حضرت سلمہ بن سلامہؓ

خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2018ء

 حضرت سلمہ بن سلامہ بدری صحابی تھے۔ انصاری تھے اور قبیلہ اوس کے خاندان بنو اشھل سے ان کا تعلق تھا۔ جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو آپ ان اولین لوگوں میں سے تھے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 391 سلمہ بن سلامہؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

آپ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل ہوئے اور نیز آپ کو بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو اپنے دور خلافت میں یمامہ کا حکمران مقرر فرمایا۔(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 523 سلمۃ بن سلامۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن سلامہ اور حضرت ابوسبرۃ بن ابی رُھَم کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی لیکن ابن اسحاق کے نزدیک سلمہ بن سلامہ اور حضرت زبیر بن العوام کے درمیان مؤاخات قائم ہوئی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 335 سلمۃ بن سلامۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

آپ اپنے بچپن کا ایک واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب کہ میں چھوٹی عمر کا تھا اور اپنے خاندان کے چند آدمیوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک یہودی عالم وہاں آ گیا اور اس نے ہمارے سامنے قیامت اور حساب اور میزان اور جنت اور دوزخ کا ذکر شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ مشرک اور بت پرست جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ آپ کے خاندان کے لوگ چونکہ بت پرست تھے اس لئے وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔ ان لوگوں نے اس یہودی عالم سے پوچھا کہ کیا واقعی لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ اور اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے۔ آخرت کی زندگی کا ان کو کوئی تصور نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ اس کی نشانی کیا ہے؟ اس پر اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس جگہ سے ایک نبی آئے گا۔ اس پر ان لوگوں نے پوچھا کہ وہ کب آئے گا؟ تو اس نے میری طرف اشارہ کیا۔ کہتے ہیں میں بچہ تھا، چھوٹا تھا میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس لڑکے نے عمر پائی تو یہ ضرور اس نبی کو دیکھے گا۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کو کچھ سال ہی گزرے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی ہمیں اطلاع ملی اور ہم سب ایمان لے آئے، یہ جو بت پرست تھے آگ پرست تھے سب ایمان لے آئے۔ کہتے ہیں اس وقت وہ یہودی عالم بھی زندہ تھا مگر حسد کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لایا اور ہم نے اس کو کہا کہ تم ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبریں سنایا کرتے تھے اب خود ہی ایمان نہیں لائے۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ وہ نبی نہیں ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخر وہ شخص اسی طرح کفر کی حالت میں مر گیا۔

حضرت عثمان کے زمانے میں جب فتنوں نے سر اٹھایا تو آپ نے عزلت نشینی اختیار کر لی اور اپنے آپ کو عبادت الٰہی کے لئے وقف کر دیا۔(رحمت دارین کے سو شیدائی صفحہ 574 تا 576 ، طالب الہاشمی البدر پبلیکیشنز لاہور 2003ء)

یعنی کہ گوشہ نشین ہو گئے کیونکہ فتنے اس وقت کافی بڑھ رہے تھے اور صرف عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں 34 ہجری میں وفات ہوئی بعض کہتے ہیں 45 ہجری میں وفات ہوئی۔ ان کی عمر 74 سال تھی جب ان کی وفات ہوئی اور مدینہ میں ہی وفات ہوئی۔  (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 125، سلمۃ بن سلامۃ بن وقش، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)