حضرت رِفَاعَہ بن رافع بن مالک بن عَجْلَان
یہ بھی انصاری ہیں۔ ان کی وفات حضرت امیر معاویہ کی امارت کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ حضرت رِفَاعَہ بن رافع بن مالک بن عَجْلَان۔ ان کی کنیت ابومُعَاذ ہے۔ والدہ ام مالک بنت اُبَی بن سَلول تھیں جو عبداللہ بن اُبَی بن سَلول سردار المنافقین کی بہن تھیں۔ یہ بیعت عقبہ میں شریک تھے۔ غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور بیعت رضوان اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ کے دو بھائی تھے خلَّادبن رافع اور مالک بن رافع۔ یہ بھی غزوہ بدر میں شامل تھے۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 279 رفاعہ بن رافعؓ رامطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 447 رفاعہ بن رافعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت معاذ نے اپنے باپ حضرت رِفَاعَہ بن رافع سے روایت کی ہے اور ان کے باپ اہل بدر میں سے تھے، انہوں نے کہا کہ جبرئیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا آپ مسلمانوں میں اہل بدر کو کیا مقام دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ بہترین مسلم یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدرا حدیث 3992)
ملائکہ کس طرح جنگ میں شریک ہوئے؟ حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب نے بخاری کی جو شرح لکھی ہے بخاری کی اس میں ان فرشتوں کے شریک ہونے کے حوالے سے جو وضاحت بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ (الانفال: 13) کہ یہ وہ وقت تھا جب تیرا رب ملائکہ کو بھی وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ پس مؤمنوں کو ثابت قدم بناؤ۔ میں کفار کے دلوں میں رعب ڈالوں گا۔ پس اے مومنو تم ان کی گردنوں پر حملے کرتے جاؤ اور ان کے پور پور پر ضرب لگاتے جاؤ۔ ضرب الْاَعْنَاق اور ضربُ الرِّقَاب اور ضَرْبُ کُلَّ بَنَان سے مراد زور دار حملہ ہے جس میں نشانے کی صحت ملحوظ ہے۔‘‘اس سے ملتی جلتی دو تین روایتیں ہیں ان کے بارے میں شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’روایات زیر باب میں فرشتوں کی موجودگی اور مشاہدے کا جو ذکر ہے وہ از قبیل مکاشفات ہے۔ (یعنی مکاشفہ کی صورت میں ہے) اور ان کی جنگ بھی اس قسم کی ہے جو اُن کے مناسب حال ہے۔ (یعنی جو فرشتوں کے مناسب حال جنگ ہوتی ہے وہ ہے) نہ تیر و تفنگ کی۔ (فرشتوں نے کوئی تیر اور تلواریں نہیں اٹھائی تھیں۔) اور ان کا مشاہدہ روحانی بینائی سے ہوتا ہے، نہ جسمانی آنکھ سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مشاہدہ فرمایا اور صحابہ کرام نے بھی اور ایسا ہی مشاہدہ اولیاء اللہ کو بھی ہوتا ہے۔ (کہ ملائکۃ اللہ کس طرح لڑتے ہیں ) ملائکۃُ اللہ ہی کے تصرف میں سے تھا (یہ وضاحت شاہ صاحب کرتے ہیں ) کہ عمائد قریش واقعہ نخلہ سے مشتعل ہو کر اپنے طیش میں آپے سے باہر ہو گئے اور یہی واقعہ بعد کی جنگوں کا ایک سبب بنا جن میں کفار قریش کی ہلاکت سے متعلق تقدیر الٰہی پوری ہوئی۔ ملائکۃ اللہ کا طریق کار ہمارے طریقہ کار سے جدا اور ان کا اسلوب جنگ ہمارے اسلوب جنگ سے نرالا ہے۔ بدر کے مقام پر دشمن کا عَقَنْقَلْ (تودۂ ریگ) کے فراز میں پڑاؤ کرنا (وہ اونچائی پر تھے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نشیب وادی میں اترنا اور صحابہ کرام کی قلیل تعداد کا دشمن کی نظر سے اوجھل رہنا، بادو باراں کا ظہور، (بارش ہو گئی۔ اس کا ظہور ہونا) صحابہ کرام کا ایک ایک تیر کا اپنے نشانے پر ٹھیک بیٹھنا۔ (جو بھی تیر صحابہ چلاتے تھے وہ نشانے پر صحیح بیٹھتا تھا۔ اس کا صحیح بیٹھنا) اور کاری ثابت ہونا، دشمن کی سراسیمگی اور صحابہ کرام کی دلجمعی۔ (دشمن پریشان تھا اور صحابہ کرام بڑی مستقل مزاجی اور دلجمعی سے جنگ لڑ رہے تھے۔) یہ سب ملائکۃ اللہ کے تصرف کا کرشمہ تھا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دی تھی کہ اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ (الانفال: 10) کہ اور اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے التجائیں کرتے تھے اس پر تمہارے رب نے تمہاری دعاؤں کو سنا اور کہا کہ میں تمہاری مدد ہزاروں فرشتوں سے کروں گا جن کا لشکر کے بعد لشکر بڑھ رہا ہو گا۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’دعائے نبوی کی قبولیت سے ظاہری اسباب میں جو جنبش پیدا ہوئی اس کے اندر ایک عجیب تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے حصوں پر یکجائی نظر ڈالنے سے ملائکۃ اللہ کا لشکر بیکراں کارفرما نظر آتا ہے۔ (آپ بیان کرتے ہیں کہ)کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نازک گھڑی میں بحفاظت مکہ مکرمہ سے نکالا اور کس نے اہل مکہ کو غافل رکھا اور پھر کس نے انہیں غار ثور تک لا کر آپ کے تعاقب سے قریش کو ناامید واپس لوٹا دیا اور کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جو اسلام کی ترقی کا اہم مرکز بنا۔‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ ’’حضرت عباس کا ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں بحالت شرک رہنا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی ہمدردی رکھنا اور آپ کو مدینہ منورہ میں قریش مکہ کے بدارادوں اور منصوبوں سے آگاہ کرتے رہنا (یعنی حضرت عباس کے ذریعہ سے)۔ یہ بھی ملائکۃ اللہ کے تصرف کا ایک حصہ ہے۔‘‘ (یہ ملائکہ اس طرح کام کرتے ہیں )۔ ان سب واقعات کے پس پردہ ملائکہ ہی کی تحریک کارفرما تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور فتح و ظفر مندی کا پس منظر ایمان افروز آیت اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ (الانفال: 10) کی تفسیر پیش کرتا ہے۔‘
پھر شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ ’’میں نے صحیح بخاری مکمل حضرت خلیفہ اول حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے اور اسی طرح قرآن مجید بھی کئی بار درساً درساً سنا اور پڑھا ہے۔ آپ (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاول) ملائکۃ اللہ کے تعلق میں فرمایا کرتے تھے کہ نور الدین کو بھی ملائکۃ اللہ سے ہمکلام ہونے کا موقع ملا ہے اور نظام مَلکی بہت وسیع نظام ہے۔ انسان کے قویٰ اور ملکات میں سے ہر قوت و ملکہ کے لئے بھی ملائکہ متعین ہیں۔ قوت بصر و بصیرت، قوت سمع و سماعت، قوت لمس و بطش اور عقل و شعور اور قوائے مفکّرۃ و مدبرّہ کے ساتھ اگر ملائکۃ اللہ کی مدد اور ہم آہنگی نہ ہو تو یہ قوتیں بیکار بلکہ نقصان دہ ہو جاتی ہیں۔‘‘ (ساری انسانی استعدادیں اور قوتیں جو ہیں وہ فرشتوں کی وجہ سے ہی کارآمد ہوتی ہیں۔) پھر لکھتے ہیں کہ ’’تیر یا گولی کی شست و نشست اسی وقت اپنے نشانے پر راس آ سکتی ہے جب عقل و شعور اپنے ٹھکانے پر اور دور و نزدیک کے فاصلے کا اندازہ صحیح ہو۔ اوسان بجا ہوں۔ قوت قلبیہ برقرار ہو ورنہ تیر خطا جائے گا۔‘‘ لکھتے ہیں کہ (خلیفہ اول) ’’فرمایا کرتے تھے کہ ایک ایک ذہنی اور جسمانی قوت کے ساتھ ملائکۃ اللہ متعین ہیں اور ان کا تعلق ہر انسان کی ہر قوت سے مختلف حالات کفر و ایمان میں کم و بیش ہوتا ہے۔ قرآن مجیدنے ان کی تعداد غزوہ بدر کے ذکر میں تین ہزار اور غزوہ اُحد میں پانچ ہزار بتائی ہے۔ یہ فرق موقع و محل کے اختلاف اور اہمیتِ فرضِ منصبی کی وجہ سے ہے۔ جنگ بدر میں دشمنوں کی تعداد کم اور جنگ اُحد میں زیادہ اور اسی نسبت سے خطرہ بھی زیادہ اور ملائکہ کی حفاظت بھی زیادہ تعداد میں نازل کئے جانے کا وعدہ ہے۔ فرماتا ہے وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ (آل عمران: 127) کہ موعودہ نصرت الٰہی کا ظہور اللہ تعالیٰ کی صفت عزیزیت اور صفت حکیمیت سے ہے۔ یہ دونوں صفتیں حسن تدبیراور کامل غلبہ و استحکام کی متقاضی ہیں جن میں اسباب نصرت کے تمام حلقے ایک دوسرے سے پیہم پیوست ہوتے ہیں۔ ان میں تسلسل واحکام پایا جاتا ہے اور وہ محکم تدبیر الٰہی سے قَوِی و مضبوط کئے جاتے ہیں۔‘‘ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدرا جلد 8 صفحہ71 تا 73 نظارت اشارت ربوہ)
تو یہ ہے وہ ساری اس علم کی گہرائی جو ملائکۃ اللہ کے جنگ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے بھیجے تھے جو جنگ کر رہے تھے نہ یہ کہ فرشتے خود مار رہے تھے۔ اور بعضوں کے نزدیک تو یہ بھی روایتوں میں ہےکہ فرشتوں نے جن کو مارا اور جن کو زخم لگائے ان کی پہچان بالکل علیحدہ تھی اور جو صحابہ کے ذریعہ سے لوگوں کو زخم پہنچ رہے تھے ان کی پہچان علیحدہ تھی۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الغازی باب شہود الملائکۃ بدرا جلد 7صفحہ 312 حدیث 3992 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
