حضرت سعد بن مُعاذؓ
حضرت سعد بن مُعاذؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ اَوس کی شاخ بنو عَبْدُالْاَشْہَل سے تھا اور آپ قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ آپؓ کے والد کا نام معاذ بن نعمان تھا اور والدہ کا نام کَبْشَہؓ بنتِ رَافِع تھا جو صحابیہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔ حضرت سَعد بن مُعاذؓ کی کنیت ابو عمَرو تھی۔ حضرت سَعد بن مُعاذؓ کی بیوی کا نام ہِندؓ بنت سِمَاکؓ تھا جو صحابیہ تھیں۔ حضرت ہندؓ سے حضرت سَعد بن مُعاذؓ کی اولاد میں عَمرو اور عبداللہ تھے۔ حضرت سَعد بن مُعاذؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیر نے حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے ستّر صحابہ سے پہلے مدینہ آ گئے تھے۔ ان کو مدینہ بھجوایا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے اور انہیں قرآن پڑھ کر سناتے۔ جب حضرت سَعد بن مُعاذؓ نے اسلام قبول کیا تو بنو عبدالاشہل سے کہا کہ مجھ پر حرام ہے کہ مَیں تمہارے مردوں اور عورتوں سے کلام کروں یہاں تک کہ تم اسلام قبول کر لو۔ چنانچہ اس قبیلے کے سب افرادنے اسلام قبول کر لیا اور انصار میں سے بنو عبدالاشہل کا گھرانہ وہ پہلا گھرانہ تھا جس کے سب مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا۔
حضرت سَعد بن مُعاذؓ حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ اور حضرت اسعد بن زُرارہؓ کو اپنے گھر لے آئے۔ مُصْعَب بن عُمَیرؓ اور اَسْعَد بن زُرَارہؓ دونوں آدمیوں کو لے آئے۔ پھر وہ دونوں حضرت سَعد بن مُعاذؓ کے گھر میں ہی لوگوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ حضرت سَعد بن مُعاذؓ اور حضرت اَسْعَد بن زُرَارہؓ خالہ زاد بھائی تھے اور حضرت سَعد بن مُعاذؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیر ؓ نے بنو عبدالاشہل کے بت توڑے تھے۔ ایک ہی خاندان کے تھے۔ اس لیے جب سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا تو انہوں نے ان کے بت توڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کی مؤاخات حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے کی تھی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ کی مؤاخات حضرت ابوعُبَیدہ بِن الجَرَّاحؓ سے کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ320-321 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 461 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت2003ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد03صفحہ70 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
حضرت سَعد بن مُعاذؓ کے قبولیت اسلام کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں جو لکھا ہے وہ یہ ہے۔ لکھتے ہیں کہ
بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جاوے تا کہ وہ ہمیں وہاں دین سکھائے ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےمُصْعَب بن عُمَیرؓ کو جو قبیلہ عبدالدَّار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ حضرت مُصْعَب بن عُمَیرؓ کو بھیج دیا۔ اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مُقری کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھا کیونکہ یہی تبلیغِ اسلام کا بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ مُصْعَب بھی جب مبلغ بن کے یثرب میں گئےتو اسی وجہ سے مُقری کے نام سے مشہور ہو گئے۔
مُصْعَب بن عُمَیرؓ نے مدینہ پہنچ کر اَسْعَد بن زُرَارَہؓ کے مکان پر قیام کیا۔ غالباً اس کا کچھ حصہ مَیں مُصْعَب بن عُمَیرؓ کے ذکر میں بھی بتا چکا ہوں۔ بہرحال یہاں بھی یہ ذکر ہے۔ انہوں نے اَسْعَد بن زُرَارَہؓ کے مکان پر قیام کیا جو مدینے میں سب سے پہلے مسلمان تھے۔ یہ اَسْعَد بن زُرَارہؓ ویسے بھی ایک نہایت مخلص اور بااثر بزرگ تھے اور اسی مکان کو اپنا تبلیغی مرکز بنایا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ اور چونکہ مدینے میں مسلمانوں کو اجتماعی زندگی نصیب تھی اور تھی بھی نسبتاً امن کی زندگی، اس لیے اَسْعَد بن زرَارہؓ کی تجویز پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَب بن عُمَیرؓ کو جمعے کی نماز کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح مسلمانوں کی اشتراکی زندگی کا آغاز اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا۔ جمعہ باقاعدہ وہاں پڑھا جانے لگا اور اسلام کا چرچا بھی ہونے لگا اور اَوس اور خزرج بڑی سرعت کے ساتھ مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ بعض صورتوں میں تو ایک قبیلے کا قبیلہ ایک دن میں ہی سب کا سب مسلمان ہو گیا۔ چنانچہ بنو عبدالاشہل کا قبیلہ بھی اسی طرح ایک ہی وقت میں اکٹھا مسلمان ہوا تھا۔ یہ قبیلہ انصار کے مشہور قبیلہ اوس کا ایک ممتاز حصہ تھا اور اس کے رئیس کا نام سَعد بن مُعاذؓ تھا جو صرف قبیلہ بنوعبدالاشہل کے ہی رئیس اعظم نہیں تھے بلکہ تمام قبیلہ اوس کے سردار تھے۔
جب مدینہ میں اسلام کا چرچا ہوا تو سَعد بن مُعاذؓ کو یہ بُرا معلوم ہوا اور انہوں نے اسے روکنا چاہا۔ جب سَعد بن مُعاذؓ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور جب اسلام مدینے میں پھیلنا شروع ہوا یہ قبیلے کے رئیس تھے تو ان کو بہت برا لگا۔ مگر اَسْعَد بن زُرَارَہؓ سے ان کی بہت قریب کی رشتہ داری تھی ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے اور اسعد مسلمان ہو چکے تھے اس لیے سَعد بن مُعاذؓ خود براہِ راست دخل دیتے ہوئے جھجکتے تھے۔ رکتے تھے کہ آپس میں رشتہ داریوں میں کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو جائے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ایک دوسرے رشتہ دار اُسید بن الحضیر سے کہاکہ اَسْعَد بن زُرَارہؓ کی وجہ سے مجھے تو کچھ حجاب ہے مگر تم جاکر مُصْعَب کو روک دو کہ ہمارے لوگوں میں یہ بے دینی نہ پھیلائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے جو مبلغ بھیجے تھے ان کو جاکے روکو کہ یہ دین ہمارے شہر میں نہ پھیلائیں اور اسعدؓ سے بھی کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں ہے۔ اُسَید جو تھے وہ قبیلہ بنو اَشْہَل کے ممتاز رؤسا میں سے تھے۔ حتی کہ ان کا والد جنگِ بُعاث میں تمام اوس کا سردار رہ چکا تھا۔ جنگ بُعَاث جو ہے اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ یہ جنگ اسلام سے قبل مدینے کے دو قبائل اوس اور خزرج کے درمیان ہوئی تھی۔
بہرحال سَعد بن مُعاذؓ کے بعد اُسَید بن حُضَیر ؓ کا اپنے قبیلہ پر بہت اثر تھا۔ چنانچہ سعدؓ کے کہنے پر وہ مُصْعَب بن عُمَیرؓ اور اَسْعَد بن زرَارہؓ کے پاس گئے اور مصعبؓ سے مخاطب ہو کر غصہ کے لہجہ میں کہا۔ تم کیوں ہمارے آدمیوں کو بے دین کرتے پھرتے ہو۔ اس سے باز آ جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔ پیشتر اس کے کہ مصعبؓ کچھ جواب دیتے اسعدؓ نے آہستگی سے مصعبؓ سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے ایک بااثر رئیس ہیں ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا۔ چنانچہ مصعبؓ نے بڑے ادب اور محبت کے رنگ میں اسیدؓ سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں بلکہ مہربانی فرما کر تھوڑی دیر تشریف رکھیں، ٹھنڈے دل سے ہماری بات سن لیں اور اس کے بعد کوئی رائے قائم کریں۔ اُسَیدؓ اس بات کو معقول سمجھ کر بیٹھ گئے اور مصعبؓ نے انہیں قرآن شریف سنایا اور بڑی محبت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اُسیدؓ پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گئے اور پھر کہنے لگے کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا جس نے مجھے بھیجا ہے۔ تم ٹھہرو میں اسے بھی یہاں بھیجتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسید اٹھ کر چلے گئے اور کسی بہانہ سے سَعد بن مُعاذؓ کو مُصْعَب بن عُمَیرؓ اور اَسْعَد بن زُرَارہؓ کی طرف بھجوا دیا۔ سَعد بن مُعاذؓ آئے اور بڑے غضبناک ہو کر اَسْعَد بن زُرَارہؓ سے کہنے لگے کہ دیکھو اسعد! تم اپنی قرابت داری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو۔ میری جو تمہارے سے رشتہ داری ہے اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر مصعبؓ نے جو مبلغ تھے اور مکہ سے آئے ہوئے تھے، اسی طرح نرمی اور محبت کے ساتھ ان کو ٹھنڈا کیا۔ حضرت مصعبؓ نے بڑی محبت سے ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ذرا تھوڑی دیر تشریف رکھ کر میری بات سن لیں اور پھرا گر اس میں کوئی چیز قابل اعتراض ہو تو بے شک ردّ کر دیں۔ سعدنے کہا ہاں یہ مطالبہ معقول ہے اور اپنا نیزہ ٹیک کر بیٹھ گئے۔ نیزہ ان کے ہاتھ میں تھا اور اکثر جو تھے وہ اس طرح ہی ہتھیار لے کے پھرا کرتے تھے۔ اور مصعبؓ نے اسی طرح پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر اپنے دلکش رنگ میں اسلامی اصول کی تشریح کی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں ابھی زیادہ دیرنہیں گزری تھی کہ یہ بت بھی رام تھا۔ یعنی دل ان کا نرم ہو گیا اور ان پر بھی اسلام کی تعلیم کا اثر ہو گیا۔ چنانچہ سعدؓ نے مسنون طریق پر غسل کر کے کلمہ شہادت پڑھ دیا اور پھر اس کے بعد سعدؓ اور اُسَید بن حُضَیر ؓ دونوں مل کر اپنے قبیلہ والوں کی طرف گئے اور سعدؓ نے ان سے اپنے قبیلے والوں سے مخصوص عربی انداز میں پوچھا کہ اے بنی عبدالاشہل تم مجھے کیسا جانتے ہو؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے سردار اور سردار ابن سردار ہیں اور آپ کی بات پر ہمیں کامل اعتماد ہے۔ سعدؓ نے کہا تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جب تک تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان نہ لاؤ۔ اسی وقت تبلیغ بھی شروع کر دی۔ اس کے بعد سعدؓ نے انہیں اسلام کے اصول سمجھائے یعنی اپنے قبیلے والوں کو اسلام کے اصول سمجھائے۔ تعلیم دی اور کہتے ہیں کہ ابھی اس دن پر شام نہیں آئی تھی اور دن ختم نہیں ہوا تھا کہ شام سے پہلے پہلے ہی تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا اور سعدؓ اور اسیدؓ نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قوم کے بت نکال کر توڑے۔
سَعد بن مُعاذؓ اور اُسَید بن حُضَیر ؓ جو اس دن مسلمان ہوئے تھے دونوں چوٹی کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور انصار میں تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ لارَیب ان کا بہت ہی بلند مقام تھا۔ کوئی شک نہیں اس میں کہ ان کا بہت بلند مقام تھا۔ بالخصوص سَعد بن مُعاذؓ کو تو انصارِ مدینہ میں وہ پوزیشن حاصل تھی جو مہاجرین مکہ میں حضرت ابو بکرؓ کو حاصل تھی۔ یہ نوجوان نہایت درجہ مخلص، نہایت درجہ وفادار اور اسلام اور بانی اسلامؐ کا ایک نہایت جاں نثار عاشِق نکلا اور چونکہ وہ اپنے قبیلے کا رئیس اعظم بھی تھا اور نہایت ذہین تھا۔ اسلام میں اسے وہ پوزیشن حاصل ہوئی جو صرف خاص بلکہ اَخَصّ صحابہ کو حاصل تھی، بہت ہی خاص صحابہ کو وہ حاصل تھی اور لارَیب اس کی جوانی کی موت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ سعدؓ کی موت پر تو رحمٰن کا عرش بھی حرکت میں آگیا ہے ایک گہری صداقت پر مبنی تھا۔ ان کی جوانی میں موت ہو گئی تھی۔
غرض اس طرح سرعت کے ساتھ اوس اور خزرج میں اسلام پھیلتا گیا۔ یہود خوف بھری آنکھ کے ساتھ یہ نظارہ دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ224تا 227) (فرہنگ سیرت صفحہ60 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کتاب سیرت خاتم النبیینؐ میں مزید ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ میں تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ قریش مکہ کی طرف سے عبداللہ بن ابی بن سلول رئیس قبیلہ خزرج اور اس کے مشرک رفقاء کے نام، مکہ والوں کی طرف سے ایک تہدیدی خط آیا کہ تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پناہ سے دستبردار ہوجاؤ ورنہ تمہاری خیر نہیں ہے۔ چنانچہ اس خط کے الفاظ یہ تھےکہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپناہ دی ہے اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یاتو تم اس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے خلاف جنگ کرو یا کم از کم اسے اپنے شہرسے نکال دو ورنہ ہم اپنا سارا لاؤ لشکر لے کر تم پر حملہ آور ہوجائیں گے اور تمہارے سارے مردوں کو تہ تیغ کردیں گے اور تمہاری عورتوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے لیے جائز کرلیں گے۔
جب مدینہ میں یہ خط پہنچا توعبداللہ اور اس کے ساتھی جو پہلے سے ہی دل میں اسلام کے سخت دشمن ہورہے تھے۔ ان کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف، اسلام کے خلاف کینےپنپ رہے تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے تیاری شروع کر دی، تیار ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی توآپؐ فوراً ان لوگوں سے ملے اور ان لوگوں کے پاس گئے۔ ان کو، عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کوسمجھایا کہ میرے ساتھ جنگ کرنے میں تمہارا اپنا ہی نقصان ہے کیونکہ تمہارے ہی بھائی بند تمہارے مقابلے میں ہوں گے۔ یہ لوگ جو مسلمان ہوئے ہیں یہ تمہارے قبیلے کے لوگ ہیں، تمہارے شہر کے لوگ ہیں اور جب جنگ کرو گے تو یہی لوگ میری طرف سے تمہارے خلاف لڑیں گے۔ یعنی اوس اور خزرج کے مسلمانوں نے بہرحال میرا ساتھ دینا ہے۔ آپؐ نےانہیں یہ فرمایا۔ پھر آپؐ نے فرمایا پس میرے ساتھ جنگ کرنے کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ تم لوگ اپنے ہی بیٹوں اور بھائیوں اور باپوں کے خلاف تلوار اٹھاؤ۔ اب تم خود سوچ لو کہ یہ ٹھیک ہے۔ عبداللہ اور اس کے ساتھیوں کو جن کے دلوں میں ابھی تک جنگ بُعاث کی تباہی کی یاد تازہ تھی۔ آپس میں یہ لڑتے رہے تھے۔ اس جنگ سے بڑی تباہی پھیلی تھی۔ ان کو یہ بات سمجھ آگئی کہ دوبارہ آپس میں ہی لڑناپڑے گا اور وہ اس ارادے سے باز آ گئے۔
