رھے صحبت ہمیں اہلِ وفا کی

نصیر احمد قمر

گزشتہ ماہ سیدناحضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع جماعت احمدیہ جرمنی کے دور ہ پر تشریف لے گئے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ کی طرح حضور انور کا یہ للہی سفر بھی احباب جماعت کے لئے اور جماعت جرمنی کے لئے خصوصیت سے بہت سی برکتوں کاموجب ہوا۔ ہزارہا افراد نے اپنے محبوب امام کی زیارت اورملاقات کے ذریعہ اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں،آپ کے زندگی بخش خطبات و خطابات اور مجالس سوال وجواب میں فرمودہ ارشادات سے علمی و روحانی طورپر فیضیاب ہوئے۔ سینکڑوں افراد مردوزن اور بچوں نے شرف ملاقات حاصل کرکے اور آپ کی مبارک صحبت میں چند گھنٹے گزار کر آپ کی خصوصی توجہات اور دعاؤں سے اپنے دلوں کو شاداب کیا۔ اس نہایت مبارک سفر کی مختصر روئیداد الفضل انٹرنیشنل میں شائع کی جا رہی ہے۔

اس وقت ہم اپنے قارئین کی توجہ ایک خاص نکتہ کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں جس کا ذکر حضور انورایدہ اللہ نے ۱۵؍مئی کو اطفال الاحمدیہ جرمنی کے ساتھ منعقدہ مجلس سوال وجواب کے دورا ن ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا۔ ایک بچے کے اس سوال پر کہ ہم اپنے سکول کی کلاس کے ساتھ سیر پرجا سکتے ہیں یا نہیں۔ حضور ایدہ اللہ نے فرمایاکہ احمدی بچوں کے لئے اس میں ایک خطرہ ہوتاہے کہ وہ بچوں کو اپنے غیر اسلامی ماحول میں چلائیں گے تو بعض دفعہ ان کی گندی روایات بھی بیچ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے میں احتیاط کا کہاکرتا ہوں۔ حضور انور نے اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ اگر سکول میں کئی احمدی بچے ہوں تو ان کا حفاظتی پروگرام یہ ہے کہ وہ سارے اکٹھے رہیں اوراس کے نتیجہ میں انہیں خدا کے فضل سے غیروں سے دفاع کاایک ذریعہ مل جاتاہے ۔مغربی معاشرہ میں رہنے والے والدین خوب جانتے ہیں کہ اس ماحول میں مادرپدرآزادی کے نتیجہ میں کیسی کیسی گندی اوراخلاق سوز روایات قائم ہو چکی ہیں اور فضااتنی زہر آلود ہو چکی ہے کہ معصوم بچوں کو اس میں بغیر نگرانی کے اور بغیر حفاظتی ذرائع اختیارکرنے کے کھلا چھوڑ دینا دینی اور دنیاوی ہر لحاظ سے نہایت خطرناک اور مہلک ہے ۔اس لئے حضور اید ہ اللہ نے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جہاں کئی احمدی بچے ہوں انہیں چاہئے کہ وہ اکٹھے رہیں یہ ان کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہوگا۔

قرآن مجید نے اس مضمون کو باربار مختلف پیرایہ میں تاکیدی الفاظ میں بیان فرمایاہے اور مومنوں کو حکم دیاہے کہ وہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنے گہرے دوست نہ بنائیں تاایسانہ ہو کہ ان کے بداثرات ان پرپڑنے لگیں۔بعض لوگوں کی نفسیات کو پیش نظررکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا وہ ان کے ہاں سے عزت کے خواہاں ہیں؟ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حقیقی عزت تو تمام تر صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ۔دوسری جگہ فرمایا کہ عزت تو اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے۔

