حضرت سُلَیْم بن مِلْحَان اَنْصَارِیؓ
حضرت سُلَیْم بن مِلْحَان اَنْصَارِی کی والدہ مُلَیْکَہ بنتِ مَالِک تھیں۔ حضرت انس بن مالک کے ماموں جبکہ حضرت اُمِّ حَرَام اور حضرت اُمِّ سُلَیْم کے بھائی تھے۔ حضرت اُمِّ حَرَام حضرت عُبَادۃ بن صامِت کی اہلیہ تھیں جبکہ حضرت اُمّ سُلَیْم حضرت ابوطلحہ اَنْصَارِی کی اہلیہ تھیں اور ان کے صاحبزادے حضرت انس بن مالک خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ انہوں نے غزوۂ بدر اور احد میں اپنے بھائی حضرت حَرَام بن مِلْحَان کے ساتھ شرکت کی تھی اور آپ دونوں ہی واقعہ بئر معونہ میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 546 سُلَیْم بن مِلْحَانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 391 سُلَیْم بن مِلْحَانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے چھتیسویں مہینے صَفَر میں یعنی صَفَر کا جو مہینہ ہے اس میں بِئْرِ مَعُونہ کی طرف حضرت مُنْذِر بن عَمْرو السَّاعِدِی کا سریہ ہوا۔ عَامِر بن جعفررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپؐ کو ہدیہ دینا چاہا جسے آپؐ نے لینے سے انکار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اسلام قبول نہ کیا اور نہ ہی اسلام سے دور ہوا۔ عَامِر نے درخواست کی کہ اگر آپؐ اپنے اصحاب میں سے چند آدمی میرے ہمراہ میری قوم کے پاس بھیج دیں تو امید ہے کہ وہ آپ کی دعوت کو قبول کر لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ اہلِ نجد اِن کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچائیں تو اس نے کہا کہ اگر کوئی ان کے سامنے آیا تو مَیں ان کو پناہ دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستّر نوجوان جو قرآن کریم کے قاری کہلاتے تھے اس کے ساتھ بھجوائے اور حضرت مُنْذِر بن عَمْرو السَّاعِدِی کو ان پر امیر مقرر کیا۔ پہلے بھی یہ واقعہ بیان ہو چکا ہے۔ جب یہ لوگ بئرِ معونہ کے مقام پر پہنچے جو بنی سُلَیْم کا گھاٹ تھا اور بنی عَامِر اور بنی سُلَیْم کی زمین کے درمیان تھا یہ لوگ وہیں اترے، پڑاؤ کیا اور اپنے اونٹ وہیں چھوڑ دئے۔ انہوں نے پہلے حضرت حَرَام بن مِلْحَان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دے کر عَامِر بن طُفَیل کے پاس بھیجا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پڑھا ہی نہیں اور حضرت حَرَام بن مِلْحَان پر حملہ کر کے شہید کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف اس نے بنی عَامِر کو بلایا مگر انہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر اس نے قبائل سُلَیْم میں عُصَیَّہ اور ذَکْوَان اور رِعْل کو پکارا۔ وہ لوگ اس کے ساتھ روانہ ہو گئے اور اسے اپنا رئیس بنا لیا۔ جب حضرت حَرَام کے آنے میں دیر ہوئی تو مسلمان ان کے پیچھے آئے۔ کچھ دور جا کر ان کا سامنا اس جتھے سے ہوا جو حملہ کرنے کے لئے آ رہا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ دشمن تعداد میں بھی زیادہ تھے۔ جنگ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب شہید کر دئے گئے۔ مسلمانوں میں حضرت سُلَیْم بن مِلْحَان اور حَکَم بن کَیْسَان کو جب گھیر لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ! ہمیں سوائے تیرے کوئی ایسا نہیں ملتا جو ہمارا سلام تیرے رسول کو پہنچا دے۔ لہٰذا تُو ہی ہمارا سلام پہنچا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرئیل نے اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا وَعَلَیْھِمُ السَّلَام۔ ان پر سلامتی ہو۔ مُنْذِر بن عَمْرو سے ان لوگوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں امن دے دیں گے مگر انہوں نے انکار کیا۔ وہ حضرت حَرَام کی جائے شہادت پر آئے۔ ان لوگوں سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید کر دئے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ آگے بڑھ گئے تا کہ مر جائیں یعنی موت کے سامنے چلے گئے حالانکہ وہ اسے جانتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 39-40 سریۃ المنذر بن عَمْروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) باوجود جنگ کا سامان پورا نہ ہونے کے بڑی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور جنگ کی نیت سے گئے بھی نہیں تھے۔