حضرت سَلَمَہ بن اسلمؓ
حضرت سلمہ بن اسلمؓ قبیلہ بنو حارثہ بن حارث سے تھے۔ آپؓ کے والد کا نام اسلم تھا۔ ایک قول کے مطابق آپ کے دادا کا نام حَرِیْش تھا جبکہ دوسرے قول کے مطابق حَرِیْس تھا۔ آپؓ کی کنیت اَبُو سَعْد تھی۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ464، الانصار ومن معھم / من بنی عبید بن کعب وحلفائھم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001) (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد الثانی صفحہ 198 ’’سلمہ بن اسلم‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
حضرت سلمہ بن اسلمؓ کی والدہ کا نام سُعَاد بنت رَافِع تھا۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور اس کے علاوہ دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپؓ نے غزوۂ بدر میں صَائب بن عُبَیْد اور نُعْمان بن عَمْرو کو قید کیا تھا۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جِسر میں شہید ہوئے تھے جو دریائے فرات کے کنارے لڑی گئی تھی۔ اس جنگ کی تفصیل، میں گذشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں۔ بہت بڑی جنگ تھی جو مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور جِسر پُل کو کہتے ہیں۔ دریا پرایک پل بنایا گیا تھا۔ اس سے، جِسر نام ہے اس کے ذریعے سے پھر مسلمان دوسرے علاقے میں گئے تھے۔ اور اس جنگ میں ایرانیوں کی طرف سے جنگی ہاتھی بھی استعمال ہوئے تھے۔ بہرحال جنگ میں دونوں فریقَین کا بہت نقصان ہوا۔ مسلمانوں کا خاص طور پر بہت نقصان ہوا تھا۔ بوقتِ وفات روایات کے اختلاف کے ساتھ کم و بیش آپؓ کی عمر 38 سال بیان کی جاتی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 236 ’’سلمہ بن اسلم‘‘ وَمِنْ حُلَفَاءِ بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ بْنِ جُشَمَ۔ داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 516 ’’سلمہ بن اسلم‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد3صفحہ120 سلمہ بن اسلم، دارالفکر بیروت 2001) (تاریخ ابن خلدون مترجم جلد 3 حصہ اول صفحہ271، دارالاشاعت کراچی 2003ء)
علامہ نور الدین حلبی کی مشہور کتاب سیرت حلبیہ میں غزوۂ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے ضمن میں بیان ہے کہ غزوۂ بدر میں حضرت سلمہ بن اسلمؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کھجور کی چھڑی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے ساتھ لڑائی کرو۔ حضرت سلمہ بن اسلمؓ نے جیسے ہی اس چھڑی کو اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ ایک بہترین تلوار بن گئی اور وہ بعد میں ہمیشہ آپؓ کے پاس رہی۔ (السیرة الحلبیۃ جلد2 صفحہ245 ذکر مغازیہﷺ غزوة بدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)‘ شرح زرقانی’اور‘دلائلِ نبوت’میں ہے کہ بدر کے روز حضرت سلمہ بن اسلمؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو خالی ہاتھ رہ گئے اور بغیر کسی ہتھیار کے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک چھڑی دیتے ہوئے فرمایا اس کے ساتھ لڑائی کرو تو وہ ایک بہترین تلوار بن گئی جو یومِ جِسر میں شہید ہونے تک آپؓ کے پاس رہی۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 302 باب غزوۃ بدر الکبریٰ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) (دلائل النبوة للبیہقی جلد3 صفحہ 99 باب ما ذکر فی المغازی من دعائہ۔ ۔ ۔ ۔ دارالکتب العلمیة بیروت1988ء)
ابن سعد غزوۂ خندق کے ذکر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہؓ کے پاس تھا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے پاس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اسلمؓ کو دو سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا تھا۔ ان جھنڈوں کے نیچے جو مختلف پارٹیاں تھیں ان پہ نگران مقرر کیے گئے تھے تو حضرت سلمہؓ کو دو سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور حضرت زید بن حارثہؓ کو تین سو آدمیوں پر نگران مقرر کیا گیا تھا اور ان کی یہ ڈیوٹی مقرر فرمائی کہ وہ مدینے کا پہرہ دیں گے اور بآوازِ بلند تکبیر پڑھتے رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنو قُرَیظہ کی طرف سے جہاں بچے وغیرہ حفاظت کی غرض سے رکھے گئے تھے اس جگہ پر حملے کا اندیشہ تھا۔ (عیون الاثر جلد 2 صفحہ 88 غزوة الخندق، دارالقلم بیروت1993ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ایک سازش ہوئی تھی اور اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