جب قریش کو اس تدبیر میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے کچھ عرصے کے بعد اسی قسم کا ایک خط مدینے کے یہود کے نام بھی ارسال کیا۔ دراصل کفار مکہ کی غرض یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو اسلام کے نام ونشان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاوے۔ دنیا سے اس کا نام ہی ختم کر دیا جائے۔ مسلمان ان کے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ گئے۔ جب حبشہ کی پہلی ہجرت ہوئی تھی تو وہاں انہوں نے، کافروں نے ان کا پیچھا کیا۔ تو ہمیشہ پہلے دن سے ہی یہی کوشش کی تھی اور اس بات کی کوشش میں اپنی انتہائی طاقت صرف کردی کہ نیک دل نجاشی ان مظلوم غریب الوطنوں کو مکہ والوں کے حوالے کر دے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ آگئے توقریش نے آپ کا تعاقب کرکے آپ کوگرفتار کرلینے میں بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ پوری کوشش کی۔ ہر موقع پر انہوں نے کوشش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یا اسلام کو کسی طرح ختم کیا جائے اور اب جب انہیں یہ علم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب مدینہ پہنچ گئے ہیں اور وہاں اسلام سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے توانہوں نے یہ تہدیدی خط بھیج کر مدینہ والوں کو آپؐ کے ساتھ جنگ کرکے اسلام کو ملیامیٹ کردینے یا آپؐ کی پناہ سے دستبردار ہوکرآپؐ کومدینہ سے نکال دینے کی تحریک کی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ یہ خط جو لکھا تھا تو قریش کے اس خط سے عرب کی اس رسم پربھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ اپنی جنگوں میں اپنے دشمنوں کے ساتھ دشمن کے سارے مردوں کو قتل کرکے ان کی عورتوں پر قبضہ کرلیا کرتے تھے اور پھر ان کو اپنے لیے جائز سمجھتے تھے اور نیز یہ کہ مسلمانوں کے متعلق ان کے ارادے اس سے بھی زیادہ خطرناک تھے کیونکہ جب یہ سزا انہوں نے مسلمانوں کے پناہ دینے والوں کو دینی تھی اور یہ ان کے لیے تجویز کی تھی کہ ہم تمہارے مردوں کو قتل کر دیں گے اور عورتوں کو اپنے لیے جائز کر لیں گے توخود مسلمانوں کے لیے تو یقینا ًوہ اس سے بھی زیادہ سخت ارادے رکھتے ہوں گے۔ بہرحال قریش مکہ کا یہ خط ان کے کسی عارضی جوش کا نتیجہ نہیں تھابلکہ مستقل طورپر اس بات کاتہیہ کر چکے تھے کہ مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دینا۔ ان کو چین نہیں لینے دیں گے اور اسلام کو دنیا سے مٹا کر چھوڑیں گے۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے۔
لکھتے ہیں کہ یہ تاریخی واقعہ مکہ کے خونی ارادوں کا پتہ دے رہا ہے۔ وہ واقعہ اس طرح ہے جس کی بخاری میں روایت آتی ہے کہ ہجرت کے کچھ عرصہ بعد سَعد بن مُعاذؓ جو قبیلہ اوس کے رئیس اعظم تھے اور مسلمان ہو چکے تھے عمرہ کے خیال سے مکہ گئے اور اپنے زمانہ جاہلیت کے دوست، پرانے زمانے میں، جاہلیت کے زمانے میں امیہ بن خَلَف رئیس مکہ ان کا دوست تھا۔ وہ اس کے پاس جا کے ٹھہرے۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اکیلے عمرہ ادا کرنے، طواف کرنے گئے تو مکہ والے ان کے ساتھ ضرور چھیڑ چھاڑ کریں گے۔ اس لیے انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لیے امیہ سے کہا کہ میں کعبۃاللہ کاطواف کرنا چاہتا ہوں۔ تم میرے ساتھ ہوکرایسے وقت میں مجھے طواف کرا دو جبکہ میں علیحدگی میں امن کے ساتھ اس کام سے فارغ ہو کر اپنے وطن واپس چلا جاؤں۔ چنانچہ امیہ بن خَلَف دوپہر کے وقت جبکہ لوگ عموماً اپنے اپنے گھروں میں ہوتے ہیں سعد کو لے کر کعبہ کے پاس پہنچا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ عین اسی وقت ابوجہل بھی وہاں آ نکلا اور جونہی اس کی نظر سعدؓ پر پڑی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا مگر اپنے غصہ کو دبا کر وہ امیہ سے یوں مخاطب ہوا کہ اے ابوصفوان! یہ تمہارے ساتھ کون شخص ہے؟ امیہ نے کہاکہ یہ سَعد بن مُعاذؓ رئیس اوس ہے۔ اس پر ابوجہل نہایت غضبناک ہوکر سعدؓ سے مخاطب ہوا کہ کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہوکہ اس مرتد (نعوذ باللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اس کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو؟ کہنے لگا کہ خدا کی قسم! اگر اس وقت تیرے ساتھ ابوصفوان نہ ہوتا تواپنے گھروالوں کے پاس بچ کر نہ جاتا سَعد بن مُعاذؓ فتنہ سے بچتے تھے مگران کی رگوں میں بھی ریاست کا خون تھا اور دل میں ایمانی غیرت جوش زن تھی۔ کڑک کر بولے کہ واللہ! اگرتم نے ہم کو کعبہ سے روکا تو یاد رکھو کہ پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستے پرامن نہیں مل سکے گا۔ ہم بھی راستے میں بیٹھے ہیں ہم بھی تمہارے خلاف بہت کچھ کریں گے۔ امیہ نے ان کی جو یہ بات سنی اور اسی طرح ان کا غصہ بھی دیکھا تو کہنے لگا کہ سعد دیکھو! ابوالحکم سید اہلِ وادی کے مقابلہ میں یوں آواز بلندنہ کرو۔ کہ یہ ابوالحکم جو ہے مکہ والےابوجہل کا نام ابوالحکم لیتے تھے، مکہ کی وادی کا یہ سردار ہے۔ اس کے سامنے اس طرح بلند آواز سے نہ بولو۔ سعدؓ بھی غصے میں تھے اس کی یہ بات سن کے امیہ کو کہنے لگے کہ جانے دو امیہ ! تم اس بات میں نہ پڑو۔ واللہ ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی نہیں بھولتی کہ تم کسی دن مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو گے۔ یعنی امیہ جو ہے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو گا۔ یہ خبر سن کر امیہ بن خَلَف سخت گھبرا گیا اور گھر میں آ کر اس نے اپنی بیوی کو سعدؓ کی اس بات سے اطلاع دی اور کہا کہ خدا کی قسم! مَیں تو اب مسلمانوں کے خلاف مکہ سے نہیں نکلوں گا۔ یہ یقین تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کی ہے اور ہمیشہ آپؐ کی باتیں پوری ہوتی ہیں تو میرے متعلق بھی یہ بات پوری ہو جائے گی۔ لیکن تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔ بدر کے موقع پر امیہ کو مجبوراً مکہ سے نکلنا پڑا اور وہیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوکر اپنے کیفرکردار کو پہنچا۔ یہ امیہ وہی تھا جوحضرت بلالؓ پراسلام کی وجہ سے نہایت سخت مظالم کیا کرتا تھا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 280 تا 282)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت سَعد بن مُعاذؓ عمرے کی نیت سے چلے گئے۔ حضرت عبداللہؓ کہتے تھے اور وہ امیہ بن خَلَف ابوصفوان کے پاس اترے۔ انہوں نے یہ روایت کی کہ اس کے پاس اترے۔ پرانی واقفیت تھی۔ امیہ حضرت سعدؓ کے پاس مدینے میں آ کے ٹھہرا کرتا تھا اور جب آپؓ نے عمرے کا ارادہ کیا تو یہی سوچا کہ اس کے پاس ٹھہریں اور امن سے عمرہ کر سکیں۔ امیہ کی عادت تھی کہ جب شام کی طرف جاتا تھا تو مدینے سے گزرتا تھا اور حضرت سعدؓ کے پاس ٹھہرتا تھا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پرانی واقفیت تھی۔ وہ ان کے پاس مدینے میں ٹھہرتا تھا تو آپؓ نے، حضرت سعدؓ نے بھی ارادہ کیاکہ اس کے پاس ٹھہریں۔ جب آپؓ نے ذکر کیا کہ میں نے عمرہ کرنا ہے تو امیہ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ ابھی انتظار کرو۔ جب دوپہر ہو اور لوگ غافل ہو جائیں تو جا کر طواف کر لینا۔ روایت والے کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ حضرت سعدؓ طواف کر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ابوجہل ہے۔ ابوجہل اس دوران آگیا اور وہ کہنے لگا یہ کون ہے؟ یہ کون ہے جو کعبہ کا طواف کر رہا ہے؟ حضرت سعدؓ نے کہا میں سعد ہوں۔ خود ہی جواب دیا میں سعد ہوں۔ ابوجہل بولا کیا تم خانہ کعبہ کا طواف امن سے کرو گے حالانکہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے۔ حضرت سعدؓ نے کہا ہاں۔ تب ان دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں۔ یہ راوی روایت کرتے ہیں۔ امیہ نے حضرت سعد سے کہا ابوالحکم پر اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ وہ باشندگانِ وادی کا سردار ہے۔ حضرت سعدؓ نے کہا یعنی ابوجہل کو کہا بخدا! اگر تم نے بیت اللہ کا طواف کرنے سے مجھے روکا تو میں بھی شام میں تمہاری تجارت بند کر دوں گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعوؓ د کہتے ہیں کہ یہ سن کر امیہ حضرت سعدؓ سے یہی کہتا رہا کہ اپنی آواز کو بلندنہ کرو اور ان کو روکتا رہا۔ حضرت سعدؓ غصہ میں آ گئے اور کہنے لگے ہمیں ان باتوں سے رہنے دو۔ میں اور یہ ابوجہل بات کر رہے ہیں، ہمیں بات کرنے دو اور امیہ کو کہا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ امیہ کو یہی قتل کروانے والا ہے یعنی ابوجہل جو ہے یہی تمہارے قتل کا ذریعہ بنے گا۔ امیہ نے کہا، مجھے؟ حضرت سعدؓ نے کہا ہاں۔ یہ سن کر امیہ بولا اللہ کی قسم !محمدؐ جب بات کہتے ہیں تو جھوٹی بات نہیں کہتے۔ آخر وہ اپنی بیوی کے پاس واپس آیا اور کہنے لگا کیا تمہیں علم نہیں کہ میرے یثربی بھائی نے مجھ سے کیا کہا ہے؟ اس نے پوچھا کیا کہا؟ امیہ نے کہا کہتا ہے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ابوجہل ہی میرا قاتل ہو گا۔ اس کی بیوی نے کہا اللہ کی قسم !محمد تو جھوٹی بات نہیں کیا کرتے(صلی اللہ علیہ وسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ جب وہ بدر کی طرف نکلے اور مدد طلب کرنے کے لیے فریادی آیا تو امیہ کی بیوی نے اسے کہا کہ کیا وہ بات تمہیں یادنہیں جو تمہارے یثربی بھائی نے تم سے کہی تھی۔ بدر کے لیے جب نکلنے لگے تو یاد کرایا کہ تم جا رہے ہو لیکن وہ بات یاد رکھو۔ کہتے تھے اس نے چاہا کہ نہ نکلے یعنی امیہ نےاس بات پر چاہا کہ نہ نکلے مگر ابوجہل نے اسے کہا کہ تم اس وادی کے رؤسا میں سے ہو تو ایک دو دن کے لیے ہی ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ دو دن کے لیے چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کرا دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث: 3632)
ایک دوسری روایت میں امیہ بن خَلَف کے جنگِ بدر میں شریک ہونے اور قتل کیے جانے کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت سعدؓ نے کہا امیہ! بخدا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپؐ فرماتے تھے کہ وہ یعنی صحابہ تمہیں مار ڈالیں گے۔ اس نے پوچھا مکہ میں؟ حضرت سعدؓ نے کہا کہ یہ میں نہیں جانتا۔ امیہ حضرت سعد کی یہ بات سن کر بہت ڈر گیا۔ جب امیہ اپنے گھر گیا تو اپنی بیوی صفیہ یا کریمہ بنت مُعْمَر سے کہنے لگا کہ اے ام صفوان! تو نے سعد کی بات سنی جو اس نے میرے بارے میں کہی۔ بیوی نے کہا کہ کیوں سعدؓ کیا کہتا ہے؟ اس پر امیہ نے کہا وہ کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ مجھ کو مار ڈالیں گے۔ میں نے پوچھا کہ مکہ میں؟ تو اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ پھر امیہ نے کہا کہ بخدا میں مکہ سے نکلوں گا ہی نہیں۔ اس قدر خوفزدہ ہو گیا۔ جب بدر کی جنگ ہوئی تو ابوجہل نے لوگوں سے جنگ کے لیے نکلنے کوکہا اور امیہ کو بھی کہا کہ اپنے قافلے کو بچانے کے لیے پہنچو۔ امیہ نے نکلنا پسندنہیں کیا۔ ابوجہل امیہ کے پاس آیا۔ جب بھیجے ہوئے پیغامبر کو انکار کر دیا تو پھر ابوجہل خود آیا اور کہنے لگا کہ ابوصفوان! جب لوگ تمہیں دیکھیں گے کہ تم ہی پیچھے رہ گئے ہو جبکہ تم اہلِ وادی کے سردار ہو تو وہ بھی تمہارے ساتھ پیچھے رہ جائیں گے۔ ابوجہل اسے سمجھاتا رہا۔ آخر امیہ نے کہا کہ اگر تم نے مجبور ہی کرنا ہے تو بخدا میں مکہ سے ایک نہایت ہی عمدہ اونٹ خریدوں گا۔ اس کے بعد امیہ نے کہا ام صفوان میرے لیے سفر کا سامان تیار کرو۔ اپنی بیوی سے کہا تو وہ اسے کہنے لگی کہ تم وہ بات بھول گئے ہو جو تم سے تمہارے یثربی بھائی نے کہی تھی۔ کہنے لگا نہیں۔ مَیں بھولا نہیں ہوں۔ میں تھوڑی دور ان کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ واپس آجاؤں گا آخر تک نہیں جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو جس منزل میں بھی وہ اترتا وہاں اپنا اونٹ کا گھٹنا باندھ دیتا۔ وہ یہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ عز و جل نے بدر میں اس کو ہلاک کر دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب ذکر النبیﷺ من یقتل ببدر حدیث: 3950)
اس قتل کا واقعہ پہلے بھی ایک جگہ بیان ہو چکا ہے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ذکر میں گذشتہ خطبے میں بھی بیان ہو چکا ہے جب حضرت بلالؓ نے انصار کو بلا کر اس کے ظلم کی وجہ سےاسے قتل کروا دیا جو وہ حضرت بلالؓ پر کیا کرتا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سَعد بن مُعاذؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’مدینہ کے ایک رئیس سَعد بن مُعاذؓ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے مکہ گئے تو ابوجہل نے ان کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا۔ کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اس مرتد (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو؟ خدا کی قسم! اگر اس وقت تیرے ساتھ ابوصفوان نہ ہوتا تو تُو اپنے گھر والوں کے پاس بچ کر نہ جا سکتا۔ سَعد بن مُعاذؓ نے کہا واللہ! اگرتم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستہ پر امن نہیں مل سکے گا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20صفحہ 235-236)
حضرت سَعد بن مُعاذؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ غزوۂ بدر کے روز اوس کا جھنڈا حضرت سَعد بن مُعاذؓ کے پاس تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ321-322 “سَعْد بِنْ مُعَاذ”، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت سَعد بن مُعاذؓ کا جوش و جذبہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و فدائیت کا اظہار اس واقعے سے ہوتا ہے جو بدر میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رائے دی تھی اور جس کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں ذکر کیا ہے کہ