یہ غلط چیز ہے۔ اصل یہی ہے کہ فرشتے انسانی قویٰ کو صحیح طرح رہنمائی کرتے ہیں اور ان کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور فرشتوں کی طرف سے جب یہ ہو رہا ہوتا ہے تو وہی فرشتوں کا لڑنا ہے۔
حضرت یحيٰ نے مُعاذ بن رِفَاعَہ بن رافع سے روایت کی ہے۔ حضرت رِفَاعَہ اہل بدر میں سے اور ان کے والد حضرت رافع عقبہ میں بیعت کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ حضرت رافع اپنے بیٹے حضرت رِفَاعَہ سے کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ بات خوش نہ کرتی کہ بجائے بدر میں شریک ہونے کے مَیں عقبہ میں بیعت کرنے والوں میں شامل ہوتا۔ یعنی یہ بات میرے لئے بہت بڑی بات ہے، میرے لئے یہ زیادہ قابل اعزاز ہے کہ میں جنگ بدر میں شامل ہوا بہ نسبت اس کے کہ بیعت عقبہ میں مَیں نے بیعت کی۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکۃ بدرا حدیث 3993)
ایک بہت بڑا اعزاز مجھے جنگ بدر میں شامل ہو کےملا۔ حضرت رِفَاعَہ بن رافع جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی کے ہمراہ تھے۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بصرہ کی طرف لشکر کے ہمراہ نکلے تو حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کی اہلیہ اُمّ الفضل بنتِ حارث نے حضرت علیؓ کو ان کے خروج کی اطلاع دی۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا حیرت ہے کہ لوگوں نے حضرت عثمانؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا اور بغیر اکراہ کے میری بیعت کی۔ میں نے زبردستی تو نہیں کہا تھا کہ بیعت کرو۔ لوگوں نے میری بیعت کی اور طلحہؓ اور زبیرؓ نے بھی میری بیعت کی اور اب وہ لشکر کے ہمراہ عراق کی طرف نکل پڑے ہیں۔ اس پر حضرت رِفَاعَہ بن رافع نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ہمارا گمان تھا کہ ہم لوگ یعنی انصار اس خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور ہمارا مقام دین میں بڑا ہے مگر آپ لوگوں نے کہا کہ ہم مہاجرین اوّلین ہیں اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست اور قریبی ہیں اور ہم تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی میں ہم سے مزاحمت نہ کرو اور تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم نے اس وقت تمہیں اور (خلافت کے) امر کو چھوڑ دیا تھا۔ (ہم نے پھر بحث نہیں کی اور بالکل کامل اطاعت کے ساتھ خلافت کی بیعت کر لی۔)‘‘اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہم نے دیکھا کہ حق پر عمل ہو رہا ہے اور کتاب اللہ کی پیروی کی جا رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قائم ہے تو ہمارے پاس راضی ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہ تھا اور اس کے سوا ہمیں کیا چاہئے تھا اور ہم نے آپ کی بیعت کی اور پھر اس سے رجوع نہیں کیا۔ (پھر پیچھےہٹے نہیں۔) اب آپ سے ان لوگوں نے مخالفت کی ہے جن سے آپ بہتر ہیں اور زیادہ پسندیدہ ہیں۔ پس آپ ہمیں اپنے حکم سے مطلع فرمائیں۔ اسی اثناء میں حَجَّاجْ بن غَزِیَّہ اَنصاری آئے اور انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! اس معاملے کا تدارک اس سے پہلے کرنا چاہئے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔ میری جان کو کبھی چین نصیب نہ ہو، اگر میں موت کا خوف کروں۔ اے انصار کے گروہ! امیر المومنین کی دوسری دفعہ مدد کرو جس طرح تم نے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی۔ اللہ کی قسم! یہ دوسری مدد پہلی مدد کی مانند ہو گی سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے پہلی مدد افضل ہے۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 280-281 رفاعۃ بن رافعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
بہرحال ان کی وفات حضرت امیر معاویہ کی امارت کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (الاستیعاب جلد 2صفحہ 497 رفاعہ بن رافعؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)