حضرت سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہؓ

خطبہ جمعہ 29؍ مارچ 2019ء

حضرت سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہؓ  کی کنیت ابوعبداللّٰہ تھی اور والد کا نام مَعْقِل تھا۔ ایران کے علاقے اِصْطَخَرْ کے رہنے والے تھے۔ ان کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے اور آپؓ مہاجرین میں بھی شامل ہیں۔ آپؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سَالِمؓ اور مُعَاذ بِن مَاعِضؓ کے درمیان مؤاخات کا رشتہ قائم فرمایا۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 382-383 سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

حضرت سَالِم ثُبَیْتَہ بنت یَعَارْ کے غلام تھے جو حضرت ابوحُذَیْفَہ کی بیوی تھیں۔ حضرت ثُبَیْتَہ نے حضرت سالمؓ کو سَائِبَہ کرتے ہوئے آزاد کیا تھا۔ اس زمانے میں غلاموں کا عام قانون یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی کو آزاد کر دیا جائے اور یہ آزاد شدہ غلام اگر مر جائے تو اس کے مال کا حصہ دار، جو وارث ہوتا تھا وہ آزاد کرنے والا شخص ہوا کرتا تھا اور سَائِبَہ کرتے ہوئے لکھا ہے یعنی آزاد کیا۔ سائبہ اس غلام کو کہتے ہیں جس کا مالک اسے آزاد کر دے اور اس کو فی سبیل اللہ چھوڑ دے۔ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اب اس غلام کے مرنے کے بعد اس کے مال پر آزاد کرنے والے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حضرت سالمؓ کو حضرت اَبُوحُذَیْفَہ نے اپنا مُتَبَنّٰی بنا لیا تھا۔ اس کے بعد آپؓ کو سَالِم بن اَبِی حُذَیْفَہ بھی کہا جانے لگا۔ حضرت ابوحُذَیْفَہ نے اپنی بھتیجی فَاطِمَہ بنتِ وَلِید سے ان کی شادی بھی کروا دی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 63 ’’سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (ماخوذ از المستدرک علی الصحیحین (مترجم) جلد 4 صفحہ 434 (حاشیہ) اشتیاق اے مشتاق پرنٹرز لاہور 2012ء)

کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔ (الاحزاب: 6) ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ چاہیے کہ ان لے پالکوں کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے اور اگر تم کو معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو (بہرحال) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دینی دوست ہیں اور جو تم غلطی سے پہلے کر چکے ہو اس کے متعلق تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جس بات پر تمہارے دل پختہ ارادہ کربیٹھے ہوں (وہ قابل سزا ہے) اور (ہر توبہ کرنے والے کے لیے) بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب: 6) ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ چاہیے کہ ان لے پالکوں کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے اور اگر تم کو معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو (بہرحال) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دینی دوست ہیں اور جو تم غلطی سے پہلے کر چکے ہو اس کے متعلق تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جس بات پر تمہارے دل پختہ ارادہ کربیٹھے ہوں (وہ قابل سزا ہے) اور (ہر توبہ کرنے والے کے لیے) بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت سَالِم مَولیٰ اَبُوحُذَیْفَہؓ کہلانے لگے۔ پہلے ابوحُذَیْفَہؓ کے بیٹے کہلاتے تھے لیکن بعد میں جب ان کو آزاد کر دیا تو پھر یہ آزاد کردہ غلام یا دوست بن گئے۔ محمد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوحُذَیْفَہؓ اور حضرت سَالِم مَولیٰ ابی حُذَیْفَہؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو دونوں نے حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ کے گھر قیام کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 62 ’’ابو حُذَیْفَہ بن عتبہ‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جب اولین مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو انہوں نے قبا کے قریب عُصْبَہ کے مقام پر قیام کیا۔ حضرت سالِمؓ ان کی امامت کروایا کرتے تھے کیونکہ وہ ان سب سے زیادہ قرآن کریم جانتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 64 ’’سَالِم مولیٰ ابو حُذَیْفَہ‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

مسعود بن ھُنَیْدَہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب قبا میں قیام کیا۔ وہاں ایک مسجد دیکھی جس میں صحابہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے اور حضرت سَالِم مولیٰ ابوحُذَیْفَہؓ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 233 دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت سَالِمؓ قرآن کریم کے قاری تھے۔ آپؓ ان چار صحابہ میں شامل تھے جن کے بارے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 382 ’’سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’علم و فضل میں بھی بعض آزاد شدہ غلاموں نے بہت بڑا رُتْبَہ حاصل کیا۔ چنانچہ سَالِم بن مَعْقِلْ، مَوْلیٰ اَبِی حُذَیْفَہؓ خاص الخاص علماء صحابہ میں سے سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی تعلیم کے لیے جن چار صحابیوں کو مقرر فرمایا تھا ان میں سے ایک سالمؓ بھی تھے۔ (سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزاد ہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 399)