جب مسلمان وادی صَفْرَا، صفرا بھی بدر اور مدینے کے درمیان ایک وادی کا نام ہے جہاں آپ نے بدر کا تمام مال غنیمت مسلمانوں میں برابر تقسیم فرمایا تھا۔ اس وادی میں کھجور کے درخت اور کھیتی باڑی بھی کثرت سے ہوتی ہے۔ اس کے اور بدر کے درمیان ایک مرحلے کا فاصلہ ہے۔ بہرحال جب وہ اس وادی کے ایک پہلو سے گزرے اور گزرتے ہوئے زَفِرَانْ میں پہنچے جو بدر سے صرف ایک منزل ورے ہے تو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قافلے کی حفاظت کے لیے قریش کاایک بڑا جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔ وہ ایک تجارتی قافلہ جو پہلے تھا اس کی مدد کے لیے ایک اَور جرار لشکر آ رہا ہے۔ ان کو شک تھا کہ شاید مدینہ والے اس قافلے پرحملہ کرنے والے ہیں۔ اب چونکہ اخفائے راز کا موقع گزرچکا تھا۔ چھپی ہوئی بات نہیں رہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جمع کرکے انہیں اس خبر سے اطلاع دی اور ان سے مشورہ پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! ظاہری اسباب کاخیال کرتے ہوئے تو یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قافلہ سے سامنا ہو کیونکہ لشکر کے مقابلہ کے لیے ہم ابھی پوری طرح تیار نہیں۔ مگر آپؐ نے اس رائے کوپسندنہ فرمایا۔ دوسری طرف اکابر صحابہ نے یہ مشورہ سنا تواٹھ اٹھ کرجاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا کہ ہمارے جان ومال سب خدا کے ہیں۔ ہم ہر میدان میں ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ چنانچہ مقداد بن اسودؓ نے جن کا دوسرا نام مقداد بن عمرو بھی تھا کہا یا رسول اللہؐ ! ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپؐ کو یہ جواب دیں کہ جا تُو اور تیرا خدا جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؐ جہاں بھی چاہتے ہیں لے چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور ہم آپؐ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہوکر لڑیں گے۔ آپؐ نے یہ تقریر سنی تو آپؐ کاچہرہ مبارک خوشی سے تمتمانے لگا۔ مگر اس موقع پر بھی آپؐ انصار کے جواب کے منتظرتھے۔ چاہتے تھے کوئی انصاری سردار بھی یہی باتیں کہے۔ وہ کچھ بولیں کیونکہ آپؐ کو یہ خیال تھا کہ شاید انصار یہ سمجھتے ہوں کہ بیعتِ عقبہ کے ماتحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگرعین مدینہ پر کوئی حملہ ہوتو اس کا دفاع کریں۔ چنانچہ باوجود اس قسم کی جاں نثارانہ تقریروں کے آپؐ یہی فرماتے گئے کہ اچھا پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے؟ سَعد بن مُعاذؓ رئیس اوس نے آپؐ کا منشا سمجھا اور انصار کی طرف سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! شاید آپؐ ہماری رائے پوچھتے ہیں۔ خداکی قسم! جب ہم آپؐ کو سچا سمجھ کر آپؐ پرایمان لے آئے ہیں اور ہم نے اپنا ہاتھ آپؐ کے ہاتھ میں دے دیا ہے توپھر اب آپؐ جہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں توہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپؐ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم سب کو لڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپؐ کی آنکھوں کوٹھنڈا کرے گی۔ آپؐ نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہوکیونکہ اللہ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دوگروہوں یعنی لشکر اور قافلہ میں سے کسی ایک گروہ پر وہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قَسم! مَیں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو کر گریں گے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 354-355) (فرہنگِ سیرت صفحہ 173 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
اور پھر ویسا ہی ہوا۔
جنگ ِبدر میں عہدِ وفا کے اظہار کا ایک واقعہ جس کا گذشتہ خطبے میں بھی ذکر ہوا تھا اسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ آپؓ اس طرح فرماتے ہیں کہ
’’یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جہاں عشق ہوتا ہے وہاں کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ میرے محبوب کو کوئی تکلیف پہنچے اور کوئی بھی یہ پسندنہیں کرتا کہ اس کا محبوب لڑائی میں جائے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ محبوب لڑائی سے بچ جائے۔ اسی طرح صحابہؓ بھی اس بات کو پسندنہیں کرتے تھے کہ آپؐ لڑائی پر جائیں۔‘‘ صحابہؓ اس بات کو ناپسندنہیں کرتے کہ ہم لڑائی پر کیوں جائیں بلکہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑائی پر جانا ناپسند تھا اور یہ ان کی طبعی خواہش تھی جو ہر محب کو اپنے محبوب کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے قریب پہنچے تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارا مقابلہ قافلے سے نہیں بلکہ فوج کے ساتھ ہو گا۔ پھر آپؐ نے ان سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے؟ جب اکابر صحابہؓ نے آپؐ کی یہ بات سنی تو انہوں نے باری باری اٹھ اٹھ کر نہایت جاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہم ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ ایک اٹھتا اور تقریر کر کے بیٹھ جاتا۔ پھر دوسرا اٹھتا اور مشورہ دے کر بیٹھ جاتا۔ غرض جتنے بھی اٹھے انہوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا خدا ہمیں حکم دیتا ہے تو ہم ضرور لڑیں گے مگر جب کوئی مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے مجھے مشورہ دو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک جتنے صحابہؓ نے اٹھ اٹھ کر تقریریں کی تھیں اور مشورے دیے تھے وہ سب مہاجرین میں سے تھے مگر جب آپؐ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے مشورہ دیا جائے تو سعد بن مُعاذؓ رئیس اوس نے آپؐ کا منشاء سمجھا اور انصار کی طرف سے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ کی خدمت میں مشورہ تو عرض کیا جا رہا ہے مگر آپؐ پھر بھی یہی فرماتے ہیں کہ مجھے مشورہ دو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ انصار کی رائے پوچھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک اگر ہم خاموش تھے تو صرف اس لیے کہ اگر ہم لڑنے کی تائید کریں گے تو شاید مہاجرین یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہماری قوم اور ہمارے بھائیوں سے لڑنا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! شاید آپؐ کا بیعت عقبہ کے اس معاہدہ کے متعلق کچھ خیال ہے جس میں ہماری طرف سے یہ شرط پیش کی گئی تھی کہ اگر دشمن مدینے پر حملہ کرے گا تو ہم اس کا دفاع کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ سعد بن مُعاذؓ نے عرض کیایا رسول اللہؐ ! اس وقت جبکہ ہم آپؐ کو مدینہ لائے تھے ہمیں آپؐ کے بلند مقام اور مرتبہ کا علم نہیں تھا۔ اب تو ہم نے اپنی آنکھوں سے آپؐ کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے۔ اب اس معاہدے کی ہماری نظروں میں کچھ بھی حقیقت نہیں۔‘‘ ہے یعنی جو بیعت عقبہ کے وقت معاہدہ ہوا تھا وہ تو دنیاوی لحاظ سے ایک عام معاہدہ تھا۔ اب جو ہم نے دیکھا ہے اور اس کے بعد ہماری روحانیت کی جو آنکھیں کھلی ہیں تو اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ ’’اس لیے آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور خدا کی قسم! اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ یا رسول اللہؐ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔‘‘ (ایک آیت کی پُر معارف تفسیر، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 620-621)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۂ رعد کی آیت 12 جو اس طرح شروع ہوتی ہے کہ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ (الرعد: 12) یعنی اس کے لیے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ مقرر ہیں۔ اس کی تفسیر فرماتے ہیں کہ
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام زمانہ ٔنبوت اس حفاظت کا ثبوت دیتا ہے۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔ آگے اور پیچھے ہم نے محافظ مقرر کیے ہوئے ہیں۔ ’’چنانچہ مکہ معظمہ میں آپؐ کی حفاظت فرشتے ہی کرتے تھے ورنہ اس قدر دشمنوں میں گھرے ہوئے رہ کر آپؐ کی جان کس طرح محفوظ رہ سکتی تھی۔ ہاں مدینہ تشریف لانے پر دونوں قسم کی حفاظت آپؐ کو حاصل ہوئی۔ آسمانی فرشتوں کی بھی اور زمینی فرشتوں یعنی صحابہؓ کی بھی۔ بدر کی جنگ اس ظاہری اور باطنی حفاظت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔ حضوؐ ر جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپؐ نے اہلِ مدینہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر آپ مدینہ سے باہر جا کر لڑیں گے تو مدینہ والے آپؐ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے۔ بدر کی لڑائی میں آپؐ نے انصار اور مہاجرین سے لڑنے کے بارہ میں مشورہ فرمایا۔ مہاجرین بار بار آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے پر زور دیتے تھے لیکن حضوؐ ر ان کی بات سن کر پھر فرما دیتے کہ اے لوگو مشورہ دو۔ جس پر ایک انصاری (سعد بن مُعاذؓ) نے کہا کیا حضؐ ور کی مراد ہم سے ہے؟ حضوؐ ر نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کہ بیشک ہم نے حضوؐ ر سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر باہر جا کر لڑنے کا موقع ہو گا تو ہم حضورؐ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے لیکن وہ وقت اَور تھا جبکہ ہم نے دیکھ لیا…‘‘، اب ’’جبکہ ہم نے دیکھ لیا کہ آپؐ خدا کے رسول برحق ہیں تو اب اس مشورہ کی کیا ضرورت ہے۔ اگر حضوؐ ر ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔ ہم اصحابِ موسیٰؑ کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ تُو اور تیرا رب جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم حضوؐ ر کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک ہرگز نہ پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ مخلصین بھی میرے نزدیک ان مُعَقِّبَاتْ میں سے تھے۔‘‘ یعنی ان محافظوں میں سے تھے ’’جو خدا تعالیٰ نے حضورؐ کی حفاظت کے لیے مقرر فرما دیے تھے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تیرہ جنگوں میں شریک ہوا ہوں مگر میرے دل میں بارہا یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں بجائے ان لڑائیوں میں حصہ لینے کے اس فقرہ کا کہنے والا ہوتا جو سعد بن مُعاذؓ کے منہ سے نکلا تھا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 03 صفحہ392) یعنی کہ اپنے عہدِ وفا کا فقرہ۔
جنگ بدر کے موقعےپر حضرت سعد بن مُعاذؓ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ
’’جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی۔‘‘ جنگی لحاظ سے۔ ’’اس پر حُبَاب بن مُنذِرؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے ماتحت آپؐ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے۔ تم کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو توبتاؤ۔ حُبَاب نے عرض کیا تو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔‘‘ جنگی لحاظ سے۔ ’’بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کرلیا جاوے۔ میں اس چشمہ کو جانتا ہوں۔ اس کا پانی اچھا ہے اور عموماً ہوتا بھی کافی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور چونکہ ابھی تک قریش ٹیلہ کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہو گئے لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت اس چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کوپانی کی قلت محسوس ہوتی تھی۔ پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پاؤں اچھی طرح جمتے نہیں تھے۔
جگہ کے انتخاب کے بعد سعد بن مُعاذؓ رئیسِ اوس کی تجویز سے صحابہؓ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان سا تیار کر دیا اور سعدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیں اور ہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے‘‘ تو الحمد للہ۔ ’’لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ دگرگوں ہوا تو آپؐ اپنی سواری پرسوار ہو کر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں۔‘‘ اس خیمہ کے ساتھ ہی اچھی قسم کی سواری، ایک اونٹ بھی باندھ کر رکھ دیا۔ پھر انہوں نے عرض کیا کہ آپؐ وہاں مدینہ پہنچ جائیں۔ ’’وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آ جائے گی اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہرگز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کا علم ہو گا تووہ آپؐ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ سعدؓ کا جوشِ اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابلِ تعریف ہے ورنہ بھلا خدا کا رسول اور میدان سے بھاگے!‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جنگوں میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ ’’چنانچہ حنین کے میدان میں‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی مگر یہ مرکز توحید اپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا۔ بہرحال سائبان تیار کیا گیا‘‘ جیسا کہ سعدؓ نے کہا تھا ’’اور سعدؓ اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ نے اسی سائبان میں رات بسر کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے۔ باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سولیے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 356-357)
غزوۂ احد کے موقعے پر جمعے کی شب حضرت سعد بن مُعاذؓ، حضرت اُسید بن حُضیرؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ مسجدنبوی میں ہتھیار پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہرہ دیتے رہے۔ غزوۂ احد کے موقعے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر اور کمان کندھے پر ڈال کر اور نیزہ ہاتھ میں لے کر مدینے سے روانہ ہوئے تو دونوں سعدؓ یعنی حضرت سعد بن مُعاذؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ آپ کے آگے آگے دوڑ رہے تھے۔ ان دونوں نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثانی صفحہ28تا 30 غزوۃ رَسُول اللّٰہِ۔ أحدًا، دارالکتب العربیۃ بیروت 1990ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ غزوۂ احد کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’آپؐ صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نمازِ عصر کے بعد مدینے سے نکلے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے رؤساء سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہؓ آپؐ کے دائیں اور بائیں اور پیچھے چل رہے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ486)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد سے مدینہ واپس آئے اور اپنے گھوڑے سے اترے تو آپؐ حضرت سعد بن مُعاذؓ اور حضرت سعد بن عُبادہؓ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 229 باب غزوہ اُحد ذکر رحیل رسول اللّٰہﷺ إلى المدینۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
