حضرت زبیر بن عَوَّامؓ

خطبہ جمعہ 21؍ اگست 2020ء

حضرت زبیربن عوامؓ کے والد کا نام عَوَّام بن خُوَیلِد تھا اور والدہ کا نام صَفِیَّہ بنت عبدالْمُطَّلِبْ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ حضرت زبیرؓ کا سلسلہ نسبت قُصَیّ بن کِلَابْ پر جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت زبیرؓ کی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کے ساتھ شادی ہوئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ یوں حضرت زبیر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف بھی تھے۔ اس طرح حضرت زبیر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نسبتیں حاصل تھیں۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کی والدہ حضرت صفیہؓ نے آپؓ کی کنیت اپنے بھائی زبیر بن عبدالمطلب کی کنیت پر ابوطاہر رکھی تھی لیکن حضرت زبیرؓ نے اپنی کنیت اپنے بیٹے عبداللہ کے نام کی مناسبت سے رکھی جو بعد میں زیادہ مشہور ہو گئی۔ حضرت زبیرؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے والوں میں وہ چوتھے یا پانچویں شخص تھے۔ حضرت زبیرؓ نے بارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ بعض روایات کے مطابق آپ نے آٹھ یا سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حضرت زبیرؓ اُن دس خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جن کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی اور ان چھ اصحابِ شوریٰ میں سے ایک ہیں جنہیں حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے قبل اگلا خلیفہ منتخب کرنے کے لیے نامزد فرمایا تھا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ307 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ457 ذکر اسمہ الزبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) (سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 67 زبیر بن العوام دار الاشاعت کراچی)

جب حضرت زبیرؓ کے والد عَوَّام کا انتقال ہوا تو نَوفَل بن خُوَیلِد اپنے بھتیجے زبیر کی پرورش کرتے تھے اور حضرت صفیہؓ جو حضرت زبیرؓ کی والدہ تھیں انہیں مارتی تھیں یا ڈانٹتی تھیں۔ اس وقت حضرت زبیر چھوٹی عمر کے تھے تو نوفل نے، ان کے چچا نے حضرت صفیہؓ کو کہا کہ کیا اس طرح بچوں کو مارا جاتا ہے، سختی کی جاتی ہے؟ تم تو ایسے مارتی ہو جیسے اس سے ناراض ہو۔ اس پر حضرت صفیہؓ نے یہ اشعار پڑھے کہ

مَنْ قَالَ إِنِّی أُبْغِضُہٗ فَقَدْ کَذَبْ

وَ إِنَّمَا أَضْرِبُہٗ لِکَیْ یَلَبْ

وَ یَہْزِمَ الْجَیْشَ وَ یَأتِیَ بِالسَّلَبْ

وَ لَا یَکُنْ لِمَالِہٖ خَبْاٌ مُخَبْ

یَأْکُلُ فِی الْبَیْتِ مِنْ تَمْرٍ وَّ حَبْ

کہ جو اس بات کا قائل ہے کہ میں اس سے ناراض ہوں تو وہ جھوٹا ہے۔ میں اس پہ اس لیے سختی کرتی ہوں اسے مارتی ہوں تا کہ یہ بہادر بنے اور لشکروں کو شکست دے اور مقتول کا سامان لے کر لوٹے اور اپنے مال کے لیے چھپ کر نہ بیٹھے کہ گھر میں بیٹھا کھجوریں اور اناج کھاتا پھرے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ458 ذکر اسمہ الزبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

بہرحال یہ سوچ تھی ان کی اور اس کے مطابق ان کا تربیت کا طریقہ تھا کہ بہادر بنانے کا یہ طریقہ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ بڑا اچھا طریق ہے اور عموماً تو آج کل یہی دیکھا جاتا ہے کہ اس سے اعتماد میں کمی آتی ہے۔ بہرحال اس وقت جو سختی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس مار کے بداثرات سے بچایا۔ ماں کی مامتا مشہور ہے۔ پیاربھی کرتی ہوں گی۔ صرف مارتی ہی نہیں ہوں گی۔ اور بعد کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ واقعی ان میں بہادری اور جرأت پیدا ہوئی۔ کس وجہ سے ہوئی اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بہرحال کوئی منفی اثر بچپن کی اس مار کا ان پہ نہیں ہوا۔ یہاں اگر آج کل کسی نے آزمانے کی کوشش کی تو یہاں تو سوشل سروس والے فوراً آ جائیں گے اور بچوں کو لے جائیں گے۔ اس لیے مائیں کہیں یہ طریقہ آزمانے کی کوشش نہ کریں۔ جب حضرت زبیرؓ نے اسلام قبول کر لیا تو آپؓ کے چچا آپ کو ایک چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے تھے تا کہ وہ اسلام چھوڑ کر کفر میں لوٹ جائیں مگر آپ یہی کہتے تھے کہ اب مَیں کفر میں نہیں لوٹوں گا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ457 ذکر اسمہ الزبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے بارے میں اس واقعےکو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’زبیربن عوامؓ ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے۔ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبردست جرنیل ثابت ہوئے۔ ان کا چچا بھی ان کو خوب تکلیفیں دیتا تھا۔ چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دھواں دیتا تھا تا کہ ان کا سانس رک جائے اور پھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے بازآؤ گے یا نہیں؟ مگر وہ ان تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اس سے انکار نہیں کر سکتا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد20صفحہ196-197)

ہِشام بن عُروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر جب بچے تھے تو مکے میں ایک شخص سے لڑائی ہو گئی۔ اس شخص نے کوئی سختی کی ہو گی۔ یہ چھوٹے تھے وہ بڑا مرد تھا۔ بہرحال اس لڑائی میں انہوں نے ان شخص کا ہاتھ توڑ دیا اور سخت چوٹ پہنچائی۔ بہرحال اس شخص کو سواری پہ لاد کر حضرت صفیہ کے پاس لایا گیا کہ دکھائیں۔ اس سے کہیں کہ آپ کے بیٹے نے اس کا یہ حال کیا ہے۔ حضرت صفیہ نے پوچھا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت زبیر نے اس سے لڑائی کی ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ قصور کس کا ہے۔ بہرحال لڑائی ہوئی تو حضرت صفیہ نے حضرت زبیر کی اس دلیری پر شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ

کَیْفَ رَأَیْتَ زَبْرًا

أَ اَقِطًا حَسِبْتَہٗ اَمْ تَمْرًا

اَمْ مُشْمَعِلًّا صَقْرًا

کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا؟ کیا اسے پنیر اور کھجور کی طرح سمجھا ہوا تھا کہ آسانی سے اسے کھا جاؤ گے۔ جو چاہو گے اس سے کر لو گے۔ وہ تو تیز جھپٹنے والے عقاب کی طرح ہے۔ تم نے اس کو تیزجھپٹنے والے عقاب کی طرح پایا ہو گا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ74-75 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت زبیرؓ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شریک ہوئے اور جب آپؓ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت مُنْذِر بِن محمدؓ کے پاس ٹھہرے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ75 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت زبیر بن عوامؓ کی بیوی تھیں ان سے مروی ہے کہ جب مَیں مکے سے ہجرت کر کے روانہ ہوئی تو مَیں امید سے تھی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے قبا میں پڑاؤ کیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ وہاں پیدا ہوا۔ پھر میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپؐ نے اسے اپنی گود میں رکھا۔ پھر آپؐ نے ایک کھجور منگوائی، اسے چبایا۔ پھر اس بچے کے منہ میں پہلے لعاب ڈالا۔ پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپؐ نے کھجور چبا کر اس کے منہ میں ڈالی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی اور وہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ واصحابہٖ الی المدینۃ حدیث نمبر 3909)

صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کے بیٹے کا نام عبداللہ رکھا تھا۔ جب وہ سات یا آٹھ سال کے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے لیے آئے اور انہیں اس بات کا ان کے والد حضرت زبیرؓ نے حکم دیا تھا کہ جاؤ بیعت کرو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے تبسم فرمایا۔ آپؐ مسکرائے اور پھر اس کی بیعت لی۔ (صحیح مسلم کتاب الآداب باب استحباب تحنیک المولود عند الولادۃ …… حدیث نمبر 2146)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکے میں مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تو حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب مہاجرین کی انصار سے مؤاخات قائم فرمائی تو حضرت سَلَمہ بن سُلَامہؓ ان کے دینی بھائی ٹھہرے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ307 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

