حضرت سعد بن عُبَادہؓ
حضرت سعد بن عُبَادہؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھا۔ ان کے والد کا نام عُبَادہ بن دُلَیْم اور والدہ کا نام عَمْرَہ تھا جو کہ مسعود بن قَیس کی تیسری بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ حضرت سعد بن زید اَشْھَلِیْ کے خالہ زاد بھائی تھے جو کہ اہلِ بدر میں سے تھے۔ حضرت سعدؓ نے دو شادیاں کی تھیں۔ غَزِیَّہ بنتِ سَعد جس سے سعید، محمد اور عبدالرحمٰن پیدا ہوئے اور دوسری فُکَیْہَہْ بنتِ عُبَید جس سے قیس، اُمامہ اور سَدوس کی پیدائش ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ460-461، سعد بن عُبَادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
مَنْدُوس بنتِ عُبَادہ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کی بہن تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کی ایک اَور بہن بھی تھیں جن کا نام لیلیٰ بنت عُبَادہ تھا۔ انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ277، ومن بني ساعدہْ ابن كعب بن الخزرج، مَنْدُوْس بِنْتِ عُبَادَہْ، لَيْلٰى بِنْتِ عُبَادَہْ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت سعد بن عُبَادہؓ کی کنیت اَبو ثَابِت تھی۔ بعض نے ان کی کنیت ابو قَیس بھی بیان کی ہے جبکہ پہلا قول درست اور صحیح لگتا ہے یعنی ابو ثَابِت۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ کے نقیب تھے۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ سردار اور سخی تھے اور تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے پاس رہا۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ انصار میں صاحبِ وجاہت اور ریاست تھے۔ ان کی سرداری کو ان کی قوم تسلیم کرتی تھی۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 441 سعد بن عُبَادہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت سعد بن عُبَادہؓ زمانہ جاہلیت میں عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت کتابت کم لوگ جانتے تھے۔ وہ تیراکی اور تیر اندازی میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان چیزوں میں جو شخص مہارت رکھتا تھا اس کو کامل کہا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں حضرت سعد بن عُبَادہؓ اور ان سے قبل ان کے آباؤ اجداد اپنے قلعہ پر اعلان کروایا کرتے تھے کہ جس کو گوشت اور چربی پسند ہو تو وہ دُلَیم بن حَارِثَہ کے قلعہ میں آجائے۔ ھِشَام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے سعد بن عُبَادہؓ کو اس وقت پایا جب وہ اپنے قلعہ پر آواز دیا کرتے تھے کہ جو شخص چربی یا گوشت پسند کرتا ہے وہ سعد بن عُبَادہ کے پاس آئے یعنی جانوروں کا گوشت ذبح کروا کے تقسیم کرتے تھے۔ میں نے ان کے بیٹے کو بھی اسی حالت میں پایا کہ وہ بھی اسی طرح دعوت دیتا تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں مدینہ کے راستے پر چل رہا تھا۔ اس وقت میں جوان تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ میرے ساتھ سے گزر رہے تھے، ھِشَام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں اس وقت میں جوان تھا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ میرے پاس سے گزرے جو عَالِیَہ مقام جو مدینہ سے نجد کی طرف چار سے آٹھ میل کے درمیان واقع ایک وادی ہے، وہاں اپنی زمین کی طرف جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے جوان! ادھر آؤ۔ عبداللہ بن عمر نے ان کےوالد کو بلایا۔ انہوں نے کہا کہ اے جوان! دیکھو !آیا تمہیں سعد بن عُبَادہ کے قلعہ پر کوئی آواز دیتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ قلعہ قریب تھا۔ میں نے دیکھا اور کہا نہیں۔ انہوں نے کہا تم نے سچ کہا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ460-461 سعد بن عُبَادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (عمدة القاری جلد 16صفحہ279 کتاب فضائل الصحابہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2003ء)
لگتا ہے کہ جتنا کُھلا ہاتھ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کا تھا اور جس طرح وہ تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد وہ کام جاری نہیں رہا۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان سے یہ پوچھا۔
حضرت نافعؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے قلعہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے نافع! یہ ان کے آباؤ اجداد کے گھر ہیں۔ سال میں ایک دن منادی کرنے والا یہ آواز دیتا کہ جو چربی اور گوشت کھانے کا خواہش مند ہے وہ دُلیم کے گھر آ جائے پھر دُلیم فوت ہو گیا تو عُبَادہ ایسے اعلان کرنے لگے۔ جب عُبَادہ فوت ہو گئے تو حضرت سعدؓ ایسے اعلان کرنے لگے۔ پھر میں نے قیس بن سعد کو ایسا کرتے دیکھا اور قیس حد سے زیادہ سخاوت کرنے والے لوگوں میں سے تھا۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الثانی صفحہ 595 سعد بن عُبَادہ، دار الجیل بیروت 1992ء)
پس اس روایت سے مزید وضاحت ہو گئی کہ ان کی اولاد تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد وہ حالت نہیں رہی۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا تھا۔ (سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ375 دار الاشاعت کراچی 2004ء)
سیرت خاتم النبیینؓ میں اس کے حالات اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ
13؍نبوی کے ماہ ذو الحجہ میں حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے کئی آدمی مکہ میں آئے۔ ان میں ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکہ آئے تھے۔ مُصْعَب بن عمیرؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مُصْعَبؓ کی ماں زندہ تھی اور گو مشرکہ تھی مگر ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ جب اسے ان کے آنے کی خبر ملی تو اس نے ان کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے آکر مل جاؤ۔ پھر کہیں دوسری جگہ جانا۔ مُصْعَبؓ نے جواب دیا، اپنی ماں کو کہاکہ مَیں ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں مِلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ سے مل کر اور ضروری حالات عرض کر کے پھر اپنی ماں کے پاس گئے۔ ماں ان کی یہ بات کہ پہلے مجھے نہیں ملے سن کے بڑی جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور بڑا شکوہ کیا۔ مُصْعَبؓ نے کہا کہ ماں مَیں تم سے ایک بڑی اچھی بات کہتا ہوں جو تمہارے واسطے بہت ہی مفید ہے اور سارے جھگڑوں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا وہ کیا؟ مُصْعَبؓ کہنے لگے، بڑی آہستہ سے جواب دیا کہ بس یہی کہ بت پرستی ترک کر کے مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔ وہ پکی مشرکہ تھی۔ سنتے ہی شور مچادیا کہ مجھے ستاروں کی قَسم ہے۔ میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہ ہوں گی اور اپنے رشتہ داروں کو اشارہ کیا کہ مُصْعَبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ ہوشیار تھے جلدی سے بھاگ کر نکل گئے۔
بیعتِ عقبہ ثانیہ کے تعلق میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُصْعَبؓ سے انصار کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی اور ان میں سے بعض لوگ آپؐ سے انفرادی طور پر ملاقات بھی کر چکے تھے مگر چونکہ اس موقع پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات، علیحدہ ملاقات کی ضرورت تھی اس لیے مراسِم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں آپؐ کو آکر ملیں تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک کر کے، دو دو کر کے وقتِ مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔ جو موجود ہیں وہ آ جائیں۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے اور خاندان ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے اور یہ ستّر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ سب سے پہلے عباس نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے، گفتگو شروع کی کہ اے خزرج کے گروہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب محمدؐ کا ارادہ اپنا وطن چھوڑ کر تمہارے پاس چلے جانے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے ساتھ سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔ اَلْبَرَاء بِن مَعْرُوْر جو انصار کے قبیلہ کے ایک معمر اور بااثر بزرگ تھے انہوں نے کہا کہ عباس ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہؐ خود بھی اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرمائیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو۔ جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو اَلْبَراء بن مَعْرُور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یا رسول اللہؐ ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے۔ ہم لوگ تلواروں کے سایہ میں پلے ہیں۔ مگر ابھی وہ بات ختم نہیں کر پائے تھے کہ اَبُو الْھَیْثَم بن تَیِّہان نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ یارسول اللہؐ ! یثرب کے یہود کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔ آپؐ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپؐ کو غلبہ دے تو آپؐ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن میں واپس تشریف لے آئیں اور ہم نہ اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپؐ نے ہنس کے فرمایا نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ تمہارا خون میرا خون ہو گا۔ تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے۔ تمہارے دشمن میرے دشمن ہوں گے۔ اس پر عباس بن عُبَادہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہا۔ لوگو کیا تم سمجھتے ہوکہ اس عہد و پیمان کے کیا معنے ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اسود و احمر کے مقابلہ کے لیے تیار ہونا چاہیے یعنی ہر قوم کے لوگ جو ہیں تمہارے خلاف ہو جائیں گے ان کے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم جانتے ہیں مگر یا رسول اللہؐ ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ سب نے کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے۔ یا رسول اللہؐ ! اپنا ہاتھ آگے کریں۔ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک آگے بڑھادیا اور یہ ستّر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپؐ کے ہاتھ پر بِک گئی۔ اس بیعت کا نام بیعتِ عقبہ ثانیہ ہے۔
جب یہ بیعت ہو چکی تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے۔ میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپؐ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلے کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپؐ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ جب نقیبوں کا تقرر ہو چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے انصار سے تاکید کی کہ انہیں بڑی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ قریش کے جاسوس سب طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قول و اقرار کی خبر نِکل جائے اور مشکلات پیدا ہو جائیں۔ ابھی غالباً وہ یہ تاکید کر ہی رہے تھے کہ گھاٹی کے اوپر سے رات کی تاریکی میں کسی شیطان کی آواز آئی یعنی کوئی شخص چھپا تھا، جاسوسی کر رہا تھا کہ اے قریش! تمہیں بھی کچھ خبر ہے کہ یہاں (نعوذ باللہ) مُذمَّم اور اس کے ساتھ کے مرتدین تمہارے خلاف کیا عہدوپیمان کر رہے ہیں؟ اس آواز نے سب کو چونکا دیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکل مطمئن رہے اور فرمایا کہ اب آپ لوگ جس طرح آئے تھے اسی طرح ایک ایک دو دو ہو کر اپنی قیام گاہوں میں واپس چلے جاؤ۔ عَبَّاس بن نَضْلَہ انصاری نے کہا۔ یارسول اللہؐ ! ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے۔ اگر حکم ہو تو ہم آج صبح ہی ان قریش پر حملہ کر کے انہیں ان کے مظالم کا مزہ چکھادیں۔ آپؐ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے ابھی تک اس کی اجازت نہیں ہے۔ بس تم صرف یہ کرو کہ خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ۔ جس پر تمام لوگ ایک ایک دو دو کر کے دبے پاؤں گھاٹی سے نکل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا عباس کے ساتھ مکہ واپس تشریف لے آئے۔ قریش کے کانوں میں چونکہ بھنک پڑ چکی تھی کہ اس طرح کوئی خفیہ اجتماع ہوا ہے۔ وہ صبح ہوتے ہی اہلِ یثرب کے ڈیرہ میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ان تعلقات کو خراب کریں مگر ہم نے سنا ہے کہ گذشتہ رات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ آپ کا کوئی خفیہ معاہدہ یا سمجھوتہ ہوا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ اوس اور خزرج میں سے جو لوگ بت پرست تھے ان کو چونکہ اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں تھی وہ سخت حیران ہوئے اور صاف انکار کیا کہ قطعاً کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ عبداللہ بن اُبَیّ بِن سَلُول بھی جو بعد میں منافقینِ مدینہ کا سردار بنا وہ بھی اس گروہ میں تھا۔ اس نے کہاکہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ اہلِ یثرب کوئی اہم معاملہ طے کریں اور مجھے اس کی اطلاع نہ ہو؟ غرض اس طرح قریش کا شک رفع ہوا اور وہ واپس چلے آئے اور اس کے تھوڑی دیر بعد ہی انصار بھی واپس یثرب کی طرف کُوچ کر گئے لیکن ان کے کُوچ کر جانے کے بعد قریش کو کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی اہلِ یثرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہدوپیمان کیا ہے جس پر ان میں سے بعض آدمیوں نے اہلِ یثرب کا پیچھا کیا۔ قافلہ تو نکل گیا تھا مگر سَعد بن عُبَادہؓ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو یہ لوگ پکڑ لائے اور مکہ کے پتھریلے میدان میں لا کر خوب زدوکوب کیا اور سرکے بالوں سے پکڑ کر ادھر ادھر گھسیٹا۔ آخر جُبَیربن مُطْعِمْ اور حَارِث بن حَرْب کو جو سعد کے واقف تھے انہیں اطلاع ہوئی تو انہوں نے ان کو ظالم قریش کے ہاتھ سے چھڑایا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 227تا 229، 232-233)
حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے تعلق سے ابھی کچھ اَور ذکر بھی ہے ان شاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان ہو گا۔
حضرت سعد بن عُبادہ بیعتِ عَقَبہ ثانیہ کے موقعے پر بنائے جانے والے بارہ نُقَباء میں سے ایک تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ461 سعد بن عُبادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ان کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’قبیلہ خزرج کے خاندان بنو سَاعِدہ سے تھے اور تمام قبیلہ خزرج کے رئیس تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں ممتاز ترین انصار میں شمار ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ آنحضرتؐ کی وفات پر بعض انصار نے انہی کو خلافت کے لیے پیش کیا تھا۔‘‘ یعنی انصار میں سے جو نام پیش ہوا تھا وہ ان کا نام تھا۔ ’’…… حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فوت ہوئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ230)
حضرت سعد بن عُبادہؓ، مُنْذِر بن عَمروؓ اور ابو دجانہؓ، یہ تین اشخاص تھے انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان سب نے اپنے قبیلہ بنو ساعِدہ کے بت توڑ ڈالے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ461سعد بن عُبادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ہجرتِ مدینہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بنو ساعِدہ کے گھروں کے پاس سے گزرے تو حضرت سَعد بن عُبادہؓ اور حضرت مُنْذِر بن عَمروؓ اور حضرت ابو دجانہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ ہمارے پاس تشریف لائیں۔ ہمارے پاس عزت ہے۔ دولت، قوت اور مضبوطی ہے۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ نے یہ بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! میری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے کھجوروں کے باغات مجھ سے زیادہ ہوں اور اس کے کنویں مجھ سے زیادہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت، قوت اور کثیر تعداد بھی ہو۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو ثابت! اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ مامور ہے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 3صفحہ 272 الباب السادس في قدومہﷺ باطن المدينۃ ……، دارالکتب العلمیة بیروت 1993ء) یہ اپنی مرضی سے کہیں جائے گی۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ قبیلہ بنو ساعِدہ کے نقیب تھے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا کہ جو نقیب مقرر کیے گئے تھے ان میں ان کا بھی نام تھا۔
