حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
حضرت سعدؓ کی کنیت ابو اسحاق تھی۔ آپؓ کے والد کا نام مالک بن اُھَیْب جبکہ بعض روایات میں مالک بن وُھَیْب بھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ کے والد اپنی کنیت ابو وَقَّاصْ کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں اس لیے آپ کا نام سعد بن ابی وقّاصؓ بیان کیا جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ کا نام حَمْنَہ بنتِ سُفْیَان تھا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 606-607، دار الجیل بیروت) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 101، سعد بن ابی وقّاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سَعْد بن ابی وَقّاصؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بَنُو زُہْرَہ سے تھا۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ123) (سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 680-681، من بنی زُہْرَہ، مکتبہ مصطفیٰ البابی الحلبی و اولادہ، مصر۔ 1955ء)
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ ان دس صحابہ کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں اور حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ ان میں سب سے آخر پر فوت ہوئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
یہ تمام اصحاب یعنی عشرہ مبشرہ مہاجرین میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت ان سے راضی تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ اپنے ایمان لانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ کسی نے بھی اسلام قبول نہیں کیا مگر اس دن جس دن کہ میں نے اسلام قبول کیا اور میں سات دن تک ٹھہرا رہا اور حالت یہ تھی کہ میں مسلمانوں کا ایک تہائی تھا۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقّاص حدیث نمبر 3727) (صحیح بخاری کتاب مناقب انصار باب اسلام سعدحدیث نمبر 3858)
تین آدمی تھے۔ آپ کا بیان ہے کہ میں نماز کے فرض ہونے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 453، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء)
حضرت سعدؓ کے اسلام لانے کا واقعہ ان کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تاریکی میں ہوں اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اچانک میں دیکھتا ہوں کہ چاند طلوع ہوا اور میں اس کی طرف چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے پہلے حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ چاند کی طرف جا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب پہنچے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھی ابھی پہنچے ہیں۔ حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر مل چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخفی طور پر اسلام کی طرف بلا رہے ہیں۔ چنانچہ میں شِعْبِ اَجْیَاد میں آ کر آپ کو ملا۔ اَجْیَاد مکےّ میں صفا پہاڑی سے متصل ایک مقام کا نام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائی ہیں۔ آپؐ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ میں پہنچ گیا اور بیعت کر کے مسلمان ہو گیا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزو ثانی صفحہ 455، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 63-64)(فرہنگ سیرت صفحہ30زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
حضرت سعدؓ کی بیٹی عائشہ بنت سعد روایت کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب میں مسلمان ہوا اس وقت میری عمر سترہ سال تھی۔ بعض روایات میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر انیس سال بھی بیان ہوئی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 103، سعد بن ابی وقّاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
اوّلین اسلام لانے والوں میں حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے پانچ ایسے اشخاص ایمان لائے جو اسلام میں جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان میں تیسرے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ تھے جو اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ یہ سیرت خاتم النبیینؐ میں جو لکھا ہے اسی سے اخذ کیا گیا ہے یعنی اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی۔ یہ بنو زُہْرَہ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں عراق انہی کے ہاتھ پر فتح ہوا اور امیر معاویہ کے زمانہ میں فوت ہوئے تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 122-123)
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی روایات بیان کی ہیں۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
حضرت سعدؓ کے بیٹے مُصْعَب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد سعدؓ نے مجھے بیان کیا کہ میری ماں نے یعنی حضرت سعدؓ کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے کبھی بات نہیں کرے گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین کا انکار کر دے یعنی اسلام سے پِھر جائیں۔ چنانچہ نہ وہ کھاتیں اور نہ پیتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ میری ماں نے کہا تو بیان کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے والدین سے احسان کی تاکید کرتا ہے۔ تم کہتے ہو ناں کہ تمہارا دین یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اپنے والدین سے احسان کرو۔ اس کی تاکید کی جاتی ہے۔ میں تمہاری ماں ہوں اور میں تمہیں اس کا حکم دے رہی ہوں کہ اب اس کو چھوڑو اور میری بات جو میں کہتی ہوں وہ مانو۔ راوی کہتے ہیں کہ تین روز تک وہ اس حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر ان کا بیٹا جسے عُمَارَہ کہا جاتا تھا کھڑا ہوا اور انہیں پانی پلایا۔ پھر جب ہوش آئی تو وہ سعدؓ کو بددعا دینے لگیں۔ تب اللہ عز و جل نے قرآن میں یہ آیت اتاری کہ
وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا (العنکبوت: 9)
کہ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حقوق میں احسان کی تاکیدی نصیحت کی۔ وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا۔ یہ عنکبوت کی آیت ہے اور پھر سورۂ لقمان میں یہ ہے کہ وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰى أَنْ تُشْرِکَ بِیْ (لقمان: 16)اگر وہ دونوں تجھ سے جھگڑا کریں کہ تُو میرا شریک ٹھہرا تو اطاعت نہ کر۔ وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰى أَنْ تُشْرِکَ بِیْ کہ اگر وہ کہیں تو میرا شریک ٹھہرا تو پھر ان کی اطاعت نہیں کرنی اور اس میں پھر آگے یہ بھی ہے کہ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا(لقمان: 16) دونوں کے ساتھ دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھو۔ ان سے تعلق رکھو۔ ان سے نیکی کرو۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل سعد بن ابی وقّاص حدیث: 1748)
یہ جھگڑا اگر شرک کے بارے میں کرنا ہے تو پھر بات نہیں ماننی۔ یہ جو تفصیلی بات ہے یہ مضمون اسی طرح پورا آگے چلتا ہے۔ لیکن جو دنیاوی معاملات ہیں ان میں ان سے رفاقت جاری رکھو۔ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا ان سے تعلق رکھو۔ ان سے نیکی کرو۔
یہ پہلی روایت مسلم میں تھی۔ آگے پھر سیرت میں ایک اَور حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ بہت پیار کرتا تھا مگر جب میں نے اسلام قبول کیا تو اس نے کہا کہ اے سعد! یہ کون سا دین تُو نے اختیار کر لیا ہے۔ یا تو تُو اس نئے دین کو ترک کر دے یا مَیں کچھ نہ کھاؤں اور نہ پیوں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں گی۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اے پیاری ماں ! ایسا نہ کرنا کیونکہ میں اپنے دین کو چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اور ایک رات تک میری ماں نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا اور اس کی حالت خراب ہونے لگی تو میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر تمہاری ایک ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلیں تب بھی میں کسی کی خاطر اپنے دین کو ترک نہیں کروں گا۔ جب آپ کی والدہ نے یہ دیکھا تو کھانا پینا شروع کر دیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰى أَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان: 16)
یعنی اگر وہ دونوں تجھ سے بحث کریں کہ تُو کسی کو میرا شریک مقرر کرے جس کا تجھ کو کوئی علم نہیں مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ کوئی علم نہیں ہے فَلَا تُطِعْہُمَا۔ تو ان دونوں کی بات مت ماننا۔ ہاں دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھو۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 455، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدؓ کو اپنا ماموں کہا کرتے تھے۔ (اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری صفحہ 91 مکتبہ اسلامیہ لاہور 2015ء)
ایک دفعہ حضرت سعدؓ سامنے سے آ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا یہ میرے ماموں ہیں۔ کسی کا ایسا ماموں ہو تو دکھائے۔ امام ترمذی نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا تعلق بنو زُہْرَہ سے تھا اور حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کا تعلق بھی بنو زُہْرَہ سے تھا۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابو اسحاق سعد بن ابی وقّاص حدیث نمبر 3752)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حرا !ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس پہاڑ پر اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ تھے۔ یہ مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل طلحۃ و الزبیرحدیث 2417)
اسلام کے ابتدائی ایام میں جب مسلمان چھپ کر نمازیں ادا کیا کرتے تھے تو ایک مرتبہ حضرت سعدؓ مکےکی ایک گھاٹی میں کچھ صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ وہاں مشرکین آ پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کیا اور ان کے دین یعنی اسلام میں عیب نکالنا چاہے یہاں تک کہ لڑائی تک نوبت پہنچ گئی۔ حضرت سعدؓ نے ایک مشرک کے سر پر اونٹ کی ہڈی اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ پس یہ پہلا خون تھا جو اسلام میں بہایا گیا تھا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
مکے میں جب کفار نے مسلمانوں کے ساتھ بائیکاٹ کیا اور ان کو شِعْبِ ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو وہ مسلمان جو ان تکالیف کا شکار ہوئے ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ بھی تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے‘ سیرت خاتم النبیینؐ ’میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ
’’جو جو مصائب اور سختیاں ان ایام میں ان محصورین کو اٹھانی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے۔ صحابہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا۔ سعد بن ابی وقّاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی‘‘ غالباًکھجور کا کوئی ٹکڑا ہو گا ’’اس وقت ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نِگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقعہ پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سو کھا ہوا چمڑا زمین پر پڑا ہوا مِل گیا تو اسی کو انہوں نے پانی میں نرم اور صاف کیا اور پھر بھون کر کھا یا اور تین دن اسی غیبی ضیافت میں بسر کیے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 166-167)
جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا تو حضرت سعدؓ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں اپنے مشرک بھائی عُتْبَہ بن ابی وقّاص کے ہاں قیام کیا۔ عُتْبَہ سے مکہ میں ایک خون ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مدینہ میں آ کر آباد ہو گیا تھا۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 66-67)