صحبت کا اثر ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ جس صحبت میں ، جس ماحول میں کوئی بیٹھتاہے رفتہ رفتہ اس کارنگ اس پر چڑھنے لگتاہے اور ان لوگوں کے اخلاق اور عادات و اطوارکا اثر اس پر ظاہر ہونے لگتاہے ۔ اسی لئے مومنوں کو حکم ہے کہ تم ہمیشہ صادقوں کی صحبت اختیار کرو ۔ قرآن مجید نے یہ تعلیم دی ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ اور قرآن مجید پر سچا اورحقیقی ایمان رکھنے والے ہوں وہ ایسے لوگوں کو اپنا ولی اور دوست نہیں بنا سکتے جو مومنوں کے دین کو ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بنانے والے ہوں۔ بلکہ یہاں تک ارشاد ہے کہ اگر تمہارے حقیقی ماں باپ اور بھائی بھی ایسے ہوں جو ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والے ہوں تو انہیں اپنا دوست نہ بناؤ اور ان سے احتراز کرو۔ سورۃ التوبہ آیت ۶۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں کے خلاف تعلیم دیتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو (خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے )روکتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو ترک کردیاہے سو اللہ نے بھی ان کو ترک کر دیاہے ۔ منافق یقیناًاطاعت سے نکلنے والے ہیں‘‘۔

دوسری طرف مومنوں کے متعلق فرمایا :’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وہ نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ ضرور ان پر رحم کرے گا۔ اللہ غالب اوربڑی حکمت والاہے ۔(التوبہ:۷۱)۔

ان آیات کریمہ کی روشنی میں ہر شخص اپنا جائزہ لے سکتاہے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا ، اس کے تعلقات، اس کی دلچسپیاں کن لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اگر تو وہ ایسے ہیں جو نیکی کاحکم دینے والے ، بری باتوں سے روکنے والے ،نمازوں کو قائم کرنے والے ،چندوں میں باقاعدہ اور انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اور اللہ اوراس کے رسول کے اطاعت گزار ہیں تو وہ محفوظ ہے اور اسے بشارت ہوکہ خدائے عزیزو حکیم کا اس کے لئے وعدہ ہے کہسَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہ ۔ اللہ ضرور ان پررحم فرمائے گا اور وہی عزیز ہے اس لئے وہ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی عزت بخشے گا اور آخرت میں بھی ۔

حدیث نبوی ہے کہ اَلْمُؤمِنُ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضًا ۔ مومن ایک دوسرے کی مضبوطی اور تقویت کاموجب ہوتے ہیں۔ پس وحدت جمہوری یاامام وقت کے ساتھ وابستگی اور نظام جماعت سے زندہ اور پختہ تعلق ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا ایک نہایت اہم ذریعہ ہے۔ یہ ایک کھلی کھلی حقیقت ہے کہ جو لوگ خود اور اپنے بچوں کو بھی نظام جماعت سے وابستہ رکھتے ہیں اور ان کی دوستیاں سچے مخلص احمدیوں کے ساتھ ہوتی ہیں وہ خدا کے فضل سے دنیاوی ہلاکتوں سے بچائے جاتے ہیں اور انہیں دین و دنیا کی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں۔ فی زمانہ جبکہ دجال نے ہر طرف اپنے شیطانی جال پھیلا رکھے ہیں ہمیں پہلے سے بھی زیادہ مستعدی اور چوکسی کے ساتھ اپنے اندر حقیقی وحدت پیدا کرتے ہوئے ایک بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص بننا ہوگا تا کہ کو ئی خلا ایسا باقی نہ رہے جہاں سے شیطان ہم پر یا ہماری نسلوں پرحملہ آور ہو کرکسی قسم کاگزند پہنچا سکے ۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ تیسرا پہلو حصول نجات اور تقویٰ کا صادقوں کی معیت ہے جس کاحکم قرآن شریف میں ہے۔ کُونُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن۔ یعنی اکیلے نہ رہو کہ اس حالت میں شیطان کا داؤ انسان پرہوتاہے بلکہ صادقوں کی معیت اختیار کرو اور ان کی جمعیت میں رہو تا کہ ان کے انوارو برکات کا پرتو تم پر پڑتارہے اور خانۂ قلب کے ہر ایک خس و خاشاک کو محبت الٰہی کی آگ سے جلا کر نورالٰہی سے بھردے‘‘۔(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۲۶۹ حاشیہ)

؂

رہیں ہم دُور ہر بدکیش و بد سے

رہے صحبت ہمیں اہلِ وفا کی

بنائیں دل کو گلزارِ حقیقت

لگائیں شاخ زہد و اتّقا کی

رسول اللہ ہمارے پیشوا ہوں

ملے توفیق اُن کی اقتدا کی

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍جون۱۹۹۹ءتا۱۷؍جون ۱۹۹۹ء)