سرخ اور سیاہ کافروں میں آرامی، کنعانی اور اسرائیلی عنصر
مظفر احمد چوھدری
افغانستان میں گزشتہ صدی تک جلال آباد اور لغمان کے صوبوں اور چترال کے علاقے کے درمیان ایک قدیم مذہب کے پیروکار لوگ آباد تھے جو اب اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ان کے ایک ادنیٰ گروہ کیلاش کی چار وادیاں پاکستان میں چترال کے علاقے میں موجود ہیں۔ یہ لوگ ’’کافر کیلاش‘‘ کے نام سے معرف ہیں۔
کافر لوگ دو بڑے گروہوں میں تقسیم تھے یعنی سرخ پوش کافر اور سیاہ پوش کافر۔ ان کا مذہب جس کی نسبت سے یہ کافر مشہور ہیں مختلف مذاہب کے زیادہ تر مشرکانہ رسوم ورواج کا مجموعہ تھا۔ جس میں بت پرستی، اجداد پرستی، حجر پرستی، ارواح پرستی وغیرہ متنوع قدیم مسالک شامل تھے۔
کافر دراصل ایک قوم کے افراد نہیں بلکہ ان مختلف اقوام کا مجموعہ ہیں جو وقتاً فوقتاً مغلوب ہو کر ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے کی وادیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے رہے اور یہ بات تو کئی ایک سیاحوں نے لکھی ہے کہ کافروں میں یونانیوں سے لے کر اسرائیلیوں تک ہر قوم کا چہرہ ملتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابیوں کی طرح ( جو بہت سی اقوام کا مجموعہ ہیں) کافروں کے بھی کوئی معین جسمانی خصائل نہیں ہیں بلکہ مختلف گروہوں کے جداگانہ خصائل ہیں۔ اور اس بات کا مشاہدہ کیلاش کافروں میں مَیں نے خود کیا ہے۔
کافر لوگ پہلے قندھار سے لے کر پشاور تک کے علاقے میں آباد تھے۔ اور ان کی اپنی روایات کے مطابق افغانوں نے ( جن کو کافر اودال، ابدال یا مسلمان کہتے ہیں) اِن کو اِن علاقوں میں دھکیل دیا ۔ کیلاش کافر تو اب تک یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ’’سِآم‘‘ کے علاقے سے آئے ہیں۔
آخری مرتبہ ان کو بڑے پیمانے پر سوات کے بالائی حصوں اور ہندوکش کی طرف اُس وقت دھکیل دیا گیا جب افغانستان کے علاقے میں سب سے پہلے لفظ ’’مُسلم‘‘ رائج ہوا۔ افغان مذہب کے معاملہ میں ہمیشہ شدت پسند رہے ہیں۔ افغانوں کے ایک گروہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا بڑا شدید ردّعمل ہوا جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں بلکہ شاید صدیوں پر محیط ہولناک جنگ لڑی گئی۔ طبقات ناصری کا مصنف اس کا نقشہ یوں کھینچتا ہے کہ گاؤں گاؤں اور فرد فرد کے درمیان جنگ تھی۔ ہر طبقہ اپنے مذہبی عقائد پر سختی سے قائم تھا ۔ بالآخر فتح مسلمانوں کی ہوئی۔ اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جو مذاہب اسلام میں جذب نہ ہو سکے وہ پناہ گاہوں کی تلاش میں نکلے۔ بدھ مت والوں کو بدھ مت کے دوسرے علاقوں کی طرف پناہ ملی۔ ہندو ہندوستان کی طرف آ نکلے لیکن وہ مذہبی طبقات جن کی جڑیں برصغیر میں نہیں تھیں ان کو ایسے دشوار گزار پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی جہاں وہ تہذیب و تمدن سے دورالگ تھلگ آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ بلکہ اُن کے اِن پہاڑوں میں آباد ہونے کا زیادہ سہرا بھی افغانوں کے سر ہی معلوم ہوتاہے جنہوں نے اپنی پسند کی ہر سرزمین سے انہیں نکال باہرکیا۔ یوں ایک ایسی نفرت کی بنیاد پڑی جو ان کافروں اورافغانوں کے دلوں میں ہمیشہ قائم رہی۔ چنانچہ ایک سیاح Macnairنے انیسویں صدی میں کافروں کی ایک دعا یوں بیان کی ہے:
ہم سے بُخار کو دور کر،ہمارے ذخائر میں اضافہ فرما،مسلمانوں کو ہلاک کر دے ،موت کے بعد ہمیں جنت میں داخل کر (بحوالہ :(A short walk in Hindukush
مسلمانوں کو قتل کرنا ہمیشہ سے ایک کافر کا محبوب فعل رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عیسائیوں ، یہودیوں، ہندو، بدھ پارسی تو ان علاقوں میں جانے اور تجارت میں آزاد تھے لیکن مسلمانوں کا پِتّہ ان علاقوں میں داخل ہوتے پانی ہوتا تھا۔
