حضرت سَائِب بِن مَظْعُوْنؓ
حضرت سائِب بن مظعونؓ ، حضرت عُثْمَان بن مَظْعُونؓ کے سگے بھائی تھے۔ آپؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اولین مہاجروں میں سے تھے۔ حضرت سائِب کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 399 سائب بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ بُوَاطْ کے لئے روانہ ہوئے تو بعض روایات کے مطابق آپؐ نے حضرت سعد بن معاذؓ کو اور بعض کے مطابق حضرت سَائِب بن عثمانؓ کو اپنے پیچھے امیر مقرر فرمایا اور ایک روایت میں حضرت سائب بن مَظْعُون ؓ کا نام بھی ملتا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 174 باب ذکر مغازیہؐ غزوہ بواط مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت سائب ؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تجارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ حضرت سائِب ؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو صحابہ نے آپؐ کے سامنے میرا ذکر اور تعریف کرنی شروع کر دی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا۔ میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا ۔ صَدَقْتَ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ ۔کُنْتَ شَرِیْکِیْ فَنِعْمَ الشَرِیْکُ۔ کُنْتَ لَا تُدَارِیْ وَلَا تُمَارِیْ۔ کہ میرے ماں باپ آپؐ پر فداہوں! آپؐ نے سچ فرمایا۔ آپؐ تجارت میں میرے شریک تھے اور کیا ہی بہترین شراکت دار تھے۔ آپؐ نہ ہی مخالفت کرتے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ المراء حدیث 4836)
سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے کہ ’’مکہ سے تجارت کے قافلے مختلف علاقوں کی طرف جاتے تھے۔ جنوب میں یمن کی طرف اور شمال میں شام کی طرف تو باقاعدہ تجارت کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کے علاوہ بحرین وغیرہ کے ساتھ بھی تجارت تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً ان سب ملکوں میں تجارت کی غرض سے گئے اور ہر دفعہ نہایت دیانت و امانت اور خوش اسلوبی اور ہنرمندی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کیا۔ مکّہ میں بھی جن لوگوں کے ساتھ آپؐ کا معاملہ پڑا وہ سب آپؐ کی تعریف میں رطب اللسان تھے؛ چنانچہ سائبؓ ایک صحابی تھے۔‘‘ (جن کا ذکر ہو رہا ہے) ’’وہ جب اسلام لائے تو بعض لوگو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا ’’میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔‘‘ سائب ؓنے عرض کی۔ ’’ہاں یا رسولؐ اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ آپؐ ایک دفعہ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپؐ نے ہمیشہ نہایت صاف معاملہ رکھا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 106)