کہا جاتا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج میں ایسا کوئی گھر نہ تھا جس میں چار شخص پے در پے فیاض ہوں۔ بڑے کھلے دل کے ہوں سوائے دُلیم کے، پھر اس کے بیٹے عُبادہ کے، پھر اس کے بیٹے سعد کے، پھر اس کے بیٹے قیس کے۔ دُلیم اور اس کے اہلِ خانہ کی سخاوت کے بارے میں بہت سی اچھی اچھی خبریں مشہور تھیں۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 441، سعد بن عُبادہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سعدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روزانہ ایک بڑا پیالہ بھیجتے جس میں گوشت اور ثرید، گوشت میں پکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے یا دودھ کا ثرید یا سرکے اور زیتون کا ثرید یا چربی کا پیالہ بھیجتے اور زیادہ تر گوشت کا پیالہ ہی ہوتا تھا۔ سعد کا پیالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپؐ کی ازواجِ مطہرات کے گھروں میں چکر لگایا کرتا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ461 سعد بن عُبادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) یعنی یہ کھانا تھا جو مختلف ازواج کے لیے جایا کرتا تھا۔ بعض روایات ایسی بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ایسے دن بھی آتے تھے کہ کھانا نہیں ہوتا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب الھبۃ و فضلھا … باب فضل الھبۃ حدیث 2567)
ہو سکتا ہے کہ یہ روزانہ نہیں اکثر بھیجتے ہوں یا شروع میں بھیجتے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سخاوت کی وجہ سے، غریبوں کے خیال کی وجہ سے بعض اوقات انہیں غرباء میں تقسیم کر دیتے ہوں، مہمانوں کو کھلا دیتے ہوں اس لیے اپنے گھر میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔
بہرحال ایک روایت اَور ہے، حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ابوایوب انصاریؓ کے ہاں قیام فرمایا تو آپؐ کے ہاں کوئی ہدیہ نہیں آیا۔ پہلا ہدیہ جو میں آپؐ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا تھا وہ ایک پیالہ تھا جس میں گندم کی روٹی کی ثرید، گوشت اور دودھ تھا۔ میں نے اسے آپؐ کے سامنے پیش کیا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہؐ !یہ پیالہ میری والدہ نے آپؐ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ اس میں برکت ڈالے اور آپؐ نے اپنے صحابہ کو بلایا تو انہوں نے بھی اس میں سے کھایا۔ کہتے ہیں مَیں ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ سعد بن عُبادہؓ بھی ایک پیالہ لے کر حاضر ہوئے جسے ان کا غلام اپنے سر پر اٹھائے ہوئے تھا۔ وہ کافی بڑا تھا۔ میں حضرت ابوایوبؓ کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس پیالے کا کپڑا اٹھایا تا کہ میں اسے دیکھوں تو میں نے ثرید دیکھی جس میں ہڈیاں تھیں۔ اس غلام نے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔
حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ہم بنو مالک بن نجار کے گھروں میں رہتے تھے۔ ہم میں سے تین یا چار افراد ہر رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باری باری کھانا لے کر حاضر ہوتے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ماہ حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر میں قیام فرمایا۔ ان ایام میں حضرت سعد بن عُبادہؓ اور حضرت اَسعد بن زُرارہؓ کا پیالہ ہر روز آپؐ کی خدمت میں آتا تھا اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں کچھ وضاحت بھی ہو گئی کہ شروع میں روزانہ کھانا آتا تھا۔ سات مہینے تک باقاعدہ آتا رہا۔ اس کے بعد بھی آتا ہو گا لیکن شاید اس باقاعدگی سے نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ اسی کے متعلق جب حضرت ام ایوبؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے ہاں قیام فرمایا تھا اس لیے آپ بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا کون سا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپؐ نے کسی مخصوص کھانے کا کبھی حکم دیا ہو اور پھر وہ آپؐ کے لیے تیار کیا گیا ہو اور نہ ہی ہم نے کبھی یہ دیکھا کہ آپؐ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا ہو اور آپؐ نے اس میں عیب نکالا ہو۔ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب نے مجھے بتایا کہ ایک رات حضرت سعد بن عُبادہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ بھجوایا جس میں طَفَیْشَلْ تھا۔ یہ شوربہ کی ایک قسم ہے۔ آپؐ نے وہ سیر ہو کر پیا اور میں نے اس کے علاوہ آپؐ کو کبھی اس طرح سیر ہوکر پیتے نہیں دیکھا۔ پھر ہم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ بنایا کرتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ لاؤ یا وہ پکاؤ۔ کبھی عیب نہیں نکالا لیکن جو کھانا آتا تھا اس میں سے یہ کھانا آپؐ کو پسند آیا اور آپؐ نے بڑے شوق سے کھایا یا پیا۔ اس کے بعد سے پھر صحابہ کو پتا لگ گیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہے تو اس کے مطابق پھر بناتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے ھَرِیْس، مشہور کھانا ہے جو گندم اور گوشت سے بنایا جاتا ہے، یہ بھی بنایا کرتے تھے جو آپؐ کو پسند تھا اور رات کے کھانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پانچ سے لے کر سولہ تک افراد ہوتے تھے جس کا انحصار کھانے کی قلت یا کثرت پر ہوتا تھا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد3صفحہ 275 الباب السادس في قدومہﷺ باطن المدينۃ ……، دارالکتب العلمیة بیروت 1993ء) (سبل الہدیٰ والرشاد جلد3صفحہ 279 الباب السادس في قدومہﷺ باطن المدينۃ ……، دارالکتب العلمیہ 1993ء) (لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 572 مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور 2005ء)
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس مکان میں آپؐ نے سات ماہ تک یا ابن اسحاق کی روایت کے مطابق اور ابن اسحاق کی روایت یہ ہے کہ ماہ صفر2ہجری تک قیام فرمایا تھا گویا جب تک مسجدنبوی اور اس کے ساتھ والے حجرے تیار نہیں ہو گئے آپؐ اسی جگہ مقیم رہے۔ ابوایوبؓ آپؐ کی خدمت میں کھانا بھجواتے تھے اور پھر جو کھانا بچ کر آتا تھا وہ حضرت ابو ایوبؓ خود کھاتے تھے۔ اور محبت و اخلاص کی وجہ سے اسی جگہ انگلیاں ڈالتے تھے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا ہوتا۔ دوسرے اصحاب بھی عموماً آپؐ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں میں سعد بن عُبادہؓ رئیس قبیلہ خزرج کا نام تاریخ میں خاص طور پر مذکور ہوا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، صفحہ268)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ !آپؐ ہمارے گھر تشریف لائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سعدؓ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ کھجور اور تِل لے آئے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ کا پیالہ لائے جس میں سے آپؐ نے پیا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 7صفحہ 200 الباب الرابع في أكلہﷺ أطعمۃ مختلفۃ، في أكلہﷺ الكسب والسّمسم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
قیس بن سعدؓ، سعد بن عُبادہؓ کے بیٹے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاقات کے لیے ہمارے گھر تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا ‘السلام علیکم ورحمة اللہ’۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کوسلام کیا۔ قیسؓ نے کہا کہ میرے والد سعدؓ نے آہستہ سے جواب دیا۔ قیسؓ نے کہا میں نے ان سے پوچھا، اپنے باپ سے پوچھا کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر آنے کا نہیں کہیں گے؟ حضرت سعدؓ نے، باپ نے، بیٹے کو یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر زیادہ سلام کر لینے دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سلام کر کے واپس ہوئے۔ یعنی آپؓ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا۔ میں نے آہستہ سے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سلام کریں گے تو اس طرح ہمارے گھر میں سلامتی پہنچے گی۔ بہرحال کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کر کے واپس ہوئے تو پھر سعدؓ آپؐ کے پیچھے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ ! میں آپؐ کے سلام کو سنتا اور آپؐ کو آہستہ سے جواب دیتا تا کہ آپؐ ہم پر زیادہ سلام بھیجیں۔ پھر آپؐ سعدؓ کے ہمراہ لَوٹ آئے۔ سعدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل کا عرض کیا۔ آپؐ نے غسل فرمایا۔ سعدؓ نے آپؐ کو زعفران یا وَرْس جو یمن کے علاقے میں پیدا ہونے والا ایک زرد رنگ کا پودا ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے ہیں اس سے رنگا ہوا ایک لحاف دیا۔ آپؐ نے اسے ارد گرد لپیٹ لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ! اپنے درود اور اپنی رحمت سعد بن عُبادہؓ کی اولاد پر نازل کر۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 2 صفحہ 442- 441 سعد بن عُبادہ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 2 صفحہ 222 کتاب العلم مطبوعہ دار الفکر بیروت)
یہ روایت حضرت انسؓ سے اس طرح مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت سعد بن عُبادہؓ کے ہاں اندر آنا چاہا، گھر میں جانا چاہا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا۔ حضرت سعدؓ نے آہستہ سے کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی نہ دیا حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ سلام کیا اور سعدؓ نے تینوں مرتبہ اسی طرح جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی نہ دیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ آپؐ کے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ نے جتنی مرتبہ بھی سلام کہا میں نے اپنے کانوں سے سنا اور اس کا جواب دیا لیکن آپؐ کو نہیں سنایا۔ آپؐ کو میری آواز نہیں آئی۔ میں چاہتا تھا کہ آپؐ کی سلامتی اور برکت کی دعا کثرت سے حاصل کروں۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لے گئے اور کشمش پیش کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول کرنے کے بعد فرمایا تمہارا کھانا نیک لوگ کھاتے رہیں اور تم پر ملائکہ رحمت کی دعائیں کرتے رہیں اور روزے دار تمہارے ہاں افطاری کرتے رہیں۔ آپؐ نے ان کو دعا دی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ356-357 مسند انس بن مالک حدیث 12433، مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
علامہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ اہلِ صفہ جب شام کرتے تو ان میں سے کوئی شخص کسی ایک یا دو کو کھانا کھلانے کے لیے لے جاتا تاہم حضرت سعد بن عُبادہؓ اَسّی اہلِ صفہ کو کھانا کھلانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ، جلد 3، صفحہ 56، سعد بن عُبادہ، دارلکتب العلمیہ بیروت1995ء)
یعنی اکثر یہ ہوتا تھا لیکن ایسی روایات بھی ہیں کہ اہلِ صفہ پر ایسے دن بھی آئے جب ان کو بھوکا بھی رہنا پڑا۔ بہرحال صحابہ عموماً ان غرباء کا خیال رکھا کرتے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دَر پر بیٹھے ہوتے تھے اور ان کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے حضرت سَعد بن عُبادہؓ تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے ایک سال بعد ماہ صفر میں ابواء، جو مدینہ سے مکے کی شاہراہ پر جُحفہ سے 23میل دور واقع ہے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ کی قبر بھی ہے، اس کی طرف کوچ فرمایا۔ آپؐ کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں حضرت سعد بن عُبادہؓ کو اپنا جانشین یا امیر مقرر فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ5 باب غزوة الابواء، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ 84 مطبوعہ دار السلام 1424ھ)
غزوۂ ابواء کا دوسرا نام غزوۂ وَدَّان بیان کیا جاتا ہے۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوۂ وَدَّانکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ کبھی تو خود صحابہؓ کوساتھ لے کر نکلتے تھے اور کبھی کسی صحابی کی امارت میں کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے۔ مؤرخین نے ہردوقسم کی مہموں کوالگ الگ نام دیے ہیں۔ چنانچہ جس مہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفسِ نفیس شامل ہوئے ہوں اس کا نام مؤرخین غزوہ رکھتے ہیں اور جس میں آپؐ خود شامل نہ ہوئے ہوں اس کا نام سَرِیَّہ یا بَعْث رکھا جاتا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزوہ اور سَرِیَّہ دونوں میں مخصوص طورپر جہاد بالسیف کی غرض سے نکلنا ضروری نہیں‘‘ ضروری نہیں ہے کہ تلوار کے جہاد کے لیے نکلا جائے۔ ’’بلکہ ہروہ سفر جس میں آپؐ جنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں غزوہ کہلاتا ہے خواہ وہ خصوصیت کے ساتھ لڑنے کی غرض سے نہ کیا گیا ہو اور اسی طرح ہروہ سفر جو آپؐ کے حکم سے کسی جماعت نے کیا ہو مؤرخین کی اصطلاح میں سَرِیَّہ یا بَعْث کہلاتا ہے خواہ اس کی غرض وغایت لڑائی نہ ہو لیکن بعض لوگ ناواقفیت سے ہر غزوہ اور سَرِیَّہ کولڑائی کی مہم سمجھنے لگ جاتے ہیں جودرست نہیں ہے۔ یہ بیان کیا جاچکاہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت کے دوسرے سال ماہ صفر میں نازل ہوئی۔‘‘ تھی۔ یہ گذشتہ خطبوں میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ ’’چونکہ قریش کے خونی ارادوں اور ان کی خطرناک کارروائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کومحفوظ رکھنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت تھی اس لیے آپؐ اسی ماہ میں مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کانام لیتے ہوئے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ روانگی سے قبل آپؐ نے اپنے پیچھے مدینہ میں سعد بن عُبادہؓ رئیس خزرج کوامیر مقررفرمایا اور مدینہ سے جنوب مغرب کی طرف مکہ کے راستہ پر روانہ ہو گئے اور بالآخر مقام وَدَّان تک پہنچے۔‘‘ اس کی یہ تفصیل پہلے بھی بیان ہو چکی ہے۔ ’’اس علاقہ میں قبیلہ بنوضمرہ کے لوگ آباد تھے۔ یہ قبیلہ بنو کنانہ کی ایک شاخ تھا اور اس طرح گویا یہ لوگ قریش کے چچا زاد بھائی تھے۔ یہاں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوضمرہ کے رئیس کے ساتھ بات چیت کی اور باہم رضا مندی سے آپس میں ایک معاہدہ ہو گیا جس کی شرطیں یہ تھیں کہ بَنُو ضَمْرَہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مددنہیں کریں گے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو‘‘ یعنی بَنُو ضَمْرَہ کو ’’مسلمانوں کی مدد کے لیے بلائیں گے تو وہ فوراً آ جائیں گے۔ دوسری طرف آپؐ نے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ تمام مسلمان قبیلہ بَنُو ضَمْرَہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقتِ ضرورت ان کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے اور پندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔ غزوۂ ودان کادوسرا نام غزوۂ اَبْواءبھی ہے کیونکہ وَدَّان کے قریب ہی ابواءکی بستی بھی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواس غزوے میں بَنُو ضَمْرَہ کے ساتھ قریش مکہ کابھی خیال تھا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دراصل آپؐ کی یہ مہم قریش کی خطرناک کارروائیوں کے سدباب کے لیے تھی اور اس میں اس زہریلے اور خطرناک اثر کا ازالہ مقصودتھا جو قریش کے قافلے وغیرہ مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں پیدا کررہے تھے۔‘‘ قریش مسلمانوں کے خلاف قبیلوں میں جا کے پراپیگنڈہ کرتے تھے ’’اورجس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت ان ایام میں بہت نازک ہو رہی تھی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 327-328)