حضرت زبیرؓ نے اپنے بیٹوں کے نام شہداء کے نام پررکھے تھے تا کہ شاید اللہ انہیں شہادت نصیب کرے۔ عبداللہ کا نام عبداللہ بن جَحشؓ کے نام پر۔ مُنْذِر کا نام منذر بن عَمروؓ کے نام پر۔ عروہ کا نام عُروہ بن مسعودؓ کے نام پر۔ حمزہ کا نام حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے نام پر۔ جعفر کا نام جعفر بن ابوطالبؓ کے نام پر۔ مُصعب کا نام مصعب بن عُمیرؓ کے نام پر۔ عُبَیدہ کا نام عبیدہ بن حارث کے نام پر۔ خالد کا نام خالد بن سعید کے نام پر اور عَمرو کا نام عمرو بن سعید کے نام پر رکھا۔ حضرت عمرو بن سعید جنگِ یرموک میں شہید ہوئے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 74 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)

اور یہ پتہ نہیں کس حد تک صحیح ہے۔ کیونکہ حضرت عبداللہ کا جو پیدائش کا وقت ہے تو اگر وہ پہلے بچے تھے تو کس سن میں پیدا ہوئے؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس وقت کسی کی شہادت ہو بھی چکی تھی کہ نہیں لیکن بہرحال ان بزرگ لوگوں کے نام پر انہوں نے یہ نام رکھے۔

عُروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ اتنے دراز قد تھے کہ جب آپؓ سوار ہوتے تو آپؓ کے پاؤں زمین پر لگتے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 458 ذکر اسمہ الزبیر: زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1995ء)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد یعنی حضرت زبیرؓ سے پوچھا کہ جس طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہوا سنتا ہوں۔ بہت ساری روایتیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ آپ کو نہیں سنتا اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جب سے مَیں نے اسلام قبول کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 451مسند زبیر بن العوامؓ حدیث 1413عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی جھوٹ منسوب کرتے تھے بلکہ یہ کہ میں اپنے لیے یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ احتیاط کروں۔ حالانکہ وہاں تو جان کے منسوب کی لیکن اتنے محتاط تھے کہتے تھے کہیں غلطی سے بھی کوئی ایسی بات منسوب نہ کر دوں اور پھر کہیں سزا پانے والوں میں سے نہ ہو جاؤں۔ یہ ان کی احتیاط تھی۔

حضرت سعید بن مسیّبؓ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر بن عوامؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی تلوار کو اللہ کی راہ میں نیام سے نکالا تھا۔ ایک دفعہ حضرت زبیرؓ مَطَابِخْ، مکہ میں ایک مقام کا نام ہے اس کی گھاٹی میں آرام کر رہے تھے کہ اچانک آواز آئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ فوراً اپنی تلوار کو نیام سے نکالتے ہوئےاپنے گھر سے نکلے اس جگہ سے جہاں وہ آرام کر رہے تھے وہاں سے نکلے۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور پوچھا زبیرؓ رک جاؤ، رک جاؤ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے سنا تھا، ایک آواز آئی تھی مجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر مجھے شہید کر دیا تو پھر تم کیا کر سکتے تھے؟ کہنے لگے اللہ کی قسم ! مَیں نے ارادہ کیا کہ تمام اہل مکہ کو قتل کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے لیے اس وقت خصوصی دعا فرمائی۔ ایک روایت میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تلوار کے لیے بھی دعا فرمائی۔

حضرت سعید بن مُسَیِّبْ ؓ کہتے ہیں کہ مَیں امید کرتا ہوں کہ ان کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔ (کتاب فضائل الصحابۃ لامام احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 733فضائل الزبیر بن العوام دار العلم الطباعۃ و النشر السعودیۃ 1983ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 512 زبیر بن العوام دار الجیل، بیروت1992ء) (معجم البلدان جلد 5 صفحہ 171 دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت زُبیرؓ غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ غزوۂ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپؐ سے موت پر بیعت کی۔ فتح مکہ کے موقع پر مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا حضرت زبیرؓ کے پاس تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 77 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)

بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک پر حضرت زبیرؓ سوار تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عُروہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیرؓ کے جسم پر تلوار کے تین بڑے گہرے زخم تھے جن میں مَیں اپنی انگلیاں ڈالا کرتا تھا یعنی گہرے زخم تھے۔ دو زخم غزوۂ بدر کے موقع پر آئے تھے اور ایک زخم جنگِ یرموک کے موقعے پر آیا تھا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 459ذکر اسمہ الزبیر: زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر بن عوامؓ زرد عمامے کی وجہ سے پہچان لیے جاتے تھے۔ زرد عمامہ باندھے ہوتے تھے۔ جنگ بدر میں حضرت زبیرؓ نے زرد عمامہ باندھا ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا کہ فرشتے زبیرؓ کے مشابہ اترے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

یعنی جو اللہ تعالیٰ نے مدد کے لیے بھیجے ہیں وہ بھی اسی عمامے میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہِشام بن عُروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ کہتے تھے کہ غزوۂ بدر کے دن عُبَیدہ بن سعید سے میری مڈھ بھیڑ ہوئی اور اس نے ہتھیاروں کو پوری طرح اوپر پہنا ہوا تھا۔ اس کی صرف آنکھیں ہی نظر آتی تھیں اور اس کی کنیت اَبُو ذَات الکَرِشْ تھی۔ وہ کہنے لگا میں اَبُو ذَات الکَرِشْ ہوں۔ یہ سنتے ہی میں نے اس پر برچھی سے حملہ کر دیا اور اس کی آنکھ میں زخم لگایا تو وہ وہیں مر گیا۔ اس زور سے ماری تھی کہ ہشام کہتے تھے مجھے بتایا گیا کہ حضرت زبیرؓ کہتے تھے کہ میں نے اپنا پاؤں اس پر رکھ کر پورا زور لگایا اور بڑی مشکل سے میں نے وہ برچھی کھینچ کر نکالی تو اس کے دونوں کنارے مڑ گئے تھے۔ عروہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برچھی حضرت زبیرؓ سے طلب فرمائی۔ انہوں نے آپؐ کو پیش کر دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت زبیرؓ نے اسے واپس لے لیا۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ برچھی طلب کی۔ حضرت زبیرؓ نے انہیں دے دی۔ جب حضرت ابوبکر فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے آپؓ سے وہ برچھی طلب کی اور آپؓ نے انہیں دے دی۔ جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے تو حضرت زبیرؓ نے واپس لے لی۔ پھر اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے ان سے وہ برچھی طلب کی اور حضرت زبیرؓ نے انہیں دے دی۔ جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو وہ حضرت علیؓ کی آل کو مل گئی۔ آخر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان سے لے لی اور وہ ان کے پاس رہی یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ شہید کر دیے گئے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب 12حدیث 3998)

حضرت زبیر بن عوامؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 450مسند زبیر بن العوام حدیث1408 عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت زبیرؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے دن ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو اچھا نہیں سمجھا کہ خاتون انہیں دیکھ سکے۔ بہت بری حالت میں مثلہ کیا گیا تھا اس لیے فرمایا کہ اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔ حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور ان کے شہداء کی لاشوں تک پہنچنے سے قبل ہی میں ان تک پہنچ گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر ہاتھ مار کر مجھے پیچھے دھکیل دیا۔ وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو میں تم سے نہیں بولتی۔ یعنی کہ تم سے میں نے کوئی بات نہیں کرنی۔ پس تم پرے ہٹ جاؤ اور نہ میں نے تمہاری بات سننی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں۔ یہ سنتے ہی وہ رُک گئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا گیا تووہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لیے لائی ہوں کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔ تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت صفیہؓ نے کہا مجھے یہ علم ہے کہ میرے بھائی کا مثلہ ہوا ہے اور یہ خدا کی راہ میں ہی ہوا ہے اور خدا کی راہ میں جو بھی سلوک حضرت حمزہؓ کے ساتھ ہوا ہے اس پر ہم کیوں نہ راضی ہوں۔ مَیں ان شاء اللہ صبر کروں گی اور اس کا اجر خدا سے چاہوں گی۔ حضرت زبیرؓ نے ماں کا یہ جواب سنا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفیہ کو بھائی کی لاش پر جانے دو۔ حضرت صفیہ آگے بڑھیں، بھائی کی لاش کو دیکھا اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دفن کرنے کا حکم دیا۔ پھر آگے راوی کہتے ہیں کہ جب ہم حضرت حمزہؓ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو۔ اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہؓ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی کو کفن دے دیں گے۔ اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے ہم نے قرعہ اندازی کی اور جن کے نام پر جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں دفنا دیا۔ تب بھی وہ پورا نہیں آیا تھا تو گھاس ڈالنی پڑی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 452مسند زبیر بن العوام روایت 1418عالم الکتب بیروت 1998ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 2 صفحہ 97 صفیہ و حزنھا علی حمزہ شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفى البابی بمصر1955ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 10 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ خندق کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے تو حضرت زبیرؓ نے عرض کی مَیں حاضر ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے۔ حضرت زبیرؓ نے پھر جواب دیا مَیں حاضر ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے۔ حضرت زبیرؓ نے عرض کیا کہ مَیں حاضر ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک شخص کو کہتے سنا جو کہتا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری کا بیٹا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ اگر تم حضرت زبیرؓ کی اولاد میں سے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔ دریافت کیا گیا کہ حضرت زبیرؓ کے علاوہ بھی اور کوئی تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حواری کہا جاتا تھا تو حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ میرے علم میں کوئی اَور نہیں ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 78 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کے دن مجھے اور عُمر بن اَبِی سَلَمہکو عورتوں میں مقرر کیا گیا۔ میں نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت زبیرؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہیں۔ میں نے بنو قریظہ کی طرف دو دفعہ یا تین دفعہ جاتے ہوئے انہیں دیکھا۔ جب میں لوٹ کر آیا تو میں نے کہا اے میرے والد! مَیں نے آپ کو اِدھر اُدھر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا بیٹا کیا تم نے واقعی مجھے دیکھا تھا؟ مَیں نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بنو قریظہ کے پاس کون جائے گا اور ان کی خبر لے کر میرے پاس آئے گا۔ یہ سن کر میں چلا گیا۔ جب مَیں لوٹا، جب واپس آ کے یہ رپورٹ دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں کا اکٹھا نام لیا یعنی فرمایا میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب الزبیر بن العوام حدیث 3720)

