حضرت سہیل بن وہبؓ
ان کا نام حضرت سہیل بن وہب بن ربیعہ بن عمرو بن عامر قریشی تھا۔ ان کی والدہ کا نام دعد تھا مگر وہ بیضاء کے نام سے مشہور تھیں۔ اس لئے آپ بھی ابن بیضاء کے نام سے مشہور ہوئے۔ چنانچہ کتب میں آپ کا نام سہیل بن بیضاء بھی ملتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بنو فِھْر سے تھا۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 162، سھل بن بیضاء القرشی، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)،(اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 344، ثعلبۃ بن الحارث، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
ابتدائی زمانے میں یہ اسلام لائے۔ اسلام لانے کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں عرصہ تک مقیم رہے۔ جب اسلام کی اعلانیہ تبلیغ ہونے لگی تو مکہ واپس آ گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ گئے۔(سیر الصحابۃؓ جلد 2 صفحہ 577 سھیل بن بیضاء ، دارالاشاعت کراچی)
حضرت سہیل کے ساتھ ان کے دوسرے بھائی حضرت صفوان بن بیضاء بھی غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 318، صفوان بن بیضاء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
جب آپ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے اس وقت آپ کی عمر 34 سال تھی۔ غزوہ احد اور خندق اور تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ ان کے تیسرے بھائی سہل مشرکین کی طرف سے غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ سہل مکہ میں اسلام لائے لیکن کسی سے اپنا مسلمان ہونا ظاہر نہیں کیا۔ قریش انہیں بدر میں ساتھ لے گئے اور پھر وہ گرفتار ہوئے تو حضرت ابن مسعود نے ان کے بارے میں گواہی دی کہ میں نے انہیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اس پر وہ آزاد کر دئیے گئے پھر مدینہ میں ان کی وفات ہوئی اور آپ کا اور حضرت سہیل کا جنازہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پڑھایا۔
حضرت سہیل بن بیضاء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے سفر میں انہیں سواری پر پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا اے سہیل! اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یوں فرمایا تو ہر مرتبہ حضرت سہیل نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ۔ یہاں تک کہ لوگوں نے بھی جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے مراد ہے۔ اس پر جو لوگ آگے تھے وہ آپ کی طرف لپکے اور جو پیچھے تھے وہ بھی آپ کے قریب ہو گئے۔ یہ بھی لوگوں کو بلانے کا، متوجہ کرنے کا انداز تھا۔ جب لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اورا س کا کوئی شریک نہیں تو ایسے شخص پر اللہ آگ کو حرام کر دے گا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 162-163، سھل بن بیضاء القرشی، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 176، سھیل بن السمط، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)،(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 317، سھیل ابن بیضاء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اب یہ تاریخ کی کتاب ہے اور یہ مسلمان پڑھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہونے کی بھی ایک تعریف ہے لیکن ان کے عمل اس کے خلاف ہیں اور اس بات پر جو ان کے فتوے ہیں وہ بھی ان باتوں کے خلاف ہیں۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی شراب نہ ہوتی تھی سوائے تمہاری فضیخ یعنی کھجور کی شراب کے۔ یہی وہ شراب تھی جس کو تم فضیخ کہتے ہو۔ کہتے ہیں مَیں ایک دفعہ کھڑا ابوطلحہ اور فلاں فلاں کو شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کیا تمہیں خبر پہنچی ہے؟ کہنے لگا کیا خبر؟ اس نے کہا کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ وہ لوگ جن کو یہ شراب پلا رہے تھے حضرت انس کو کہنے لگے کہ انس یہ مٹکے انڈیل دو۔ کہتے تھے پھر انہوں نے اس شخص کی خبر دینے کے بعد اس شراب سے متعلق پوچھا اور نہ کبھی اس کو دوبارہ پیا۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب انما الخمر و المیسر…حدیث 4617)
ایک حکم آیا اور اس کے بعد ایسی اطاعت تھی کہ دوبارہ پھر اس شراب کا ذکر بھی نہیں ہوا۔ ایک دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطلحہ کے ساتھ حضرت ابودجانہ اور حضرت سہیل بن بیضاء تھے جو اس وقت شراب پی رہے تھے۔(صحیح البخاری کتاب الاشربۃ باب من رأی ان لا یخلط البسر…حدیث 5600)
غزوہ تبوک سے واپسی پر 9ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور ان کی نماز جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں پڑھائی اور وفات کے وقت ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 317، سھیل ابن بیضاء، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد سے گزارا جائے یعنی کہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ پڑھ لیں۔ لوگوں نے حضرت عائشہ کی اس بات کو اوپرا جانا کہ یہ عجیب بات کر رہی ہیں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ لوگ کتنی جلدی بھول جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد میں ہی پڑھی تھی۔ (مترجم صحیح مسلم کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد حدیث 1603 جلد4 صفحہ 135از نور فاؤنڈیشن)
ان کا خیال تھا کہ کھلی جگہ پر پڑھنی چاہئے تو اس کی اصلاح حضرت عائشہؓ نے فرمائی کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