حضرت سعد بن مُعاذؓ کی والدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی باگ حضرت سعد بن مُعاذؓ پکڑے ہوئے فخر سے چل رہے تھے۔ جنگ میں آپؓ کا بھائی بھی مارا گیا تھا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر حضرت سعدؓ نے اپنی ماں کو آتے ہوئے دیکھا اور کہا یا رسول اللہؐ ! میری ماں آ رہی ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کی عمر اس وقت کوئی اسّی بیاسی سال کی تھی۔ آنکھوں کا نور جا چکا تھا۔ بہت کمزور نظر تھی۔ دھوپ چھاؤں مشکل سے نظر آتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر، مدینہ میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو یہ خبر سن کر وہ بڑھیا بھی لڑکھڑاتی ہوئی مدینہ سے باہر نکلی جا رہی تھی۔ حضرت سعدؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! میری ماں آ رہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب پہنچے تو آپؐ نے فرمایا میری سواری کو ٹھہرا لو۔ تمہاری ماں آ رہی ہے وہاں اس کے قریب میری سواری کو کھڑا کر دو۔ جب آپؐ اس بوڑھی عورت کے قریب آئے تو اس نے اپنے بیٹوں کے متعلق کوئی خبر نہیں پوچھی۔ پوچھا تو یہ پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ حضرت سعدؓ نے جواب دیا آپ کے سامنے ہیں۔ اس بوڑھی عورت نے اوپر نظر اٹھائی اور اس کی کمزور نگاہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پھیل کر رہ گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بی بی مجھے افسوس ہے تمہارا جوان بیٹا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے۔ بڑھاپے میں کوئی شخص ایسی خبر سنتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن اس بڑھیا نے کیسا محبت بھرا جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے تو آپؐ کی خیریت کی فکر تھی۔
حضرت مصلح موعوؓ دنے یہ واقعہ بیان کیا اس کے بعد آپؓ نے احمدی خواتین کو مخاطب ہو کر فریضہ تبلیغ پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بدوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے۔ تمہارا بھی دعویٰ ہے، آج کل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والی عورتیں ہیں، تمہارا بھی یہ دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤکہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہاری اولادیں ویسی ہی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں؟ اگر تم غور کرو گی تو تم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤ گی۔ صحابیات نے تو جو قربانیاں کیں آج تک دنیا کے پردے پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیں اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت جلد ان کو کامیابی عطا کی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر کر کے دکھا دیا۔ (ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 400-401)
یہاں کیونکہ مخاطب آپ احمدی خواتین سے تھے اس لیے ان کا ذکر ہے ورنہ بے شمار جگہ پر ہمیشہ خلفاء یہ کہتے آئے ہیں، میں بھی بیشمار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے مردوں کو بھی وہی نمونے دکھانے پڑیں گے تبھی ہم جو دعویٰ کرتے ہیں اور جو اس دعویٰ کو لے کر اٹھے ہیں کہ دنیا میں اسلام کا پیغام پھیلانا ہے اور دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کے آنا ہے اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ جب ہماری قربانیاں اور ہمارے عمل اس کے مطابق ہوں گے جس کے نمونے صحابہؓ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’عیسائی دنیا مریم مگدلینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنوں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں ان سے کہتا ہوں آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں انہوں نے اس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں انہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔ اس قسم کی فدائیت کی ایک اَور مثال بھی تاریخ میں ملتی ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے۔‘‘ پھر ایک اَورموقع پر دوبارہ حضرت سعد بن مُعاذؓ کی والدہ کی یہی مثال دے رہے ہیں کہ شہداء کو دفن کر کے جب مدینہ واپس گئے۔ ’’تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لیے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ سعد بن مُعاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے۔ شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ احد میں اس کا ایک بیٹا عَمرو بن مُعاذؓ بھی مارا گیا تھا۔ اسے دیکھ کر سعد بن مُعاذؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! اُمّی۔ اے اللہ کے رسولؐ ! میری ماں آ رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آ جائے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اس پر نیک عورت نے کہا حضورؐ ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ ’’مصیبت کو بھون کر کھا لیا‘‘ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتا ہے۔ غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے جان دی۔‘‘ یہ خیال تو ’’میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔‘‘ میری طاقت کو بڑھانے کا موجب ہو گا۔ حضرت مصلح موعود انصار کی تعریف کرتے ہوئے اور ان کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو۔ تم کتنا ثواب لے گئے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 256-257)
کعب بن اشرف کو اس کی ریشہ دوانیوں، اسلام کے خلاف بغض اور دشمنی پھیلانے حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کرنے پر جو قتل کی سزا کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اس میں بھی بحیثیت سردار قبیلہ انصار کے، سردار قبیلہ کے طور پر حضرت سعد بن مُعاذؓ کے مشورے کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل یعنی اس سزا کے عمل درآمد ہونے اور کعب بن اشرف کے قتل کی یہ تفصیل جو ہے وہ میں کچھ عرصہ پہلے دو صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں (خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ دسمبر 2018ء اور خطبہ جمعہ 7؍ فروری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ فروری 2020ء) تاہم اس کا کچھ حصہ یہاں بھی بیان کرتا ہوں جس کا تعلق حضرت سعد بن مُعاذؓ سے ہے۔ اور یہ جو مَیں بیان کروں گا اس میں بھی کچھ اخذ کیا ہے اور کچھ اقتباس میں نے سیرت خاتم النبیینؐ سے ہی لیا ہے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدہ میں شرکت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن وامان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا مگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہرسال یہودی علماء ومشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا۔ اس نے ایک دن ان مشائخ سے ان کی مذہبی کتابوں کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوا ل کیا کہ تمہارا کیا خیال ہے یہ سچا ہے کہ نہیں؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا، ہماری تعلیم میں ذکر ہے۔ کعب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسلام کا بڑا سخت مخالف تھا۔ اس جواب پر وہ بہت بگڑ گیا اور ان کو سخت سست کہہ کر، برا بھلا کہہ کر وہاں سے رخصت کردیا اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھا وہ بھی نہ دی۔ جب خیرات بند ہو گئی، جو ان کا وظیفہ جاری تھا وہ بند ہو گیا توکچھ عرصہ بعد انہوں نے کعب کے پاس جا کر کہا کہ ہم نے دوبارہ غور کیاہے۔ پیسے کو تو مولوی آج بھی نہیں چھوڑتا یہی حال اُن کا تھا۔ انہوں نے کہا جی ہم نے دوبارہ غور کیا ہے دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ اس پر اس نے خوش ہوکر ان کا وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا۔ وہ جو خیرات دیتا تھا دے دی۔
بہرحال یہ تو معمولی بات تھی کہ یہودی علماء کو اپنے ساتھ ملا لیا لیکن خطرناک بات جو تھی وہ یہ تھی کہ جنگ بدر کے بعد اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے تھے۔ جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کوایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور رؤسائے قریش اکثر مارے گئے توکعب نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا۔ پہلے تو ہمارا خیال تھاآپ ہی ختم ہو جائے گا۔ نہیں اب نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ پھیلے گا۔ چنانچہ بدر کے بعد اس نےہر طرح اپنی پوری کوشش کی کہ اسلام کے مٹانے اور تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا جائے، کوئی دقیقہ نہ چھوڑا جائے اور یہ تہیہ کر لیا کہ میں نے اسلام کو تباہ و برباد کرنا ہی کرنا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد تو وہ غیظ و غضب سے بہت زیادہ بھر گیا تھا۔ اس نے اس غصہ کی وجہ سے جب فیصلہ کیا کہ میں نے اسلام کو تباہ کرنا ہی کرنا ہے تو اس نے فوراً سفر کی تیاری کر کے مکہ کی راہ لی۔ وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بارکر دیا اور بھڑکا دیا۔ ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی۔ تم شکست کھا گئے۔ تمہارے لیڈروں کو انہوں نے مار دیا۔ تم اب بیٹھے ہو۔ جاؤ اور بدلہ لو۔ وہ بھڑک اٹھے۔ اپنی تقریروں سے اور شعروں سے ان کے سینے جذباتِ انتقام اور عداوت سے بھردیے۔ جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی بجلی پیدا ہو گئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اور کعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانیٔ اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے اس وقت تک چین نہیں لیں گے۔ مکہ میں یہ آتش فشاں فضاپیدا کرنے کے بعد اس نے یہیں بس نہیں کی بلکہ اس بدبخت نے دوسرے قبائلِ عرب کا رخ کیا اور پھر قوم بقوم ہر قبیلے میں پھر پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا۔ پھر مدینہ میں واپس آکر وہاں اپنی اسلام مخالف سرگرمیاں تیز کیں اور غیر مسلموں میں اپنے جوش دلانے والے اشعار میں اور خاص طور پر یہودیوں میں بھی گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کاذکر کیا اور صرف یہاں تک نہیں کہ مخالفت کی آگ بھڑکائی بلکہ آخر میں اس نے یہ بھی کوشش کی بلکہ سازش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا جائے اور آپؐ کوکسی دعوت کے بہانے سے اپنے مکان پر اس نے بلایا اور چندنوجوان یہودیوں سے آپؐ کے قتل کروانے کا منصوبہ باندھا۔ خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہو گئی۔ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے اطلاع دے دی اور اس کی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف جو معاہدہ کیا ہوا تھا اس کی عہد شکنی اور جو حکومت قائم تھی اس کے خلاف بغاوت، تحریک جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش ِقتل کے الزامات پایہ ثبوت کوپہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوام معاہدہ کی رو سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیانِ مدینہ میں ہوا تھا، مدینہ کی جمہوری سلطنت کے آپؐ صدراورحاکم اعلیٰ تھے، آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا دیا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے بعض صحابہ کوارشاد فرمایا کہ اسے قتل کردیا جاوے۔ بعض حالات اور حکمت کے تقاضے کے تحت آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو برملا طور پر قتل نہ کیا جائے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیں اور یہ ڈیوٹی آپؐ نے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مَسْلمہؓ کے سپرد فرمائی اور انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کرو قبیلہ اوس کے رئیس جو سعد بن مُعاذؓ ہیں ان سے ضرور مشورہ کریں۔ چنانچہ محمد بن مسلمہؓ نے سعد بن مُعاذؓ کے مشورہ سے ابونائلہ اور دو تین اور صحابیوں کواپنے ساتھ لیا اور کعب کے قتل کی سزاکو عملی جامہ پہنایا۔ اس کی جو بھی حکمت تھی یا قتل کا طریق اختیار کیا گیا تھا اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے کہا ہے میں گذشتہ بعض صحابہ کے ذکر میں بیان کر چکا ہوں۔ (خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ دسمبر 2018ء اور خطبہ جمعہ 7؍ فروری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ فروری 2020ء)
بہرحال جو حکمت اختیار کی گئی تھی اس کے تحت اس کو رات کے وقت گھر سے نکال کر قتل کیا گیا تھا۔ اس کے قتل کی خبر جو مشہور ہوئی تو صبح کے وقت شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہودی لوگ سخت جوش میں آگئے۔ اور دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ قتل ہوا ہے ہاں ٹھیک ہے لیکن اس کے جرم تھے جس کی سزا اس کو ملی ہے۔ پھر آپؐ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی اور تحریک جنگ اور فتنہ انگیزی اور فحش گوئی اور سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد کروائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہوگئے۔ انہیں، سب کو پتہ تھاکہ یہ سب کچھ یہ کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کم از کم آئندہ کے لیے امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ وفساد کابیج نہ بوؤ۔ چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہودنے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اور فتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیا۔ اور یہ نیا معاہدہ لکھا گیا۔ تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں ہے کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے مسلمانوں پر الزام قائم کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 467تا471)
یہ سزا تھی جو اسے دی گئی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار کیا کہ ہم نے نہیں کیا، ہمیں پتہ نہیں، بلکہ سارا کچھ گنوایا اور ظاہر تھا یہ آپؐ کا فیصلہ تھا۔ آپؐ سربراہ حکومت تھے اور اس میں دو سردار جو مدینے کے رئیس تھے ان کی رائے بھی شامل تھی جو مسلمان تھے سعد بن مُعاذؓ وغیرہ۔