حضرت سعدؓ اوّلین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 1صفحہ 305، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کی مؤاخات حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ کے ساتھ فرمائی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ کی مؤاخات حضرت سعد بن مُعَاذؓ سے فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 103، سعد بن ابی وقّاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
مؤاخات میں اس اختلاف کی مولانا غلام باری صاحب سیف نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ مکہ میں آپ کی مؤاخات حضرت مُصْعَبؓ کے ساتھ تھی اور مدینہ میں حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے ساتھ تھی۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 64)
حضرت سعدؓ قریش کے بہادر شہ سواروں میں سے تھے۔ غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری جن اصحاب کے سپرد ہوتی تھی ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ بھی تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 172، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2010ء)
ابو اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چار اشخاص بہت سخت حملہ آور تھے۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زُبیرؓ اور حضرت سعدؓ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 325، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو کفار کی طرف سے حملے کا خوف اور پریشانی رہتی تھی جس کی وجہ سے شروع میں مسلمان اکثر راتوں کو جاگا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عموماً راتوں کو جاگتے رہتے تھے۔ اس بارے میں ایک روایت ملتی ہے حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ مدینہ تشریف آوری کے زمانےمیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو نہ سکے تو آپؐ نے فرمایا کاش ! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرا پہرہ دے۔ وہ کہتی ہیں ہم اسی حال میں تھے کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ تو باہر سے یہ آواز آئی۔ آنے والے نے یہ عرض کیا کہ سعد بن ابی وقّاص، کہ میں سعد بن ابی وقّاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خوف پیدا ہوا اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو دعا دی اور سو گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 282-283) (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل سعد بن ابی وقّاص حدیث2410)
یہ بھی ایک حوالہ ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں میں اس واقعے کا ذکر تو ہے لیکن اس کے ساتھ دعا کی تفصیل نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دعا دی تھی لیکن حضرت سعدؓ کے مناقب میں جو امام ترمذی نے بیان کیے ہیں ان میں ان کے بیٹے قیس سے روایت ہے کہ میرے والد سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی تھی کہ اَللّٰہُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ اِذَا دَعَا۔ کہ اے اللہ ! سعدؓ جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا کو قبول کیجیؤ اور اِکْمَال فِیْ اَسْمَاءِ الرِّجَال میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا دی تھی کہ اَللّٰہُمَّ سَدِّدْ سَھْمَہٗ وَاَجِبْ دَعْوَتَہ کہ اے اللہ ! ان کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھے اور ان کی دعا قبول کرنا۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 67-68)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دعا کی وجہ سے حضرت سعدؓ قبولیت دعا کی وجہ سے مشہور تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء الثانی صفحہ 324-325، دارالفکر بیروت لبنان، 2001ء)
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ مستجاب الدعوات تھے۔ ایک شخص نے آپؓ پر جھوٹ گھڑا تو آپؓ نے اس کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس کی بصارت جاتی رہے اور اس کی عمر طویل ہو اور اسے فتنہ میں مبتلا کر دے۔ پس اس شخص کو یہ تمام چیزیں پہنچیں۔ (جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم جلد 2 صفحہ 350، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 2001ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مدینہ کے بازار میں جارہا تھا کہ میں اَحْجَارُ الزَّیْت مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ایک شخص کے پاس موجود تھا جو سواری پر بیٹھا تھا اور حضرت علیؓ کو گالیاں نکال رہا تھا۔ اتنے میں حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ وہاں آگئے اور ان میں کھڑے ہو گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ آدمی حضرت علیؓ کو گالیاں دے رہا ہے۔ حضرت سعدؓ آگے بڑھے تو لوگوں نے انہیں راستہ دیا یہاں تک کہ آپؓ اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور پوچھا اے شخص! تُو کیوں حضرت علیؓ کو گالیاں دے رہا ہے؟ کیا وہ سب سے پہلے اسلام نہیں لائے تھے؟ کیا وہ پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے زیادہ متقی انسان نہیں ہیں؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم والے انسان نہیں ہیں؟ حضرت سعدؓ بیان کرتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا کہ نیز کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنی بیٹی بیاہ کر ان کو اپنی دامادی کا شرف نہیں بخشا تھا؟ کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں جھنڈا اٹھانے والے نہیں تھے؟ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر اس نے تیرے اولیاء میں سے ایک ولی یعنی حضرت علیؓ کو گالیاں دی ہیں تو تُو اس مجمعےکے منتشر ہونے سے پہلے اپنی قدرت کا نشان دکھا۔ یہ مستدرک کا حوالہ ہے۔ راوی قیس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ابھی ہم وہاں سے منتشر نہیں ہوئے تھے کہ اس شخص کی سواری نے اسے نیچے گر ادیا اور اس کے سر کو اپنے پیروں سے پتھر پر مارا جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔ (المستدرک کتاب معرفۃ الصحابہ باب سعد بن ابی وقّاص روایت 6121 جلد 3 صفحہ 571-572 دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت سعدؓ نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے فوراً بعد رات کو حفاظت کی تھی، اسی طرح کا ان کا ایک اور واقعہ غزوۂ خندق کے موقعےپر بھی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ جس طرح باقی صحابہ پہرہ دے رہے ہوتے تھے آپؐ بھی صحابہ کے ساتھ پہرہ دیتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے۔ تب واپس آ کر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اس شگاف کی حفاظت کے لیے چلے جاتے۔ اسی طرح متواتر جاگنے سے آپؐ ایک دن بالکل نڈھال ہو گئے اور رات کے وقت فرمایا کاش اس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو مَیں آرام سے سو جاتا۔ اتنے میں باہر سے سعد بن ابی وقّاصؓ کی آواز آئی۔ آپؐ نے پوچھا کیوں آئے ہو۔ انہوں نے کہا آپؐ کا پہرہ دینے آیا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے پہرے کی ضرورت نہیں۔ تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارا ٹوٹ گیا ہے جاؤ اور اس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں۔ چنانچہ سعد اس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر کے لیے سو گئے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 279)
حضرت سعدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر، احد، خندق، حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ سمیت تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین تیر انداز صحابہ میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 105، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سعدؓ کے بارے میں ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگیں لڑیں ان میں سے ایک جنگ میں ایک وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ کے کوئی نہ رہا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل طلحۃ و الزبیر 2415)
حضرت سعدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات کے لیے نکلنے کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے نکلتے تھے اور حالت یہ تھی کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہوتی سوائے درختوں کے پتے ہی۔ ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنیاں کرتا جیسے اونٹ لید کرتا ہے یا بکریاں مینگنیاں کرتی ہیں یعنی خشک، ان میں نرمی بالکل نہیں ہوتی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ان ایام میں ہماری خوراک ببول کے درخت، یہ ایک قسم کا کانٹے دار درخت ہوتا ہے اس کی بیلیں ہوا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقاص حدیث نمبر3728) (جامع ترمذی ابواب الزہد باب ما جاء فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ حدیث نمبر 2366)
حضرت سعدؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں خون بہایا اور آپؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور یہ واقعہ سریہ حضرت عُبَیدہ بن حَارِث کا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب فضل سعد بن ابی وقاص، حدیث نمبر 131) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 607، دار الجیل بیروت) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 453، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2003ء)
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ربیع الاول سن دو ہجری میں ایک سریہ ہوا جسے سریہ حضرت عبیدہ بن حارث کہتے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے، یہ پہلے بھی کچھ حصہ بلکہ میرا خیال ہے سارا میں بیان کر چکا ہوں لیکن بہرحال یہاں بھی ان کے حوالے سے بیان کر دیتا ہوں۔ ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عُبَیْدَہْ بِنْ حَارِثْ مُطَّلَبِیْ کی امارت میں ساٹھ شتر سوار یا اونٹ سوار مہاجرین کاایک دستہ روانہ کیا۔ اس مہم کی غرض قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔ چنانچہ جب عُبَیدہ بن حارث اور ان کے ساتھی کچھ مسافت طے کر کے ثَنِیَّۃُ الْمَرَّۃْ (ثَنِیَّۃُ الْمَرَّۃْ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرتے ہوئے اس مقام سے گزرے تھے۔ بہرحال جب یہ اس) مقام کے پاس پہنچے توناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے 200مسلح نوجوان عِکْرِمَہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی نہ ہو ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے 2شخص حضرت مقداد بن عمرو اور حضرت عُتْبہ بن غَزْوَان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پا کر مسلمانوں میں آ ملیں۔ کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 99-100 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 328)
جمادی الاولیٰ 2ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاصؓ کو آٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر امیر مقرر فرما کر قریش کی خبر رسانی کے لیے خَرَّارْ مقام کی طرف روانہ فرمایا۔ خَرَّارْ بھی حجاز میں جُحْفَہ کے قریب ایک علاقہ ہے۔ بہرحال یہ لوگ وہاں گئے مگر دشمن سے ان کا سامنا نہیں ہوا۔ (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 400 دار الکتب العلمیہ بیروت) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 329-330)