غزوۂ احزاب کی ذِلّت بھری ناکامی کی یادنے قریشِ مکہ کے تن بدن میں آگ لگا رکھی تھی اور طبعاً یہ قلبی آگ زیادہ تر ابوسفیان کے حصے میں آئی تھی جومکہ کارئیس تھا اور احزاب کی مہم میں خاص طور پر ذلّت کی مار کھاچکا تھا۔ کچھ عرصے تک ابوسفیان اس آگ میں اندر ہی اندر جلتا رہا مگر بالآخر معاملہ اس کی برداشت سے باہر نکل گیا اور اس آگ کے مخفی شعلے باہر آنے شروع ہوئے، ان کا اظہار ہونا شروع ہو گیا۔ طبعاً کفار کی سب سے زیادہ عداوت بلکہ درحقیقت اصل عداوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ تھی اس لیے اب ابوسفیان اس خیال میں پڑ گیا کہ جب ظاہری تدبیروں اور حیلوں اور جنگوں کاکوئی نتیجہ نہیں نکلا توکیوں کسی مخفی تدبیر سے، (کسی بہانے سے، کسی حیلے سے) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاخاتمہ نہ کردیا جائے، کیوں ایسی تدبیر نہ کی جائے۔ وہ یہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کوئی خاص پہرہ نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات آپؐ بالکل بے حفاظتی کی حالت میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے۔ شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے تھے۔ مسجد ِنبویؐ میں روزانہ کم از کم پانچ وقت نمازوں کے لیے تشریف لاتے تھے اور سفروں میں بالکل بے تکلفانہ اور آزادانہ طورپر رہتے تھے۔ اس سے زیادہ اچھا موقع کسی کرایہ دار قاتل کے لیے کیا ہوسکتا تھا؟ یہ خیال آنا تھا کہ ابوسفیان نے اندر ہی اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تجویز پختہ کرنی شروع کردی۔ جب وہ پورے عزم کے ساتھ اس ارادے پر جم گیا تواس نے ایک دن موقع پاکر اپنے مطلب کے چند قریشی نوجوانوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا جواں مردنہیں جو مدینے میں جاکر خفیہ خفیہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کر دے؟ تم جانتے ہو کہ محمد کھلے طور پر مدینے کی گلی کوچوں میں پھرتا ہے۔ (جس طرح بھی اس نے اپنی زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا۔) ان نوجوانوں نے اس خیال کو سنا اور لے اڑے۔ (ان کے دل میں یہ بات رَچ گئی۔) یہ بات نکلے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک بدوی نوجوان ابوسفیان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تجویز سنی ہے۔ کسی نوجوان نے بتا دی اور میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ میں ایک مضبوط دل والا اور پختہ کار انسان ہوں جس کی گرفت سخت اور حملہ فوری ہوتا ہے۔ اگر آپ مجھے اس کام کے لیے مقرر کرکے میری مدد کریں تو میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کوقتل کرنے کی غرض سے جانے کے لیے تیار ہوں اور میرے پاس ایک ایسا خنجر ہے جوشکاری گدھ کے مخفی پروں کی طرح رہے گا یعنی بہت چھپا ہوا ہے، چھپا کے ایسی حالت میں رکھوں گا۔ سومیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کروں گا اور پھر بھاگ کر کسی قافلے میں مل جاؤں گا اور مسلمان مجھے پکڑ نہیں سکیں گے اور میں مدینے کے رستے کا بھی خوب ماہر ہوں۔ ابوسفیان بڑا خوش ہوا اس نے کہاکہ بس بس تم ہمارے مطلب کے آدمی ہو۔ اس کے بعد ابوسفیان نے اسے ایک تیز رَواونٹنی اور سفر کازادِراہ دیا، خرچ دیا اور رخصت کیا اور تاکید کی کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا۔