غزوۂ خیبر میں یہود کا مشہور سردار مَرْحَبْ حضرت محمد بن مَسْلَمہؓ کے ہاتھوں مارا گیا تو اس کا بھائی یاسر میدان میں آیا۔ اس نے مَنْ یُّبَارِز؟ کا نعرہ بلند کیا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا؟ حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے۔ حضرت صفیہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہؐ !معلوم ہوتا ہے کہ آج میرے بیٹے کو شہادت نصیب ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تیرا بیٹا اس کو مارے گا۔ حضرت زبیرؓ یاسر کے مقابلے کے لیے نکلے اور وہ حضرت زبیرؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔ (سیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 2 صفحہ 334 مقتل یاسر اخی مرحب شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفىٰ بمصر1955ء)

حضرت زبیرؓ ان تین لوگوں میں بھی شامل تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا پتہ کرنے بھیجا تھا جو کفار کے لیے حضرت حَاطِب بن ابی بَلْتَعہؓ کا خط لے کر جا رہی تھی۔ گو اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے لیکن اس حوالے سے یہاں بھی تھوڑا سا ذکر کر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ جب تم رُوْضَہ خَاخْ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہو گا۔ تم اس سے وہ خط لے کر واپس آ جانا۔ چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے یہاں تک کہ ہم رُوْضَہ خَاخْ پہنچے۔ یہ مکے اور مدینے کے درمیان ایک جگہ ہےاس کا نام ہے۔ وہاں ہمیں واقعۃً ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے۔ اس نے کہا میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ ہم نے اسے کہا کہ یا تو خود ہی خط نکال دو یا پھر ہم سختی کریں گے بلکہ تمہیں برہنہ کریں گے۔ جس حد تک بھی ہمیں جانا پڑا جائیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط کو جو کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ وہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کی طرف سے کچھ مشرکین ِمکہ کے نام تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلےکی خبر دی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ حاطب یہ کیا ہے؟ یہ تم نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے گا۔ میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا۔ البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں۔ میں نے سوچا کہ ان پر ایک احسان کر دوں۔ میں نےیہ کام جو ہے یہ کافر ہو کر یا مرتد ہو کر یا اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے نہیں کیا۔ صرف ان لوگوں پہ ایک احسان کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے میں نے کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سن کے فرمایا کہ تم نے سچ کہا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں کہا کہ تم سے اس نے سچ بیان کیا ہے۔ حضرت عمرؓ اس وقت بڑے غصے میں تھے اور غصے میں مغلوب ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیں کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غزوۂ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہومیں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ 251مسند علی بن ابی طالب حدیث 600 عالم الکتب بیروت 1998ء) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 136)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو حضرت زبیر بن عوامؓ فوج کے بائیں طرف تھے اور حضرت مقداد بن اَسْوَدؓ فوج کے دائیں حصے پر مقرر تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوئے اور لوگ مطمئن ہو گئے تو دونوں حضرات یعنی حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ اپنے گھوڑوں پر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ان کے چہروں سے اپنی چادرکے ساتھ غبار پونچھنے لگے اور فرمایا کہ میں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اور سوار کے لیے ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ جو ان دونوں کو کم دے اللہ اسے کم دے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 77 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت زبیرؓ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل نامی بت کے اوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو حضرت زبیرؓ نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان! یاد ہے احد کے دن جب مسلمان زخموں سے چُور ایک طرف کھڑے ہوئے تھے۔ تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا کہ اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ۔ ہبل کی شان بلند ہو۔ ہبل کی شان بلند ہو اور یہ کہ ہبل نے ہی تم کو احد کے دن مسلمانوں پر فتح دی تھی۔ آج دیکھتے ہو سامنے ہبل کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا زبیرؓ یہ باتیں اب جانے دو۔ آج ہم کو اچھی طرح نظر آ رہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اور خدا بھی ہوتا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا۔ پس یہی خدا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ346-347)

جنگ حُنَین کے دن قبیلہ ہَوَازَن کی غیر متوقع تیر اندازی سے اور اس وجہ سے بھی کہ آج لشکرِ اسلام میں دوہزار نومسلم بھی شامل تھے۔ ایسا وقت آیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے میدان میں رہ گئے۔ حضرت عباسؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام تھامے تھے۔ کافر سردار مالک بن عوف ایک گھاٹی پر شہسواروں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کچھ شہسوار ظاہر ہوئے۔ مالک بن عوف نے پوچھا یہ کیا نظر آ رہا ہے؟ اس کے ساتھیوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہیں اپنے نیزے گھوڑوں کے کانوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے کہا یہ بنو سُلَیم ہیں ان سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ چنانچہ وہ آئے اور وادی کی طرف نکل گئے۔ پھر دیکھا ایک اَور دستہ سواروں کا ظاہر ہوا۔ مالک نے پوچھا کیا دیکھتے ہو۔ اس نے کہا کچھ لوگ ہیں نیزے ہاتھ میں ہیں۔ اس نے کہا یہ اوس اور خزرج ہیں۔ اس نے کہا ان سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ وہ بھی جب گھاٹی کے قریب پہنچے تو بنو سُلَیم کی طرح وادی کی طرف چل پڑے۔ پھر ایک سوار نظر آیا۔ مالک نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا دیکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ایک شہسوار ہے۔ لمبا قد کندھے پر نیزہ ہے۔ سر پر سرخ پٹکا باندھے ہوئے ہے۔ مالک نے کہا یہ زبیر بن عوام ہے۔ لات کی قسم! اس کی تم سے مڈھ بھیڑ ہو گی۔ اب قدم مضبوط کر لو۔ جب حضرت زبیرؓ گھاٹی پر پہنچے۔ سواروں نے انہیں دیکھا تو حضرت زبیرؓ چٹان کی طرح ان کے سامنے ڈٹ گئے اور نیزے کے ایسے وار کیے کہ گھاٹی ان کافر سرداروں سے خالی کرا لی۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 52-53) (سیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 2 صفحہ 456 وصیہ مالک بن عوف لقومہ و لقا زبیر لھم شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفى بمصر1955ء)

عروہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جنگِ یرموک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کیا آپ حملہ نہیں کریں گے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کریں؟ حضرت زبیرؓ نے کہا اگر میں نے حملہ کیا تو تم پیچھے رہ جاؤ گے۔ انہوں نے کہا ہم پیچھے نہیں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے کفار پر اس زور سے حملہ کیا کہ ان کی صفیں چیرتے ہوئے نکل گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ کوئی ایک بھی نہ تھا۔ پیچھے مڑ کے جب دیکھا تو کوئی ایک بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ پھر وہ لوٹے تو کفار نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ان کے کندھے پر دو زخم لگائے جن میں وہ بڑا زخم بھی تھا جو جنگِ بدر میں ان کو لگا تھا۔ عروہ کہتے تھے کہ میں اپنی انگلیاں ان زخموں میں ڈال کر کھیلا کرتا تھا اور میں اس وقت چھوٹا تھا۔ عروہ کہتے ہیں کہ ان دنوں یرموک کی لڑائی میں حضرت زبیرؓ کے ساتھ عبداللہ بن زبیرؓ بھی تھے اور اس وقت وہ دس برس کے تھے۔ حضرت زبیرؓ انہیں گھوڑے پر سوارکر کے لے گئے تھے اور ایک شخص کو ان کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل حدیث 3975)

