حضرت خُرَیْم بن فَاتِکؓ
حضرت خُرَیْم بن فَاتِکؓ کا تعلق بنو اسد سے تھا۔ ان کے والد کا نام فَاتِک بن اَخْرَم یا اَخْرَم بن شَدَّادْ بھی بیان کیا گیا ہے۔ ان کی کنیت ابو یحیٰ جبکہ ایک روایت کے مطابق ابو ایمن بیان ہوئی ہے کیونکہ ان کے بیٹے کا نام حضرت ایمن بن خُرَیْم تھا۔ حضرت خُرَیْم بن فَاتِک اپنے بھائی حضرت سَبْرہ بن فَاتِک کے ہمراہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 167 خُرَیْم بن فَاتِک دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
ایک قول کے مطابق حضرت خُرَیْمؓ صلح حدیبیہ میں شامل تھے۔ ایک غیر معروف روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خُرَیْمؓ اور ان کے بیٹے حضرت ایمنؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب فتح مکہ کے بعد قبیلہ بنواسدنے اسلام قبول کیا تھا جبکہ پہلی روایت زیادہ درست ہے کہ حضرت خُرَیْمؓ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے اور امام بخاریؒ نے اپنی کتاب التَّارِیخ الکبیر میں ان کا بدری ہونا بیان کیا ہے۔ حضرت خُرَیْمؓ بیٹے سمیت بعد میں کوفہ چلے گئے اور ایک روایت کے مطابق یہ دونوں رَقَّہ شہر جو دریائے فرات کے شرقی جانب ایک مشہور شہر ہے وہاں منتقل ہو گئے اور یہ دونوں اسی جگہ حضرت امیر معاویہؓ کے دور ِحکومت میں فوت ہوئے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد2صفحہ236 خُرَیْم بن فَاتِک، دارالفکر بیروت 2001ء) (التاریخ الکبیر از عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری جلد 3صفحہ196، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001ء) (معجم البلدان جلد 4صفحہ413-414)
حضرت خُرَیْم بن فَاتِکؓ اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اونٹ گم گئے تھے تو میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈھنے نکلا، ان کے نشانات کا پیچھا کرتے کرتے مجھے رات ہو گئی۔ چنانچہ میں نے انہیں اَبْرَقُ العَزَّافٗ یہ بنو اسد بن خزیمہ کے پانی پینے کی مشہور جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے بصرہ کے راستے پر ہے، وہاں جا کر پا لیا تو میں نے انہیں وہیں باندھ دیا اور ان میں سے ایک اونٹ کی ران کے ساتھ ٹیک لگا کر لیٹ گیا۔ رات گزارنے کے لیے وہیں رہ گئے اور کہتے ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ میں نے کہا کہ میں اس وادی کے سردار کی پناہ مانگتا ہوں۔ اونچی آواز میں کہا۔ یہ اس زمانے میں ان کا رواج تھا۔ میں اس وادی کے عظیم کی پناہ مانگتا ہوں۔ حضرت خُرَیْمؓ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اسی طرح کہا کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص کسی ویران وادی میں رات گزارنے کی غرض سے داخل ہوتا تو اس کے اہل اور بیوقوفوں کے شر سے بچنے کے لیے یہ الفاظ کہا کرتا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اچانک ایک پکارنے والے نے مجھے آواز دی اور یہ اشعار پڑھے کہ تیرا بھلا ہو تُو اللہ ذوالجلال کی پناہ مانگ جو حرام اور حلال کا نازل کرنے والا ہے۔ اللہ کی توحید کا اقرار کر پھر تجھے جِنَّات کی آزمائشوں کی کوئی پروا نہیں ہو گی۔ جب تُو اللہ کو یاد کرے گا تو کئی میلوں اور زمینوں اور پہاڑوں کی پنہائیوں میں جِنَّات کا مکر ناکام ہو جائے گا سوائے تقویٰ والے شخص کے اور نیک اعمال کے یعنی نیکیاں جاری رہیں گی۔ کوئی برائی نہیں آئے گی۔
