حضرت زَاھِر بن حَرَام الاشْجَعِیؓ
حضرت زَاھِر بن حَرَام الاشْجَعِیؓ بھی بدری صحابی ہیں۔ ان کا تعلق اَشْجَعْ قبیلہ سے تھا۔ غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے۔ حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ بادیہ نشینوں میں یعنی گاؤں کے رہنے والے جو تھے ان میں ایک آدمی تھا جن کا نام زَاھِرؓ تھا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دیہات کی سوغاتیں ساتھ لایا کرتے تھے اور جب وہ جانے لگتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو کافی مال و متاع دے کر روانہ فرماتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اِنَّ زَاھِرًا بَادِیَتُنَا وَ نَحْنُ حَاضِرُوْہُ کہ زَاھِر ؓہمارے بادیہ نشین دوست ہیں اور ہم ان کے شہری دوست ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت رکھتے تھے۔ حضرت زاھرؓ معمولی شکل و صورت کے مالک تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت زاھرؓ بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پیچھے سے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آ کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ حضرت زاھرؓ حضور کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو! لیکن جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔ جب حضرت زاھرؓ نے آپؐ کو پہچان لیا، ذرا سا مڑ کے دیکھا تو جھلک نظر آ گئی ہو گی۔ پہچاننے کا یہ مطلب ہے کہ ذرا سا مڑکے دیکھا تو احساس ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو اپنی کمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک سے ملنے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاحاً کہنا شروع کر دیا کہ کون اس غلام کو خریدے گا۔ حضرت زاھرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ تب تو آپؐ مجھے گھاٹے کا سودا پائیں گے۔ مجھے کس نے خریدنا ہے؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ کے نزدیک تم گھاٹے کا سودا نہیں ہو۔ یا فرمایا کہ اللہ کے حضور تم بہت قیمتی ہو۔(اسدالغابہ جلد نمبر 2 صفحہ 98)،(استیعاب جلد 2 صفحہ 509 زاھر بن حرامؓ دار الجیل بیروت 1992ء)، (الشمائل المحمدیہ للترمذی صفحہ 143 باب ما جاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ ﷺ احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلداری کا یہی واقعہ ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر بد صورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اٹھا رہے ہیں اور ان کا تمام جسم پسینہ اور گردوغبار سے اٹا ہوا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چھپے دوسرے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دئے۔ اس نے آپ کے ملائم ہاتھوںکو ٹٹول کر سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو محبت کے جوش میں اس نے اپنا پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا۔ میرے پاس ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ! میرا خریدار دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو۔ خدا کے حضور تمہاری بڑی قیمت ہے۔‘‘(سیر روحانی صفحہ 489 مطبوعہ قادیان 2005ء)
بس عجیب قسم کی محبتوں کے فیض پائے ان لوگوں نے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اِنَّ لِکُلِّ حَاضِرَۃٍ بَادِیَۃٌ وَبَادِیَۃُ اٰلِ مُحَمَّدٍ زَاھِرُبْنُ الْحَرَام یعنی ہر شہری کا کوئی نہ کوئی دیہاتی تعلق دار ہوتا ہے اور آل محمد کے دیہاتی تعلق دار زاھر بن حرام ہیں۔ زاھر بن حرام بعد میں کوفہ منتقل ہو گئے تھے۔ (استیعاب جلد دوم صفحہ 509 زاھر بن الحرامؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)