یہودی قبیلہ بنو نضیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پتھر گرا کر دھوکے سے ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ اس قبیلہ کی طرف گئے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کے محاصرے کا حکم دیا۔ ربیع الاول چار ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود حفاظتی کے خیال سے مجبور ہو کر بنو نضیر کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی جس کے نتیجہ میں بالآخر یہ قبیلہ مدینہ سے جلا وطن ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ بنو نضیر کا اموال غنیمت ملا تو آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو بلا کر فرمایا کہ میرے لیے اپنی قوم کو بلاؤ۔ حضرت ثابتؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا خزرج کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انصار کو بلا لو کسی بھی قبیلے کے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اوس اور خزرج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب کیا۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے۔ پھر انصار کے مہاجرین پر کیے جانے والے احسانوں یعنی انصار کے مہاجرین کو اپنے گھر میں ٹھہرانے اور انصارکے مہاجرین کو اپنی جانوں پر ترجیح دینے کا ذکر فرمایا کہ کس طرح انصار نے مہاجرین پر احسان کیا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا اگر تم پسند کرو تو میں بنو نضیر سے حاصل ہونے والا مال فَے تم میں اور مہاجرین میں تقسیم کر دوں۔ مہاجرین حسب سابق تمہارے گھروں میں اور اموال میں رہیں گے۔ غنیمت کا جو مال ملا ہے آدھا آدھا تقسیم کرلو لیکن اس کا یہ ہے کہ جس طرح وہ پہلے تمہارے گھروں میں رہ رہے ہیں اور جو تم ان سے احسان کا سلوک کر رہے ہو وہ کرتے رہو۔ مال یہ آدھا آدھا لے لو۔ لیکن دوسری صورت کیا ہے کہ اگر تم پسند کرو تو یہ اموال مَیں مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ انصار کو کچھ نہیں دیتا۔ سارا مال جو ملا ہے وہ مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں پھر وہ تمہارے گھروں سے نکل جائیں گے۔ پھر تمہارے گھروں میں نہیں رہیں گے۔ اپنا اپنا انتظام کریں کیونکہ اب ان کو مال مل گیا ہے۔ اس پر حضرت سعد بن عُبادہؓ اور حضرت سعد بن مُعاذؓ نے آپس میں بات کی۔ دونوں نے مشورہ کیا اور دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم فرما دیں۔ مہاجرین میں مال تقسیم کر دیں لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ حسب سابق ہمارے گھروں میں رہیں گے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مال لینے کے بعد وہ ہمارے گھروں سے نکل جائیں۔ جوجس طرح ہمارے گھروں میں رہ رہے ہیں اور جس طرح مؤاخات کا وہ سلسلہ قائم ہے اب بھی وہی قائم رہے گا۔ اور انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم راضی ہیں اور ہمارا سر تسلیم خم ہے۔ اگر سارا مال آپؐ مہاجرین میں تقسیم کر دیں تو اس بات پر کوئی ہمیں شکوہ نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ فَے مہاجرین میں تقسیم فرما دیا اور انصار میں سے کسی کو بھی اس میں سے کچھ نہیں دیا سوائے دو ضرورت مند آدمیوں کے۔ وہ دونوں سَہْل بن حُنَیف اور اَبُودُجَانہ تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن مُعاذؓ کو ابن ابی حقیق یہودی کی تلوار عطا کی اور اس تلوار کی یہودیوں میں بڑی شہرت تھی۔ پھر حضرت مُعاذؓ کو ایک تلوار دی۔ (اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ 264-265) (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 325 ذکر خروج بنی النضیر من أرضہم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
جب افک کا واقعہ ہوا اور حضرت عائشہؓ پر الزام لگایا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کے خاندان کو بڑی تکلیف سے گزرنا پڑا اور اسی دوران میں کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے ایک موقع پر منافقین کے اس غلط رویے کا ذکر کیا تو اس وقت بھی حضرت سعد بن مُعاذؓ نے بے لوث فدائیت کا اظہار فرمایا تھا۔ یہ واقعہ بڑی تفصیل سے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہوا ہے جو ایک صحابی حضرت مِسْطَحْ کے ذکر میں پہلے مَیں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔ تاہم حضرت سعدؓ سے متعلقہ حصہ یہاں میں پیش کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہا ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران میں گھر سے باہر تشریف لا کر صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دکھ دیا ہے۔ اس سے آپؐ کی مراد عبداللہ بن اُبَیبن سلول سے تھی۔ حضرت سعد بن مُعاذؓ جو اوس قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم اس کو مارنے کے لیے تیار ہیں اور اگر وہ خزرج میں سے ہے تب بھی اس کو مارنے کے لیے تیار ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 06 صفحہ 268-270)
غزوۂ خندق کے دوران ابوسفیان نے بنو نَضیر کے رئیس حُیَیْ کو بنو قُریظہ کے رئیس کعب بن اسد کے پاس بھیجا کہ مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے کو ختم کر دو۔ جب وہ نہ مانا تو سبز باغ دکھا کر اور مسلمانوں کی تباہی کا یقین دلا کر مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے پر عمل نہ کرنے پر راضی کر لیا بلکہ اس بات پر بھی راضی کر لیا کہ وہ کفارِ مکہ کے مددگار بن جائیں گے۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بنو قریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا تو آپؐ نے پہلے تو دوتین دفعہ خفیہ خفیہ زبیربن العوام کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس وخزرج کے رئیس سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ اور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آ کر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سَعْدَیْن کی طرف‘‘ یعنی سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ کی طرف ’’سے معاہدہ کاذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘ ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ ’’یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلاآیا اور سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے اطلاع دی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ584-585)
بہرحال اس وقت تو ان کی یہ حرکت مسلمانوں کے لیے بڑا دھچکا تھی۔ چاروں طرف سےمکے کے کفار نے مدینےکو گھیرا ہوا تھا۔ کفار ِمکہ سے جنگ کی حالت کی وجہ سے اس قبیلے کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی تھی لیکن جنگ کے اختتام پر جب شہر میں واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی رنگ میں بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کی سزا دینے کا بتایا۔ یہ حکم ہوا کہ ان کو سزا ملنی چاہیے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام اعلان فرمایا کہ بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نمازِ عصر وہیں پہنچ کر ادا ہو اور آپؐ نے حضرت علیؓ کو صحابہؓ کے ایک دستے کے ساتھ فوراً آگے روانہ کر دیا۔ اس جنگ کی تفصیل کچھ لمبی ہے جس میں حضرت سعد بن مُعاذؓ کا بھی آخر پرفیصلہ کرنے میں کردار ہے۔ اب وقت نہیں۔ اس لیے آئندہ ان شاء اللہ یہ تفصیل بیان کروں گا۔
جنگِ احزاب کے بعد بنو قریظہ کی غداری کی سزا کا خدائی حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا۔ چنانچہ ان سےجنگ ہوئی اور پھر بنو قریظہ نے جنگ بندی کر کے حضرت سعدؓ سے فیصلہ کروانے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے فیصلہ کیا۔ اس غزوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ
’’بیس دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا‘‘ یعنی جنگِ احزاب کے بعد ’’مگر اب بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا۔ ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہؓ سے فرمایاکہ گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ۔ اور پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بنو قریظہ کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی؟ بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے، انہوں نے حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا چیز ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علیؓ ان کا یہ جواب لے کر واپس لَوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جا رہے تھے۔ چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھےحضرت علیؓ نے اس خیال سے کہ آپ کو ان کلمات کے سننے سے تکلیف ہو گی، عرض کیا یا رسول اللہؐ ! آپؐ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ ہم لوگ اس لڑائی کے لیے کافی ہیں۔ آپؐ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں۔ موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اُس کو اِس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپؐ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتیٰ کہ ان کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کومار دیا۔ لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہودنے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابولُبابہ انصاری کو، جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے، ان کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ آپؐ نے ابولُبابہ کو بھجوا دیا۔ ان سے یہودنے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو ہم یہ مان لیں؟‘‘ یہودنے پوچھا۔ ’’ابولُبابہ نے منہ سے تو کہا‘ہاں ’! لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولُبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے اس جرم کی سزا‘‘ جو یہودیوں نے جرم کیا ہے اس کی سزا ’’سوائے قتل کے اَور کیا ہو گی، بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی‘‘ یعنی بنو قریظہ قبیلے کی۔ ’’چنانچہ یہودنے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ‘‘ ماننے کو تیار نہیں۔ اگر وہ آپ کا فیصلہ ’’مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا مگر ان کی بدقسمتی تھی۔ انہوں نے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔‘‘ آپس میں اختلاف ہوگیا۔ ’’یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے‘‘ واضح ہے ’’کہ ہم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔‘‘ یہ جنہوں نے اختلاف کیا تھا۔ ’’ایک شخص عمرو بن سُعدٰی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے اب یا مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ۔ یہودنے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر ان سے اس نے کہا میں تم سے بری ہوں۔‘‘ جب ان کو سمجھایا اور نہیں سمجھے تو اس نے کہا پھر مَیں تم سے بری ہوں میں تمہارے ساتھ نہیں ’’اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہؓ تھے اسے دیکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَالَۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی‘‘ حضرت محمد بن مسلمہ نے یہ دعا کی کہ ’’الٰہی مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں۔ اس لیے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔‘‘ کوئی ظلم کا ارادہ نہیں تھا۔ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کوسرزنش نہیں کی‘‘ پوچھانہیں کہ کیوں تم نے نہیں اس کو پکڑا ’’کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیابلکہ اس کے فعل کو سراہا۔‘‘ آپ نے اس کی اس بات کی تعریف کی کہ تم نے بڑا اچھا کیا۔
’’یہ …… واقعات انفرادی تھے۔ بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے۔‘‘ گو اِکّا دُکّا واقعات ایسے تھے، چند شخص ایسے تھے جو اس سے، بنو قریظہ کے فیصلوں سے اختلاف کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے معاہدہ کیا جائے، ان کی بات مانی جائے لیکن یہ انفرادی واقعات تھے۔ بحیثیت قوم وہ اس بات پر ضد کر رہے تھے اور اس بات پر قائم رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکمنہ مانیں۔ ’’اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے سعدؓ کے فیصلہ پر اصرار کیا۔‘‘ انہوں نے یہ پسندنہیں کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو مانیں اور ان کوفیصلہ کرنے کے لیے حکم کے طور پر مقرر کر دیں بلکہ انہوں نے کہا کہ سعد ہمارا فیصلہ کرے گا۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اس مطالبہ کو مان لیا۔ سعدؓ کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں‘‘ اس لیے ’’آ کر فیصلہ کرو۔ اس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعدؓ کے پاس دوڑ کر گئے اور انہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے‘‘ اس لیے ’’آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا۔ سعدؓ زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد ان کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعدؓ سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا۔ مگر سعدؓ نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپرد فیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے۔ اسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ میں دیانت سے فیصلہ کروں گا۔
جب سعدؓ یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے تو سعدؓ نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر سعدؓ نے بنوقریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر شرم سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا ادھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس لیے نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے کہ شرم تھی، حیا تھی لیکن فیصلے کے لیے حَکممقرر کیے گئے تھے تو پوچھنا بھی ضروری تھا۔ اس لیے نظریں بڑی نیچی کر کے آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منہ کر کے پوچھا کہ آپ بھی وعدہ کرتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس کے بعد سعدؓ نے‘‘ جب تینوں فریقوں سے وعدہ لے لیا تو سعدنے ’’بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا۔ بائبل میں لکھا ہے:‘اور جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لیے آ پہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لیے کھول دے تو ساری خَلق جو اس شہر میں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تُو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر۔ مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارا لوٹ اپنے لیے لے اور تُو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تُو ان سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، یہی حال کیجیو۔ لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو بلکہ تُو ان کو حرم کیجیو۔ حِتِّیْاور اَمُوْرِیاور کَنْعَانیاور فَرَزِّیاور حَوِّیاور یَبُوْسِی کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کریہہ کاموں کے مطابق جو انہوں نے اپنے معبودوں سے کیے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جاؤ’۔‘‘ (استثناء باب 20آیت10تا17)