پھر اس بارے میں تاریخ کے مطابق مزید بیان کرتے ہیں کہ ’’سَالِم بن مَعْقِلؓ …… جو ابوحُذَیْفَہؓ بن عُتْبَہ کے معمولی آزاد کردہ غلام تھے مگر وہ اپنے علم و فضل میں اتنی ترقی کر گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار صحابیوں کو قرآن شریف کی تعلیم کے لیے مسلمانوں میں مقرر فرمایا تھا اور اس معاملہ میں گویا انہیں اپنا نائب بننے کے قابل سمجھا تھا ان میں ایک سَالِمؓ بھی تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزاد ہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 403)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان چار صحابہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ نمبر ایک، پھر حضرت سَالِم مَولیٰ اَبُو حُذَیْفَہؓ، نمبر تین حضرت اُبَیّ بن کَعْبؓ اور نمبر چار حضرت مُعَاذ بِن جَبَلؓ۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب مناقب سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ حدیث 3758)

ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیر سے آنے کا سبب دریافت فرمایا تو کہنے لگیں کہ ایک قاری نہایت ہی خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اس کی تلاوت سننے لگ گئی تھی جس وجہ سے دیر ہو گئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر اوڑھی اور باہر نکل کر دیکھا تو حضرت سالمؓ تلاوت کر رہے تھے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جس نے تم جیسے قاری کو میری امت میں سے بنایا۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 383 سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

غزوہ احد کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو زخمی ہوئے تو آپؐ کے زخم دھونے کی سعادت بھی حضرت سَالِمؓ کو نصیب ہوئی۔ قَتَادَہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور دانت (جو کچلی اور سامنے کے دانتوں کے درمیان تھے) زخمی ہو گئے تھے۔ حضرت سَالِم مولیٰ ابو حُذَیْفَہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم دھو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اَوۡ یُعَذِّبَہُمۡ فَاِنَّہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ۔ (اٰلِ عمران: 129) یعنی تیرے پاس کچھ اختیار نہیں خواہ ان پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے یا انہیں عذاب دے۔ وہ بہرحال ظالم لوگ ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 35 ’’من قتل من المسلمین یوم احد‘‘ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت سالمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک ایسی قوم لائی جائے گی۔ یہ بڑے غور سے سننے والی بات ہے کہ قیامت کے دن ایک ایسی قوم لائی جائے گی جن کے پاس نیکیاں تہامہ کے پہاڑوں (تہامہ جو تھا ساحل عرب کے ساتھ ایک نشیبی علاقہ ہے جو سیناء سے شروع ہو کر عرب کے مغربی اور جنوبی جانب واقعہ ہے۔ تِہَامہ کے پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے جو خلیج قُلْزَم سے شروع ہوتا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ان کی نیکیاں تہامہ کے پہاڑوں ) کی مانند ہوں گی لیکن جب انہیں پیش کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال ضائع کر دے گا اور پھر انہیں آگ میں ڈال دے گا۔ اس پر حضرت سالمؓ نے عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ ہمیں ایسے لوگوں کی نشاندہی فرما دیں تا کہ ہم انہیں پہچان سکیں۔ قَسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اپنے بارے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ان میں شامل نہ ہو جاؤں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ ہوں گے، (غور سے سننے والی بات ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے) جو روزے رکھتے ہوں گے، نمازیں پڑھتے ہوں گے اور رات کو بہت تھوڑا سوتے بھی ہوں گے، نفل بھی پڑھتے ہوں گے لیکن جب کبھی ان کے سامنے حرام پیش کیا جائے گا وہ اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اس کے باوجود دنیاوی لالچوں میں پڑ جائیں گے اور یہ نہیں دیکھیں گے حرام کیا ہے، حلال کیا ہے۔ اس وجہ سے اللہ ان کے اعمال ضائع کر دے گا۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 6 صفحہ 851 زیر لفظ تہامہ، دانش گاہ پنجاب لاہور 2005ء) (معرفة الصحابہ لابی نعیم جلد 2 صفحہ 483 ’’سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ‘‘ حدیث نمبر 3456۔ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)