ان کافروں میں وہ افغان گروہ بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اپنے قدیم اسرائیلی مذاہب یہودیت اور کنعانی مذہب پر قائم تھے۔ اس دعوے کا ٹھوس ثبوت ہمیں اس تحقیقی مواد سے ملتاہے۔ جو کافروں کے مذاہب اور رسوم و رواج پر جمع کیا گیا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے زبردست شواہد کی موجودگی میں وہ لوگ جنہو ں نے اپنی عمر یں کافروں کے مذاہب ورسوم کی تحقیق میں صرف کر دیں کیوں اس کااظہار نہ کر سکے۔ بلکہ انیسویں صدی کے اُن محققین کا مذاق اڑاتے رہے جنہوں نے کافروں میں اسرائیلی عنصر کا نشاندہی کی تھی؟
کنعانی اور آرامی عنصر
دیوتا:
کافروں میں کئی ایک دیوتا ایسے ہیں جن کے نام بالکل وہی ہیں جو قدیم کنعانی اورآرامی دیوتاؤں کے تھے مثلاً :
ا۔ دجون (Dagon)
اشکون کافر اور ’’وائی گل‘‘ کافر جو جنوبی وزیرستان ( کافرستان کا نیا نام) میں آباد ہیں یہ ان کا سب سے بڑا دیوتا تھا۔
دراصل یہ دجون (Dagon) فلستیوں کا دیوتا تھا۔ جب مقدس تابوت پر فلستیوں نے قبضہ کر لیا تو اس کو دجون کے معبد میں ہی رکھا گیا تھا۔ گویا دجون کے پیروکاروں اور بنی اسرائیل میں فلسطین کے زمانے سے ہی عداوت تھی۔
محققین کے نزدیک یہ دراصل ایک سامی دیوتا تھا جس کوکنعان پر فتح کے بعد فلستیوں نے اختیار کر لیا۔ اس سے قبل یہ میسوپوتامیہ میں داجان (Dagan) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اموریوں میں اس کو بہت مقبولیت حاصل تھی۔
غلّے کے لئے عبرانی لفظ Dagan اسی سے ماخذ معلوم ہوتا ہے ۔ کئی محققین کا خیال ہے کہ یہ زراعت سے منسلک دیوتا تھا۔ یوناتن نے مکابیوں کے دور میں رشدود کا دجون کا معبد تباہ کر دیا تھا ۔(1 mc 10:84)
۲۔ آروم
آروم کافروں کا ایک محدود الفرائض دیوتا ہے۔ جو معاہدوں اور امن کے سمجھوتوں کے وقت قربانی لینے کا حقدار تھا۔ صرف ’’کام‘‘ کافر اس کی پرستش کرتے تھے۔ یہ ان کا سرپرست دیوتاتھا اور اس کے ساتھ بھائی بھی بیان کئے جاتے تھے۔
مذہبی رہنما Kaneash اپنے سر اور داڑھیاں منڈوانے سے قبل اِس کے حضور ایک بکرے کی قربانی دیتے تھے۔
بِن آرام ایک Hamlet کافی نام ہے جو کامدیش میں جو کام کافروں کا مرکز ہے موجود ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے آرامی گروہوں ے اپنے جَدّ اعلیٰ کے نام پر ایک دیوتا بنا لیا تھا۔
۳۔ اشرات
کافرستان میں اُتزون سے بشگال وادی میں داخل ہونے والی سڑک پر ایک مقام اشتارات ہے جسے پشتو میں گوردیش اور چترالی میں استورگات کہتے ہیں۔
کافرستان میں ہی روایت تھی کہ اشترات کے لوگ ایک حصہ اَ روم نسل اور ایک حصہ ’’جازھی‘‘ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’بیان کیا جاتا ہے کہ اروم گروم (آرام گاؤں۔ ناقل) کے ایک شخص نے ایک اشترات (جازھی) دوشیزہ سے ارومیہ میں یوں سمجھ لیں کہ مخصوص قسم کے حالات میں تعلق قائم کیا اور ان کا بیٹا اشترات کے سردار سیر ملک کی براہ راست نسل سے ہے‘‘۔
اشترات یا اشتارات ایک آرامی اور عبرانی لفظ ہے۔ بنی رابن ، بنی گاد اور بنی نسّی کے علاقے میں ایک مقام کا نام اشتروت تھا ۔ (یشوع باب ۱۳ آیت ۱۲)
یشوع باب ۱۳ آیت ۳۱ میں اِسے منسّی کے قبیلے کے علاقے میں قرار دیا گیا ہے۔ اور اب تواریخ باب ۶ میں اشتروت کو لاویوں کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ بسّن کا شہر اشتروت کہلاتا تھا یعنی ’’دو (۲)اشتروت‘‘ (عبرانی اشتروت=دو اشترات)
اشترات کنعانیوں اور آرامیوں کی دیوی تھی۔ جو ذرخیزی کی معبود تھی۔ اشترات کا اطلاق ہر قسم کی دیوی کے لئے عمومی طورپر ہونے لگا تھا۔
آرامیوں میں اس کا ایک تلفظ Atar-Gatis ہے جو کافرستان کے اشترات کے چترالی تلفّظ Astor-Gat سے بالکل مشابہ ہے A (s)tor-Gat(is)
ایڈلوس یودس لکھتا ہے:
“The fact that Astarte thus tended to absorb the other female divinties of the country suggeates that she was pre-eminent there”
“She was worshipped among all the off-shoots of the Semitic race: the Aramean Atar (Atar-gatis = Atar’ate), The Moabites, Ashtar, the Arabs, who regarded her as a male divinity, called her Athtar (Whence aster,”god” in the Abyssiniam inscription.)