یہ بائبل کے الفاظ ہیں۔ حضرت سعدؓ نے یہ پڑھے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ ’’بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اول تو تمام مسلمان قتل کر دئیے جاتے۔ مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ ان سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ ان سے دور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے۔ سعدؓ نے جو بنو قُریظہ کے حلیف تھے اور ان کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہودنے اسلامی شریعت کے مطابق، جو یقینا ًان کی جان کی حفاظت کرتی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو‘‘ حضرت ’’موسیٰؑ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لیے کر چھوڑا تھا۔ اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا مسلمانوں پر نہیں‘‘ یہ تو ان کی اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ تھا ’’بلکہ موسیٰؑ پر اور تورات پر اور ان یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیر قوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم سعدؓ‘‘ حضرت سعدؓ ’’کی بات مانیں گے۔ جب سعدؓ نے موسیٰؑ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا۔ کیا عیسائی مصنف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟‘‘ باقی توکہیں ظلم نظر نہیں آتا۔ ’’سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا اور ہر دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کر دیا۔ یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اسے آپ مانیں گے۔‘‘ جیسا کہ تاریخ سےظاہر ہے اقرار آپؐ سے بھی لیا گیا تھا ’’اس کے بعد اس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا۔ اس نے موسیٰؑ کا فیصلہ دہرا دیا جس کی امت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے۔ پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہودنے اپنی جانوں پر ظلم کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اگر کسی نے ظلم کیا تو موسیٰؑ نے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تورات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی۔ اگر یہ ظلم تھا تو ان عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسیٰؑ کو ظالم قرار دیں بلکہ موسیٰؑ کے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تورات میں دی ہے۔
احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احزاب کی جنگ میں بھلا کفار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا؟ چند آدمی مارے گئے تھے۔ وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے۔ بیس ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ ان کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خدا ہے۔ ان کے جسم صحیح سلامت تھے مگر ان کے دل ٹوٹ چکے تھے۔‘‘ یعنی کافروں کے ’’بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر ان کے دلوں میں سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282-287)
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی شرط پر قلعہ سے اتر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو بلا بھیجا تو وہ ایک گدھے پر سوارہو کر آئے۔ جب مسجد کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے میں سے بہتر کے استقبال کے لیے اٹھو یا فرمایا اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو۔ پھر آپؐ نے فرمایا سعدؓ یہ لوگ آپ کے فیصلہ پر اترے ہیں۔ انہوں نے کہا: پھر مَیں ان کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے جو لڑنے والے تھے انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے اہل و عیال قید کر لیے جائیں۔ آپؐ نے فرمایا تم نے الٰہی منشاء کے مطابق فیصلہ کیا ہے یا فرمایا تم نے شاہانہ فیصلہ کیا ہے یعنی تم نے بادشاہوں جیسا فیصلہ کیا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب سعد بن معاذ حدیث 3804)
اس کی جو بعض زائد باتیں ہیں حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے بھی تفصیل بیان کی ہے۔ کچھ باتیں مَیں یہاں بیان کر دیتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں بنوقریظہ کے تعلق میں ہی کہ آخر کم و بیش تیس (بیس) دن کے محاصرے کے بعد یہ بدبخت یہودایک ایسے شخص کو حَکممان کر اپنے قلعوں سے اترنے پر رضا مند ہوئے جو باوجود ان کا حلیف ہونے کے ان کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے لیے اپنے دل میں کوئی رحم نہیں پاتا تھا اور جو گوعدل وانصاف کامجسمہ تھا مگر اس کے قلب میں رحمۃ للعالمین کی سی شفقت اور رافت نہیں تھی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قبیلہ اوس بنوقریظہ کاقدیم حلیف تھا اور اس زمانہ میں اس قبیلہ کے رئیس سعد بن معاذؓ تھے جو غزوۂ خندق میں زخمی ہو کراب مسجد کے صحن میں زیرعلاج تھے۔ اس قدیم جتھہ داری کاخیال کرتے ہوئے بنوقریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذؓ کواپنا حَکممانتے ہیں۔ جو فیصلہ بھی وہ ہمارے متعلق کریں وہ ہمیں منظور ہوگا۔ لیکن یہود میں بعض ایسے لوگ بھی تھے (جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے) جواپنے اس قومی فیصلہ کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو مجرم یقین کرتے تھے اور دل میں اسلام کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے۔ ایسے لوگوں میں سے بعض آدمی جن کی تعداد تاریخی روایات میں تین بیان ہوئی ہے بطیب خاطر بڑی خوشی سے اسلام قبول کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گئے۔ ایک اَور شخص تھا وہ مسلمان تونہیں ہوا مگر وہ اپنی قوم کی غداری پر اس قدر شرمندہ تھا کہ جب بنوقریظہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کی ٹھانی تووہ یہ کہتا ہوا کہ میری قوم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت غداری کی ہے میں اس غداری میں شامل نہیں ہو سکتا، مدینہ چھوڑ کر کہیں باہر چلاگیا تھا مگر باقی قوم آخر تک اپنی ضد پر قائم رہی اور سعدؓ کواپنا ثالث بنانے پر اصرار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے منظور فرمایا (جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے) اس کے بعد آپؐ نے چند انصاری صحابیوں کو سعدؓ کے لانے کے لیے روانہ فرمایا۔ سعدؓ آئے اور راستہ میں ان کے قبیلے کے بعض لوگوں نے اصرار کیا اور بار بار یہ درخواست کی کہ قریظہ ہمارے حلیف ہیں اس لیے ان کا خیال رکھنا۔ جس طرح خزرج نے اپنے حلیف قبیلہ بَنُوقَیْنُقَاع کے ساتھ نرمی کی تھی تم بھی قریظہ سے رعایت کامعاملہ کرنا اور انہیں سخت سزانہ دینا۔ سعد بن معاذؓ پہلے تو خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتے رہے لیکن جب ان کی طرف سے زیادہ اصرار ہونے لگا توسعدؓ نے کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ سعدؓ اس وقت حق وانصاف کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کر سکتا۔ جب سعدؓ کا یہ جواب سنا تولوگ خاموش ہوگئے۔
بہرحال جب سعدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے توآپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اپنے رئیس کے لیے اٹھو اور سواری سے نیچے اترنے میں انہیں مدد دو۔ جب سعدؓ سواری سے نیچے اترے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آگے بڑھے۔ حضرت سعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا سعد!ؓ بنو قریظہ نے تمہیں حَکم مانا ہے اور ان کے متعلق تم جوفیصلہ کرو انہیں منظور ہوگا۔ اس پر سعدؓ نے اپنے قبیلے اوس کے لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ کیاتم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ پختہ عہد کرتے ہو کہ تم بہرحال اس فیصلہ پر عمل کرنے کے پابند ہوگے جو مَیں بنو قریظہ کے متعلق کروں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جو ذکر فرمایا ہے اس میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ بہرحال پھر سعدؓ نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے کہاکہ وہ صاحب جو…۔ (انہوں نے اس طرح یہاں لکھا ہے کہ وہ صاحب جو) یہاں تشریف رکھتے ہیں کیا وہ بھی ایسا ہی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بہرحال میرے فیصلہ کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ اس عہدوپیمان کے بعد سعدؓ نے اپنا فیصلہ سنایا جویہ تھا کہ بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگجولوگ قتل کردیے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیے جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سنا تو بے ساختہ فرمایاکہ تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیر ہے جوٹل نہیں سکتی اور ان الفاظ سے آپؐ کا یہ مطلب تھا کہ بنوقریظہ کے متعلق یہ فیصلہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ اس میں صاف طورپر خدائی تصرف کام کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس لیے آپؐ کاجذبہ رحم اسے روک نہیں سکتا۔ اور یہ واقعی درست تھا کیونکہ بنوقریظہ کا ابولُبابہ کواپنے مشورہ کے لیے بلانا اور ابولُبابہ کے منہ سے ایک ایسی بات نکل جانا جوسراسر بے بنیاد تھی اور بنوقریظہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکمماننے سے انکار کرنا اور اس خیال سے کہ قبیلہ اوس کے لوگ ہمارے حلیف ہیں اور ہم سے رعایت کامعاملہ کریں گے سعد بن معاذؓ رئیس اوس کو اپنا حَکممقرر کرنا، پھر سعدؓ کاحق وانصاف کے رستے میں اس قدر پختہ ہوجانا کہ عصبیت اور جتھہ داری کااحساس دل سے بالکل محو ہو جاوے اور بالآخر سعدؓ کااپنے فیصلہ کے اعلان سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا پختہ عہد لے لینا کہ بہرحال اس فیصلہ کے مطابق عمل ہو گا۔ یہ ساری باتیں اتفاقی نہیں ہوسکتیں اور یقینا ًان کی تہ میں خدائی تقدیر اپنا کام کررہی تھی اور یہ فیصلہ خداتعالیٰ کا تھا نہ کہ سعدؓ کا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنوقریظہ کی بدعہدی اور غداری اور بغاوت اور فتنہ وفساد اور قتل وخونریزی کی وجہ سے خدائی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ ان کے جنگجولوگوں کو دنیا سے مٹا دیا جاوے۔ چنانچہ ابتداءً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواس غزوہ کے متعلق غیبی تحریک ہونا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رسولؐ کے ذریعہ سے یہ فیصلہ جاری ہو اور اس لیے اس نے نہایت پیچ درپیچ غیبی تصّرفات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبالکل الگ رکھا اور سعد بن معاذؓ کے ذریعہ اس فیصلہ کا اعلان کروایا اور فیصلہ بھی ایسے رنگ میں کروایا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں بالکل دخل نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپؐ وعدہ فرما چکے تھے کہ آپؐ بہرحال اس فیصلہ کے پابند رہیں گے اور پھر چونکہ اس فیصلہ کا اثر بھی صرف آپؐ کی ذات پر نہیں پڑتا تھا بلکہ تمام مسلمانوں پر پڑتا تھا اس لیے آپؐ اپنا یہ حق نہیں سمجھتے تھے کہ اپنی رائے سے خواہ وہ کیسی ہی عفو اور رحم کی طرف مائل ہو اس فیصلہ کو بدل دیں۔ یہی خدائی تصرف تھاجس کی طاقت سے متاثر ہوکر آپؐ کے منہ سے بے اختیار طور پر یہ الفاظ نکلے کہ قَدْحَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ یعنی اے سعد! تمہارا یہ فیصلہ توخدائی تقدیر معلوم ہوتی ہے جس کے بدلنے کی کسی کو طاقت نہیں۔ یہ الفاظ کہہ کر آپؐ خاموشی سے وہاں سے اٹھے اور شہر کی طرف چلے آئے اور اس وقت آپؐ کا دل اس خیال سے درد مند ہو رہا تھا کہ ایک قوم جس کے ایمان لانے کی آپؐ کے دل میں بڑی خواہش تھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے ایمان سے محروم رہ کر خدائی قہروعذاب کا نشانہ بن رہی ہے اور غالباً اسی موقع پر آپؐ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ اگر یہود میں سے مجھ پر دس آدمی یعنی دس بارسوخ آدمی بھی ایمان لے آتے تومیں خدا سے امید رکھتا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی اور خدائی عذاب سے بچ جاتی۔ بہرحال وہاں سے اٹھتے ہوئے آپؐ نے یہ حکم دیا کہ بنو قریظہ کے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا جائے۔ چنانچہ دونوں گروہوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے مدینہ میں لایا گیا اور شہر میں دو الگ الگ مکانات میں جمع کردیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت صحابہ نے جن میں سے غالباًکئی لوگ خود بھوکے رہے ہوں گے بنوقریظہ کے کھانے کے لیے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا اور لکھا ہے کہ یہودی لوگ رات بھر پھل نوشی میں مصروف رہے۔ دوسرے دن صبح کو سعد بن معاذؓ کے فیصلہ کا اجرا ہونا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند مستعد آدمی اس کام کی سرانجام دہی کے لیے مقرر فرما دیے اور خود بھی قریب ہی ایک جگہ میں تشریف فرما ہو گئے تا کہ اگر فیصلہ کے اجرا کے دوران میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی ضرورت ہو تو آپ بلا توقف ہدایت دے سکیں۔ نیز یہ بھی کہ اگر کسی مجرم کے متعلق کسی شخص کی طرف سے رحم کی اپیل ہو تو اس میں آپ فوراً فیصلہ صادر فرما سکیں کیونکہ گو سعد کے فیصلہ کی اپیل عدالتی رنگ میں آپؐ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتی تھی مگر ایک بادشاہ یا صدر جمہوریت کی حیثیت میں آپؐ کسی فرد کے متعلق کسی خاص وجہ کی بنا پر رحم کی اپیل ضرور سن سکتے تھے۔ بہرحال آپؐ نے بتقاضائے رحم یہ بھی حکم فرمایا کہ مجرموں کوایک ایک کرکے علیحدہ علیحدہ قتل کیا جاوے۔ یعنی ایک کے قتل کے وقت دوسرے مجرم پاس موجودنہ ہوں۔ چنانچہ ایک ایک مجرم کوالگ الگ لایا گیا اور حسب فیصلہ سعد بن معاذؓ ان کو قتل کیا گیا۔
بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق بعض غیر مسلم مؤرخین نہایت ناگوار طریقے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملے کرتے ہیں یا انہوں نے حملے کیے۔ اور کم و بیش چار سو یہودیوں کی سزائے قتل کی وجہ سے آپؐ کو نعوذ باللہ ظالم اور سفاک فرمانروا کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ایک محقق نے یہ بھی تحقیق کی ہے کہ جو اصل تعداد ہے وہ سولہ سترہ بنتی ہے لیکن بہرحال یہ تحقیق طلب چیز ہے۔ ابھی بھی اس پہ تحقیق ہو سکتی ہے۔ کسی نے تعداد سو لکھی ہے۔ چار سو لکھی ہے۔ کسی نے زیادہ لکھی ہے۔ کسی نے ہزار لکھی ہے۔ نو سو لکھی ہے۔ بہرحال کیونکہ معین تعدادنہیں ہے اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ بہرحال اگر چار سو بھی ہے تو اس اعتراض کی بنا محض مذہبی تعصب پر واقع ہے جس سے جہاں تک کم از کم اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے بہت سے مغربی روشنی میں تربیت یافتہ مؤرخ بھی آزادنہیں ہوسکے۔ یہی الزام لگاتے ہیں۔ تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ اس اعتراض کے جواب میں اول تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بنو قریظہ کے متعلق جس فیصلہ کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعد بن معاذؓ کا فیصلہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز نہیں تھا۔ اور جب وہ آپؐ کا فیصلہ ہی نہیں تھاتو اس کی وجہ سے آپؐ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ فیصلہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت ہرگز غلط اور ظالمانہ نہیں تھا۔ سوم یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعدؓ نے فیصلے کے اعلان سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا تھا آپؐ اس بات کے پابند تھے کہ بہرحال اس کے مطابق عمل کرتے۔ چہارم یہ کہ خود مجرموں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس پر اعتراض نہیں کیا اور اسے اپنے لیے ایک خدائی تقدیر سمجھا۔ تو اس صورت میں آپؐ کا یہ کام نہیں تھا کہ خواہ مخواہ اس میں دخل دینے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ سعدؓ کے فیصلے کے بعد اس معاملے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپؐ اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلے کو بصورت احسن جاری فرما دیں اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپؐ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایا کہ جو رحمت و شفقت کا بہترین نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی جب تک تو یہ لوگ فیصلے کے اجرا سے قبل قید میں رہے آپؐ نے ان کی رہائش اور خوراک کا بہتر سے بہتر انتظام فرمایا اور جب ان پر سعدؓ کا فیصلہ جاری کیا جانے لگا تو آپؐ نے ایسے رنگ میں جاری کیا کہ وہ مجرموں کے لیے کم سے کم موجب تکلیف تھا۔ یعنی اول تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آپؐ نے یہ حکم دیا کہ ایک مجرم کے قتل کے وقت کوئی دوسرا مجرم سامنے نہ ہو بلکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن لوگوں کو مقتل میں لایا جاتا تھا ان کو اس وقت تک علم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں جب تک وہ عین مقتل میں نہ پہنچ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جس شخص کے متعلق بھی آپؐ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپؐ نے اسے فوراً قبول کر لیا اور نہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی کی بلکہ ان کے بیوی بچوں اور اموال وغیرہ کے متعلق بھی حکم دے دیا کہ انہیں واپس دے دیے جائیں۔ ان کا سب کچھ، مال بھی لوٹا دیا۔ اس سے بڑھ کر ایک مجرم کے ساتھ رحمت و شفقت کا سلوک کیا ہو سکتا ہے؟ پس نہ صرف یہ کہ بنو قریظہ کے واقعہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قطعاً کوئی اعتراض واردنہیں ہوسکتا بلکہ حق یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور حسن انتظام اور آپ کے فطری رحم و کرم کا ایک نہایت بیّن ثبوت ہے۔
بے شک اپنی ذات میں سعدؓ کا فیصلہ ایک سخت فیصلہ تھا اور فطرت انسانی بظاہر اس سے ایک صدمہ محسوس کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر کوئی اَور راستہ کھلا تھا جسے اختیار کیا جاتا۔ بنو قریظہ کے متعلق سعدؓ کا فیصلہ جیسا کہ ہم نے کہا گو اپنی ذات میں بڑا سخت ہے مگر وہ حالات کی مجبوری تھی اور حالات کی مجبوری کا ایک لازمی نتیجہ تھا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مارگولیس (Margulis) جیسا مؤرخ بھی جو ہرگز اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہے اس موقع پر اس اعتراف پر مجبور ہواکہ سعدؓ کا فیصلہ حالات کی مجبوری پر مبنی تھا جس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کا حملہ جس کے متعلق محمدصاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ محض خدائی تصرفات کے ماتحت پسپا ہوا وہ بنونَضیر ہی کی اشتعال انگیز کوششوں کا نتیجہ تھا یا کم از کم یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور بنونَضیر وہ تھے جنہیں محمدصاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صرف جلاوطن کردینے پر اکتفا کی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا محمدصاحب صلی اللہ علیہ وسلم بنوقُریظہ کو بھی جلاوطن کرکے اپنے خلاف اشتعال انگیز کوششیں کرنے والوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ کر دیں؟ دوسری طرف وہ قوم مدینہ میں بھی نہیں رہنے دی جاسکتی تھی جس نے اس طرح برملا طور پر حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا جلاوطن کرنا غیر محفوظ تھا مگر ان کا مدینہ میں رہنا بھی کم خطرناک نہ تھا۔ پس اس فیصلہ کے بغیرچارہ نہ تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیا جاتا۔‘‘
یہ مارگولیس لکھ رہا ہے۔ ’’پس سعدؓ کا فیصلہ بالکل منصفانہ اور عدل و انصاف کے قواعد کے بالکل مطابق تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ اپنے عہد کے اس فیصلے کے متعلق رحم کے پہلو کو کام میں نہیں لاسکتے تھے سوائے چند افراد کے اور اس کے لیے آپ نے ہر ممکن کوشش کی جنہوں نے رحم کی اپیل کی۔ عمومی فیصلہ نہیں دے سکتے تھے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہودنے اس شرم سے کہ انہوں نے آپ کو جج ماننے سے انکار کر دیا تھا آپ کی طرف رحم کی اپیل کی صورت میں زیادہ رجوع نہیں کیا۔ صرف چند ایک نے کیا اور ظاہر ہے کہ بغیر اپیل ہونے کے آپؐ رحم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ جو باغی اپنے جرم پر ندامت کااظہار بھی نہیں کرتا اسے خود بخود چھوڑ دینا سیاسی طورپر نہایت خطرناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
ایک اَوربات یاد رکھنی ضروری ہے کہ جو معاہدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان ابتدا میں ہوا تھا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی امر قابل تصفیہ پیدا ہو گا تو اس کا فیصلہ خود انہیں کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا یعنی یہود کی شریعت کے مطابق۔ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس معاہدہ کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہود کے متعلق شریعت موسوی کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔ اب ہم تورات پرنگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں اس قسم کے جرم کی سزا جس کے مرتکب بنوقریظہ ہوئے بعینہ وہی لکھی ہوئی پاتے ہیں جو سعد بن معاذؓ نے بنوقریظہ پرجاری کی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 599 تا 611)
بہرحال بنو قریظہ کے معاملے کے بارے میں حضرت سعد بن معاذؓ کا جہاں تک ان سے تعلق تھا اس کی اتنی ہی تفصیل یہاں کافی ہے۔
غزوہ احزاب اور حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ
’’اس لڑائی میں مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ یعنی صرف پانچ چھ آدمی شہید ہوئے مگر قبیلہ اوس کے رئیس اعظم سعد بن مُعَاذؓ کو ایسا کاری زخم آیا کہ وہ بالآخر اس سے جانبر نہ ہو سکے اور یہ نقصان مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ کفار کے لشکر میں سے صرف تین آدمی قتل ہوئے لیکن اس جنگ میں قریش کو کچھ ایسا دھکا لگا کہ اس کے بعد ان کو پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح جتھہ بناکر نکلنے یامدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ: 595)
جیسا کہ پچھلے خطبے میں ذکر ہو چکا ہے کہ آپؐ نے فرمایا تھا: آئندہ سے کفار کو ہمت نہیں ہوگی کہ ہم پر حملہ کریں۔ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کو غزوۂ خندق کے موقعے پر کلائی میں زخم آیا جس سے آپؓ کی شہادت ہوئی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں غزوۂ خندق کے روز نکلی اور لوگوں کے قدموں کے نشان پر چل رہی تھی کہ مَیں نے پیچھے سے آہٹ سنی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت سعد بن مُعَاذؓ اپنے بھتیجے حارث بن اوس کے ہمراہ ڈھال لیے ہوئے تھے۔ مَیں زمین پر بیٹھ گئی۔ حضرت سعد بن مُعَاذؓ میرے پاس سے رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے گزرے کہ
لَبِّثْ قَلِیْلًا یُدْرِکُ الْہَیْجَا حَمَلْ
مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ!
کہ کچھ دیر انتظار کرو یہاں تک کہ حَمَلْ جنگ کے لیے حاضر ہو جائے۔ موت کیا ہی اچھی ہوتی ہے جب مقررہ میعاد کا وقت آ گیا ہو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے بدن پر ایک زرہ تھی جس سے آپ کی دونوں اطراف باہر تھیں۔ یعنی جسم بھاری ہونے کی وجہ سے، چوڑا ہونے کی وجہ سے اس سے باہر نکل رہا تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے اس بات پر حضرت سعدؓ کی دونوں اطراف کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہوا کہ زرہ سے باہر ہیں۔ حضرت سعد طویل القامت اور عظیم الجثہ لوگوں میں سے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ: 322 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت سعد بن مُعَاذؓ کو ابن عَرِقَہ نے زخمی کیا تھا۔ ا بن عرقہ کا نام حَبَّانْ بن عَبدِ مُنَاف تھا۔ قبیلہ بنو عَامِر بن لُؤیّ سے تعلق رکھتا تھا۔ عَرِقَہ اس کی والدہ کا نام تھا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد03صفحہ71زیرلفظ ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ”، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے بازو کی رَگ میں تیر لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے تیر کے پھل کو نکال کر پھل سے اس کو پھر بعد میں کاٹ کر داغ دیا، اس زخم کو کاٹ کر داغ دیا پھر وہ سوج گیا۔ آپؐ نے اس کو دوبارہ کاٹ کر دوبارہ داغ دیا۔ جو زخم لگا تھا تیر کے پھل سے ہی اس کو کاٹا اور پھر داغ دیا۔ (صحیح مسلم کتاب السلام باب لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابِ التَّدَاوِیحدیث: 2208)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مشرکین میں سے ایک شخص ابن عرقہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کو تیر مار رہا تھا۔ اس نے ایک تیر مارتے ہوئے کہا: یہ لو مَیں ابن عرقہ ہوں۔ وہ تیر حضرت سعدؓ کے بازو کی رگ میں لگا۔ زخمی ہونے پر حضرت سعدؓ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ تو بنو قریظہ سے میری تسلی نہ کرا دے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ322زیر لفظ ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ خندق کے روز حضرت سعدؓ کو زخم آیا۔ قریش کے ایک شخص حَبَّان بن عَرِقَہ نے آپؓ کی کلائی پر تیر مارا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ان کے لیے ایک خیمہ نصب کیا تاکہ قریب رہ کر ان کی عیادت کر سکیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ325 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعدؓ کا زخم خشک ہو کر اچھا ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! تُو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں اس قوم کے خلاف جہاد کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور اسے نکال دیا۔ اے اللہ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اگر قریش کی جنگ میں سے کچھ باقی ہے تو مجھے ان کے مقابلے کے لیے زندہ رکھ۔ اگر ابھی مزید کچھ جنگیں ہونی ہیں تو پھر مجھے اس وقت تک زندہ رکھ تا کہ میں تیری راہ میں ان سے جہاد کر سکوں اور اگر تُو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس طرح کہ میری سوچ ہے تو پھر میری رَگ کھول دے اور اس زخم کو میری شہادت کا ذریعہ بنا دے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ زخم اسی رات پھٹ گیا اور اس میں سے خون بہ نکلا۔ مسجدنبویؐ میں بنو غفار کے لوگ خیمہ زن تھے۔ خون بہ کر جب ان کے پاس پہنچا تو وہ خوفزدہ ہو گئے۔ لوگوں نے کہا اے خیمے والو ! یہ خون کیسا ہے جو تمہاری طرف سے ہمارے پاس آ رہا ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سعدؓ کے زخم سے خون بہ رہا تھا اور اسی سے ان کی وفات ہو گئی۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا خون بہنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر ان کی طرف گئے اور انہیں اپنے ساتھ چمٹایا۔ خون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ اور داڑھی پر لگ رہا تھا۔ جس قدر کوئی شخص آپ کو خون سے بچانا چاہتا تھا یعنی جس طرح وہ بہ رہا تھا لوگوں کی کوشش تھی کہ آپؐ کو خون نہ لگے، اس سے زیادہ آپؐ حضرت سعدؓ کے قریب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ حضرت سعدؓ وفات پا گئے۔
ایک اَور روایت میں ہے کہ جب حضرت سعد بن مُعَاذؓ کا زخم پھٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ ان کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور انہیں سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! سعدؓ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیرے رسول کی تصدیق کی اور جو اس کے ذمے تھا اسے ادا کر دیا پس تُو اس کی روح کو اس خیر کے ساتھ قبول فرما جس کے ساتھ تُوکسی روح کو قبول کرتا ہے۔ جب حضرت سعدؓ نے، کچھ تھوڑی سی ہوش تھی، اس وقت قریب المرگ تھے، حضرت سعدؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات سنےتو انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ جب سعدؓ کے گھر والوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا ہے تو وہ ڈر گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ سعدؓ کے گھر والے آپؐ کی گود میں اس کا سر دیکھ کر ڈر گئے تھے تو آپؐ نے یہ دعا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں اللہ سے اس بات کا طالب ہوں کہ جس قدر تم لوگ اس وقت گھر میں موجود ہو اتنی ہی زیادہ تعداد میں فرشتے حضرت سعدؓ کی وفات کے وقت حاضر ہوں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ325-326 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باریک ریشمی کپڑے کا ایک چوغہ تحفہ دیا گیا۔ آپ ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ وہ کپڑا دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے سعد بن مُعَاذؓ کے رومال جنت میں اس سے زیادہ خوبصورت ہوں گے۔ یہ بخاری کی حدیث ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الھدیہ بَابُ قَبُولِ الہَدِیَّۃِ مِنَ المُشْرِکِینَ حدیث: 2615)
