حضرت خُبَیْب بن عدی انصاریؓ
حضرت خُبَیْب بن عدیؓ انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو جَحْجَبٰی بن عوفسے تعلق رکھتے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جزء1 صفحہ681،‘خُبَیْب بن عدی’دار الفکر 2003ء)
حضرت عمیر بن ابو وقاصؓ نے جب مکّے سے مدینے ہجرت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت خُبَیْب بن عدیؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (عیون الاثر جلد اول صفحہ 232 ذکر المؤاخات، دارالقلم بیروت، 1993ء)
حضرت خُبَیْب بن عدیؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور انہوں نے اس جنگ میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ غزوۂ بدر میں مجاہدین کے اسباب کی نگرانی ان کے سپرد تھی۔ (سیرالصحابہ جلد 3 حصہ چہارم صفحہ 309 ادارۂ اسلامیات لاہور)
حضرت خُبَیْب بن عدیؓ چار ہجری میں واقعۂ رجیع میں شامل تھے۔ حضرت خُبَیْب بن عدیؓ اور حضرت زید بن دَثِنَہؓ کو مشرکین نے قید کر لیا اور انہیں مکہ ساتھ لے گئے اور مکّے پہنچ کر ان دونوں صحابہ کو فروخت کر دیا گیا۔ حارث بن عامر کے بیٹوں نے حضرت خُبَیْبؓ کو خریدا تا کہ وہ اپنے باپ حارث کے قتل کا بدلہ لے سکیں جسے بدر کے روز خُبَیْبؓ نے قتل کیا تھا۔ ابن اسحاق کے مطابق حُجَیْر بن ابو اِھاب تمیمی نے حضرت خُبَیْبؓ کو خریدا تھا جو حارث کی اولاد کا حلیف تھا۔ اس سے حارث کے بیٹے عقبہ نے حضرت خُبَیْبؓ کو خریدا تھا تا کہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عُقبہ بن حارث نے حضرت خُبَیْبؓ کو بنو نجار سے خریدا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو اِھاب، عکرمہؓ بن ابوجہل، اَخْنَس بن شُرَیْق، عبیدہ بن حکیم، امیہ بن ابو عُتْبہ حضرمی کے بیٹوں نے اور صفوان بن امیہ نے مل کر حضرت خُبَیْبؓ کو خریدا تھا۔ یہ سب وہ افراد تھے جن کے آباء غزوۂ بدر میں قتل کیے گئے تھے۔ ان سب نے حضرت خُبَیْبؓ کو خرید کر عُقبہ بن حارث کو دے دیا تھا جس نے انہیں اپنے گھر میں قید کر لیا تھا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ23تا25،‘خُبَیْب بن عدی’دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء) (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 513)
بخاری میں واقعۂ رجیع کی بابت کچھ تفصیلات یوں بیان ہوئی ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کا ایک دستہ حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا اور عاصم بن ثابت انصاریؓ کو جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے اس کا امیر مقرر کیا۔ یہ لوگ چلے گئے۔ جب ھَدَأَہ مقام پر پہنچے جو عُسْفان اور مکّے کے درمیان ہے تو ان کے متعلق کسی نے بنو لَحْیان کو خبر کر دی جو ھُذیل قبیلے کا ایک حصہ ہے۔ یہ خبر سن کر بنو لَحْیان کے تقریباً دو سو آدمی جو سب کے سب تیر انداز تھے نکل کھڑے ہوئے اور ان کے قدموں کے نشانوں پر ان کے پیچھے پیچھے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے وہ جگہ دیکھ لی، وہاں تک پہنچ گئے جہاں انہوں نے کھجوریں کھائی تھیں۔ جہاں یہ دس آدمی رکے تھے اور کھجوریں کھائی تھیں جو مدینے سے بطور زادِ راہ کے لے کے آئے تھے، سفر کے کھانے پینے کا سامان لے کے آئے تھے، تو وہاں بیٹھ کر انہوں نے کھجوریں کھائی تھیں۔ وہاں کھجوروں کی گٹھلیاں پھینکیں تو انہیں دیکھ کر انہوں نے کہا کہ یہ یثرب کی کھجوریں ہیں، مدینے کی کھجوریں ہیں اور پھر وہ قدموں کے نشان پر ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔
جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے ان کو آتے دیکھا تو انہوں نے ایک ٹیلے پر پناہ لے لی۔ ان لوگوں نے ان کو گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے کہ نیچے اتر آؤ اور تم اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دو اور ہماری طرف سے تمہارے لیے یہ عہد ہے کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت جو اس دستے کے امیر تھے بولے کہ یقیناً اگر میں اپنے آپ کو سپرد کروں گا تو آج کافر کی امان پر ٹیلے سے اترنا ہو گا اور میں کافر کی امان پر ٹیلے سے نہیں اتروں گا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اپنے نبیؐ کو ہمارے متعلق خبر کر دے۔ ان لوگوں نے اس پر تیر چلائے اور عاصم کو سات آدمیوں سمیت مار ڈالا۔ یہ دیکھ کر تین آدمی عہد و پیمان پر اعتماد کرتے ہوئے، ان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے پاس نیچے آ گئے۔ ان میں خُبَیْب انصاری اور ابن دَثِنَہ اور ایک اَور شخص تھے۔ جب یہ نیچے آ گئے تو کافروں نے ان کو قابو کر لیا۔ انہوں نے اپنی کمانوں کی تندیاں کھولیں اور ان کی مشکیں کسیں، اس سے ان کو باندھ دیا۔ تیسرا شخص کہنے لگا کہ یہ پہلا دغا ہے۔ بخدا میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ میرے لیے ان لوگوں میں راحت بخش نمونہ ہے جو شہید ہوئے۔ میں تو یہیں ہوں۔ شہید کرنا ہے تو کرو۔ انہوں نے اسے کھینچا اور کشمکش کی کہ وہ کسی طرح ان کے ساتھ جائیں مگر وہ نہ مانے۔ آخر انہوں نے ان کو مار ڈالا اور خُبَیْب اور ابن دَثِنَہ کو پکڑ کر لے گئے اور جا کر مکّے میں ان کو بیچ دیا۔ یہ جنگِ بدر کے بعد کا واقعہ ہے اور خُبَیْب کو بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف نے خرید لیا اور خُبَیْب ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔ خُبَیْب ان کے پاس قید رہے۔
ابن شہاب کہتے تھے کہ عبیداللہ بن عیاض نے مجھے بتایا کہ حارث کی بیٹی نے ان سے ذکر کیا کہ جب انہوں نے اتفاق کر لیا کہ انہیں مار ڈالیں گے۔ جنہوں نے ان کو خرید کر قیدی بنایا تھا وہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ اب ان کو قتل کر دینا ہے، شہید کر دینا ہے تو خُبَیْبؓ نے اسی قید کے دوران میں ایک دن ان سے استرا مانگاکہ اسے استعمال کریں۔ یہ بڑا مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے استرا دے دیا۔ حارث کی بیٹی کہتی ہے کہ اس وقت میری بے خبری کی حالت میں میرا ایک بچہ خُبَیْب کے پاس آیا اور انہوں نے اس کو لے لیا۔ اس نے کہا کہ میں نے خُبَیْبؓ کو دیکھا کہ وہ بچے کو اپنی ران پر بٹھائے ہوئے ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے۔ میں یہ دیکھ کر اتنا گھبرائی کہ خُبَیْبؓ نے گھبراہٹ کو میرے چہرے سے پہچان لیا اور بولے تم ڈرتی ہو کہ میں اسے مار ڈالوں گا۔ میں تو ایسا نہیں ہوں کہ یہ کروں۔ حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی کہ بخدا میں نے کبھی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو خُبَیْب سے بہتر ہو۔ پھر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن ان کو دیکھا کہ خوشہ انگور ان کے ہاتھ میں تھے، انگوروں کا ایک گچھا ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس سے انگور کھا رہے تھے اور وہ زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکّے میں کوئی پھل بھی نہ تھا۔ کہتی تھیں کہ یہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خُبَیْبؓ کو دیا۔ جب ان لوگوں کو حرم سے باہر لے گئے کہ ایسی جگہ قتل کریں جو حرم نہیں ہے تو خُبَیْبؓ نے ان سے کہا مجھے اجازت دو کہ میں دو رکعتیں نماز پڑھ لوں اور انہوں نے ان کو اجازت دے دی تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں اور کہنے لگے مجھے یہ گمان نہ ہوتا کہ تم یہ خیال کرو گے کہ میں اس وقت جس حالت میں نماز میں ہوں گھبراہٹ کا نتیجہ ہے، مجھےکوئی مرنے کی گھبراہٹ ہے تو میں ضرور یہ نماز لمبی پڑھتا۔ پھر انہوں نے اپنے خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ کہا کہ اے اللہ! ان کو ایک ایک کر کے ہلاک کر۔ جب ان کو شہید کرنے لگے اس وقت انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ اے اللہ! ان کو ایک ایک کر کے ہلاک کر۔ پھر حضرت خُبَیْبؓ نے یہ شعر بھی پڑھےکہ
وَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