پھر سریہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کا ذکر ہے جو جمادی الآخر دو ہجری میں ہوا تھا۔ اس سریے میں حضرت سعدؓ بھی شامل ہوئے تھے اور اس کا بھی ذکر میں پہلے ایک دفعہ کر چکا ہوں لیکن‘سیرت خاتم النبیینؐ ’کے حوالے سے یہاں مختصر ذکر کردیتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ ان کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میسر ہوجاوے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔ چنانچہ اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اور مصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کوامیر مقرر فرمایا۔ آپؐ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کوبھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اور کس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک سربمہر خط دے دیا، sealed خط تھا اور فرمایا کہ اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں۔ جب تم مدینہ سے دودن کا سفر طے کرلو تو پھر اس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا۔ بہرحال آخر دو دن کی مسافت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو، اس خط کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نَخْلَہمیں جاؤ اور وہاں جاکر قریش کے حالات کاعلم لو اور پھر ہمیں اطلاع کر دو۔ آپؐ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھی تھی کہ اس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگرتمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متأمل ہو اور واپس چلاآنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو۔ عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کو دی اور سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ کوئی واپس نہیں جائے گا۔ اس کے بعد یہ جماعت وادیٔ نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔
راستے میں سعد بن ابی وقاصؓ اور عُتْبہ بن غَزْوَانؓ کا اونٹ کہیں کھو گیا اور وہ اس کو تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکا۔ یہ جو آٹھ آدمیوں کی پارٹی تھی اب باقی یہ صرف چھ رہ گئے۔ یہ چلتے رہے۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک مستشرق مسٹر مارگولیس کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی روایت کے مطابق شبہات پیدا کرنے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور ان کے ساتھی کے بارے میں لکھتا ہے کہ
سعد بن ابی وقاصؓ اور عتبہؓ نے جان بوجھ کراپنا اونٹ چھوڑ دیا تھا اور اس بہانہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ ان جاں نثارانِ اسلام پر، جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اور جن میں سے ایک غزوۂ بئر معونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا یہ مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ مارگولیس صاحب اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ہرقسم کے تعصّب سے پاک ہوکر لکھی ہے۔
بہرحال مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اور معلومات جو لینی تھیں ان کے لیے اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور ان میں سے بعض نے اخفائے راز کے لیے اپنے سر کے بال منڈوادیے تاکہ راہگیر وغیرہ ان کو عمرے کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں۔ لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ آ پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں اور حالات ایسے بن گئے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں نے آخراپنی مرضی کے خلاف یہی فیصلہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی یہی تھا لیکن حالات کی وجہ سے یہی فیصلہ کیا کہ قافلے پرحملہ کر کے یا تو قافلے والوں کو قید کر لیا جاوے یا مار دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا اور دو آدمی قید ہو گئے لیکن بدقسمتی سے چوتھا آدمی بھاگ کر نکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی یہ تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بہرحال اس کے بعد مسلمانوں نے قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیا اور قیدی اور سامانِ غنیمت لے کر جلد جلد مدینےکی طرف واپس لوٹ آئے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہ نے قافلے پر حملہ کیا تھا تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا مَااَمَرْتُکُمْ بِقِتَالٍ فِی الشَّھْرِ الْحَرَامِ کہ میں نے تمہیں شہرِحَرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی اور آپ نے مالِ غنیمت لینے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف قریش نے بھی شور مچا دیا کہ مسلمانوں نے شہر ِحرام کی حرمت کو توڑا ہے اور بڑا اس لیے بھی کہ جو آدمی مارا گیا تھا وہ عمر وبن حزرمی تھا۔ یہ ایک بہت بڑا رئیس تھا۔ بہرحال اس دوران میں ان کے آدمی، کفار کے آدمی اپنے دو قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مدینہ بھی پہنچ گئے لیکن چونکہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اور حضرت عُتبہ بن غَزْوَانؓ واپس نہیں آئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق سخت خدشے میں تھے، خدشہ تھا کہ اگر قریش کے ہاتھ وہ پڑ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میرے آدمی بخیریت مدینہ پہنچ جائیں گے تو پھر مَیں تمہارے آدمیوں کو چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ دونوں واپس پہنچ گئے تو آپؐ نے دونوں قیدیوں کو چھوڑ دیا۔ ان دو میں سے ایک شخص پر مدینہ کے قیام کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 330تا334)
غزوۂ بدر کے موقعے پر جنگ سے پہلے کے حالات بیان کرتے ہوئے بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ بدر کی طرف بڑھنے شروع ہوئے اور جب آپؐ بدر کے قریب پہنچے توکسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کو اپنے پیچھے سوار کر کے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے۔ اس وقت آپؐ کو رستےمیں ایک بوڑھا بدوی ملا جس سے آپؐ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اور حضرت علیؓ، حضرت زُبَیر بن عوامؓ اور حضرت سَعد بن ابی وَقَّاصؓ کو دریافت حال کے لیے آگے روانہ فرمایا۔ جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھررہے ہیں۔ ان صحابیوں نے اس جماعت پرحملہ کرکے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے نرمی سے اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا اس سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں۔ اس نے کہا بہت ہیں مگر پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے لیے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔ اس نے کہا دس ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اس لشکر میں ایک ہزارآدمی معلوم ہوتے ہیں اور حقیقتاً وہ اتنے ہی تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 355-356)
یہ حصہ بھی شاید کچھ تفصیل سے مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ غزوۂ بدر کے موقعےپر حضرت سعدؓ کی بہادری کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت سعدؓ پیدل ہونے کے باوجود شہ سواروں کی طرح بہادری سے لڑ رہے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 104، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
اسی وجہ سے حضرت سعدؓ کو‘فارس الاسلام’کہا جاتا تھا یعنی اسلام کا شہ سوار۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 1صفحہ 305، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)
غزوۂ احد کے موقعے پر حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اُن گنتی کے چندلوگوں میں سے تھے جو سخت افراتفری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم رہے۔ (ماخوذ از خطبات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت)تقریر جلسہ سالانہ 1979ء صفحہ 337)
غزوۂ احد کے موقعے پر حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کا بھائی عتبہ بن ابی وقاص مشرکین کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ بھی کیا تھا۔ اس واقعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک تقریر میں اس طرح بیان فرمایا تھا کہ عتبہ وہ بدبخت انسان تھا جس نے شدید حملہ کر کے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کے دو دندانِ مبارک شہید کیے اور دہنِ مبارک کوسخت زخمی کر دیا۔ عتبہ کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مسلمانوں کی طرف سے لڑرہے تھے۔ جب ان کو عتبہ کی بدبختیکا علم ہوا تو جوشِ انتقام سے ان کا سینہ کھولنے لگا۔ آپؒ فرماتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی کے قتل پر ایسا حریص ہو رہا تھا کہ شاید کبھی کسی اَور چیز کی مجھے ایسی حرص نہ لگی ہو۔ دو مرتبہ دشمن کی صفوں کا سینہ چیر کر اس ظالم کی تلاش میں نکلا کہ اپنے ہاتھ سے اس کے ٹکڑے اڑا کر اپنا سینہ ٹھنڈاکروں مگر وہ مجھے دیکھ کر ہمیشہ اس طرح کترا کر نکل جاتا تھا جس طرح لومڑی کترا جایا کرتی ہے۔ آخر جب میں نے تیسری مرتبہ اس طرح گھس جانے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ شفقت مجھ سے فرمایا کہ اے بندۂ خدا! تیرا کیا جان دینے کا ارادہ ہے؟ چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے سے اس ارادے سے باز رہا۔ (ماخوذ از خطبات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت)تقریر جلسہ سالانہ 1979ء صفحہ 346)
غزوۂ احد کے موقعے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم صحابہ تھوڑے رہ گئے اس وقت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ
’’حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تیر پکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعدؓ یہ تیر دشمن پر بے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاتے جاؤ۔ سعدؓ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کو نہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 495)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے دن اپنے ترکش سے تیر نکال کر میرے لیے بکھیر دیے اور آپؐ نے فرمایا تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب اذ ہمت طائفتان منکم ان تفشلا……حدیث نمبر 4055)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لیے اپنے ماں باپ فدا کرنے کی دعا دیتے نہیں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے غزوۂ احد کے موقعے پر فرمایا تھا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیر چلاتے جاؤ۔ اے بھرپور طاقتور نوجوان! تیر چلاتے جاؤ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب ارم فداک ابی و امی حدیث نمبر 3753)
یہاں یہ بیان بھی قابل ذکر ہے، یہ نوٹ بھی آیا ہوا ہے کہ حضرت سعدؓ کے علاوہ تاریخ میں حضرت زُبیربن عوامؓ کا نام بھی ملتا ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ یعنی تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب الزبیر بن العوامؓ حدیث نمبر 3720)
غزوہ ٔاُحُد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ اُحُد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنے والدین کو اکٹھا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس نے مسلمانوں میں آگ لگا رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یعنی حضرت سعدؓ سے فرمایا تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے وہ تیر جس کا پھل نہیں تھا اس کے پہلومیں مارا جس کی وجہ سے وہ مر گیا اور اس کا ستر کھل گیا اور میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے ہنس پڑے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل سعد بن ابی وقاص2412)
ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ اس مشرک نے (تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام حِبَّان بتایا جاتا ہے) ایک تیر چلایا جو حضرت امّ ایمن کے دامن میں جا لگا جبکہ وہ زخمیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھیں۔ اس پر حِبَّان ہنسنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو ایک تیر پیش کیا وہ تیر حِبَّان کے حلق میں جا لگا اور وہ پیچھے گر پڑا جس سے اس کا ننگ ظاہر ہو گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (الاصابہ جلد 3 صفحہ 64 سعد بن مالک، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