فتح شام کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ کی سرکردگی میں مصر پر حملہ ہوا۔ مصر کے فاتح حضرت عمرو بن عاص نے اسکندریہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا تو اسکندریہ کے جنوب میں دریائے نیل کے کنارے خیمے نصب کیے تھے اس لیے اس کو فُسْطَاط کہتے ہیں۔ یہی مقام بعدمیں شہر بن گیا اور اسی شہر کا جدید حصہ آج قاہرہ کہلاتا ہے۔ جب مسلمانوں نے اس فُسْطَاط کا محاصرہ کر لیا۔ انہوں نے قلعے کی مضبوطی اور فوج کی قلّت کو دیکھا تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت عمرؓ سے کمک روانہ کرنے کے لیے درخواست کی۔ حضرت عمرؓ نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھجوائے۔ فرمایا ان میں سے ہر ایک افسر ایک ہزار کے برابر ہے۔ ان میں سے ایک حضرت زبیرؓ تھے۔ یہ پہنچے تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے محاصرے کے انتظامات ان کے سپرد کیے۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کے گرد چکر لگایا۔ فوج کو ترتیب دی۔ سواروں اور پیادوں کو مختلف جگہوں پر متعین کیا۔ منجنیقوں سے قلعے پر پتھر پھینکنے شروع کیے۔ سات ماہ تک محاصرہ جاری رہا۔ فتح اور شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ حضرت زبیرؓ ایک دن کہنے لگے کہ آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور سیڑھی لگا کر فصیل پر چڑھ گئے۔ چند اَور صحابہ نے ان کا ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کیے اور ساتھ ہی تمام فوج نے اتنے زور سے نعرہ بلند کیا کہ قلعےکی زمین دہل گئی۔ عیسائیوں نے سمجھا کہ مسلمان قلعے کے اندر گھس گئے ہیں۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت زبیرؓ نے فصیل سے اتر کر قلعےکا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس گئی۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 54-55) (معجم البلدان صفحہ259مطبوعہ الفیصل اردو بازار لاہور 2013ء)

حضرت عمرؓ کی وفات کے وقت خلافت کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی اور وفات کے بعد خلافت کے انتخاب کا واقعہ بخاری میں جو درج ہے وہ یوں ہے کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! وصیت کر دیں، کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مَیں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپؐ ان سے راضی تھے۔ انہوں نے حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام لیا اور کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ تمہارے ساتھ شریک رہے گا اور خلافت میں اس کا حق کوئی نہیں ہو گا۔ اور پھر فرمایا کہ اگر خلافت سعدؓ کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعدؓ سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے ان کو اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ انہوں نے کوئی خیانت کی تھی۔ نیز فرمایا مَیں اس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے پہچانیں اور ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ اور میں انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے اپنے گھروں میں ایمان کو جگہ دی۔ جو ان میں سے نیک کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے اور جو ان میں سے قصور وار ہو اس سے درگذر کیا جائے۔ اور میں سارے شہروں کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی اس کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے محصل ہیں اور دشمن کے کڑھنے کا موجب ہیں۔ اور یہ کہ ان کی رضا مندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے۔ اور میں اس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ عربوں کی جڑ اور اسلام کا مادہ ہیں۔ یہ کہ ان کے ایسے مالوں سے لیا جائے جو ان کے کام کے نہ ہوں اور پھر انہی کے محتاجوں کو دے دیا جائے۔ اور میں اس کو اللہ کے ذمے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمےکرتا ہوں کہ جن لوگوں سے عہد لیا گیا ہو ان کا عہد ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان سے مدافعت کی جائے اور ان سے بھی اتنا ہی لیا جائے جتنا ان کی طاقت ہو۔

کہتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہو گئے اور ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ چھ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دو۔ حضرت زبیرؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت علیؓ کو دیا۔ حضرت طلحہؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عثمانؓ کو دیا۔ حضرت سعدؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو دیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ سے کہاکہ آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہو گا۔ وہ آپ میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے۔ یہ سن کر دونوں بزرگ خاموش رہے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا: کیاآپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں؟ اور اللہ میرا نگران ہے جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا۔ ان دونوں نے کہا اچھا۔ پھر عبدالرحمٰن ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر الگ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتے کا تعلق ہے اور اسلام میں بھی وہ مقام ہے جو آپ جانتے ہی ہیں۔ اللہ آپ کا نگران ہے۔ بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے؟ اگر میں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ ان کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے؟ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ دوسرے کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی ویسے ہی کہا۔ جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو پھر عبدالرحمٰنؓ نے حضرت عثمانؓ کو کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور ان کی بیعت کی اور حضرت علیؓ نے بھی ان کی بیعت کی اور گھر والے اندر آ گئے اور انہوں نے بھی حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃالبیعۃ حدیث 3700)

خطبہ جمعہ 4؍ ستمبر 2020ء

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔ (آل عمران: 173) کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول کا حکم اپنے زخمی ہونے کے بعد بھی قبول کیا ان میں سے ان کے لیے جنہوں نے اچھی طرح اپنا فرض ادا کیا ہے اور تقویٰ اختیار کیا ہے بڑا اجر ہے۔

صحابہ کا ذکر چل رہا تھا اور حضرت زبیرؓ کا ذکر کچھ باقی تھا جو مَیں نے بیان کرنا تھا آج وہی بیان کروں گا۔ اس آیت کے بارے میں جومَیں نے ابھی پڑھی ہے بیان فرماتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا کہ اے میرے بھانجے ! تمہارے آباء زبیرؓ اور ابوبکرؓ اسی آیت میں مذکور صحابہ میں سے تھے۔ جب جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور مشرکین پلٹ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں پھر لَوٹ کر حملہ نہ کریں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائے گا۔ اسی وقت ان میں سے ستر صحابہ تیار ہو گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکرؓ اور زبیرؓ بھی ان میں شامل تھے۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور یہ دونوں حضرت ابوبکرؓ بھی اور حضرت زبیرؓ بھی زخمیوں میں سے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب الذین استجابوا للّٰہ والرسول … الخ حدیث 4077)

صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ہشام نے اپنے والد سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے مجھ سے کہا کہ تمہارے آباء ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے اپنے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی آواز پر لبیک کہا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل طلحۃ والزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنھما حدیث 2418)

حضرت علیؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہؓ اور زبیرؓ جنت میں میرے ہمسائے ہوں گے۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی محمد طلحہ … حدیث 3740)

حضرت سعید بن جبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیر، ؓ حضرت سعد، ؓ حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کا مقام ایسا تھا کہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے لڑتے تھے اور نماز میں آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد2صفحہ 478سعید بن زید دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت عبدالرحمٰن بن اَخْنَسؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں تھے کہ ایک شخص نے حضرت علیؓ کا ذکر کیا، ان کی شان میں کچھ بے ادبی کی تو حضرت سعید بن زیدؓ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ یہ بےشک مَیں نے آپؐ سے سنا اور آپؐ فرماتے تھے کہ دس آدمی جنت میں جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہوں گے۔ ابوبکرؓ جنت میں ہوں گے۔ حضرت عمرؓ جنت میں ہوں گے۔ حضرت عثمانؓ جنت میں ہوں گے۔ حضرت علیؓ جنت میں ہوں گے۔ حضرت طلحؓہ، حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت سعد بن مالکؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جنت میں ہوں گے۔ اور اگر مَیں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ دسواں کون ہے؟ حضرت سعید بن زیدؓ کچھ دیر خاموش رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے پھر پوچھا کہ دسواں کون ہے؟ فرمایا کہ سعید بن زیدؓ یعنی مَیں خود۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث 4649)

