حضرت زید بن حارثہؓ
حضرت زیدؓ کے والد کا نام حارثہ بن شَراحِیل کے علاوہ حَارِثہ بن شُرَحْبِیْل بھی بیان کیا جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ کا نام سُعْدٰی بنت ثَعْلَبَہ تھا۔ حضرت زیدؓ قبیلہ بنو قُضَاعَة سے تعلق رکھتے تھے جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا۔ حضرت زید چھوٹی عمر کے تھے کہ ان کی والدہ انہیں لے کر میکے گئیں۔ وہاں سے بنو قَین کے سوار گزر رہے تھے۔ سفر کے دوران پڑاؤ ڈالا تو انہوں نے خیمے کے سامنے سے حضرت زید کو جو ابھی بچے تھے اٹھا لیا اور غلام بنا کر عُکَاظْ کے بازار میں حکیم بن حزام کو چار سو درہم میں فروخت کر دیا۔ حکیم بن حزام نے پھر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ کی خدمت میں حضرت زیدؓ کو پیش کیا اور بعد میں حضرت خدیجہؓ نے اپنے تمام غلاموں کے ساتھ حضرت زیدؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ188 ذکر الاسلام زیدا ثانیا، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 165 حضرت زید بن حارثہؓ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)
ایک روایت کے مطابق جب حضرت زید کو خرید کر مکہ لایا گیا تو اس وقت آپ کی عمر محض آٹھ سال کی تھی۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصیبۃ یعرف فیہ الحزن جلد 8 صفحہ 94۔ مطبوعہ دارالفکر بیروت)
حضرت زیدؓ کی گمشدگی پر آپؓ کے والد حارثہ کو بہت صدمہ ہوا۔ کچھ عرصہ کے بعد بنو کَلْب کے چند آدمی حج کرنے کے لیے مکہ آئے تو انہوں نے حضرت زیدؓ کو پہچان لیا۔ حضرت زیدؓ نے انہیں کہا کہ میرے خاندان کو میرے بارے میں بتانا کہ میں خانہ کعبہ کے قریب بنو مَعَدْ کے ایک معزز خاندان میں رہتا ہوں اس لیے آپ لوگ کچھ غم نہ کریں۔ بنو کَلْب کے لوگوں نے جا کر ان کے والد کو اطلاع دی تو وہ بولے کہ رب کعبہ کی قسم! کیا وہ میرا بیٹا ہی تھا؟ لوگوں نے حلیہ اور تفصیل بتائی تو آپؓ کے والد حَارِثہ اور چچا کعب مکہ کی طرف چل پڑے۔ مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فدیہ کے بدلہ اپنے لڑکے حضرت زید کی آزادی کی درخواست کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو بلا کر ان کی رائے طلب کی تو حضرت زیدنے اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 165 تا 168 زید بن حارثہ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)
اس واقعہ کی تفصیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی تو آپؓ سمجھ گئیں کہ میں مالدار ہوں اور یہ غریب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ضرورت ہو گی مجھ سے مانگنا پڑے گا اور یہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم برداشت نہ کر سکیں تو پھر زندگی کیسے گزرے گی۔ حضرت خدیجہؓ میں بڑی ذہانت تھی۔ آپؓ بڑی ہوشیار اور سمجھدار خاتون تھیں۔ آپؓ نے خیال کیا کہ اگر ساری دولت آپؐ کی نذر کر دوں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی احساس نہیں ہو گا کہ یہ چیز بیوی نے مجھے دی ہے، بلکہ آپؐ جس طرح چاہیں گے خرچ کر سکیں گے۔ چنانچہ شادی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت خدیجہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ایک تجویز پیش کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپؐ اجازت دیں تو پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کیا تجویز ہے؟ حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی ساری دولت اور اپنے سارے غلام آپؐ کی خدمت میں پیش کر دوں اور یہ سب آپؐ کا مال ہو جائے۔ آپؐ قبول فرما لیں تو میری خوشی ہو گی اور خوش قسمتی ہو گی۔ آپؐ نے جب یہ تجویز سنی تو آپؐ نے فرمایا خدیجہ !کیا تم نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے؟ اگر تو تم سارا مال مجھے دے دو گی تو مال میرا ہو جائے گا اور پھر تمہارا نہیں رہے گا۔ حضرت خدیجہؓ نے عرض کیا کہ میں نے سوچ کر ہی یہ بات کی ہے اور میں نے سمجھ لیا ہے کہ آرام سے زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سوچ لو۔ حضرت خدیجہؓ نے عرض کیا ہاں ہاں میں نے خوب سوچ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے سوچ لیا ہے اور سارا مال اور سارے غلام مجھے دے دیے ہیں تو میں یہ پسندنہیں کرتا کہ میرے جیسا کوئی دوسرا انسان میرا غلام کہلائے۔ میں سب سے پہلے غلاموں کو آزاد کر دوں گا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ اب یہ آپؐ کا مال ہے، جس طرح آپؐ چاہیں کریں۔ آپؐ یہ سن کر بے انتہا خوش ہوئے۔ آپؐ باہر نکلے، خانہ کعبہ میں آئے اور آپؐ نے اعلان فرمایا کہ خدیجہؓ نے اپنا سارا مال اور اپنے سارے غلام مجھے دے دیے ہیں۔ میں ان سب غلاموں کو آزاد کرتا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ آج کل اگر کسی کو مال مل جائے تو وہ کہے گا کہ چلو موٹر خرید لیں، کوٹھی بنا لیں، یورپ کی سیر کر لیں اور یا پھر یہ بھی آج کل میں نے دیکھا ہے اور بعض معاملات آتے ہیں کہ اگر بیوی اپنے خاوند کو مال دے بھی دے تو یہ جو اپنی خواہشات ہیں ان کو پورا کرنے کے علاوہ بیوی کے حقوق ادا کرنے سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ مال تو ہمارے پاس آ گیا، اب تم ہماری لونڈی باندی ہو اور بیویاں پھر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام تھا، جو سوچ تھی وہ یہ تھی کہ دین کی خاطر مال خرچ ہو، اللہ تعالیٰ کی خاطر مال خرچ ہو اور انسانوں کو جو غلام بنایا جاتا ہے اس غلامی کا خاتمہ ہو۔ بہرحال آپؐ کے اندر جو خواہش پیدا ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ جو میری طرح خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور عقل اور دماغ رکھتے ہیں وہ غلام ہو کر کیوں رہیں۔ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں ساری دنیا کے لحاظ سے یہ ایک عجیب بات تھی مگر اس عجیب بات کا آپؐ نے اعلان فرمایا اور اس طرح آپؐ نے مال ملنے پر غیر معمولی سخا کا ثبوت دیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ اعلان فرمایا کہ میں تمام غلاموں کو آزاد کرتا ہوں تو اس پر اَور تو سب غلام چلے گئے صرف زید بن حارثہؓ جو بعد میں آپؐ کے بیٹے مشہور ہو گئے تھے وہ آپؐ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپؐ نے تو مجھے آزاد کر دیا مگر میں آزادنہیں ہونا چاہتا۔ میں آپؐ کے پاس ہی رہوں گا۔ آپؐ نے اصرار کیا کہ وطن جاؤ اور اپنے رشتہ داروں سے ملو اب تم آزاد ہو۔ مگر حضرت زیدؓ نے عرض کیا کہ جو محبت اور اخلاص میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھا ہے اس کی وجہ سے آپؐ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ زیدؓ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن چھوٹی عمر میں ان کو ڈاکو اٹھا لائے تھے اور انہوں نے آپؓ کو آگے بیچ دیا تھا۔ اس طرح یہ پھرتے پھراتے حضرت خدیجہؓ کے پاس آگئے۔ آپؓ کے باپ اور چچا کو بہت فکر ہوا، آپؓ کی تلاش میں نکلے۔ انہیں پتا لگا کہ زیدؓ روما میں ہیں۔ وہاں گئے تو پتا لگا کہ آپؓ عرب میں ہیں۔ عرب آئے تو پتا لگا کہ آپؓ مکہ میں ہیں۔ مکہ میں آئے تو پتا لگا کہ آپؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں۔ وہ آپؐ کے پاس آئے اور کہا ہم آپؐ کے پاس آپؐ کی شرافت اور سخاوت سن کر آئے ہیں۔ آپؐ کے پاس ہمارا بیٹا غلام ہے۔ اس کی جو قیمت آپؐ مانگیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپؐ اسے آزاد کر دیں۔ اس کی ماں بڑھیا ہے اور وہ جدائی کے صدمے کی وجہ سے رو رو کر اندھی ہوگئی ہے۔ آپؐ کا بڑا احسان ہو گا اگر آپؐ منہ مانگی قیمت لے کر اسے آزاد کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کا بیٹا میرا غلام نہیں ہے۔ میں اُسے آزاد کر چکا ہوں۔ پھر آپؐ نے زیدؓ کو بلایا اور فرمایا تمہارے ابا اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں۔ تمہاری ماں بڑھیا ہے اور رو رو کر اندھی ہو گئی ہے۔ میں تمہیں آزاد کر چکا ہوں۔ تم میرے غلام نہیں ہو۔ تم ان کے ساتھ جا سکتے ہو۔ حضرت زیدؓ نے جواب دیا آپؐ نے تو مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں تو آزاد ہونا نہیں چاہتا۔ میں تو اپنے آپ کو آپؐ کا غلام ہی سمجھتا ہوں۔ آپؐ نے پھر فرمایا کہ تمہاری والدہ کو بہت تکلیف ہے اور دیکھو تمہارے ابا اور چچا کتنی دور سے اور کتنی تکلیف اٹھا کر تمہیں لینے آئے ہیں تم ان کے ساتھ چلے جاؤ۔ زیدؓ کے والد اور چچا نے بھی بہت سمجھایا مگر حضرت زیدؓ نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ آپ بے شک میرے باپ اور چچا ہیں اور آپ کو مجھ سے محبت ہے مگر جو رشتہ میرا ان سے قائم ہو چکا ہے وہ اب ٹوٹ نہیں سکتا۔ حضرت زیدؓ نے کہا، مجھے یہ سن کر کہ میری والدہ سخت تکلیف میں ہیں بہت دکھ ہوا ہے، مگر ان سے جدا ہو کر میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو کے میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ ماں کا دکھ بھی ایک طرف لیکن یہ دکھ مجھے اس سے بڑھ کر ہو گا۔ جب زیدؓ نے یہ باتیں کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ خدا میں تشریف لے گئے اور اعلان کیا کہ زیدؓ نے جس محبت کا ثبوت دیا ہے اس کی وجہ سے وہ آج سے میرا بیٹا ہے۔ اس پر زیدؓ کا باپ اور چچا دونوں خوش ہو ئے اور خوش خوش واپس چلے گئے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ نہایت آرام اور سکھ کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال اخلاق کا یہ ثبوت ہے کہ جب زیدؓ نے وفاداری کا مظاہرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر معمولی احسان مندی کا ثبوت دیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 334-335)
اس واقعہ کا ذکر سیرت خاتم النبیین میں یوں ملتا ہے۔ جب ان کے والد اور چچا انہیں لینے آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ سے فرمایا تمہیں میری طرف سے بخوشی اجازت ہے۔ زیدؓ نے جواب دیا کہ میں آپؐ کو چھوڑ کر ہر گز نہیں جاؤں گا۔ آپؐ میرے لیے میرے چچا اور باپ سے بڑھ کر ہیں۔ یہاں یہ ایک نئی بات لکھی ہے کہ اس پر زیدؓ کا باپ غصے میں بولا کہ ہیں ! تُو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے؟ ہم تجھے آزاد کرانے آئے ہیں، لینے آئے ہیں اور تم کہتے ہو میں غلام بن کر رہوں گا۔ زیدؓ نے کہا۔ ہاں کیونکہ میں نے ان میں ایسی خوبیاں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب زیدؓ کا یہ جواب سنا تو فورا ًاٹھ کھڑے ہوئے اور زید کو خانہ کعبہ لے جاکر بلند آواز سے کہا کہ لوگو !گواہ رہو کہ آج سے میں زید کو آزاد کرتا ہوں اور اسے اپنا بیٹا بناتا ہوں۔ گو کہ یہ پہلے ہی آزاد تھے لیکن وہاں لوگوں کے سامنے بھی اعلان کیا۔ یہ میرا وارث ہو گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ میرا وارث ہو گا اور میں اس کا وارث ہوں گا۔ اس دن سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا تو زیدؓ بجائے زید بن حارثہ کے زید بن محمد کہلانے لگے لیکن ہجرت کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم اترا کہ منہ بولا بیٹا بنانا جائز نہیں ہے تو زیدؓ کو پھر زید بن حارثہ کہا جانے لگا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اور پیار اس وفادار خادم کے ساتھ وہی رہا جو پہلے دن تھا بلکہ دن بدن ترقی کرتا گیا اور زیدؓ کی وفات کے بعد زیدؓ کے لڑکے اسامہ بن زیدؓ سے بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ امِّ ایمنؓ کے بطن سے تھے آپؐ کا وہی سلوک اور وہی پیار تھا۔
زیدؓ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام صحابہؓ میں سے صرف ان ہی کا نام قرآن شریف میں صراحت کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 110-111)
ایک اَور روایت میں یہ بھی ہے۔ حضرت زیدؓ کے بڑے بھائی حضرت جَبَلہؓ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرے بھائی کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ یہ شاید بعد میں دوبارہ پھر واقعہ ہوا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارا بھائی تمہارے سامنے ہے۔ اگر یہ جانا چاہے تو میں اسے نہیں روکوں گا۔ اس پر حضرت زیدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپؐ پر کبھی بھی کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ حضرت جبلہؓ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے بہتر تھی۔ (کنز العمال جلد 13صفحہ 397باب فضائل الصحابہ حرف الزای زید بن حارثہؓ حدیث 37065 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
آپؓ کے بھائی کے حوالے سے ایک یہ روایت بھی ملتی ہے۔ حضرت جَبَلہؓ جو عمر میں حضرت زیدؓ سے بڑے تھے، ان سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ دونوں میں سے کون بڑا ہے۔ آپؓ یا زیدؓ؟ تو انہوں نے کہا زیدؓ مجھ سے بڑے ہیں۔ مَیں بس ان سے پہلے پیدا ہو گیا تھا۔ آپؓ کی مراد یہ تھی کہ حضرت زیدؓ اسلام لانے میں سبقت لے جانے کی وجہ سے آپؓ سے افضل ہیں۔ (الروض الانف فی شرح السیرة النبویة لابن ہشام جلد3 صفحہ19 اسلام زید، دارالکتب الحدیثہ)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ کو زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی کہ اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ۔ (الاحزاب: 6) کہ چاہیے کہ ان لَے پالکوں کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب ادعوھم لابائھم ھو اقسط عند اللہ حدیث 4782)
حضرت براءؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ سے فرمایا۔ اَنْتَ اَخُوْنَا وَ مَوْلَانَا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔ (صحیح البخاری جلد7 صفحہ 224 کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب زید بن حارثہ مولی النبیﷺ شائع کردہ نظارت اشاعت)
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ یَا زَیْدُ اَنْتَ مَوْلَایَ وَمِنِّیْ وَاِلَیَّ وَاَحَبُّ النَّاسِ اِلَیَّ کہ اے زید! تو میرا دوست ہے اور مجھ سے ہے اور میری طرف سے ہے اور تو مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 2صفحہ 497 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لیے میرے سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا۔ حضرت عمرؓ کے یہ بیٹے تھے۔ بیان کر رہے ہیں کہ اسامہؓ جو زیدؓ کے بیٹے تھے ان کا وظیفہ جب مقرر ہوا تو میرے سے زیادہ تھا۔ اس پر میں نے پوچھا کہ زیادہ کیوں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اسامہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ پیارا تھا۔ اسامہؓ جو زیدؓ کا بیٹا تھا یہ تمہارے سے زیادہ پیارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا اور اس کا باپ یعنی حضرت زیدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ سے زیادہ پیارا تھا۔ حضرت عمرؓ اپنے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ حضرت زیدؓ میرے سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیارے تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 2صفحہ 497زید بن حارثہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حضرت زید بن حارثہؓ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے مردوں میں سب سے پہلے ایمان لائے اور نماز ادا کی۔ (کنز العمال جلد 13 صفحہ 397 باب فضائل الصحابہ زید بن حارثہ ؓ حدیث 37063 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ: ’’ہر طبقے کے لوگ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا فرما دیے۔ عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ مکہ کے چوٹی کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر کوئی کہتا کہ ادنیٰ ادنیٰ لوگ اس کے ساتھ ہیں، اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے اس کو قبول نہیں کیا تو عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ اس کا جواب دینے کے لیے موجود تھے‘‘ (کہ ہم اعلیٰ خاندان کے ہیں) ’’اور اگر کوئی کہتا کہ چند امراء کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیا گیا ہے، غرباء جن کی دنیا میں اکثریت ہے انہوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا تو زیدؓ اور بلالؓ وغیرہ اس اعتراض کا جواب دینے کے لیے موجود تھے اور اگر بعض لوگ کہتے کہ یہ نوجوانوں کا کھیل ہے‘‘ (نوجوان اکٹھے ہو گئے ہیں) ’’تو لوگ ان کو یہ جواب دے سکتے تھے کہ ابوبکرؓ تو نوجوان اور ناتجربہ کار نہیں۔ انہوں نے کس بناء پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کر لیا ہے؟ غرض وہ کسی رنگ میں دلیل پیدا کرنے کی کوشش کرتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ہر شخص ان دلائل کو ردّ کرنے کے لیے ایک زندہ ثبوت کے طور پر کھڑا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال تھا۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ۔ اے محمد رسول اللہ! کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ جن سامانوں سے دنیا جیتا کرتی ہے وہ سارے سامان ہم نے تیرے لیے مہیا کر دیے ہیں۔ اگر دنیا قربانی کرنے والے نوجوانوں سے جیتا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں۔ اگر دنیا تجربہ کار بڈھوں کی عقل سے ہاراکرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں۔‘‘ (بڑی عمر کے لوگ)۔ ’’اگر دنیا مالدار اور بارسوخ خاندانوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے شکست کھاتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں اور اگر عوام الناس کی قربانی اور فدائیت کی وجہ سے دنیا جیتا کرتی ہے تو یہ سارے غلام تیرے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تُو ہار جائے اور یہ مکہ والے تیرے مقابلہ میں جیت جائیں۔ پس وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ کے معنی یہ ہیں کہ وہ بوجھ جس نے تیری کمر کو توڑ دیا تھا وہ ہم نے خود اٹھا لیا۔ تُو نے اس کام کی طرف نگاہ کی اور حیران ہو کر کہا کہ میں یہ کام کیوں کر کروں گا۔ خدا نے ایک دن میں ہی تجھے پانچ وزیر دے دیے۔ ابو بکرؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ خدیجہؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ علیؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ زیدؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ ورقہ بن نوفل کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ اور اس طرح وہ بوجھ جو تجھ اکیلے پر تھا وہ ان سب لوگوں نے اٹھا لیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 140)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’چار آدمی جن کو آپؐ سے بہت زیادہ تعلق کا موقع ملا تھا وہ آپؐ پر ایمان لائے یعنی خدیجہؓ آپ کی بیوی، علیؓ آپ کے چچازاد بھائی اور زیدؓ آپ کے آزاد کردہ غلام اور ابوبکرؓ آپ کے دوست اور ان سب کے ایمان کی دلیل اس وقت یہی تھی کہ آپؐ جھوٹ نہیں بول سکتے۔‘‘ آپؐ کے سب قریبی یہ کہا کرتے تھے۔ (دورہ یورپ، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 543)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت زید بن حارثہؓ کے اسلام لانے کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں جنہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی ترددنہیں کیا۔ حضرت خدیجہؓ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ بعض حضرت ابوبکرؓ عبداللہ ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں۔ بعض حضرت علیؓ کا جن کی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی اور بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کا، مگر ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے۔ حضرت علیؓ اور زیدؓ بن حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے اور آپؐ کے بچوں کی طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا تھا اور ان کا ایمان لانا بلکہ ان کی طرف سے تو شاید کسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی۔ پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور جو باقی رہے ان سب میں سے حضرت ابوبکرؓ مسلمہ طور پر مقدم اور سابق بالایمان تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 121)
یعنی عمر کے لحاظ سے صاحبِ عقل لوگوں میں سے، باشعور لوگوں میں سے تھے۔ صاحب ِعقل تو ماشاء اللہ بچے بھی اس زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے دنیا جس کو باشعور اور تجربہ کار کہتی ہے حضرت ابوبکرؓ تھے جو مردوں میں سے ایمان لائے لیکن بہرحال یہ چار تھے، تین مرد اور ایک عورت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور ان کا ایک بڑا مقام ہے جس طرح حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا۔
سفر ِطائف میں بھی حضرت زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھے۔ طائف مکہ سے جنوب مشرق کی جانب تقریباً 36؍میل کے فاصلہ پر واقع ایک جگہ ہے۔ نہایت ہی سرسبز و شاداب علاقہ ہے جہاں بہت اعلیٰ قسم کے میوے پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں قبیلہ ثقیف کے لوگ آباد تھے۔ (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 241، لغات الحدیث جلد3 صفحہ 46 کتاب ’’ف‘‘)
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوبارہ مظالم شروع کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارثہؓ کے ہمراہ طائف کی طرف تشریف لے گئے۔ یہ واقعہ 10؍ نبوی کا ہے اور ماہ شوال کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ آپؐ دس دن تک طائف میں رہے۔ اس دوران آپؐ طائف کے تمام رؤسا کے پاس گئے مگر کسی نے بھی آپ کی دعوت قبول نہیں کی۔ جب ان کو اندیشہ ہوا کہ ان کے نوجوان آپؐ کی دعوت قبول کر لیں گے، یہ فکر ضرور پیدا ہو گئی کہ کہیں نوجوان جو ہیں، جو عام لوگ ہیں وہ اسلام کی دعوت قبول نہ کر لیں تو انہوں نے کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے شہر سے نکل جاؤ اور وہاں جا کر رہو جہاں آپؐ کی دعوت قبول کی گئی ہے۔ پھر انہوں نے آوارہ لوگوں کو آپؐ کے خلاف بھڑکایا تو وہ آپؐ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے دونوں قدموں سے خون بہنے لگا۔ حضرت زید بن حارثہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکے جانے والے پتھروں کو اپنے اوپر لینے کی کوشش کرتے تھے حتٰی کہ حضرت زیدؓ کے سر پر بھی متعدد زخم آئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد اوّل صفحہ 165 ذکر سبب خروج رسول اللہﷺ الیٰ الطائف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
طائف کے اس سفر کی کچھ مزید وضاحت جو سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے، وہ بھی اس کے حوالے سے بیان کرتا ہوں۔ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا تھا۔ جب یہ محاصرہ اٹھ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حرکات و سکنات یعنی موومنٹ (movement) میں کچھ حد تک آزادی نصیب ہوئی تو آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ طائف میں جا کر وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ طائف ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس زمانہ میں قبیلہ بنو ثقیف سے آباد تھا۔ کعبہ کی خصوصیت کو اگر الگ رکھ کر دیکھا جائے تو شہر کے لحاظ سے طائف گویا مکہ کا ہم پلّہ تھا اور اس میں بڑے بڑے صاحبِ ثروت اور دولت مند لوگ آباد تھے اور طائف کی اس اہمیت کا خود مکہ والوں کو بھی اقرار تھا۔ چنانچہ یہ مکہ والوں کا ہی قول ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ
لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ (الزخرف: 32)
یعنی اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔ غرض شوال 10؍ نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ بعض روایتوں میں اکیلے تشریف لے گئے، بعض میں یہ ہے کہ زید بن حارثہؓ بھی ساتھ تھے۔ وہاں پہنچ کر آپؐ نے دس دن قیام کیا اور شہر کے بہت سے رؤساء سے یکے بعد دیگرے ملاقات کی مگر اس شہر کی قسمت میں بھی مکہ کی طرح اس وقت اسلام لانا مقدّرنہیں تھا۔ چنانچہ سب نے انکار کیا بلکہ ہنسی اڑائی۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے رئیسِ اعظم عَبْدِیَالِیْل اور حدیث میں ابنِ عَبْدِیَالِیْل کا نام آتا ہے، اس کے پاس جاکر اسلام کی دعوت دی مگر اس نے بھی صاف انکار کیا بلکہ تمسخر کے رنگ میں کہا کہ اگر آپؐ سچے ہیں تو مجھے آپؐ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو پھر گفتگو لا حاصل ہے۔ اس کا کوئی مقصدنہیں اور پھر اس خیال سے کہ کہیں آپؐ کی باتوں کا شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو جائے آپؐ سے کہنے لگا کہ بہتر ہو گا کہ آپؐ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہاں کوئی شخص آپؐ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں اور اس کے بعد اس بد بخت نے شہر کے آوارہ آدمی آپؐ کے پیچھے لگا دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے نکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپؐ کے پیچھے ہو لیے اور آپؐ پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے آپؐ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیااور جو پہلی روایت ہے اس میں یہ بھی تھا کہ حضرت زید بن حارثہؓ ساتھ تھے، ان کے سر پر بھی پتھر لگے جب وہ پتھروں کو روکتے تھے۔ بہر حال برابر تین میل تک یہ لوگ آپؐ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے۔
طائف سے تین میل کے فاصلے پر مکہ کے رئیس عتبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں آکر پناہ لی اور ظالم لوگ تھک کر واپس لوٹ گئے۔ یہاں ایک سائے میں کھڑے ہو کر آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں دعا کی کہ
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ۔ اَللّٰھُمَّ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی
اے میرے ربّ ! میں اپنے ضعفِ قوت اور قلتِ تدبیر اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔ اے میرے خدا! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بےکسوں کا تو ہی نگہبان اور محافظ ہے۔ تو ہی میرا پروردگار ہے۔ میں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تو ہی ہے جو ظلمتوں کو دور کرتا اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے۔
عُتْبَہ و شَیْبَہ اس وقت اپنے اس باغ میں موجود تھے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا تو دور و نزدیک کی رشتہ داری سے یا قومی احساس سے یا نہ معلوم کسی اَور خیال سے، بہرحال اپنے عیسائی غلام عَدَّاس نامی کے ہاتھ ایک کشتی میں کچھ انگور لگا کر آپ کے پاس بھجوائے۔ آپؐ نے لے لیے اور عَدَّاس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور کس مذہب کے پابند ہو؟ اس نے کہاکہ میں نینوا کا ہوں اور مذہباً عیسائی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہی نینوا جو خدا کے صالح بندے یونس بن متّٰی کا مسکن تھا؟ عَدَّاس نے کہا۔ اس نے پھر آپ سے پوچھا کہ ہاں مگر آپ کو یونس کا حال کیسے معلوم ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرا بھائی تھا کیونکہ وہ بھی اللہ کا نبی تھا اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں۔ پھر آپؐ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی جس کا اس پر اثر ہوا اور اس نے آگے بڑھ کر جوشِ اخلاص میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چوم لیے۔ اس نظارے کو دور سے کھڑے کھڑے عُتْبہ اور شَیْبَہ بھی دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ جب عَدَّاس ان کے پاس واپس گیا تو انہوں نے کہا عَدَّاس تجھے کیا ہوا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ چومنے لگا۔ یہ شخص تو تیرے دین کو خراب کر دے گا حالانکہ تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔
اس کے بعد پھر تھوڑی دیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باغ میں آرام فرمایا اور پھر وہاں سے روانہ ہوئے اور نخلہ میں پہنچے جو مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں کچھ دن قیام کیا۔ اس کے بعدنخلہ سے روانہ ہو کر آپؐ کوہِ حرا پر آئے اور چونکہ سفرِ طائف کی بظاہر ناکامی کی وجہ سے مکہ والوں کے زیادہ دلیر ہو جانے کا اندیشہ تھا اس لیے یہاں سے آپؐ نے مُطْعِم بِن عَدِی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ کیا تم مجھے اس کام میں مدد دے سکتے ہو؟ مُطْعِم پکا کافر تھا مگر طبیعت میں شرافت تھی اور ایسے حالات میں اِنکار کرنا شرفائے عرب کی فطرت کے خلاف تھاکہ اگر کوئی پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ نہ دیں۔ بہرحال عربوں میں اُس زمانے میں بھی، جاہلیت میں بھی یہ خصوصیت تھی۔ اس لیے اس نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور سب مسلح ہو کر کعبے کے پاس کھڑے ہو گئے اور آپؐ کو کہلا بھیجا کہ آجائیں ہم آپؐ کو پناہ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور کعبہ کا طواف کیا اور وہاں سے مُطْعِم اور اس کی اولاد کے ساتھ تلواروں کے سایہ میں اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ راستہ میں ابو جہل نے مُطْعِم کو اس حالت میں دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگا کہ کیا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف پنا ہ دی ہے یا اس کے تابع ہو گئے ہو؟ مُطْعِم نے کہا۔ میں صرف پنا ہ دینے والا ہوں۔ تابع نہیں ہوں۔ اس پر ابوجہل نے کہا۔ اچھا پھر کوئی حرج نہیں۔ بہرحال مُطْعِم کفر کی حالت میں ہی فوت ہوا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 181 تا 183)
یہ بہرحال اس کی ایک نیکی تھی۔ حضرت زیدؓ جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپؓ نے حضرت کلثوم بن ھِدْمؓ کے پاس قیام کیا جبکہ بعض کے مطابق آپؓ حضرت سعد بن خَیْثَمہؓ کے پاس ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت اُسَیْد بن حُضَیْرؓ سے کروائی۔ بعض نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت حمزہؓ سے قائم کروائی۔ یعنی کہ حضرت حمزہؓ کو آپؓ کا بھائی بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ احد کے دن حضرت حمزہ نے لڑائی کے وقت حضرت زیدؓ کے حق میں وصیت فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 32 زید الحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 6 حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں مزید لکھا ہے کہ
مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو کچھ روپیہ دے کر مکہ روانہ فرمایا جو چند دن میں آپ کے اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر خیریت سے مدینہ پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ عبداللہ بن ابی بکر، حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے کر مدینہ پہنچ گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 269)
حضرت بَرَاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہلِ مکہ نے اس بات سے انکار کیا کہ آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے دیں۔ آخر آپؐ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ آپؐ آئندہ سال عمرے کو آئیں گے اور یہاں مکہ میں تین دن تک ٹھہریں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو یوں لکھا کہ یہ وہ شرطیں ہیں جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی۔ مکہ والے کہنے لگے کہ ہم اس چیز کو نہیں مانتے۔ اگر ہم جانتے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو آپؐ کو کبھی نہ روکتے۔ کہنے لگے ہمارے نزدیک تو آپؐ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ یہاں سے مٹا دو۔ حضرت علیؓ نے کہا ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! میں آپؐ کے خطاب کو کبھی نہیں مٹاؤں گا یعنی کہ‘اللہ کا رسول’۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خطاب دیا ہے اس کو مَیں نہیں مٹا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے لکھا ہوا کاغذ لے لیا۔ آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے یوں لکھا کہ یہ وہ شرطیں ہیں جو محمد بن عبداللہ نے ٹھہرائیں۔ مکہ میں کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے سوائے تلواروں کے، جو نیاموں میں ہوں گی اور مکہ والوں میں سے کسی کو بھی ساتھ نہیں لے جائیں گے اگرچہ وہ ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں روکیں گے اگر وہ مکہ میں ٹھہرنا چاہے۔ بہرحال اس معاہدے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور تین دن کی مدت ختم ہو گئی تو قریش حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے ساتھی محمد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مقررہ مدت گزر چکی ہے، تین دن ٹھہرنے کی شرط تھی، تین دن ہو گئے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ کی بیٹی عُمَارَہ، ایک روایت میں ان کا نام اُمَامَہ اور دوسری روایت میں اَمَۃُاللّٰہ بھی ملتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آئیں کہ اے چچا! اے چچا! حضرت علیؓ نے جا کر اسے لے لیا، پکڑ لیا۔ اس کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہ علیہا السلام سے کہا کہ آپؓ چچا کی بیٹی کو لے لیں۔ انہوں نے اس کو سوار کر لیا۔ اب حضرت علیؓ، حضرت زیدؓ، اور حضرت جعفرؓ حضرت حمزہؓ کی لڑکی کی بابت جھگڑنے لگے۔ حضرت علیؓ کہنے لگے کہ مَیں نے تو اس کو لیا ہے اور میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفر نے کہا کہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ اسماء بنت عُمَیْس میری بیوی ہے اور حضرت زیدؓ نے کہا کہ میرے بھائی کی بیٹی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات قائم کرائی تھی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ کے پاس رہیں یعنی حضرت جعفر جو تھے ان کے پاس رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالہ بمنزلہ ماں کے ہے اور حضرت علیؓ سے کہا تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں اور حضرت جعفر سے کہا تم صورت اور سیرت میں مجھ سے ملتے جلتے ہو اور حضرت زید سے کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو اور دوست ہو۔ حضرت علی نے کہا کہ آپ حمزہؓ کی بیٹی سے شادی نہیں کرلیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ میرے دودھ بھائی ہیں اور میں اس بچی کا چچا ہوں۔ یہ روایت بخاری میں ہے اور سیرة الحلبیة میں بھی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء حدیث 4251) (السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 95 باب ذکر مغازیہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت زید بن حارثہؓ نے حضرت ام ایمنؓ سے شادی کی تھی۔ حضرت ام ایمنؓ کا نام بَرَکَة تھا اور آپ اپنے بیٹے ایمنؓ کی وجہ سے ام ایمن کی کنیت سے مشہور تھیں۔ آپؓ حبشہ کی رہنے والی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں۔ ان کی وفات کے بعد حضرت آمنہ کے پاس رہنے لگیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال کی تھی تو آپؐ کی والدہ ماجدہ آپؐ کو ساتھ لے کر اپنے میکے سے ملنے مدینہ گئیں تو اس وقت حضرت ام ایمنؓ بطور خادمہ ساتھ تھیں، چھوٹی بھی ہوں گی۔ مدینہ سے واپسی پر جب ابواء مقام جو کہ مسجدنبویؐ سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے پہنچے تو حضرت آمنہ کی وفات ہو گئی۔ حضرت ام ایمنؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انہی دو اونٹوں پر مکہ واپس لے آئیں جن پر وہ مکہ سے گئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے قبل مکہ میں حضرت ام ایمنؓ کی شادی عُبَیْد بن زید سے ہوئی جو خود ایک حبشی غلام تھے۔ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایمن تھا۔ حضرت ایمنؓ نے غزوہ حنین میں شہادت کا مقام حاصل کیا۔ حضرت ام ایمنؓ کے خاوند کی وفات ہو گئی تو آپؓ کی شادی حضرت زیدؓ سے کر دی گئی۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت ام ایمنؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت مہربانی سے پیش آتیں اور آپؐ کا خیال رکھتی تھیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اہل جنت کی خاتون سے شادی کر کے خوش ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ام ایمنؓ سے شادی کر لے۔ چنانچہ اس پر حضرت زید بن حارثہؓ نے ان سے شادی کی جس سے حضرت اسامہؓ پیدا ہوئے۔ حضرت ام ایمنؓ نے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ وہاں سے ہجرت کے بعد مدینہ واپس آئیں اور غزوۂ احد میں شرکت کی۔ اس موقعے پر آپؓ لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ ان کو غزوۂ خیبر میں بھی شرکت کی توفیق ملی۔ 23؍ہجری میں جب حضرت عمرؓ نے شہادت پائی تو حضرت ام ایمنؓ بہت روئیں۔ لوگوں نے پوچھا کیوں روتی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓ کی شہادت سے اسلام کمزور پڑ گیا ہے۔ حضرت ام ایمنؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت کے آغاز میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 179 تا 181 ام ایمن، جلد 1 صفحہ 93-94ذکر وفاۃ آمنۃ ام رسول اللہ ؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (السیرۃ الحلبیۃ جلد اوّل صفحہ 77 باب وفاۃ والدۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 291‘‘ ام ایمن ’’مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)(معجم البلدان جلد اوّل صفحہ 102‘‘ ابواء” مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت زیدؓ کی حضرت ام ایمنؓ سے شادی کے متعلق مختلف حوالوں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر کیا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے، جو آپؓ کی تحریرات میں ہے کہ ام ایمنؓ وہی ہیں جو آپؐ کے والد کی وفات پر ایک لونڈی کی حیثیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورثہ میں پہنچی تھیں۔ بڑے ہو کر آپؐ نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور ان کے ساتھ بہت احسان کا سلوک فرماتے تھے۔ بعد میں ام ایمنؓ کی شادی آپؐ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ کے ساتھ ہو گئی اور ان کے بطن سے اسامہ بن زیدؓ پیدا ہوئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 99) جنہیں اَلْحِبُّ ابْنُ الْحِبّ یعنی محبوب کا پیارا بیٹا کہا جاتا تھا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 1 صفحہ 75 ’’اسامہ بن زید‘‘ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ایمنؓ کو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ يَا أُمَّهْ یعنی اے میری والدہ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُمِّ ایمنؓ کی طرف دیکھتے تو فرماتے۔ هٰذِهٖ بَقِيَّةُ اَهْلِ بَيْتِىْ۔ یہ میرے اہل بیت میں سے باقی ماندہ ہیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے کہ أُمُّ أَيْمَنَ أُمِّيْ بَعْدَ أُمِّيْ۔ یعنی ام ایمنؓ میری حقیقی والدہ کے بعد میری والدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں بھی ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ (تاریخ الطبری جلد 13صفحہ 375المنتخب فی کتاب المذیل والذیل/ذکر تاریخ من عرف وقت وفاتہ من النساء…… دارالفکربیروت2002ء) (اسدالغابۃ جلد 7صفحہ 291، ام ایمن مولاۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب مہاجر مکہ سے مدینہ آئے اور ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا اور انصار زمین اور جائیداد والے تھے تو انصار نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ ان کو اپنے باغوں کا میوہ ہر سال دیا کریں گے لیکن ان میں کام کاج وہ خود کریں گے۔ باغ کا پھل دیں گے، آمد دیں گے لیکن جو باغ کی محنت مزدوری ہے، اس کو سنبھالنا ہے وہ خود کیا کریں گے۔ مہاجرین کو نہیں کرنے دیں گے۔ حضرت انسؓ کی والدہ حضرت ام سُلَیْم تھیں جو حضرت عبداللہ بن ابی طلحہؓ کی بھی والدہ تھیں۔ حضرت انس کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کھجور کے درخت دیے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخت اپنی کھلائی حضرت ام ایمنؓ کو دے دیے جو حضرت اسامہ بن زیدؓ کی والدہ تھیں۔ ابنِ شہاب کہتے تھے کہ مجھے حضرت انس بن مالکؓ نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اہلِ خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوئے اور مدینہ کو لوٹ گئے تو مہاجرین نے انصار کے وہ عطیے یعنی وہ پھل دار درخت جو انہوں نے ان کو اپنے باغوں سے دیے ہوئے تھے، واپس کر دیے۔ اب ان کو اپنی بھی کچھ دولت جائیداد وغیرہ مل گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت انسؓ کی والدہ کو ان کی کھجوریں واپس کر دیں اور ان کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمنؓ کو اپنے باغ میں سے کچھ درخت دے دیے۔ (صحیح البخاری کتاب الھبۃ باب فضل المنیحۃ حدیث 2630)
بخاری کی ایک دوسری روایت میں اس کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ کوئی صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھجوروں کے کچھ درخت خاص کر دیا کرتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ اور نضیر فتح کیے تو آپؐ کو ان کی ضرورت نہ رہی۔ تو وہ کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ درخت جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے تھے یا ان میں سے کچھ درخت واپس کرنے کے لیے کہوں کیونکہ اب آپؐ کو ضرورت نہیں رہی۔ حضرت انسؓ سے یہ روایت ہے۔ تو کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخت کیونکہ حضرت ام ایمنؓ کو دیے ہوئے تھے تو یہ سن کر حضرت ام ایمنؓ آئیں اور میری گردن میں کپڑا ڈالا اور بولیں کہ میں ہرگز نہیں دوں گی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبودنہیں ! کہ یہ درخت تمہیں کبھی نہیں ملیں گے جبکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دے چکے ہیں یا کچھ ایسا ہی کہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، واپس کر دو۔ تمہیں اتنے ہی اَور دوں گا۔ جتنے تمہیں درخت دیے ہوئے ہیں اُتنے ہی دوسری جگہ سے اَور دے دوں گا۔ لیکن وہ کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو، حضرت ام ایمنؓ کو اس سے دس گنا دیے یا کچھ ایسے ہی الفاظ تھے جو کہے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیﷺ من الاحزاب …… الخ حدیث 4120)کہ میں تمہیں دس گنا دے دوں گا۔ اس کے بعد یہ درخت واپس کیے گئے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت ام ایمنؓ کو مدینہ کی طرف پیدل ہجرت کرتے وقت شدید پیاس لگی، بڑی بزرگ عورت تھیں، اللہ تعالیٰ سے ان کا بڑا خا ص تعلق تھا۔ اس وقت آپؓ کے پاس پانی بھی نہیں تھا اور گرمی بھی بہت شدید تھی۔ انہوں نے اپنے سر کے اوپر کسی چیز کی آواز سنی تو کیا دیکھتی ہیں کہ ان پر آسمان سے ڈول کی مانند ایک چیز جھک آئی تھی جس سے پانی کے سفید قطرات گر رہے تھے۔ انہوں نے اس میں سے پانی پیا یہاں تک کہ سیراب ہو گئیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد سے مجھے کبھی پیاس اور تشنگی کا احساس نہیں ہوا، تکلیف نہیں ہوئی اور کبھی روزے کی حالت میں بھی پیاس محسوس ہوتی تو تب بھی میں پیاسی نہیں رہتی تھی۔
بدری صحابہ کے ساتھ جن خواتین کا بھی تعلق ہے ان خواتین کا ذکر بھی بعض صحابہ کے ذکر میں آ جاتا ہے تا کہ ان خواتین کے بلند مقام کا بھی ہمیں پتا لگتا رہے اس لیے میں یہ ذکر ساتھ ساتھ کرتا رہتا ہوں۔ حضرت ام ایمنؓ کی زبان میں کچھ لکنت تھی جب وہ کسی کے پاس جاتیں تو سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ کی بجائے، (پہلے یہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ کہنے کا رواج تھا،) لکنت کی وجہ سے سَلَامٌ لَا عَلَیْکُمْ کہتی تھیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ کی بجائے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ یا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کی اجازت دی اور اب وہی رواج ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا تو اس وقت حضرت ام ایمنؓ آپؐ کے پاس تھیں۔ انہوں نے کہا یا رسولؐ اللہ! مجھے بھی پانی پلائیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس پرمیں نے اُن سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم اس طرح کہہ رہی ہو کہ تمہیں پانی پلائیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ کیا مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ خدمت نہیں کی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے۔ پھر آپؐ نے انہیں پانی پلایا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ 77-78 باب وفاۃ والدۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو حضرت ام ایمنؓ روتی رہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپؓ کیوں رو رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں یہ تو جانتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضرور وفات پا جائیں گے لیکن میں تو اس لیے روتی ہوں کہ وحی ہم سے اٹھا لی گئی۔ (اسدالغابۃ جلد 7صفحہ 291، ام ایمن مولاۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)
یعنی آپؐ کی وفات کا ایک غم ہے وہ تو الگ رہا لیکن اس کے ساتھ جو تازہ بتازہ اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا تھا، وحی ہوتی تھی وہ سلسلہ اب بند ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے مجھے رونا آ رہا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہمارے ساتھ حضرت ام ایمنؓ کے ہاں چلو کہ ان سے ملیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔ اس پر ان دونوں نے انہیں کہا کہ آپؓ کیوں روتی ہیں؟ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے۔ حضرت ام ایمنؓ نے کہا کہ میں اس لیے نہیں روتی کہ جانتی نہیں ہوں کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے۔ ان کا بھی نیکی میں بڑا مقام تھا جیسا کہ میں نے کہا۔ کہتی ہیں کہ میں تو اس لیے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی آنا بند ہو گئی۔ انہوں نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ دونوں بھی رونے لگے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ام ایمن حدیث (2454)
حضرت اسامہؓ اور حضرت زیدؓ کی رنگت کا بڑا فرق تھا۔ ماں کیونکہ حبشہ کی رہنے والی تھیں، افریقن تھیں۔ اور زیددوسری جگہ کے رہنے والے تھے تو اس وجہ سے باپ بیٹے میں فرق تھا۔ ماں کی طرف ان کا رنگ زیادہ مائل تھا جس کی وجہ سے بعض لوگ حضرت اسامہؓ کی نسل پر اعتراض کرتے تھے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت زیدؓ کے بیٹے نہیں ہیں یا اعتراض برائے اعتراض ہوتے تھے۔ منافقین بھی اعتراض کیا کرتے تھے تو حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے پاس آئے تو آپؐ بڑے خوش تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ ! ابھی مُجَزِّزْ مُدْلَجِی میرے پاس آیا تھا۔ اس نے اسامہ بن زیدؓ اور زید بن حارثہؓ کو اس حالت میں دیکھا کہ ان دونوں پر ایک چادر تھی۔ گرمی کی وجہ سے یا بارش کی وجہ سے بہرحال کسی وجہ سے ایک چادر دونوں نے لی ہوئی تھی اور منہ ڈھکے ہوئے تھے، جس سے انہوں نے اپنے سروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور چہرے بھی نظر نہیں آ رہے تھے اور ان دونوں کے پیر باہر نکلے ہوئے تھے۔ صرف پیر باہر نکلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یقیناً یہ پیر ایک دوسرے میں سے ہیں یعنی کہ دونوں کے جو پاؤں ہیں بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خوش تھے کہ اسامہؓ پر جو اعتراض کیا جاتا تھا آج وہ اعتراض دور ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ماہر قیافہ شناس ہے اور یہ دیکھنے والے قیافہ شناس جو دنیادار آدمی ہوتے ہیں اس کی یہ بھی گواہی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الفرائض باب القائف حدیث 6771) (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الفرائض حدیث 6771جلد 12 صفحہ 58 مطبوعہ دار الریان للتراث القاھرہ 1987ء)
اور عرب کے ماحول میں یہ ایک حتمی بات ہوا کرتی تھی۔ ویسے تو کوئی نہیں لیکن یہ جو دنیا داروں کا منہ بند کرانے کے لیے، منافقین کا منہ بند کرانے کے لیے ایک ثبوت ملا جس پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش تھے۔
حضرت زیدؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے بھی تھے۔ آپؐ نے حضرت زیدؓ کی ایک شادی حضرت زینب بنت جحشؓ سے کروائی تھی لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہیں چلی اور حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی۔ یہ شادی ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ تک رہی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت زینب بنت جحشؓ سے شادی کی۔ (السیرۃ النبویۃ، عرض وقائع و تحلیل احداث از دکتور علی محمد صلابی۔ صفحہ 628-629۔ المبحث الاول: زواج النبیﷺ بزینب بنت جحش، دار المعرفۃ بیروت 2007ء)
مختلف حوالوں کو اکٹھا کر کے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر فرمایا ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ
