حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ
حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام ہِند بنتِ اَوس تھا۔ حضرت ابو ضَیَّاح نُعمان بن ثابتؓ جو کہ بدری صحابی ہیں والدہ کی طرف سے آپؓ کے بھائی تھے۔ آپؓ کی کنیت ابو خَیْثَمَہ اور ابو عبداللّٰہ بیان کی جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے اور حضرت ابو سلمہ بن عَبْدُالْاَسَدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جلد3 صفحہ 366-367 سعد بن خیثمہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 429 سعد بن خیثمہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت سعدؓ ان بارہ نقباء میں سے یعنی نقیبوں میں سے تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ کے مسلمانوں کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ بارہ نقیب کس طرح مقرر ہوئے۔ اس کی کچھ تفصیل اور نقیبوں کے نام اور کام کے بارے میں بھی بتاتا ہوں جو سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ
13؍ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے۔ ان میں سے ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے۔ مُصْعَب بن عُمَیرؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مُصْعَب کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آ کر مل جاؤ پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مُصْعَبؓ نے جواب دیا کہ میں ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملا۔ آپؐ سے مل کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے۔ وہ بہت جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مُصْعَبؓ نے کہا ماں میں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا وہ کیا ہے؟ مُصْعَبؓ نے آہستہ سے جواب دیا کہ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ وہ پکی مشرکہ تھی سنتے ہی شور مچا دیا کہ مجھے ستاروں کی قسم ہے میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہیں ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مُصْعَبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ بھاگ گئے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُصْعَبؓ سے انصار کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپؐ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی یعنی علیحدہ ملاقات ہونی چاہیے تھی اس لیے مراسم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گزشتہ سال والی گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر ملیں تا کہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے آئیں دشمن کی نظر پڑ سکتی ہے اور وقت مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور اگر کوئی سویا ہوا ہے تو سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جا چکی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستے میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، مشرک تھے مگر آپؐ سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے۔ اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آ پہنچے۔ یہ ستر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ سب سے پہلے عباس نے گفتگو شروع کی یعنی حضرت عباس جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے کہ اے خزرج کے گروہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں ایک معزز اور محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرے کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے جانے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔ بَرَاء بنِ مَعْرُورؓ جو انصارکے قبیلے کے ایک معمر اور بااثر بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ عباس ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنی زبان مبارک سے کچھ فرماویں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریر ختم کر چکے تو بَرَاء بنِ مَعْرُور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یا رسولؐ اللہ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق اور صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے۔ ہم لوگ تلواروں کے سائے میں پلے ہیں اور بات یہ کہہ ہی رہے تھے، ابھی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ اَبُوْالْہَیْثَمْ بِن تَیِّہَان ایک اور شخص وہاں بیٹھا تھا، اس نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ یا رسول اللہ! (یہ بھی مسلمان ہو گئے تھے) یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں، پرانے تعلقات ہیں، آپؐ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہوکہ جب اللہ تعالیٰ آپؐ کو غلبہ دے تو آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آئیں اور ہم نہ اِدھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ تمہارا خون میرا خون ہوگا۔ تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن۔ اس پر عباس بن عُبَادَۃ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا کہ لوگو! کیا تم سمجھتے ہو کہ اس عہد و پیمان کے کیا معنی ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ تمہیں ہر اسود و اَحمر، ہر کالے گورے کے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ ہر شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہیں تیار ہونا پڑے گا اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں مگر یا رسول اللہ! اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ پھر ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم تو یہ سب کچھ کریں گے ہمیں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ سب نے کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے یا رسول اللہ! آپؐ اپنا ہاتھ آگے کریں۔ آپؐ نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا اور یہ ستر جانثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدے میں آپ کے ہاتھ پر بک گئی۔ اس بیعتِ کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے۔