حضرت سعد بن عُبادہؓ کے غزوۂ بدر میں شامل ہونے کے بارے میں دو آرا بیان کی جاتی ہیں۔ واقدی، مَدَایِنِی اور ابنِ کَلْبِی کے نزدیک یہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ جبکہ ابن اسحاق اور ابن عُقْبَہ اور ابن سعد کے نزدیک یہ غزوۂ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔
بہرحال اس کی ایک وضاحت طبقات الکبریٰ کی ایک روایت کے مطابق اس طرح ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ غزوۂ بدر میں حاضر نہیں ہوئے تھے۔ وہ روانگی کی تیاری کر رہے تھے اور انصار کے گھروں میں جا کر انہیں روانگی پر تیار کر رہے تھے کہ روانگی سے پہلے انہیں کتے نے کاٹ لیا۔ اس لیے وہ غزوۂ بدر میں شامل نہ ہو سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ سعدؓ شریک نہ ہوئے لیکن اس کے آرزو مند تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں سے حصہ عنایت فرمایا تھا۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ غزوۂ احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ (الاستیعاب جلد2صفحہ 594 سعد بن عُبادہ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ461 سعد بن عُبادہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (سیر الصحابہؓ جلد 3 صفحہ 377 سعد بن عُبادہ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)
ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کا جھنڈا غزوۂ بدر کے روز حضرت سعد بن عُبادہؓ کے پاس تھا۔ یہ المستدرک کی روایت ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 282کتاب معرفة الصحابہ باب ذکر مناقب سعد بن عُبادہ حدیث 5096، دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
غزوۂ بدر پر روانگی کے وقت حضرت سعد بن عُبادہؓ نے عضب نامی تلوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحفةً پیش کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر میں اسی تلوار کے ساتھ شرکت کی تھی۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 24 باب غزوۃ بدر الکبریٰ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک گدھا بھی حضرت سعد بن عُبادہؓ نے تحفةً پیش کیا تھا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 7 صفحہ 406 الباب الرابع في بغالہ، وحميرهﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات زرہیں تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام ذَاتُ الْفُضُوْل تھا۔ یہ نام اسے اس کی لمبائی کی وجہ سے دیا گیا تھا اور یہ زرہ جو تھی حضرت سعد بن عُبادہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تب بھجوائی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف روانہ ہو چکے تھے اور یہ زرہ لوہے کی تھی۔ یہ وہی زرہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو شَحْم یہودی کے پاس جَو کے عوض بطور رہن رکھوائی تھی اور جَو کا وزن تیس صاع تھا اور ایک سال کی مدت کے لیے بطور قرض لیا گیا تھا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 7 صفحہ 368 الباب الرابع في دروعہ، ومغفره، وبيضتہ…… مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت علیؓ کے پاس ہوتا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عُبادہؓ کے پاس ہوتا اور جب جنگ زوروں پر ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے جھنڈے تلے ہوتے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 917 مسند عبد اللہ بن عباس حدیث 3486 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
یعنی دشمنوں کا جو زیادہ تر زور تھا انصار کی طرف ہوتا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں ہوتے تھے۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فَدک کی بنی ہوئی کملی ڈالی ہوئی تھی اور آپؐ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو پیچھے بٹھا لیا۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ کی عیادت کو جا رہے تھے کیونکہ حضرت سعد بن عُبادہؓ ان دنوں میں بیمار تھے، جو بنو حارث بن خزرج کے محلے میں تھے۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے۔ حضرت اسامہؓ کہتے تھے کہ چلتے چلتے آپؐ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہےکہ عبداللہ بن اُبی بن سلول جو تھا ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اور یہ وہی واقعہ ہے جس میں عبداللہ بن اُبی بن سلول نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بدتمیزی کا رویہ دکھایا تھا۔ بہرحال جب آپؐ سواری کے جانور پر بیٹھے ہوئے جا رہے تھے تو اس کی گرد، مٹی اڑی اور اس مجلس پر پڑی۔ وہ لوگ کنارے سڑک کے بیٹھے ہوں گے تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے اپنی چادر سے اپنی ناک کو ڈھانکا اور کہنے لگا کہ ہم پر گردنہ اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو السلام علیکم کہا اور ٹھہر گئے۔ جب اس نے یہ بات کی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو کھڑا کر لیا۔ ٹھہر گئے اور السلام علیکم کہا اور گدھے سے اترے۔ آپؐ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول نے کہا اے مرد ! جو بات تم کہتے ہو اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ہماری مجلس میں آ کر اس سے تکلیف نہ دیا کرو۔ ہماری مجلس میں آنے کی، یہ باتیں کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مختصر پہلے بھی ایک دفعہ میں یہ بیان کر چکا ہوں۔ اپنے ٹھکانے پر ہی واپس جاؤ۔ پھر جو تمہارے پاس آئے اسے بیان کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، مسلمان ہو چکے تھے، صحابی تھے انہوں نے یہ سن کر کہا کہ نہیں یا رسول اللہ ! آپؐ ہماری ان مجلسوں میں ہی آ کر ہمیں پڑھ کر سنایا کریں۔ ہمیں تو یہ بات پسند ہے۔ اس پر مسلمان، مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جوش دبایا۔ آخر وہ رک گئے۔ اس کے بعد پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانور پر سوار ہو کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ کے پاس آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا سعد! کیا تم نے سنا جو ابو حباب نے کہا۔ آپؐ کی مراد عبداللہ بن اُبَیبن سلول سے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے مجھے یوں یوں کہا ہے۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ نے کہا یا رسول اللہ ! آپؐ اس کو معاف کر دیں اور اس سے درگزر کیجیے۔ اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے۔ اللہ وہ حق اب یہاں لے آیا ہے جس کو اس نے آپؐ پر نازل کیا ہے۔ اس بستی والوں نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس کو یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول کو سرداری کا تاج پہنا کر عمامہ اس کے سر پر باندھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کیا ہے یہ منظور نہ کیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گیا۔ اس لیے اس نے وہ کچھ کیا جو آپؐ نے دیکھا یعنی وہ سردار بننے والا تھا اور آپؐ کے آنے سے اس کی سرداری جاتی رہی۔ اس وجہ سے اس کو حسد ہے۔ آپؐ سے جلن ہے اور اس نے یہ سب کچھ کہا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگزر کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ مشرکوں اور اہل کتاب سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی ایذا دہی پر صبر کیا کرتے تھے۔ اللہ عزّوجل نے فرمایا ہے
لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًى کَثِیْرًا۔ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(آل عمران: 187)کہ تم ضرور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے معاملے میں آزمائے جاؤ گے اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا ًیہ ایک بڑا ہمت والا کام ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ إِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہِ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (البقرة: 110) اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ بعد اس کے کہ حق ان پر خوب کھل چکا ہے اس حسد کی وجہ سے جو ان کی اپنی ہی جانوں سے پیدا ہوا ہے چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد تمہیں پھر کافر بنا دیں پس تم اس وقت تک کہ اللہ اپنے حکم کو نازل فرمائے انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو اور اللہ یقیناً ہر ایک امر پر پورا پورا قادر ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عفو کو ہی مناسب سمجھتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا تھا۔ آخر اللہ نے ان کو اجازت دے دی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر ان کا یعنی کافروں کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی میں کفار کے، قریش کے بڑے بڑے سرغنے مار ڈالے تو عبداللہ بن اُبی بن سلول اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست لوگ تھے تب وہ کہنے لگے کہ اب تو یہ سلسلہ شان دار ہو گیا ہے۔ کافروں کی یہ شکست دیکھ کر تب ان کو یقین آیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کر لی اور مسلمان ہوگئے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر، تفسیر آل عمران حدیث 4566)
غزوۂ بدر کے موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہؓ سے مشاورت کی تو حضرت سعد بن عُبادہؓ نے اس موقع پر جو کہا اس کے بارے میں ایک روایت میں تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی تو آپؐ نے مشورہ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعراض فرمایا۔ پھر حضرت عمرؓ نے گفتگو کی، مشورے دینے چاہے۔ آپؐ نے ان سے بھی اعراض فرمایا۔ پھر حضرت سعد بن عُبادہؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہؐ !آپؐ ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں۔ اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپؐ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم انہیں ڈال دیں گے۔ اگر آپ ہمیں بَرْکُ الْغِمَادْ، یمن کا ایک شہر ہے جومکے سے پانچ رات کی مسافت پر سمندر کے کنارے واقع ہے، اس تک ان کے جگر مارنے کا حکم دیں تو ہم ایسا ضرور کریں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا۔ وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ یہ بات سن کے پھر آپؐ اپنے ساتھیوں کو ہمراہ لے کر چلے اور بدر کے مقام تک پہنچے۔ وہاں قریش کے پانی لانے والے آئے اور ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ لڑکا بھی تھا۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا یعنی مسلمانوں نے اسے پکڑ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھتے رہے۔ کیونکہ پہلے یہی پتا لگا تھا کہ ابوسفیان اپنے ایک بڑے لشکر کے ساتھ یا شاید گروہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ بہرحال ان سے ابو سفیان کے بارے میں پوچھتے رہے۔ وہ یہ کہتا رہا کہ مجھے ابوسفیان کے بارے میں کچھ علم نہیں لیکن یہ ابوجہل اور عُتبہ اور شَیبہ اور اُمیہ بن خلف ہیں۔ یہ ضرور یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ابوجہل بھی ہے، عتبہ بھی ہے، شیبہ بھی ہے، امیہ بن خلف بھی ہے۔ جب اس نے یہ کہا تو انہوں نے اسے مارا۔ اس نے کہا اچھا میں تمہیں بتاتا ہوں۔ یہ ہے ابوسفیان یعنی کہ ابوسفیان بھی ان میں شامل ہے۔ جب انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے پھر پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے ابوسفیان کا کوئی علم نہیں لیکن یہ ابوجہل اور عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خلف لوگوں میں موجود ہیں۔ یہ جو گروہ آیا ہوا ہے یا ایک لشکر بدر کے قریب ٹھہرا ہوا ہے اس میں یہ یہ لوگ موجود ہیں لیکن ابوسفیان نہیں ہے۔ جب اس نے ایسا کہا تو انہوں نے پھر اسے مارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے جب آپؐ نے یہ صورت دیکھی تو سلام پھیرا اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب وہ تم سے جھوٹ بولتا ہے تو تم اسے چھوڑ دیتے ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لڑکا جو کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔ یعنی جو دشمنوں کے نام لیے تھے۔ اور بتایا کہ یہ بدر کا میدان ہے یہاں فلاں گرے گا۔ راوی کہتے ہیں آپؐ اپنا ہاتھ زمین پر رکھتے تھے کہ یہاں یہاں۔ راوی کہتے ہیں ان میں سے کوئی اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹا یعنی جو دشمن تھے وہیں گرے اور مرے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے نشان دہی کی تھی۔ (صحیح مسلم کتاب الجھاد والسیر باب غزوہ بدر حدیث (1779)) (فرہنگ سیرت صفحہ57 مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
غزوۂ احد سے قبل ایک جمعہ کی شام حضرت سعد بن مُعاؓ ذ، حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ اور حضرت سَعد بن عُبادہؓ مسجدنبوی میں ہتھیار پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر صبح تک پہرہ دیتے رہے۔ غزوۂ احد کے لیے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے نکلنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور کمان کندھے پر ڈال لی اور نیزہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تو دونوں سعد یعنی حضرت سعد بن مُعاذؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ آپؐ کے آگے آگے دوڑنے لگے۔ یہ دونوں صحابہ زرہ پہنے ہوئے تھے اور باقی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ28تا30، غزوة رسول اللّٰہ احدًا مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوۂ احد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نماز عصر کے بعد مدینے سے نکلے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤسا سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہ آپؐ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے، صفحہ486)
غزوۂ احد کے موقعےپر جو صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدمی سے کھڑے رہے ان میں حضرت سعد بن عُبادہؓ بھی تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ197 ذكر ثبات رسول اللّٰہ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد سے مدینہ واپس تشریف لائے اور اپنے گھوڑے سے اترے تو آپ حضرت سعد بن مُعاذؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 229 باب غزوہ اُحد ذكر رحيل رسول اللّٰهﷺ الى المدينۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) زخمی تھے۔ اس حالت میں جب اترے تو آپؐ نے ان دونوں کا سہارا لیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ حمراء الاسد میں ہمارا عام زادِ راہ کھجوریں تھیں۔ غزوۂ حمراء الاسد شوال 3ہجری میں ہوا۔ غزوۂ احد سے واپسی پر قریش کے لوگ روحاء مقام پر ٹھہرے جو مدینہ سے 36میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس جگہ قریش کو خیال آیا کہ مسلمانوں کو نقصان بہت پہنچا ہے۔ واپس جا کر مدینے پر اچانک حملہ کر دینا چاہیے اور مسلمان مقابلہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ کافی ان کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے تعاقب میں نکلے اور حمراء الاسد مقام تک پہنچے۔ آپؐ کو بھی پتا لگا کہ یہ ارادہ ہے تو آپؐ نے کہا چلو ہم ان کے تعاقب میں چلتے ہیں۔ حمراء الاسد مدینہ سے ذوالحلیفہ کی جانب آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ قریشی لشکر کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خبر ملی تو وہ مکےکی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان بجائے اس کے کہ کمزور ہوں یہ تو ہم پر حملہ کرنے آ رہے ہیں تو وہ دوڑ گئے۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ تیس اونٹ اور کھجوریں لائے جو حمراء الاسد مقام تک ہمارے لیے وافر رہیں۔ راوی نے لکھا ہے وہ اونٹ بھی لے کر آئے تھے جو کسی دن دو یا کسی دن تین کر کے ذبح کیے جاتے تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 310 الباب الرابع عشر في غزوة حمراء الأسد مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) (فرہنگ سیرت صفحہ106 مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی 2003ء) (سیرت خاتم النبیینؓ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 354) (شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ 464 باب غزوہ حمراء الاسد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) اور ان کو کھایا جاتا تھا۔
