حضرت سَہْلؓ بن حُنَیْف انصاری
حُنَیْف ان کے والد تھے۔ والدہ کا نام ہند بنت رافع تھا۔ والدہ کی طرف سے آپ کے دو بھائی تھے عبداللہ اور نعمان اور ان کی اولاد میں بیٹے اسد اور عثمان اور سعد تھے۔ حضرت سہل کی اولاد مدینہ اور بغداد میں مقیم رہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت علی کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ انہوں نے غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ حضرت سہل بن حُنَیْف عظیم المرتبت صحابی تھے لیکن آپ کے مالی حالات مضبوط نہ تھے۔ حضرت ابنِ عُیَیْنَہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زُہری کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے اموال میں سے حضرت سہل بن حُنَیْف اور حضرت ابودُجانہ کے علاوہ انصار میں سے کسی کو حصہ نہیں دیا کیونکہ یہ دونوں تنگدست تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 247و من بنی حنش بن عوف ….سہل بن حنیف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2صفحہ 223دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد حضرت علی نے تین دن اور راتیں مکہ میں قیام کیا اور لوگوں کی وہ امانتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد تھیں وہ انہیں واپس کیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور آپ کے ساتھ حضرت کلثوم بن ھِدْم کے ہاں ٹھہرے۔ دوران سفر ایک دو رات قُبَا میں حضرت علی کا قیام رہا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ قُبَا میں ایک مسلمان عورت تھی جس کا خاوندنہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رات گئے ایک آدمی آ کے اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اس پر وہ عورت باہر آتی ہے۔ وہ آدمی کوئی چیز اسے دیتا ہے اور وہ لے لیتی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اس معاملہ پر شک ہوا۔ میں نے اس عورت سے کہا کہ اے اللہ کی بندی! یہ آدمی کون ہے جو ہر رات تمہارے دروازے پر دستک دیتا ہے اور جب تم باہر آتی ہو تو تمہیں کوئی چیز پکڑا جاتا ہے جس کا مجھے پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے۔ اور تم ایک مسلمان عورت ہو تمہارا شوہر بھی نہیں ہے اس لئے یہ اس طرح رات کو نکلنا اور کسی غیر مرد سے اس طرح بات کرنا یا چیز لینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس عورت نے کہا کہ یہ سَہْل بن حُنَیف ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ میں اکیلی عورت ہوں اور میرا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے جب شام ہوتی ہے تو یہ اپنے لوگوں کے، قوم کے، رشتہ داروں کے بتوں کو توڑتے ہیں اور پھر مجھے لا کر دے دیتے ہیں تا کہ میں انہیں جلا دوں۔ اور ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ حضرت سہل کی وفات تک آپ کا یہ واقعہ بیان کرتے تھے یعنی کہ اپنے لوگوں میں شرک مٹانے کے لئے آپ نے یہ ایک ترکیب استعمال کی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 348ہجرۃ الرسولﷺ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت سَہْل بن حُنَیف ان عظیم المرتبت صحابہ میں سے تھے جنہوں نے اُحد کے روز ثابت قدمی دکھائی۔ اس روز انہوں نے موت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈھال بن کر ڈٹے رہے۔ جب دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے مسلمان بکھر گئے تھے اس دن انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تیر چلائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانَبِّلُوْا سَھْلًا فَاِنَّہٗ سَھْلٌ۔ کہ سہل کو تیر پکڑاؤ کیونکہ تیر چلانا اس کے لئے آسان امر ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2 صفحہ 223دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء) پھر بیان کیا جاتا ہے کہ غَزُوْل ایک ماہر نیزہ باز یہودی تھا اس کا پھینکا ہوا نیزہ وہاں تک پہنچ جاتا تھا جہاں دوسروں کے نیزے نہیں پہنچ سکتے تھے۔ بنو نضیر کے محاصرہ کے ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خیمہ تیار کیا گیا۔ غَزُوْل نے نیزہ پھینکا جو کہ اس خیمے تک پہنچ گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کو یعنی خیمہ کو وہاں سے ہٹا دیں۔ چنانچہ اس کی جگہ تبدیل کر دی گئی۔ پھر اس کے بعد حضرت علی اس شخص کی گھات میں گئے۔ غزول ایک گروہ کو ساتھ لئے مسلمانوں کے کسی بڑے سردار کو قتل کرنے کے ارادے سے نکل رہا تھا۔ حضرت علی نے موقع پا کر اسے قتل کر دیا اور اس کا سر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھاگ گئے۔ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی ہی قیادت میں دس افراد پر مشتمل ایک دستہ روانہ فرمایا جنہوں نے ان لوگوں کا تعاقب کر کے ان کو قتل کر دیا اس لئے کہ وہ جنگ کے لئے اور چھپ کر حملہ کر کے قتل کرنے کے لئے نکلے تھے۔ اس دستہ میں جو حضرت علی کے ساتھ گیا تھا حضرت اَبُو دُجانہ اور حضرت سہل بن حُنَیف بھی شامل تھے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2صفحہ 359غزوۃ بنو نضیر، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1999ء) کوئی دن نہیں تھا جو اس زمانے میں آرام و سکون سے گزرتا ہو ہر وقت دشمن حملے کی تاک میں تھا۔ تو ایسے دشمنوں کے ساتھ پھر یہی سلوک ہونا چاہئے تھا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب میں سیرت خاتم النبیین میں تحریر فرماتے ہیں کہ جب شام کا ملک فتح ہوا اور وہاں کی عیسائی آبادی اسلامی حکومت کے ماتحت آ گئی تو ایک دن جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سہل بن حُنَیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے کسی شہر میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھےتو ان کے پاس سے ایک عیسائی کا جنازہ گزرا۔ یہ دونوں اصحاب اس کی تعظیم میں کھڑے ہوئے۔ ایک مسلمان نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحبت یافتہ نہیں تھا اور ان اخلاق سے ناآشنا تھا جو اسلام سکھاتا ہے یہ دیکھ کر بہت تعجب کیا اور حیران ہو کر سہل اور قیس سے کہا کہ یہ تو ایک ذمّی عیسائی کا جنازہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم جانتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ آپ غیر مسلموں کے جنازے کو دیکھ کر بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا ان میں خدا کی پیدا کی ہوئی جان نہیں ہے۔ (سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 656-657) پس یہ ہے ایک طریق انسانیت کے احترام اور مذاہب کے درمیان نفرتیں ختم کرنے کا جس کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور وہی اسوہ حسنہ پھر صحابہ نے بھی اپنایا۔
ابووائل سے روایت ہے کہ ہم صِفِّیْن میں تھے کہ حضرت سہل بن حُنَیف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اے لوگو! اپنے آپ کو ہی غلطی پر سمجھو کیونکہ ہم حدیبیہ کے واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اگر ہم مقابلہ کی صورت دیکھتے تو ضرور مقابلہ کرتے۔ اتنے میں حضرت عمر بن خطاب آئے۔ (یعنی حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے) اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ کافر باطل پر؟ تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ تو انہوں نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہم حدیبیہ کے دنجو صلح کر رہے ہیں تو اپنے دین سے متعلق ایسی ذلّت کیوں برداشت کریں۔ کیا ہم یہاں سے یونہی لَوٹ جائیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خطاب کے بیٹے! مَیں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے ہرگز کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی کچھ کہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر بخاری نے ہی لکھا ہے۔ وہ آگے حدیث لکھتے ہیں کہ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو آخر تک پڑھ کر سنائی۔ حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔ (صحیح البخاری کتاب الجزیہ باب اثم من عاھد ثم غدرحدیث 3182)
اس حدیث کی شرح میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ صِفِّیْن عراق اور شام کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ کا مقابلہ ہوا اور جب حضرت معاویہ کی فوج کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کو شکست ہونے لگی ہے۔ تو انہوں نے قرآن مجید کو اونچا کیا اور کہا کہ قرآن مجید کو حَکَم بنا کر فیصلہ کیا جائے۔ چنانچہ اس پر جنگ بند ہو گئی۔ حضرت علیؓ کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ بعض لوگوں کی طرف سے جنگ بندی پر اعتراضات بھی ہوئے۔ حضرت سہل حضرت علی کی طرف سے شریک تھے۔ حضرت سہل بن حُنیف نے ان سے کہا کہ اِتَّھِمُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ کہ اپنی رائے ہی کو نہ درست سمجھو کیونکہ اس سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر کو بھی غلط فہمی پیدا ہوئی تھی لیکن آخر واقعات نے بتا دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت اور ایفائے عہد کو برکت دی گئی اور آپ خطرے سے محفوظ ہو گئے۔ تو کہتے ہیں پھر آپ نے کہا کہ لوگ جس بات کو کمزوری اور ذلت پر محمول کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو قوت و عزت کا باعث بنا دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چھوٹی بڑی بات میں معاہدہ کی نگہداشت ملحوظ رکھی ہے۔ (شرح صحیح البخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 5صفحہ 543) گو یہاں تو دھوکہ ہوا اور وہ نتائج نہیں نکلے لیکن مومن کو ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہئے اور جو معاہدے اللہ تعالیٰ کے نام پر کئے جانے کی کوشش کی جائے تو ساری چیزیں دیکھ کراسے کر لینا چاہئے یہی مومنانہ شان ہے۔ لیکن بہرحال دوبارہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا بھی دیا تھا۔ اسی کو بیان کرتے ہوئے حضرت سہل نے یہ کہاکہ اگر معاہدہ ہو رہا ہے، جنگ بندی ہو رہی ہے تو ہمیں بھی صلح حدیبیہ والے واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے صلح کر لینی چاہئے۔
حضرت سہل بن حُنَیف سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم مکہ کی طرف میرے پیامبر ہو۔ پس تم جا کر انہیں میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تین باتوں کا حکم دیتے ہیں۔ اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ۔ باپ دادا کی قسمیں کھانا منع ہے۔ گناہ ہے۔ جب تم قضائے حاجت کے لئے بیٹھو تو اپنا منہ اور پیٹھ قبلہ رخ کر کے نہ بیٹھو۔ شمالاً جنوباً بیٹھنا چاہئے۔ اسی طرح تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ ہڈی اور گوبر سے استنجا نہ کرو۔ (المستدرک علی الصحیحین ذکر مناقب سہل بن حنیف، حدیث 5837دارالفکر بیروت2002ء) اس میں بھی بڑی حکمت ہے کئی قسم کے بیکٹریا ہوتے ہیں جس سے انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ آجکل تو ٹشو اور پانی کا رواج ہے لیکن اس زمانے میں جنگلوں میں پتھر اور ہڈیاں وغیرہ استعمال کی جاتی تھیں جس سے آپ نے منع فرمایا۔
جیسا کہ پہلے حضرت علیؓ کے ضمن میں ذکر ہو چکا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میری تلوار نے آج کمال کر دیا تو حضرت عاصم بن ثابت اور سہل بن حنیف کے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ ان کی تلواروں نے بھی آج کمال کیا ہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی گئی تب بھی سہل جو تھے وہ ان کے ساتھ تھے۔ جب حضرت علی بصرہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت سہل کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔ آپ حضرت علی کے ساتھ جنگ صِفِّیْن میں شامل ہوئے۔ حضرت علیؓ نے آپ کو بلاد فارس کا والی مقرر فرمایا لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ کو نکال دیا جس پر حضرت علیؓ نے حضرت زیاد کو بھیجا جن سے اہل فارس راضی ہوئے اور مصالحت کی اور خراج ادا کیا۔ نکال اس لئے نہیں دیا تھا کہ نعوذ باللہ آپ کوئی غلط کام رہے تھے بلکہ مختلف طبائع ہوتی ہیں۔ ہر ایک انسان کی مختلف خصوصیات ہوتی ہیں اس لحاظ سے حضرت زیاد اہل فارس کو بہتر رنگ میں قابو کر سکے اور پھر ان سے مصالحت بھی ہو گئی اور خراج وغیرہ بھی وصول کیا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2صفحہ 223دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء) حضرت سہل بن حُنیف کی وفات جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ میں 38ہجری میں ہوئی۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت علی نے پڑھائی۔
حضرت حَنَشْ بن مُعْتَرْ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سہل بن حُنیف کی وفات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے میدان میں تشریف لائے۔ حضرت علیؓ نے نماز جنازہ میں چھ تکبیرات کہیں۔ یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار گزری۔ اس پر آپ نے لوگوں کو کہا کہ حضرت سہل بدری صحابی ہیں۔ جب ان کا جنازہ جَبَّانَہ کے مقام پر پہنچا تو حضرت قَرَظَہ بن کعب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ہمیں ملے۔ انہوں نے حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین! ہم حضرت سہل کی نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اس پر حضرت علی نے انہیں آپ کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی۔ پس انہوں نے حضرت قَرَظَہ کی امامت میں حضرت سہل کی نماز جنازہ ادا کی۔ (المستدرک علی الصحیحین ذکر مناقب سہل بن حنیف حدیث 5827دارالفکر بیروت2002ء) (الطبقات الکبری لابن سعد جلد3صفحہ 248و من بنی حنش بن عوف ….سہل بن حنیف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)