حضرت زید بن خطابؓ
حضرت زید بن خطاب حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی تھے اور حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام لے آئے تھے۔ یہ ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں سے بھی تھے۔ غزوۂ بدر میں، احد میں، خندق میں، حدیبیہ میں اور بیعت رضوان سمیت غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی مؤاخات حضرت مَعْن بن عَدِی کے ساتھ کروائی تھی۔ یہ دونوں اصحاب جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (استیعاب جلد دوم صفحہ 550زید بن الخطاب ؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
غزوۂ احد کے دن حضرت عمرؓ نے حضرت زیدؓکو اللہ کی قسم دے کر فرمایا (حضرت زیدؓ حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی تھے، ان کو کہا) کہ میری زرہ پہن لو۔حضرت زیدؓ نے کچھ دیر کے لئے زرہ پہن لی۔ جنگ کے وقت پھر اتار دی۔ حضرت عمرؓ نے زرہ اتارنے کی وجہ پوچھی تو حضرت زیدؓ نے جواب دیا کہ میں بھی اسی شہادت کا خواہش مند ہوں جس کی آپ کو تمنا ہے اور دونوں نے زرہ کو چھوڑ دیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 289 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت زید بن خطاب سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ انہیں اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ اور اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے جس پر تم ان کو معاف نہ کرنا چاہو تو اے اللہ کے بندو! انہیں بیچ دیا کرو اور انہیں سزا نہ دیا کرو۔ جنگ یمامہ میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے تو حضرت زید بن خطاب بلند آواز میں پکارنے لگے، یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ! میں تجھ سے اپنے ساتھیوں کے بھاگ جانے پر معذرت کرتا ہوں اور مسیلمہ کذّاب اور مُحَکَّمْ بن طُفَیل نے جو کام کیا ہے اس سے تیرے حضور اپنی براءت ظاہر کرتا ہوں۔ پھر آپؓ جھنڈے کو مضبوطی سے پکڑ کر دشمن کی صفوں میں آگے بڑھ کر اپنی تلوارکے جوہر دکھانے لگے یہاں تک کہ آپؓ شہید ہو گئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
جب حضرت زیدؓ شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے فرما یا اللہ زید پر رحم کرے۔ میرا بھائی دو نیکیوں میںمجھ پر سبقت لے گیا یعنی اسلام قبول کرنے میں بھی مجھ سے پہلے اس نے اسلام قبول کیا اور شہید بھی مجھ سے پہلے ہو گیا۔(الاصابہ فی تمیزالصحابہ الابن حجر عسقلانی جلد4 صفحہ500 ذکر زید بن الخطّاب)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے مُتَمِّمْؓ بن نُوَیْرَۃ کو اپنے بھائی مالکؓ بن نُوَیْرَۃ کی یاد میں مرثیہ کہتے سنا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں بھی تمہاری طرح اچھے شعر کہتا ہوتا تو میں اپنے بھائی زیدؓ کی یاد میں ایسے ہی شعر کہتا جیسے تم نے اپنے بھائی کے لئے کہے ہیں تو مُتَمِّمْؓ بن نُوَیْرَۃ نے کہا کہ اگر میرا بھائی بھی اسی طرح دنیا سے گیا ہوتا جیسے آپ کا بھائی گیا تو مَیں کبھی اس پر غمگین نہ ہوتا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آج تک کبھی کسی نے مجھ سے ایسی تعزیت نہیں کی جیسی تم نے کی۔(استیعاب جلد دوم صفحہ 553زید بن الخطاب ؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