Be that as it may,the cult of Astarte among the ancient Cananites is borne witness to, not only by Isralite writers, but by such place names as Ashtartu and Ashtaroth, also called Be’eshterah, that is the temple of Astarte, “Beth Ashtereth”. Astarte, one of the chief deities to Tyre; and Sidon, was also adopted by the Philistines. At Ascalon, one of their principal cities, She was worshiped under her Aramean name of Atargaties”.
(P-134, Edloph-Lods Israel . form its begining to the middle of the eighth century)
گویاہم کہہ سکتے ہیں کہ کافرستان میں اشترات کی طرح فلسطین میں بھی اشترات /اشتروت مقام موجود تھے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ کا نام بسّن کے اشتروت کی طرح اشترات دیوی کے نام پر ہی رکھا گیاتھا کیونکہ کافرستان میں بھی دو تلفظ (کافری) اشتروت =اشترات (عبرانی) اور (چترالی) استورگات=اتور گاتِس (آرامی) موجود ہیں۔
مچھلی سے پرہیز
کافر لوگ مچھلی نہیں کھاتے ۔ پہلی مرتبہ ان کے مچھلی کھانے کی شہادت ان کے قبول اسلام کے بعد ۱۹۵۸ء میں Eric Newby نے دی ہے۔
(A short walk in Hindukush by Eric Newby. page 230,231. Arrow Books London 1961)
یہ ایک خالص کنعانی عادت ہے۔ ایڈولف لودس لکھتاہے:
“The Canaanites, including the inhabotants of Syria in general, abstained from eating the fish which was sacred to Atargatis; in the belief that this food would cause ulcers; on the other hand they sacrificed them to the godess.”(Israel-Adolph Lods. p-111)
کافروں میں اتورجاتّیس (استورجات) یا اشترات کی موجودگی اورمچھلی سے پرہیز اسی طرح اشارہ کرتا ہے۔
۴۔بالومائین
بالو مائین کیلاش کافروں کا وہ دیوتا ہے جو ان کے عقائد کے مطابق ان کے آبائی وطن ’’سِ۔آ۔م‘‘ (Syam) میں (شام ۔ ناقل) آباد ہے اور ہر سال موسم سرما میں ان کے ہاں آتا ہے۔
بیل مائن شام میں ایک قدیم مقام کا نام ہے
بلیامین صوبہ سرحد میں ایک مقام ہے
دراصل یہ بعل مائین شامیوں کا کوئی موسمی تہواروں کا دیوتا معلوم ہوتا ہے۔ جو بعد ازاں جلاوطن ارامیوں کے ساتھ ان علاقوں میں نہ آ سکا لیکن اب بھی سال کے سال پاکستان آتا ہے(کیلاش عقائد کے مطابق)۔ عبرانی میں اسے Bel Main اور اکاوی میں Belu Main لکھا جائے گا۔ جو کافرستانی Balu Main سے قریب ترین ہے۔
۵۔دان
کافروں کا ایک نام دان ملک ہے ۔ مشہور سیاح رابرٹسن کے مترجم کا نام بھی دان ملک تھا۔ دان کو بنی اسرائیل کے بارہ جد امجد میں ایک کا نام ہے یہ بھی کافرستان میں عام ہے۔ ایسا ہی دون گُل اور ’’دان گام‘‘ (دان گاؤں) کافرستان کی وادی پیچ میں ایک مقام ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دان شاید ایک کنعانی دیوتا کا بھی نام تھا اور دان ملک ایک کنعانی نام تھا۔ ایڈولف لودس لکھتا ہے:
“In the Tell el-Amarna age the names of certain Cananites princees bear witness t the worshipof a godnMelek: Abdi milli (Melek is my father) Ili milki (Melek is my god)
The name of the tribe and city of Dan was derived, perhaps from that of a god of the same name”. (P-126)
ماکا (Maka) :