یہ روایت حضرت طلحہؓ کے ضمن میں بھی میرا خیال ہے بیان ہو چکی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کاتبین ِوحی کے نام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ اسی وقت لکھوا دی جاتی تھی۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کاتبوں کو قرآن کریم لکھواتے تھے ان میں سے مندرجہ ذیل پندرہ نام تاریخ سے ثابت ہیں۔ زید بن ثابتؓ، ابی بن کعبؓ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرحؓ، زبیر بن العوامؓ، خالد بن سعید بن العاصؓ، اَبَان بن سعید العاصؓ، حَنْظَلَہ بن الربیع الاسدیؓ، مُعَیْقِیْب بن ابی فاطمہؓ، عبداللہ بن اَرْقَم الزُّہْریؓ، شرحبیل بن حسنہؓ، عبداللہ بن رواحہؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف نازل ہوتا تو آپؐ ان لوگوں میں سے کسی کو بلا کر وحی لکھوا دیتے تھے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوام جلد20صفحہ425-426)

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر بن عوامؓ کو ایک غزوے کے موقعے پر خارش کی وجہ سے ریشم کی قمیض پہننے کی اجازت دی تھی۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیرباب الحریر فی الحرب حدیث 2919)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے میں مکانوں کی حد بندی کی تو حضرت زبیرؓ کے لیے زمین کا بڑا ٹکڑا مقرر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو کھجور کا ایک باغ بھی دیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زبیر بن عوامؓ کو زمین ہبہ کرنے کے متعلق بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو سرکاری زمینوں میں سے ایک اتنا بڑا ٹکڑا عطا فرمایا جس میں کہ حضرت زبیرؓ کا گھوڑا آخری سانس تک دوڑ سکے یعنی جس حد تک وہ دوڑ سکتا تھا دوڑ جائے۔ حضرت زبیرؓ کا گھوڑا جس جگہ پر جا کر کھڑا ہوا وہاں سے انہوں نے اپنا کوڑا بڑے زور سے اوپر پھینکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ نہ صرف اس حد تک زمین ان کو دی جائے جہاں ان کا گھوڑا جا کر کھڑا ہو گیا تھا بلکہ جہاں ان کا کوڑا گرا تھا اس حد تک ان کو زمین دی جائے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا گھوڑا بھی میلوں دوڑ سکتا ہے اور عرب کا گھوڑا تو بہت زیادہ تیز ہوتا ہے۔ اگر چار پانچ میل بھی گھوڑے کی دوڑ رکھی جائے تو بیس ہزار ایکڑ کے قریب زمین بنتی ہے جو ان کو دی گئی تھی۔

امام ابو یوسف کتاب الخَرَاجْ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو ایک زمین کا ٹکڑا بخشا جس میں کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور یہ حضرت خلیفہ ثانیؓ نے بھی امام ابویوسف کے بیان کا حوالہ دیا۔ کہتے ہیں کہ جو زمین کا ٹکڑا بخشا تھا اس میں کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور وہ کسی وقت یہودی قبیلہ بنو نضیر کی ملکیت میں سے تھا اور ان کو جُرْفْ کہتے تھے، یہ جُرْفْ جو ہے یہ مدینے سے شام کی طرف تین میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے۔ یعنی وہ جُرْفْ ایک مستقل گاؤں تھا۔ جب ہم پہلی حدیثوں سے اس حدیث کو ملائیں یعنی جہاں گھوڑے کے دوڑنے کا ذکر ہے اور تقریباً پندرہ بیس ہزار ایکڑ بنتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو اس وقت اوپر والی زمین بخشی جبکہ وہ پہلے سے ایک گاؤں کے مالک تھے جس میں کھجور کے باغ بھی تھے۔ (ماخوذ از اسلام اور ملکیت زمین، انوار العلوم جلد21صفحہ429) (معجم البلدان جلد2صفحہ149دارالکتب العلمیۃ بیروت)

عُروہ بن زُبیر سے مروی ہے کہ مَرْوَان بن حَکَم نے بتایا کہ جس سال نکسیر کی بیماری پھیلی حضرت عثمان بن عفانؓ کو بھی سخت نکسیر ہوئی یہاں تک کہ اس نے ان کو حج سے روک دیا اور انہوں نے وصیت کر دی تو اس وقت قریش میں سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں۔ یعنی بہت خراب حالت ہے۔ انہوں نے پوچھا کیا لوگوں نے یہ بات کہی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ وہ خاموش رہا۔ اتنے میں پھر ایک اَور شخص ان کے پاس آیا۔ راوی کہتے ہیں مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ حارث تھا۔ کہنے لگا خلیفہ مقرر کر دیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کیا لوگوں نے یہ کہا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا یعنی کہ آپؓ کے بعد کون خلیفہ ہو؟ حضرت عثمانؓ نے پوچھا وہ کون ہے جو خلیفہ ہو گا۔ وہ خاموش رہا۔ حضرت عثمانؓ نے اس سے کہا شاید وہ زبیر کو منتخب کرنے کا کہتے ہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ اس ذات کی قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جہاں تک مجھے علم ہے وہ یعنی حضرت زبیرؓ ان لوگوں میں سے یقیناً بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سب سے زیادہ پیارے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب الزبیر بن العوام حدیث 3717)

حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کا ایک انصاری صحابی سے جو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پانی کی نالی میں اختلاف رائے ہو گیا جس سے وہ دونوں اپنے کھیت کو سیراب کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ زبیر تم اپنے کھیت کو سیراب کر کے اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو۔ انصاری کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ کہنے لگا یا رسول اللہؐ ! یہ آپؐ کے پھوپھی زاد ہیں ناں۔ اس لیے آپؐ یہ فیصلہ فرما رہے ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اب تم اپنے کھیت کو سیراب کرو اور جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو۔ گویا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو ان کا پورا حق دلوا دیا جبکہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں ان کے لیے اور انصاری کے لیے گنجائش اور وسعت کا پہلو تھا لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حکم کے ساتھ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا۔ حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں کہ بخدا مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیت اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی ہے۔ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء: 66) یعنی نہیں تیرے رب کی قسم! وہ کبھی ایمان نہیں لا سکتے جب تک وہ تجھے ان امور میں منصف نہ بنا لیں جن میں ان کے درمیان جھگڑا ہوا ہے۔ پھر تُو جو بھی فیصلہ کرے اس کے متعلق وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کامل فرمانبرداری اختیار کریں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ453 مسند زبیر بن العوام حدیث1419 عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ (الزمر: 32) یعنی یقیناً تم قیامت کے دن اپنے رب کے حضور ایک دوسرے سے بحث کرو گے۔ تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہؐ ! کیا ہماری دنیاوی لڑائیاں مراد ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (التکاثر: 9) یعنی اس دن تم نازو نعم کے متعلق ضرور پوچھے جاؤ گے۔ تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہؐ ! ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا جبکہ ہمارے پاس تو صرف کھجور اور پانی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار! یہ نعمتوں کا زمانہ بھی عنقریب آنے والا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ449 مسند زبیر بن العوام حدیث 1405 عالم الکتب بیروت 1998ء) آج تو یہ تنگی ہے۔ ان شاء اللہ کشائش بھی آنے والی ہے۔

حَفْص بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے اس بزرگ نے یہ حدیث بیان کی ہے جو کہ مُوصِلْ (یہ موصل جو ہے شام کا مشہور شہر ہے جو اپنی کثیر آبادی اور وسیع رقبے کے لحاظ سے اس وقت کے اسلامی ممالک میں بہت اہم تھا۔ تمام شہروں سے وہاں لوگ آیا کرتے تھے۔ یہ نَیْنَوَا کے قریب دجلہ کے کنارے بغداد سے 222میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شہر کا تعارف تو یہ ہے جو فرھنگ میں لکھا گیا ہے لیکن بہرحال وہ کہتے ہیں موصل) مقام سے ہمارے پاس آتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت زبیر بن عوامؓ کے ساتھ کچھ سفر کیے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صحرا میں ان کو غسل کی حاجت ہو گئی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے لیے پردہ کرو۔ مَیں نے ان کے لیے کپڑے سے پردہ کیا۔ وہ غسل کرنے لگ گئے۔ اچانک میری نگاہ ان کے جسم پر پڑ گئی۔ مَیں نے دیکھا کہ ان کا سارا جسم تلواروں کے زخموں کے نشانات سے چھلنی تھا۔ مَیں نے ان سے کہا خدا کی قسم! مَیں نے آپؓ کے جسم پر زخموں کے ایسے نشانات دیکھے ہیں جو آج سے پہلے مَیں نے کبھی کسی کے جسم پر نہیں دیکھے۔ انہوں نے جواباً کہا کیا تم نے میرے جسم کے زخموں کے نشان دیکھ لیے ہیں؟ پھر فرمایا خدا کی قسم! یہ تمام زخم مجھے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ کرتے ہوئے آئے ہیں۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3صفحہ 406کتاب معرفۃ الصحابہ حدیث 5550 دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ288)

