حضرت سَوَادْ بِن غَزِیّہؓ
یہ انصاری تھے۔ ان کا ذکر بھی آتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عدی بن نجار سے تھا۔ غزوہ بدر اور اُحد اور خندق اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوہ بدر میں انہوں نے خالد بن ہشام مخزومی کو قید کیا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تھا۔ آپ وہاں سے عمدہ کھجوریں لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک صاع عمدہ کھجوریں دو صاع عام کھجوروں کے بدلے میں خریدیں۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 590 سواد بن غزیہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجوریں پسند آئیں تو آپ نے اس کی جو موجودہ قیمت تھی وہ کھجوروں کے مقابلے میں کھجوریں دے کر خرید لیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت خاتم النبیین میں غزوہ بدر کے واقعات میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سَواد کی خوش بختی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ذکر ملتا ہے۔ رمضان دو ہجری کی سترہ تاریخ جمعہ کا دن تھا۔ عیسوی حساب سے 14مارچ 623 عیسوی تھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پھر پرستاران احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد پر ایک خطبہ فرمایا۔ پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپ نے ایک تیر کے اشارے سے مسلمانوں کی صفوں کو درست کرنا شروع کیا۔ ایک صحابی سَوادنامی صف سے کچھ آگے نکل کے کھڑا تھا۔ آپ نے اسے تیر کے اشارے سے پیچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپ کے تیر کی لکڑی اس کے سینے پہ جا لگی۔ اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ (یہ عجیب واقعہ ہے کہ تیر سے لائنیں سیدھی کر رہے تھے تو تیر کی لکڑی لائن سے باہر نکلے اس کے سینے پہ لگ گئی۔ اس نے بڑی جرأت سے کہا کہ آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے) مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے۔ واللہ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ اس پر صحابہ (بڑے حیران پریشان) انگشت بدنداں تھے کہ سَواد کو کیا ہو گیاہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اچھا سَواد میں نے تمہیں مارا ہے تو تم بھی مجھے تیر مار لو۔ آپ نے اپنے سینے سے کپڑا اٹھا دیا۔ سَوادنے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کر آپ کا سینہ چوم لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ سواد! یہ تمہیں کیا سوجھی؟ اس نے رقّت بھری آواز میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ دشمن سامنے ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کے جانا بھی ملتا ہے یا نہیں۔ میں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھو لوں اور پیار کروں۔ ’’اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے بھلائی کی دعا کی۔‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 357-358)، (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 590 سواد بن غزیہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
ان صحابہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے بھی عجیب انداز تھے۔ ایک حضرت عُکاشہؓ کا واقعہ آتا ہے وہ تو بڑی عمر میں جا کر بہت بعد کی بات ہے اور یہ شروع کی بات ہے۔ یہ ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے، اس کوشش میں رہتے تھے کہ کس طرح کوئی موقع ملے اور ہم عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف اظہار کریں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب سے برکتیں حاصل کرنے والے بھی ہوں۔