حضرت خُرَیْمؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواباً کہا کہ اے پکارنے والے! تو جو کچھ کہہ رہا ہے کیا تیرے نزدیک وہ ہدایت کی بات ہے یا تُو مجھے گمراہ کر رہا ہے۔ یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں تو اَور تھیں۔ اور یہ تم توحید کی عجیب باتیں کر رہے ہو۔ اس نے کہا یہ اللہ کے رسول ہیں۔ بھلائیوں والے ہیں۔ یٰس اور حٰمِیْمَات لے کر آئے ہیں اور اس کے بعد مُفَصَّلَات سورتیں بھی لائے ہیں جنہوں نے ہمیں یہ ساری باتیں بتائی ہیں اور جو بہت ساری چیزوں کو حرام قرار دینے والے ہیں اور بہت ساری چیزوں کو حلال قرار دینے والے ہیں۔ وہ نماز اور روزے کا حکم دیتے ہیں اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتے ہیں جو گذشتہ دنوں کی برائیاں لوگوں میں موجود تھیں۔ یہ ان کو جواب ملا کہ اس طرح ہمیں توحید کا اعلان پتا لگا ہے اس لیے ہم کہتے ہیں۔ حضرت خُرَیْمؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ تجھ پر رحمت کرے تم کون ہو؟ اس نے کہا میں مَلَک بن مَالِک ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اہلِ نجد کے جِنّیعنی سرداروں پر مقرر کر کے بھیجا ہے۔ یہ ان کی آپس میں بات چیت ہو رہی ہے۔ حضرت خُرَیْمؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اگر میرے لیے کوئی ایسا شخص ہوتا جو میرے اونٹوں کی کفالت کرتا، تو مَیں ضرور اس رسولؐ کے پاس جاتا، یہاں تک کہ اس پر ایمان لے آتا۔ ان کو توحید کی باتیں اچھی لگیں، مَلَک بن مَالِک نے کہا کہ میں ان کی تمہارے اونٹوں کی ذمہ داری لیتا ہوں یہاں تک کہ میں انہیں تیرے اہل تک ان شاء اللہ صحیح سلامت پہنچا دوں گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک اونٹ تیار کیا اور اس پر سوار ہو کر مدینہ آ گیا۔ باقی اونٹ ان کے سپرد کر دیے۔ میں ایسے وقت میں پہنچا کہ جب لوگ نماز ِجمعہ میں مصروف تھے۔ جمعہ کا وقت تھا تو میں نے سوچا یہ لوگ نماز پڑھ لیں پھر میں اندر جاؤں گا کیونکہ میں تھکا ہوا تھا لہٰذا میں نے اپنی سواری کو بٹھا دیا۔ جب حضرت ابو ذرؓ باہر نکلے تو انہوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ اندر آ جاؤ۔ پس میں اندر آ گیا۔ جب آپؐ نے مجھے دیکھا تو فرمایا اس بوڑھے شخص کا کیا بنا جس نے تمہیں ضمانت دی تھی کہ تمہارے اونٹ صحیح سلامت تمہارے گھر پہنچا دے گا۔ اس نے تمہارے اونٹ تمہارے گھر صحیح سلامت پہنچا دیے ہیں؟ یہ سارا نظارہ جو تھا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔ حضرت خُرَیْمؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اللہ اس پر رحم کرے۔ اس پر حضرت خُریمؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور اس طرح بڑے اچھے انداز میں وہ اسلام لے آئے۔ (المعجم الکبیر از حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، جلد4صفحہ 211تا 213 حدیث نمبر4166، مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)(السیرۃ النبویہ لابن کثیر جلد 1صفحہ 379، مکتبہ دار المعرفہ بيروت لبنان1976ء) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 68) (بلوغ الارب مترجم از ڈاکٹر پیر محمد حسن جلد3صفحہ135۔ اردو سائنس بورڈ لاہور 2002ء)
انہوں نے اپنا اسلام لانے کا یہ واقعہ بیان کیا۔ حضرت خُریم بن فاتِکؓ نہایت لطیف مزاج اور نفاست پسند تھے۔ لباس اور وضع قطع میں خوبصورتی اور نفاست کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلدہفتم صفحہ 307 حضرت زید بن حارثہؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
اسلام لانے سے پہلے نیچا ازار پہنتے تھے، لمبا پاجامہ یا جو نچلا لباس ہے وہ لمبا کر کے پہنتے تھے۔ لمبے بال رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ مستدرک حاکم میں اس کے متعلق ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خُریم بن فَاتِک سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا اے خُریم اگر تم میں دو باتیں نہ ہوتیں تو تم بہت اچھے شخص ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں وہ دو باتیں کون سی ہیں یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا تمہارا اپنے بال بڑھانا اور اپنا ازار لٹکانا یعنی ایسا لمبا پاجامہ پہننا جو فخر کے طور پر پہنا جاتا ہے۔ پس حضرت خُرَیْم گئے اور اپنے بال کٹوا دیے اور اپنا ازار چھوٹا کر دیا۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 6 صفحہ 2363 کتاب معرفة الصحابة، حدیث6608 مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ المکرمہ 2000ء)