حضرت عثمانؓ، حضرت مِقدادؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت زبیرؓ کو وصیت کر رکھی تھی۔ چنانچہ وہ ان احباب کے مال کی حفاظت کرتے اور اپنے مال سے ان کے بچوں پر خرچ کرتے تھے۔ کشائش تھی تو ان کا مال بچوں پر خرچ نہیں کرتے تھے۔ اپنے پاس سے خرچ کرتے تھے تاکہ بعد میں یہ مال ان لوگوں کے کام آئے۔ حضرت زبیرؓ کو کوئی لالچ نہیں تھی۔

حضرت زبیرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ایک ہزار غلام تھے جو انہیں خراج یعنی زمین کی پیداوار ادا کرتے تھے۔ وہ اس میں سے گھر کچھ بھی نہ لاتے اور سارا صدقہ کر دیتے۔

مُطِیع بن اَسْوَد بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت زبیرؓ دین کے ستونوں میں سے ایک ستون ہیں۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 460 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیۃ بیروت1995ء)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت زبیرؓ جنگِ جمل کے دن کھڑے ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا۔ مَیں ان کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے پیارے بیٹے ! آج یا تو ظالم کو قتل کیا جائے گا یا مظلوم۔ ایسا نظر آتا ہے کہ آج مَیں بحالت مظلومی قتل کیا جاؤں گا۔ مجھے سب سے بڑی فکر اپنے قرض کی ہے۔ کیا تمہاری رائے میں ہمارے قرض سے کچھ مال بچ جائے گا؟ پھر کہا کہ اے میرے بیٹے! مال بیچ کر قرض ادا کر دینا اور مَیں ثلث کی وصیت کرتا ہوں، تیسرے حصےکی وصیت کرتا ہوں اور قرض ادا کرنے کے بعد اگر کچھ بچے تو اس میں سے ایک ثلث تمہارے بچوں کے لیے ہے۔ ان کے بچوں کو باقی کے علاوہ دیا۔ ہشام نے کہا عبداللہ بن زبیرؓ کے لڑکے عمر میں حضرت زبیرؓ کے لڑکوں خبیب اور عَبّادکے برابر تھے۔ یعنی عبداللہ کے لڑکے حضرت زبیرؓ کے اپنے لڑکوں کے برابر تھے۔ بیٹے کے بچے جو تھے وہ بھی اس کے بھائیوں کے برابر تھے۔ اس زمانے میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی نو بیٹیاں تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ مجھے اپنے قرض کی وصیت کرنے لگے کہ اے میرے بیٹے! اگر اس قرض میں سے تم کچھ ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مولیٰ سے مدد لینا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں۔ مَیں ’’مولیٰ‘‘ سے ان کی مرادنہیں سمجھا۔ مَیں نے پوچھا کہ آپ کا مولیٰ کون ہے؟ تو حضرت زبیرؓ نے کہا اللہ۔ پھر جب کبھی مَیں ان کے قرض کی مصیبت میں پڑا تو کہا اے زبیرؓ کے مولیٰ! ان کا قرض ادا کر دے اور وہ ادا کر دیتا یعنی اللہ تعالیٰ پھر کوئی انتظام کر دیتا تھا۔ اس قرض کی ادائیگی کے سامان پیدا کر دیتا تھا۔ جائیداد تو تھی اس میں سے ہی ادا ہو جاتے تھے۔

حضرت زبیرؓ اس حالت میں شہید ہوئے کہ انہوں نے نہ کوئی دینار چھوڑا نہ درہم سوائے چند زمینوں کے جن میں غابہ بھی تھا۔ مدینے میں گیارہ مکان تھے۔ دو مکان بصرہ میں تھے۔ ایک مکان کوفہ میں اور ایک مکان مصر میں تھا۔ حضرت زبیرؓ مقروض اس طرح ہوئے کہ لوگ ان کے پاس مال لاتے کہ امانتاً رکھیں مگر حضرت زبیرؓ کہتے کہ نہیں بلکہ یہ قرض ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ پیسےامانتاً نہیں رکھوں گا۔ مَیں تمہارے سے اس طرح وصول کرتا ہوں جس طرح کہ یہ قرض ہوتا ہے۔ خرچ بھی کر لیتے تھے اس میں سے یا اَور کوئی خطرہ ہو تو وہ بھی محفوظ ہو جائے اس لیے آپ ان کو بتاتے تھے کہ یہ قرض کی صورت میں لے رہا ہوں جو مَیں واپس کروں گا۔ بہرحال حضرت زبیرؓ کبھی امیر نہ بنے خواہ مال وصول کرنے کے لیے یا خراج کے لیے یا کسی اَور مالی خدمت کے لیے سوائے اس کے کہ کسی جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ہمراہ جہاد میں شامل ہوئے ہوں۔ جہادمیں ضرور شامل ہوتے تھے لیکن بہت امیر جنہوں نے نقدی کی صورت میں پیسہ جوڑا ہو وہ نہیں ہوا۔

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے بیان کیا کہ مَیں نے ان کے قرض کا حساب کیا تو بائیس لاکھ پایا۔ حضرت حکیم بن حزامؓ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے ملے اور کہا کہ اے میرے بھتیجے! میرے بھائی پر کتنا قرض ہے؟ حضرت عبداللہ بن زُبیرؓ نے چھپایا اور کہا کہ ایک لاکھ۔ حضرت حکیم بن حِزامؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم !مَیں تمہارے مال کو اتنا نہیں دیکھتا کہ وہ اس کے لیے کافی ہو۔ ظاہری مال جو نظر آ رہا تھا۔ پھر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان سے کہا کہ اگر مَیں کہوں کہ وہ قرض بائیس لاکھ ہے تو آپ کیا کہیں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ مَیں تو تمہیں اس کا متحمل نہیں دیکھتا، مشکل ہے ادا کر سکو۔ اگر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو مجھ سے مدد لے لینا۔ اگر نہ ادا کر سکو تو مَیں حاضر ہوں۔ مجھے بتانا مَیں تمہیں قرض ادا کر دوں گا۔ حضرت زبیرؓ نے غابہ ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدا تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے سولہ لاکھ میں فروخت کیا۔ پھر کھڑے ہو کر کہا کہ جس کا زبیرؓ کے ذمہ کچھ ہو وہ ہمارے پاس غابہ پہنچ جائے۔ وہ غابہ کی زمین بیچی۔ سولہ لاکھ اس کی قیمت ملی اور پھر اعلان کر دیا کہ جو قرض خواہ ہیں وہ آ جائیں اور اپنا قرض لے لیں۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ جن کے حضرت زبیرؓ پر چار لاکھ تھے انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے کہا کہ اگر تم لوگ چاہو تو مَیں معاف کر دوں اور اگر چاہو تو اسے ان قرضوں کے ساتھ رکھو جنہیں تم مؤخر کر رہے ہو بشرطیکہ تم کچھ مؤخر کرو۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر مجھے ایک ٹکڑا زمین کا دے دو۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ تمہارے لیے یہاں سے یہاں تک ہے۔ انہوں نے اس میں سے بقدر ادائے قرض کے فروخت کر دیا اور انہوں نے عبداللہ بن جعفر کو دے دیا۔ اس قرض میں سے ساڑھے چار حصے باقی رہ گئے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ حضرت معاویہؓ کے پاس آئے۔ اس زمانے کی بات ہے۔ وہاں عمرو بن عثمان، مُنْذِر بن زُبیر اور ابنِ زَمْعَہ تھے۔ حضرت معاویہؓ نے پوچھا کہ غابہ کی کتنی قیمت لگائی گئی؟ حضرت ابن زبیرؓ نے کہا ہر حصہ ایک لاکھ کا ہے۔ حضرت معاویہؓ نے پوچھا کتنے حصے باقی رہے؟ انہوں نے کہا کہ ساڑھے چار حصے۔ مُنْذِر بن زبیر نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں مَیں نے لے لیا۔ عمرو بن عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں مَیں نے لے لیا۔ ابن زَمْعَہ نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں مَیں نے لے لیا۔ حضرت معاویہؓ نے کہا اب کتنے بچے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈیڑھ لاکھ میں مَیں نے لے لیا۔ یعنی کہ غابہ کی وہ زمین جو باقی رہ گئی تھی اس کو بھی بیچنے لگے۔ عبداللہ بن جعفر نے اپنا حصہ حضرت معاویہؓ کے ہاتھ چھ لاکھ میں فروخت کر دیا۔ بہرحال جو انہوں نے کہا تھا ناں کہ قرض اللہ تعالیٰ ادا کرے گا تو اس طرح اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرتا تھا تو وہ کچھ جائیداد بیچ کے قرض ادا کرتے رہے۔