حضرت ثَوْبَانؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں اپنی امت میں کچھ ایسے لوگوں کے متعلق جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں جتنی چمکتی ہوئی نیکیوں کے ساتھ آئیں گے لیکن اللہ عزّوجل ان کو بے وقعت قرار دے کر ہوا میں بکھیر دے گا۔ اس پر مزید ایک راوی کا ایک بیان ہے۔ ثَوْبَانؓ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! ہمارے لیے ان کی کوئی نشانی بتا دیں۔ ہمیں ان کے متعلق وضاحت سے بتادیں تا کہ ہم ان میں سے نہ ہوجائیں اور ہمیں علم ہی نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے ہی بھائی ہیں، تمہاری ہی جلدوں کے سے ہیں یعنی تمہاری جنس کے لوگ ہیں، ایسے ہی رنگ ہیں۔ وہ رات کے وقت میں سے عبادت وغیرہ کے لیے بھی ایسے ہی وقت لیتے ہوں گے جیسے تم لیتے ہو، عبادت گزار بھی ہوں گے لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب اللہ کے محارم کی طرف جاتے ہیں تو اس کی بے حرمتی اور پامالی کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکرالذنوب حدیث نمبر4245)

جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، حرام فرمایا ہے ان کو پھر احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام ہے اور پھر دنیا ان پر غالب آ جاتی ہے۔ پس یہ ایک مستقل سوچنے والا اور بڑے خوف کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہمیشہ اپنا جائزہ لینے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

حضرت عَبْدُاللّٰہ بِن عُمَرؓ کے بیٹوں کا نام سَالِم، وَاقِد اور عَبْدُاللّٰہ تھا۔ جو انہوں نے بعض کبار صحابہ کے نام پر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام سَالِم بھی تھا جو سَالِم مولیٰ ابوحُذَیْفَہؓ کے نام پر رکھا گیا۔ سعید بن المُسَیَّبْ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبداللّٰہِ بن عُمَرؓ نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو میں نے اپنے بیٹے کا نام سَالِم کیوں رکھا ہے؟ کہتے ہیں میں نے عرض کی کہ میں نہیں جانتا۔ اس پر فرمانے لگے کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام حضرت سَالِم مولیٰ ابوحُذَیْفَہؓ کے نام پر سَالِم رکھا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام وَاقِد کیوں رکھا ہے؟میں نے کہا نہیں۔ نہیں جانتا تو کہنے لگے حضرت وَاقِدْ بن عبداللّٰہ یَرْبُوْعِیؓ کے نام پر رکھا ہے۔ پھر پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام عبداللہ کیوں رکھا ہے۔ جب میں نے کہا کہ نہیں جانتا تو کہنے لگے کہ حضرت عبداللہ بن رَوَاحَہؓ کے نام پر عبداللہ رکھا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 119 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

تو صحابہ جو بڑے کبار صحابہ تھے ان کی بڑی قدر کیا کرتے تھے اور اپنے بچوں کے نام کسی خاص مقصد سے پرانےبزرگوں کے ناموں پر رکھا کرتے تھے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عَمروؓ سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ کچھ لوگ گھبرا گئے تھے۔ جنگ کی بڑی شدت ہوئی تو کچھ لوگ گھبرا گئے۔ کہتے ہیں کہ میں اپنا ہتھیار لے کر نکلا تو میری نظر حضرت سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہؓ پر پڑی۔ ان کے پاس بھی اپنے ہتھیار تھے۔ چہرے پروقار اور سکینت تھی۔ کوئی گھبراہٹ نہیں تھی اور وہ پیش قدمی کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میں اس نیک آدمی کے پیچھے چلوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور آپؐ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراضگی کی حالت میں نکلے اور فرمانے لگے کہ لوگو یہ کیسی گھبراہٹ اور کیسا خوف ہے !کیا تم اس بات سے عاجز آ گئے کہ جیسی ہمت ان دونوں مؤمنوں نے دکھائی ہے تم بھی دکھاؤ۔ (التاریخ الکبیر جلد 6 صفحہ 127 باب العین حدیث 8538 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) کوئی گھبراہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح کہ حضرت سَالِم اور ساتھ ان کے یہ تھے جنہوں نے عہد کیا اور بغیر کسی گھبراہٹ کے اس کڑے وقت میں بھی باقاعدہ ڈٹے رہے۔

