حضرت سَعْد بن عُبَیْدؓ
حضرت سَعْد بن عُبَیْد غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ آپؓ کا نام سَعِید بھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ‘قاری’کے لقب سے مشہور تھے۔ آپؓ کی کنیت ابوزَید تھی۔ حضرت سعد بن عُبَیْدؓ کا شمار ان چار اصحاب میں ہوتا ہے جنہوں نے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں قرآن جمع کیا تھا۔ آپؓ کے بیٹے عُمَیْر بن سَعْد حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں شام کے ایک حصہ کے والی تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سَعْد بن عُبَیْدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد قبا میں امامت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں بھی اس امامت پر مامور تھے۔ حضرت سعد بن عُبَیْد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے سولھویں سال جنگ قَادِسِیّہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 64 سال تھی۔
عبدالرحمٰن بن ابو لیلٰی سے روایت ہے کہ جنگ جِسر جو 13 ہجری میں ہوئی اس میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہوا تھا۔ حضرت سعد بن عُبَیْد شکست کھا کر واپس آئے، پیچھے ہٹ گئے تھے تو حضرت عمرؓ نے حضرت سَعْد بن عُبَید سے فرمایا کہ ملک شام میں جہاد سے دلچسپی ہے؟ سوال پوچھا۔ وہاں مسلمانوں سے شدید خونریزی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اگر تمہیں شوق ہے تو پھر وہاں چلے جاؤ اور دشمن کی اس خونریزی کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس سے دشمن ان پر دلیر ہو گئے ہیں تو حضرت عمرؓ نے ان کو فرمایا کہ شاید آپؓ اپنے اوپر لگی ہوئی شکست کی بدنامی کا داغ دھو سکیں کیونکہ یہاں یعنی جنگ جِسر سے واپس آئے تو مسلمانوں کو نقصان ہوا تھا تو حضرت عمرؓ نے آپؓ کو کہا کہ اگر اس بدنامی کا، شکست کا داغ دھونا ہے تو وہاں شام کی طرف بھی جنگ ہو رہی ہے۔ حضرت سعدنے عرض کیا نہیں۔ میں سوائے اس زمین کے اور کہیں نہیں جاؤں گا جہاں سے مَیں بھاگا ہوں یا ناکام واپس آیا ہوں اور ان دشمنوں کے مقابل پر ہی نکلوں گا جنہوں نے میرے ساتھ جو کرنا تھا کیا یعنی مراد یہ تھی کہ لڑائی میں وہ غالب آ گئے۔ چنانچہ حضرت سعد بن عُبَیدؓ قادسیہ آئے اور وہاں لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ عبدالرَّحمٰن بن ابو لَیْلٰی روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبَیدنے لوگوں سے وعظ کیا اور کہا کہ کل ہم دشمن کامقابلہ کریں گے اور کل ہم شہیدہوں گے۔ لہٰذا تم لوگ نہ ہمارے بدن سے خون دھونا اور نہ، سوائے ان کپڑوں کے جو ہمارے بدن پر ہیں، کوئی اَور کفن دینا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 349 سعد بن عبید دار الکتب العلمیۃبیروت1990ء) (اسد الغابة فی معرفۃ الصحابۃجلد2 صفحہ445 سعد بن عبید دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد3 صفحہ57 سعد بن عبید دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