ہجرت کے پانچویں سال میں غزوۂ بنی مصطلق سے کچھ عرصہ پہلے جو شعبان 5؍ہجری میں واقع ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحشؓ سے شادی فرمائی۔ حضرت زینبؓ آنحضرتؐ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں اور باوجودنہایت درجہ نیک اور متقی ہونے کے ان کی طبیعت میں اپنے خاندان کی بڑائی کااحساس بھی کسی قدر پایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اس قسم کے خیالات سے بالکل پاک تھی اور گو آپؐ خاندانی حالات کوتمدنی رنگ میں قابلِ لحاظ سمجھتے تھے مگر آپؐ کے نزدیک بزرگی کا حقیقی معیار ذاتی خوبی اور ذاتی تقویٰ وطہارت پرمبنی تھا۔ جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ (الحجرات: 14) یعنی اے لوگو! تم میں سے جو شخص زیادہ متقی ہے وہی زیادہ بڑا اور صاحبِ عزت ہے۔ پس آپؐ نے بلا کسی تامل کے اپنی اس عزیزہ یعنی زینب بنت جحشؓ کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ زید بن حارثہؓ کے ساتھ تجویز فرمادی۔ پہلے تو زینبؓ نے اپنی خاندانی بڑائی کاخیال کرتے ہوئے اسے ناپسند کیا لیکن آخرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی پُرزور خواہش کودیکھ کر رضامند ہو گئیں۔ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور تجویز کے مطابق زینبؓ اور زیدؓ کی شادی ہو گئی اور گو زینبؓ نے ہر طرح شرافت سے نبھاؤ کیا مگر زیدؓ نے اپنے طَور پر یہ محسوس کیا کہ حضرت زینبؓ کے دل میں ابھی تک یہ خلش مخفی ہے کہ میں ایک معزز خاندان کی لڑکی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قریبی رشتہ دار ہوں اور حضرت زیدؓ ایک محض آزاد شدہ غلام ہے اور میرا کفو نہیں۔ دوسری طرف خود زیدؓ کے دل میں بھی زینب کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن کے چھوٹا ہونے کا احساس تھا اور اس احساس نے آہستہ آہستہ زیادہ مضبوط ہوکر ان کی خانگی زندگی کو بے لطف کر دیا تھا اور میاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی تھی۔ جب یہ ناگوار حالت زیادہ ترقی کر گئی توزید بن حارثہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بزعم خود زینبؓ کے سلوک کی شکایت کرکے انہیں طلاق دے دینے کی اجازت چاہی اور ایک روایت میں یوں بھی آتا ہے کہ انہوں نے یہ شکایت کی کہ زینبؓ سخت زبانی سے کام لیتی ہے۔ اس لیے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعاً یہ حالات معلوم کرکے صدمہ بھی ہوا مگر آپؐ نے زیدؓ کو طلاق دینے سے منع فرمایا اور غالباً یہ بات محسوس کرکے کہ زیدؓ کی طرف سے نبھاؤ کی کوشش میں کمی ہے آپؐ نے حضرت زیدؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کرکے جس طرح بھی ہو نبھاؤ کرو۔ اس کی کوشش کرو۔ چنانچہ قرآن شریف میں بھی آپ کے یہ الفاظ مذکور ہیں کہ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللّٰہَ (الاحزاب: 38) کہ اے زید! اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو۔ آپؐ کی اس نصیحت کی وجہ یہ تھی کہ اول تواصولاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلاق کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا تھا کہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ۔ کہ ساری حلال چیزوں میں سے طلاق خدا کو زیادہ ناپسند ہے اور اسی لیے اسلام میں صرف انتہائی علاج کے طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسرے جیسا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین کی روایت ہے اور امام زہری نے اس روایت کو مضبوط قرار دیا ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے سے یہ وحی الٰہی ہوچکی تھی کہ زید بن حارثہؓ بالآخر زینبؓ کو طلاق دے دیں گے اور اس کے بعد زینبؓ آپؐ کے نکاح میں آئیں گی اس لیے آپؐ اس معاملہ میں اپنا ذاتی تعلق سمجھتے ہوئے بالکل غیر متعلق اور غیر جانبدارانہ رویہ رکھنا چاہتے تھے اور اپنی طرف سے اس بات کی پوری پوری کوشش کرنا چاہتے تھے کہ زیدؓ اور زینبؓ کے تعلق کے قطع ہونے میں آپؐ کا کوئی دخل نہ ہو اور جب تک نبھاؤ کی صورت ممکن ہو نبھاؤ ہوتا رہے اور تعلق قائم رہے اور اسی خیال کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اصرار کے ساتھ زیدؓ کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم طلاق نہ دو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرکے جس طرح بھی ہو نبھاؤ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بھی اندیشہ تھا کہ اگر زیدؓ کی طلاق کے بعد زینبؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں تو لوگوں میں اس کی وجہ سے اعتراض ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے اور خواہ نخواہ ابتلا کی صورت پیداہوگی۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ (الاحزاب: 38) کہ اے نبی! تُو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا وہ بات جسے خدا نے آخر ظاہر کر دیا۔ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ … جسے خدا نے آخر ظاہر کر دیا تھا۔ اور تو لوگوں کی وجہ سے ڈرتا تھااوریقیناً خدا اس بات کا بہت زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو تقوی اللہ کی نصیحت کرکے طلاق دینے سے منع فرمایا اور آپؐ کی اس نصیحت کے سامنے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے زیدؓ خاموش ہوکر واپس آگئے مگر اکھڑی ہوئی طبیعتوں کا ملنا مشکل تھا۔ دراڑیں پیدا ہو چکی تھیں۔ اب بڑا مشکل تھا اور جو بات نہ بننی تھی نہ بنی اور کچھ عرصے کے بعدزیدؓ نے طلاق دے دی۔ جب زینبؓ کی عدت ختم ہوچکی تو ان کی شادی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر وحی نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوانہیں خود اپنے عقد میں لے لینا چاہیے اور اس خدائی حکم میں علاوہ اس حکمت کے کہ اس سے حضرت زینبؓ کی دلداری ہوجائے گی اور مطلقہ عورت کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں میں عیب نہ سمجھا جائے گا۔ یہ حکمت بھی مدِّنظر تھی کہ چونکہ حضرت زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ تھے اور آپؐ کے بیٹے کہلاتے تھے اس لیے جب آپؐ خوداس کی مطلقہ سے شادی فرما لیں گے تو اس بات کا مسلمانوں میں ایک عملی اثرہوگا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور نہ اس پر حقیقی بیٹوں والے احکام جاری ہوتے ہیں اور آئندہ کے لیے عرب کی جاہلانہ رسم مسلمانوں میں پورے طور پر مٹ جائے گی۔ چنانچہ اس بارہ میں قرآن شریف نے جو تاریخ اسلامی کا سب سے زیادہ صحیح ریکارڈ ہے یوں فرماتا ہے کہ فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا (الاحزاب: 38) یعنی جب زیدنے زینب سے قطع تعلق کرلیا توہم نے زینب کی شادی تیرے ساتھ کردی تاکہ مومنوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی روک نہ رہے بعد اس کے کہ وہ منہ بولے بیٹے اپنی بیویوں سے قطع تعلق کرلیں اور خدا کا یہ حکم اسی طرح پورا ہونا تھا۔
الغرض اس خدائی وحی کے نازل ہونے کے بعد جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی خواہش اور خیال کا قطعاً کوئی دخل نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینبؓ کے ساتھ شادی کا فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت زیدؓ کے ہاتھ ہی حضرت زینبؓ کوشادی کا پیغام بھجوایا اور حضرت زینبؓ کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر ان کے بھائی ابو احمد بن جحش نے ان کی طرف سے ولی ہوکر چار سو درہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا نکاح کردیا اور اس طرح وہ قدیم رسم، جو عرب کی سرزمین میں راسخ ہوچکی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نمونے کے نتیجے میں اسلام میں جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دی گئی۔
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ عام مؤرخین اور محدثین کایہ خیال ہے کہ چونکہ زینبؓ کی شادی کے متعلق خدا ئی وحی نازل ہوئی تھی اور خدا کے خاص حکم سے یہ شادی وقوع میں آئی اس لیے ظاہری طور پر ان کے نکاح کی رسم ادا نہیں کی گئی مگر یہ خیال درست نہیں ہے۔ بے شک خدا کے حکم سے یہ شادی ہوئی اور کہا جاسکتا ہے کہ آسمان پرنکاح پڑھا گیا مگر اس وجہ سے شریعت کی ظاہری رسم جو تھی وہ بھی خدا ہی کی مقرر کردہ ہے اس سے آزادی حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ابنِ ہشام کی روایت، جس کا حوالہ پہلے درج کیا گیا ہے اور جس میں ظاہری رسم نکاح کا واقع ہونا بتایا گیا ہے، اس معاملہ میں واضح ہے اور کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ اور یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ دوسری امہات المومنین کے مقابلے میں حضرت زینبؓ یہ فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے ولیوں نے زمین پر پڑھائے ہیں اور میرا نکاح آسمان پر ہوا ہے، اس سے بھی یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت زینبؓ کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی تھی کیونکہ باوجود ظاہری رسم کی ادائیگی کے ان کا یہ فخر قائم رہتا ہے کہ ان کا نکاح خدا کے خاص حکم سے آسمان پر ہوا مگر اس کے مقابل پر دوسری امہات المومنین کی شادیاں عام اسباب کے ماتحت ظاہری رسم کی ادائیگی کے ساتھ وقوع میں آئیں۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اذن کے زینبؓ کے پاس تشریف لے گئے تھے اور اس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی تھی مگر غور کیاجاوے تو اس بات کو بھی ظاہری رسم کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینبؓ کے گھر بغیر اجازت چلے گئے تھے تویہ غلط اور خلافِ واقعہ ہے کیونکہ بخاری کی صریح روایت (بڑی واضح روایت) میں یہ ذکر ہے کہ شادی کے بعد زینب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رخصت ہوکرآئی تھیں نہ کہ آپؐ ان کے گھرگئے تھے اور اگر اس روایت سے یہ مراد ہے کہ جب وہ رخصت ہو کر آپؐ کے گھر آگئیں تواس کے بعد آپؐ ان کے پاس بغیر اذن کے تشریف لے گئے تو یہ کوئی غیر معمولی اور خلافِ دستور بات نہیں ہے کیونکہ جب وہ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بن کر آپؐ کے گھر آگئی تھیں تو پھر آپؐ نے بہرحال ان کے پاس جانا ہی تھا اور آپؐ کواذن کی ضرورت نہیں تھی۔ پس اذن نہ لینے والی روایت کا قطعاً کوئی تعلق اس سوال سے نہیں ہے کہ آپؐ کے اس نکاح کی ظاہری رسم ادا کی گئی یا نہیں۔ اور حق یہی ہے جیسا کہ ابنِ ہشام کی روایت میں تصریح کی گئی ہے کہ باوجود خدائی حکم کے اس نکاح کی باقاعدہ رسم ادا کی گئی تھی۔ اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہوا ہو کیونکہ اول تو عام قاعدے میں استثنا کی کوئی وجہ نہیں تھی اور دوسرے جب اس نکاح میں ایک رسم کاتوڑنا اور اس کے اثر کوزائل کرنا مقصود تھا۔ (یہ پہلے رسم تھی اور بڑی پکی رسم تھی کہ متبنیٰ کی بیوی سے نکاح نہیں ہو سکتا اور اس رسم کو توڑنا مقصد تھا) تو اس بات کی پھر بدرجہ اولی ضرورت تھی، بہت زیادہ ضرورت تھی کہ یہ نکاح بڑے اعلان کے ساتھ کیا جاتا اور بڑی شہادتوں کے سامنے کیا جاتا تا کہ دنیا کو پتا لگتا کہ یہ رسم آج ختم ہو رہی ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 543 تا 546)
حضرت زیدؓ کی زندگی کے واقعات کے تعلق میں حضرت زینبؓ کے بارے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے بارے میں بھی میں نے کچھ تفصیل سے یہ ذکر اس لیےکیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت زینبؓ کی شادی کے بارے میں آج کل بھی معترضین سوال اور اعتراض کرتے ہیں اس لیے اس بارے میں ہمیں کچھ تفصیلی علم بھی ہونا چاہیے۔ اس کی بعض اَور تفصیلات بھی ہیں۔ حضرت زیدؓ کے بارے میں بھی بعض باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ تو یہ دونوں باتیں جس حد تک بیان کرنے کی ضرورت ہوئی میں آئندہ بھی کروں گا۔ حضرت زید کے حوالے سے یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔
حضرت زینب بنت جحشؓ کی عمر شادی کے وقت 35سال کی تھی اور عرب کے حالات کے لحاظ سے یہ عمر ایسی تھی جسے گویا ادھیڑ عمر، بڑی عمر کہنا چاہیے۔ حضرت زینبؓ ایک نہایت متقی اور پرہیز گار اور مخیر خاتون تھیں۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں صرف زینب ہی وہ بیوی تھیں جو حضرت عائشہؓ کا مقابلہ کرتی تھیں اور ان کی ہمسری کا دم بھرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ ان کے ذاتی تقویٰ اور طہارت کی بہت مداح تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں نے زینبؓ سے زیادہ نیک عورت نہیں دیکھی اور یہ کہ وہ بہت متقی، بہت راست گو، بہت صلہ رحمی کرنے والی، بہت صدقہ و خیرات کرنے والی اور نیکی اور تقرب الٰہی کے اعمال میں نہایت سرگرم تھیں۔ بس اتنی بات تھی ان کی طبیعت ذرا تیز تھی مگر تیزی کے بعد وہ جلد ہی خودنادم ہو جایا کرتی تھیں۔ صدقہ اور خیرات میں تو ان کا یہ مرتبہ تھا کہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اَسْرَعُکُنَّ لِحَاقًا بِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا۔ یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے فوت ہو کر میرے پاس پہنچے گی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ظاہری ہاتھ سمجھے اور اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے زینب بنت جحشؓ کا انتقال ہوا تو تب جا کر ہم پر یہ راز کھلا کہ ہاتھ سے مراد صدقہ و خیرات کا ہاتھ تھا نہ کہ ظاہری ہاتھ۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید لکھتے ہیں کہ جیسا کہ اندیشہ کیا جاتا تھا حضرت زینبؓ کی شادی پر منافقینِ مدینہ کی طرف سے بہت اعتراضات ہوئے اور انہوں نے برملا طور پر طعن کیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر کے گویا اپنی بہو کواپنے اوپر حلال کرلیا ہے لیکن جب اس شادی کی غرض ہی عرب کی اس جاہلانہ رسم کو مٹانا تھی تو پھر ان طعنوں کا سننا بھی ضروری تھا۔ اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ابنِ سعد اور طبری وغیرہ نے حضرت زینب بنت جحشؓ کی شادی کے متعلق ایک سراسر غلط اور بے بنیاد روایت نقل کی ہے اور چونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے خلاف اعتراض کاموقع ملتا ہے اس لیے بعض مسیحی مؤرخین نے اس روایت کونہایت ناگوار صورت دے کر اپنی کتب کی زینت بنایا ہے۔
روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحشؓ کی شادی زید کے ساتھ کردی تواس کے بعد آپؐ کسی موقع پر زیدؓ کی تلاش میں ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔ اس وقت اتفاق سے زید بن حارثہؓ اپنے مکان پر نہیں تھے۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے سے باہر کھڑے ہوکر زیدؓ کو آواز دی تو زینبؓ نے اندر سے جواب دیا کہ وہ مکان پر نہیں ہیں اور ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پہچان کر وہ لپک کر اٹھیں اور عرض کیا یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پرقربان ہوں۔ آپؐ اندر تشریف لے آئیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا اور واپس لوٹنے لگے۔ اب یہ راوی اس طرح کی روایت آگے لکھتے ہیں کہ مگر چونکہ حضرت زینبؓ گھبرا کرایسی حالت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں کہ ان کے بدن پراوڑھنی نہیں تھی اور مکان کادروازہ کھلا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑ گئی اور آپؐ نعوذ باللہ ان کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر یہ الفاظ گنگناتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللّٰہِ مُصَرِّفِ الْقُلْوبِ۔ کہ پاک ہے وہ اللہ جو سب سے بڑائی والا ہے اور پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں لوگوں کے دل ہیں جدھرچاہتا ہے انہیں پھیردیتا ہے۔ جب زید بن حارثہؓ واپس آئے تو زینبؓ نے ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا قصہ بیان کیا اور زیدؓ کے دریافت کرنے پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے تھے۔ حضرت زینبؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بیان کیے اور کہا میں نے تو عرض کیا تھا کہ آپؐ اندر تشریف لے آئیں مگر آپؐ نے انکار فرمایا اور واپس تشریف لے گئے۔ یہ سن کر زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور کہا یارسولؐ اللہ! شاید آپؐ کو زینب پسند آگئی ہے۔ اگر آپؐ پسند فرمائیں تو میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور پھر آپؐ اس کے ساتھ شادی فرما لیں۔ آپؐ نے فرمایا زید! خدا کا تقویٰ کرو اور زینبؓ کو طلاق نہ دو۔ یہ روایت لکھنے والے پھر آگے اس طرح لکھتے ہیں کہ مگر اس کے بعد زیدؓ نے زینبؓ کو طلاق دے دی۔ یہ وہ روایت ہے جو ابنِ سعد اور طبری وغیرہ نے اس موقع پر بیان کی ہے اور گو اس روایت کی ایسی تشریح کی جاسکتی ہے جوچنداں قابلِ اعتراض نہیں، بالکل قابلِ اعتراض نہیں ہوگی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ سرتاپا محض غلط اور جھوٹ ہے اور روایت ودرایت ہر طرح سے اس کا جھوٹا ہونا ظاہر ہے۔ روایتاً تو اس قدر جاننا کافی ہے کہ اس قصے کے راویوں میں زیادہ تر واقدی اور عبداللہ بن عامر اَسْلَمِی کاواسطہ آتا ہے اور یہ دونوں شخص محققین کے نزدیک بالکل ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہیں حتیٰ کہ واقدی تو اپنی کذب بیانی اور دروغ بیانی میں ایسی شہرت رکھتا ہے کہ غالباً مسلمان کہلانے والے راویوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ اور اس کے مقابلہ میں وہ روایت جو ہم نے اختیار کی ہے جس میں زیدؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر هوکر زینبؓ کی بدسلوکی کی شکایت کرنا بیان کیا گیا تھا، اور اس کے مقابلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان بیان کیا گیا تھا کہ تم خدا کا تقویٰ اختیار کرواورطلاق نہ دو، یہ روایت جو ہے وہ بخاری کی روایت ہے جو دوست اور دشمن کے نزدیک قرآن شریف کے بعد اسلامی تاریخ کا صحیح ترین ریکارڈ سمجھی جاتی ہے اور جس کے خلاف کبھی کسی حرف گیر کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پس اصولِ روایت کی رو سے دونوں روایتوں کی قدروقیمت ظاہر ہے۔
