حضرت خُنَیْس بِن حُذَافَہؓ
حضرت خُنَیْس بِن حُذَافَہ کی کنیت ابو حُذَافَہ تھی۔ حضرت خُنَیْس کی والدہ کا نام ضَعِیْفَہ بنتِ حِذْیَمْ تھا۔ ان کا تعلق بنی سَہْمِ بِن عَمْرو سے تھا۔ یہ ایک قبیلہ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں جانے سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت خُنَیْس حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ کے بھائی تھے۔ حضرت خُنَیْس ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے دوسری دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت خُنَیْس کا شمار اولین مہاجرین میں ہوتا ہے۔ جب حضرت خُنَیْس نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت رِفَاعَہ بن عبدِالمُنْذِر کے پاس رہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خُنَیْس اور ابو عَبْس بن جَبْر کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم کیا۔ حضرت خُنَیْس غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ اُمّ المومنین حضرت حفصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حضرت خُنَیْس کے عقد میں تھیں۔ ان کی شادی ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 300 خنیس بن حذافۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 188 خنیس بن حذافۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
سیرت خاتم النبیین میں اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ:
حضرت عمر بن خطابؓ کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہؓ تھا۔ وہ خُنَیْس بن حُذَافَہ کے عقد میں تھیں جو ایک مخلص صحابی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خُنَیْس بیمار ہو گئے اور اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی۔ حضرت عمرؓ کو حضرت حفصہؓ کے نکاح ثانی کی بڑی فکر تھی۔ اس وقت حضرت حفصہ ؓ کی عمر بیس سال سے اوپر تھی۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ نے اپنی فطرتی سادگی میں خود عثمان بن عفانؓ سے مل کر ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ بیوہ ہے۔ آپ اگر پسند کریں تو اس کے ساتھ شادی کر لیں مگر حضرت عثمان نے ٹال دیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے شادی کا ذکر کیا کہ آپؓ اس سےشادی کر لیں لیکن حضرت ابوبکرؓ نے بھی خاموشی اختیار کی۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ کو بہت ملال ہوا، رنج ہوا۔ انہوں نے اسی دکھ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے یہ ساری سرگزشت بیان کی، عرض کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! کچھ فکر نہ کرو۔ خدا کو منظور ہوا تو حفصہؓ کو عثمانؓ اور ابوبکرؓ کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمانؓ کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے فرمایا کہ آپؐ حفصہ کے ساتھ شادی کرلینے اور اپنی لڑکی ام کلثومؓ کو حضرت عثمانؓ کے ساتھ بیاہ کر دینے کا ارادہ کر چکے تھے جس سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ دونوں کو اطلاع تھی۔ ان کو بتلا دیا تھا اور اسی لئے انہوں نے حضرت عمرؓ کی تجویز کو ٹال دیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ سے اپنی صاحبزادی ام کلثومؓ کی شادی فرما دی جس کا ذکر گزر چکا ہے اور اس کے بعد آپؐ نے خود اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کو حفصہؓ کے لئے پیغام بھیجا۔ حضرت عمرؓ کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے تھا۔ انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اور شعبان 3ہجری میں حضرت حفصہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر حرم نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔ جب یہ رشتہ ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہوا ہو، دل میں میل پیدا ہوا ہو، رنج ہوا ہو۔ بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے اطلاع تھی لیکن میں آپؐ کی اجازت کے بغیر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر آپؐ کے راز کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ ہاں آپؐ کا اگر یہ یعنی اس رشتہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ نہ ہوتا تو میں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کر لیتا۔
حفصہؓ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں جو گویا حضرت ابوبکرؓ کے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین خاص میں سے تھے۔ پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمرؓ اور حفصہؓ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جو خُنَیْس بن حُذَافَہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ حفصہؓ سے خود شادی فرما لیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 477-478)
ایک روایت کے مطابق حضرت خُنَیْس بن حُذَافَہ کو غزوۂ اُحُد میں کچھ زخم آئے۔ بعد میں انہی زخموں کی وجہ سے آپؓ کی مدینہ میں وفات ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعونؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ (استیعاب جلد 2صفحہ 452 خنیس بن حذافہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 300 خنیس بن حذافہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)