جب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ حضرت زبیرؓ کا قرض ادا کر چکے تو حضرت زبیرؓ کی اولادنے کہا کہ ہم میں ہماری میراث تقسیم کر دو۔ اب قرض تو سارے ادا ہو گئے ہیں اب جو وراثت ہے وہ تقسیم کر دو۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! مَیں تم میں اس وقت تک تقسیم نہ کروں گا جب تک چار سال زمانہ حج میں منادی نہ کر لوں یعنی چار سال تک ہر حج کے دن پہلے اعلان کروں گا کہ جس کا زبیرؓ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے ادا کریں گے اور چار سال تک حج کے موقعےپر منادی کرتے رہے۔ جب چار سال گزر گئے تو میراث حضرت زبیرؓ کی اولاد میں تقسیم کر دی۔

حضرت زبیرؓ کی چار بیویاں تھیں۔ انہوں نے بیوی کے آٹھویں حصےکو چار پر تقسیم کر دیا اور ہر بیوی کو گیارہ لاکھ پہنچے۔ پھر بھی جو جو جائیداد باقی رہ گئی تھی اس میں سے ہر کوئی جب تقسیم ہوا تو گیارہ گیارہ لاکھ بیویوں کو بھی مل گیا۔ ان کا پورا مال تین کروڑ باون لاکھ تھا۔

ایک روایت میں یہ ہے اور سفیان بن عُیَیْنَہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیرؓ کی میراث میں چار کروڑ تقسیم کیے گئے۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت زبیرؓ کے ترکہ کی قیمت پانچ کروڑ بیس لاکھ یا پانچ کروڑ دس لاکھ تھی۔ اسی طرح عروہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیرؓ کی مصر میں کچھ زمینیں تھیں اور اسکندریہ میں کچھ زمینیں تھیں۔ کوفےمیں کچھ زمینیں تھیں اور بصرے میں مکانات تھے۔ ان کی مدینےکی کچھ جائیداد کی آمدنی تھی جو اُن کے پاس آتی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 80-81 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)

بہرحال یہ سارے قرض اتار کے تو پھر ان جائیدادوں میں سے جو باقی جائیدادیں تھیں وہ ان کے ورثاء میں تقسیم کی گئیں۔ مُطَرِّفْ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! آپ لوگ کس مقصد کی خاطر آئے ہیں۔ آپ لوگوں نے ایک خلیفہ کو ضائع کر دیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔ اب آپ ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے تھے کہ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً (الانفال: 26) کہ اور اس فتنے سے ڈرو جو محض ان لوگوں کو ہی نہیں پہنچے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا (بلکہ عمومی ہو گا) لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہو گا یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آئے گی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 451مسند زبیر بن العوام حدیث 1414عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علیؓ کی خلافت کے انتخاب کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ کا واقعۂ شہادت ہوا اور وہ صحابہؓ جو مدینے میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں فتنہ بڑھتا جا رہا ہے حضرت علیؓ پر زور دیا کہ آپؓ لوگوں کی بیعت لیں۔ دوسری طرف کچھ مفسدین بھاگ کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا سخت اندیشہ ہے آپؓ لوگوں سے بیعت لیں تا کہ ان کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو۔ غرض جب آپؓ کو بیعت لینے پر مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ کے انکار کے بعد آپؓ نے اس ذمہ داری کو اٹھایا اور لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی۔ بعض اکابر صحابہ اس وقت مدینے سے باہر تھے۔ بعض سے تو جبراً بیعت لی گئی چنانچہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے متعلق آتا ہے کہ ان کی طرف حکیم بنِ جَبْلَہ اور مالک اَشْتَر کو چند آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا گیا اور انہوں نے تلوار وں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ حضرت علیؓ کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ہم ابھی تم کو مار ڈالیں گے حتی کہ بعض روایات میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ ان کو نہایت سختی کے ساتھ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لائے۔ ظاہر ہے کہ ایسی بیعت کوئی بیعت نہیں کہلا سکتی۔ پھر جب انہوں نے بیعت کی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس شرط پر آپؓ کی بیعت کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے آپؓ قصاص لیں گے مگر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ قاتلوں سے قصاص لینے میں جلدی نہیں کر رہے تو وہ بیعت سے الگ ہو گئے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے۔ انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھی حضرت عائشہؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپؓ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ، ؓ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کےلشکر میں جنگ ہوئی جسے جنگ ِجمل کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیرؓ حضرت علیؓ کی زبان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے تھے۔ حضرت زبیرؓ تو شروع میں ہی علیحدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی تھی، جو سمجھا تھا اس سے غلطی ہو گئی۔ دوسری طرف حضرت طلحہؓ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ کی بیعت کا اقرار کر لیا تھا کیونکہ روایت میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو؟ اس نے کہا حضرت علیؓ کے گروہ میں سے۔ اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علیؓ کا ہاتھ ہے اور مَیں تیرے ہاتھ پر حضرت علیؓ کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں۔ (ماخوذ از خلافت راشدہ، صفحہ44-45 انوار العلوم جلد 15)

بہرحال حضرت زبیرؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت زبیرؓ کی شہادت جنگ جمل سے واپسی پر ہوئی تھی۔ وہاں سے تو وہ علیحدہ ہو گئے تھے اور حضرت علیؓ سے جنگ کا انہوں نے جو ارادہ کیا تو انہوں نے کہا مَیں نے غلطی کی ہے اور اس سے بالکل علیحدہ ہو گئے لیکن جنگ جمل سے واپسی پر ان کی شہادت ہوئی۔ جب حضرت علیؓ نے انہیں یاد دلایا کہ مَیں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تم علیؓ سے لڑو گے اور زیادتی تمہاری طرف سے ہو گی۔ انہوں نے کہا ہاں اور یہ بات مجھے ابھی یاد آئی ہے پھر وہاں سے چلے گئے۔ حضرت علیؓ سے جنگ سے علیحدگی کی یہ وجہ بنی تھی۔ اس کی تفصیل جو ہے وہ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مفسدین اور منافقین کی بھڑکائی ہوئی آگ تھی جس میں اکثر صحابہ غلط فہمی کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے۔ بہرحال جو بھی تھا وہ غلط ہوا۔

