حضرت سُہَیل بن رافِعؓ
حضرت سُہَیل کا تعلق قبیلہ بنو نَجَّار سے تھا۔ وہ زمین جس پر مسجدنبوی تعمیر ہوئی وہ آپؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت سہل کی ملکیت تھی۔ آپؓ کی والدہ کا نام زُغَیْبَہ بنتِ سَہْل تھا۔ حضرت سہیلؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جلد3 صفحہ 372 سہیل بن رافع، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے جو تحریر فرمایا ہے پیش کرتا ہوں۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ
“جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے، ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپؐ کی اونٹنی گزرتی تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رسولؐ اللہ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ یارسولؐ اللہ! اور ہم آپؐ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔ آپؐ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپؐ کو اپنے گھر میں اتروا لیں مگر آپؐ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے۔ ” (جو اس کو حکم ہوگا۔ یہی سمجھو کہ جہاں اللہ تعالیٰ چاہے گا وہاں یہ بیٹھ جائے گی) “یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اونٹنی ٹھہر گئی۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی۔ ان کا ولی آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپؐ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپؐ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔ ” (دیباچہ تفسیرالقرآن۔ انوارالعلوم جلد20 صفحہ 228)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں کچھ اس طرح لکھی ہے کہ
” مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجدنبوی کی تعمیر تھا جس جگہ آپؐ کی اونٹنی آ کر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سُہَیل کی ملکیت تھی جو حضرت اَسْعَد بن زُرَارَۃؓ کی نگرانی میں رہتے تھے۔ یہ ایک افتادہ جگہ تھی۔ ” یعنی بالکل بنجر، غیر آباد جگہ تھی “جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے۔ ” اکا دکا درخت لگے ہوئے تھے۔ “اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے “گرے ہوئے مکان تھے، کھنڈر تھے۔ ” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایا اور دس دینار …… میں یہ زمین خرید لی گئی اور جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجدنبویؐ کی تعمیر شروع ہو گئی۔“(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ269)
ایک روایت کے مطابق اس زمین کی یہ جو رقم تھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادا کی تھی۔ (شرح زرقانی جلد 2 صفحہ186 دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء)
پھر لکھتے ہیں کہ جگہ کو ہموار کر کے اور درختوں کو کاٹ کر مسجدنبویؐ کی تعمیر شروع ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعا مانگتے ہوئے سنگ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قبا کی مسجد میں ہوا تھا صحابہؓ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شرکت فرماتے تھے۔ بعض اوقات اینٹیں اٹھاتے ہوئے صحابہ حضرت عبداللہ بن رَوَاحَہ انصاری کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ
هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَر، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرُ
یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانوروں پر لد کر آیا کرتا ہے۔ بلکہ اے ہمارے مولیٰ! یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی صحابہ کام کرتے ہوئے عبداللہ بن رَوَاحَہ کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَہ، فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہ
یعنی اے ہمارے اللہ! اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے پس تُو اپنے فضل سے انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔ جب صحابہ یہ شعر پڑھتے تھے یا اشعار پڑھتے تھے تو بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز ملا دیتے تھے اور اس طرح ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوئی۔ مسجد کی عمارت پتھروں کی سلوں اور اینٹوں کی تھی جو لکڑی کے کھمبوں کے درمیان چُنی گئی تھی۔ اس زمانے میں مضبوط عمارت کے لیے یہ رواج تھا کہ لکڑی کے بلاک کھڑے کر کے، کھمبے بنا کر یا pillar بنا کر اس کے اندر یہ اینٹیں اور مٹی کی دیواریں لگائی جاتی تھی تا کہ مضبوطی قائم رہے۔ یہ اس کا سٹرکچر (structure) ہوتا تھا اور چھت پر کھجور اور تنے اور شاخیں ڈالی گئی تھیں۔ مسجد کے اندر چھت کے سہارے کے لیے کھجورکے ستون تھے اور جب تک منبر کی تجویز نہیں ہوئی، وہ منبر جہاں کھڑے ہو کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے انہی ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے وقت ٹیک لگا کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ مسجد کا فرش کچا تھا اور چونکہ زیادہ بارش کے وقت چھت ٹپکنے لگتی تھی اس لیے ایسے اوقات میں فرش پر کیچڑ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ اس تکلیف کو دیکھ کر بعد میں کنکریوں کا فرش بنوا دیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے پتھر وہاں ڈالے گئے۔ شروع شروع میں مسجد کا رخ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا تھا لیکن تحویل قبلہ کے وقت یہ رخ بدل دیا گیا۔ مسجد کی بلندی یعنی height اس وقت دس فٹ تھی (چھت دس فٹ اونچی تھی)۔ اور طول ایک سو پانچ فٹ (لمبائی ایک سو پانچ فٹ تھی) اور عرض 90 فٹ کے قریب تھا (چوڑائی جو تھی نوے فٹ تھی) لیکن بعد میں اس کی توسیع کر دی گئی۔ یہ بھی جو 105 فٹ اور 90 فٹ کا رقبہ بنتا ہے یہ تقریباً پندرہ سولہ سو نمازیوں کے لیے جگہ بنتی ہے۔
مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دار چبوترا بنایا گیا تھا جسے صُفَّہ کہتے تھے۔ یہ ان غریب مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے، جن کا گھر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور اَصْحَابُ الصُّفَّہ کہلاتے تھے۔ ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے اور جب کبھی آپؐ کے پاس کوئی ہدیہ وغیرہ آتا تھا یا گھر میں کچھ ہوتا تھا تو ان کا حصہ ضرور نکالتے تھے۔ ان لوگوں کا کھانا پینا اکثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فاقہ کرتے اور جو کچھ گھرمیں ہوتا تھا وہ اصحاب الصفہ کو بھجوا دیتے تھے۔ انصار بھی ان لوگوں کی مہمان نوازی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اور ان کے لیے کھجوروں کے خوشے لا لا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اور یہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتٰی کہ کچھ تو مدینہ کی آبادی کی وسعت کے نتیجہ میں ان لوگوں کے لیے کام نکل آیا مزدوری وغیرہ ملنے لگ گئی اور کچھ قومی بیت المال سے امداد کی صورت پیدا ہو گئی۔ حالات بہتر ہوئے تو ان کی مدد ہونے لگ گئی۔
مسجد کے ساتھ ملحق طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رہائشی مکان تیار کیا گیا تھا۔ مکان کیا تھا ایک دس پندرہ فٹ کا چھوٹا سا حجرہ تھا اور اس حجرے اور مسجد کے درمیان ایک دروازہ رکھا گیا تھا جس میں سے گزر کر آپؐ نماز وغیرہ کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَور شادیاں کیں تو اسی حجرے کے ساتھ ساتھ دوسرے حجرات بھی تیار ہوتے گئے اور مسجدکے آس پاس بعض اور صحابہ کے مکانات بھی تیار ہو گئے۔
یہ تھی مسجدنبویؐ جو مدینہ میں تیار ہوئی اور اس زمانہ میں چونکہ اَور کوئی پبلک عمارت ایسی نہیں تھی جہاں قومی کام سرانجام دیے جاتے۔ اس لیے ایوانِ حکومت کا کام بھی یہی مسجد دیتی تھی۔ یہی دفتر تھا۔ یہی حکومت کا پورا سیکرٹیریٹ (secretariat)تھا۔ یہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس لگتی تھی۔ یہیں تمام قسم کے مشورے ہوتے تھے۔ یہیں مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ یہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے۔ یہی قومی مہمان خانہ تھا یعنی کہ جو مہمان خانہ تھا وہ بھی یہی مسجد ہی تھا۔ اور ہر قومی کام جو تھا وہ اسی مسجد میں انجام دیا جاتا تھا۔ اور ضرورت ہوتی تھی تو اسی سے جنگی قیدیوں کا حبس گاہ کا کام بھی لیا جاتا تھا یعنی یہیں مسجد میں جنگی قیدی بھی رکھے جاتے تھے اور بہت سارے قیدی ایسے بھی تھے جب مسلمانوں کو عبادت کرتے اور آپس کی محبت اور پیار دیکھتے تھے تو ان میں سے پھر مسلمان بھی ہوئے۔ بہرحال اس کے بارے میں سر ولیم میور بھی ذکر کرتا ہے جو ایک مستشرق ہے اور اسلام کے خلاف بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی کافی لکھتا ہے، لیکن وہ یہاں اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ
گو یہ مسجد سامان تعمیر کے لحاظ سے نہایت سادہ اور معمولی تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسجد اسلامی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتی ہے۔ رسول خداؐ اور ان کے اصحابؓ اسی مسجد میں اپنے وقت کا بیشتر حصہ گزارتے تھے۔ یہیں اسلامی نماز کا باقاعدہ باجماعت صورت میں آغاز ہوا۔ یہیں تمام مسلمان جمعہ کے دن خدا کی تازہ وحی کو سننے کے لیے مؤدبانہ اور مرعوب حالت میں جمع ہوتے تھے۔ یہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فتوحات کی تجاویز پختہ کیا کرتے تھے۔ یہیں وہ ایوان تھا جہاں مفتوح اور تائب قبائل کے وفود ان کے سامنے پیش ہوتے تھے۔ یہی وہ دربار تھا جہاں سے وہ شاہی احکام جاری کیے جاتے تھے جو عرب کے دُور دراز کونوں تک باغیوں کو خوف سے لرزا دیتے تھے اور بالآخر اسی مسجد کے پاس اپنی بیوی عائشہؓ کے حجرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان دی اور اسی جگہ اپنے دو خلیفوں کے پہلو بہ پہلو وہ مدفون ہیں۔ یہ مسجد اور اس کے ساتھ کے حجرے کم و بیش سات ماہ کے عرصہ میں تیار ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نئے مکان میں اپنی بیوی حضرت سودہؓ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ بعض دوسرے مہاجرین نے بھی انصار سے زمین حاصل کرکے مسجد کے آس پاس مکانات تیار کر لیے اور جنہیں مسجد کے قریب زمین نہیں مل سکی انہوں نے دور دور مکان بنا لیے اور بعض کو انصار کی طرف سے بنے بنائے مکان مل گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ صفحہ269 تا 271)
بہرحال حضرت سُہَیل اور ان کے بھائی وہ خوش قسمت تھے جن کو اسلام کے اس عظیم مرکز میں اپنی زمین پیش کرنے کی توفیق ملی۔