حضرت سعد بن ربیعؓ
حضرت سعد بن ربیعؓ کاتعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حَارِث سے تھا۔ آپؓ کے والد کا نام رَبِیع بن عَمْرو اور والدہ کا نام ھُزَیْلَہ بنتِ عِنَبَہ تھا۔ حضرت سعدؓ کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام عَمْرَہ بنت حَزْم اور دوسری کا نام حَبِیْبَہ بنتِ زَید تھا۔ حضرت سعد بن ربیعؓ کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی ام سعد تھیں ایک جگہ انہیں اُمِّ سعید بھی لکھا گیا ہے ان کا اصل نام جمیلہ تھا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ 395، جلد 8 صفحہ 303، ام عمارۃ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2017ء) (عمدۃ القاری جلد 20 صفحہ 216 داراحیاء التراث العربی بیروت 2003ء)
حضرت سعد بن ربیعؓ زمانہ جاہلیت میں بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے جبکہ بہت کم لوگ یہ جانتے تھے۔ حضرت سعد قبیلہ بنو حارث کے نقیب تھے۔ ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن رَوَاحہؓ بھی اسی قبیلہ کے نقیب تھے۔ حضرت سعدؓ بیعت عَقَبہ اولیٰ اور عَقَبہ ثانیہ میں شامل تھے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 214دارالکتب العلمیہ بیروت 2016ء)
ہجرت مدینہ کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سعد بن ربیعؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ تو سعد بن ربیعؓ نے کہا میں انصار میں سے زیادہ مالدار ہوں۔ سو میں تقسیم کر کے نصف مال آپؓ کو دے دیتا ہوں اور میری دو بیویوں میں سے جو آپؓ پسند کریں میں آپؓ کے لیے اس سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے آپؓ نکاح کر لیں۔ یہ سن کر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم صرف یہ بتاؤ یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو؟ حضرت سعدؓ نے بتایا کہ قینقاع کا بازار ہے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ یہ معلوم کر کے صبح سویرے وہاں گئے اور پنیر اور گھی لے آئے۔ پھر اسی طرح ہر صبح وہاں بازار میں جاتے رہے۔ ابھی کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ آئے اور ان پر زعفران کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیا وجہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتا تھا کہ ان کی شادی ہوگئی ہے۔ زعفران کا نشان ڈالتے تھے تو مطلب تھا کہ شادی ہو گئی ہے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس سے؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی ایک عورت سے تو آپؐ نے فرمایا کتنا مہر دیا ہے۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ ایک گٹھلی کے برابر سونا یا کہا سونے کی گٹھلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کا ہی سہی۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب ما جاء فی قول اللّٰہ عزَّ وجلَّ فاذا قضیت الصلوٰۃ۔ ۔ ۔ حدیث نمبر 2048)
ان کی حیثیت کے مطابق ان کو ولیمہ کی دعوت کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت سعد بن ربیعؓ غزوۂ بدر و اُحد میں شامل ہوئے اور غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں۔ چنانچہ وہ مقتولین میں جا کر تلاش کرنے لگے۔ حضرت سعدؓ نے اس شخص کو دیکھ کر کہا تمہارا کیا حال ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمہاری خبر لے کے جاؤں تو حضرت سعدؓ نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دینا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم آئے ہیں اور میرے سے لڑنے والے دوزخ میں پہنچ گئے ہیں یعنی جس نے بھی میرے سے لڑائی کی اس کو میں نے مار دیا ہے اور میری قوم کو یہ کہنا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہو گا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو جائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص ان کے پاس گیا تھا وہ حضرت اُبَیبن کعبؓ تھے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت اُبَی بن کعبؓ سے کہا اپنی قوم سے کہنا کہ تم سے سعد بن ربیعؓ کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور ایک اَور روایت بھی ہے کہ اَور جو عہد تم لوگوں نے عَقَبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اس کو یاد کرو۔ اللہ کی قسم ! اللہ کے حضور تمہارے لیے کوئی عذر نہ ہو گا اگر کفار تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کر رہی ہو یعنی کوئی شخص بھی زندہ باقی رہے تو اللہ کے نزدیک یہ کوئی عذر نہیں ہو گا۔ حضرت اُبَیبن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا یعنی حضرت سعدؓ کے پاس ہی تھے تو حضرت سعد بن ربیعؓ کی وفات ہو گئی۔ اس وقت وہ زخموں سے چور تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوا اور آپؐ کو سب بتا دیا کہ یہ گفتگو ہوئی تھی۔ یہ ان کی حالت ہے اور اس طرح شہید ہو گئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ رہا۔ حضرت سعد بن ربیعؓ اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ396 دارالکتب العلمیہ بیروت 2017ء) (الاستیعاب جلد 2 صفحہ157، دارالکتب العلمیہ بیروت2010 ء) (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 432-433، دارالکتب العلمیہ بیروت 2016ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سعدؓ کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی میدان میں اتر آئے ہوئے تھے اور شہدا ءکی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔ جو نظارہ اس وقت، یعنی جب جنگ ختم ہو گئی، مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زخمی بھی تھے لیکن آپ پھر بھی میدان میں آ گئے۔ شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی، کس طرح تدفین کرنی ہے۔ زخمیوں کو سنبھالنے کی طرف توجہ ہوئی تو بہرحال اس وقت جو نظارہ مسلمانوں کے سامنے تھا وہ ایسا خوفناک تھا کہ کہتے ہیں کہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔ ستر مسلمان خاک وخون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے اور عرب کی وحشیانہ رسم مُثلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ شہید ہوئے تھے بلکہ مُثلہ کیا گیا تھا۔ ان کے اعضاء کاٹے گئے تھے۔ ان کی شکلوں کو بگاڑا گیا تھا۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے مقتولوں کی تعداد تئیس تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود سے ہو کر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند جو زوجہ ابوسفیان تھی، نے ان کی نعش کو بری طرح بگاڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو آپؐ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐ کے چہرے سے غم وغصہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کے لیے آپؐ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالباً ہوش میں نہیں آئیں گے۔ ان کو سبق نہیں ملے گا مگر آپؐ اس خیال سے رک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُثلہ کی جو رسم تھی، شکلوں کو بگاڑنے والی رسم، اعضاء کاٹنے والی رسم اس کو اسلام میں ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے دیا اور فرمایا دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو۔ آپؐ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی حمزہؓ سے بہت محبت رکھتی تھیں۔ وہ بھی مسلمانوں کی ہزیمت کی خبرسن کر مدینہ سے نکل کے آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے صاحبزادے زُبیر بن العوامؓ سے فرمایا کہ اپنی والدہ کو ماموں کی نعش نہ دکھانا مگر بہن کی محبت کب چین لینے دیتی تھی۔ بیٹے نے تو کہا کہ حضرت حمزہؓ کی نعش نہ دیکھیں کیونکہ مثلہ کیا ہوا ہے۔ چہرہ بگاڑا ہوا ہے۔ انھوں نے اصرار کے ساتھ کہا کہ مجھے حمزہؓ کی نعش دکھا دو۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ صبر کروں گی اور کوئی جزع فزع کا کلمہ منہ سے نہیں نکالوں گی۔ چنانچہ وہ گئیں اور بھائی کی نعش دیکھ کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھتی ہوئی خاموش ہو گئیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ قریش نے دوسرے صحابہ کی نعشوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جَحْشؓ کی نعش کو بھی بری طرح بگاڑا گیا تھا۔ جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نعش سے ہٹ کر دوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپؐ کے چہرے پر غم واَلم کے آثار زیادہ ہوتے جاتے تھے۔ غالباً اسی موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی جا کر دیکھے کہ سعد بن الربیع رئیسِ انصار کا کیا حال ہے۔ آیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے ہیں؟ کیونکہ میں نے لڑائی کے وقت دیکھاتھا کہ وہ دشمن کے نیزوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے۔ آپؐ کے فرمانے پر ایک انصاری صحابی ابی بن کعبؓ گئے اور میدان میں اِدھر اُدھر سعدؓ کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ آخر انہوں نے اونچی اونچی آوازیں دینی شروع کیں اور سعدؓ کا نام لے لے کر پکارا مگر پھر بھی کوئی سراغ نہ ملا۔ مایوس ہوکر وہ واپس جانے کو تھے کہ انہیں خیال آیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانام لے کر تو پکاروں شاید اس طرح پتہ چل جاوے۔ پہلے تو خالی نام لے کر پکارا پھرکہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کے اس طرح پکاروں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں تلاش کرنے کے لیے مجھے بھیجا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہاکہ سعد بن ربیعؓ کہاں ہیں؟ مجھے رسول اللہؐ نے ان کی طرف بھیجا ہے۔ اس آواز نے سعدؓ کے نیم مردہ جسم میں ایک بجلی کی لہر دوڑا دی۔ لاشوں کے بیچ میں نیم مردہ پڑے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنا تو ایک دم جسم میں جنبش پیدا ہوئی اور انہوں نے چونک کر مگر نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا۔ کون ہے؟ میں یہاں ہوں۔ ابی بن کعبؓ نے غورسے دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر مقتولین کے ایک ڈھیر میں سعدؓ کو پایا جو اس وقت نزع کی حالت میں جان توڑ رہے تھے۔ ابی بن کعبؓ نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمہاری حالت سے آپؐ کو اطلاع دوں۔ سعدنے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ خدا کے رسولوں کو اُن کے متبعین کی قربانی اور اخلاص کی وجہ سے جو ثواب ملا کرتا ہے خدا آپؐ کو وہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھ کر عطا فرمائے اور آپؐ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے اور میرے بھائی مسلمانوں کوبھی میرا سلام پہنچانا اور میری قوم سے کہنا کہ اگرتم میں زندگی کادم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہو گا۔ یہ کہہ کر سعدؓ نے جان دے دی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 500-501)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ
’’جنگ احد کا ایک واقعہ ہے۔ جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعبؓ کو فرمایا کہ جاؤ اور زخمیوں کو دیکھو۔ وہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلقین اور اعزاء‘‘ عزیزوں ’’کو اگر کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دے دیں۔ حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھا کہ کوئی مسلمان ادھر آئے تو پیغام دوں۔ تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کرو کہ میرا پیغام ضرور پہنچا دو گے اور اس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میرا سلام پہنچا دینا اور میری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اور ہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اب ہم جاتے ہیں۔‘‘ ہم تو جا رہے ہیں۔ اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ ’’اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو ایسے وقت میں جب انسان سمجھتا ہو کہ میں مر رہا ہوں کیا کیا خیالات اس کے دل میں آتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے میری بیوی کا کیا حال ہو گا۔ میرے بچوں کو کون پوچھے گا۔ مگر اس صحابیؓ نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا۔ صرف یہی کہا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آ جاؤ۔‘‘ سب سے بڑا کام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ان لوگوں کے اندر یہی ایمان کی قوت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالا کر دیا اور قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیے۔ قیصر روم حیران تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ کسریٰ نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے تو پھر واپس آ جاؤ اور گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو۔‘‘ اس نے اپنے جرنیل کو یہ کہا کہ ’’یہ گوہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کو بھی تم نہیں روک سکتے۔‘‘ بالکل معمولی لوگ ہیں، کھانا بھی ان کو نہیں ملتا۔ گوہ کھاتے ہیں یہ لوگ۔ ’’اس نے جواب دیا یہ تو آدمی معلوم ہی نہیں ہوتے۔ یہ تو کوئی بلا ہیں۔ یہ تلواروں اور نیزوں کے اوپر سے کودتے ہوئے آتے ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 338) ان میں ایسا جوش و جذبہ ہے۔ ان کو ہم کس طرح شکست دے سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ربیعؓ کی صاحبزادی ام سعد حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئیں تو انہوں نے اس کے لیے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ حضرت عمرؓ آئے تو انہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔ حضرت عمر نے کہا اے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاکہ وہ شخص جس کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی اور اس نے جنت میں اپنا ٹھکانا بنا لیا جبکہ مَیں اور تم باقی رہ گئے۔ (الاصابہ جلد2 صفحہ315سعد بن الربیع، دارالفکر بیروت 2001ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ دونوں سعد بن ربیعؓ کی بیٹیاں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہید ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے لیا ہے یعنی حضرت سعدؓ کی جائیداد جو تھی اِن کے چچا نے لے لی ہے۔ انہیں کچھ نہیں ملا اور ان کے لیے مال نہیں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ اس پر میراث کے احکام پر مشتمل آیت نازل ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے چچا کو بلوایا اور فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے مال کا تیسرا حصہ دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے۔ (سنن الترمذی، کتاب الفرائض، باب ما جاء فی میراث البنات، حدیث نمبر 2092)
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بارے میں کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس طرح لکھی ہے کہ حضرت سعدؓ ایک متمول آدمی تھے۔ اچھے کھاتے پیتے تھے۔ اپنے قبیلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی کوئی نرینہ اولادنہ تھی۔ صرف دو لڑکیاں تھیں اور بیوی تھی۔ چونکہ ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ورثہ کے متعلق کوئی جدید احکام نازل نہیں ہوئے تھے اور صحابہ میں قدیم دستور عرب کے مطابق، عرب کا جو دستورتھا اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا تھا۔ متوفیٰ یعنی فوت ہونے والے کی نرینہ اولادنہ ہونے کی صورت میں اس کے جدی اقرباء جو تھے جائیداد پر قابض ہوجاتے تھے اور بیوہ اور لڑکیاں یوں ہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔ اس لیے سعد بن ربیع کی شہادت پر ان کے بھائی نے سارے ترکے پرقبضہ کرلیا اور ان کی بیوہ اور لڑکیاں بالکل بے سہارا رہ گئیں۔ اس تکلیف سے پریشان ہوکر سعد کی بیوہ اپنی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری سرگزشت سنا کر اپنی پریشانی کاذکر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت صحیحہ کواس درد کے قصہ نے ایک ٹھیس لگائی مگر چونکہ ابھی تک اس معاملہ میں خدا کی طرف سے آپؐ پرکوئی احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپؐ نے فرمایا تم انتظار کرو۔ پھر جو احکام خدا کی طرف سے نازل ہوں گے ان کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں توجہ فرمائی اور ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ آپ پرورثہ کے معاملہ میں بعض وہ آیات نازل ہوئیں جو قرآن شریف کی سورۃ النساء میں بیان ہوئی ہیں۔ اس پر آپؐ نے سعد کے بھائی کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ سعدکے ترکہ میں سے دو ثُلث ان کی لڑکیوں اور ایک ثُمن اپنی بھاوجہ کے سپرد کردو اور جو باقی بچے وہ خود لے لو۔ اس وقت سے تقسیم ورثہ کے متعلق جدید احکام کی ابتدا قائم ہو گئی جس کی رو سے بیوی اپنے صاحب اولادخاوند کے ترکہ میں آٹھویں حصہ کی اور بے اولاد خاوند کے ترکہ میں چہارم حصہ کی اور لڑکیاں اپنے باپ کے ترکہ میں اپنے بھائی کے حصہ کی نسبت نصف حصہ کی اور اگر بھائی نہ ہوتو سارے ترکہ میں سے حالات کے اختلاف کے ساتھ دو ثلث یانصف کی (تین چوتھائی یا نصف کی، دو تہائی یا نصف کی) اور ماں اپنے صاحب اولاد لڑکے کے ترکہ میں چھٹے حصہ کی اور بے اولاد لڑکے کے ترکہ میں تیسرے حصہ کی حق دار قرار دی گئی اور اسی طرح دوسرے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے۔ اور عورت کا وہ فطری حق جو اس سے چھینا جاچکا تھا اسے واپس مل گیا۔