اسی طرح عقلاً بھی غور کیا جاوے توابنِ سعد وغیرہ کی روایت کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا کیونکہ جب یہ بات مسلّم ہے کہ زینبؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں حتیٰ کہ آپؐ ہی نے ان کے ولی بن کر زید بن حارثہؓ سے ان کی شادی کی تھی اور دوسری طرف اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ اب تک مسلمان عورتیں پردہ نہیں کرتی تھیں بلکہ پردہ کے متعلق ابتدائی حکم حضرت زینبؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے بعدنازل ہوئے تھے تو اس صورت میں یہ خیال کرنا کہ زینبؓ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، صرف اس وقت اتفاقی نظر پڑ گئی اور آپؐ ان پر فریفتہ ہوگئے ایک صریح اور بدیہی بطلان اور جھوٹ ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یقیناً اس سے پہلے آپؐ نے ہزاروں دفعہ زینب کودیکھا ہوگا اور ان کے جسم کا حسن وقبح جوکچھ بھی تھا آپؐ پر عیاں تھا اور گو اوڑھنی کے ساتھ دیکھنا اور اوڑھنی کے بغیر دیکھنا کوئی فرق نہیں رکھتا لیکن جب رشتہ اس قدر قریب تھا اور پردے کی رسم بھی اور حکم بھی اس وقت شروع نہیں ہوا تھا اور ہر وقت کی میل ملاقات تھی تو اَغلب یہ ہے کہ آپؐ کو کئی دفعہ انہیں بغیر اوڑھنی کے دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہو گا اور زینبؓ کاآپؐ کو اندر تشریف لانے کے لیے عرض کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ان کے بدن پر اتنے کپڑے ضرور تھے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہونے کے لیے تیار تھیں۔ پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے یہ قصہ ایک محض جھوٹا اور بناوٹی قصہ قرار پاتا ہے جس کے اندر کچھ بھی حقیقت نہیں اور اگر ان دلائل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کامل درجہ مقدس اور زاہدانہ زندگی کو بھی مدنظر رکھا جائے جو آپؐ کی ہر حرکت وسکون سے واضح اور عیاں تھی تو پھر تو اس واہیات اور فضول روایت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور یہی وجہ ہے کہ محققین نے اس قصے کو قطعی طورپر جھوٹا اور بناوٹی قرار دیا ہے۔ مثلاً علامہ ابنِ حجرنے فتح الباری میں، علامہ ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں، علامہ زرقانی نے شرح مَوَاہِب میں وضاحت کے ساتھ اس روایت کوسراسر جھوٹا قرار دے کر اس کے ذکر تک کو صداقت کی ہتک سمجھا ہے اور یہی حال دوسرے محققین کا ہے۔ اور محققین پر ہی بس نہیں بلکہ ہر شخص جسے تعصّب نے اندھا نہیں کر رکھا وہ اس بیان کو جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے کہ ہم نے قرآن شریف اور احادیث ِصحیحہ کی بنا پرمرتب کرکے پیش کیا ہے اُس لچر اور ناقابلِ التفات قصے پر ترجیح دے گا جسے بعض منافقین نے اپنے پاس سے گھڑ کر روایت کیا اور مسلمان مؤرخین نے جن کا کام صرف ہر قسم کی روایات کوجمع کرنا تھا اسے بغیر کسی تحقیق کے اپنی تاریخ میں جگہ دے دی اور پھر بعض غیر مسلم مؤرخین نے مذہبی تعصب سے اندھا ہوکر اسے اپنی کتاب کی زینت بنایا۔
اس بناوٹی قصے کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ اپنی سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ یہ زمانہ اسلامی تاریخ کا وہ زمانہ تھا جبکہ منافقینِ مدینہ اپنے پورے زور میں تھے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کی سرکردگی میں ان کی طرف سے ایک باقاعدہ سازش اسلام اور بانیٔ اسلام کوبدنام کرنے کی جاری تھی اور ان کا یہ طریق تھا کہ جھوٹے اور بناوٹی قصے گھڑگھڑ کرخفیہ خفیہ پھیلاتے رہتے تھے یااصل بات توکچھ ہوتی تھی اور وہ اسے کچھ کا کچھ رنگ دے کر اور اس کے ساتھ سو قسم کے جھوٹ شامل کرکے اس کی درپردہ اشاعت شروع کردیتے تھے۔ چنانچہ قرآن شریف کی سورۂ احزاب میں جس جگہ حضرت زینبؓ کی شادی کا ذکر ہے اس کے ساتھ ساتھ منافقینِ مدینہ کا بھی خاص طورپر ذکر کیاگیا ہے اور ان کی شرارتوں کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤ اِلَّا قَلِیۡلًا (الاحزاب: 61) یعنی اگرمنافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں جھوٹی اور فتنہ انگیز خبروں کی اشاعت کرنے والے لوگ اپنی ان کارروائیوں سے باز نہ آئے تو پھر اے نبی ہم تمہیں ان کے خلاف ہاتھ اٹھانے کی اجازت دیں گے اور پھر یہ لوگ مدینہ میں نہیں ٹھہرسکیں گے مگرتھوڑا۔ اس آیت میں صریح طور پر اس قصہ کے جھوٹا ہونے کی طرف اصولی اشارہ کیا گیا ہے۔ پھرجیسا کہ آگے چل کے ذکر آتا ہے اسی زمانہ کے قریب قریب حضرت عائشہؓ کے خلاف بہتان لگائے جانے کا بھی خطرناک واقعہ پیش آیا اور عبداللہ بن ابی اور اس کے بددیانت ساتھیوں نے اس افترا کااس قدر چرچا کیا اور ایسے ایسے رنگ دے کر اس کی اشاعت کی کہ مسلمانوں پران کا عرصہ عافیت تنگ ہو گیا اور بعض کمزور طبیعت اور ناواقف مسلمان بھی ان کے اس گندے پروپیگنڈا کاشکار ہو گئے۔ الغرض یہ زمانہ منافقوں کے خاص زور کا زمانہ تھا اور ان کا سب سے زیادہ دل پسند حربہ یہ تھا کہ جھوٹی اور گندی خبریں اڑا اڑا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے متعلقین کو بدنام کریں اور یہ خبریں ایسی ہوشیاری کے ساتھ پھیلائی جاتی تھیں کہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اکابر صحابہؓ کو تفصیلی علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تردید کا موقع بھی نہیں ملتا تھا او راندر ہی اندر ان کا زہر پھیلتا جاتا تھا۔ ایسی صورتوں میں بعض بعد میں آنے والے مسلمان جو زیادہ تحقیق اور تدقیق کے عادی نہیں تھے انہیں سچا سمجھ کر ان کی روایت شروع کردیتے تھے اور اس طرح یہ روایتیں واقدی وغیرہ کی قسم کے مسلمانوں کے جو مجموعے تھے ان میں راہ پاگئیں مگرجیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے صحیح احادیث میں ان کا نام ونشان تک نہیں پایا جاتا اور نہ محققین نے انہیں قبول کیا ہے۔
حضرت زینب بنت جحشؓ کے قصہ میں سرولیم میور نے جن سے یقیناً ایک بہتر ذہنیت کی امید کی جاتی تھی واقدی کی غلط اور بناوٹی روایت کو قبول کرنے کے علاوہ اس موقع پریہ دلآزار طعن بھی کیا ہے۔ وہ معترض تھا۔ ان سے تو یہی امید ہونی چاہیے تھی اور پھر جب حوالہ مسلمانوں کا مل جائے تو پھر ان کو مزید طعن کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے کہ گویا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نفسانی خواہشات بھی ترقی کرتی جاتی تھیں (نعوذ باللہ) اور میور صاحب آپؐ کے حرم کی جو توسیع تھی، شادیوں میں اضافہ تھا اس کو میور صاحب اسی جذبے پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ یہی کہتے ہیں کہ یہ نفسانی خواہشات تھیں، نعوذ باللہ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ میں بھی ایک مؤرخ کی حیثیت سے اس بات کو بغیر کسی مذہبی بحث میں پڑنے کے بیان کرتا ہوں مگر تاریخی واقعات کوایک غلط راستے پر جب ڈالا جاتا ہے تو اسے دیکھ کر اس ناگوار اور غیر منصفانہ طریق کے خلاف آواز بلند کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ پس علاوہ مذہبی جذبات کے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کے سوال کے، جس پر ایک حقیقی مسلمان اور ایک مومن تو اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے، عقلی اور تاریخی حقائق جو ہیں وہ بھی اس بیہودہ بات کی نفی کرتے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ بے شک یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور یہ بات بھی مسلمہ تاریخ کا حصہ ہے کہ علاوہ حضرت خدیجہؓ کے آپؐ کی ساری شادیاں اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جسے بڑھاپے کازمانہ کہا جاسکتا ہے مگر بغیر کسی تاریخی شہادت کے بلکہ واضح اور صریح تاریخی شہادت کے خلاف یہ خیال کرنا کہ آپ کی یہ شادیاں نعوذ باللہ جسمانی خواہشات کے جذبہ کے ماتحت تھیں ایک مؤرخ کی شان سے بہت بعید ہے اور ایک شریف انسان کی شان سے بھی بعید تر ہے۔ میورصاحب اس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ عورت سے شادی کی اور پھر پچاس سال کی عمر تک اس رشتہ کواس خوبی اور وفاداری کے ساتھ نباہا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے بعد بھی آپؐ نے پچپن سال کی عمر تک عملاً صرف ایک بیوی رکھی اور یہ بیوی حضرت سودہؓ بھی حسنِ اتفاق سے ایک بیوہ اور ادھیڑ عمر کی خاتون تھیں اور اس تمام عرصہ میں جو جذباتِ نفسانی کے ہیجان کا مخصوص زمانہ ہے آپؐ کو کبھی دوسری شادی کا خیال نہیں آیا۔ میور صاحب اس تاریخی واقعہ سے بھی ہرگز ناواقف نہیں تھے کہ جب مکہ والوں نے آپؐ کی تبلیغی مساعی سے تنگ آ کر اور ان کو اپنے قومی دین کامخرِّب (خراب کرنے والا) خیال کرکے آپؐ کے پاس عتبہ بن ربیعہ کوبطور ایک وفد کے بھیجا تھا اور آپؐ سے بڑی پُرزور استدعا کی درخواست کی تھی کہ آپؐ اپنی ان کوششوں سے رُک جائیں اور دولت اور ریاست کی طمع دینے کے علاوہ ایک یہ درخواست بھی پیش کی کہ اگرآپؐ کسی اچھی لڑکی کے ساتھ شادی کرکے ہم سے خوش ہوسکتے ہیں اور ہمارے دین کو برا بھلا کہنے اور اس نئے دین کی تبلیغ سے باز رہ سکتے ہیں تو آپؐ جس لڑکی کو پسند کریں ہم آپؐ کے ساتھ اس کی شادی کیے دیتے ہیں۔ اس وقت آپؐ کی عمر بھی کوئی ایسی زیادہ نہیں تھی پھرجسمانی طاقت بھی بعد کے زمانہ کی نسبت یقیناً بہترحالت میں تھی مگر جو جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤسائے مکہ کے اس نمائندہ کودیا وہ بھی تاریخ کاایک کھلا ہوا ورق ہے جس کے دوہرانے کی، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ضرورت نہیں ہے اور یہ تاریخی واقعہ بھی میور صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں تھا کہ مکہ کے لوگ آپؐ کو آپؐ کی بعثت سے قبل یعنی چالیس سال کی عمر تک ایک بہترین اخلاق والا انسان سمجھتے تھے مگر باوجود ان سب شہادتوں کے میور صاحب کایہ لکھنا کہ پچپن سال کی عمر کے بعد جب ایک طرف آپؐ کی جسمانی طاقتوں میں طبعاً انحطاط رونما ہونے لگا تھا اور دوسری طرف آپؐ کے مشاغل اور ذمہ داریاں اس قدربڑھ گئیں جوایک مصروف سے مصروف انسان کے مشاغل کو بھی شرماتی ہیں توآپؐ عیش وعشرت میں مبتلا ہو گئے۔ یہ یقیناً ہرگز کوئی غیر متعصبانہ ریمارک نہیں سمجھا جاسکتا۔ یقیناً یہ تعصّب سے بھرا ہوا ریمارک ہے۔ کہنے کوتو کوئی شخص جوکچھ بھی کہنا چاہے کہہ سکتا ہے اور اس کی زبان اور قلم کوروکنے کی دوسروں میں طاقت نہیں ہوتی مگر عقل مند آدمی کوچاہیے کہ کم از کم ایسی بات نہ کہے جسے دوسروں کی جو عقل ِسلیم ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ میورصاحب اور ان کے ہم خیال لوگ اگراپنی آنکھوں سے تعصّب کی پٹی اتار کر دیکھتے توانہیں معلوم ہو جاتا کہ محض یہ بات ہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شادیاں آپؐ کے بڑھاپے کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جسمانی اغراض کے ماتحت نہیں تھیں بلکہ ان کی تہ میں کوئی دوسری اغراض بھی مخفی تھیں خصوصاً جبکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپؐ نے اپنی جوانی کے ایام ایک ایسی حالت میں گزارے جس کی وجہ سے آپؐ نے اپنوں اور بیگانوں سے امین کا خطاب پایا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں اور ہر پڑھنے والے کے، تاریخ جاننے والے کے یقیناً یہی جذبات ہوتے ہیں کہ اس بات کے مطالعہ سے مجھے ایک روحانی سرور حاصل ہوتا ہے کہ آپؐ کی عمر کے جس زمانہ میں آپؐ کی یہ شادیاں ہوئیں وہ وہ زمانہ ہے جب کہ آپؐ پر آپؐ کے فرائضِ نبوت کا سب سے زیادہ بار تھا اور اپنی ان لاتعداد اور بھاری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں آپؐ بالکل محو ہو رہے تھے اور ہر انصاف پسند، شریف انسان کے نزدیک محض یہ منظر ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ آپؐ کی یہ شادیاں آپؐ کے فرائضِ نبوت کا حصہ تھیں جوآپؐ نے ساپنی خانگی خوشی کوبرباد کرتے ہوئے تبلیغ وتربیت کی اغراض کے ماتحت کی تھیں۔ ایک بُرا آدمی دوسرے کے افعال میں بری نیت تلاش کرتا ہے اور اپنی گندی حالت کی وجہ سے بسا اوقات دوسرے کی نیک نیت کو سمجھ بھی نہیں سکتا مگر ایک شریف انسان اس بات کو جانتا اور سمجھتا ہے کہ بسااوقات ایک ہی فعل ہوتا ہے جسے ایک گندہ آدمی بری نیت سے کرتا ہے مگر اسی کو ایک نیک آدمی نیک اور پاک نیت سے کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔
پھر یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں شادی کی غرض یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت اپنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کے لیے اکٹھے ہوسکیں بلکہ گونسلِ انسانی کے بقا کے لیے مرد وعورت کا اکٹھا ہونا نکاح کی ایک جائز غرض ہے مگر اس میں بہت سی اَورپاکیزہ اغراض بھی مدِّنظر ہیں۔ پس ایک انسان کی شادیوں کی وجہ تلاش کرتے ہوئے، جس کی زندگی کا ہرحرکت اور سکون اس کی بے نفسی اور پاکیزگی پرایک دلیل ہے، گندے آدمیوں کی طرح گندے خیالات کی طرف مائل ہونے لگنا اس شخص کوتو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جس کے متعلق یہ رائے لگائی جاتی ہے مگر رائے لگانے والے، دینے والے کے اپنے اندرونے کاآئینہ ضرورسمجھا جا سکتا ہے۔ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ پس اس سے زیادہ اس اعتراض کے جواب میں، مَیں کچھ نہیں کہتاکہ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔ کہ اللہ ہی ہے جس سے اس بات پر مدد مانگی جا سکتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 549 تا 555)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بھی اس شادی اور نکاح کے حوالے سے ایک نکتہ اپنے ایک نکاح کے خطبہ میں بیان فرمایا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی کی لڑکی کا نکاح زیدؓ سے کرایا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ نہیں کیا ہو گا۔ دعائیں نہیں کی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ پر اتکال نہ کیا ہوگا۔ توکّل نہیں کیا ہو گا۔ یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہوں گی۔ آپؐ نے استخارہ بھی کیا ہو گا۔ دعائیں بھی کی ہوں گی مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی کوشش کو بارآور نہیں کیا۔ آپؓ لکھتے ہیں یہ نکتہ بیان فرما رہے ہیں کہ اصل وجہ اس بات کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ یہ بات لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولادنہیں ہے خواہ قانونِ قدرت والی اولاد ہو یا قانونِ ملکی والی، (جو بچے adoptکر لیتے ہیں وہ ملکی قانون کے تحت اولاد تصور ہوتی ہے۔) قانونِ قدرت کے مطابق تو آپؐ کی کوئی نرینہ اولادنہیں تھی مگر ملکی دستور اور اس وقت کے قانونِ شریعت کے مطابق آپؐ کی اولاد موجود تھی جیسا کہ زیدؓ تھے۔ لوگ انہیں ابنِ محمدؐ کہا کرتے تھے۔ حضرت زینبؓ کے نکاح کے واقعہ سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اولاد وہی ہوتی ہے جو قانونِ قدرت کے مطابق ہو یعنی جسمانی اولاد ہو۔ قانونِ ملکی والی اولاد حقیقی اولادنہیں ہوتی۔ (جو adopt کیے ہوئے بچے ہوتے ہیں وہ بھی حقیقی اولادنہیں ہوتی) اور نہ شریعت نے حقیقی اولاد کے لیے جو قوانین رکھے ہیں وہ دوسروں پر عائد ہوتے ہیں۔ اس بات کو قائم کرنے کے لیے واحد طریق یہی تھا کہ حضرت زیدؓ کی مطلقہ کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے زیدؓ اور اس کی بیوی کے تفرقہ کو دور نہ ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو دور ہو سکتا تھا لیکن نہیں دور ہونے دیا۔ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ بھی کیا تھا۔ دعائیں بھی کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ پر اتکال کیا تھا۔ کوشش کی تھی، مگر حکمتِ الٰہی یہی تھی کہ زیدؓ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں جائے تا کہ یہ ثابت ہو کہ قانون ِملکی کے لحاظ سے اولاد قانونِ قدرت والی اولاد کی طرح نہیں ہوتی۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے جو اس شادی کی حکمت کے پیچھےآپؓ نے بیان فرمایا۔ (ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 3 صفحہ 390-391)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آزاد شدہ غلاموں کے ساتھ جو برتاؤ تھا اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ لوگوں کے پرانے خیالات کی اصلاح کی غرض سے آپؐ غلاموں اور آزاد شدہ غلاموں میں سے قابل لوگوں کی تعظیم وتکریم کاخیال دوسرے لوگوں کی نسبت بھی زیادہ رکھتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے بہت سے موقعوں پر اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ اور ان کے لڑکے اسامہ بن زیدؓ کو جنگی مہموں میں امیر مقرر فرمایااوربڑے بڑے صاحبِ عزت اور جلیل القدر صحابیوں کو ان کے ماتحت رکھااورجب ناسمجھ لوگوں نے اپنے پرانے خیالات کی بنا پر آپؐ کے اس فعل پراعتراض کیا توآپؐ نے فرمایا …… تم لوگوں نے اسامہؓ کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کیا ہے اور اس سے پہلے تم اس کے باپ زیدؓ کی امارت پر بھی طعن کرچکے ہو مگر خدا کی قسم جس طرح زیدؓ امارت کا حق دار اور اہل تھا اور میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اسی طرح اسامہؓ بھی امارت کا اہل ہے اور میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔
اس ارشاد ِنبویؐ پر جو اسلام کی حقیقی مساوات کا حامل تھا صحابہ کی گردنیں جھک گئیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اسلام میں کسی شخص کا غلام یا غلام زادہ ہونا یا بظاہر کسی ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھنا اس کی ترقی کے رستہ میں حارج نہیں ہو سکتا، (کوئی روک نہیں بن سکتا) اور اصل معیار بہر صورت تقویٰ اور ذاتی قابلیت پر مبنی ہے۔‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ683)
’’پھراس سے بڑھ کرکیا ہوگا کہ آپؐ نے اپنی حقیقی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحشؓ کو زید بن حارثہؓ سے بیاہ دیا اور عجیب کرشمہ یہ ہے کہ سارے قرآن میں اگر کسی صحابی کانام مذکور ہوا ہے تو وہ یہی زیدبن حارثہؓ ہیں۔‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ398-399)
غلاموں کی اسلامی طریق پر آزادی کے بارے میں آپؓ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی طریق پر آزاد ہونے والے لوگوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی نظر آتی ہے جوہرقسم کے میدان میں ترقی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے ہیں اور جنہوں نے مختلف شعبوں میں مسلمانوں میں لیڈر ہونے کا مرتبہ حاصل کیا …… صحابہؓ میں زید بن حارثہؓ ایک آزاد شدہ غلام تھے مگر انہوں نے اتنی قابلیت پیدا کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قابلیت کی وجہ سے بہت سی اسلامی مہموں میں انہیں امیرالعسکر‘‘ (یعنی پورے لشکر کا امیر) ’’مقرر فرمایا اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابی حتیٰ کہ خالدبن ولیدؓ جیسے کامیاب جرنیل بھی ان کی ماتحتی میں رکھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ403)
حضرت زیدؓ غزوۂ بدر، احد، خندق، حدیبیہ، خیبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت زیدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تیر اندازوں میں سے شمار ہوتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ مُرَیْسِیْع (یہ غزوۂ بنو مصطلق کا دوسرا نام ہے) جو سیرۃ الحلبیہ کے مطابق شعبان 5؍ ہجری میں ہوا تھا، اس کے لیے جانے لگے تو آپؐ نے حضرت زیدؓ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی اور نو ایسے سرایا میں شامل ہوا (وہ جنگیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں میں شامل نہیں ہوئے تھے) جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر حضرت زید بن حارثہؓ کو امیرِ لشکر مقرر کیا تھا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو جب بھی کسی لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا تو ہر دفعہ اس لشکر کا امیر ہی مقرر فرمایا اور حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اگر حضرت زیدؓ بعد میں بھی زندہ رہتے تو آپؐ انہی کو امیر مقرر فرماتے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 33 زید الحب بن حارثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ377-378 باب غزوہ بنی المصطلق مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں غزوۂ سَفَوَانْ جسے غزوۂ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں جو جمادی الآخر 2؍ہجری میں ہوا۔ اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوۂ عُشَیْرَہ کے بعد ’’ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ میں تشریف لائے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے ایک رئیس کُرْزبِنْ جَابِر فِہْرِی نے قریش کے ایک دستے کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل پر تھی اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر چلتا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع ہوئی توآپؐ فوراً زید بن حارثہؓ کواپنے پیچھے امیر مقرر کر کے اور مہاجرین کی ایک جماعت کوساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سَفَوَان تک جوبدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا۔ اس غزوہ کو غزوۂ بدر الاولیٰ بھی کہتے ہیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 330)
جس کی پہلے وضاحت کی تھی اور جو غزوۂ عُشَیْرَة ہے اس کے بارے میں مختصر بتا دوں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے بد ارادوں کی خبر ملی تو آپؐ یہ خبر سن کر مدینہ سے نکلے اور ساحلِ سمندر کے پاس عُشَیْرَة مقام تک پہنچے۔ گو قریش سے وہاں مقابلہ نہیں ہوالیکن وہاں قبیلہ بنو مدلج کے ساتھ بعض شرائط پر آپس میں امن کا معاہدہ ہوا اور اس کے بعد آپؐ مدینہ تشریف لے آئے۔ تو عُشَیْرَة سمندر کے کنارے مقام تھا۔ وہاں آپؐ خبر سن کے گئے تھے کہ کافر وہاں جمع ہو رہے ہیں اور شاید فوج اکٹھی ہو رہی ہے تو آپؐ نے سوچا کہ وہیں باہر نکل کے ان کا مقابلہ کیا جائے لیکن بہرحال جنگ نہیں ہوئی اور اس سفر کا یہ فائدہ ہوا کہ ایک قبیلے سے آپؐ کا امن کا معاہدہ ہو گیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 329)
غزوہ اور سَرِیَّہ کے بارے میں بھی یہ وضاحت کر دوں۔ بعضوں کو نہیں پتا ہوگا کہ غزوہ اسے کہتے ہیں جس مہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہوئے اور سَرِیّہ یا بعث اسے کہتے ہیں جس میں آپؐ شامل نہیں ہوئے۔ غزوہ اور سَرِیّہ دونوں میں یہ بھی واضح ہو جائے کہ تلوار کے جہاد کے لیے نکلنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر وہ سفر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں وہ غزوہ کہلاتا ہے خواہ وہ خصوصیت سے لڑنے کی خاطر نہ بھی کیا گیا ہو لیکن بعد میں مجبوری سے جنگ کرنی پڑی ہو۔ اسی طرح سَرِیّہ بھی ہے۔ پس ہر غزوہ اور سَرِیّہ لڑائی کی مہم کاہی نہیں ہوتا۔ غزوۂ عُشَیْرَة میں بھی جیسا کہ بیان ہوا کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ327)
جب جنگِ بدر ختم ہو گئی تو ’’بدر سے روانہ ہوتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو مدینہ کی طرف روانہ فرمایا تا کہ وہ آگے آگے جا کر اہلِ مدینہ کوفتح کی خوشخبری پہنچا ویں۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ سے پہلے پہنچ کر مدینہ والوں کو فتح کی خبر پہنچائی جس سے مدینہ کے صحابہ کو اگر ایک طرف اسلام کی عظیم الشان فتح ہونے کے لحاظ سے کمال درجہ خوشی ہوئی تو اس لحاظ سے کسی قدر افسوس بھی ہوا کہ اس عظیم الشان جہاد کے ثواب سے وہ خود محروم رہے۔ اس خوشخبری نے اس غم کو بھی غلط کر دیا جو زید بن حارثہؓ کی آمد سے تھوڑی دیر قبل مسلمانانِ مدینہ کو عموماً اور حضرت عثمانؓ کو خصوصاً رقیہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہنچا تھا جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے بیمار چھوڑ کر غزوۂ بدر کے لیے تشریف لے گئے تھے اور جن کی وجہ سے حضرت عثمانؓ بھی شریکِ غزوہ نہیں ہو سکے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ367)
حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک سَرِیّہ جو جمادی الآخر سن 3؍ہجری میں قَرَدَہ کے مقام کی طرف بھیجا گیا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
بَنُو سُلَیْم اور بَنُو غَطَفَانْ کے حملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اور خطرہ کے سدِّباب کے لیے وطن سے نکلنا پڑا۔ اب تک قریش اپنی شمالی تجارت کے لیے عموماً حجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن اب انہوں نے یہ راستہ ترک کر دیا کیونکہ ……اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے اور قریش کے لیے شرارت کا موقع کم تھا بلکہ ایسے حالات میں وہ اس ساحلی راستے کو خود اپنے لیے خطرے کا موجب سمجھتے تھے۔ بہرحال اب انہوں نے اس راستے کو ترک کرکے نجدی راستہ اختیار کرلیا جو عراق کوجاتا تھا اور جس کے آس پاس قریش کے حلیف اور مسلمانوں کے جانی دشمن تھے، پہلے رستے وہ تھے جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوا تھا اور اس رستے پر جس کو قریش نے اختیار کیا وہاں ان کے اپنے معاہدے والے تھے اور وہ لوگ اور قبائل آباد تھے جو مسلمانوں کے بھی جانی دشمن تھے جو قبائل سُلَیْم اور غَطَفَان تھے۔ چنانچہ جمادی الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش ِمکہ کاایک تجارتی قافلہ نجدی راستے سے گزرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر قریش کے قافلوں کاساحلی راستے سے گزرنا مسلمانوں کے لیے موجبِ خطرہ تھا تونجدی راستے سے ان کا گزرنا ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر اندیشہ ناک تھا کیونکہ برخلاف ساحلی راستے کے اس راستے پرقریش کے حلیف آباد تھے جوقریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اور جن کے ساتھ مل کر قریش بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ میں خفیہ چھاپہ مار سکتے تھے یاکوئی شرارت کرسکتے تھے اور پھر قریش کوکمزور کرنے اور انہیں صلح جوئی کی طرف مائل کرنے کی غرض کے ماتحت بھی ضروری تھا کہ اس راستے پربھی ان کے قافلوں کی روک تھام کی جاوے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کے ملتے ہی اپنے آزادکردہ غلام زیدبن حارثہؓ کی سرداری میں اپنے صحابہ کاایک دستہ روانہ فرما دیا۔
قریش کے اس تجارتی قافلے میں ابو سُفْیان بن حَرْب اور صَفْوَان بن اُمَیَّہ جیسے رؤساء بھی موجود تھے۔ زیدؓ نے نہایت چستی اور ہوشیاری سے اپنے فرض کوادا کیا اور نجد کے مقام قَرَدَہ میں ان دشمنانِ اسلام کو جا پکڑا اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر قریش کے لوگ قافلہ کے اموال اور جو بھی ان کا مال تھا اس کو چھوڑ کربھاگ گئے اور زید بن حارثہؓ اور ان کے ساتھی ایک کثیر مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ میں کامیاب و کامران واپس آئے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قریش کے اس قافلہ کاراہبر ایک فرات نامی شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوا اور مسلمان ہونے پر رہا کر دیا گیا لیکن دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاسوس تھا مگر بعد میں مسلمان ہو کر مدینے میں ہجرت کرکے آگیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 465-466)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت زید بن حارثہؓ ایک سریے سے مدینہ واپس لوٹے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔ حضرت زیدؓ آئے اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کا استقبال کیا اور انہیں گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا۔ (سنن الترمذی ابواب الاستئذان باب ما جاء فی المعانقۃ والقبلۃ حدیث 2732)
شعبان 5؍ ہجری میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی تو بعض روایات کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو مدینہ کا امیر مقرر کیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 558)
غزوۂ خندق کے دن مہاجرین کا جھنڈا بھی حضرت زید بن حارثہؓ کے پا س تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد دوم صفحہ 51 باب غزوہ رسول اللہﷺ الخندق مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یہ ذکر شاید ابھی کچھ مزید چلے۔
حضرت زید بن حارثہؓ کے ذکر میں بعض مزید واقعات اور حوالے ہیں جنہیں آج میں پیش کروں گا۔ حضرت زید بن حارثہؓ ایک سریہ جو ربیع الآخر سن 6؍ ہجری میں بنو سُلَیْم کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
ماہ ربیع الآخر 6؍ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور سابق متبنّٰی زیدبن حارثہؓ کی امارت میں چند مسلمانوں کوقبیلہ بنی سُلَیْم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ قبیلہ اس وقت نجد کے علاقے میں بمقام جموم آباد تھا اور ایک عرصہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بر سر پیکار چلا آتا تھا، سازشیں کرتا رہتا تھا، جنگوں کی کوشش کرتا تھا۔ چنانچہ غزوۂ خندق میں بھی اس قبیلہ نے مسلمانوں کے خلاف نمایاں حصہ لیا تھا۔ جب زید بن حارثہؓ اور ان کے ساتھی جموم میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر تھا تو وہاں کوئی نہیں تھا، خالی جگہ دیکھی مگر انہیں قبیلہ مُزَیْنَہ کی ایک عورت حلیمہ نامی جو مخالفین اسلام میں سے تھی اس نے اس جگہ کاپتہ بتا دیا جہاں اس وقت قبیلہ بنوسُلَیْم کاایک حصہ اپنے جانور، مویشی چرارہا تھا۔ چنانچہ اسی اطلاع سے فائدہ اٹھا کرزید بن حارثہؓ نے اس جگہ پرچھاپا مارا اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر اکثر لوگ تو اِدھر اُدھر بھاگ کرمنتشر ہوگئے مگر چند قیدی اور مویشی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے جنہیں وہ لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹے۔ اتفاق سے ان قیدیوں میں حلیمہ کا خاوند بھی تھا اور گو کہ وہ جنگی مخالف تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ کی اس امداد کی وجہ سے نہ صرف حلیمہ کو بلا فدیہ آزاد کر دیا بلکہ اس کے خاوند کو بھی احسان کے طور پر چھوڑ دیا اور حلیمہ اور اس کا خاوند خوشی خوشی اپنے وطن کوواپس چلے گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 669)
حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک اَور سریہ، جو جمادی الاولیٰ سن چھ ہجری میں عیص مقام کی طرف بھیجا گیا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ
زید بن حارثہؓ کواس مہم یعنی بنو سُلَیْم کی طرف جو سریہ گیا تھا اس سے واپس آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ کے مہینہ میں انہیں ایک سو ستر صحابہ کی کمان میں پھر مدینہ سے روانہ فرمایا اور اس مہم کی وجہ اہل سِیَر نے یہ لکھی ہے کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کاایک قافلہ آرہا تھا اور اس کی روک تھام کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستہ کوروانہ فرمایا تھا۔
یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ قریش کے قافلے عموماً ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اور مکہ اور شام کے درمیان آتے جاتے ہوئے وہ مدینہ کے بالکل قریب سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے جاتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں جس کی وجہ سے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف عداوت کی ایک خطرناک آگ مشتعل ہوچکی تھی اس لیے ان کی روک تھام ضروری تھی۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کی خبرپاکر زید بن حارثہؓ کواس طرف روانہ فرمایا اور وہ اس ہوشیاری سے گھات لگاتے ہوئے آگے بڑھے کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور عِیص کے مقام پر قافلے کو جا پکڑا۔ عِیص ایک جگہ کانام ہے جو مدینہ سے چار دن کی مسافت پرسمندر کی جانب واقع ہے۔ چونکہ یہ اچانک حملہ تھا، اہل قافلہ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنا سازوسامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ زیدنے بعض قیدی پکڑ کراورسامانِ قافلہ اپنے قبضہ میں لے کر مدینہ کی طرف واپسی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 670)
یہ یاد رکھنا چاہیے ہر سریہ یا جو بھی جنگ ہوئی، جو بھی لشکر بھیجا گیا وہ اس لیے کہ کچھ نہ کچھ قافلوں کی طرف سے یہ خبر ہوتی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی سازشیں کر رہے ہیں یا کوئی منصوبہ بندی کر کے حملوں کی تجویز سوچ رہے ہیں۔ پھر حضرت زید بن حارثہؓ کے ایک اَور سریہ جو جمادی الآخرہ سن چھ ہجری میں طَرف مقام کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی ذکر کیا ہے کہ