مکّے سے رخصت ہوکر یہ شخص دن کو چھپتا ہوا اور رات کو سفر کرتا ہوا مدینے کی طرف روانہ ہوا۔ چھٹے دن مدینے پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ لیتے ہوئے سیدھا قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پہنچا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ چونکہ ان ایام میں نئے سے نئے آدمی مدینے میں آتے رہتے تھے اس لیے کسی مسلمان کواس کے متعلق شبہ نہیں ہوا کہ کس نیت سے آیا ہے۔ مگر جونہی یہ مسجد میں داخل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا یہ شخص کسی بری نیّت سے آیا ہے۔ اونچی آواز میں آپؐ نے فرمایا۔ اس تک یہ الفاظ پہنچ گئے، وہ یہ الفاظ سن کر اَوربھی تیزی کے ساتھ آپؐ کی طرف بڑھا مگر ایک انصاری رئیس اُسَید بِن حُضَیْر فوراً لپک کر اس کے ساتھ لپٹ گئے اور اس جدوجہد میں ان کا ہاتھ اس کے چھپے ہوئے خنجر پر بھی جا پڑا۔ پھر وہ گھبرا کر بولا کہ میرا خون میرا خون۔ یعنی تُو نے مجھے زخمی کر دیا۔ جب اسے مغلوب کرلیاگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو اور کس ارادے سے آئے ہو؟ اس نے کہا کہ میری جان بخشی کی جائے تو میں بتا دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں اگر تم ساری بات سچ سچ بتا دو توپھر تمہیں معاف کردیا جائے گا۔ جس پر اس نے سارا قصّہ من وعن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیا اور یہ بھی بتایا کہ ابوسفیان نے اس سے اِس قدر انعام کاوعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ شخص چند دن تک مدینے میں ٹھہرا اور پھر اپنی خوشی سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کے، مسلمانوں کے ساتھ رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوگیا۔ اسلام لے آیا۔
ابوسفیان کی اس خونی سازش نے اس بات کو آگے سے بھی زیادہ ضروری کردیا کہ مکّے والوں کے ارادے اور نیت سے آگاہی رکھی جائے۔ تاکہ پتا لگے کہ ان کی کیا نیّت ہے کہ اس طرح کی خفیہ سازشیں بھی کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے اپنے دوصحابی عمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ اور سلمہ بن اسلمؓ، جن کا ذکر ہو رہا ہے، ان کومکّے کی طرف روانہ فرمایا اور ابوسفیان کی اس سازش ِقتل اور اس کی سابقہ خون آشام کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ بھی اجازت دے دی کہ اگر موقع پائیں تو بے شک اسلام کے اس حربی جنگی دشمن کا خاتمہ کر دیں۔ مگر جب امیہ اور ان کا ساتھی مکہ میں پہنچے توقریش ہوشیار ہوگئے اور یہ دوصحابی اپنی جان بچا کر مدینے کی طرف واپس لوٹ آئے۔ راستے میں انہیں قریش کے دوجاسوس مل گئے جنہیں رؤسا ئے قریش نے مسلمانوں کی حرکات وسکنات کاپتا لینے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اب یہ بھی کوئی تعجب نہیں کہ یہ تدبیر بھی قریش کی کسی اَورخونی سازش کا پیش خیمہ ہو، جیسے پہلے ایک آدمی کو بھیجا تھا۔ ان کو بھی بھیجا ہو کہ سازش کر کے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل کریں مگرخدا کا ایسا فضل ہوا کہ امیہ اور سلمہ بن اسلم کوان کی جاسوسی کا پتا چل گیا جس پر انہوں نے ان جاسوسوں پرحملہ کرکے انہیں قید کرلینا چاہا مگرانہوں نے سامنے سے مقابلہ کیا۔ چنانچہ اس لڑائی میں ایک جاسوس تومارا گیا اور دوسرے کو قید کرکے وہ اپنے ساتھ مدینے میں واپس لے آئے۔
اس سریہ کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور طبری اسے4؍ ہجری میں بیان کرتے ہیں مگرابن سعدنے اسے 6؍ہجری میں لکھا ہے۔ علامہ قُسْطَلَانی اور زَرْقَانِی نے ابن سعد کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ان ساروں کی (تحقیق کا) تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لہٰذا میں نے بھی اسے 6؍ہجری میں بیان کیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ واللہ اَعلم۔ ابن سعد کی روایت کے مفہوم کی تائید بیہقی نے بھی کی ہے مگر اس میں اس واقعہ کے زمانہ کاپتا نہیں چلتا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ741تا743)
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت سلمہ بن اسلمؓ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت ام عُمَارہ بیان کرتی ہیں کہ میں صلح حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی جبکہ آپؐ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ اور حضرت سلمہ بن اسلمؓ دونوں آہنی خود پہنے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ جب قریش کے سفیر سُہَیل بن عَمرو نے اپنی آواز کو بلند کیا تو ان دونوں نے اسے کہا کہ اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دھیما رکھو، آہستہ رکھو، ہلکی رکھو۔ (کتاب المغازی جلد 2صفحہ 93 باب غزوة الحدیبیۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) یہ ان کی ایک خاص خدمت کا ذکرہے جو اس موقعے پر بیان ہوا۔