حضرت سَبرۃ بن فاتکؓ
حضرت سَبرۃ بن فاتک خُریم بن فاتک کے بھائی تھے اور خاندان بنو اسد سے تھے۔ ان کے والد کا نام فاتک بن الاخرم تھا۔ حضرت سبرۃ کا نام سَمُرَہ بن فاتک بھی ملتا ہے۔ ایمن بن خُریم بیان کرتے ہیں کہ میرے والد اور چچا دونوں غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور انہوں نے مجھ سے پختہ عہد لیا تھا کہ میں کسی مسلمان سے قتال نہیں کروں گا، جنگ نہیں کروں گا۔ عبداللہ بن یوسف نے کہا ہے کہ سبرۃ بن فاتک وہی ہیں جنہوں نے دمشق کو مسلمانوں میں تقسیم کیا تھا۔ ان کا شمار شامیوں میں ہوتا ہے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میزان خدائے رحمن کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بعض قوموں کو بلند کرتا ہے اور بعض کو زوال دیتا ہے( یعنی ان کے اپنے عملوں کی وجہ سے)۔ حضرت سبرۃ بن فاتک کا گزر حضرت ابودرداء کے پاس سے ہوا تو انہوں نے کہا سبرۃ کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔ عبدالرحمن بن عائذ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے حضرت سبرۃ کو برا بھلا کہاتو انہوں نے اس کا جواب دینے سے بچنے کے لئے غصہ پی لیا۔ جواب نہیں دیا، غصہ کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا، خاموش رہے اور غصہ کو دبانے کی وجہ سے آبدیدہ ہو گئے۔ اتنا شدت سے ان کو غصہ تھا، اتنا برا بھلا کہا گیا ان کو کہ غصہ دبایا جس کی وجہ سے آنکھوں سے پانی آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہی اچھا آدمی ہے سَمُرہ اگر وہ اپنے لمبے بال کچھ چھوٹے کروا لے (ان کے لمبے بال تھے) اور اپنی تہ بند کو تھوڑا اوپر اٹھا لے۔ جب آپ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ مجھے اس بات کی خواہش ہے کہ ہر دن کسی مشرک سے میرا سامنا ہو جس نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اگر وہ مجھے شہید کر دے تو ٹھیک اور اگر میں اسے قتل کر دوں تو اس جیسا اور میرے مقابل پر آ جائے۔ بعض کے نزدیک یہ بدر میں شامل نہیں تھے لیکن امام بخاری وغیرہ نے آپ کو اور آپ کے بھائی کو بدری اصحاب میں شامل کیا ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ190 سبرۃ بن فاتک، دار الفکر بیروت2003ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد3 صفحہ25-26 ،152سبرۃ،سمرۃ بن فاتک، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2 صفحہ29 خریم بن فاتک الاسدی، دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)