’’غزوہ بنولِحْیان کے کچھ عرصہ بعد جمادی الآخرہ 6؍ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کی کمان میں پندرہ صحابیوں کاایک دستہ طَرَف کی جانب روانہ فرمایا جو مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلہ پر واقع تھا اور اس جگہ ان ایام میں بنوثَعْلَبَہ کے لوگ آباد تھے مگرقبل اس کے کہ زیدبن حارثہؓ وہاں پہنچتے اس قبیلہ کے لوگ بروقت خبر پا کر اِدھر اُدھر منتشر ہوگئے اور زیدؓ اور ان کے ساتھی چند دن کی غیر حاضری کے بعد‘‘ کچھ دن وہاں قیام کیا اور پھر ’’مدینہ میں واپس لوٹ آئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 680-681)
اور کوئی جنگ ونگ نہیں کی، نہ ان کو تلاش کیا۔
پھر زید بن حارثہؓ کا ایک اَور سریہ ہے جو جمادی الآخرہ سن 6؍ ہجری میں حِسمٰی کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ
اسی ماہ جمادی الآخرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کوپانچ سو مسلمانوں کے ساتھ حِسمٰی کی طرف روانہ فرمایا، جومدینہ کے شمال کی طرف بنوجُذام کا مسکن تھا، وہ وہاں رہتے تھے۔ اس مہم کی غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی جن کانام دِحْیَہ کلبیؓ تھا، شام کی طرف سے قیصرروم کو مل کر واپس آرہے تھے اور ان کے ساتھ کچھ سامان بھی تھا جوکچھ تو قیصر کی طرف سے خلعت وغیرہ کی صورت میں تھا اور کچھ تجارتی سامان تھا۔ جب دِحْیَہؓ بنوجُذام کے علاقہ کے پاس سے گزرے تو اس قبیلہ کے رئیس ھُنَیْد بن عارِض نے اپنے قبیلہ میں سے ایک پارٹی کواپنے ساتھ لے کر دِحْیَہ پر حملہ کردیا اور سارا سامان چھین لیا، تجارتی سامان بھی اور جو کچھ قیصر نے دیا تھا۔ یہاں تک زیادتی کی کہ دحیہؓ کے جسم پربھی سوائے پھٹے ہوئے کپڑوں کے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ جب اس حملہ کا علم بنوضُبَیْب کو ہوا جو قبیلہ بنوجُذام ہی کی ایک شاخ تھے اور ان میں سے بعض لوگ مسلمان ہوچکے تھے تو انہوں نے بنوجُذام کی اس پارٹی کاپیچھا کر کے ان سے لوٹا ہوا سامان واپس چھین لیا اور دِحْیَہؓ اس سامان کو لے کر مدینہ واپس پہنچے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ یہاں آکر دِحْیَہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسارے حالات سے اطلاع دی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کوروانہ فرمایا اور دِحْیَہؓ کوبھی زیدؓ کے ساتھ بھجوا دیا۔ زیدؓ کا دستہ بڑی ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتا تھا اور رات کو سفر کرتا تھا اور یہ سفر کرتے ہوئے حِسمی کی طرف بڑھتے گئے اور عین صبح کے وقت بنوجُذام کے لوگوں کو جا پکڑا۔ بنوجُذام نے مقابلہ کیا، باقاعدہ جنگ ہوئی مگر مسلمانوں کے اچانک حملہ کے سامنے ان کے پاؤں جم نہ سکے اور تھوڑے سے مقابلہ کے بعد وہ بھاگ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور زید بن حارثہؓ بہت سا سامان اور مال مویشی اور ایک سو کے قریب قیدی پکڑکر واپس آگئے۔ مگر ابھی زیدؓ مدینہ میں پہنچے نہیں تھے کہ قبیلہ بنوضُبَیْب کے لوگوں کوجو بنوجُذام کی شاخ تھے زیدؓ کی اس مہم کی خبر پہنچ گئی اور وہ اپنے رئیس رِفاعہ بن زید کی معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں جا کے کہا کہ یارسول اللہ! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، جیسا کہ ذکر ہواان لوگوں نے تو سامان چھڑایا تھا۔ اور ہماری بقیہ قوم کے لیے امن کی تحریرہوچکی ہے، (معاہدہ ہو چکا ہے کہ ان کو امن بھی ملے گا) توپھر ہمارے قبیلہ کواس حملہ میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔ اس حملے میں ان کے قبیلے کے کچھ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے مگرزیدؓ کو اس کا علم نہیں تھا اور پھر جو لوگ اس موقع پر مارے گئے تھے ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار افسوس کااظہار کیا۔ اس پر رِفاعہ کے ساتھی ابوزیدنے کہا یارسولؐ اللہ! جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے متعلق ہمارا کوئی مطالبہ نہیں یہ ایک غلط فہمی کاحادثہ تھا جو ہو گیاکہ ہمارے جو معاہدے والے لوگ تھے جنگ میں ان کو بھی ملوث کر لیا گیا مگر جو لوگ زندہ ہیں اور جو سازوسامان زیدؓ نے ہمارے قبیلہ سے پکڑا ہے وہ ہمیں واپس مل جانا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ بالکل درست ہے اور آپؐ نے فوراً حضرت علیؓ کوزیدؓ کی طرف روانہ فرمایا اور بطور نشانی کے انہیں اپنی تلوار عطا فرمائی اور زیدؓ کو کہلا بھیجا کہ اس قبیلہ کے جو قیدی اور اموال پکڑے گئے ہیں، جو بھی مال تم نے پکڑا ہے وہ چھوڑ دو۔ زیدؓ نے یہ حکم پاتے ہی فوراً سارے قیدیوں کوچھوڑ دیا اور ان کا مال غنیمت بھی انہیں واپس لوٹا دیا۔ (ماخوز از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 681-682)
پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدوں کی پاسداری کا اسوہ تھا۔ یہ نہیں کہ پکڑ لیا تو ظلم کرنا ہے بلکہ غلط فہمی سے جو کچھ ہوا، بعض قبیلے شامل تھے اور ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ جان بوجھ کے بھی شامل ہوئے ہوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا اور ان کا مال و متاع بھی ان کو واپس کر دیا۔
پھر حضرت زیدؓ کے ایک اَور سریہ جو رجب 6 ہجری میں وادی القُریٰ کی طرف بھیجا گیا تھا اس کا ذکر بھی ملتا ہے۔
’’سریہ حِسمٰی کے قریباً ایک ماہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر زید بن حارثہؓ کووادی القُریٰ کی طرف روانہ فرمایا۔ جب زیدؓ کا دستہ وادی القُریٰ میں پہنچا تو بنوفَزارہ کے لوگ ان کے مقابلہ کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ اس معرکے میں متعدد مسلمان شہید ہوئے اور خود زیدؓ کوبھی سخت زخم آئے مگر خدا نے اپنے فضل سے بچا لیا۔‘‘ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’وادی القُریٰ جس کا اس سریہ میں ذکر ہوا ہے وہ مدینہ سے شمال کی طرف شامی راستہ پرایک آباد وادی تھی جس میں بہت سی بستیاں آباد تھیں اور اسی واسطے اس کانام وادی القُریٰ پڑگیا تھا۔ یعنی بستیوں والی وادی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 682-683)
سریہ مُؤتَہ 8؍ہجری میں ہوا۔ مُؤتَہ بلقاء کے قریب ملک شام میں ایک مقام ہے۔ اس سریہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے، وجوہات بیان کرتے ہوئے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیرؓ کو قاصد بنا کر شاہ بصریٰ کے پاس خط دے کر بھیجا۔ جب وہ مُؤتَہ کے مقام پر اترے تو انہیں شُرَحْبِیْل بن عَمرو غَسَّانی نے شہید کر دیا۔ حضرت حارث بن عمیرؓ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کوئی قاصد شہیدنہیں کیا گیا۔ بہرحال یہ سانحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گراں گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا تو وہ تیزی سے جُرف مقام پر جمع ہو گئے جن کی تعداد تین ہزار تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب کے امیر زید بن حارثہؓ ہیں اور ایک سفید جھنڈا تیار کر کے حضرت زیدؓ کو دیتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ حارث بن عمیرؓ جہاں شہید کیے گئے ہیں وہاں پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے نہیں تو ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ان سے جنگ کریں۔ سریہ مُؤتَہجمادی الاول سن 8 ہجری میں ہوا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ 98-97 سریہ مؤتہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ ؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مُؤتَہ کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر فرمایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر زیدؓ شہید ہو جائیں تو جعفرؓ امیر ہوں گے اور اگر جعفرؓ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ تمہارے امیر ہوں گے۔ اور اس لشکر کو جَیْشُ الْاُمَرَاء بھی کہتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ مؤتۃ من أرض الشام حدیث 4261) (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 505 حدیث 22918 مسند ابو قتادہ انصاری ؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
صحیح بخاری میں بھی اس کا ذکر ہے مسند احمد بن حنبل میں بھی۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت جعفرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ آپ زیدؓ کو مجھ پر امیر فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کو چھوڑو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ بہتر کیا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ34۔ ذکر زید الحب۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سریہ مُؤتَہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس سریہ کا افسر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو مقرر کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں اس وقت زیدؓ کو لشکر کا سردار بناتا ہوں۔ اگر زید لڑائی میں مارے جائیں تو ان کی جگہ جعفرؓ لشکر کی کمان کریں۔ اگر وہ بھی مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ کمان کریں اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر جس پر مسلمان متفق ہوں وہ فوج کی کمان کرے۔ جس وقت آپؐ نے یہ ارشاد فرمایا اس وقت ایک یہودی بھی آپؐ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ میں آپؐ کو نبی تو نہیں مانتا لیکن اگر آپؐ سچے بھی ہوں تو ان تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں آئے گا کیونکہ نبی کے منہ سے جو بات نکلی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے۔ گذشتہ چند مہینے پہلے جو ذکر ہوا تھا اس میں غالباً یہ ذکر تھا کہ یہودی حضرت زیدؓ کے پاس گیا اور ان کو یہ کہا۔ توبہرحال حضرت مصلح موعودؓ نے اس روایت کو اس طرح درج کیا ہے کہ وہ یہودی حضرت زیدؓ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اگر تمہارا رسول سچا ہے تو تم زندہ واپس نہیں آؤ گے۔ حضرت زیدؓ نے فرمایا کہ میں زندہ آؤں گا یا نہیں آؤں گا اس کو تو اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور سچا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا۔ حضرت زیدؓ شہید ہوئے۔ ان کے بعد حضرت جعفرؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہوئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پھیل جاتا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے۔ (ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 405-406)
بخاری میں اس واقعہ کی روایت اس طرح ملتی ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیدؓ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے۔ پھر جعفرؓ نے اسے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہؓ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے اور یہ خبر دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ فرمایا کہ پھر جھنڈے کو خالد بن ولیدؓ نے بغیر سردار ہونے کے پکڑا اور انہیں فتح حاصل ہوئی۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الرجل ینعی الیٰ اھل المیت بنفسہ حدیث 1246)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حال بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت زیدؓ کے ذکر سے آغاز فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا اے اللہ! زیدؓ کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! زیدؓ کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! زیدؓ کی مغفرت فرما۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ! جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کی مغفرت فرما۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھ گئے۔ آپؐ کے چہرے سے غم و حزن کا اظہار ہو رہا تھا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب الجلوس عند المصیبۃ حدیث 3122)
طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ جب حضرت زیدؓ شہید ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لائے تو ان کی بیٹی اس حال میں تھی کہ اس کے چہرے سے رونے کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت زید بن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! یہ کیا ہے؟ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو آ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ ھٰذَا شَوْقُ الْحَبِیْبِ اِلٰی حَبِیْبِہٖ یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت زیدؓ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مُؤتَہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر کیا اور دوسرے امیروں پر آپؓ کو مقدم رکھا۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کا آپس میں مقابلہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امراء پیادہ ہی لڑ رہے تھے۔ حضرت زیدؓ نے جھنڈا لیا اور قتال کیا اور دوسرے لوگ بھی آپؓ کے ساتھ مل کر قتال کر رہے تھے۔ لڑائی کے دوران حضرت زیدؓ نیزہ لگنے کی وجہ سے شہید ہو گئے اور شہادت کے وقت آپؓ کی عمر 55سال تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا کہ حضرت زیدؓ کے لیے مغفرت طلب کریں وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہو گئے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 33-34 زیدالحب بن حارثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت اسامہؓ، جو حضرت زید بن حارثہؓ کے بیٹے تھے، بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یعنی حضرت اسامہؓ کو اور حسنؓ کو لیتے اور فرماتے کہ اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر کیونکہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب ذکر اسامہ بن زید حدیث نمبر 3735)
حضرت جَبَلَہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوے کے لیے تشریف نہ لے جاتے تو آپؐ اپنا ہتھیار سوائے حضرت علیؓ کے یا حضرت زیدؓ کے کسی کو نہ دیتے۔ (کنز العمال جلد 13صفحہ 397باب فضائل الصحابہ حرف الزای زید بن حارثہؓ حدیث 37066 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
حضرت جَبَلَہؓ پھر ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کجاوے تحفةً دیے گئے تو ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھ لیا اور دوسرا حضرت زیدؓ کو دے دیا۔ (کنز العمال جلد 13صفحہ 397باب فضائل الصحابہ حرف الزای زید بن حارثہؓ حدیث 37067 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
پھر حضرت جَبَلَہؓ کی ہی روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو جبے ہدیہ کیے گئے، تحفہ کے طور پر پیش ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خود رکھ لیا اور دوسرا حضرت زیدؓ کو عطا فرمایا۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3 صفحہ 241 کتاب معرفة الصحابة، ذکر مناقب زید الحب بن حارثہ، حدیث 4963 دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
ایک اَور جگہ بیان ہوا ہے کہ حضرت زید بن حارثہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محب کہا جاتا تھا۔ حضرت زیدؓ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرا محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی زیدؓ۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ ان پر انعام کیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی کے ذریعہ ان پر انعام کیا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 117زید بن حارثہ دا ر الکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)
