حضرت ذَکْوَان بِن عَبْد قَیْسؓ
حضرت ذَکْوَان بِن عَبْد قَیْسؓ کی کنیت ابوالسَّبُع تھی۔ حضرت ذَکْوَان ؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زُرَیْق سے تھا۔ آپؓ کی کنیت ابو السَّبُع ہے۔ آپؓ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانیہ میں بھی شریک رہے۔ آپؓ کی ایک نمایاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپؓ مدینہ سے ہجرت کر کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ گئے۔ اس وقت تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہی تھے۔ آپؓ کو انصاری مہاجر کہا جاتا تھا۔ آپؓ وہاں مکہ جا کے کچھ عرصہ رہے۔ یا سمجھنا چاہیے کہ ہجرت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ۔ آپؓ غزوۂ بدر اور احد میں شریک تھے اور غزوۂ احد میں شہادت کا رتبہ پایا۔ آپؓ کو ابوحَکَمْ بِن اَخْنَس نے شہید کیا تھا۔ حضرت ذَکْوَان بِن عَبْد قَیْس کو انصاری مہاجر کہا جاتا ہے۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 210 ذکوان بن عبد قیس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
علامہ ابن سعد طبقاتِ کبریٰ میں لکھتے ہیں کہ ہجرت مدینہ کے وقت جب مسلمان مدینہ روانہ ہوئے تو قریش سخت ناراض تھے اور جو نوجوان ہجرت کر کے جا چکے تھے ان پر انہیں بہت غصہ آیا۔ انصار کے ایک گروہ نے عَقَبہ ثانیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی اور اس کے بعد واپس مدینہ چلے گئے تھے۔ جب ابتدائی مہاجرین قبُاَ پہنچ گئے تو یہ انصار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ گئے اور آپؐ کے اصحاب کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ اسی مناسبت سے انہیں انصار مہاجرین کہا جاتا ہے۔ ان اصحاب میں حضرت ذَکْوَان بِن عَبْدِ قَیْس حضرت عُقْبَہ بن وَہَب ؓحضرت عباس بن عُبَادۃؓ اور اور حضرت زِیَاد بن لَبِیدؓ شامل تھے۔ اس کے بعد تمام مسلمان مدینہ چلے گئے تھے سوائے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کے یا وہ جو فتنہ میں تھے، قید میں تھے، مریض تھے یا وہ ضعیف اور کمزور تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 1صفحہ 175 ذکر اذن رسول اللہؐ للمسلمین فی الھجرۃ الی المدینۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
سُہَیل بن ابی صالح سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحُد کے لئے نکلے۔ آپؐ نے ایک مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس طرف کون جائے گا؟ بَنِی زُرَیْق میں سے ایک صحابی حضرت ذَکْوَان بِن عَبْد قَیْس اَبُوالسَّبْع کھڑے ہوئے ۔کہنے لگے یا رسولؐ اللہ! میں جاؤں گا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم کون ہو؟ حضرت ذَکْوَان نے کہا کہ میں ذَکْوَان بن عَبْدِ قَیْس ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ جانے کا ارشاد فرمایا۔ آپؐ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ فلاں فلاں جگہ پر چلے جاؤ۔ اس پر حضرت ذَکْوَان بِن عَبْدِ قَیْس نے عرض کی یا رسول ؐاللہ! یقیناً میں ہی ان جگہوں پر جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہے جو کل جنت کے سبزے پر چل رہا ہو گا تو اس شخص کی طرف دیکھ لے۔ اس کے بعد حضرت ذکوان اپنے اہل خانہ کو الوداع کہنے گئے۔ آپؓ کی ازواج اور بیٹیاں آپؓ سے کہنے لگیں کہ آپؓ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں! انہوں نے اپنا دامن ان سے چھڑایا اور تھوڑا دور ہٹ کر ان کی طرف رخ کر کے مخاطب ہوئے کہ اب بروز قیامت ہی ملاقات ہو گی۔ اس کے بعد غزوۂ احد میں ہی آپؓ نے شہادت کا رتبہ پایا ۔ (معرفۃ الصحابہ لابی نعیم جلد 2 صفحہ 248 ذکوان بن عبد قیس بن خالد حدیث 2621 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
غزوۂ اُحُد کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ کسی کو ذَکْوَان بن عَبْدِ قَیس کا علم ہے؟ حضرت علیؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک گھڑ سوار دیکھا جو ذَکْوَان کا پیچھا کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ ان کے قریب پہنچ گیا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اگر آج تم زندہ بچ گئے تو میں نہیں بچ سکوں گا۔ اس نے حضرت ذَکْوَان ؓجو کہ پیادہ پا تھے پر حملہ کر کے آپؓ کو شہید کر دیا اور انہوں نے عرض کیا کہ یہ کہتے ہوئے آپؓ پر وار کر رہا تھا کہ دیکھو میں ابنِ عِلَاجْ ہوں۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کی ٹانگ پر اپنی تلوار مار کر نصف ران سے کاٹ ڈالا۔ پھر اسے گھوڑے سے اتارا اور اسے قتل کر دیا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ وہ اَبُو الْحَکَم بن اَخْنَس تھا۔ (کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 245 باب غزوہ احد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)