غزوۂ بنو نضیر، یہ غزوہ ربیع الاول 4؍ہجری میں ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے قبیلہ بنونضیر کے قلعوں کا 15 روز تک محاصرہ کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو خیبر کی طرف جلا وطن کر دیا تھا۔ اس موقع پر اموال غنیمت حاصل ہوا تو آپؐ نے حضرت ثابت بن قیس کو بلا کر فرمایا۔ میرے پاس اپنی قوم کو بلاؤ۔ حضرت ثابت بن قیس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا خزرج کو؟ آپؐ نے فرمایا نہیں تمام انصار کو بلاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اوس اور خزرج کو آپؐ کے لیے بلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے۔ پھر آپؐ نے انصار کے ان احسانات کا ذکر کیا جو انہوں نے مہاجرین پر کیے ہیں۔ تم نے مہاجرین پر کس طرح احسان کیے ہیں کہ انہیں اپنے گھروں میں ٹھہرایا اور مہاجرین کو اپنے نفوس پر ترجیح دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال سے، وہ اموال غنیمت جو کفار سے جنگ کے بغیر مسلمانوں کو حاصل ہو، یہ وہ مال تھا، اس میں سے تم میں اور مہاجرین میں برابر تقسیم کر دوں۔ اس حالت میں مہاجرین حسبِ سابق تمہارے گھروں اور اموال میں رہیں گے اور اگر تم پسند کرو تو یہ اموال میں مہاجرین میں تقسیم کر دوں، یعنی آدھا آدھا تقسیم کروں تو ٹھیک ہے جس طرح تم پہلے ان سے سلوک کر رہے ہو مہاجرین سے کرتے رہو، تمہارے گھروں میں بھی رہتے رہیں گے۔ مؤاخات قائم رہے گی جس طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ لیکن اگر تم پسند کرو تو یہ اموال میں مہاجرین میں تقسیم کر دوں جس کے نتیجہ میں وہ تمہارے گھروں سے نکل جائیں گے۔ مال سارا ان کو مل جائے گا لیکن وہ تمہارے گھروں سے پھر نکل جائیں گے۔ کوئی حق نہیں رہے گا جو پہلے ایک قائم کیا گیا تھا۔ اس پر حضرت سعد بن عُبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد بن مُعاذؓ دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپؐ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم فرما دیں اور وہ ہمارے گھروں میں اسی طرح ہوں گے جیسا کہ پہلے تھے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ آپ یہ تمام مال انہی میں تقسیم کر دیں۔ انصار کو دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کا جو حق ہے اور مہاجرین اور انصار کی جو مؤاخات قائم ہوئی ہوئی ہے، جو حق ہے ہمارے گھروں میں آنے جانے کا، رہنے کا وہ بھی اسی طرح قائم رہے گا اور انصار نے بآواز بلند عرض کی کہ یا رسول اللہ !ہم راضی ہیں اور ہمارا سر ِتسلیم خم ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! انصار اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مالِ فَے عطا فرمایا وہ آپ نے مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار میں سے دو صحابہ کے علاوہ کسی کو کچھ نہ دیا وہ دونوں صحابہ جو انصار کے تھے ضرورت مند تھے وہ دونوں حضرت سہل بن حُنیفؓ اور حضرت ابو دجانہؓ تھے اور آپ نے حضرت سعد بن مُعاذؓ کو ابن ابی حقیق کی تلوار عطا فرمائی۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 325 ذكر خروج بني النضير من أرضهم مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) (اٹلس سیرتِ نبویﷺ صفحہ 264-265 دار السلام 1424ھ) (عمدة القاری شرح صحیح البخاری جلد 12 صفحہ 204 کتاب الوکالۃ مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت 2003ء)
حضرت سعدؓ کی والدہ حضرت عَمرہ بنت مسعودؓ جو صحابیات میں سے تھیں ان کی وفات اس وقت ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ دومۃ الجندل کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ غزوہ ربیع الاول 5ہجری میں ہوا تھا۔ حضرت سعدؓ اس غزوہ میں آپؐ کے ہم رکاب تھے۔
سعید بن مُسَیَّبؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ کی والدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تھے۔ سعدنے عرض کیا کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپؐ ان کی نماز ِجنازہ پڑھائیں۔ آپؐ نے نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ انہیں فوت ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ ایک مہینے کے بعد انہیں خبر پہنچی تھی۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ سعد بن عُبادہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ پر تھی اور وہ اس کو پورا کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی تھیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان کی طرف سے اسے پورا کرو۔
حضرت سعید بن مسیّبؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میری والدہ کی وفات ہو گئی ہے۔ انہوں نے وصیت نہیں کی تھی۔ اگر مَیں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ انہیں مفید ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کون سا صدقہ آپؐ کو زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا پانی پلاؤ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ461-462 سعد بن عُبادہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
لگتا ہے اس وقت پانی کی کمی تھی۔ کافی ضرورت تھی۔ بہرحال ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت سعدنے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ ام سعد کی خاطر ہے۔ ان کے نام پر وہ جاری کر دیا۔
علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی ہیں انہوں نے ابوداؤد کی شرح میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ سب سے افضل صدقہ پانی ہے یعنی حضرت سعدؓ کو کہا کہ پانی پلاؤ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ایام میں پانی کم یاب تھا یا اس لیے کہ پانی کی ضرورت عام طور پر تمام اشیا ء کی نسبت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ پانی کا صدقہ آپؐ نے اس لیے بھی افضل قرار دیا کیونکہ یہ دینی اور دنیاوی معاملات میں بالخصوص ان گرم ممالک میں سب سے زیادہ نفع رساں چیز ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَہُورًا کہ اور ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی اتارا۔ وہاں مدینے میں پانی افضل ترین تھا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے عمومی ضرورت اور پانی کی کم یابی کی وجہ سے اس کو بہت قیمتی سمجھا جاتا تھا۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد جلد 3 صفحہ 65-66 کتاب الزکاۃ باب فی فضل سقی الماء مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
اور پانی کو تو آج بھی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے حکومتیں بھی کہتی رہتی ہیں۔ خیال بھی رکھنا چاہیے۔ بہرحال انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کیا کہ پانی کا کنواں کھود دیا۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ جو بنو ساعِدہ میں سے تھے ان کی والدہ فوت ہو گئیں اور اس وقت وہ موجودنہ تھے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور میں اس وقت ان کے پاس موجودنہ تھا۔ یہ آنے کے بعد پتا لگا ہو گا۔ پہلے شاید میں نے سفر میں کہہ دیا تھا۔ بہرحال سفر میں پتا لگا یا آنے کے بعد پتا لگا لیکن بہرحال وہ موجودنہیں تھے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اس وقت یہ عرض کیا کہ مَیں موجودنہیں تھا تو کیا میرا ان کی طرف سے کچھ صدقہ کرنا ان کو نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! پھر میں آپؐ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میرا باغ مِخْرَاف ہے وہ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الوصایا، باب الاشھاد فی الوقف والصدقۃ حدیث 2762)
صدقہ اور خیرات اور غریبوں کی مدد میں بڑا کھلا دل رکھتے تھے اور بڑا کھلا ہاتھ رکھتے تھے۔
27؍ دسمبر کے خطبے میں حضرت سعد بن عبادہؓ کے تعارف میں یہ بیان ہوا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ اور طُلیب بن عُمیر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی جو مکے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور ابنِ اسحاق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عُبادہؓ اور حضرت ابوذر غِفاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی لیکن بعض کو اس سے اختلاف بھی ہے اور واقدی نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ اس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات غزوۂ بدر سے قبل صحابہؓ کے درمیان قائم فرمائی تھی۔ حضرت ابوذر غِفاری جو اس وقت مدینہ میں موجودنہیں تھے اور وہ آئے نہیں تھے اور غزوۂ بدر اور احد اور خندق میں بھی شامل نہیں تھے بلکہ وہ ان غزوات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو میں نے یہ بتایا تھا کہ یہ ان کی دلیل ہے۔ بہرحال یہ اس طرح نہیں ہے۔ مؤاخات کا یہ ذکر دراصل حضرت مُنذِر بن عمرو بن خنیسؓ کے ضمن میں تھا۔ (اُسُد الغابہ جلد 5 صفحہ258 منذر بن عمرو مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ریسرچ سیل والوں نے خود ہی لکھا ہے کہ جس کتاب سے یہ لیا گیا ہے وہاں ان کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہؓ کا بھی ذکر تھا تو ریسرچ سیل کی طرف سے سہواً یہ عبارت حضرت سعدؓ کے ساتھ بھی بیان کر دی گئی جبکہ حضرت منذر بن عمروؓ کے ذکر میں مؤاخات کا یہ ذکر ہے اور یہ تفصیل مَیں گذشتہ سال کے شروع میں 25؍ جنوری کے خطبے میں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال یہ ایک درستی ہے۔ اب آگے جو ذکر چل رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ جب غزوۂ خندق کا واقعہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حصن کو مدینہ کی ایک تہائی کھجوراس شرط پر دینے کی پیشکش کے بارے میں سوچا کہ قبیلہ غطفان کے جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں وہ انہیں واپس لے جائے۔ باقی لوگوں کو چھوڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ سے مشورہ طلب کیا۔ اس پر ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ہوا ہے تو آپؐ ایسا کر دیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بخدا ہم کچھ نہیں دیں گے سوائے تلوار کے یعنی ہم اپنا حق لیں گے یا جو بھی اس کی سزا ہے وہ ان کو اس منافقت کی یا عہد کی پابندی نہ کرنے کی ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جو میں نے تم دونوں کے سامنے رکھی ہے۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان لوگوں نے جاہلیت میں ہم سے ایسی ہی طمع نہیں کی تو آج کیوں کر؟ جبکہ اللہ ہمیں آپؐ کے ذریعہ ہدایت دے چکا ہے یعنی کہ یہ جو پہلا اصول ان کے ساتھ چل رہا تھا آج بھی وہی چلے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے اس جواب سے خوش ہو گئے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 442 سعد بن عبادہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
اس کی تفصیل غزوہ ٔخندق کے حالات کے ذکر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ یہ دن مسلمانوں کے لیے نہایت تکلیف اور پریشانی اور خطرے کے دن تھے اور جوں جوں یہ محاصرہ لمبا ہوتا جاتا تھا مسلمانوں کی طاقتِ مقابلہ لازماً کمزور ہوتی جاتی تھی اور گو ان کے دل ایمان واخلاص سے پُر تھے مگر جسم مادی قانونِ اسباب کے ماتحت چلتا ہے تو وہ مضمحل ہوتا چلا جارہا تھا۔ یعنی جسم کی ضروریات ہیں، آرام ہے، خوراک ہے، محاصرہ لمبا ہو گیا تو اس کی وجہ سے بے آرامی بھی تھی۔ صحیح رنگ میں خوراک بھی پوری نہیں ہو رہی تھی اس لیے تھکاوٹ بھی پیدا ہو رہی تھی، کمزوری بھی پیدا ہو رہی تھی، یہ جسم کا قدرتی تقاضا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات کودیکھا توآپؐ نے انصار کے رؤساء سعدبن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ کوبلا کر انہیں حالات بتلائے اور مشورہ مانگا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی، غریبوں کی تو یہ حالت ہو رہی ہے اور ساتھ ہی اپنی طرف سے یہ ذکر فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تویہ بھی ہو سکتا ہے کہ قبیلہ غطفان کومدینے کے محاصل میں سے کچھ حصہ دینا کر کے اس جنگ کوٹال دیا جائے۔ سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے یک زبان ہوکر یہ عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! اگر آپؐ کواس بارہ میں کوئی خدائی وحی ہوئی ہے تو سرِتسلیم خم ہے۔ اس صورت میں آپؐ بے شک خوشی سے اس تجویز کے مطابق کارروائی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایانہیں مجھے اس معاملہ میں وحی کوئی نہیں ہوئی۔ میں تو صرف آپ لوگوں کی تکلیف کی وجہ سے مشورہ کے طریق پر پوچھ رہا ہوں۔ ان دونوں سعدؓ نے جواب دیا کہ پھر ہمارا یہ مشورہ ہے کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کوکچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہو کر کیوں دیں۔ یعنی جو اُن کے وہاں قانون ہیں اس کے مطابق اب بھی عمل ہو گا۔ پھر آگے انہوں نے کہا کہ واللہ ہم انہیں تلوار کی دھار کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوانصار ہی کی وجہ سے فکر تھی۔ دوسرے لوگ بھی وہاں کے رہنے والے ہیں لیکن مدینہ کے انصار کو کوئی اعتراض یا لمبے محاصر ےسے انقباض یا بے چینی نہ پیدا ہو تو انصار کی وجہ سے یہ فکر تھی جو مدینہ کے اصل باشندے تھے اور غالباً اس مشورہ میں آپؐ کامقصد بھی صرف یہی تھا کہ انصار کی ذہنی کیفیت کاپتا لگائیں کہ کیا وہ ان مصائب میں پریشان تو نہیں ہیں اور اگر وہ پریشان ہوں تو ان کی دلجوئی فرمائی جائے۔ اس لیے آپؐ نے پوری خوشی کے ساتھ ان کے اس مشورے کو قبول فرمایا اور پھر جنگ بھی جاری رہی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ589-590)
غزوۂ خندق کے حالات بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں قبیلہ بنو قریظہ کی غداری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
’’ابو سفیان نے یہ چال چلی کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی رئیس حُیَی بِن اَخْطَب کویہ ہدایت دی کہ وہ رات کی تاریکی کے پردے میں بنو قُریظہ کے قلعہ کی طرف جاوے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے ساتھ مل کر بنو قریظہ کواپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ حُیَی بِن اَخْطَب موقعہ لگا کر کعب کے مکان پر پہنچا۔ شروع شروع میں تو کعب نے اس کی بات سننے سے انکار کیا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہمارے عہدوپیمان ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے عہدوپیمان کو وفاداری کے ساتھ نبھایا ہے۔ اس لیے میں اس سے غداری نہیں کر سکتا مگر حُیَی نے اسے ایسے سبز باغ دکھائے اور اسلام کی عنقریب تباہی کا ایسا یقین دلایا اور اپنے اس عہد کو کہ جب تک ہم اسلام کو مٹا نہ لیں گے مدینہ سے واپس نہیں جائیں گے اس شدّومد سے بیان کیا کہ بالآخر وہ راضی ہو گیا اور اس طرح بنوقریظہ کی طاقت کاوزن بھی اس پلڑے کے وزن میں آکر شامل ہوگیا۔‘‘ جو ملانے آیا تھا باہر سے ’’جو پہلے سے ہی بہت جھکا ہوا تھا‘‘ یعنی پہلے ہی ان میں طاقت تھی۔ دنیاوی طاقت ان کے پاس پہلے ہی بہت تھی۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بنوقریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا توآپ نے پہلے تو دو تین دفعہ خفیہ خفیہ زبیر بن العوامؓ کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے رئیس سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ اور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آ کر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدین‘‘ یعنی دونوں سعد جو تھے ان ’’کی طرف سے معاہدہ کاذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ‘جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ’یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحالات سے اطلا ع دی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 584-585)