جنگ مُؤتَہ کے بارے میں مختلف تاریخ کی کتب میں جو درج ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ مُؤتَہ کا بدلہ لینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت بڑا لشکر تیار فرمایا جو صفر گیارہ ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ روم کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گو جنگ مُؤتَہ کے بعد یہ جو لشکر تیار فرمایا تھا اس کا زید بن حارثہ سے براہ راست تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی شہید ہو چکے تھے لیکن فوج کی تیاری اور وجہ میں حضرت زید بن حارثہؓ کا ذکر بھی آتا ہے اس لیے یہ حصہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ کچھ حصے کا حضرت اسامہؓ کے ذکر میں بھی غالباً کچھ عرصہ پہلے ذکر ہو چکا ہے بہر حال حضرت اسامہ بدری صحابی نہیں تھے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن پہلے کیونکہ میں عمومی طور پر صحابہ کا ذکر کر رہا تھا اس میں ان کا ذکر ہو گیا تھا۔ بہرحال یہ لشکر جب تیار ہوا تو اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بلایا اور اس مہم کی قیادت آپؓ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا اپنے باپ کے شہید ہونے کی جگہ کی طرف جاؤ اور ملک شام کے لیے روانگی کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا جب روانہ ہو تو تیزی کے ساتھ سفر کرو اور ان تک اطلاع پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچ جاؤ۔ پھر صبح ہوتے ہی اہل اُبنیٰ یعنی ملک شام میں بَلْقاء کے علاقے میں مُؤتَہ کے قریب ایک مقام جہاں جنگ مُؤتَہ ہوئی تھی وہاں پر حملہ کرو اور بَلْقاء، یہ ملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القریٰ کے درمیان ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت لوطؑ کی نسل میں سے بالق نام کے ایک شخص نے آباد کیا تھا۔ اور داروم کے بارے میں لکھا ہے کہ مصر جاتے ہوئے فلسطین میں غزہ کے مقام پر ایک مقام ہے بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت زیدؓ کا بدلہ لینے کے لیے ان جگہوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ سے روند ڈالو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ سے مزید فرمایا اپنے ساتھ راستہ بتانے والے بھی لے کر جاؤ اور وہاں کی خبر کے حصول کے لیے بھی آدمی مقرر کرو جو تمہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی بخشے تو جلد واپس لوٹ آنا۔ اس مہم کے وقت حضرت اسامہؓ کی عمر سترہ سال سے بیس سال کے درمیان تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈا باندھا اور حضرت اسامہؓ سے کہا کہ اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو جو اللہ کا انکار کرے اس سے جنگ کرو۔ حضرت اسامہؓ یہ جھنڈا لے کر نکلے اور اسے حضرت بُرَیْدَہؓ کے سپرد کیا۔ یہ لشکر جُرْف مقام پر اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ جُرْف بھی مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اس لشکر میں مہاجرین اور انصار میں سے سب شامل ہوئے۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے جلیل القدر صحابہ اور کبار صحابہ بھی شامل تھے لیکن ان کے لشکرکے سردار حضرت اسامہؓ کو مقرر فرمایا جو سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے تھے۔
کچھ لوگوں نے حضرت اسامہؓ پر اعتراض کیا کہ یہ لڑکا اتنی چھوٹی عمر میں اولین مہاجرین پر امیر بنا دیا ہے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔ آپؐ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہوا تھا اور آپؐ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ اے لوگو !یہ کیسی بات ہے جو تم میں سے بعض کی طرف سے اسامہؓ کی امارت کے بارے میں مجھے پہنچی ہے۔ اگر میرے اسامہؓ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔ پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم وہ بھی اپنے اندر امارت کے اوصاف رکھتا تھا یعنی حضرت زید بن حارثہؓ اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی اپنے اندر امارت کے خواص رکھتا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یہ دونوں یقیناً ہر خیر کے حق دار ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا پس اس یعنی اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔ یہ دس ربیع الاول ہفتہ کا دن تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ وہ مسلمان جو حضرت اسامہ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وداع کر کے جُرْف کے مقام پر لشکر میں شامل ہونے کے لیے چلے جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاکید فرماتے تھے کہ لشکر اسامہ کو بھجواؤ۔ اتوار کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درد اَور زیادہ ہو گیا اور حضرت اسامہؓ لشکر میں واپس آئے تو آپؐ بیہوشی کی حالت میں تھے۔ اس روز لوگوں نے آپؐ کو دوا پلائی تھی۔ حضرت اسامہؓ نے سر جھکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بول نہیں سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہؓ کے سر پر رکھ دیتے تھے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ حضرت اسامہ لشکر کی طرف واپس آ گئے۔ سوموار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ۔ حضرت اسامہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا۔ اسی اثنا میں ان کی والدہ حضرت اُمِّ ایمنؓ کی طرف سے ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے، طبیعت بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ یہ اندوہناک خبر سنتے ہی حضرت اسامہؓ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ واپس آ گئے تو دیکھا کہ آپؐ پر نزع کی حالت تھی۔
12؍ ربیع الاول کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر جُرْف مقام سے مدینہ واپس آ گیا اور حضرت بُرَیْدَہؓ نے حضرت اسامہ کا جھنڈا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گاڑ دیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بُرَیْدَہؓ کو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہؓ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہو۔ یہ لشکر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا اب اس کو لے کر جاؤ۔ حضرت بُرَیْدَہؓ جھنڈے کو لے کر لشکر کی پہلی جگہ پر لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام عرب میں خواہ کوئی عام آدمی تھا یا خاص تقریباً ہر قبیلے میں فتنۂ ارتداد پھیل چکا تھا اور ان میں نفاق ظاہر ہو گیا تھا۔ اس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنی آنکھیں پھیلائیں اور بڑے خوش تھے کہ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے اور بدلے لینے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور مسلمانوں کی کمی تعداد کے باعث ان مسلمانوں کی حالت ایک طوفانی رات میں بکرے کی مانند تھی، بہت مشکل حالت میں تھے۔ بڑے بڑے صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر فی الحال لشکر اسامہؓ کی روانگی متاخر کر دیں، ذرا لیٹ کر دیں، کچھ عرصہ کے بعد چلے جائیں تو حضرت ابوبکرؓ نہ مانے اور فرمایا کہ اگر درندے مجھے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق بھجوا کر رہوں گا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری فرمودہ فیصلہ نافذ کر کے رہوں گا۔ ہاں اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی نہ رہے تو بھی میں اس فیصلے کو نافذ کروں گا۔ بہرحال آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کما حقہٗ قائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہ حضرت اسامہ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس جُرْف جا کر لشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو پہلے اسامہ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہرگز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا۔ اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا۔ بہرحال لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا۔ بعض صحابہ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس جا کر ان سے کہیں کہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تا کہ ہم مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہوں اور خلیفۂ رسول اور حرم رسول اور مسلمانوں کو مشرکین کے حملے سے محفوظ رکھیں۔ اس کے علاوہ بعض انصار صحابہ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اگر لشکر کو روانہ کرنے پر ہی مصر ہیں اگر یہی اصرار ہے تو ان سے یہ درخواست کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو لشکر کا سردار مقرر کر دیں جو عمر میں اسامہؓ سے بڑا ہو۔ لوگوں کی یہ رائے لے کر حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے پھر اسی آہنی عزم کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اگر جنگل کے درندے مدینہ میں داخل ہو کر مجھے اٹھا لے جائیں تو بھی وہ کام کرنے سے باز نہیں آؤں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے بعض انصار کا پیغام دیا تو وہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ نے جلال سے فرمایا کہ اسے یعنی اسامہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اسے اس عہدے ہٹا دوں۔ حضرت ابوبکرؓ کا حتمی فیصلہ سننے اور آپؓ کے آہنی عزم کو دیکھنے کے بعد حضرت عمرؓ لشکر والوں کے پاس پہنچے۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو حضرت عمرؓ نے بڑے غصہ سے کہا کہ میرے پاس سے فوراً چلے جاؤ۔ محض تم لوگوں کی وجہ سے مجھے آج خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈانٹ کھانی پڑی ہے۔
جب حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق جیشِ اسامہ جُرْف کے مقام پر اکٹھا ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؓ نے وہاں جا کر لشکر کا جائزہ لیا اور اس کو ترتیب دی اور روانگی کے وقت کا منظر بھی بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ اس وقت حضرت اسامہؓ سوار تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ خلیفة الرسولؐ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! یا تو آپؓ سوار ہو جائیں یا پھر میں بھی نیچے اترتا ہوں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ بخدا نہ ہی تم نیچے اُترو گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا اور مجھے کیا ہے کہ میں اپنے دونوں پیر اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کے لیے آلودنہ کروں کیونکہ غازی جب قدم اٹھاتا ہے تو اس کے لیے اس کے بدلہ میں سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کو سات سو درجے بلندی دی جاتی ہے اور اس کی سات سو برائیاں ختم کی جاتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کو مدینہ میں کئی کاموں کے لیے حضرت عمرؓ کی ضرورت تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں از خود روکنے کی بجائے حضرت اسامہؓ سے اجازت چاہی کہ وہ اگر بہتر سمجھیں تو حضرت عمرؓ کو مدینہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس رہنے دیں۔ حضرت اسامہؓ نے خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت عمرؓ کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ جب بھی حضرت اسامہؓ سے ملتے تو آپؓ کو مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْأَمِیْرُ۔ کہ اے امیر تم پر سلامتی ہو۔ حضرت اسامہؓ اس کے جواب میں غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْن کہتے تھے۔ کہ اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ آپؓ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔
بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے آخر میں لشکر کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ تم خیانت کے مرتکب نہ ہونا، خیانت نہ کرنا۔ تم بدعہدی نہ کرنا۔ چوری نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا، جنگ میں مخالفین کے جو لوگ مر جائیں قتل ہو جائیں ان کی شکلیں نہ بگاڑنا۔ چھوٹی عمر کے بچے اور بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا۔ کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا۔ کسی بھیڑ، گائے اور اونٹ کو کھانے کے سوا ذبح نہ کرنا۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ تم ضرور ایسی قوم کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجاؤں میں عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہو گا تو انہیں چھوڑ دینا۔ تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنے برتنوں میں انواع و اقسام کے کھانے لائیں گے۔ تم اگر ان میں سے کھاؤ تو بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور تم ضرور ایسی قوم کے پاس پہنچو گے جنہوں نے درمیان سے اپنے سروں کو منڈوایا ہو گا لیکن چاروں طرف سے بالوں کو لٹوں کی مانند چھوڑا ہو گا پس تم ایسے لوگوں کو تلوار کا ہلکا سا زخم لگانا اور اللہ کے نام کے ساتھ اپنا دفاع کرنا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں طعن اور طاعون کی وبا سے محفوظ رکھے۔ اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ کرنا۔
ان ساری باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر نے حضرت اسامہؓ کو اسلامی آداب جنگ کی تاکید فرمائی، کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں ہونا چاہیے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپؓ کو اس لشکر کی فتح پر بھی یقین تھا اس لیے آپؓ نے فرمایا کہ تمہیں کامیابیاں ملیں گی۔ بہرحال یکم ربیع الآخر گیارہ ہجری کو حضرت اسامہؓ روانہ ہوئے۔ حضرت اسامہ اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہو کر منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے حسب وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے علاقہ اُبْنٰی پہنچے اور صبح ہوتے ہی آپؓ نے بستی کے چاروں اطراف سے ان پر حملہ کیا۔ اس لڑائی میں جو شعار تھا، نعرہ تھا یَامَنْصُوْرُ اَمِتْ یعنی اے مددیافتہ! مار ڈال۔ اس لڑائی میں جس نے بھی مسلمان مجاہدوں کے ساتھ مقابلہ کیا وہ قتل ہوا اور بہت سے قیدی بھی بنائے گئے۔ اسی طرح بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا جس میں سے انہوں نے خُمس رکھ کر باقی لشکر میں تقسیم کر دیا، پانچواں حصہ رکھ کے باقی تقسیم کر دیا اور سوار کا حصہ پیدل والے سے دوگنا تھا۔ اس معرکے سے فارغ ہو کر لشکر نے ایک دن اسی جگہ قیام کیا اور اگلے روز مدینہ کے لیے واپسی کا سفر اختیار کیا۔
حضرت اسامہؓ نے مدینہ کی طرف ایک خوشخبری دینے والا روانہ کیا۔ اس معرکے میں مسلمانوں کا کوئی آدمی بھی شہیدنہیں ہوا۔ جب یہ کامیاب اور فاتح لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت ابوبکرؓ نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مدینہ سے باہر نکل کر ان کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ حضرت بُرَیْدَہؓ جھنڈا لہراتے ہوئے لشکر کے آگے آگے چل رہے تھے۔ مدینہ میں داخل ہو کر لشکر مسجدنبویؐ تک گیا۔ حضرت اسامہؓ نے مسجد میں دو نفل ادا کیے اور اپنے گھر چلے گئے۔ متفرق روایات کے مطابق یہ لشکر چالیس سے لے کر ستر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا تھا۔ جَیش اسامہؓ کا بھجوایا جانا مسلمانوں کے لیے بہت نفع کا موجب بنا کیونکہ اہل عرب یہ کہنے لگے کہ اگر مسلمانوں میں طاقت اور قوت نہ ہوتی تو وہ ہرگز یہ لشکر روانہ نہ کرتے۔ تو اس طرح جو کفار تھے وہ بہت ساری ایسی باتوں سے باز آ گئے جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتے تھے۔ (ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 145 تا 147 سریہ اسامہ بن زید مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد 3صفحہ291تا 294باب سرایا و بعوثہ/سریۃ اُسامۃ…… دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 199-200 سنۃ 11ھ ذکر انفاذ جیش اسامہ بن زید مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2006ء) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 579 ’’البلقاء‘‘ جلد 2 صفحہ 483 ’’الداروم‘‘ جلد 2 صفحہ 149 ’’الجرف‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے حضرت اسامہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو حرف بہ حرف پورا کر دکھایا اور انتظام و انصرام کے لحاظ سے بھی اور معرکہ آرائی میں انتہائی کامیابی اور کامرانی کے لحاظ سے بھی اس مہم کو اعلیٰ ثابت کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ یہ بہترین سردار ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت اور برکت نے ثابت کر دیا کہ حضرت اسامہؓ بھی اپنے شہید والد حضرت زیدؓ کی طرح نہ صرف یہ کہ سرداری کے اہل تھے بلکہ ان خواص اور اوصاف میں ایک بلند مقام رکھتے تھے اور یہ خلیفۂ وقت کا مضبوط عزم و ہمت اور بلند حوصلہ ہی تھا جس نے متعدد اندرونی اور بیرونی خطرات اور اعتراضات کے باوجود اس لشکر کو روانہ کیا اور پھر خدا نے کامیابی اور کامرانی سے نواز کر مسلمانوں کو پہلا سبق یہ سکھا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب تمام برکتیں صرف اطاعت خلافت میں ہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سر الخلافة میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہوا ہے۔ (ماخوذ از سرالخلافۃ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 394 حاشیہ)
بہرحال اللہ تعالیٰ حضرت زید بن حارثہؓ اور پھر ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زیدؓ پر، جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور محبوب تھے۔ ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