اس واقعہ کی ایک اور تفصیلی روایت بھی ملتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت مُتَمِّمْؓ بن نُوَیْرَۃ سے فرمایا کہ تمہیں اپنے بھائی کا کس قدر سخت رنج ہے۔ انہوں نے اپنی ایک آنکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری یہ آنکھ اسی غم میں ضائع ہوئی ہے۔ مَیں ا پنی صحیح آنکھ کے ساتھ اس قدر رویا کہ ضائع ہونے والی آنکھ نے بھی آنسو بہانے میں اس کی مدد کی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ ایسا شدید رنج ہے کہ کسی نے اپنے ہلاک ہونے والے کے لئے اتنے شدید غم کا اظہار نہ کیا ہو گا۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ زید بن خطاب پر رحمت کرے۔ اگر میں شعر کہنے کی طاقت رکھتا تو میں بھی ضرور حضرت زیدؓ پر اسی طرح روتا جس طرح تم اپنے بھائی پر روتے ہو۔ حضرت مُتَمِّمْؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین! اگر میرا بھائی جنگِ یمامہ میں اسی طرح شہید ہوتا جس طرح آپ کے بھائی شہید ہوئے ہیں تو مَیں کبھی اس پر نہ روتا۔ یہ بات حضرت عمرؓ کے دل کو لگی اور اپنے بھائی کی طرف سے آپ کو تسلی ہو گئی۔ حضرت عمرؓ کو اپنے بھائی کی جدائی کا بہت غم تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب بادِ صبا چلتی ہے تو میرے پاس زیدؓ کی خوشبو لاتی ہے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 289 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
مسیلمہ کذّاب کے ساتھیوں میں سے رَجَّال بن عُنْفُوَۃ حضرت زَیدِ بِن خَطَّاب ہی کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ ایک روایت میں رَجَّال بن عُنْفُوَۃ کا نام نَہَار بھی آیا ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اسلام قبول کیا۔ ہجرت کی اور قرآن کا قاری تھا۔ پھر مسیلمہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ (اس لئے ہمیشہ انجام بخیر ہونے کی دعا مانگنی چاہئے۔) اور اسے کہا کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے تمہیں نبوت میں شریک کر لیا ہے۔ یہ بَنُوحَنِیْفَہ کے لئے سب سے بڑا فتنہ تھا۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ رَجَّال بن عُنْفُوَۃ بھی تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں ایک شخص ہے جس کی داڑھ اُحد پہاڑ کے برابر آگ میں ہو گی یعنی کہ وہ آگ میں ہو گا۔ وہ ایک قوم کو گمراہ کرے گا۔ پھر میں اور رَجَّال بن عُنْفُوَۃ باقی بچے۔ میں ہمیشہ اس بارے میں ڈرتا تھا یہاں تک کہ رَجَّال بن عُنْفُوَۃ مُسَیْلِمَہ کذاب کے ساتھ نکلا اور اس نے اس کی نبوت کی گواہی دی۔ یہ رَجَّال بن عُنْفُوَۃ جنگِ یمامہ میں قتل ہوا اورحضرت زیدِ بِن خَطّاب نے اسے قتل کیا۔(استیعاب جلد دوم صفحہ 551-552 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت )
حضرت زیدِ بِن خَطّاب کو ابو مریم الحنفی نے شہید کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ابومریم سے جب اس نے اسلام قبول کر لیا تھا کہا کہ کیا تم نے زیدؓ کو شہید کیا تھا۔ اس نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدؓ کو میرے ہاتھوں عزت بخشی اور مجھے ان کے ہاتھوں رسوا نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ نے ابومریم سے فرمایا کہ تمہاری رائے میں اس روز جنگ یمامہ میں مسلمانوں نے تمہارے کتنے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ ابومریم نے کہا کہ چودہ سو یا کچھ زائد ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بِئْسَ الْقَتْلٰی۔ کہ یہ کیا ہی برے مقتولین ہیں۔ ابومریم نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے باقی رکھا یہاں تک کہ میں نے اس دین کی طرف رجوع کیا جو اس نے اپنے نبی اور مسلمانوں کے لئے پسند فرمایا۔ حضرت عمرؓ، ابومریم کی اس بات سے بہت خوش ہوئے۔ ابو مریم بعد میں بصرہ کے قاضی بھی بنے۔(الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب۔ جلد نمبر 2 صفحہ 121 ذکر زید بن الخطاب۔ دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288-289 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)