حضرت سَالِم بِن عُمَیْر بِن ثابتؓ

خطبہ جمعہ یکم مارچ 2019ء

حضرت سالم کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ آپؓ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے۔ حضرت سالم ؓغزوۂ بدر اور احد اور خندق اور تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 387 سالم بن عمیر  مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)

غزوۂ تبوک کے موقع پر جو غریب اصحاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ غزوۂ تبوک کے لئے جانا چاہتے تھے اور سواری نہ ہونے کی وجہ سے روتے تھے، حضرت سالم ؓبھی ان اصحاب میں شامل تھے۔ یہ سات غریب اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت آپؐ تبوک کے لئے جانا چاہتے تھے۔ ان اصحاب نے عرض کیا کہ ہمیں سواری دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرے پاس کوئی سواری نہیں جس پر میں تم لوگوں کو سوار کروں۔ وہ لوگ واپس گئے۔ آنکھوں میں اس غم کی وجہ سے آنسو جاری تھے کہ خرچ کرنے کو کچھ نہ پایا۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آیت وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ(التوبۃ:92) یعنی اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تیرے پاس اس وقت آئے جب جنگ کا اعلان کیا گیا تھا اس لئے کہ تو ان کو کوئی سواری مہیا کر دے تو تُو نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر مَیں تمہیں سوار کراؤں اور یہ جواب سن کر وہ چلے گئے اور اس غم سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے کہ افسوس ان کے پاس کچھ نہیں جسے خدا کی راہ میں خرچ کریں۔ تو ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے ان میں یہ سالم بن عمیر ؓاور ثعلبہ بن زید ؓشامل تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 366 سالم بن عمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 387 سالم بن عمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سورت توبہ کی اس آیت کی یعنی یہ آیت جو ہے وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’یہ آیت اپنے اطلاق کے لحاظ سے عام ہی ہے مگر جن اشخاص کی طرف اشارہ ہے وہ سات غریب مسلمان تھے جو جہاد پر جانے کے لئے بیتاب تھے مگر اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے سامان نہیں رکھتے تھے۔ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے لئے سواری کا انتظام فرما دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس ہے مَیں کوئی انتظام نہیں کر سکتا تو ان کو بڑی تکلیف ہوئی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ واپس چلے گئے۔کہتے ہیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد (یہ روایت آتی ہے کہ ان کے چلے جانے کے بعد) ’’حضرت عثمانؓ نے تین اونٹ دیے اور چار دوسرے مسلمانوں نے دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک آدمی کو ایک ایک اونٹ دے دیا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن نے یہ واقعہ اس لئے بیان کیا ہے تا کہ ان غریب مسلمانوں کے اخلاص کا مقابلہ کر کے دکھائے جو تھے تو مالدار اور سفر پر جانے کے ذرائع بھی رکھتے تھے مگر جھوٹے عذر تلاش کرتے تھے۔‘‘ (کچھ لوگ ایسے تھے جو عذر تلاش کر رہے تھے اور نہیں گئے۔ لیکن جو غریب تھے ان کا جذبہ بالکل اَور تھا تا کہ مقابلہ ہو جائے) پھر آگے فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مدینے میں پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ سب منافق نہ تھے بلکہ ان میں مخلص مسلمان بھی تھے مگر وہ اس لئے نہیں جا سکے کہ ان کے پاس جانے کے سامان نہ تھے۔‘‘ (دروس حضرت مصلح موعودؓ (غیر مطبوعہ ) تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت 92 )

اس کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے مزید آپؓ نے فرمایا ہے کہ ’’ابوموسیٰ ان لوگوں کے سردار تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپؓ نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مانگا تھا؟ تو انہوں نے کہا خدا کی قسم! ہم نے اونٹ نہیں مانگے۔ ہم نے گھوڑے نہیں مانگے۔ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ننگے پاؤں ہیں۔‘‘ جوتی بھی نہیں تھی پاؤں میں ’’اور اتنا لمبا سفر پیدل نہیں چل سکتے۔‘‘ پاؤں ز خمی ہو جائیں گے تو پھر جنگ لڑ نہیں سکتے۔ ’’اگر ہم کو صرف جوتیوں کے جوڑے مل جائیں تو ہم جوتیاں پہن کر ہی بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ جائیں گے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20  صفحہ 361)