حَرْب بن ابوالاسود کہتے ہیں کہ مَیں حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ سے ملا ہوں۔ جب حضرت زبیرؓ اپنی سواری پر سوار ہو کر صفوں کو چیرتے ہوئے واپس لوٹے تو ان کے بیٹے عبداللہؓ ان کے سامنے آئے اور کہنے لگے کہ آپ کو کیا ہوا؟ حضرت زبیرؓ نے ان سے کہا حضرت علیؓ نے مجھے ایک حدیث یاد کرا دی جس کو مَیں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تھا تُو اس یعنی حضرت علیؓ سے جنگ کرے گا اور اس جنگ میں تُو ظلم کرنے والا ہو گا۔ اس لیے مَیں ان سے جنگ نہیں کروں گا۔ ان کے بیٹے نے کہا کہ آپؓ تو اس لیے آئے ہیں کہ لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور اللہ آپؓ کے ہاتھ سے اس معاملے میں صلح کروائے گا۔ حضرت زبیرؓ نے کہا مَیں تو قسم کھا چکا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا آپؓ اس قَسم کا کفارہ دے دیں اور اپنے غلام جِرْجِسْ کو آزاد کر دیں اور ادھر ہی موجود رہیں یہاں تک کہ اللہ ان لوگوں میں صلح کروا دے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ نے اپنے غلام جرجس کو آزاد کیا اور وہیں ٹھہرے رہے۔ لیکن لوگوں میں اختلاف مزید بڑھ گئے تو آپؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے۔ جب حضرت زبیرؓ مدینےکی طرف واپسی کا ارادہ کر کے نکلے اور سَفْوَان نامی مقام پر پہنچے جو بصرہ کے قریب ایک مقام ہے تو بکر نامی ایک شخص جو بنو مُجَاشِعسے تھا حضرت زبیرؓ کو ملا۔ اس نے کہا کہ اے حواریِٔ رسول اللہؐ !آپؓ کہاں جا رہے ہیں؟ آپؓ میری ذمہ داری ہیں۔ آپؓ تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔ وہ شخص حضرت زبیرؓ کے ساتھ چل پڑا اور ایک آدمی اَحْنَف بن قیس سے ملا۔ اس نے کہا کہ یہ زبیر ہیں جو مجھے سَفْوَان میں ملے تھے۔ اَحْنَفْ نے کہا کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں گتھم گتھا ہیں اور تلواروں سے ایک دوسرے کی پیشانیاں کاٹ رہے ہیں اور یہ اپنے بیٹے اور گھر والوں سے ملنے جاتے ہیں۔ جب عُمیر بن جُرْمُوْز اور فَضَالَہ بن حَابِساور نُفَیْعنے یہ بات سنی تو انہوں نے سوار ہو کر حضرت زبیرؓ کا پیچھا کیا اور ان کو ایک قافلے کے ساتھ پا لیا۔ عُمیر بن جرموز گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پیچھے سے آیا اور حضرت زبیرؓ پر نیزےسے حملہ کیا اور ہلکا سا زخم دیا۔ حضرت زبیرؓ نے بھی جو اس وقت ذُوالخِمَارنامی گھوڑے پر سوار تھے اس پر حملہ کیا۔ جب ابنِ جُرمُوزنے دیکھا کہ وہ قتل ہونے والا ہے تو اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو آواز دی اور انہوں نے مل کر حملہ کیا یہاں تک کہ حضرت زبیرؓ کو شہید کر دیا۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت زبیر اپنے قاتل کے سامنے آئے اور اس پر غالب بھی آگئے لیکن اس دشمن نے کہا مَیں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت زبیرؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ اس شخص نے یہ عمل کئی مرتبہ کیا۔ پھر جب حضرت زبیرؓ کے خلاف اس نے بغاوت کی اور ان کو زخمی کر دیا تو حضرت زبیرؓ نے کہا اللہ تجھے غارت کرے تم مجھے اللہ کا واسطہ دیتے رہے اور خود اس کو بھول گئے۔ حضرت زبیرؓ کو شہید کرنے کے بعد ابنِ جُرمُوزحضرت علیؓ کے پاس حضرت زبیرؓ کا سر اور ان کی تلوار لایا۔ حضرت علیؓ نے تلوار لے لی اور کہا کہ یہ وہ تلوار ہے کہ اللہ کی قسم! اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے بے چینی دور ہوئی لیکن اب یہ موت اور فساد کی قتل گاہوں میں ہے۔ ابنِ جُرمُوزنے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ دربان نے عرض کی کہ یہ ابنِ جُرمُوز جو حضرت زبیرؓ کا قاتل ہے۔ دروازے پر کھڑا اجازت طلب کرتا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ابنِ صَفِیَّہ، حضرت زبیرؓ کو شہید کرنے والا دوزخ میں داخل ہو۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہر نبی کے حواری ہیں اور میرا حواری زبیرؓ ہے۔ حضرت زبیرؓ وادی سِبَاعْ میں دفن کیے گئے۔ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھی بیٹھ کر آپؓ پر رونے لگے۔ شہادت کے وقت حضرت زبیرؓ کی عمر چونسٹھ سال تھی۔ بعض کے نزدیک آپ کی عمر چھیاسٹھ یا ستاسٹھ سال تھی۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3صفحہ413 حدیث 5575باب معرفۃ الصحابہ دار الکتب العلمیۃ بیروت) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 516 زبیر بن العوام دار الجیل بیروت 1996ء) (مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3صفحہ412 حدیث 5571 باب معرفۃ الصحابۃ دار الکتب العربیہ بیروت) (الطبقات الکبریٰ جز 3 صفحہ78 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز 3صفحہ83 دا رالکتب العلمیۃ بیروت 1990) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 460زبیر بن العوام دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)

حضرت عاتکہ بنت زید جو حضرت زبیر بن عوامؓ کی بیوی تھیں ان کے متعلق اہلِ مدینہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص شہادت چاہے وہ عاتکہ بنت زید سے نکاح کر لے۔ یہ پہلے عبداللہ بن ابی بکر کے عقد میں آئیں وہ شہید ہو کر ان سے جدا ہو گئے۔ پھر حضرت عمر بن خطابؓ کے عقد میں آئیں۔ وہ بھی شہید ہو کر ان سے جدا ہو گئے۔ پھر حضرت زبیر بن عوامؓ کے عقد میں آئیں۔ وہ بھی شہید ہو کر ان سے جدا ہو گئے۔

حضرت زبیرؓ کی شہادت پر حضرت عاتکہؓ نے یہ اشعار کہے تھے کہ

غَدَرَ ابْنُ جُرْمُوزٍ بِفَارِسِ بُہْمَۃٍ

یَوْمَ اللِّقَاءِ وَ کَانَ غَیْرَ مُعَرِّدِ

یَا عَمْرُو لَوْ نَبَّہْتَہٗ لَوَجَدْتَہٗ

لَا طَائِشًا رَعِشَ الْجَنَانِ وَلَاالْیَدِ

شَلَّتْ یَمِیْنُکَ إِنْ قَتَلْتَ لَمُسْلِمًا

حَلَّتْ عَلَیْکَ عُقُوْبَۃُ الْمُتَعَمِّدِ

ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ ہَلْ ظَفِرْتَ بِمِثْلِہٖ

فِیْمَنْ مَضٰى فِیْمَا تَرُوْحُ وَ تَغْتَدِیْ

کَمْ غَمْرَۃٍ قَدْ خَاضَہَا لَمْ یَثْنِہِ

عَنْہَا طِرَادُکَ یَا ابْنَ فَقْعِ الْقَرْدَدِ

یعنی ابنِ جُرمُوزنے جنگ کے دن اس بہادر سوار کے ساتھ دغا کیا حالانکہ وہ بھاگنے والا نہ تھا۔ اے عمرو بن جرموز! اگر تُو انہیں آگاہ کر دیتا تو انہیں اس حالت میں پاتا کہ وہ نامردنہ ہوتے جس کا دل اور ہاتھ کانپتا ہو۔ تیرا ہاتھ شل ہو جائے کہ تو نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا۔ تجھ پر قتلِ عمد کے مرتکب کا عذاب واجب ہو گیا۔ تیرا برا ہو! کیا ان لوگوں میں جو اس زمانے میں گزر گئے جس میں تُو شام اور صبح کرتا ہے تُو نے کبھی ان جیسے کسی اَور شخص پر کامیابی پائی ہے۔ اے ادنیٰ سی تکلیف کو برداشت نہ کر سکنے والے۔ زُبیر تو ایسا شخص تھا کہ کتنے ہی سخت حالات ہوں وہ جنگ میں مشغول رہتے تھے اور اے سفید چہرے والے! تمہاری نیزہ زنی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز 3صفحہ83 دا رالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

پھر وہاں طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہے کہ جب ابنِ جُرمُوزنے آ کر حضرت علیؓ سے اجازت چاہی تو حضرت علیؓ نے اس سے دوری چاہی۔ اس پر اس نے کہا کیا زبیرؓ مصیبت والوں میں سے نہ تھے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ تیرے منہ میں خاک مَیں تو یہ امید کرتا ہوں کہ طلحہؓ اور زبیرؓ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (الحجر: 48) اور ہم ان کے دلوں کی کدورت دور کر دیں گے کہ وہ تختوں پر آمنے سامنے بھائی بھائی ہو کر بیٹھیں گے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز 3صفحہ84دا رالکتب العلمیۃ بیروت 1990)

حضرت زبیرؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور کثرت کے ساتھ اولاد پیدا ہوئی۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ: ان کے بطن سے عبداللہ، عروہ، مُنْذِر، عاصم، خدیجۃ الکبریٰ، ام الحسن، عائشہ پیدا ہوئیں۔ حضرت ام خالدؓ: ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے وہ خالد، عمرو، حبیبہ، سودہ، ہند ہیں۔ حضرت رُبَاب بنت اُنَیفؓ: ان کے بطن سے یہ بچے پیدا ہوئے۔ مصعب، حمزہ، رَمْلَہ۔

حضرت زینب ام جعفر بنت مَرْثَدؓ: ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے وہ عُبَیدہ اور جعفر ہیں۔ حضرت ام کلثوم بنت عُقْبَہؓ: ان کے بطن سے زینب پیدا ہوئیں۔ حضرت حِلال بنت قیسؓ: ان کے بطن سے خدیجۃ الصغریٰ پیدا ہوئیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ74زبیر بن العوام، دا رالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت عاتکہؓ بنت زید۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ83 زبیر بن العوام، دا رالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)