بہرحال پھر جو بھی ان کے ساتھ جنگ تھی یا سزا ملنی تھی وہ جاری رہی۔ غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے کئی اونٹوں پر کھجوریں لاد کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے بھیجیں جو ان سب کا کھانا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھجور کیا ہی اچھا کھانا ہے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 05 صفحہ06 فی غزوہ بني قريظۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
غزوۂ موتہ جو جمادی الاولیٰ سنہ آٹھ ہجری میں ہوئی۔ اس میں حضرت زیدؓ شہید ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو ان کی بیٹی کرب اور تکلیف کے باعث روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس پر آپؐ بھی بہت زیادہ رونے لگے۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! یہ کیا! آپؐ نے فرمایا۔ ھٰذَا شَوْقُ الْحَبِیْبِ اِلٰی حَبِیْبِہٖ۔ یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
صحیح بخاری کی ایک اَور روایت ہے۔ یہ پہلی صحیح بخاری کی نہیں تھی۔ یہ واقعہ اَور ہے اور صحیح بخاری کی روایت سے ہے کہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال کوچ فرمایا تو قریش کو یہ خبر پہنچی۔ تب ابوسفیان بن حَرْب، حکیم بن حِزَام اور بُدَیْل بن وَرْقَاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں نکلے۔ وہ چل پڑے یہاں تک کہ مَرُّ الظَّہْرَانْ مقام پر پہنچے۔ مَرُّ الظَّہْرَانْ مکے کی جانب ایک مقام ہے جس میں بہت سے چشمے اور کھجور کے باغات ہیں۔ یہ مکے سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بہرحال جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا کہ بے شمار آگیں روشن ہیں جیسے حج کے موقع پر عرفات کے مقام کے آگے ہوتی ہیں۔ ابوسفیان نے کہا یہ کیسی ہیں؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عرفات کی آگیں ہیں۔ بدیل بن وَرْقَاءْ نے کہا بنو عمرو کی آگیں معلوم ہوتی ہیں یعنی خزاعہ قبیلہ کی۔ ابو سفیان نے کہا عمرو کا قبیلہ اس تعداد سے بہت کم ہے۔ اتنے میں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے داروں میں سے کچھ لوگوں نے دیکھ لیا اور ان تینوں کو پکڑ کر گرفتار کر لیا اور پھر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کے آئے۔ ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلےیعنی مکےکی طرف تو آپؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا۔ ابوسفیان کو پہاڑ کے درّے پر روکے رکھنا تا کہ وہ مسلمانوں کو دیکھ لے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے اسے روکے رکھا۔ مختلف قبائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرنے لگے۔ لشکر کا ایک ایک دستہ ابوسفیان کے سامنے سے گزرتا گیا۔ جب ایک گروہ گزرا تو ابوسفیان نے کہا عباسؓ ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ قبیلہ غِفار کے لوگ ہیں۔ ابوسفیان نے کہا مجھے غفار سے کیا سروکار۔ پھر جُہینہ والے گزرے۔ ابوسفیان نے ویسے ہی کہا۔ پھر سعد بن ھُذَیْم والے گزرے۔ پھر اس نے ویسے ہی کہا۔ پھر سُلیم والے گزرے۔ پھر اس نے ویسے ہی کہا۔ یہاں تک کہ آخر میں ایک ایسا لشکر آیا کہ ویسا اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ابوسفیان نے پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا انصار ہیں اور ان کے سردار سعد بن عبادہؓ ہیں جن کے پاس جھنڈا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے پکار کر کہا ابوسفیان! آج کا روز گھمسان کی لڑائی کا روز ہے۔ آج کعبہ میں لڑائی حلال ہو گی۔ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا عباسؓ ! بربادی کا یہ دن کیا خوب ہو گا اگر مقابلے کا موقع مل جاتا۔ یعنی کہ میں دوسری طرف ہوتا یا کہ اس طرف ہونے کی وجہ سے مجھے بھی موقع ملتا کیونکہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ پھر ایک اَور دستہ فوج کا آیا اور وہ تمام لشکروں سے چھوٹا تھا۔ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپؐ کے ساتھی مہاجرین تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا کیا آپؐ کو علم نہیں کہ سعد بن عبادہؓ نے کیا کہا ہے؟ آپؐ نے پوچھا کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ ایسا کہا ہے۔ جو بھی انہوں نے الفاظ استعمال کیے تھے (وہ بتائے)۔ آپؐ نے فرمایا سعدؓ نے درست نہیں کیا بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت قائم کرے گا اور کعبہ پر غلاف چڑھایا جائے گا۔ کوئی جنگ ونگ نہیں ہو گی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب أین رکز النبیؐ الرایۃ یوم الفتح حدیث 4280) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247)
اس واقعےکو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذرا تھوڑی سی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ جب لشکر مکےکی طرف بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ کسی سڑک کے کونے پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ وہ اسلامی لشکر اور اس کی فدائیت کو دیکھ سکیں۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے عرب کے قبائل گزرنے شروع ہوئے جن کی امداد پر مکہ بھروسا کر رہا تھا یعنی مکہ والے سمجھتے تھے یہ مدد کریں گے اور وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مگر آج وہ قبائل کفر کا جھنڈا نہیں لہرا رہے تھے، آج وہ اسلام کا جھنڈا لہرا رہے تھے اور ان کی زبان پر خدائے قادر کی توحید کا اعلان تھا۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جیسا کہ مکہ والے امید کرتے تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار تھے اور ان کی انتہائی خواہش یہی تھی کہ خدائے واحد کی توحید اور اس کی تبلیغ کو دنیا میں قائم کر دیں۔ لشکر کے بعد لشکر گزر رہا تھا کہ اتنے میں اَشْجَع قبیلے کا لشکر گزرا۔ اسلام کی محبت اور اس کے لیے قربان ہونے کا جوش ان کے چہروں سے عیاں تھا اور ان کے نعروں سے ظاہر تھا۔ ابوسفیان نے کہا عباس! یہ کون ہیں۔ عباسؓ نے کہا یہ اَشْجَع قبیلہ ہے۔ ابوسفیان نے حیرت سے عباسؓ کا منہ دیکھا اور کہا سارے عرب میں ان سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ عباسؓ نے کہا کہ یہ خدا کا فضل ہے کہ جب اس نے چاہا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت داخل ہو گئی۔ سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کا لشکر لیے ہوئے گزرے۔ یہ لوگ دو ہزار کی تعداد میں تھے اور سر سے پاؤں تک زرہ بکتروں میں چھپے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کی صفوں کو درست کرتے چلے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ قدموں کو سنبھال کر چلو تا کہ صفوں کا فاصلہ ٹھیک رہے۔ ان پرانے فداکارانِ اسلام کا جوش اور ان کا عزم اور ان کا ولولہ ان کے چہروں سے ٹپکا پڑتا تھا۔ ابوسفیان نے ان کو دیکھا تو اس کا دل دہل گیا۔ اس نے پوچھا عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے، عباسؓ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے لشکر میں جا رہے ہیں۔ ابوسفیان نے جواب دیا اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کس کو طاقت ہے۔ پھر وہ حضرت عباسؓ سے مخاطب ہوا اور کہا تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا میں سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے۔ عباسؓ نے کہا اب بھی تیرے دل کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ یہ بادشاہت نہیں ہے، یہ تو نبوت ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہاں ہاں اچھا پھر نبوت ہی سہی۔ جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا تو انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا۔ آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے۔ آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا آپؐ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے۔ ابھی ابھی انصار کے سردار سعدؓ اور اس کے ساتھی ایسا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بلند آواز سے یہ کہا ہے کہ آج لڑائی ہو گی اور مکہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے۔ یا رسول اللہؐ !آپؐ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ کیا آج آپؐ اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے۔ ابو سفیان کی یہ شکایت اور التجا سن کر وہ مہاجرین بھی تڑپ گئے جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوسفیان، سعدؓ نے غلط کہا ہے۔ آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک آدمی کو سعدؓ کی طرف بھجوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیسؓ کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا۔ اس طرح آپؐ نے جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے بیٹے کو دے دیا۔ اس طرح آپؐ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیسؓ پر پورا اعتماد تھا جو سعدؓ کے بیٹے تھے کیونکہ قیس نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں ایسے شریف تھے، ان کی شرافت کا یہ حال تھا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض دوست میرے واقف ہیں اور میری عیادت کے لیے نہیں آئے۔ ان کے دوستوں نے کہا کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیں۔ قیسؓ بڑے مخیر تھے اور لوگوں کی بڑی مدد کرتے تھے تو آپؓ ہر شخص کو اس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں۔ کسی نے مانگا قرضہ دے دیا اور شہر کے بہت سے لوگ آپؓ کے مقروض ہیں اور وہ اس لیے آپؓ کی عیادت کے لیے نہیں آئے کہ شاید آپؓ کو ضرورت ہو اس حالت میں اور آپؓ ان سے روپیہ مانگ بیٹھیں۔ جو قرض دیا ہوا ہے وہ واپس نہ مانگ لیں۔ آپؓ نے فرمایا اوہو، بڑا افسوس کا اظہار کیا کہ میرے دوستوں کو بلا وجہ یہ تکلیف ہوئی ہے۔ ان کو اگر یہ خیال آیا تو میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو، اعلان کر دو کہ ہر شخص جس پر قیسؓ کا قرضہ ہے وہ اسے معاف ہے۔ اس پر کہتے ہیں کہ اس قدر لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 341 تا 343)
غزوۂ حنین جس کا دوسرا نام غزوۂ ہوازن بھی ہے، حنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکہ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ایک گھاٹی ہے۔ غزوۂ حنین شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا تھا۔ جو اموالِ غنیمت اس جنگ میں حاصل ہوئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین میں تقسیم کر دیے۔ انصار نے اپنے دلوں میں اس بات کو محسوس کیا۔ اس کے متعلق ایک تفصیلی روایت مسند احمد بن حنبل میں اس طرح مذکور ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور دیگر قبائلِ عرب میں مال تقسیم فرمایا تو انصار کے حصے میں اس میں سے کچھ نہ آیا۔ انصار نے اس کو محسوس کیا اور ان میں اس کے متعلق باتیں ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم سے جا ملے ہیں، ہمیں بھول گئے۔ مہاجروں کو دے دیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! یہ قبیلہ یعنی انصار جو ہیں آپؐ کے متعلق اپنے نفسوں میں کچھ محسوس کر رہا ہے۔ آپؐ نے جو اپنی قوم اور مختلف قبائل عرب میں مالِ فَےتقسیم کیا ہے اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملا۔ آپؐ نے پوچھا اے سعؓ د! اس معاملے میں تم کس طرف ہو؟ تم اپنی بات کرو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنی قوم کا محض ایک فرد ہوں اور میری کیا حیثیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قوم کو اس احاطے میں اکٹھا کرو یعنی وہاں ایک بڑا احاطہ تھا، ایک جگہ تھی وہاں لے کے آؤ۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نکلے اور انہوں نے انصار کو اس احاطے میں اکٹھا کر لیا۔ کچھ مہاجرین بھی آ گئے۔ حضرت سعدؓ نے انہیں اندر آنے دیا اور کچھ اَور لوگ اندر آئے تو حضرت سعدؓ نے انہیں روک دیا۔ جب سب اکٹھے ہو گئے تو حضرت سعدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ انصار جمع ہو گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ اے گروہ ِانصار! کیا باتیں ہیں جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچ رہی ہیں، کہ تمہیں اس بات پر کچھ ناراضگی ہے کہ تمہیں مال نہیں ملا۔ کیا جب میں تمہارے پاس آیا تو تم گمراہی میں نہ پڑے ہوئے تھے کہ اللہ نے تمہیں ہدایت سے سرفراز فرمایا؟ تم مالی تنگ دستی کا شکار نہ تھے کہ اللہ نے تمہیں مال دار بنا دیا؟ تم ایک دوسرے کے دشمن نہ تھے کہ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ اللہ اور اس کا رسولؐ زیادہ احسان کرنے والا اور افضل ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! ہم آپؐ کو کیا جواب دیں جبکہ احسان اور فضل اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے۔ آپؐ نے فرمایا بخدا اگر تم چاہتے تو یہ کہہ سکتے تھے اور تمہاری وہ بات سچی ہوتی اور تمہاری تصدیق بھی ہو جاتی کہ آپؐ ہمارے پاس اس حال میں آئے تھے جب آپؐ کو جھٹلادیا گیا تھا۔ پس ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ کو آپؐ کے اپنوں نے چھوڑ دیا تھا تو ہم نے آپؐ کی مدد کی۔ آپؐ ہمارے پاس آئے کہ لوگوں نے آپؐ کو نکال دیا تھا تو ہم نے آپؐ کو پناہ دی۔ آپؐ کو ہم نے ایک بڑے کنبے والا پایا تو ہم نے آپؐ کے ساتھ مؤاسات قائم کی۔ اے انصار کے گروہ !کیا تم نے دنیا کے حقیر سے مال پر دکھ محسوس کیا ہے؟ پھر آپؐ نے یہ الفاظ فرمانے کے بعد کہا کہ تم یہ یہ جواب دے سکتے تھے۔ پھر فرمایا کہ اے انصار کے گروہ ! کیا تم نے دنیا کے حقیر مال پر دکھ محسوس کیا ہے کہ مَیں نے تمہیں نہیں دیا اور ان کو دے دیا جو میں نے اس قوم کی تالیفِ قلب کے لیے دیا ہے تا کہ وہ اسلام قبول کر لیں اور میں نے تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے۔ ان کی تالیفِ قلب کی ہے تا کہ اسلام قبول کر لیں اور مضبوط ہوں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے۔ اے انصار کے گروہ !کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے گھروں میں لوٹو، صلی اللہ علیہ وسلم۔ پھر آپؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔ اور اگر لوگ ایک وادی میں چل رہے ہوں اور انصار دوسری وادی میں چل رہے ہوں تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر۔ راوی کہتے ہیں اس پر وہ سب انصار رونے لگے جو وہاں موجود تھے حتیٰ کہ ان کی داڑھیاں ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور وہ کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم اور حصے کے لحاظ سے راضی ہیں یعنی جو بھی آپؐ نے تقسیم کی ہے اس پر راضی ہیں اور آپؐ ہمارے لیے کافی ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور لوگ بھی منتشر ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 192-193 مسند ابی سعید الخدریؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) (اٹلس سیرتِ نبوی صفحہ 408-409 مطبوعہ دار السلام الریاض 1424ھ) (السیرة الحلبیہ جلد3صفحہ163و175 باب غزوہ الطائف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حجة الوداع کے لیے مدینہ سے سفر کر کے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ حج پر پہنچے تو وہاں آپؐ کی سواری گم ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کی سواری ایک ہی تھی اور وہ حضرت ابو بکرؓ کے غلام کے پاس تھی جس سے رات کے وقت وہ گم ہو گئی۔ حضرت صَفْوان بن مُعَطَّلؓ قافلہ میں سب سے پیچھے تھے۔ وہ اپنے ہمراہ اس اونٹنی کو لے آئے اور سارا سامان بھی اس پہ موجود تھا۔ وہ اونٹنی جو گم گئی تھی اس کو لے آئے اور وہ سامان بھی اس پہ موجود تھا۔