یہ غربت کا حال تھا۔ یہ جذبہ تھا۔ حضرت سالِم بن عُمَیر ؓحضرت معاویہؓ کے زمانہ تک زندہ رہے۔  (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 387 سالم بن عمیرؓ  مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)

پھر اگلے صحابی حضرت سُرَاقَہ بِن کَعْبؓ ہیں ۔ حضرت سُرَاقہ کا تعلق قبیلہ بنو نَجَّار سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام عُمَیْرَۃ بنت نعمان تھا۔ حضرت سُرَاقَہ غزوۂ بدر اور احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت سُرَاقَہ بن کعبؓ حضرت معاویہؓ کے زمانے میں فوت ہوئے اور کلبی کی روایت کے مطابق حضرت سُرَاقَہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔  (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 371 سراقہ بن کعب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 412 سراقہ بن کعب  مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)

پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت سَائِب بِن مَظْعُوْنؓ ہے ۔ حضرت سائِب بن مظعونؓ ، حضرت عُثْمَان بن مَظْعُونؓ کے سگے بھائی تھے۔ آپؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اولین مہاجروں میں سے تھے۔ حضرت سائِب کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 399 سائب بن مظعون مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ بُوَاطْ کے لئے روانہ ہوئے تو بعض روایات کے مطابق آپؐ نے حضرت سعد بن معاذؓ کو اور بعض کے مطابق حضرت سَائِب بن عثمانؓ  کو اپنے پیچھے امیر مقرر فرمایا اور ایک روایت میں حضرت سائب بن مَظْعُون ؓ کا نام بھی ملتا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 174 باب ذکر مغازیہؐ غزوہ بواط مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

حضرت سائب ؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تجارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ حضرت سائِب ؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو صحابہ نے آپؐ کے سامنے میرا ذکر اور تعریف کرنی شروع کر دی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا۔ میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا ۔ صَدَقْتَ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ ۔کُنْتَ شَرِیْکِیْ فَنِعْمَ الشَرِیْکُ۔ کُنْتَ لَا تُدَارِیْ وَلَا تُمَارِیْ۔ کہ میرے ماں باپ آپؐ پر فداہوں! آپؐ نے سچ فرمایا۔ آپؐ تجارت میں میرے شریک تھے اور کیا ہی بہترین شراکت  دار تھے۔ آپؐ نہ ہی مخالفت کرتے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ المراء حدیث 4836)

سیرت خاتم النبیین میں اس واقعہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے کہ ’’مکہ سے تجارت کے قافلے مختلف علاقوں کی طرف جاتے تھے۔ جنوب میں یمن کی طرف اور شمال میں شام کی طرف تو باقاعدہ تجارت کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کے علاوہ بحرین وغیرہ کے ساتھ بھی تجارت تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً ان سب ملکوں میں تجارت کی غرض سے گئے اور ہر دفعہ نہایت دیانت و امانت اور خوش اسلوبی اور ہنرمندی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کیا۔ مکّہ میں بھی جن لوگوں کے ساتھ آپؐ کا معاملہ پڑا وہ سب آپؐ کی تعریف میں رطب اللسان تھے؛ چنانچہ سائبؓ ایک صحابی تھے۔‘‘ (جن کا ذکر ہو رہا ہے) ’’وہ جب اسلام لائے تو بعض لوگو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا ’’میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔‘‘ سائب ؓنے عرض کی۔ ’’ہاں یا رسولؐ اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ آپؐ ایک دفعہ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپؐ نے ہمیشہ نہایت صاف معاملہ رکھا۔‘‘  (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 106)