کہ جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جا رہا ہوں مجھے پروا نہیں کہ کس کروٹ اللہ کی خاطر گروں گا اور میرا یہ گرنا اللہ کی ذات کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو ٹکڑے کیے ہوئے جسم کے جوڑوں کو برکت دے سکتا ہے۔
علامہ حجر عسقلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ غزوۂ رجیع کے تحت ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ حضرت خُبَیْب نے شہادت کے وقت یہ دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا۔ کہ اے اللہ! ان دشمنوں کی گنتی کو شمار کر رکھ۔ یہ جو میرے دشمن ہیں ان کو گنتی کر لے تا کہ ان سے بدلہ لے سکے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْھُمْ اَحَدًا اور انہیں چن چن کر قتل کر اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔ (بخاری کتاب المغازی باب ھل یستاسر الرجل؟ …… حدیث 3045) (فتح الباری شرح صحیح البخاری للامام ابن حجر عسقلانی جزء7 صفحہ488قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)
بہرحال انہوں نے نفل پڑھے اور آخر حارث کے بیٹے عُقبہ نے حضرت خُبَیْب بن عدیؓ کو وہاں جا کے پھر خُبَیْبؓ کو قتل کر دیا، شہید کر دیا اور ایک اَور روایت بخاری میں ہے اس کے مطابق حضرت خُبَیْب کو ابو سَرْوَعَہ نے قتل کیا تھا اور یہ خُبَیْب ہی تھے جنہوں نے ہر ایسے مسلمان کے لیے دو رکعت پڑھنے کی سنت قائم کی جو اس طرح باندھ کر مارا جائے۔
اللہ نے عاصم بن ثابتؓ کی دعا جس دن وہ شہید ہوئے وہ قبول فرمائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بتایا جو پہلے ذکر ہو چکا ہے عاصم بن ثابتؓ نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دے جو اس قافلے کے لیڈر تھے جن میں حضرت خُبَیْبؓ بھی شامل تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو بتایا کہ جو ان لوگوں کے ساتھ واقعہ ہوا ہے اور جو انہیں تکلیف پہنچی تھی اور جب کفارِ قریش کو بعض لوگوں نے بتایا کہ عاصمؓ قتل کیے گئے ہیں تو انہوں نے عاصمؓ کی طرف کچھ آدمیوں کو بھیجا کہ ان کی لاش میں سے ایسا حصہ لائیں کہ جس سے وہ پہچانے جائیں۔ عاصمؓ نے بدر کے دن ان کے بڑے بڑے لوگوں میں سے ایک شخص کو قتل کیا تھا تو عاصمؓ کی لاش پر بھڑوں کا ایک جھنڈ بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا جو سائبان کی طرح اس کے اوپر چھایا رہا اور ان کی لاش کو کفار کے بھیجے ہوئے آدمی کچھ نقصان نہ پہنچا سکے اور ان سے بچا لیا، وہ کوئی ٹکڑہ نہ کاٹ سکے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ الرجیع و رعل و ذکوان و بئر معونہ …… حدیث 4086-4087)
حضرت خُبَیْبؓ کو جب شہید کیا جانے لگا تھا تو اُس وقت انہوں نے یہ بھی دعا مانگی کہ اے اللہ! میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا سکوں پس تو خود میری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پہنچا دے۔ جب حضرت خُبَیْبؓ قتل کیے جانے کے لیے تختہ پر چڑھے تو پھر دعا کی۔ کہتے ہیں کہ ایک مشرک نے جب یہ دعا سنی کہ اَللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًاکہ یعنی اے اللہ! ان کی گنتی کو شمار کر رکھ اور ان کو چن چن کر قتل کر تو وہ خوف سے زمین پر لیٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ ابھی ایک سال نہیں گزرا تھا کہ سوائے اس شخص کے جو زمین پر لیٹ گیا تھا حضرت خُبَیْبؓ کے قتل میں شریک تمام لوگ زندہ نہ رہے، سب ختم ہو گئے۔ حضرت معاویہ بن ابو سفیانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ اس موقعے پر موجود تھا۔ جب میرے والدنے حضرت خُبَیْب کی دعا سنی تو وہ مجھے زمین پر گرانے لگے۔ اَور بھی کچھ لوگ ہوں گے بہرحال پہلی روایت ہے، ایک دوسری روایت یہ بھی ہے۔ عُروہ بیان کرتے ہیں مشرکین میں سے جو اس موقعے پر موجود تھے ان میں ابو اِھَاب، اَخْنَس بن شُرَیْق، عُبَیْدہ بن حکیم اور امیہ بن عُتبہ شامل تھے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی خبر دی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو بتایا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپؐ نے فرمایا، مجلس لگی ہوئی تھی بیٹھے ہوئے تھے آپؐ نے فرمایا وَعَلَیْکَ السَّلَامُ یَا خُبَیْبُ کہ اے خُبَیْب تجھ پر خدا کی سلامتی ہو اور قریش نے انہیں قتل کر دیا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری للامام ابن حجر عسقلانی جزء7 صفحہ488قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی حدیث نمبر4086)