صحیح مسلم کی جو یہ حدیث بیان ہوئی ہے اس کے متعلق وہاں جو ہماری نور فاؤنڈیشن ہے انہوں نے ابھی جوترجمہ کیا ہے اس میں یہ نوٹ لکھا ہے اور اچھا نوٹ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشی اللہ کے اس احسان پر تھی کہ اس نے ایک خطرناک دشمن کو ایک ایسے تیر سے راستے سے ہٹایا جس کا پھل بھی نہیں تھا۔ (صحیح مسلم جلد 13 صفحہ 41 شائع کردہ نورفاؤنڈیشن)
ایک روایت میں ہے کہ غزوۂ احد کے دن حضرت سعدؓ نے ایک ہزار تیر برسائے۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف جلد 2 صفحہ 71)
صلح حدیبیہ کے موقعے پر صلح نامہ پر جن صحابہ نے بطور گواہ دستخط کیے ان میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی شامل تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 769)
فتح مکہ کے موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 105، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حَجَّۃُ الْوَدَاع کے موقعے پر حضرت سعدؓ بیمار ہو گئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں مکہ میں بیمار ہو گیا اور موت کے قریب پہنچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہؐ ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری وارث میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ مَیں نے عرض کیا پھر نصف مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ مَیں نے عرض کی پھر ایک تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے مگر یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم اپنی اولاد کو مال دار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگ دست چھوڑ دو کہ وہ لوگوں سے مانگتے پھریں اور جو بھی تم خرچ کرو گے اس کا تمہیں اجر ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پیچھے رہ بھی گئے تب بھی جو عمل تم اللہ کی رضا مندی کے لیے کرو گے اس سے تمہارا درجہ اور مرتبہ بلند ہو گا اور ساتھ یہ بھی اظہار فرما دیا کہ مجھے امید ہے تم میرے بعد زندہ رہو گے یہاں تک کہ قومیں تم سے فائدہ اٹھائیں گی اور کچھ لوگ نقصان اٹھائیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب الفرائض باب میراث البنات حدیث نمبر 6733)
ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! میرے صحابہ کے لیے ان کی ہجرت پوری فرما اور ان کو ان کی ایڑھیوں کے بل نہ لوٹانا۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب رثاء النبیﷺ سعد بن خولہ حدیث نمبر 1295)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور پوچھا کیا تم نے وصیت کر دی ہے۔ مَیں نے عرض کی جی۔ آپؐ نے پوچھا کتنی؟ مَیں نے عرض کی میرا سارامال اللہ کی راہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو اپنی اولاد کے لیےکیا چھوڑا ہے؟ مَیں نے عرض کی وہ مال دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر دسویں حصےکی وصیت کر دو۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ مَیں اسی طرح کہتا رہا اور آپؐ اسی طرح فرماتے رہے۔ حضرت سعدؓ زیادہ مال صدقہ کرنا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کم کرنے کی تلقین فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی مال کی وصیت کر دو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ (سنن نسائی کتاب الوصایا باب الوصیۃ بالثلث حدیث نمبر 3661)
بہرحال جو علم رکھنے والے ہیں اور فقہ والے بھی اس روایت سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں ہو سکتی۔ (جامع ترمذی ابواب الوصایا باب ما جاء فی الوصیۃ بالثلث حدیث نمبر 2116)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ اپنے اخراجات نکال کر باقی سارا مال تقسیم کر دینا اسلامی حکم نہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں یَجِیْءُ اَحَدُکُمْ بِمَالِہٖ کُلِّہٖ یَتَصَدَّقُ بِہٖ وَیَجْلِسُ یَتَکَفَّفُ النَّاسَ اِنَّمَا الصَّدَ قَۃُ عَنْ ظَھْرِ غِنًی۔ یعنی تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کے لیے لے آتے ہیں اور پھر لوگوں کے آگے سوال کے لیے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ صدقہ صرف زائد مال سے ہوتا ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں إِنْ تَذَرْ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَہُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ یعنی اگر تو اپنے ورثاء کو دولت مند چھوڑ جائے تو یہ زیادہ اچھاہے بہ نسبت اس کے کہ تُو ان کو غریب چھوڑ جائے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو ثلث مال کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی مگر آپؐ نے انہیں منع فرمایا۔ پھر انہوں نے آدھا مال تقسیم کرنا چاہا۔ تو اس سے بھی منع فرمایا۔ پھر انہوں نے تیسرے حصہ کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی تو اس حصہ کی آپؐ نے اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا‘‘ کہ یعنی تیسرے حصہ کی وصیت بھی کثیر ہے دو ثلث بھی کثیر ہے۔ ’’اَلثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیرٌ …… غرض یہ خیال کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد بچے اسے تقسیم کر دینا چاہیے بالکل خلاف اسلام اور خلاف عمل صحابہؓ ہے۔‘‘ کیونکہ صحابہ کے عمل ایسے تھے۔ ’’جن میں سے بعض کی وفات پر لاکھوں روپیہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 494)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں مکہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میں نے آپؐ کے ہاتھ کی ٹھنڈک اپنے دل پر محسوس کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھ کر مجھے فرمایا کہ تمہیں تو دل کی تکلیف ہے پس تم حارث بن کَلَدَہْ کے پاس جاؤ جو بنو ثَقِیف کا بھائی ہے وہ طبیب ہے اور اسے کہو کہ وہ مدینے کی سات عجوہ کھجوروں کو ان کی گٹھلیوں سمیت پِیس لے اور تمہیں بطور دوائی پلائے۔ (الطبقات الکبریٰ جزو ثالث صفحہ 108، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
ایک روایت میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے میں ایک شخص کو خاص طور پر متعین فرمایا کہ وہ حضرت سعدؓ کا خیال رکھے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ اگر حضرت سعدؓ مکے میں فوت ہو جائیں تو انہیں ہرگزمکے میں نہ دفنایا جائے بلکہ مدینہ لایا جائے اور وہاں دفن کیا جائے۔ (طبقات ابن سعد جزو ثالث صفحہ 108، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعدؓ کا شکار کے بارے میں واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گو خود شکار نہیں کیا کرتے تھے مگر حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپؐ شکار کروایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک غزوہ میں آپؐ نے سعد بن ابی وقاصؓ کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو وہ ہرن جا رہا ہے اسے تیر مارو۔ جب وہ تیر مارنے لگے تو آپ نے پیار سے اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 124)
حضرت سعدؓ کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی عطافرمائی کہ عراق آپؓ کے ہاتھوں پر فتح ہوا۔ غزوۂ خندق کے موقعے پر ایک مرتبہ صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ خندق میں ایک چٹان آ گئی ہے جو ٹوٹتی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور تین کدالیں اس چٹان پر ماریں اور ہر بار چٹان کچھ ٹوٹی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے اللہ اکبر! کہا اور آپؐ کی اتباع میں صحابہ نے بھی نعرہ لگایا۔ اس موقع پر ایک ضرب پر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے مَدَائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ آپؐ نے جو دیکھا وہ حضرت سعدؓ کے ہاتھوں پورا ہوا۔ (ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 79)
عرب کے ماحول میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک کِسریٰ کی، دوسری قیصر کی۔ عراق کا بڑا حصہ کسریٰ کے زیرنگیں تھا اور مدین میں ان کے شاہی محلات تھے۔ مدائن، قادسیہ، نَہَاوَنْد اور جَلُولَاءکے مشہور معرکے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے زیر قیادت لڑے گئے۔
مدائن کا تعارف یہ ہے کہ عراق میں بغداد سے کچھ فاصلے پر جنوب کی طرف دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے۔ چونکہ یہاں یکے بعد دیگرے کئی شہر آباد ہوئے اس لیے عربوں نے اسے مدائن یعنی کئی شہروں کا مجموعہ کہناشروع کر دیا۔
قادسیہ بھی عراق کا ایک شہر تھا جہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان مشہور جنگ لڑی گئی جسے جنگِ قادسیہ کہتے ہیں اور موجودہ قادسیہ کا شہر کوفے سے پندرہ فرسخ کے فاصلے پر ہے۔
نَہَاوَنْد: یہ موجودہ ایران میں واقع ایک شہر ہے جو ایرانی صوبہ ہمدان میں اس کے دارالحکومت ہمدان سے 70کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
جَلُولَاء موجودہ عراق کا شہر ہے جو دریائے دَجْلَۃُ الْاَیْمَن کے کنارے واقع ہے۔ یہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان جنگ لڑی گئی۔ اس کا نام جَلُولَاء اس لیے رکھا گیا کہ یہ شہر ایرانیوں کی لاشوں سے بھر گیا تھا۔
عراق میں حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں حضرت مُثَنّٰی بن حَارِثَہ نے ایرانیوں کے بار بار تنگ کرنے کی وجہ سے بارڈر پہ چڑھائی کی اجازت چاہی۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اجازت دے دی۔ حضرت خالدبن ولیدؓ کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا۔ جب ملک شام سے حضرت ابوعبیدہؓ نے دربارِ خلافت سے کمک طلب کی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کو ان کی مدد کے لیے بھجوا دیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عراق میں حضرت مُثَنّٰی کو اپنا جانشین مقرر کیا لیکن حضرت خالدؓ کے عراق سے جانے کے ساتھ ہی یہ مہم سرد پڑ گئی۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو آپؓ نے از سر نو عراق کی مہم کی طرف توجہ فرمائی۔ حضرت مُثَنّٰی نے بُوَیْبْ اور دیگر جنگوں میں دشمنوں کو پے در پے شکست دے کر عراق کے ایک وسیع خطے پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت عراق کا علاقہ کسریٰ کے زیر نگیں تھا۔ ایرانیوں کو جب مسلمانوں کی جنگی قوتوں کا اندازہ ہوا اور ان کی مسلسل فتوحات نے ان کی آنکھیں کھولیں تو انہوں نے پورَانْ دُخْتْ جو ان کی ملکہ تھی اس کی بجائے خاندان کسریٰ کے اصلی وارث جو یَزْدْگَرْدْ تھا اس کو تخت نشین کیا۔ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی ایرانی سلطنت کی تمام طاقتوں کو مجتمع کیا۔ تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف جوش و انتقام کی آگ بھڑکائی۔ ان حالات میں حضرت مُثَنّٰیکو مجبوراً عرب کی سرحد سے ہٹنا پڑا۔ حضرت عمرؓ کو جب ان واقعات کا علم ہوا تو آپؓ نے عرب میں پُرجوش خطیب ہر طرف پھیلا دیے اور کسریٰ کے خلاف مسلمانوں کو کھڑا ہونے کے لیے کہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عرب میں ایک جوش پیدا ہوا اور ہر طرف سے جاں نثارانِ اسلام ہتھیلی پر جانیں رکھ کر دارالخلافہ کی جانب امڈ آئے۔ حضرت عمرؓ نے مشورہ کیا کہ اس مہم کی قیادت کس کے سپرد کی جائے۔ عوام کے مشورےسے حضرت عمرؓ خود اس مہم کی قیادت کے لیے تیار ہوئے لیکن حضرت علیؓ اور اکابر صحابہؓ کی رائے اس میں مانع ہوئی، انہوں نے روک دیا۔ اس غرض کے لیے حضرت سعید بن زیدؓ کا نام بھی پیش کیا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اٹھے اور عرض کی یا امیر المومنین! اس مہم کے لیے مجھے صحیح آدمی معلوم ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ کون ہے؟ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ! اس کے بعد سب لوگوں نے حضرت سعدؓ کے نام پر اتفاق کیا اور حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کے بارے میں فرمایا۔ اِنَّہٗ رَجُلٌ شُجَاعٌ رَامٍ یعنی وہ ایک بہت بہادر نڈر اور زبردست تیر اندازانسان ہے۔ حضرت مُثَنّٰی مقام ذِی قَار، کوفہ اور وَاسِط کے درمیان ایک جگہ ہے اس میں آٹھ ہزارجاں نثار بہادروں کے ساتھ حضرت سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے کہ ان کو خدا کی طرف سے بلاوا آ گیا اور ان کی وفات ہو گئی اور انہوں نے اپنے بھائی حضرت مُعَنّٰی کو سپہ سالار مقرر کیا۔ حضرت مُعنّٰی نے حسبِ ہدایت حضرت سعدؓ سے ملاقات کی اور حضرت مُثَنّٰی کا پیغام پہنچایا۔ حضرت سعدؓ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو وہ کم و بیش تیس ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر تھا۔ آپؓ نے لشکر کو ترتیب دیا اور لشکرکا جو دایاں حصہ تھااور بایاں حصہ تھا اس کی تقسیم کر کے ان پر علیحدہ علیحدہ افسرمقرر کیے اور آگے بڑھے اور قادسیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قادسیہ کا معرکہ 16؍ہجری کے آخر میں پیش آیا۔ کفّار کی تعداد دو لاکھ اسّی ہزار کے قریب تھی اور ان کے لشکر میں تیس ہاتھی تھے۔ ایرانی فوج کی کمان رُسْتَم کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت سعدؓ نے کفار کو اسلام کی دعوت دی اس کے لیے آپ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو بھیجا۔ رستم نے ان سے کہا کہ تم لوگ تنگ دست ہو اور تنگدستی کو دور کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔ ہم تمہیں اتنا دیں گے کہ تم سیر ہو جاؤ گے۔ حضرت مغیرہؓ نے جواب میں کہا کہ ہم نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا۔ ہم تمہیں خدائے واحد کی طرف اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اگر تم یہ قبول کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے ورنہ پھر جنگ ہے، تلوار ہے جو ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی۔ اس جواب سے رستم کا چہرہ سخت سرخ ہو گیا کیونکہ ان کی طرف سے پہل ہوئی تھی اور وہ جنگ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا ہم تو ابھی بھی جنگ نہیں کرنا چاہتے ہم تو تمہیں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں پیغام دے رہے ہیں لیکن تم اگر جنگ چاہتے ہو تو پھر ٹھیک ہے پھر تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ بہرحال اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ مشرک تھا۔ اس نے کہاسورج اور چاند کی قسم کہ صبح کے طلوع ہونے سے پہلے ہم جنگ کا آغاز کریں گے اور تم سب کو تہ تیغ کر دیں گے۔ حضرت مغیرہؓ نے کہا کہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہ ساری طاقتوں کا منبع اور مرکز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ حضرت سعدؓ کو حضرت عمرؓ کا پیغام ملا کہ پہلے ان کو دعوت حق دو۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے مشہور شاعر اور شہ سوار حضرت عَمر وبن مَعْدِیْ کَرِبؓ اور حضرت اَشْعَثْ بن قَیس کِنْدَیؓ کو اس وفد کے ساتھ بھیجا۔ رستم سے ان کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے والی سے ملنے۔ اس پر رستم اور ان کے درمیان تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وفد کے ممبران نے کہا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ ہم تمہارے علاقے پر قابض ہوں گے۔ اس پر رستم نے مٹی کی ٹوکری منگوائی اور کہا لو یہ ہے ہماری زمین۔ اسے سر پر اٹھا لو۔ حضرت عَمرو بن مَعدِی کَرِبؓ جلدی سے اٹھے اور مٹی کی ٹوکری اپنی جھولی میں رکھ لی اور چل دیے اور کہا کہ یہ فال ہے کہ ہم غالب ہوں گے اور ان کی زمین ہمارے قبضہ میں آ جائے گی۔ پھر وہ شاہِ ایران کے دربار میں پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی جس پر وہ سخت ناراض ہوا اور کہا میرے دربار سے چلے جاؤ۔ اگر تم پیغامبر نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کروا دیتا۔ پھر اس نے رستم کو حکم دیا کہ انہیں ناقابل فراموش سبق سکھایا جائے۔ جمعرات کے دن ظہر کے بعد جنگ کا نقارہ بجا۔ حضرت سعدؓ نے تین بار اللہ اکبر! کا نعرہ بلند کیا اور چوتھے پر جنگ شروع ہو گئی۔ حضرت سعدؓ بیمار تھے اور میدانِ جنگ کے قریب قصر عُذَیْب کے بالا خانے میں بیٹھے فوج کو ہدایات دے رہے تھے۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 79 تا 82) (اٹلس فتوحات اسلامیہ صفحہ 81، 100، 118، 126) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 333 دار الکتب العلمیہ بیروت)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خسرو پرویز کے پوتے یَزْدْ جَرْدْکی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے ان کے مقابلے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ کیا۔ حضرت سعدؓ نے جنگ کے لیے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمرؓ کو اس مقام کا نقشہ بھجوا دیا۔ حضرت عمرؓ نے اس مقام کو پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ پیشتر اس کے کہ شاہ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو۔ چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یَزْدْجَرْدْ کی ملاقات کے لیے بھجوا دیا۔ جب یہ وفد شاہ ایران کے دربار پر پہنچا۔ شاہ ایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں؟ جب اس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن مُقَرِّنْ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہےکہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو دین ِحق میں شامل ہونے کی دعوت دیں۔ اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ یزدجرد اس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وحشی اور مردار خور قوم ہو۔ تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملے کے لیے مجبور کیا ہے تو مَیں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان دینے کو تیار ہوں کہ تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو۔ حالانکہ ابتدا ان کی طرف سے ہی ہوئی تھی اور پھر الزام بھی مسلمانوں کو دے رہا تھا۔ بہرحال پھر کہنے لگا کہ اسی طرح تمہیں پہننے کے لیے لباس بھی دوں گا۔ تم یہ چیزیں لو اور اپنے ملک واپس چلے جاؤ۔ یہاں بارڈر پر بیٹھے اپنی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہو اس کو چھوڑ دو اور مَیں جس طرح اس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں مجھے کرنے دو۔ تم ہم سے جنگ کر کے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو؟ جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مُغیرہ بن زُرَارَہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ ہم واقعی میں ایک وحشی اور مُردار خور قوم تھے۔ سانپ اور بچھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اس نے اپنا رسول ہماری ہدایت کے لیے بھیجا۔ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس کی باتوں پر عمل کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہے اور اب ہم میں وہ خرابیاں موجودنہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اب ہم کسی لالچ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اب اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہو گا۔ دنیوی مال و متاع کا لالچ ہمیں اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ یزدجردنے یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے ایک نوکر سے کہا کہ جاؤ اور مٹی کا ایک بورا لے آؤ۔ جب مٹی کا بورا آیا تو اس نے اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اس لیے اب اس مٹی کے بورے کے سوا تمہیں کچھ اَور نہیں مل سکتا۔ وہ صحابی نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے۔ انہوں نے اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا۔ پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا۔ آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے۔ بادشاہ نے جب ان کا یہ نعرہ سنا تو وہ کانپ اٹھا اور اس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا ان سے واپس لے آؤ۔ یہ تو بڑی بدشگونی ہو گئی ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی ان کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دور نکل چکے تھے۔ لیکن آخر وہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سارا ایران مسلمانوں کے ماتحت آ گیا۔ یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہوا؟ اس لیے کہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق، ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اور اس کے نتیجہ میں پھر وہ دنیا میں اسلام پھیلانے والے بنے اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بنانے والے بنے اور کوئی خوف اور خطرہ کسی طاقت کا ان کو مرعوب نہیں کر سکا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 204-205)
جنگ کے دوران حضرت سعد کی اہلیہ حضرت سلمیٰؓ بنت حفصہ نے دیکھا کہ ایک قیدی جو کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا بڑی حسرت سے اس جنگ میں حصہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس کا نام اَبُو مِحْجَن ثَقَفِی تھا جسے حضرت عمرؓ نے شراب پینے پر جلا وطنی کی سزا دی تھی جو یہاں پہنچا۔ یہاں پہنچنے کے بعد اس نے پھر شراب پی جس کی وجہ سے حضرت سعدؓ نے اسے کوڑوں کی سزا دی اور زنجیر پہنا دی۔ اَبُو مِحْجَن نے حضرت سعدؓ کی لونڈیزَہْرَاءْسے درخواست کی کہ میری زنجیریں کھول دو کہ میں جنگ میں شامل ہو سکوں اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! اگر میں زندہ بچ گیا تو واپس آکر بیڑیاں پہن لوں گا۔ لونڈی نے اس کی بات مان لی اور زنجیریں کھول دیں۔ اَبُو مِحْجَن نے حضرت سعدؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ کا رخ کیا اور دشمنوں کی صفوں میں گھس گیا اور سیدھے جا کر سفید بڑے ہاتھی پر حملہ کیا۔ حضرت سعدؓ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گھوڑا تو میرا ہے لیکن اس پر سوار اَبُو مِحْجَن ثَقَفِی معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا تھا حضرت سعدؓ بیماری کی وجہ سے اس جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہو سکے تھے اور دور سے نگرانی کر رہے تھے۔ بہرحال لڑائی تین دن تک جاری رہی۔ لڑائی جب ختم ہوئی تو اَبُو مِحْجَن ثَقَفِی نے واپس آ کر اپنی زنجیریں پہن لیں۔ حضرت سعدؓ نے اَبُو مِحْجَن کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اگر تم نے آئندہ شراب پی تو میں تمہیں بہت سخت سزا دوں گا۔ اَبُو مِحْجَن نے وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیے گا۔ ایک دوسری جگہ یہ بیان ہے کہ حضرت سعدؓ نے یہ ماجرا حضرت عمرؓ کو لکھا جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر یہ آئندہ شراب سے توبہ کر لے تو اسے سزا نہ دی جائے۔ اس پر اَبُومِحْجَن نے آئندہ شراب نہ پینے کی قسم کھائی جس پر حضرت سعدؓ نے اسے آزاد کر دیا۔ (ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 850-851)