انہوں نے ہاتھ میں کپڑا دیکھا۔ ان کا خیال تھا شایدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو استعمال کریں گے کیونکہ آپ تو منع فرمایا کرتے تھے لیکن بہرحال آپؐ نے اس کو دیکھ کے یہ مثال دی کہ تم اس پر حیران ہو رہے ہو بلکہ حیرت کا اظہار کیا۔ اصل میں تو دوسری حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے۔ اس کی روایت اس طرح ہے کہ حضرت براءؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی چوغہ تحفۃً پیش کیا گیا جسے آپؐ کے صحابہؓ چھُونے لگے اور اس کی نرمی پر تعجب کا اظہار کرنے لگے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کیا تم اس کی نرمی پر تعجب کرتے ہو! یقینا ًجنت میں سعد بن مُعَاذؓ کے رومال اس سے زیادہ بہتر اور زیادہ نرم ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَۃِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ سَعْد بِنْ مُعَاذ2468)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرماتے تھے سعد بن مُعَاذؓ کی وفات پر عرش کانپ گیا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح بخاری کِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ بَابُ مَنَاقِبِ سَعْد بِنْ مُعَاذ حدیث: 3803)
اور مسلم میں اس طرح ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ حضرت سعدؓ کا جنازہ رکھا ہوا تھا فرمایا کہ اس کی وجہ سے رحمان کا عرش لرز اُٹھا۔ (صحیح مسلم کتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَۃِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ سَعْد بِنْ مُعَاذ حدیث نمبر 2467)
ان باتوں کی تفصیل اور تھوڑی سی وضاحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں فرمائی ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ
’’حضرت سعدبن مُعَاذؓ رئیس قبیلہ اوس کی کلائی میں جو زخم غزوۂ خندق کے موقعہ پر آیا تھا وہ باوجود بہت علاج معالجہ کے اچھا ہونے میں نہیں آتا تھااورمندمل ہو ہو کر پھر کھل کھل جاتا تھا۔ چونکہ وہ ایک بہت مخلص صحابی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تیمارداری کا خاص خیال تھا۔ اس لیے آپؐ نے غزوۂ خندق کی واپسی پر ان کے متعلق ہدایت فرمائی تھی کہ انہیں مسجد کے صحن میں ایک خیمہ میں رکھا جائے تاآپؐ آسانی کے ساتھ ان کی تیمارداری فرما سکیں۔ چنانچہ انہیں ایک مسلمان عورت رَفِیْدَہ نامی کے خیمہ میں رکھا گیا جو بیماروں کی تیمارداری اور نرسنگ میں مہارت رکھتی تھی‘‘ یعنی وہ ایسا خیمہ تھا جہاں مریض رکھے جاتے تھے ’’اور عموماً مسجد کے صحن میں خیمہ لگا کر مسلمان زخمیوں کاعلاج کیا کرتی تھی۔ مگرباوجود اس غیر معمولی توجہ کے سعدؓ کی حالت روبہ اصلاح نہ ہوئی اور اسی دوران میں بنوقریظہ کاواقعہ پیش آ گیاجس کی وجہ سے سعدؓ کو غیرمعمولی مشقت اور کوفت برداشت کرنی پڑی اور ان کی کمزوری بہت بڑھ گئی۔ انہی ایام میں ایک رات سعدؓ نے نہایت گریہ وزاری سے یہ دعا کی کہ اے میرے مولا! تُوجانتا ہے کہ میرے دل میں یہ خواہش کس طرح بھری ہوئی ہے کہ میں اس قوم کے مقابل میں تیرے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کروں جس نے تیرے رسولؐ کی تکذیب کی اور اسے اس کے وطن سے نکال دیا۔ اے میرے آقا! میرے خیال میں اب ہمارے اور قریش کے درمیان لڑائی کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن اگرتیرے علم میں کوئی جنگ ابھی باقی ہے تو مجھے اتنی مہلت دے کہ میں تیرے رستے میں ان کے ساتھ جہاد کروں لیکن اگران کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہوچکی ہے تو مجھے اب زندگی کی تمنا نہیں ہے۔ مجھے اس شہادت کی موت مرنے دے۔ لکھا ہے کہ اسی رات سعدؓ کازخم کھل گیا اور اس قدر خون بہا کہ خیمے سے باہر نکل آیا اور لوگ گھبرا کر خیمہ کے اندر گئے توسعدؓ کی حالت دگرگوں تھی۔ آخر اسی حالت میں سعدؓ نے جان دے دی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسعدؓ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا اور واقعی اس وقت کے حالات کے ماتحت سعدؓ کی وفات مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان تھی۔ سعدؓ کو انصار میں قریباً قریباً وہی حیثیت حاصل تھی جو مہاجرین میں ابوبکرصدیقؓ کوحاصل تھی۔ اخلاص میں، قربانی میں، خدمت اسلام میں، عشقِ رسول میں یہ شخص ایسا بلند مرتبہ رکھتا تھا جوکم ہی لوگوں کوحاصل ہوا کرتا ہے اور اس کی ہر حرکت وسکون سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی محبت اس کی روح کی غذا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس تھا اس کا نمونہ انصار میں ایک نہایت گہراعملی اثر رکھتا تھا۔ ایسے قابل روحانی فرزند کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صدمہ ایک فطری امر تھا مگر آپؐ نے کامل صبر سے کام لیا اور خدائی مشیت کے سامنے تسلیم ورضا کا سرجھکا دیا۔
جب سعدؓ کا جنازہ اٹھا تو سعدؓ کی بوڑھی والدہ نے بتقاضائے محبت کسی قدر بلند آواز سے ان کا نوحہ کیا اور اس نوحہ میں زمانہ کے دستور کے مطابق سعدؓ کی بعض خوبیاں بیان کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوحہ کی آواز سنی تو گو آپؐ نے اصولاً نوحہ کرنے کو پسندنہیں کیا مگر فرمایا کہ نوحہ کرنے والیاں بہت جھوٹ بولا کرتی ہیں لیکن اس وقت سعدؓ کی ماں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ کہا ہے۔ یعنی جو خوبیاں سعدؓ میں بیان کی گئی ہیں وہ سب درست ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور دفنانے کے لیے خود ساتھ تشریف لے گئے اور قبر کی تیاری تک وہیں ٹھہرے رہے اور آخر وہاں سے دعا کرنے کے بعد تشریف لائے۔
غالباً اسی دوران میں کسی موقعہ پرآپؐ نے فرمایا کہ اِھْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ لِمَوْتِ سَعْدٍ یعنی سعدؓ کی موت پر خدائے رحمان کاعرش جھومنے لگ گیا ہے۔‘‘ باقیوں نے (ترجمہ) کیا ہے کہ لرز اٹھا ہے یا کانپ اٹھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جھومنے لگ گیا ’’یعنی عالَمِ آخرت میں خدا کی رحمت نے خوشی کے ساتھ سعدؓ کی روح کااستقبال کیا۔‘‘ عرش کے جھومنے سے یہ مراد ہے۔ ’’ایک عرصہ کے بعد جب آپؐ کو کسی جگہ سے کچھ ریشمی پارچات ہدیۃً آئے تو بعض صحابہ نے انہیں دیکھ کر ان کی نرمی اور ملائمت کا بڑے تعجب کے ساتھ ذکر کیا اور اسے ایک غیر معمولی چیز جانا۔ آپؐ نے فرمایاکیا تم اس کی نرمی پرتعجب کرتے ہو؟ خدا کی قسم جنت میں سعدؓ کی چادریں ان سے بہت زیادہ نرم اور بہت زیادہ اچھی ہیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 613-614)
بخاری اور مسلم کی آدھی احادیث میں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں وہاں رومال کا ذکر ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہاں اس کا ترجمہ چادریں کیا ہے۔ بہرحال عربی کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے لحاظ سے کپڑے کو بھی کہتے ہیں۔ حضرت سعدؓ کی والدہ آپ کے غم میں روتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہی تھیں۔
وَیْلُ أُمِّ سَعْدٍ سَعْدَا
بَرَاعَۃً وَ نَجْدَا
بَعْدَ أَیَادٍ یَا لَہٗ وَ مَجْدَا
مُقَدَّمًا سَدَّ بِہٖ مَسَدَّا
ام سعد کو سعد کی جدائی پر افسوس ہے جو ذہانت اور شجاعت کا پیکر تھا۔ جو بہادری اور شرافت کا مجسمہ تھا۔ اس محسن کی بزرگی کے کیا کہنے جو سب خلا پُر کرنے والا سردار تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کُلُّ الْبَوَاکِیْ یَکْذِبْنَ إِلَّا أُمَّ سَعْدٍ۔
کہ کسی کے مرنے پر ہر رونے والی جھوٹ بولتی ہے۔ غیر ضروری مبالغے سے کام لیتی ہے سوائے سعد کی والدہ کے۔ طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ328 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت سعدؓ بھاری بھرکم آدمی تھے جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہنے لگے کہ ہم نے کسی آدمی کا جنازہ اس قدر ہلکا نہیں دیکھا جتنا حضرت سعدؓ کا تھا اور یہ کہتے جاتے تھے کہ ایسا ان کے بنو قریظہ کے متعلق فیصلے کی وجہ سے ہوا ہے یعنی اس کو منفی رنگ دینا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! سعدؓ کا جنازہ جو تمہیں ہلکا لگا تو وہ اس لیے کہ سعدؓ کا جنازہ ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ستر ہزار فرشتے سعد بن مُعَاذؓ کے جنازے پر حاضر ہیں جو آج سے قبل کبھی زمین پر نہیں اترے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ328 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 464 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعد بن مُعَاذؓ کے جنازے کے آگے آگے چلتے ہوئے دیکھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ329 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے جنۃالبقیع میں حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی قبر کھودی تھی۔ جب ہم مٹی کا کوئی حصہ کھودتے تو مُشک کی خوشبو آتی یہاں تک کہ ہم لحد تک پہنچ گئے۔ جب ہم قبر کھود چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت سعدؓ کا جنازہ قبر کے پاس رکھا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اتنی کثرت سے آدمی دیکھے جنہوں نے جنۃ البقیع کو بھر دیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ329-330 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
عبدالرحمٰن بن جابر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعدؓ کی قبر تیار ہو چکی تو چار افراد حارث بن اوسؓ، اُسَید بن حُضَیرؓ، ابونائلہ سِلکان بن سَلَامہؓ اور سَلَمہ بن سَلَامہ بن وَقْشؓ حضرت سعدؓ کی قبر میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدؓ کے قدموں کی جانب کھڑے تھے۔ جب حضرت سعؓ د کو قبر میں اتار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپؐ نے تین مرتبہ سبحان اللہ کہا۔ آپؐ کے ساتھ تمام صحابہؓ نے بھی تین مرتبہ سبحان اللہ کہا۔ یہاں تک کہ جنۃ البقیع گونج اٹھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اللہ اکبرکہا۔ آپؐ کے ساتھ تمام صحابہؓ نے بھی اللہ اکبرکہا۔ یہاں تک کہ جنۃ البقیع اللہ اکبر سے گونج اٹھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہم نے آپؐ کے چہرے کی تبدیلی دیکھی اور آپؐ نے تین مرتبہ سبحان اللہ کہا۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ سعدؓ پر قبر میں تنگی ہوئی اور انہیں دبایا گیا۔ اگر اس سے کسی کو نجات ہوتی تو سعدؓ کی ضرور ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اسے کشادہ کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ330 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
مِسْوَر بن رِفَاعَہ قُرَظِی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی والدہ انہیں لحد میں اتارنے کے لیے آئیں تو لوگوں نے انہیں واپس بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو۔ وہ آئیں اور قبل اس کے کہ ان کی قبر پر اینٹ اور مٹی ڈالی جاتی انہوں نے حضرت سعدؓ کو لحد میں دیکھا اور کہا مجھے یقین ہے کہ تم اللہ کے پاس ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کی قبر پر ان کی والدہ سے تعزیت کی اور ایک جانب بیٹھ گئے۔ مسلمانوں نے قبر پر مٹی ڈال کر اسے برابر کر دیا اور اس پر پانی چھڑک دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس تشریف لائے کچھ دیر وہاں ٹھہرے اور پھردعا کی اور واپس تشریف لے گئے۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے دو ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد مسلمانوں پر کسی کی جدائی اتنی شاق نہ تھی جتنی حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی۔ حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی عمر وفات کے وقت 37سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ330-331 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن مُعَاذؓ کی والدہ کو فرمایا کیا تمہارا غم ختم نہ ہو گا اور تمہارے آنسو نہیں تھمیں گےکیونکہ تمہارا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ مسکرایا اور جس کے لیے عرش لرز اٹھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ332 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو دفن کیا اور ان کے جنازے سے لوٹے تو آپؐ کے آنسو آپؐ کی داڑھی پر بہ رہے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 463 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
ایک روایت حضرت سعد کے حوالے سے ہے۔ حضرت سعدؓ نے بیان کیا کہ مَیں بے شک کمزور ہوں مگر تین باتوں میں مَیں بہت پختہ ہوں۔ جو اپنی باتیں انہوں نے بتائیں کہ میرے اندر تین باتیں کیا ہیں۔ بہت کمزور انسان ہوں لیکن یہ تین باتیں ہیں جو میرے اندر بہت پکی ہیں اور ان پر میں عمل کرتا ہوں۔ پہلی یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا اسے حق جانا۔ کوئی کبھی ان کو انقباض نہیں ہوا۔ دوسرا یہ کہ میں نے اپنی نماز میں نماز کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہیں آنے دیا یہاں تک کہ نماز مکمل کر لوں۔ بڑی توجہ سے نماز پڑھتے تھے۔ تیسرا یہ کہ کوئی جنازہ حاضر نہیں ہوتا تھا مگر میں اپنے آپ کو اس کی جگہ مردہ خیال کر کے سوچتا ہوں کہ وہ کیا کہے گا اور اس سے کیا پوچھا جائے گا۔ گویا کہ وہ سوال و جواب مجھ سے ہو رہے ہیں۔ آخرت کی فکر تھی۔ (مجمع الزوائد کتاب المناقب بَابُ مَا جَاءَ فِی أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ حدیث: 15689 جلد 09 صفحہ 375 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں کہ انصار کے تین افراد ایسے تھے جو سب بنو عَبْدُالْاَشْھَل میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو ان پر فضیلت نہیں دی جاتی تھی اور وہ حضرت سعد بن مُعَاذؓ، حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ، اور حضرت عَبَّاد بن بِشْرؓ تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد03صفحہ71 ’’سَعْد بِنْ مُعَاذ‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1995ء)