ایک یہ روایت ہے اور ایک روایت تاریخ الکبیر میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابن حَنْظَلِیَّہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خُریم اَسَدِی کتنا ہی اچھا شخص ہوتا اگر اپنے بال مونڈھوں تک نہ بڑھاتا۔ کندھے تک نہ لاتا اور اپنا ازار نہ لٹکاتا فخر کے طور پر۔ اپنا پاجامہ جو نچلا لباس ہے یا جو بھی نیچے لباس پہنا ہوتا ہے وہ زیادہ لمبا نہ ہو۔ حضرت خُرَیْمؓ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے اپنا چھوٹا استرا لیا اور اپنے بال کانوں تک کاٹ دیے۔ لمبے بالوں کی بجائے یہاں تک کاٹ دیے، اور اپنا ازار نصف پنڈلیوں تک اوپر کر لیا۔ (التاریخ الکبیر از عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری جلد 3صفحہ196 حدیث 3651، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2001ء)
کیونکہ وہ اس وقت لوگوں میں فخر کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ اس لیے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بلا وجہ بلاضرورت لمبے بال رکھنے میں کیا حرج ہے۔ اتنے ہی پٹے کانوں کی لَو تک، رکھنے چاہئیں جتنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کی طرح لمبے نہیں ہونے چاہئیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں شام کی فتوحات میں یہ شریک ہوئے تھے۔ (سیر الصحابہ جلد ہفتم صفحہ307 حضرت زید بن حارثہ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)
حضرت قَیس بن ابو حَازِمؓ اور حضرت عَامِرشَعْبِیؓ سے مروی ہے کہ مَرْوَان بِن حَکَم نے حضرت اَیْمَن بن خُریمؓ سے کہا تم ہمارے ساتھ جنگ میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟ انہوں نے کہا میرے والد اور میرے چچا غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے یہ تاکیدی حکم دیا تھا کہ میں کسی ایسے شخص سے نہ لڑوں جو کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبو دنہیں۔ حضرت ایمنؓ نے مروان بن حکم سے کہا کہ اگر تم میرے پاس آگ سے براءت لائے ہو تو مَیں تمہارے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاؤں گا تو مروان نے کہا تم ہمارے پاس سے چلے جاؤ۔ پس وہ نکلے تو یہ اشعار پڑھتے جا رہے تھے کہ میں کسی شخص سے نہیں لڑوں گا جو قریش کے کسی دوسرے سلطان کی تعریف کرتا ہے۔ اس کے لیے اس کی سلطنت ہے اور میرے اوپر میرا گناہ۔ میں ایسی جہالت اور غصّے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ کیا میں ایک مسلمان کو بغیر کسی جرم کے قتل کروں گا۔ اگر ایسا ہوا تو میں جتنی زندگی بھی جی لوں اس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد3 صفحہ 1004 کتاب معرفة الصحابة، ذکر خُرَیْم بن فَاتِک، حدیث2667 مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ المکرمہ 2000ء)
آج کل کے مسلمانوں کے عمل دیکھیں تو پتا لگتا ہے کہ یہ اصل تعلیم سے کتنی دُور جا چکے ہیں۔ پھر جن صحابی کا ذکر ہے حضرت مَعْمَر بن حارِثؓ ان کا نام ہے۔ حضرت مَعْمَر بن حارِثؓ کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو جُمَحّ سے تھا۔ ان کے والد کا نام حارِث بن مَعْمَر تھا اور والدہ کا نام قَتِیْلہ بنت مَظْعُون تھا جو حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بہن تھیں۔ یوں حضرت عثمان بن مظعونؓ حضرت مَعْمَرؓ کے ماموں تھے۔ حضرت معمرؓ کے دو اَور بھائی تھے جن کے نام حَاطِبْؓ اور حَطَّابؓ تھے۔ یہ تینوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے۔ حضرت معمرؓ کا شمار اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں ہوتا ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 226 معمر بن الحارث دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)(سیر اعلام النبلاء لامام محمد بن احمد الذھبی جلد 1 صفحہ 144، الرسالة العالمیة 2014)