پہلے تو وہاں ذکر ہے کہ لونڈی نے چھوڑا تھا لیکن اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں بیان فرمائی ہے۔ آپؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اپنے زمانۂ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا۔ اتفاقاً انہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیا جسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا۔ بہتیرا علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چارپائی پر پڑا رہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اُن کا کمانڈر ہوں ساتھ نہیں ہوں تو فوج بددل ہو جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے ایک درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لیے بنا لیتے ہیں۔ آپ اس عرشے میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تھے تا مسلمان فوج انہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ ان کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے۔ انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ شراب اگرچہ اسلام میں حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور عادت جب پڑ جائے تو مشکل سے چھوٹتی ہے اور اس سردار کو ابھی اسلام لانے پر دو تین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دو تین سال کے عرصہ میں جب پرانی عادت پڑی ہو تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ پھر عادت جاتی نہیں ہے۔ بہرحال حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو جب اس مسلمان عرب سردار کی اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپؓ نے اسے قید کر دیا۔ ان دنوں باقاعدہ قیدخانے نہیں ہوتے تھے۔ جس شخص کو قید کرنا مقصود ہوتا اسے کسی کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس پر پہرہ مقرر کر دیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور دروازے پر پہرہ لگا دیا گیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ وہ سال، جب یہ جنگ ہو رہی تھی، تاریخ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا۔ ایک جگہ پر اسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے بھاگے۔ پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا۔ گھوڑے اس میں کودے اور عرب چونکہ تیرنا نہیں جانتے تھے اس لیے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مر گئے۔ اس لیے اس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں۔ بہرحال وہ مسلمان عرب سردار کمرے میں قید تھا۔ مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرے کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ وہ کڑھتا اور اس بات پر اظہار افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا۔ بے شک اس میں کمزوری تھی کہ اس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑا بہادر، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا۔ جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سن کر وہ کمرے میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرے میں شیر ٹہلتا ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جس کامطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تُو اسلام کو بچاتا اور اپنی بہادری کے جوہر دکھاتا مگر تُو قید ہے۔ حضرت سعدؓ کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں۔ وہ ایک دن اس کے کمرے کے پاس سے گزریں تو انہوں نے وہ شعر سن لیے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے۔ وہ دروازے کے پاس گئیں اور اس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تجھے پتہ ہے کہ سعدؓ نے تجھے قید کیا ہوا ہے۔ اگر اسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کر دیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے قید سے آزاد کر دوں تاکہ تُو اپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے۔ اس نے کہا اب جو لڑائی ہو تو مجھے چھوڑ دیا کریں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد فوراً واپس آ کر اس کمرے میں داخل ہو جایا کروں گا۔ اس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لیے جوش پایا جاتا تھا اس لیے اس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا۔ چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا۔ سعدؓ نے اسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا۔ گو اُس نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملے کے انداز اور قد کو پہچانتا ہوں۔ میں اس شخص کو تلاش کروں گا جس نے اسے قید سے نکالا ہے اور اسے سخت سزا دوں گا یعنی جس نے اس کواس قید سے باہر نکالا اس کی زنجیریں کھولیں اس کو سخت سزا دوں گا۔ جب حضرت سعدؓ نے یہ الفاظ کہے تو ان کی بیوی کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تو درخت پر عرشہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے اور اس شخص کو تُو نے قید کیا ہو اہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے اور اپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔ میں نے اس شخص کو قید سے چھڑایا تھا تم جو چاہو کر لو۔ میں نے اسے کھلوایا تھا اب جو تم نے کرنا ہے کر لو۔ بہرحال یہ تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک لجنہ کی تقریر میں بیان فرمائی تھی اور یہ بیان فرما کے فرمایا تھا کہ غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ آپؓ نے یہ فرمایا کہ پس آج بھی احمدی عورتوں کو ان مثالوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ (ماخوذ از قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 428 تا 430)
پھر عورتوں کی قربانی کا حضرت سعدؓ کے حوالے سے ہی مزید واقعہ سنیں۔ انصار کے قبیلہ بنو سُلَیْم کی مشہور شاعرہ اور صحابیہ حضرت خنساءؓ نے اس جنگ میں اپنے چار بیٹے اللہ کی راہ میں قربان کیے۔ حضرت خَنساءؓ کے خاوند اور بھائی ان کی جوانی میں فوت ہو گئے تھے۔ حضرت خَنْساءؓ نے بڑی محنت سے اپنے بچوں کو پالا تھا۔ قادسیہ کی جنگ کے آخری دن صبح جنگ سے پہلے حضرت خَنْساءؓ نے اپنے بیٹوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے میرے بیٹو! تم نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی مرضی سے ہجرت کی ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اَور کوئی معبودنہیں ! مَیں نے تمہارے حسب و نسب میں کوئی عار نہیں آنے دی۔ یاد رکھو کہ آخرت کا گھر اس فانی دنیا سے بہتر ہے۔ بیٹو! ڈٹ جاؤ اور ثابت قدم رہو اور کندھے سے کندھا ملا کر لڑو۔ خدا کا تقویٰ اختیار کرو۔ جب تم دیکھو گے کہ گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے اور اس کا تندور بھڑک اٹھا ہے اور شہ سواروں نے اپنے سینے تان لیے ہیں تو تم اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے اس میں کود جاؤ۔ حضرت خنساءؓ کے بیٹوں نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے میدانِ جنگ میں کود گئے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس روز شام سے پہلے قادسیہ پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔ حضرت خنساءؓ کو بتایا گیا کہ تمہارے چاروں بیٹے شہید ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے انہیں شہادت سے سرفراز کیا۔ میرے لیے کم فخر نہیں کہ وہ راہ حق میں قربان ہو گئے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں ضرور جمع رکھے گا۔
قادسیہ کو فتح کرنے کے بعد اسلامی لشکر نے بابل کو فتح کیا۔ بابل موجودہ عراق کا قدیم شہر تھا جس کا ذکر ہاروت اور ماروت کے سلسلے میں قرآن نے بھی کیا ہے اور یہ وہیں تھا جہاں آج کوفہ ہے۔ شہروں کا جو تعارف ہے اس میں اس کا یہ تعارف لکھا ہے۔ اور پھر آگے یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ فتح کرکے کُوثٰی نام کے تاریخی شہر کے مقام پر پہنچے یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیمؑ کو نمرودنے قید کیا تھا۔ قید خانے کی جگہ اس وقت تک محفوظ تھی۔ حضرت سعدؓ نے جب وہاں پہنچے اور قید خانے کو دیکھا تو قرآن کریم کی آیت پڑھی۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (آل عمران: 141) یعنی یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ کُوثٰیسے آگے بڑھے تو بَہْرَہ شِیْرنامی ایک جگہ پر پہنچے۔ معجم البُلدان جو شہروں کی معجم ہے اس کے مطابق اس کا نام بَہُرِسِیْرْ ہے۔ بَہُرِسِیْرْ دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع عراق کے شہر مدائن کے قریب بغداد کے نواحی علاقوں میں سے ایک مقام کا نام ہے۔ یہاں کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا۔ حضرت سعدؓ کا لشکر قریب پہنچا تو انہوں نے اس درندے کو لشکر پر چھوڑ دیا۔ شیر گرج کر لشکر پر حملہ آور ہوا۔ حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم بن ابی وقاص لشکر کے ہراول دستے کے افسر تھے۔ انہوں نے شیر پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ شیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔
پھر اسی جنگ میں مدائن کا معرکہ بھی ہے۔ مدائن کسریٰ کا پایہ تخت تھا۔ یہاں پر اس کے سفید محلات تھے۔ مسلمانوں اور مدائن کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے دریا کے تمام پل توڑ دیے۔ حضرت سعدنے فوج سے کہا کہ مسلمانو! دشمن نے دریا کی پناہ لے لی ہے۔ آؤ اس کو تیر کر پار کریں اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ حضرت سعدؓ کے سپاہیوں نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور اسلامی فوجیں دریا کے پار اتر گئیں۔ ایرانیوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا تو خوف سے چِلّانے لگے اور بھاگ کھڑے ہوئے کہ دیو آ گئے۔ دیو آ گئے۔ مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کر لیا اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے پتھر پر کدال مارتے ہوئے فرمائی تھی کہ مجھے مدائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ ان محلات کو سنسان حالات میں دیکھ کر حضرت سعدؓ نے سورۂ دخان کی یہ آیات پڑھیں کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ۔ وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیْمٍ۔ وَّ نَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فٰکِہِیْنَ۔ کَذٰلِکَ وَ اَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ۔ (الدخان 26-29) کتنے ہی باغات اور چشمے ہیں جو انہوں نے پیچھے چھوڑے اور کھیتیاں اور عزت و احترام کے مقام بھی اور نازو نعمت جس میں وہ مزے اڑایا کرتے تھے۔ اسی طرح ہوا اور ہم نے ایک دوسری قوم کو اس نعمت کا وارث بنا دیا۔
بہرحال اس کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں لکھ کر مزید آگے بڑھنے کی اجازت چاہی جس پر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ سردست اسی پر اکتفا کرو اور مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی جائے۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے مدائن کو مرکز بنا کر نظم و نسق کو مستحکم کرنے کی کوشش شروع کی اور اس کام کو بخوبی نبھایا۔ آپؓ نے عراق کی مردم شماری اور پیمائش کروائی۔ رعایا کے آرام و آسائش کا انتظام کیا اور اپنے حسن تدبر اور حسن عمل سے ثابت کیا کہ آپؓ کو اللہ نے جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور فرمایا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے فتح کیا تو رعایا کا خیال نہیں رکھا لیکن مسلمانوں نے جب شہر فتح کیے تو وہاں کے رہنے والوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھا گیا۔
پھر تعمیر کوفہ ہے۔ مدائن کی آب و ہوا عربوں کی طبیعت کے موافق نہ آئی تو حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کی اجازت سے ایک نیا شہر بسایا جس میں مختلف عرب قبائل کو الگ الگ محلّوں میں آباد کیا اور شہر کے درمیان ایک بڑی مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازی ایک وقت میں نماز پڑھ سکتے تھے۔ کوفہ دراصل فوجی چھاؤنی تھا جس میں ایک لاکھ سپاہی بسائے گئے تھے۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ حضرت سعدؓ نے ایک عرصہ تک مدائن میں قیام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہاں کی آب و ہوا نے اہل عرب کا رنگ و روپ بالکل بدل دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس سے مطلع کیا تو حکم آیا کہ عرب کی سرحد میں کوئی مناسب سرزمین تلاش کر کے ایک نیا شہر بسائیں اور عربی قبائل کو آباد کر کے اس کو مرکز حکومت قرار دیں۔ حضرت سعدؓ نے اس حکم کے مطابق مدائن سے نکل کر ایک موزوں جگہ منتخب کر کے کوفہ کے نام سے ایک وسیع شہر کی بنیاد ڈالی۔ عرب کے جُدا جُدا قبیلوں کو جُدا جُدا محلوں میں آباد کیا۔ وسط میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں تقریباً چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اور اپنا محل تعمیر کرایا جو قصرِ سعد کے نام سے مشہور تھا۔ (ماخوذ از روشن ستارے صفحہ 84 تا 88) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 117-118) (معجم البلدان مترجم صفحہ 56) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 610)
