سے کہا کہ اگر تم پر میرا کوئی حق ہے تو میں تمہارے لیے ان زرہوں سے بہتر ہوں جو تیرے پاس ہیں۔ پرانی دوستی تھی، دوستی کا حوالہ دیا۔ کیونکہ اس وقت ایسی حالت تھی کہ ان کو شکست تو ہو چکی تھی تو بچاؤ کی صورت یہ کہا کہ یہ حق ہے تو میں بہتر ہوں ان زرہوں سے کہ میرے لیے تم انتظام کرو۔ میں نے انہیں کہا ٹھیک ہے۔ پھر میں نے زرہیں نیچے رکھ کر امیہ اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ امیہ کہنے لگے کہ میں نے زندگی بھر کبھی ایسا دن نہیں دیکھا جو آج بدر کے دن گزرا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ تم میں وہ شخص کون ہے جس کے سینے پر زرہ میں شتر مرغ کا پَر لگا ہوا ہے۔ میں نے کہا حمزہ بن عبدالمطلبؓ۔ تو امیہ نے کہا کہ یہ سارا کیا دھرا اسی کا ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوئی ہے۔ بہرحال اس کے اپنے اندازے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ بات امیہ کے بیٹے نے کہی تھی۔ بہرحال حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مَیں ان دونوں کو لے کر چل رہا تھا۔ ہاتھ پکڑ لیا چل پڑا کہ اچانک حضرت بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا۔ مکّے میں امیہ حضرت بلالؓ کو اسلام سے پھیرنے کے لیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا۔ حضرت بلال امیہ کو دیکھتے ہی بولے کہ کافروں کا سردار اُمَیّہ بن خلف یہاں ہے۔ اگر یہ بچ گیا تو سمجھو مَیں نہیں بچا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا تم میرے قیدیوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو؟ حضرت بلال نے بار بار یہی کہا کہ اگر یہ بچ گیا تو میں نہیں بچا اور میں بھی ہر بار ایسا ہی کہتا، بار بار اس کو یہی جواب دیتا رہا۔ پھر حضرت بلالؓ بلند آواز سے چلّائے کہ اے اللہ کے انصار!یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے۔ بڑی زور سے انہوں نے پکارا کہ اے اللہ کے انصار! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا اور بار بار ایسا کہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری دوڑ پڑے اور انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پھر حضرت بلالؓ نے تلوار سونت کر اُمَیّہ کے بیٹے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ نیچے گر گیا۔ اُمَیّہ نے اس پر خوف کی وجہ سے ایسی بھیانک چیخ ماری کہ ایسی چیخ مَیں نے کبھی نہیں سنی۔ اس کے بعد انصاریوں نے ان دونوں کو تلواروں کے وار سے کاٹ ڈالا۔ (ماخوذ ازالسیرة الحلبیہ جلد 2 صفحہ232-233 باب ذکر مغازیہﷺ / غزوة بدرالکبریٰ، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
صحیح بخاری میں اُمَیّہ کے قتل کا واقعہ اس طرح مذکور ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُمَیّہ بن خَلْف کو خط لکھا کہ وہ مکّے میں، جو اس وقت دارالحرب تھا، میرے مال اور بال بچوں کی حفاظت کرے اور میں اس کے مال و اسباب کی مدینہ میں حفاظت کروں گا۔ جب میں نے اپنا نام عبدالرحمٰنؓ لکھا تو امیہ نے کہا کہ میں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا۔ تم مجھے اپنا وہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا۔ اس پر میں نے اپنا نام عبد عمرو لکھا۔ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو میں ایک پہاڑی کی طرف نکل گیا جب کہ لوگ سو رہے تھے تا کہ میں اس کی حفاظت کروں یعنی حفاظت کی نیت سے ادھر گئے کہ دشمن کہیں ادھر سے حملہ نہ کرے تو بلال نے اس وقت امیہ کو وہاں کہیں دیکھ لیا۔ چنانچہ وہ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ اُمَیّہ بن خلف ہے۔ اگر بچ نکلا تو میری خیر نہیں ہے۔ اس پر بلال کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے تعاقب میں نکلے۔ میں ڈرا کہ وہ ہمیں پا لیں گے۔ وہاں اس وقت تک لگتا ہے حضرت عبدالرحمٰنؓ کی اور امیہ کی بات ہو گئی تھی تو بہرحال کہتے ہیں مجھے شک ہوا میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں قیدی بناتا ہوں۔ اس لیے میں نے امیہ کے بیٹے کو، دونوں کو پکڑ تو لیا لیکن جب یہ مسلمان حملہ آور حضرت بلالؓ کے ساتھ آئے تو کہتے ہیں میں نے امیہ کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا، وہاں رکھ دیا تا کہ وہ حملہ آور اس کے ساتھ نبرد آزما رہیں۔ اس سے ہی لڑائی کرتے رہیں۔ اس کی لڑائی میں مشغول ہو جائیں اس کے ساتھ اور ہم آگے نکل جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے مار ڈالا۔ امیہ کے بیٹے کو ان لوگوں نے مار ڈالا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا پیچھا کیا اور میر ایہ داؤ کارگر نہ ہونے دیا کہ میں امیہ کو بچا لوں۔ امیہ چونکہ بھاری بھرکم آدمی تھا اس لیے جلدی اِدھر اُدھر نہ ہو سکا آخر جب انہوں نے ہمیں پالیا تو مَیں نے امیہ سے کہا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ ان میں سے ایک نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں پر بھی زخم کر دیا۔ راوی ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہمیں اپنے پاؤں کی پشت پر وہ نشان دکھایا کرتے تھے جو اس وجہ سے ہوا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وکل المسلم حربیافی دارالحرب او فی دارالاسلام جاز حدیث 2301)
امیہ اور اس کے بیٹے کو کس نے قتل کیا؟اس بارے میں مشہور ہے کہ امیہ کو انصار کے قبیلہ بنو مازن کے ایک شخص نے قتل کیا تھاجبکہ ابن ہشام کہتے ہیں کہ امیہ کو حضرت مُعَاذ بنِ عَفْرَاء، خَارِجَہ بن زید اور خُبیب بن اِسَاف نے مل کر قتل کیا تھا۔ جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے یہ بھی ان میں شامل تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلالؓ نے اسے قتل کیا تھا تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ سب صحابہ امیہ کے قتل میں شریک تھے اور امیہ کے بیٹے علی کو حضرت بلالؓ نے حملہ کر کے نیچے گرا دیا تھا۔ بعد میں اسے حضرت عمار بن یاسرؓ نے قتل کیا تھا۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 296 باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
بعض واقعات کی جو تفصیل ہے ان کا براہ ِراست اس صحابی سے تعلق نہیں ہوتا لیکن اس میں تو ذکر ہے بھی لیکن مَیں اس لیے ذکر کر دیتا ہوں تا کہ ہمیں تاریخ کا بھی کچھ علم ہو جائے۔
خُبیب بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا حضرت خُبیبؓ کو غزوۂ بدر کے روز ایک زخم پہنچا تھا جس سے ان کی پسلی ٹوٹ گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور اسے اس کی معین جگہ پر کر کے اس کو صحیح اور درست کر دیا جس کے نتیجے میں حضرت خُبیبؓ چلنے لگے۔
ایک دوسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت خُبیبؓ نے بیان کیا کہ ایک جنگ کے موقعے پر میرے کندھے پر ایک بہت گہرا زخم لگا جو میرے پیٹ تک پہنچ گیا اور اس کے نتیجے میں میرا ہاتھ لٹک گیا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ اپنا لعابِ مبارک لگایا اور اسے ساتھ جوڑ دیا جس کے نتیجے میں وہ بالکل صحیح ہو گیا اور میرا زخم بھی ٹھیک ہو گیا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3صفحہ 152، خُبیْب بن اِساف، دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء) (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر جلد 3جزء6صفحہ166-167، سنہ11ہجری دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
وفات کے متعلق ایک قول کے مطابق یہ ہے کہ حضرت خُبیبؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے قول کے مطابق ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے دور ِخلافت میں ہوئی تھی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 224خُبیْب بن اِساف، دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 276 ومن بنی جشم …… خُبیب بن یساف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)