ابنِ اسحاق بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے ارد گرد علاقوں میں چھوٹے چھوٹے لشکر بھیجے تا کہ وہ ان قبائل کو اسلام کی طرف بلائیں لیکن ان لشکروں کو جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ تبلیغ کرنے کے لیے بھیجا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ جنگ نہیں کرنی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو قبیلہ بَنُو جَذِیْمَہ کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا۔ جب انہوں نے حضرت خالِد کو دیکھا تو ہتھیار اٹھا لیے۔ حضرت خالدؓ نے ان سے کہا لوگ مسلمان ہو چکے ہیں، اب ہتھیار اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں سے ایک شخص جَحْدَمنے کہا کہ میں ہرگز ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔ یہ خالد ہے۔ مجھے اعتبار نہیں۔ اللہ کی قَسم! ہتھیار ڈالنے کے بعد قید ہونا ہے اور قید ہونے کے بعد گردن اڑایا جانا ہے۔ اس کی قوم کے بعض افرادنے اسے پکڑ لیا اور کہا اے جَحْدَم! کیا تُو چاہتا ہے کہ ہمارا خون بہایا جائے۔ یقیناً لوگوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور جنگ ختم ہو چکی ہے۔ پھر انہوں نے اس سے ہتھیار چھین لیے اور خود بھی ہتھیار ڈال دیے۔ جب انہوں نے ہتھیار رکھ دیے تو اس کے بعد پھر حضرت خالدؓ نے ان میں سے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا اور ہم میں سے ہر آدمی کو اس کا قیدی سپرد کر دیا اور پھر اگلے دن یہ حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ حضرت سالِم مولیٰ ابو حُذَیْفَہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے کہا خدا کی قَسم! میں اپنے قیدیوں کو قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی میرا کوئی ساتھی ایسا کرے گا۔

ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ان میں سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام واقعہ بیان کر دیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ کیا کسی نے خالدؓ کے اس طرز عمل کو ناپسند بھی کیا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسندنہیں آیا کہ اس طرح ہو۔ انہوں نے پوچھا ناپسند کیا تھا؟ انہوں نے عرض کی۔ جی ہاں سفید رنگ کے ایک میانہ قد شخص نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ خالدنے انہیں ڈانٹا تو وہ خاموش ہو گئے۔ ایک دوسرے آدمی نے جن کا قد طویل تھا اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو خالدنے ان سے بھی جھگڑا کیا۔ دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا یا رسولؐ اللہ! میں ان دونوں کو جانتا ہوں۔ ایک میرا بیٹا عبداللہ ہے اور دوسرے سَالِم مُولیٰ اَبُوحُذَیْفَہؓ ہیں۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بلا کر فرمایا کہ ان لوگوں کی طرف جاؤ اور معاملہ دیکھو کہ کیا معاملہ ہوا ہے؟کیوں ایسا ہوا ہے؟ اور جاہلیت والے معاملے کو اپنے قدموں تلے مسل دو۔ یہ بالکل جہالت کی باتیں ہوئی ہیں۔ اس کو بالکل ختم کر دو۔ چنانچہ حضرت علیؓ اس مال کو لے کر گئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا تھا۔ حضرت علیؓ کو صرف بھیجا نہیں بلکہ بہت سا مال ساتھ دے کر بھیجا تھا اور آپؐ نے ان لوگوں کا جو بھی جانی اور مالی نقصان ہوا تھا اس کی دیت ادا کی۔ مال اس لیے بھیجا تھا کہ غلط طریقے سے جو جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اس کی دیت ادا کی جائے۔ اس کے بعد بھی حضرت علیؓ کے پاس کچھ مال بچ رہا تو آپؓ نے ان لوگوں سے پوچھا کیا کسی جانی اور مالی نقصان کی دیت ادا ہونا رہ گئی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ بڑے انصاف سے سب کچھ ہو گیا۔ کچھ نہیں رہا۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا کہ میں پھر بھی اس احتیاط کے ماتحت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رہتی ہے یہ مال تمہیں دے دیتا ہوں کیونکہ جو وہ جانتے ہیں وہ تم لوگ نہیں جانتے۔ چنانچہ آپؓ ان کو یہ مال دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوٹے اور آپؐ کو اس کی اطلاع دے دی کہ اس طرح میں کر آیا ہوں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے بخوبی اس کام کو انجام دیا ہے۔ پھر آپؐ نے قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ بلند کر کے تین مرتبہ یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَبْرَأُ اِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدُ ابْنُ الْوَلِیْد۔ کہ اے اللہ! میں اس سے جو خالد بن ولیدنے کیا ہے تیرے حضور براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 557-558 باب مسیر خالد بن الولید بعد الفتح الیٰ بنی جذیمہ۔ ۔ ۔ الخ۔ دار ابن حزم بیروت 2009ء) (صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث النبیﷺ خالد بن ولید الیٰ بنی جذیمہ حدیث 4339)