پھرمعرکہ نَہَاوَنْدہے یہاں 21 ہجری میں ایرانیوں نے عراقِ عَجَمیعنی عراق کا وہ حصہ جو فارسیوں کے پاس تھا اس میں مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریاں کیں اور مسلمانوں سے مفتوحہ علاقے واپس لینے کی غرض سے نہاوند کے مقام پر مسلمانوں کے خلاف ڈیڑھ لاکھ ایرانی جنگجو اکٹھے ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی تو آپؓ نے اہل الرائے کے مشورے سے ایک عراقی حضرت نعمان بن مُقَرِّن مُزْنِیؓ کو مسلمان فوج کا قائد مقرر فرمایا۔ حضرت نعمانؓ اس وقت کَسکر میں تھے۔ کسکر نہروان سے لے کر بصرہ کے قریب دریائے دجلہ کے دہانے تک کا علاقہ ہے جس میں بیسیوں گاؤں اور قصبے ہیں۔ بہرحال حضرت عمرؓ نے انہیں نہاوند پہنچنے کا حکم دیا۔ ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کے مقابل پر مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تھی۔ حضرت نعمانؓ نے لشکر کی صفوں میں پھر کر انہیں ہدایات دیں اور پھر کہا کہ اگر مَیں شہید ہو جاؤں تو لشکر کےقائد حُذَیفہ ہوں گے اور اگر وہ شہید ہوں تو امیر لشکر فلاں ہو گا اور اس طرح ایک ایک کر کے انہوں نے سات آدمیوں کا نام لیا۔ اس کے بعد اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! اپنے دین کو معزز فرما اور اپنے بندوں کی مدد فرما اور نعمانؓ کو آج سب سے پہلے شہادت کا درجہ عطا فرما۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ آج میری آنکھ ایسی فتح کے ذریعہ ٹھنڈی کر جس میں اسلام کی عزت ہو اور مجھے شہادت عطا ہو۔ جنگ شروع ہوئی۔ مسلمان اس بہادری کے ساتھ لڑے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور اسی جنگ میں حضرت نعمانؓ شہید ہو گئے۔ اَبُوْ لُؤْلُؤَہْ فَیْرُوْزْ اسی جنگ میں قید ہوا اور وہ غلام بن کر حضرت مُغِیرہ بن شُعْبَہ کے حصہ میں آیا۔ یہ وہی شخص نے جس نے بعد میں حضرت عمرؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نہاوند کے امیر کو خط لکھا کہ اگر اللہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے تو خمس یعنی 5/1بیت المال کے لیے رکھ کر تمام مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دو اور اگر یہ لشکر ہلاک ہو جائے تو کوئی بات نہیں کیونکہ زمین کی سطح سے اس کا بطن یعنی قبر بہتر ہے۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ قبیلہ بنو اسد کے لوگوں نے حضرت سعدؓ کی نماز پر اعتراض کیا اور ان کی شکایات حضرت عمرؓ سے کیں کہ صحیح طرح نماز نہیں پڑھاتے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت محمد بن مَسْلَمہؓ کو تحقیق کے لیے بھیجا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ شکایات غلط تھیں۔ تاہم بعض مصلحتوں کی بناپر حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو مدینے میں بلا لیا۔ (ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 88 تا 90) (شرح زرقانی علی مواھب اللدینہ جلد 4 صفحہ 539 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (معجم البلدان مترجم صفحہ 292)
اس کی تفصیل صحیح بخاری کی روایت میں یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت جابر بن سمرہؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حضرت سعدؓ کی شکایت کی تو انہوں نے ان کو معزول کر دیا اور حضرت عمارؓ کو ان کا عامل یعنی حاکم مقرر کیا۔ کوفہ والوں نے حضرت سعدؓ کے متعلق شکایات میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو حضرت عمرؓ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا اے ابو اسحاق! (ابواسحاق حضرت سعدؓ کی کنیت تھی) یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھاتے۔ ابو اسحاق نے کہا مَیں تو بخدا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھایا کرتا تھا۔ اس میں ذرا بھی کم نہیں کرتا تھا۔ عشاء کی نماز پڑھاتا تو پہلی دو رکعتیں لمبی اور پچھلی دو رکعتیں ہلکی پڑھتا تھا۔ تب حضرت عمرؓ نے کہا ابو اسحاق آپ کے متعلق یہی خیال تھا۔ یعنی مجھے امید تھی کہ اس طرح ہی کرتے ہوں گے۔
پھر حضرت عمرؓ نے ان کے ساتھ ایک آدمی یا چند آدمی کوفہ روانہ کیے تا ان کے بارے میں کوفہ والوں سے پوچھیں۔ انہوں نے کوئی مسجد بھی نہیں چھوڑی جہاں حضرت سعدؓ کے متعلق نہ پوچھا گیا ہو۔ ہر مسجد میں گئے اور لوگ ان کی (حضرت سعدؓ کی) اچھی تعریف کرتے تھے۔ آخر وہ قبیلہ بَنُو عَبْسکی مسجد میں گئے۔ ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا۔ اسے اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور ابو سَعْدَہ اس کی کنیت تھی۔ اس نے کہا چونکہ تم نے ہمیں قسم دی ہے اس لیے اصل بات یہ ہے کہ سعدؓ فوج کے ساتھ نہیں جایا کرتے تھے اور نہ برابر تقسیم کرتے تھے اور نہ فیصلے میں انصاف کرتے تھے۔ یہ الزام انہوں نے حضرت سعدؓ پر لگائے۔ حضرت سعدؓ نے جو یہ بات سنی تو اس پر حضرت سعدؓ نے کہا۔ دیکھو اللہ کی قسم ! میں تین دعائیں کرتا ہوں کہ اے میرے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور ریا اور شہرت کی غرض سے کھڑا ہوا ہے یعنی جو الزام لگانے والا تھا تو اس کی عمر لمبی کر اور اس کی محتاجی کو بڑھا اور اسے مصیبتوں کا تختہ مشق بنا۔ اس کے بعد جب کوئی اس شخص کا حال پوچھتا جس نے الزام لگایا تھا تو وہ کہتا پیر فرتوت ہوں۔ بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔ بُری حالت ہے۔ مصیبت زدہ ہوں اور حضرت سعدؓ کی بددعا مجھے لگ گئی ہے یعنی لوگوں نے جھوٹا الزام لگوایا تھا۔ اس کا نتیجہ بھگت رہا ہوں۔ عبدالملک کہتے تھے کہ مَیں نے اس کے بعد اسے دیکھا ہے۔ حالت یہ تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی بھنویں اس کی دونوں آنکھوں پر آ پڑی تھیں اور تعجب ہے کہ اس کے باوجود اس کی اخلاقی حالت کا یہ حال تھا کہ وہ راستوں میں چھوکریوں کو چھیڑتا اور چشمک کرتا تھا۔ بخاری میں یہ سارا واقعہ درج ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام والماموم …… حدیث 755)
بہرحال ان شکایات کا حضرت سعدؓ کو بہت دکھ ہوا اور آپؓ نے کہا عربوں میں سے مَیں پہلا ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے نکلتے اور حالت یہ تھی کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیزنہ ہوتی سوائے درختوں کے پتےّ ہی۔ ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنیاں کرتا جیسے اونٹ لید کرتے ہیں یا بکریاں مینگنیاں کرتی ہیں یعنی خشک۔ اور اب یہ حال ہے کہ بَنُو اَسَد ابن خُذَیْمَہ مجھ کو آدابِ اسلام سکھاتے ہیں۔ تب تو مَیں بالکل نامراد رہا اور میرا عمل ضائع ہو گیا اور بنو اسد کے لوگوں نے حضرت عمرؓ کے پاس چغلی کھائی تھی اور کہا تھا کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتا۔ یہ بھی بخاری کی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقاص حدیث نمبر3728) (سنن الترمذی ابواب الزہد باب ما جاء فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ حدیث نمبر 2365-2366)
23؍ ہجری میں جب حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو حضرت عمرؓ سے لوگوں نے عرض کی کہ آپ خلافت کے لیے کسی کو نامزد کریں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے انتخابِ خلافت کے لیے ایک بورڈ مقرر کیا جس میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ان میں سے کسی ایک کو چن لینا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہلِ جنت قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر خلافت سعد بن ابی وقاصؓ کو مل گئی تو وہی خلیفہ ہوں ورنہ جو بھی تم میں سے خلیفہ ہو وہ سعدؓ سے مدد لیتا رہے کیونکہ مَیں نے انہیں اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ انہوں نے کوئی خیانت کی تھی۔ (ماخوذ از صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃ البیعۃ و الاتفاق علی عثمان بن عفان حدیث نمبر 3700) (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی قبر النبیﷺ و ابی بکر و عمر حدیث نمبر 1392)
جب حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے حضرت سعدؓ کو دوبارہ کوفے کا والی بنا دیا۔ آپؓ تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور اس کے بعد کسی وجہ سے حضرت سعدؓ کا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اختلاف ہوا جو اس وقت بیت المال کے انچارج تھے جس کی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے انہیں (حضرت سعدؓ کو) معزول کر دیا۔ معزول ہونے کے بعد حضرت سعدؓ نے مدینے میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فتنہ و فساد شروع ہوا تب بھی آپ گوشہ نشین ہی رہے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 120)
ایک روایت میں آتا ہے کہ فتنے کے زمانے میں ایک مرتبہ حضرت سعدؓ کے صاحبزادے نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ آپؓ کو کس چیز نے جہاد سے روکا ہے۔ اس پر حضرت سعدؓ نے جواب دیا کہ میں تب تک نہیں لڑوں گا یہاں تک کہ مجھے ایسی تلوار لا کر دو جو مومن اور کافر کو پہچانتی ہو۔ اب تو مسلمان مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ ایسی تلوار لاؤ جس کی آنکھیں، ہونٹ اور زبان ہوں اور جو مجھے بتائے کہ فلاں شخص مومن ہے اور فلاں شخص کافر ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزو ثالث صفحہ 106، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)
اب تک تو مَیں صرف کافروں کے خلاف لڑا ہوں۔ سنن ترمذی کی ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعدؓ نے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں شروع ہونے والے فتنوں کے بارے میں فرمایا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ضرور آئندہ زمانے میں ایک فتنہ ہو گا اور اس میں بیٹھا رہنے والا کھڑے ہونے والے شخص سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہو گا اور چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ یعنی کہ ہر لحاظ سے کسی طرح بھی اس فتنے میں شامل نہیں ہونا بلکہ بچنے کی کوشش کرنی ہے، تو بہرحال کسی نے پوچھا کہ اگر فتنہ میرے گھر میں داخل ہو جائے تو مَیں کیا کروں۔ فرمایا کہ تُو ابنِ آدم کی طرح ہو جانا۔ (سنن الترمذی ابواب الفتن باب ما جاء انہ تکون فتنۃ ……….حدیث نمبر 2194)
یعنی جیسے قرآن شریف میں اس ابن آدم کا ذکر ہے کہ اپنا بچاؤ تو کرو لیکن ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے لڑائی نہیں کرنی اور یہی واقعہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ وہی مثال آپؓ نے دی تھی۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جب فتنوں کا آغاز ہوا تو اس فتنے کو فرو کرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’گو صحابہؓ کو اب حضرت عثمانؓ کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے۔ مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے دو حصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا جو سِن رسیدہ‘‘ بوڑھے تھے ’’اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھا وہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کو سمجھانے پر صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمانؓ کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’اول الذکر جماعت میں سے حضرت علیؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے۔‘‘ (اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4صفحہ 321)
حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کی خلافت میں بھی حضرت سعدؓ گوشہ نشین ہی رہے۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ اور امیر معاویہ کے درمیان اختلاف بڑھا تو امیر معاویہ نے تین صحابہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت محمد بن مسلمہؓ کو اپنی مدد کے لیے خط لکھا اور ان کو لکھا کہ وہ حضرت علیؓ کے خلاف ان کی مدد کریں۔ اس پر ان تینوں نے انکار کیا۔ حضرت سعدؓ نے امیر معاویہ کو یہ اشعار لکھ کر بھیجے کہ
مُعَاوِیَ دَاؤُکَ الدَّاءُ الْعَیَاءُ
وَ لَیْسَ لِمَا تَجِیْءُ بِہٖ دَوَاءُ
اَیَدْعُوْنِیْ اَبُوْ حَسَنٍ عَلِیٌّ
فَلَمْ اَرْدُدْ عَلَیْہِ مَا یَشَاءُ
وَ قُلْتُ لَہٗ اَعْطِنِیْ سَیْفًا بَصِیْرًا
تَمِیْزُ بِہِ الْعَدَاوَۃُ وَالْوَلَاءُ
اَتَطْمَعُ فِی الَّذِیْ اَعْیَا عَلِیًّا
عَلٰی مَا قَدْ طَمِعْتَ بِہِ الْعَفَاءُ
لَیَوْمٌ مِنْہُ خَیْرٌ مِّنْکَ حَیًّا