آپؐ نے یہ بھی فرمایا۔ تو اللہ تعالیٰ نے سلام پہنچانے کا انتظام کر دیا۔ یہ شرح صحیح بخاری کی ہے اس میں یہ لکھا ہے۔
حضرت خُبَیْبؓ کو جب شہید کر دیا گیا تو مشرکین نے ان کا چہرہ قبلے کے علاوہ دوسری طرف کر دیا لیکن ان مشرکین نے حضرت خُبَیْبؓ کا چہرہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ دیکھا تو وہ قبلہ رخ تھا۔ وہ لوگ بار بار حضرت خُبَیْبؓ کے منہ کو دوسری طر ف پھیرتے تھے لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے چنانچہ مشرکین نے انہیں اسی حال پر چھوڑ دیا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزء2 صفحہ227،‘خُبَیْب بن عدی’دار الکتب العلمیہ بیروت2005ء)
ایک اَور روایت میں یہ بھی ہے کہ قریش نے خُبَیْبؓ کو ایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا اور پھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔ اس مجمعے میں ایک شخص سعید بن عامر بھی شریک تھا۔ یہ شخص بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت تک اس کا یہ حال تھا کہ جب کبھی اسے خُبَیْبؓ کا واقعہ یاد آتا تھا تو اس پر غشی طاری ہو جاتی تھی ظلم کرنے والوں میں یہ شامل تھا بعد میں مسلمان ہو گیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 515تا516)
انہوں نے شہادت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کو یہ کہا کہ میرا سلام پہنچا دے تو بہرحال یہ وہ لوگ تھے جو بڑے اعلیٰ مقام کے تھے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا قرب حاصل کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کا بھی ان سے سلوک کا پتا لگتا ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور تو یہاں کوئی ذریعہ نہیں ہے تُو ہی میرا سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دے تو پھر وہ سلام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا بھی دیا اور وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعلیکم السلام بھی کہا اور اس کا صحابہؓ سے ذکر بھی کیا کہ ان کی شہادت ہو گئی ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری للامام ابن حجر عسقلانی جزء7 صفحہ488 کتاب المغازی حدیث نمبر4086 قدیمی کتب خانہ کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، حضرت خبیب بن عدیؓ اور ان کے ساتھیوں کی جو شہادت ہوئی تھی اس کے بعد حضرت عمرو بن امیہ کو یہ حکم دیا کہ مکّے جاؤ اور اس ظلم کا جو کرتا دھرتا ہے ابوسفیان اس کو قتل کر دینا، اس کی یہ سزا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبار بن صخر انصاریؓ کو بھی ساتھ روانہ فرمایا۔ یہ دونوں اپنے اونٹ یأجَج وادی جو مکّے سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی یہ گھاٹی تھی اس میں باندھ کر رات کے وقت مکے میں داخل ہوئے۔ حضرت جبارؓ نے حضرت عمروؓ سے کہا کہ کاش ہم طواف ِکعبہ کر سکیں اور دو رکعت نماز ادا کر سکیں یعنی کعبہ میں دو رکعت نماز ادا کر سکیں۔ حضرت عمرو نے کہا کہ قریش کا یہ طریق ہے کہ رات کو کھانا کھانے کے بعد اپنے صحنوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کہیں ہم پکڑے نہ جائیں۔ حضرت جبارؓ نے کہا ان شاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم نے طواف ِکعبہ کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر ہم ابوسفیان کی تلاش میں نکل پڑے کہ اللہ کی قسم ! ہم پیدل چل رہے تھے کہ اہلِ مکہ میں سے ایک آدمی نے ہمیں دیکھا اور مجھے پہچان لیا اور کہنے لگا کہ عمرو بن امیہ یہ تو وہی ہے ضرور کسی شر کی نیت سے آیا ہو گا۔ اس پر میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ بچو، یہاں سے نکلو۔ پھر ہم تیزی سے وہاں سے نکلے یہاں تک کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہ لوگ بھی ہماری کھوج میں نکلے۔ جب ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تو وہ مایوس ہو کر چلے گئے۔ پھر ہم نیچے اتر کر پہاڑ کی ایک غار میں گھس گئے اور پتھر اکٹھے کر کے اوپر نیچے رکھ دیے اور وہیں ہم نے رات گزاری۔ صبح ہوئی تو ایک قریشی ادھر آ نکلا جو اپنے گھوڑے کو لے کر جا رہا تھا۔ ہم پھر غار میں چھپ گئے۔ میں نے کہا اگر اس نے ہمیں دیکھ لیا ہوا تو یہ شور مچائے گا لہٰذا اس کو پکڑ کر مار دینا ہی بہتر ہے۔ حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک خنجر تھا جسے میں نے ابوسفیان کے لیے تیار کیا تھا۔ میں نے اس خنجر سے اس شخص کے سینے پر وار کیا جس سے وہ اس زور سے چیخا کہ مکے والوں نے اس کی آواز سن لی۔ کہتے ہیں میں دوبارہ اپنی جگہ پر آ کر چھپ گیا۔ جب لوگ اس کے پاس تیزی سے پہنچے تو اپنی آخری سانس لے رہا تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم پر کس نے حملہ کیا؟ اس نے کہا کہ عمرو بن امیہ نے۔ پھر موت نے اس پر غلبہ پا لیا اور اسی جگہ وہ مر گیا اور انہیں ہماری جگہ کا پتا نہیں بتا سکا۔
اس زمانے میں یہی حالت تھی کہ اگر دشمنوں کو پتا لگ جاتا تھا تو پھر ایک دوسرے کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہی ہوتا تھا کہ قتل کر دو اور ان کو یہی شک تھا کہ اس نے کیونکہ ہمیں دیکھ لیا ہے اب یہ جا کے بتا بھی دے گا اور پھر کفار جو ہیں وہ ہمارے پیچھے آئیں گے اور پھر ہمیں بھی قتل کریں گے تو اس سے پہلے دفاع کے طور پر انہوں نے یہ کیا۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارا پتا بتا نہیں سکا۔ وہ اسے اٹھا کر لے گئے اور شام کے وقت میں نے اپنے ساتھی سے کہا اب ہم محفوظ ہیں۔ پس ہم رات کو مکے سے مدینے کی طرف نکلے تو ایک پارٹی کے پاس سے گزرے جو حضرت خبیب بن عدیؓ کی نعش کی حفاظت کر رہی تھی۔ ان میں سے ایک شخص نے حضرت عمروؓ کو دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم ! جتنی اس شخص کی چال عمرو بن امیہ سے ملتی ہے اس سے زیادہ میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اگر وہ مدینے میں نہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہی عمرو بن امیہ ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت جبارؓ جب اس لکڑی تک جس پر حضرت خبیبؓ کو لٹکایا گیا تھا وہاں تک پہنچے تو جلدی سے اسے اٹھا کر چل پڑے۔ وہ لوگ بھی آپ کے پیچھے بھاگے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ وہ لوگ شراب کے نشے میں تھے، بدمست تھے، کچھ جاگ رہے تھے، کچھ سو رہے تھے، کچھ اونگھ رہے تھے تو بہرحال ان کو پتا نہیں لگا اور یہ جلدی سے لے کے بھاگے اور پھر ان کو بھی پتا لگا تو آپ لوگوں کے پیچھے بھاگے یہاں تک کہ جب حضرت جبار یأجَج پہاڑ کے سیلابی نالے کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس لکڑی کو اس کے اندر پھینک دیا۔ وہ لوگ بھی پیچھے پہنچے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس لکڑی کو ان کافروں کی آنکھوں سے اوجھل کر دیا اور وہ اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی یعنی حضرت جبارؓ سے کہا کہ تم یہاں سے نکلو اور اپنے اونٹ پر بیٹھ کر روانہ ہو جاؤ۔ میں ان لوگوں کو تمہارے پیچھے آنے سے روکے رکھوں گا۔
حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں چلا یہاں تک کہ ضَجْنَان پہاڑ تک پہنچ گیا جو مکّے سے پچیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ میں نے ایک غار میں پناہ لی۔