یہ بڑا غلط کام ہوا ہے۔ پس اپنوں نے بھی اگر کوئی ظلم کیا ہے یا غلطی کی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور روکا بلکہ اس کا مداوا بھی کیا۔ ان کو دیت بھی ادا کی اور مظلوم کی تسکین کے سامان بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ باوجود اس کے کہ وہ لوگ دشمن بھی تھے جنہوں نے ہتھیار اٹھائے تھے لیکن آپؐ نے پسندنہیں کیا کہ اس طرح ہو۔ یہ تھا آپؐ کے انصاف کا معیار۔

ابراہیم بن حَنْظَلَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے روز حضرت سالِم مولیٰ ابو حُذَیْفَہؓ سے کہا گیا کہ آپؓ جھنڈے کی حفاظت کریں جبکہ بعض نے کہا کہ ہمیں آپؓ کی جان کا ڈر ہے۔ اس لیے ہم آپؓ کے علاوہ کسی اَور کے سپرد جھنڈا کرتے ہیں۔ اس پر حضرت سالمؓ نے کہا تب تو میں بہت بُرا حاملِ قرآن ہوں۔ یعنی مجھے تو قرآن کریم کا بڑا علم ہے اور اس علم رکھنے کے باوجود اگر میں اس پر عمل کرنے والا نہیں تو پھر یہ بہت بُری بات ہے یا یہ کہ اگر جان کے خوف سے ایک اہم فریضہ جو ہے اور قرآن کریم کا جو حکم ہے اس سے میں بچنے والا بنوں تو ایسے علمِ قرآن کا پھر کیا فائدہ؟ بہرحال لڑائی کے دوران جب آپؓ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو آپؓ نے اپنے بائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے رکھا اور جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھنڈے کو گردن میں دبا لیا اور یہ پڑھنے لگے کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۔ (ال عمران: 145)۔ وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ۔ (ال عمران: 147)۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض اللہ کے ایک رسولؐ ہیں اور کتنے ہی نبی تھے جن کے ساتھ مل کر بہت سے رَبَّانی لوگوں نے قِتال کیا۔ جب حضرت سالِمؓ گر گئے تو ساتھیوں سے پوچھا کہ ابوحُذَیْفَہؓ کا کیا حال ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔ پھر ایک اور آدمی کا نام لے کر پوچھا کہ اس نے کیا کیا تو جواب ملا کہ وہ بھی شہید ہو گئے ہیں اس پر حضرت سالمؓ نے کہا کہ مجھے ان دونوں کے درمیان میں لٹا دو۔ جب آپؓ شہید ہو گئے تو بعد میں حضرت عمرؓ نے ان کی میراث ثُبَیْتَہ بِنت یَعَارْ کے پاس بھیجی۔ انہوں نے حضرت سالِمؓ کو آزاد کیا تھا لیکن انہوں نے اس میراث کو قبول نہ کیا اور ساتھ یہ کہا کہ میں نے ان کو سَائِبَہ بنا کر یعنی محض خدا کی راہ میں آزاد کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کی میراث کو بیت المال میں جمع کروا دیا۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 384 سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

محمد بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں جب مسلمان منتشر ہو گئے تو حضرت سالمؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح نہیں کیا کرتے تھے یعنی بھاگ نہیں جایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے ایک گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہو گئے۔ اس دن آپؓ کے پاس مہاجرین کا جھنڈا تھا۔ اس کے بعد آپؓ بہادری سے لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ آپؓ جنگِ یمامہ جو 12؍ہجری میں ہوئی تھی اس میں شہید ہوئے اور یہ واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں ہوا۔ طبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 64-65 سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت سَالِمؓ شہید ہوئے تو لوگ کہتے تھے کہ گویا قرآن کا ایک چوتھائی حصہ چلا گیا۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 251-252 کتاب معرفة الصحابہ باب ذکر مناقب سَالِم مولیٰ ابی حُذَیْفَہ حدیث 5004، دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) یعنی جن چار علماء کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا کہ ان سے قرآن سیکھو، ان میں سے ایک چلا گیا۔