وَ مَیْتًا اَنْتَ لِلْمَرْءِ الْفِدَاءُ
ترجمہ ان کا یہ ہے کہ اے معاویہ ! تیری بیماری سخت ہے۔ تیرے مرض کی کوئی دوا نہیں۔ کیا تُو اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ ابوحسن یعنی حضرت علیؓ نے مجھے لڑنے کے لیے کہا تھا مگر میں نے ان کی بات بھی نہیں مانی اور مَیں نے ان سے کہا کہ مجھے ایسی تلوار دے دیں جو بصیرت رکھتی ہو اور مجھے دشمن اور دوست میں فرق کر کے بتا دے۔ اے معاویہ! کیا تُو امید رکھتا ہے کہ جس نے لڑائی کرنے کے لیے حضرت علیؓ کی بات نہ مانی ہو وہ تیری بات مان لے گا۔ حالانکہ حضرت علیؓ کی زندگی کا ایک دن تیری ساری زندگی اور موت سے بہتر ہے اور تُو ایسے شخص کے خلاف مجھے بلاتا ہے۔ اسد الغابہ کی یہ روایت ہے۔ اس میں واقعہ درج ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزو ثانی صفحہ 455، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہ نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ ابو تراب! (یہ حضرت علیؓ کی کنیت تھی) کو برا کہنے سے آپ کو کس چیز نے منع کیا ہے؟ ان کو آپ برا نہیں کہتے تھے۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا وہ تین باتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمائی ہیں اگر ان میں سے ایک بھی مجھے مل جاتی تو وہ میرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔ ان تین باتوں کی وجہ سے میں کبھی ان کو یعنی حضرت علیؓ کو برا نہیں کہوں گا۔ نمبر ایک یہ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ایک غزوے میں اپنے پیچھے چھوڑا۔ اس پر حضرت علی نے آپؐ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں۔ اس پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تُو اس بات پر خوش نہیں کہ تیرا میرے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، صرف اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد تجھے نبوت کا مقام حاصل نہیں ہے۔ نمبر دو بات یہ کہی کہ غزوۂ خیبر کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مَیں ایسے شخص کو اسلامی جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اس پر ہم نے اس کی خواہش کی، ہر ایک میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھنڈا ہمیں دیا جائے ہم بھی اللہ سے اور رسول سے محبت رکھتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کو بلاؤ۔ ہم میں سے کسی کو نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ علی کو بلاؤ۔ حضرت علیؓ آئے۔ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کو اسلامی جھنڈا دیا اور اللہ نے اس روز مسلمانوں کو فتح عطافرمائی۔ پھر تیسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ جب آیت فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ (آل عمران: 62) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تُو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو۔ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو بلایا اور فرمایا کہ اے اللہ! یہ میرا اہل و عیال ہے۔ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب باب انا دار الحکمۃ و علی بابھا حدیث 3724)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بیٹے مُصْعَبْ بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات کا وقت آیا تو ان کا سر میری گود میں تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور مجھ سے کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے! تجھے کیا چیز رلاتی ہے۔ مَیں نے عرض کیا آپ کی وفات کا غم اور اس بات کا غم کہ میں آپ کے بعد آپ کا بدل کسی کو نہیں دیکھتا۔ اس پر حضرت سعدؓ نے فرمایا مجھ پر مت رو۔ اللہ مجھے کبھی عذاب نہیں دے گا اور مَیں جنتیوں میں سے ہوں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جی فلاں نے فلاں پروگرام میں کہہ دیا جنتیوں میں سے کس طرح ہو گئے تو یہاں حضرت سعدؓ بھی فرما رہے ہیں کہ مَیں جنتیوں میں سے ہوں۔ پھر فرمایا کہ اللہ مومنوں کو ان کی نیکیوں کی جزا دیتا ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے کیں اور جہاں تک کفار کا معاملہ ہے تو اللہ ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے ان کے عذاب کو ہلکا کر دیتا ہے مگر جب وہ اچھے کام ختم ہو جائیں تو دوبارہ عذاب دیتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے اعمال کی جزا اس سے طلب کرنی چاہیے جس کے لیے اس نے عمل کیا ہو۔ (الطبقات الکبریٰ جزو ثالث صفحہ 108-109، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بیٹے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد سے پوچھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپؓ انصار کے گروہ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ نہیں کرتے تو انہوں نے بھی بیٹے سے پوچھا کہ اے میرے بیٹے! کیا تمہارے دل میں ان کی طرف سے کچھ ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ سلوک جو میں انصار سے کرتا ہوں تو کیا تمہارے دل میں کوئی بات ہے؟ تو میں نے جواب دیا نہیں لیکن مجھے آپ کے اس معاملے سے تعجب ہوتا ہے۔ حضرت سعدؓ نے جواب دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مومن ہی ان کو دوست رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔ پس میں اس لیے ان سے تعلق رکھتا ہوں۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
جریر سے مروی ہے کہ وہ ایک دفعہ حضرت عمر کے پاس سے گزرے تو حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا مَیں نے انہیں اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں باوجود قدرت کے سب سے شریف انسان ہیں۔ سختی میں سب سے کم ہیں۔ وہ تو ان لوگوں کے لیے مہربان ماں جیسے ہیں۔ وہ ان کے لیے ایسے جمع کرتے ہیں جیسے چیونٹی جمع کرتی ہے۔ جنگ کے وقت لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر ہیں اور قریش میں سے لوگوں کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 64، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1995ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے 55؍ ہجری میں وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر ستر برس سے کچھ زیادہ تھی۔ بعض کے نزدیک آپ کی عمر چوہتر سال تھی جبکہ بعض کے نزدیک آپ کی عمر تراسی سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 110، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 610، دارالجیل بیروت)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی وفات کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ مختلف روایات میں آپ کی وفات کا سال اکاون ہجری سے لے کر اٹھاون ہجری تک ملتا ہے لیکن اکثر نے آپ کی وفات کا سال پچپن ہجری بیان کیا ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے وفات کے وقت اڑھائی لاکھ درہم ترکے میں چھوڑے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 110، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عَقِیق مقام پر وفات پائی جو مدینے سے سات میل کے فاصلے پر تھا یا دس میل کے فاصلے پر تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہاں سے لوگ آپ کی میت کو کندھوں پر رکھ کر مدینہ لائے اور مسجدنبوی میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ کا جنازہ مروان بن حکم نے پڑھا جو اس وقت مدینےکا حکمران تھا۔ آپ کی نماز جنازہ میں ازواج مطہرات نے بھی شرکت فرمائی۔ آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 110، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثانی صفحہ 610، دارالجیل بیروت)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے جنازے کے بارے میں روایت ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ حضرت عائشہؓ سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی وفات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے یہ کہلا بھیجا کہ لوگ ان کا جنازہ لے کر مسجد میں آئیں تا کہ وہ یعنی ازواج بھی ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جنازہ ان کے حجروں کے سامنے رکھا گیا تا کہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ پھر انہیں باب الجنائز سے باہر لے جایا گیا جو بیٹھنے کی جگہوں کے پاس تھا۔ پھر ان ازواج مطہرات کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے اس بات پر نکتہ چینی کی ہے اور کہتے ہیں کہ جنازے مسجد میں داخل نہیں کیے جاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ لوگ کتنی جلدی ایسی باتوں پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں جن کا ان کو علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے ہم پر اعتراض کیا ہےیعنی حضرت عائشہؓ نے کہا کہ لوگوں نے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں سے گزاراگیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بَیْضَاءکی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھی تھی۔ یہ مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد973) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 109، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنی مرض الموت میں وصیت کی کہ میرے لیے لحد بنانا اور مجھ پر اینٹیں نصب کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ بھی مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فی اللحد و نصب اللبن علی المیت966)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مہاجرین مردوں میں سے سب سے آخر پر وفات پائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنی وفات کے وقت ایک اونی جبہ نکالا اور وصیت کی کہ مجھے اس کا کفن پہنانا کیونکہ مَیں اس جبے کو پہن کر غزوۂ بدر میں شامل ہوا تھا اور مَیں نے اسے اسی وقت کے لیے یعنی وفات کے وقت کےلیے سنبھال کر رکھا تھا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ’سیرت خاتم النبیین‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی جب صحابہ کے وظیفے مقرر ہوئے توبدری صحابیوں کاوظیفہ ممتاز طورپر خاص مقرر کیا گیا۔ خود بدری صحابہؓ بھی جنگِ بدرکی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں۔ بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے۔ سعد بن ابی وقاصؓ جب 80سال کی عمر میں فوت ہونے لگے توانہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لا کر دو جو مَیں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے مَیں نے آج کے دن کے لیے سنبھال کررکھا ہوا ہے۔ یہ وہی سعدؓ تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اور جن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگِ بدرمیں شرکت کے عزت وفخر کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھیں اور جنگِ بدروالے دن کے لباس کووہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 373)
پہلے روایت آ چکی ہے کہ آپ نے قصر سعد بنایا تھا تو اس کے تعمیر ہونے پر کسی کے دل میں کوئی خیال بھی ہو، سوال اٹھتا ہو تو یہی اس کا جواب ہے کہ انہوں نے آخر میں گوشہ نشینی اختیار کی اور پھر جس چیز کو پسند کیا وہ بدر کی جنگ میں پہنا ہوا لباس تھا اور اس سے پہلے بھی ان کی جو گوشہ نشینی کی حالت تھی وہی ان کی عاجزی اور سادگی کی دلیل ہے۔
حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں غزوۂ بدر میں شامل ہوا تھا تو اس وقت میری صرف ایک بیٹی تھی۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر بھی آپ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ میری اولاد بہت زیادہ ہو گئی۔ حضرت سعدؓ نے مختلف اوقات میں نو شادیاں کیں اور ان سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چونتیس بچوں سے نوازا جن میں سترہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں تھیں۔ (ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 98-99) (الاصابہ جلد 5 صفحہ 219 عمر بن سعد بن ابی وقاص مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت سعد بن وقاصؓ کا یہ ذکر اب ختم ہوا۔