جب بیعت ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے۔ میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپؐ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلے کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپؐ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ بہرحال ان بارہ نقیبوں کے نام یہ ہیں
اَسْعَد بن زُرَارۃ۔ اُسَیْد بن الْحُضَیر۔ ابوالہَیْثَم مالِک بن تَیِّہَان۔ سعد بن عُبَادہ۔ بَرَاء بن مَعْرُور۔ عبداللّٰہ بن رَوَاحَہ۔ عُبَادہ بن صَامِت۔ سَعد بنِ رَبِیع۔ رَافِع بن مَالِک۔ عبدُاللّٰہ بن عمرو اور سَعْدبن خَیْثَمَہ (جن کا ذکر چل رہا ہے۔ یہ سعد بن خَیْثَمَہ بھی ان نقیبوں میں سے ایک نقیب تھے) اور مُنْذِرْ بن عَمْرو۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ صفحہ 227تا232)
ہجرت مدینہ کے وقت قبا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کَلْثُوم بن الہِدْمؓ کے گھر قیام فرمایا۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سَعْد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر قیام فرمایا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت کلثوم بن الہِدْمؓ کے گھر ہی تھا لیکن جب آپ ان کے گھر سے نکل کر لوگوں میں بیٹھتے تو وہ سعد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 215-216 فصل فی دخولہ علیہ السلام….. دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ کو مدینہ کے مسلمانوں کی تربیت کے لیے بھجوایا تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے آپؐ سے نماز جمعہ کی اجازت چاہی۔ اس پر آپؐ نے انہیں اجازت دی اور جمعہ کے متعلق ہدایت فرمائی۔ چنانچہ ان ہدایات کے ماتحت مدینہ میں جو پہلا جمعہ ادا کیاگیا وہ حضرت سَعْد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر ادا کیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 87-88 مصعب الخیر، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یہ حوالہ الطبقات الکبریٰ کا ہے۔ حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کا قبا میں ایک کنواں تھا جسے اَلْغَرْس کہا جاتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پانی پیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے بارے میں فرمایا کہ یہ جنت کے چشموں میں سے ہے اور اس کا پانی بہترین ہے۔ یعنی بہت اچھا میٹھا ٹھنڈا پانی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو اسی کنویں کے پانی سے غسل دیا گیا۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو بِئْرِ غَرْس سے سات مشکیزے لا کر اس کے پانی سے مجھے غسل دینا۔ ابو جعفر محمد بن علی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ غسل دیا گیا۔ آپؐ کو پانی اور بیری کے پتوں سے قمیض میں ہی غسل دیا گیا۔ یعنی قمیض نہیں اتاری گئی تھی۔ حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ اور حضرت فضلؓ نے آپؐ کو غسل دیا اور ایک روایت کے مطابق حضرت اُسَامہ بن زیدؓ حضرت شُقْرَانؓ اور حضرت اَوْس بن خَوَلِیؓ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں شریک تھے۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد جلد2 صفحہ 214 ذکر غسل رسول اللہﷺ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی غسل النبیﷺ حدیث نمبر1468) (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 7 صفحہ229۔ الباب الاول: فیما یستعذب لہ الماء۔ ۔ الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کرنے والے بہت سارے مسلمانوں کی پہلی منزل عموماً حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کا گھر ہوا کرتی تھی۔ جو لوگ بھی ہجرت کر کے آتے تھے وہ حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر ٹھہرا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت حمزہؓ۔ ان میں سے بعض لوگوں کے نام جو ملتے ہیں وہ یہ ہیں: حضرت حمزہؓ، حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت ابوکبشہؓ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جوغلام تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ۔ جب انہوں نے ہجرت کی تو حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر ٹھہرے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ6، و 32، و36، و 112، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
سُلَیْمَان بن اَبَّانْ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے لیے نکلے تو حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ اور آپؓ کے والد دونوں نے آپؐ کے ساتھ جانے کا ارادہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات عرض کی گئی کہ دونوں باپ بیٹا گھر سے نکل رہے ہیں۔ اس پر آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ ان دونوں میں سے صرف ایک جا سکتا ہے۔ وہ دونوں قرعہ اندازی کر لیں۔ حضرت خَیْثَمَہؓ نے اپنے بیٹے سعد سے کہا کہ ہم میں سے ایک ہی جا سکتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ عورتوں کے پاس وہاں نگرانی کے لیے، حفاظت کے لیے رک جاؤ۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ اگر جنت کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو میں ضرور آپؓ کو ترجیح دیتا لیکن میں خود شہادت کا طلبگار ہوں۔ اس پر ان دونوں نے قرعہ اندازی کی تو قرعہ حضرت سَعدؓ کے نام نکلا۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے لیے نکلے اور جنگ بدر میں شہید ہو گئے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3 صفحہ 209 ومن مناقب سعد بن خیثمہ حدیث 4866، دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
