حضرت سُوَیْبِطْ بن سَعْدؓ
حضرت سُوَیْبِطْ بن سَعْدؓ کو سُوَیْبِطْ بن حَرْمَلَہ بھی کہا جاتا ہے۔ آپؓ کا نام سُوَیْط بن حَرْمَلَہ اور سَلِیْط بن حَرْمَلَہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت سُوَیْبِطْؓ کا تعلق قبیلہ بنو عبد ِدار سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام ھُنَیْدَہ تھا۔ آپؓ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے آپؓ کو مہاجرینِ حبشہ میں شامل کیا ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 354 ’’سُوَیْبِطْ بن حرملہ‘‘ دارالفکر بیروت لبنان2003ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ الجزء السادس صفحہ 368 ’’نُعَیْمَان بن عمرو‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء) (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد12، جزء 24صفحہ 117 ’’ذکر من اسمہ سلیط‘‘ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان)
حضرت سُوَیْبِطْؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد آپؓ نے حضرت عبداللّٰہ بن سَلَمہ عَجْلَانِیؓ کے گھر قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سُوَیْبِطْؓ اور حضرت عَائِذْ بن مَاعِصْؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا تھا۔ حضرت سُوَیْبِطْؓ نے غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں بھی شرکت کی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 65 ’’سُوَیْبِطْ بن سَعْد‘‘ ومن عبدالدار بن قصی داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت ام سَلَمَہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل بُصْرٰی، ملک شام کا ایک علاقہ اس کی طرف تجارت کے لیے گئے تھے۔ ان کے ساتھ نُعَیْمَانؓ اور سُوَیْبِطْ بن حَرْمَلَۃؓ نے بھی سفر کیا اور یہ دونوں جنگِ بدر میں بھی موجود تھے۔ نُعَیْمَانؓ زادِ راہ پر متعیّن تھے۔ سُوَیْبِطْؓ کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ اس نے نُعَیْمَانؓ سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ۔ جو زادِ راہ تھا، سامان تھا اس کے نگران تھے۔ قافلے کا کھانے پینے کا انتظام ان کے سپرد تھا۔ انہوں نے ان سے کہا کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابوبکرؓ نہیں آئیں گے میں کھانا نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا اگر تم مجھے کھانا نہیں دو گے تو میں تمہیں غصہ دلاؤں گا۔ یہ واقعہ پہلے بھی مَیں نے مختصر بیان کیا تھا۔ جب یہ جا رہے تھے تو اس دوران میں حضرت سُوَیْبِطؓ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو سُوَیْبِطْؓ نے ان سے کہا کیا تم مجھ سے میرا ایک غلام خریدو گے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ سُوَیْبِطْؓ نے اس قبیلے والوں کو کہا کہ وہ غلام بولنے والا ہے یاد رکھنا۔ اور یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں۔ جب تمہیں وہ یہ بات کہے تو تم اس کو چھوڑ کر میرے غلام کو میرے لیے خراب نہ کرنا۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ہم اسے تجھ سے خریدنا چاہتے ہیں۔ تو انہوں نے دس اونٹنیوں کے عوض اس غلام کو خرید لیا۔ پھر وہ لوگ حضرت نُعَیْمَانؓ کے پاس آئے اور ان کے گلے میں پگڑی یا رسّی ڈالی۔ نُعَیْمَانؓ بولے کہ یہ شخص تم سے مذاق کر رہا ہے۔ مَیں آزاد ہوں غلام نہیں ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اس نے تمہارے بارے میں پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ تم یہی کہو گے اور وہ پکڑ کے لے گئے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے اور لوگوں نے اس کے متعلق آپؓ کو بتایا تو آپؓ ان لوگوں کے پیچھے گئے اور ان کو ان کی اونٹنیاں واپس دیں اور نُعَیْمَانؓ کو واپس لیا۔ واپس لے آئے اور کہا یہ آزاد ہے غلام نہیں ہے۔ انہوں نے مذاق کیا تھا۔ اس طرح کے مذاق بھی صحابہ میں چلتے تھے۔ بہرحال جب یہ لوگ واپس پہنچے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو بتایا تو راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ایک سال تک اس سے حظ اٹھاتے رہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاح حدیث نمبر 3719) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 522 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس بات پہ خوب ہنسے اور ایک سال تک لطیفہ مشہور رہا۔ بہرحال مندرجہ بالا واقعہ ایک فرق کے ساتھ بعض کتب میں اس طرح بھی ملتا ہے۔ لکھا ہے کہ فروخت کرنے والے حضرت سُوَیْبِطْؓ نہیں بلکہ حضرت نُعَیْمَانؓ تھے۔