وہاں سے نکلا یہاں تک کہ مقام عَرْج پر پہنچا جو مدینے سے 78 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ پھر چلتا گیا، کہتے ہیں کہ جب میں مقام نقیع پر اترا جو مدینے سے تقریباً ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو مشرکین نے قریش کے دو آدمی دیکھے جنہیں قریش نے مدینہ میں جاسوسی کے لیے بھیجا تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ ہتھیار ڈال دو۔ پتا تو لگ گیا ہے کہ تم جاسوسی کرنے آئے ہو لیکن وہ نہ مانے۔ اس پر وہاں لڑائی شروع ہو گئی، کہتے ہیں ایک کو تو میں نے تیر مارا اور اس کو ہلاک کر دیا اور دوسرے کو قیدی بنا لیا اور پھر اسے باندھ کر مدینہ لے آیا۔ (السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ885-886باب بعث عمرو بن امیہ الضمری لقتال ابی سفیان……دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزء2 صفحہ226، خبیب بن عدی۔ دار الکتب العلمیہ بیروت1995ء) (لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 603 کتاب ’’ی‘‘۔ جلد 3 صفحہ 46 کتاب ’’ف‘‘) (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 225، 309۔ جلد 4 صفحہ 400)
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنہا جاسوس کے طور پر بھیجا تا کہ حضرت خبیبؓ کو لکڑی سے اتاروں۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت مَیں حضرت خبیبؓ کی لکڑی کے پاس پہنچ کر اس کے اوپر چڑھ گیا تو اس وقت خوف تھا کہ کوئی مجھے دیکھ نہ لے۔ جب میں نے اس لکڑی کو چھوڑ دیا تو زمین پر گر پڑی۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ لکڑی ایسی غائب ہو گئی گویا اسے زمین نے نگل لیا۔ پھر اس وقت سے لے کر آج تک خبیب کی ہڈیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1صفحہ684، خبیب بن عدی، دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت خبیبؓ کو رسیوں وغیرہ سے آزاد کر کے نیچے لٹایا تو میں نے اپنے پیچھے کوئی آہٹ کی آواز سنی۔ پھر جب دوبارہ میں سیدھا ہوا تو کچھ بھی نظر نہ آیا اور حضرت خبیبؓ کی نعش غائب ہو چکی تھی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ25،‘خبیب بن عدی’دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
تو پہلی روایت جو زیادہ صحیح لگتی ہے کہ پیچھے جب دوڑے تو انہوں نے دریا میں پھینک دیا اور دریا نے اس کو بہا لیا یا آگے پیچھے کر دیا، ندی تھی پانی کا بہاؤ تھا۔ تو مختلف روایات آتی ہیں۔ بہرحال اسی نام سے مشہور ہو گئے تھے کہ ان کی نعش زمین میں غائب ہو گئی۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزء2 صفحہ226،‘خبیب بن عدی’دار الکتب العلمیہ بیروت2005ء)
تو وہ کفار جو کچھ کرنا چاہتے تھے کوئی معلوم نہ کر سکے اس نعش کی بے حرمتی وہ نہیں کر سکے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ رکھا۔
ایک روایت حضرت خبیب بن عدیؓ کے قید کے واقعے کے بارے میں اس طرح بھی ہے کہ مَاوِیَّہ، حُجَیْربن اَبُوْاِہَاب کی آزاد کردہ لونڈی تھی مکہ میں ان ہی کے گھر میں حضرت خبیب بن عدیؓ قید تھے تا کہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو انہیں قتل کیا جا سکے۔ ماویّہ نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اچھی مسلمان ثابت ہوئیں۔ ماویّہ بعد میں یہ قصہ بیان کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے حضرت خبیبؓ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں انہیں دروازے کے دَر ز سے دیکھا کرتی تھی اور وہ زنجیرمیں بندھے ہوتے تھے اور میرے علم میں روئے زمین پر کھانے کے لیے انگوروں کا ایک دانہ بھی نہ تھا، اس علاقے میں کوئی انگور نہیں تھا لیکن حضرت خبیبؓ کے ہاتھ میں آدمی کے سر کے برابر انگوروں کا گچھا ہوتا تھا یعنی کافی بڑا گچھا ہوتا تھا جس میں سے وہ کھاتے۔ وہ اللہ کے رزق کے سوا اَور کچھ نہ تھا۔ حضرت خبیبؓ تہجد میں قرآن پڑھتے اور عورتیں وہ سن کر رو دیتیں اور انہیں حضرت خبیبؓ پر رحم آتا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت خبیبؓ سے پوچھا اے خبیب! کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ ہاں ایک بات ہے کہ مجھے ٹھنڈا پانی پلا دو اور مجھے بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے سے گوشت نہ دینا۔ جو کھانا تم لوگ دیتے ہو کبھی وہ کھانا نہ دینا جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور تیسری بات یہ کہ جب لوگ میرے قتل کا ارادہ کریں تو مجھے بتا دینا۔ پھر جب حرمت والے مہینے گزر گئے اور لوگوں نے حضرت خبیبؓ کے قتل پر اتفاق کر لیا تو کہتی ہیں کہ میں نے ان کے پاس جا کر انہیں یہ خبر دی۔ کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اپنے قتل کیے جانے کی کوئی پروا نہیں کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا میرے پاس استرابھیج دو تا کہ میں اپنے آپ کو درست کر لوں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے ابوحسین کے ہاتھ استرا بھیجا۔ یہ بیٹا جو ہے کہتی ہیں وہ حقیقی بیٹا نہ تھا بلکہ ماویہ نے اس کی صرف پرورش کی تھی، یہی لکھا گیا ہے۔ جب بچہ چلا گیا تو پھر کہتی ہیں میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ کی قسم! خبیب نے اپنا انتقام پا لیا۔ اب میرا بیٹا اس کے پاس ہے، استرا اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ تو انتقام لے لے گا۔ یہ میں نے کیا کر دیا! میں نے اس بچے کے ہاتھ استرا بھیج دیا ہے۔ خبیب اس بچے کو استرے سے قتل کر دے گا اور پھر کہے گا کہ مرد کے بدلے مرد۔ روایت تو یہ آتی ہے کہ بچہ کھیلتا ہوا ان کے پاس چلا گیا ان کے ہاتھ میں استرا تھا لیکن ایک روایت یہ اس طرح ہے جو تفصیل سے ہے کہ بچہ ہوش و حواس میں تھا اور اس قابل تھا کہ اس کے ہاتھ کوئی چیز بھجوائی جا سکے اور وہ انہوں نے بھجوایا۔ تو وہ کہتی ہیں کہ جائے گا تو کہہ دے گا کہ ٹھیک ہے تم میرا قتل کر رہے ہو تو میں بھی یہ قتل کر دیتا ہوں۔ پھر جب میرا بیٹا ان کے پاس استرا لے کر پہنچا تو انہوں نے وہ لیتے ہوئے مزاحاً اس بچے کو کہا کہ تُو بڑا بہادر ہے۔ کیا تمہاری ماں کو میری غداری کا خوف نہیں آیا اور تمہارے ہاتھ میرے پاس استرا بھجوا دیا جبکہ تم لوگ میرے قتل کا اردہ بھی کر چکے ہو۔ حضرت ماویہ بیان کرتی ہیں کہ خبیب کی یہ باتیں مَیں سن رہی تھی۔ میں نے کہا اے خبیب! میں اللہ کی امان کی وجہ سے تم سے بے خوف رہی اور میں نے تمہارے معبود پر بھروسا کر کے اس بچے کے ہاتھ تمہارے پاس استرا بھجوایا۔ میں نے وہ اس لیے نہیں بھجوایا کہ تم اس سے میرے بیٹے کو قتل کر ڈالو۔ حضرت خبیب نے کہا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ اس کو قتل کروں۔ ہم اپنے دین میں غداری جائز نہیں سمجھتے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پھر میں نے خبیب کو خبر دی کہ لوگ کل صبح تمہیں یہاں سے نکال کر قتل کرنے والے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اگلے دن لوگ انہیں زنجیر میں جکڑے ہوئے تنعیم، مکے سے مدینے کی طرف تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں لے گئے اور خبیب کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے بچے، عورتیں، غلام اور مکّے کے بہت سارے لوگ وہاں پہنچے اور اس روایت کے مطابق کوئی بھی مکے میں نہ رہا۔ جو انتقام چاہتے تھے، جو اپنے بڑوں کے قتل کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو جنگ میں مارے گئے تھے وہ تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے اور جنہوں نے انتقام نہیں لینا تھا اور جو اسلام اور مسلمانوں کے مخالف تھے وہ مخالفت کا اظہار کرنے اور خوش ہونے کے لیے وہاں گئے تھے کہ دیکھیں کس طرح اس کو قتل کیا جاتا ہے۔ پھر جب حضرت خبیب کو مع زید بن دثنہ کے تنعیم لے کر پہنچ گئے تو مشرکین کے حکم سے ایک لمبی لکڑی کھودی گئی۔ پھر جب وہ لوگ خبیب کو اس لکڑی کے پاس لے کر پہنچے، وہاں کھڑی کی گئی تو خبیبؓ بولے کیا مجھے دو رکعت پڑھنے کی مہلت مل سکتی ہے؟ لوگ بولے کہ ہاں۔ حضرت خبیبؓ نے دو نفل اختصار کے ساتھ ادا کیے اور انہیں لمبا نہ کیا۔ یہ ان خاتون کی روایت ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء8 صفحہ399‘ماویۃمولاۃ حجیر’دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء) (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب ھل یساسر الرجل؟ حدیث 3045) (اسدالغابہ جلد اول صفحہ 683 حاشیہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ابن سعد کے حوالے سے جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کے مطابق ماویہ جو تھیں حجیر بن ابو اھاب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں جن کے گھر میں حضرت خبیبؓ قید کیے گئے تھے۔
علامہ ابن عبدالبر کے مطابق حضرت خبیبؓ عقبہ کے گھر میں قید تھے اور عقبہ کی بیوی انہیں خوراک مہیا کرتی تھیں اور کھانے کے وقت وہ حضرت خبیب کو کھول دیا کرتی تھی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ25،‘خبیب بن عدی’دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر صلیب دیے گئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1صفحہ683، خبیب بن عدی، دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
یعنی پہلے لکڑی کھڑی کی گئی، زمین پر گاڑی گئی اس پر ان کو باندھ کے پھر شہید کیا گیا۔
اس قتل کے واقعے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ ’’اس تماشےکو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔ وہ زیدؓ کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسندنہیں کرتے کہ محمد تمہاری جگہ پر ہو اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ ’’زیدنے بڑے غصے سے جواب دیا کہ ابو سفیان! تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لیے مرنا اس سے بہتر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو مدینےکی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ اس فدائیت سے ابوسفیان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔‘‘ یہ جو جواب تھا ایسا تھا کہ ابوسفیان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ’’اور اس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی پھر دبی زبان میں کہنے لگا کہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐ کے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ262تا263)
یہ تھا صحابہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و وفا کا تعلق اور جان قربان کر دینے کا معیار بھی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان سے کیا تھا وہ بھی ظاہر ہو گیا۔ ان کا اپنا معیار کیا تھا۔ جب یہ انہوں نے کہا کہ جب میں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارا جا رہا ہوں تو جس پہلو میں بھی گروں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دائیں گرتا ہوں، بائیں گرتا ہوں، آگے گرتا ہوں، پیچھے گرتا ہوں۔ مَیں تو خدا تعالیٰ کی خاطر جان دے رہا ہوں۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1 صفحہ683، خبیب بن عدی، دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ایک آرزو تھی جس کا انہوں نے قتل کیے جانے سے پہلے اظہار کیا اور وہ بھی یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کر لوں، دو نفل پڑھ لوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پہنچانے کی آرزو تھی، خواہش تھی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی وہ بھی پہنچا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا یہ حال تھا کہ یہ بھی گوارہ نہیں ہوا کہ آپ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے اور اس کے بدلے میں میری زندگی بچے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ہلکی سی تکلیف کی بھی اہمیت تھی اور اپنی جان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ تب ہی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے تھے۔