امراء کافروں کا وہ دیوتا ہے جس کا تصور’’اعلیٰ ترین معبود‘‘ سے قریب تر ہے۔ کافروں کے مطابق ’’اُس نے’’ اُس کو مارا‘‘ (Usku-Mara) کے نام سے ’’عظیم ماکا‘‘کا ابتدائی وطن اور ان کاموجودہ ’’غربت کا مکّہ‘‘ (Maka of the Door) تخلیق کیا ۔ وہ لوگوں کو اپنے ساتھ دریائے پیچ پر لے گیا اور کانتیوو (Kantiwo) اور پرسون (پارون) وادیوں کے درمیان دوراہے (Fork) پر دو پتھر نصب کئے ۔ ایک اچھا پتھر اور ایک بُرا۔ چنیدہ وطن(Chosen Homeland) کے لئے راستہ کھولا گیا جہاں آج بھی اچھا پتھر پڑا ہوا ہے۔
(Karl Jettmar ,Religions of the Hindukush. Vol I Page 49)
محققین نے اس کوعرب کا مکّہ سمجھ کر اس بیان کو ’’اسلامی اثر‘‘ کے کھاتے میں داخل کر دیا ہے جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں بلکہ ماکاہ تو فلسطین میں آرامیوں کا علاقہ تھا۔ جس کا نام بائبل میں کئی جگہ آیا ہے ۔؟ مثلاً ۲۔ سلاطین باب ۱۰ آیات ۶ تا ۸، ۱۔ تواریخ باب ۱۹ آیات ۶،۷)
یہ علاقہ کوہ حرمون کے جنوب اور جھیل حولیہ (Huleh)کے شمال میں آبیل بیتھو ماگاہ کے گرد تھا۔
یہ ایک آرامی مملکت تھی جو عمونیوں کے ساتھ مل کر حضرت داؤد علیہ السلام کے خلاف لڑی۔ پیدائش باب ۲۲ آیت ۲۴ میں مآکاہ کو دوسرے آرامی قبائل کے ساتھ ناجور کی نسل سے بتایا گیا ہے۔ ان کواسرائیل کی شمالی سرحد پر آباد بتایا گیا ہے۔ (Job 12:5;13:11,13)اس مملکت کا اسرائیل سے انضمام شاید حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ہوا ۔اورکئی ایک مکاتی (ماکاہ کے رہنے والے) اسرائیلیوں میں نظر آتے ہیں۔
(۲۔ سموئیل باب ۲۳ آیت ۳۴، ۲۔ سلاطین باب ۲۵ آیت ۲۳، یرمیاہ باب ۴۰ آیت ۸ اور ا۔ تواریخ باب ۴ آیت ۱۹)
اہم حوالجاتی کتب:
(1) .Karl Jettmar, The Religions of Hindu Kush. Vol 1. The Religions of the Kafirs . The pre Islamic Heritage of Afghan Nuristan.Translated from German Adam Nayyar. Oxford and IBH Publishing Co.Pvt. Ltd. New Delhi, Bombay, Calcutta Copy rights: 1986, Printed in England by Aris & Phillips Ltd.
(2): The Kafirs of the Hindu Kush by :Sir George Scott Robertson London-1896-Lawrence & Bullen Ltd.
16 Henrietta Street, Covent garden London. Printed by Ballantyne, Hanson and Co, Ballantyne Press.
(3) A short walk in Hindu Kush. by Eric Newby. London 1961. First edition 1958 Arrow Books London U.K.
(4): Notes on Afghanistan & Baluchistan by Major Henry George Raverty.first edition 1878 .new edition.
Gosha-e-Adab ,Quetta.Pakistan 1976.
(5): Israel from its Beginnings to the Middle of the Eighth Century. by Adolph Lods. 1932- London. Kegan Paul Trench, Truburn & Co, Ltd. Broadway House 68-74 Carter Lane E-4. Printed by Butler and Tanner Ltd.
(۶): طبقات ناصری جلد اول اردو ترجمہ
مصنف منہاج السراج ۔ مترجم غلام رسول مہر
مرکزی اردو بورڈ گلبرگ لاہور ۔ طبع اول جنوری ۱۹۷۸ء ناشر اشفاق احمد۔ طابع: محمد زرین خان۔ زریں آرٹ پریس ، ۶۱ ریلوے روڈ لاہور۔
(7): Jewish Travelars. Newyork 1904. Book of Eldad Ha Dani
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۶؍فروری ۱۹۹۸ء تا۱۲؍فروری ۱۹۹۸ء)