جنگ جِسر کی کچھ تفصیل ایک گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کی تھی۔ اس حوالے سے کچھ اور تھوڑا بیان کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جنگ جِسر 13 ہجری میں دریائے فرات کے کنارے مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور مسلمانوں کی طرف سے لشکر کے سپہ سالار حضرت اَبُوعُبَیْدثَقْفِیؓ تھے جبکہ ایرانیوں کی طرف سے بَہْمَنْ جَادْوَیْہ سپہ سالار تھا۔ مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار تھی جبکہ ایرانیوں کی فوج میں تیس ہزار فوجی اور تین سو ہاتھی تھے۔ دریائے فرات کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے یعنی بیچ میں دریائے فرات آ گیا تھا اس وجہ سے دونوں گروہ کچھ عرصہ تک لڑائی سے رُکے رہے یہاں تک کہ فریقین کی باہمی رضا مندی سے فرات پر جِسر یعنی ایک پل تیار کیا گیا۔ اسی پل کی وجہ سے اس کو جنگ جِسر کہا جاتا ہے۔ جب پل تیار ہو گیا تو بَہْمَنْ جَادْوَیْہ نے حضرت اَبُوعُبَیْدؓ کو کہلا بھیجا کہ تم دریا عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہمیں عبور کرنے کی اجازت دو گے۔ حضرت اَبُوعُبَیْدؓ کی رائے تھی کہ مسلمانوں کی فوج دریا عبور کر کے مخالف گروہ سے جنگ کرے جبکہ لشکر کے سردار جن میں حضرت سَلِیْطؓ بھی تھے اس رائے کے خلاف تھے لیکن حضرت ابوعُبَیْدؓ نے دریائے فرات کو عبور کر کے اہلِ فارِس کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ تھوڑی دیر تک لڑائی ایسے ہی چلتی رہی۔ کچھ دیر بعد بَہْمَنْ جَادْوَیْہ نے اپنی فوج کو منتشر ہوتے دیکھا۔ دیکھا کہ ایرانیوں کی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے تو اس نے ہاتھیوں کو آگے بڑھانے کا حکم دیا۔ ہاتھیوں کے آگے بڑھنے سے مسلمانوں کی صفیں بے ترتیب ہو گئیں۔ اسلامی لشکر ادھر ادھر ہٹنے لگا۔ حضرت ابوعُبَیْدؓ نے مسلمانوں کو کہا کہ اے اللہ کے بندو! ہاتھیوں پر حملہ کرو اور ان کی سونڈیں کاٹ ڈالو۔ حضرت ابوعُبَیْدؓ یہ کہہ کر خود آگے بڑھے اور ایک ہاتھی پر حملہ کر کے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی۔ باقی لشکر نے بھی یہی دیکھ کر تیزی سے لڑائی شروع کر دی اور کئی ہاتھیوں کی سونڈیں اور پاؤں کاٹ کر ان کے سواروں کو قتل کر دیا۔ اتفاق سے حضرت ابوعُبَیدؓ ایک ہاتھی کے سامنے آئے۔ آپؓ نے وار کر کے اس کی سونڈ کاٹ دی مگر آپؓ اس ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آ گئے اور دب کر شہید ہو گئے۔ حضرت ابوعُبَیدؓ کی شہادت کے بعد سات آدمیوں نے باری باری اسلامی جھنڈا سنبھالا اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ آٹھویں شخص حضرت مُثَنّٰیؓ تھے جنہوں نے اسلامی جھنڈے کو لے کر دوبارہ ایک پُر جوش حملے کا ارادہ کیا لیکن اسلامی لشکر کی صفیں بے ترتیب ہو گئی تھیں اور لوگ مسلسل سات امیروں کو شہید ہوتے دیکھ کر اِدھر اُدھر بھاگنا شروع ہو گئے تھے جبکہ کچھ دریا میں کود گئے تھے۔ حضرت مُثَنّٰیؓ اور آپؓ کے ساتھی مردانگی سے لڑتے رہے۔ بالآخر حضرت مُثَنّٰیؓ زخمی ہو گئے اور آپؓ لڑتے ہوئے دریائے فرات عبور کر کے واپس آ گئے۔ اس واقعہ میں مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ مسلمانوں کے چار ہزار آدمی شہید ہوئے جبکہ ایرانیوں کے چھ ہزار فوجی مارے گئے۔ (ماخوذ از تاریخ ابن خلدون (مترجم) حکیم احمد حسین اٰلہ آبادی جلد 3 صفحہ 270 تا 273 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2003ء)
بہرحال یہ جنگ اس لیے ہوئی تھی کہ ایرانیوں کی طرف سے بار بار حملے ہو رہے تھے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے یہ اجازت لی گئی تھی کہ جنگ کریں۔