آپ کو عَمْرو بن عَبدِ وُدّ نے شہید کیا اور ایک قول کے مطابق طُعَیْمَہ بن عَدِی نے آپؓ کو شہید کیا تھا۔ طُعَیْمَہ کو حضرت حمزہؓ نے جنگ بدر میں اور عَمْرو بن عَبدِ وُدّ کو حضرت علیؓ نے جنگ خندق میں قتل کیا تھا۔ (اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 429 سعد بن خیثمہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ بدر کے روز جب دن چڑھ گیا اور مسلمانوں اور (ایک روایت یہ ہے) مسلمانوں اور کفار کی صفیں باہم مل گئیں یعنی جنگ شروع ہو گئی تو میں ایک آدمی کے تعاقب میں نکلا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ریت کے ٹیلے پر حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ ایک مشرک سے لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ اس مشرک نے حضرت سَعدؓ کو شہید کر دیا۔ وہ مشرک لوہے کی زرہ میں ملبوس گھوڑے پر سوار تھا پھر وہ گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس نے مجھے پہچان لیا تھا لیکن میں اسے نہ پہچان سکا۔ اُس نے مجھے لڑائی کے لیے للکارا۔ میں اس کی طرف بڑھا۔ جب وہ آگے بڑھ کر مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نیچے کو پیچھے ہٹا تا کہ بلندی سے میرے قریب آجائے۔ زیادہ اونچا نہ ہو۔ لڑائی کا اصول ہے، نیچے آئے اور قریب آ جائے کیونکہ مجھے یہ ناگوار گزرا کہ وہ بلندی سے مجھ پر تلوار سے وار کرے۔ جب میں اس طرح ایک قدم پیچھے ہٹ رہا تھا تب وہ بولا کہ اے ابن ابی طالب! کیا بھاگ رہے ہو؟ تو میں نے اسے کہا کہ
قَرِیْبٌ مَفَرُّ ابنِ الشَّتْرَاء۔ کہ اشَّتْرَاء کے بیٹے کا بھاگ جانا قریب ہے یعنی کہ ناممکن ہے۔ یہ عربوں میں ایک محاورہ بن گیا تھا کیونکہ کہتے ہیں۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک ڈاکو تھا جو لوگوں کو لوٹنے کے لیے آتا تھا۔ لوگ اس پر حملے کرتے تو بھاگ جاتا لیکن اس کا بھاگنا عارضی ہوتا تھا۔ پھر وہ جلدی موقع پا کر دوبارہ حملہ کر دیتا تھا۔ پس یہ بطور ضرب المثل استعمال ہونے لگا تھا کہ داؤ پیچ کے لیے پیچھے ہٹو اور پھر حملہ کرو۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ جب میرے قدم جم گئے اور وہ بھی میرے قریب پہنچ گیا تو اس نے اپنی تلوار سے مجھ پر حملہ کیا جسے میں نے اپنی ڈھال پر لیا اور اس کے کندھے پر اس زور سے وار کیا کہ میری تلوار اس کی زرہ کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ مجھے یقین تھا کہ میری تلوار اس کا خاتمہ کر دے گی کہ اپنے پیچھے سے مجھے تلوار کی چمک محسوس ہوئی۔ کہتے ہیں دوسرا وار ابھی کرنا تھا کہ اتنے میں مجھے پیچھے سے تلوار کی چمک سی محسوس ہوئی۔ میں نے اپنا سر فورًا نیچے کر لیا کہ پیچھے سے کوئی تلوار آ رہی ہے اور وہ تلوار اس زور سے اس دشمن پر پڑی کہ اس کا سر مع خَود کے تن سے جدا ہو گیا۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت حمزہؓ تھے۔ وہ اس کو کہہ رہے تھے کہ میرے وار کو سنبھالو کہ میں ابن عبدالمطلب ہوں۔ (کتاب المغازی للواقدی صفحہ 92-93 غزوہ بدر، عالم الکتب 1984ء) (لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 431 مطبوعہ علی آصف پرنٹرزرزلاہور 2005ء)
اس روایت سے کہتے ہیں ناں کہ فلاں نے فلاں کو قتل کیا تو یہی لگتا ہے کہ طُعَیْمَہ بن عدی نے حضرت سعدؓ کو شہید کیا تھااور پھر وہ وہیں مارا گیا۔ ایک روایت کے مطابق جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو گھوڑے تھے ایک گھوڑے پر حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ اور دوسرے پر حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ سوار تھے۔ حضرت زُبَیر بن العَوامؓ اور حضرت مِقْدَادِ بِن اسودؓ بھی باری باری ان پر سوار ہوئے۔ (دلائل النبوة للبیہقی جلد3 صفحہ 110 سیاق قصة بدر، دار الکتب العلمیہ بیروت 1988ء)
جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنے گھوڑے تھے؟ اس کے متعلق تاریخوں میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خیال ہے کہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے پاس ستّر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 353)
لیکن یہ بھی بعض دوسری کتابوں میں لکھا ہے کہ گھوڑوں کی تعداد تین اور پانچ بھی بیان ہوئی ہے۔ (شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 260 باب غزوۃ بدر الکبرٰی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 205 باب ذکر مغازیہﷺ مطبوعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
بہرحال جو بھی سازو سامان اور گھوڑے اور اونٹ تھے یا ان کی تعداد تھی اس کی کافروں کے سازو سامان کے ساتھ اور گھوڑوں کی تعداد سے تو کوئی نسبت ہی نہیں تھی لیکن جب مسلمانوں پر حملہ ہوا، جنگ ٹھونسی گئی اور کافر اپنے زعم میں اس لیے آئے کہ اب اسلام کو ختم کر دیں گے تو پھر ان مومنین نے اپنے سامان کی طرف نہیں دیکھا، گھوڑوں کی طرف نہیں دیکھا بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر ایک قربانی کرنے کی تڑپ تھی جیسا کہ ان کے جواب سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہاں کسی اَور دنیاوی چیز کی خواہش کا سوال نہیں ہے یہاں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کا سوال ہے۔ اس لیے بیٹے نے باپ کو کہا کہ میں یہاں تمہیں ترجیح نہیں دے سکتا۔ بہرحال ایک تڑپ تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور پھر فتح بھی عطا فرمائی۔