حضرت سعد بن عبادہؓ نے جب یہ بات سنی تو اپنے بیٹے قیسؓ کے ہمراہ آئے۔ ان دونوں کے ساتھ ایک اونٹ تھا جس پر زادِ راہ تھا۔ سارا سامان سفر کا لدا ہوا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اس وقت اپنے گھرکے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی سامان والی سواری واپس لوٹا دی تھی یعنی اس وقت تک آپؐ کی وہ اونٹنی مل چکی تھی جو گمی تھی۔ جب سعدؓ آئے ہیں تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپؐ کی سامان والی سواری گم ہو گئی ہے۔ یہ ہماری سواری اس کے بدلے میں ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ وہ سواری ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یعنی وہ جو گمی تھی وہ مل گئی ہے۔ تم دونوں اپنی سواری واپس لے جاؤ۔ اللہ تم دونوں میں برکت ڈالے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 08 صفحہ 460 ذكر نزولہﷺ بالعرج، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) (کتاب المغازی جلد 3 صفحہ 1093 باب حجۃ الوداع مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)
حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ میرا بچہ حالتِ نزع میں ہے ہمارے پاس آئیں تو آپؐ نے کہلا بھیجا اور فرمایا کہ اللہ ہی کا ہے جو لے لے اور اسی کا ہے جو عنایت کرے اور ہر بات کا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔ اس لیے تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہو۔ انہوں نے پھر آپؐ کو بلابھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دی کہ ان کے پاس ضرور آئیں۔ آپؐ اٹھے اور آپؐ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادؓ ہ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور کئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ جب آپؐ پہنچے توبچہ اٹھا کر لایا گیا۔ وہ بچہ اس وقت دم توڑ رہا تھا اور ایسی ہی دم توڑنے کی آواز آ رہی تھی۔ عثمانؓ کہتے تھے کہ میرا خیال ہے اسامہؓ نے کہا کہ جیسے پرانی مشک ٹھکرانے سے آواز دیتی ہے یعنی ایسی آواز آ رہی تھی کہ بڑے بڑے سانس لے رہا تھا۔ بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ یہ کیا ہے! آپؐ نے جواب دیا یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے اور اللہ بھی اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز، باب قول النبیﷺ یعذب المیت ببکاء اھلہ علیہ …… الخ حدیث 1284) یہ کوئی جذباتی حالت ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کو کسی بیماری کی شکایت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ان سب کو اپنے ساتھ لے کر ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو گھر والوں کے جمگھٹ میں پایا۔ آپؐ نے فرمایا کیا یہ فوت ہو گئے؟ لوگ بیماری کی وجہ سے اکٹھے ہوئے تھے، شدید بیماری تھی۔ گھر والے ارد گرد اکٹھے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں یا رسول اللہؐ ! فوت نہیں ہوئے۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب گئے۔ ان کی حالت دیکھی تو آپؐ رو پڑے۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو دیے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ سنتے نہیں۔ دیکھو کہ اللہ آنکھ کے آنسو نکلنے سے عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کے غمگین ہونے پر بلکہ اس کی وجہ سے سزا دے گا یا رحم کرے گا اور آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور پھر فرمایا اور میّت کو بھی اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض حدیث 1304)
نوحہ کرنا جو ہے وہ غلط ہے۔ اس وقت ہو سکتا ہے کہ دیکھ کر ان کی ایسی حالت ہو یا آپؐ کی دعا کی کیفیت پیدا ہوئی ہو اس میں بھی آپؐ کو رونا آ گیا ہو لیکن باقیوں نے یہ سمجھا ہو کہ ان کا آخری وقت ہے اس لیے رونا شروع کر دیا۔ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ رونا منع نہیں ہے لیکن بری بات اور منع یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے ظاہر ہونے پر ناراض ہو جائے۔ پس آنسو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے نکلیں تو اس کا رحم جذب کرتے ہیں ورنہ اگر برا منا کر نکلیں اور اس پر نوحہ کیا جائے تو پھر یہ سزا مل جاتی ہے۔ بہرحال اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے جبکہ بیماری ان کی شدید تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ انصار میں سے ایک شخص آپؐ کے پاس آیا۔ اس نے آپؐ کو سلام کیا۔ پھر وہ انصاری پیچھے مڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصاری بھائی! میرے بھائی سعد بن عبادہؓ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون اس کی عیادت کرے گا۔ آپؐ اٹھے اور ہم آپؐ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے کچھ اوپر لوگ تھے۔ ہم نے نہ جوتے پہنے تھے نہ موزے، نہ ٹوپیاں تھیں نہ قمیض۔ یعنی بڑی جلدی میں آپؐ کے ساتھ ساتھ چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ ہم اس قدر زمین میں چلے یہاں تک کہ ہم ان کے یعنی سعد بن عبادہؓ کے پاس آئے۔ سارے لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے تھے وہ سب پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے وہ اصحابؓ جو آپؐ کے ساتھ تھے ان کے قریب آ گئے۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ اسی پہلے واقعہ کا اس روایت میں ذکر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز، باب فی عیادۃ المرضٰی (2138))
حضرت جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرامؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والدنے مجھے حریرہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ میں نے حریرہ تیار کیا۔ حریرہ مشہور غذا ہے جو آٹے اور گھی اور پانی سے بنتا ہے بلکہ (بعض نے کہا ہے کہ) آٹے اور دودھ سے بنتا ہے بہرحال یہ انہوں نے لغت حدیث میں سے جو (معنیٰ) نکالا ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں ان کے حکم کے مطابق وہ حریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھر میں تھے۔ آپؐ نے فرمایا اے جابرؓ ! کیا یہ گوشت ہے؟ میں نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہؐ ! یہ حریرہ ہے جو میں نے اپنے والد کے حکم سے بنایا ہے۔ پھر انہوں نے مجھے حکم دیا تو میں آپؐ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر میں واپس اپنے والد کے پاس آ گیا۔ میرے والدنے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ میں نے کہا جی۔ میرے والدنے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا کہا؟ میں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ اے جابر! کیا یہ گوشت ہے؟ میرے والدنے سن کر کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت کی خواہش ہو رہی ہو۔ والد صاحب نے بکری ذبح کی، اس کو بھونا اور مجھے حکم دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر آؤ۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے وہ بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ انصار کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے بالخصوص عبداللہ بن عَمرو بن حَرَام اور سعد بن عُبادہ کو۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 5صفحہ39-40 کتاب الاطعمۃ دارالفکر 2001ء) (فتح الباری کتاب الاطعمہ جلد 9 صفحہ 678 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) (جہانگیر اردو لغت صفحہ 649 مطبوعہ جہانگیر بکس لاہور) (Lexicon part 2 P: 539 London 1865)
حضرت ابواُسید سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجار ہیں۔ پھر بنو عبد اشھل۔ پھر بنوحارث بن خزرج۔ پھر بنو ساعِدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں بھلائی ہے۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہؓ بولے اور وہ اسلام میں اعلیٰ پایہ کے تھے۔ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے یعنی کہ اچھے اعلیٰ پائے کے تھے کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہم سے افضل قرار دیا ہے۔ اس پر ان سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو بھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے۔ (صحیح البخاری كتاب مناقب الأنصار باب منقبۃ سعد بن عبادہ حدیث 3807)
حضرت ابواُسید انصاریؓ گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے بہترین گھر بنو نجار ہیں۔ پھر بنو عبداشہل۔ پھر بنو حارث بن خزرج اور پھر بنو ساعدہ اور انصار کے سب گھروں میں بھلائی ہے۔ راوی ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابواُسیدؓ نے کہا کہ رسول اللہؐ سے یہ روایت کرنے پرمجھے متہم کیا جاتا ہے۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوتا تو ضرور اپنی قوم بنو ساعدہ سے شروع کرتا۔ یہ بات حضرت سعد بن عبادہؓ تک پہنچی تو ان پر بھی بڑی گراں گزری۔ پہلی بھی جو روایت ہے اس میں بھی ان کا اظہار یہ تھا کہ ہمیں انہوں نے کہا کہ ہمیں پیچھے کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہم چار میں سے آخری ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے یعنی سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ میرے لیے میرے گدھے پر زین کسو۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا، سعد بن عبادہؓ کے بھتیجے نے کہا کہ کیاآپؓ اس لیے جا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تردید کریں۔ جو آپؐ نے ترتیب بیان کی ہے اس کے بارے میں بلا وجہ جا کے پوچھیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔ کیا آپؓ کے لیے یہ کافی نہیں کہ آپؓ چار میں سے ایک ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ارادہ بدل دیا اور کہا اللہ اور اس کا رسولؐ زیادہ جانتے ہیں اور انہوں نے اپنے گدھے کی زین کھولنے کا حکم دیا اور وہ زین کھول دی گئی۔ یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فی خیر دور الانصار حدیث (6425))
ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے قابلِ تعریف بنا دے اور مجھے شرف اور بزرگی والا بنا دے۔ شرف اور بزرگی بغیر اچھے کاموں کے نہیں ہو سکتی۔ اچھے کام نہ ہوں تو پھر شرف بھی نہیں مل سکتا اور بزرگی بھی نہیں ہو سکتی اور اچھے کام بغیر مال کے نہیں ہو سکتے۔ اے اللہ! تھوڑا میرے لیے مناسب نہیں اور نہ ہی مَیں اس میں درست رہوں گا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ461 سعد بن عبادہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
بہرحال یہ دعا کرنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! اگر مَیں اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو غلط حالت میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ مَیں چار گواہ لے آؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر مَیں ہوں تو اس سے پہلے ہی جلدی سے تلوار کے ساتھ اس کا فیصلہ کردوں۔ کوئی گواہی تلاش نہیں کروں گا بلکہ قتل کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں سے کہا کہ سنو ! تمہارا سردار کیا کہتا ہے۔ وہ بہت غیور ہے اور فرمایا کہ مَیں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب اللعان حدیث (3763))
پھر اسی حوالے سے مسلم کی ہی ایک اَور روایت بھی ہے جو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا اگر مَیں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھوں تو اسے قتل کر دوں اور تلوار بھی چوڑے رخ سے نہیں دھار کے رخ سے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم سعدؓ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! مَیں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اللہ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائیوں کو منع فرمایا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں اور کوئی شخص بھی اللہ سے زیادہ غیرت مندنہیں اور اللہ سے بڑھ کر کوئی شخص معذرت کرنے کو پسندنہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند بھی نہیں اور اللہ جتنا معذرت کو پسند کرتا ہے، توبہ کو پسند کرتا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے کوئی شخص اس میں اللہ سے زیادہ بڑھ نہیں سکتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ بشارت بھی دیتے ہیں ڈراتے بھی ہیں۔ اور کوئی شخص اللہ سے بڑھ کر مدح کو پسندنہیں کرتا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب اللعان حدیث (3764))
اللہ تعالیٰ کی مدح، تعریف برائیوں سے بچنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے جنت کا بھی وعدہ کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے تو جلدی نہیں کرتا۔ انسان کہہ دے میں غیرت کھا گیا اور جلدی کی۔ توبہ کرنے والے کو معاف بھی فرماتا ہے اور صرف معاف ہی نہیں کرتا بلکہ نوازتا بھی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے قانون سے، آپؐ نے فرمایا آگے نہ بڑھو۔ جو اللہ تعالیٰ کے قانون ہیں اس کے اندر رہو۔
حدیث میں ایک روایت مسند احمد بن حنبل کی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا فلاں قبیلے کے صدقات کی نگرانی کرو لیکن دیکھنا قیامت کے دن اس حال میں نہ آنا کہ تم اپنے کندھے پر کسی جوان اونٹ کو لادے ہوئے ہو اور وہ قیامت کے روز چیخ رہا ہو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! پھر یہ ذمہ داری کسی اَور کے سپرد فرما دیجیے توآپؐ نے یہ کام ان کے سپردنہیں کیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 473 مسند سعد بن عبادہ حدیث 22828 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) یعنی نگرانی کا پھر حق ادا کرنا ہو گا۔ انصاف کرنا ہوگا اور کسی قسم کی خیانت نہیں ہو گی۔ اگر خیانت ہوئی، انصاف نہ ہوا، اس کا حق ادا نہ ہوا تو پھر یہ بہت بڑا گناہ ہے اور قیامت کے دن اس کا جواب دہ ہونا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں چھ انصار نے قرآن کریم جمع کیا تھا جن میں حضرت سعد بن عبادہ بھی شامل تھے۔ (اسد الغابہ، جلد 1صفحہ503، جاریۃ بن مجمع، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 2003ء)
حضرت مصلح موعودؓ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ
’’انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے ان کے نام یہ ہیں: عُبادہ بن صامتؓ۔ مُعاذؓ۔ مُجَمِّع بن حارِثہؓ۔ فَضَالہ بن عُبَیدؓ۔ مَسْلَمہ بن مُخَلَّدؓ۔ ابودَرْدَاءؓ۔ ابوزیدؓ۔ زید بن ثابتؓ۔ اُبَیّ بن کعبؓ اور سعد بن عبادہؓ۔ ام وَرَقَہؓ۔‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہؓ میں سے بہت سے قرآن کریم کے حافظ تھے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 430)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصار اپنے میں سے جن کو خلیفہ منتخب کرنا چاہتے تھے ان میں ان کا نام بھی خاص طور پر لیا جاتا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ انصار کا ان کو خلیفہ منتخب کرنے پر زور تھااور یہ قوم کے سردار بھی تھے اور جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب کیے گئے تو یہ اس وقت بلکہ اس سے پہلے ہی انصار کے کہنے پر کچھ متزلزل بھی ہو گئے تھے کہ ان کو ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور خلافت کے مقام کی اہمیت بھی اس حوالے سے بیان کی ہے۔ اس لیے مَیں اس بیان کو بڑا ضروری سمجھتا ہوں۔ وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ مصلح موعودؓ کے اس حوالے سے پہلے حدیث اور ایک تاریخی حوالہ بھی پیش کروں گا۔
حُمَید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت حضرت ابوبکرؓ مدینہ منورہ کے نواح میں تھے۔ جب وہ آئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر آپؐ کے چہرۂ مبارک کو چوما اور فرمایا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! آپؐ زندہ ہونے اور وفات یافتہ ہونے کی حالت میں کس قدر پاکیزہ تھے۔ پھر کہا کہ ربِّ کعبہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تیزی کے ساتھ سقیفہ بنو ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ دونوں وہاں پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے گفتگو شروع کی۔ آپؓ نے قرآنِ کریم میں انصار کی بابت جو کچھ نازل ہوا اس میں سے کچھ نہ چھوڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ سب بیان کیا۔ پھر آپؓ نے فرمایا تم لوگوں کو علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو مَیں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ پھر حضرت سعدؓ کو مخاطب کر کے حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اے سعد! تجھے علم ہے کہ تُو بیٹھا ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت کا حق دار قریش ہوں گے۔ لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو فاجر ہوں گے وہ قریش کے فاجروں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ آپؓ نے سچ کہا۔ ہم وزیر ہیں اور آپ لوگ امراء۔ یہ مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 01 صفحہ 158-159، مسند ابی بکر صدیق حدیث 18 مطبوعہ دار الحدیث قاھرہ 1994ء)
طبقات الکبریٰ میں اس موقعےکی تفصیل میں اس طرح لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت سعد بن عبادہؓ کی طرف پیغام بھجوایا کہ وہ آ کر بیعت کریں کیونکہ لوگوں نے بیعت کر لی ہے اور تمہاری قوم نے بھی بیعت کر لی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک میں اپنے ترکش میں موجود سارے تیر لوگوں کو نہ مار لوں یعنی بقول اِن کے انکار کیا، اور وہ لوگ جو میری قوم و قبیلہ میں سے میرے تابع ہیں ان کے ہمراہ تم لوگوں سے قتال نہ کر لوں۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ خبر موصول ہوئی تو بشیر بن سعدؓ نے کہا کہ اے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! انہوں نے انکار کیا ہے اور اصرار کیا یعنی انکار پر اصرار کر رہے ہیں۔ وہ آپؓ کی بیعت کرنے والے نہیں خواہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور وہ ہرگز قتل نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ ان کے ساتھ ان کی اولاد اور ان کے قبیلے کو قتل نہ کیا جائے۔ اور یہ لوگ ہرگز قتل نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ قبیلہ خزرج کو قتل نہ کیا جائے۔ اور خزرج کو ہرگز قتل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اَوس کو قتل نہ کیا جائے۔ لہٰذا آپؓ ان کی طرف پیش قدمی نہ کریں جبکہ اب لوگوں کے لیے معاملہ سیدھا ہو چکا ہے۔ وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی ان کی قوم میں سے اکثریت نے بیعت کر لی ہے۔ اگر انکار کیا ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ وہ ایک ایسا تنہا شخص ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بشیرؓ کی نصیحت کوقبول کرتے ہوئے حضرت سعدؓ کو چھوڑ دیا۔
پھر جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو ایک روز مدینہ کے راستے پر سعدؓ سے ملے تو آپؓ نے فرمایا۔ کہو اے سعد۔ سعدؓ نے کہا کہو اے عمرؓ۔ یہ آپس میں گفتگو ہو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم ویسے ہی ہو جیسے پہلے تھے؟ سعدؓ نے کہا ہاں مَیں ویسا ہی ہوں۔ خلافت آپؓ کو مل گئی ہے۔ ٹھیک ہےکہ خلافت تو مل گئی ہے آپؓ کو۔ بہت سارے لوگوں نے بیعت بھی کر لی ہے لیکن مَیں نے ابھی تک نہیں کی۔ پھر انہوں نے کہا کہ بخدا آپؓ کا ساتھی یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں آپؓ کی نسبت زیادہ محبوب تھا۔ یہ حضرت عمرؓ کو حضرت سعدؓ نے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ ہمیں آپؓ کی نسبت زیادہ محبوب تھے۔ پھر حضرت سعدؓ نے کہا کہ بخدا مَیں نے اِس حالت میں صبح کی ہے کہ مَیں آپؓ کی ہمسائیگی کو پسندنہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو اپنے پڑوسی کی مصاحبت کو ناپسند کرتا ہے تو وہ پھر اُس کے پاس سے منتقل ہو جائے۔ حضرت سعدؓ نے کہا مَیں یہ بھولنے والا نہیں یعنی مَیں یہ کروں گا۔ مَیں ایسی ہمسائیگی کی طرف منتقل ہونے والا ہوں جو اُن کے خیال میں آپؓ سے بہتر ہے۔ کچھ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حضرت سعدؓ نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آغاز میں ملک شام کی طرف ہجرت کی۔ طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث، سعد بن عباده، صفحہ312، داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت سعدؓ کے متعلق یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی۔ چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ
وَاتَّبَعَ الْقَوْمُ عَلَى الْبَیْعَۃِ، وَبَایَعَ سَعْدٌ کہ ساری قوم نے باری باری حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی اور حضرت سعدؓ نے بھی بیعت کی۔ یہ تاریخِ طبری کا حوالہ ہے۔ (تاریخ طبری جلد3 صفحہ 266، سنہ احدی عشرة ذكر الخبر عما جرى بين المهاجرين والأنصار فِي أمر الإمارة فِي سقيفة بني ساعدة، دار الفکر بیروت 2002)
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس میں بہت سے پہلو بیان ہو جاتے ہیں۔ خلافت کی بیعت بھی کیوں ضروری ہے، خلافت کا مقام کیا ہے اور حضرت سعدنے جو کچھ کیا اس کی کیا حیثیت ہے؟
آپؓ اپنے ایک خطبہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’قتل کے معنی قطع تعلق کے بھی ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب صحابہ میں خلافت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا۔ انصار کا خیال تھا کہ خلافت ہمارا حق ہے، ہم اہلِ بلد ہیں۔ کم سے کم اگر ایک مہاجرین میں سے خلیفہ ہو تو ایک انصار میں سے ہو۔‘‘ یعنی دو دو ہوں۔ ’’بنوہاشم نے خیال کیا کہ خلافت ہمارا حق ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے خاندان سے تھے۔ اور مہاجرین گو یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ قریش سے ہونا چاہیے کیونکہ عرب لوگ سوائے قریش کے کسی کی بات ماننے والے نہ تھے مگر وہ کسی خاص شخص کو پیش نہ کرتے تھے بلکہ تعین کو انتخاب پر چھوڑنا چاہتے تھے‘‘ کہ انتخاب کر لیتےہیں۔ ’’مسلمان جسے منتخب کر لیں وہی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ سمجھا جائے گا۔ جب انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تو انصار اور بنو ہاشم سب ان سے متفق ہو گئے مگر ایک صحابی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔ یہ وہ انصاری صحابی تھے جنہیں انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے تھے اس لیے شاید انہوں نے اس بات کو اپنی ہتک سمجھا یا یہ بات ہی ان کی سمجھ میں نہ آئی‘‘ جو بھی وجہ تھی ’’اور انہوں نے کہہ دیا کہ مَیں ابوبکرؓ کی بیعت کے لیے تیار نہیں ہوں۔ حضرت عمرؓ کا اس موقعے کے متعلق ایک قول بعض تاریخوں میں آتا ہے کہ آپؓ نے فرمایا اُقْتُلُوْا سَعْدًا۔ یعنی سعد کو قتل کر دو لیکن نہ انہوں نے خود ان کو قتل کیا نہ کسی اَور نے۔ بعض ماہرِ زبان لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی مراد صرف یہ تھی کہ سعدؓ سے قطع تعلق کر لو۔ بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ باقاعدہ مسجد میں آتے اور الگ نماز پڑھ کر چلے جاتے تھے اور کوئی صحابی ان سے کلام نہ کرتا تھا۔ پس قتل کی تعبیر قطع تعلق اور قوم سے جدا ہونا بھی ہوتی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 16 صفحہ 81-82، خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری 1935ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سعد بن عبادہؓ کے واقعے کی مزید تفصیل بیان فرماتے ہیں اور یہ پہلا اقتباس جو مَیں نے پڑھا ہے اس خطبے کے حوالے سے آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے پہلے ایک خطبے میں ایک انصاری صحابی کا ذکر کیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض انصار کی تحریک تھی کہ انصار میں سے خلیفہ مقرر کیا جائے لیکن جب مہاجرین نے اور خصوصاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو بتایا کہ اس قسم کا انتخاب کبھی بھی ملتِ اسلامیہ کے لیے مفیدنہیں ہو سکتا اور یہ کہ مسلمان کبھی اس انتخاب پر راضی نہیں ہوں گے یعنی انصار کو منتخب کرنے پہ تو پھر انصار اور مہاجر اس بات پر جمع ہوئے، اس بات پر متفق ہوئے کہ وہ کسی مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات پر اِن سب کا اتفاق ہوا۔ انصار پر تو اتفاق نہیں ہو سکتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے وضاحت فرمائی اور بعض اَور صحابہ نے وضاحت فرمائی کہ کیونکہ یہ مفیدنہیں ہو گا۔ بہرحال یہ فیصلہ ہوا کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہو اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اس وقت بتایا تھا کہ اُس وقت جب سعدؓ نے بیعت سے تخلّف کیا تھا، تھوڑا سا انقباض کیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ اُقْتُلُوْا سَعْدًا۔ یعنی سعد کو قتل کر دو مگر نہ تو انہوں نے سعدؓ کو قتل کیا اور نہ کسی اَور صحابی نے بلکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے۔ حضرت سعدؓ حضرت عمرؓ کی خلافت تک زندہ رہے جیسا کہ پہلے اقتباس بیان ہو چکا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں شام میں فوت ہوئے۔ ا نہوں نےہجرت کر لی تھی اور شام میں فوت ہوئے جس سے ائمہ سلف نے استدلال کیا ہے کہ قتل کے معنی یہاں جسمانی قتل نہیں بلکہ قطعِ تعلق کے ہیں اور عربی زبان میں قتل کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ اردو میں بے شک قتل کے معنی جسمانی قتل کے ہی ہوتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب قتل کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک معنی قطع تعلق کے ہیں اور لغت والوں نے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد قتل سے قتل نہیں بلکہ قطع تعلق تھا، ان کو چھوڑ دیا جائے، ان سے بات چیت بند کر دی جائے ورنہ اگر قتل سے مراد ظاہری طور پر قتل کر دینا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بہت جوشیلے تھے انہیں خود کیوں نہ قتل کر دیا یا صحابہؓ میں سے کسی نے کیوں انہیں قتل نہ کیا مگر جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف انہیں اس وقت قتل نہ کیا بلکہ اپنی خلافت کے زمانے میں بھی قتل نہ کیا اور بعض کے نزدیک تو وہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہے اور کسی صحابی نے ان پر ہاتھ نہ اٹھایا تو بہرحال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل سے مراد قطعِ تعلق ہی تھا۔ ظاہری طور پر قتل کرنا نہیں تھا اور گو وہ صحابی عام صحابہ سے الگ رہے۔ حضرت سعدؓ ان سے الگ ہو گئے لیکن کسی نے اُن پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔
پس حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے مثال دی تھی کہ رؤیا میں بھی اگر کسی کے متعلق قتل ہونا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے۔ اپنے ایک خطبہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ بہرحال آگے فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک دوست نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے اس خطبے کے بعد کہا کہ سعدؓ نے گوبیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا یعنی بیعت نہ ہونے کے باوجود بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں مشوروں میں شامل کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں اس شخص نے جو بات کی ہے حضرت سعدؓ کے متعلق اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں کہ یا تو میرے مفہوم کی تردید ہے یعنی حضرت مصلح موعودؓ لغت کی قتل کی جو تعریف بیان کر رہے ہیں یا تو وہ میرے مفہوم کی تردید کر رہا ہے یا یہ کہ یعنی کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا یا یہ کہ خلافت کی بیعت نہ کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ شخص یہی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر خلافت کی بیعت نہ کی جائے تو کوئی بڑا جرم نہیں ہے کیونکہ سعدؓ نے گو بیعت نہیں کی تھی مگر مشوروں میں شامل ہوا کرتے تھے۔ آپؓ فرماتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے کہ
تَا مَرْد سُخَن نَگُفْتَہ بَاشَد
عَیْب وہُنْرَشْ نَہُفْتَہ بَاشَد
انسان کے عیب و ہنر اس کی بات کرنے تک پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جب انسان بات کر دیتا ہے تو کئی دفعہ اپنے عیوب ظاہر کر دیتا ہے۔ خاموش ہو تو عیب چھپے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ بیوقوفوں والی باتیں کر دیتا ہے تو عیب ظاہر ہو جاتے ہیں۔ آپؓ کہتے ہیں کہ اس شخص نے جس نے یہ تعریف کی تھی کہ حضرت سعدؓ مشورے میں شامل ہوتے تھے یا حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ پہ تبصرہ کیا تھا، اس شخص کا بات کرنا بھی یہی معنی رکھتا ہے کہ یا تو وہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے یا اپنے علم کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ علم کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے کہ ہر عقل مند اِس کو سن کر سوائے مسکرا دینے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ صحابہ کے حالات کے متعلق اسلامی تاریخ میں تین کتابیں بہت مشہور ہیں اور تمام تاریخ جو صحابہ سے متعلق ہے انہی کتابوں میں چکر کھاتی ہے اور وہ کتابیں یہ ہیں کہ تہذیب التہذیب، اصابہ اور اُسُد الغابة۔ ان تینوں میں سے ہر ایک میں یہی لکھا ہے کہ سعد باقی صحابہ سے الگ ہو کے شام میں چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے اور بعض لغت کی کتابوں نے بھی قتل کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے ساٹھ، ستّر کے نام سعد ہیں۔ انہی میں سے ایک سعد بن ابی وقاصؓ بھی ہیں جو عشرۂ مبشرہ میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے کمانڈر اِن چیف مقرر تھے اور تمام مشوروں میں شامل ہوتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبے پہ یہ اعتراض کیا تھا اس نے کمی علم سے سعد کا لفظ سن کر یہ نہ سمجھا کہ یہ سعد اَور ہے اور وہ سعد اَور، بلکہ جھٹ میرے خطبے پہ تبصرہ کر دیا۔ یہ میں نے سعد بن ابی وقاصؓ کا ذکر نہ کیا تھا جو مہاجر تھے بلکہ میں نے جس کا ذکر کیا وہ انصاری تھے۔ ان دو کے علاوہ اَور بھی بہت سے سعد ہیں بلکہ ساٹھ، ستّر کے قریب سعد ہیں۔ جس سعد کے متعلق میں نے ذکر کیا ان کا نام سعد بن عبادہؓ تھا۔ عرب کے لوگوں میں نام دراصل بہت کم ہوتے تھے اور عام طور پر ایک ایک گاؤں میں ایک نام کے کئی کئی آدمی ہوا کرتے تھے۔ جب کسی کا ذکر کرنا ہوتا تو اُس کے باپ کے نام سے اس کا ذکر کرتے مثلاً صرف سعد یا سعیدنہیں کہتے تھے بلکہ سعد بن عُبادہؓ یا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے۔ پھر جہاں باپ کے نام سے شناخت نہ ہو سکتی وہاں ان کے مقام کا ذکر کرتے، جہاں مقام کے ذکر سے بھی شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے قبیلہ کا ذکر کرتے۔ چنانچہ ایک سعد کے متعلق تاریخوں میں بڑی بحث آئی ہے کیونکہ نام ان کا دوسروں سے ملتا جلتا تھا اس لیے مؤرخین ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثلاً ہماری مراد اَوسی سَعد سے ہے یا مثلاً خزرجی سَعد سے ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے صاحب جو ہیں یا تبصرہ کرنے والے ان صاحب نے معلوم ہوتا ہے کہ ناموں کے اختلاف کو نہیں سمجھا اور یونہی اعتراض کر دیا مگر ایسی باتیں انسانی علم کو بڑھانے والی نہیں ہوتیں بلکہ جہالت کا پردہ فاش کرنے والی ہوتی ہیں۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیں بنا سکتی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اِسی مسجد میں جہاں آپؓ خطبہ دے رہے تھے غالباً مسجد اقصیٰ ہے کہ مَیں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ سے سنا، آپؓ فرماتے تھے کہ تم کو معلوم ہے کہ پہلے خلیفہ کا دشمن کون تھا؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ قرآن پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا دشمن ابلیس تھا۔ یعنی آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا تو اس کا دشمن ابلیس تھا۔ اس کے بعد آپؓ نے فرمایا یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ میں بھی خلیفہ ہوں اور جو میرا دشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا، گو یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ مامور نہ ہو۔ حضرت آدمؑ مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے۔ حضرت داؤدؑ مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے۔ اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے۔ پھر تمام انبیاء مامور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے قائم کردہ خلیفہ بھی۔ جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک وہ خلفاء ہوتے ہیں جو کبھی مامور نہیں ہوتے۔ گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی بھی ضروری ہوتی ہے۔ ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحیٔ الٰہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ وحیٔ الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذِ وحیٔ الٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے یعنی جو وحی نبی پہ اتری ہے اس کی تنفیذ کرنے والا ہے۔ اور جو نظام نبی نے قائم کیا ہے اس کو چلانے کا مرکز ہے خلیفہ۔ اسی لیے واقف اور اہلِ علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمتِ کبریٰ حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمتِ صغریٰ۔ اسی مسجد میں (جہاں قادیان میں مصلح موعودؓ خطبہ فرما رہے ہیں کہ اسی مسجد میں) اسی منبر پر جمعہ کے ہی دن حضرت خلیفہ اوّلؓ سے میں نے سنا۔ آپؓ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے۔ اگر میرا کوئی ذاتی کام ہے اس میں کوئی عیب نکال لو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اطاعت سے باہر ہو گئے۔ کبھی نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے۔ وہ اطاعت جو خدا نے تم پر عائد کی ہے تم اس سے باہر نہیں ہو سکتے کیونکہ جس کام کے لیے میں کھڑا ہوا ہوں وہ اَور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے۔ اس لیے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے۔ تو انبیاء کے متعلق جہاں الٰہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں توحید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لیے بھی کہ وہ امّت کی تربیت کے لیے ضروری ہوتی ہے جیسے سجدۂ سہو کہ وہ بھول کے نتیجے میں ہوتا ہے مگر اس کی ایک غرض امّت کو سہو کے احکام کی عملی تعلیم دینا تھی۔ ایسی غلطی نبی بھی کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوئی اور سجدۂ سہو بھی آپؐ نے پھر ادا فرمایا۔ فرمایا کہ انبیاء کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور وہاں خلفاء کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے، انبیاء کے لیے تو ہو گیا کہ تمام اعمال خدا کی حفاظت میں ہیں لیکن خلفاء کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اُن کے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے جو نظامِ سلسلہ کی ترقی کے لیے ان سے سرزد ہوں گے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اور اسلام کی فتح کو اُس کی شکست میں بدل دینے والی ہو۔ وہ جو کام بھی نظام کی مضبوطی یعنی خلیفۂ وقت جو کام بھی نظام کی مضبوطی اور اسلام کے کمال کے لیے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہو گی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا ان کی اصلاح کا خود ذمہ دار ہو گا گویا نظام کے متعلق خلفاء کے اعمال کے ذمہ دار خلفاء نہیں بلکہ خدا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفاء خود قائم کیا کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے یعنی خلفاء غلطی نہیں کر سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یا تو انہی کی زبان سے یا عمل سے خدا تعالیٰ اُس غلطی کی اصلاح کرا دے گا یا اگر ان کی زبان یا عمل سے غلطی کی اصلاح نہ کرائے تو اِس غلطی کے بدنتائج کو بدل ڈالے گا یعنی اس کے نتائج پھر بدنہیں نکلیں گے۔
فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت چاہے کہ خلفاء کبھی کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جس کے نتائج بظاہر مسلمانوں کے لیے مضر ہوں اور جس کی وجہ سے بظاہر جماعت کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف جائے گی تو اللہ تعالیٰ نہایت مخفی سامانوں سے اس غلطی کے نتائج کو بدل دے گا اور جماعت بجائے تنزل کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی اور وہ مخفی حکمت بھی پوری ہو جائے گی جس کے لیے خلیفہ کے دل میں ذہول پیدا کیا گیا تھا یعنی کوئی بھول ہو گئی تھی یا غفلت ہو گئی تھی، وہ حکمت پوری ہو جائے گی۔ مگر انبیاء کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں یعنی عصمتِ کبریٰ بھی اور عصمتِ صغریٰ بھی۔ وہ تنفیذ ونظام کا بھی مرکز ہوتے ہیں اور وحی و پاکیزگیٔ اعمال کا بھی مرکز ہوتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر خلیفہ کے متعلق ضروری ہے کہ وہ پاکیزگیٔ اعمال کا مرکز نہ ہو۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے، ممکن ہےکہ پاکیزگیٔ اعمال سے تعلق رکھنے والے بعض افعال میں وہ دوسرے اولیاء سے کم ہو۔ پس جہاں ایسے خلفاء ہو سکتے ہیں جو پاکیزگیٔ اعمال کا مرکز ہوں اور نظامِ سلسلہ کا مرکز بھی، وہاں ایسے خلفاء بھی ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اور ولایت میں دوسروں سے کم ہوں لیکن انتظامی قابلیت، نظامی قابلیتوں کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھے ہوئے ہوں مگر ہرحال میں ہر شخص کے لیے ان کی اطاعت فرض ہو گی چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
اب جماعتی سیاست سے لوگ ایک دم چونک گئے ہوں گے۔ بعضوں کو خیال آیا ہو گا کہ یہ جماعتی سیاست کیا ہوئی؟ یہاں لفظ‘سیاست’سے مراد عمومی طور پر ہماری زبان میں، زبان میں کیا؟ ہمارے ہاں عام طور پر جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ منفی رنگ میں لیا جاتا ہے اور منفی رنگ میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ کچھ سیاست دانوں نے اس لفظ کو بدنام کر دیا ہے کہ جوڑ توڑ کرنا اور نقصان پہنچانا یا صحیح کام نہ کرنا لیکن حقیقت میں اس کا جو لغت میں مطلب ہے اس سے مراد یہ ہے کہ نظام چلانے کا طریق۔ صحیح رنگ میں نظام چلانا اس کو سیاست کہتے ہیں۔ پھر حکمتِ عملی سے کام کرنا یہ ہے اس کا مطلب۔ برائیوں کو روکنے کے لیے نظام کو قائم کرنا یہ ہے اس کا مطلب۔ عقل اور حکمت سے کام کو چلانا۔ بین الاقوامی معاملات کو صحیح رنگ میں ادا کرنے کی صلاحیت ہونا یہ اصل سیاست ہے۔ گویا تمام مثبت باتیں اس لفظ کا مطلب ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم اصلی معنوں کو بھول کر سیاست دانوں کے عمل کی وجہ سے اور اپنی ہی غلط حرکتوں کی وجہ سے منفی مطلب لیتے ہیں لیکن بہرحال یہاں حضرت مصلح موعودؓ نے جو یہ لفظ سیاست استعمال کیا ہے وہ مثبت رنگ میں استعمال کیا ہے اور وہ ساری وہ باتیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ نظام کو چلانے کے لیے جو عقل اور حکمت اور دانائی اور صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ فرمایا کہ چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لیے خلفاء کے متعلق غالب پہلو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نظامی پہلو کو برتر رکھنے والے ہوں۔ نظامی پہلو کو سب سے اوپر رکھیں۔ گو ساتھ ہی یعنی یہاں آپؓ نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی۔ گو ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے استحکام اور اس کے مفہوم کے قیام کو بھی مدّنظر رکھیں، نظامِ جماعت چلانا بھی فرض ہے خلیفۂ وقت کا اور ساتھ ہی ان کے لیے دین کے استحکام اور اس کے قیام کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں خلافت کا ذکر کیا وہاں بتایا ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ خدا ان کے دین کو مضبوط کرے گا اور اسے دنیا پر غالب کرے گا۔
پس جو دین خلفاء پیش کریں وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے مگر یہ حفاظتِ صغریٰ ہوتی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ جزئیات میں وہ غلطی کر سکتے ہیں اور خلفاء کا آپس میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے مگر وہ نہایت ادنیٰ چیزیں، معمولی چیزیں ہوتی ہیں جیسے بعض مسائل کے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اختلاف رہا بلکہ آج بھی امتِ محمدیہ ان مسائل کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار نہیں کر سکی مگر یہ اختلاف صرف جزئیات میں ہوتا ہے۔ اصولی امور میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہو گا بلکہ اس کے برعکس ان میں بھی اتحاد ہو گا کہ وہ یعنی خلفاء دنیا کے ہادی اور رہنما اور اسے روشنی پہنچانے والے ہوں گے۔ پس یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص باوجود بیعت نہ کرنے کے اس مقام پر رہ سکتا ہے جس مقام پر بیعت کرنے والا ہو درحقیقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا شخص سمجھتا ہی نہیں کہ بیعت اور نظام کیا چیز ہے۔
مشورے کے متعلق بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ایکسپرٹ اور ماہر ِفن خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے مشورہ لے لیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقدمے میں ایک انگریز وکیل کیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آپؑ نے امور ِنبوت میں اس سے مشورہ لیا۔ جنگِ احزاب ہوئی تو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ تمہارے ملک میں جنگ کے موقعے پر کیا کیا جاتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں تو خندق کھود لی جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا یہ بہت اچھی تجویزہے۔ چنانچہ خندق کھودی گئی اور اسی لیے اسے غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے مگر باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ سلمان فارسیؓ فنونِ جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ماہر تھے۔ انہیں فنونِ جنگ میں مہارت کا وہ مقام کہاں حاصل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیے وہ کب حضرت سلمان فارسیؓ نے کیے بلکہ خلفاء کے زمانے میں بھی انہیں یعنی حضرت سلمان فارسیؓ کو کسی فوج کا کمانڈر اِن چیف نہیں بنایا گیا حالانکہ انہوں نے لمبی عمر پائی تھی۔ تو ایک ایکسپرٹ خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ آپؓ پھر اپنا بیان فرماتے ہیں کہ مَیں بیمار تھا تو انگریز ڈاکٹروں سے بعض مشورے لے لیتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلافت میں بھی مَیں نے ان سے مشورہ لیا ہے یا ان سے مشورہ لیتا ہوں یا یہ کہ مَیں انہیں اسی مقام پر سمجھتا ہوں جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ کو سمجھتا ہوں۔ صحابہؓ سے مشورہ لیتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر سے مشورہ لینا اور صحابہ سے مشورہ لینا ایک بات ہے۔ صحابہؓ کا مقام بہرحال بلند ہے۔ فرمایا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ مَیں نے طب میں مشورہ لیا۔ ایک خاص فیلڈ، ایک خاص شعبہ ہے اس میں مشورہ لیا یا کسی خاص بات کے لیے مشورہ لیا۔ پس فرض کرو کہ سعد بن عبادہؓ سے کسی دنیوی امر میں جس میں وہ ماہر ِفن ہوں مشورہ لینا ثابت بھی ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا، تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے۔ مگر ان سے متعلق تو کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں ذکر آتا ہو کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے بلکہ مجموعی طور پر روایات یہی بیان کرتی ہیں کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے تھے اور صحابہ پر یہ اثر تھا کہ وہ اسلامی مرکز سے منقطع ہو چکے ہیں۔ اسی لیے ان کی وفات پر صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک ان کی موت کو بھی اچھے رنگ میں نہیں سمجھا گیا کیونکہ یوں تو ہر ایک کو فرشتہ ہی مارا کرتا ہے مگر ان کی وفات پر خاص طور پر کہنا کہ انہیں فرشتوں نے یا جنّوں نے مار دیا، بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک وفات ایسے رنگ میں ہوئی کہ گویا خداتعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فعل سے اٹھا لیا کہ وہ شِقاق کا موجب نہ ہوں یعنی بہرحال بدری صحابہ میں سے تھے تو کسی قسم کے نِفاق یا کوئی اَور مخالفت یا اَور کوئی ایسی بات کا موجب نہ ہوں جس سے پھر ان کا وہ مقام گرتا ہو لیکن بہرحال وہ علیحدہ ہو گئے۔
یہ بیان کرنے کے بعد آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کی وہ عزت صحابہؓ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اُس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہیے تھے جو کبھی انہوں نے حاصل کیا تھا۔ اور یہ کہ صحابہؓ ان سے خوش نہیں تھے ورنہ وہ کیونکر کہہ سکتے تھے کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا بلکہ ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ ان کی وفات پر کہے گئے ہیں جنہیں میں اپنے منہ سے کہنا نہیں چاہتا۔
پس یہ خیال کہ خلافت کی بیعت کے بغیر بھی انسان اسلامی نظام میں اپنے مقام کو قائم رکھ سکتا ہے واقعات اور اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور جو شخص اس قسم کے خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بیعت کا مفہوم ذرہ بھی سمجھتا ہو۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 95 تا 101، خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1935ء)
حضرت سعد بن عبادہؓ کی وفات حوران ملکِ شام میں ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کے اڑھائی سال کے بعد ہوئی تھی۔ علامہ ابنِ حجر عسقلانی کے مطابق ان کی وفات شام کے شہر بُصریٰ میں ہوئی تھی۔ یہ شام کا پہلا شہر تھا جو مسلمانوں نے فتح کیا تھا۔ مدینہ میں ان کی موت کا پتا نہیں لگا، پھر کس طرح علم ہوا؟یہ روایت آتی ہے یہاں مدینہ میں اس کا علم اس وقت ہوا کہ جب بِئْرِ مَنَبِّہْ یا بِئْرِسَکَنْ کے کنویں تھے ان میں دوپہر کی سخت گرمی میں چھلانگیں لگانے والے لڑکوں میں سے ایک نے کنویں میں سے کسی کویہ کہتے ہوئے سنا کہ
قَدْ قَتَلْنَا سَیِّدَ الْخَزْرَجِ سَعْدَ بْنَ عُبَادَہ
وَرَمَیْنَاہُ بِسَھْمَیْنِ فَلَمْ نُخْطِ فُؤَادَہ
کہ ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہؓ کو قتل کر دیا۔ ہم نے اسے دو تیر مارے ہم نے اس کے دل پر نشانہ لگانے سے خطا نہ کیا۔ لڑکے ڈر گئے اور لوگوں نے اس دن کو یاد رکھا۔ لوگوں نے اسے وہی دن پایا جس روز حضرت سعدؓ کی وفات ہوئی تھی۔ سعدؓ بیٹھے پیشاب کر رہے تھے کہ انہیں قتل کر دیا گیا اور وہ اسی وقت وفات پا گئے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دَورِ خلافت میں ہوئی۔ ان کی وفات کے سال میں اختلاف ہے۔ بعض روایات کے مطابق 14؍ ہجری میں اور بعض کے مطابق 15؍ہجری میں اور بعض کے مطابق وفات 16؍ ہجری میں ہوئی۔ حضرت سعدؓ کی قبر دمشق کے قریب نشیبی جانب واقع ایک گاؤں مَنِیْحَہْ میں ہے۔ طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3، صفحہ463 سعد بن عباده، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2012ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد03صفحہ56 سعد بن عبادہ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الثانی صفحہ 164 سعد بن عبادہ داراکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)