حضرت شماس بن عثمانؓ
ان کا پہلے بھی ایک خطبہ میں مختصر ذکر ہو چکا ہے۔ عثمان بن شرید ان کے والد تھے۔ غزوہ اُحد 3ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا نام عثمان اور شماس لقب تھا اور اس لقب سے آپ مشہور ہوئے۔ بنو مخزوم میں سے تھے اور اسلام کے آغاز میں ہی مسلمان ہو گئے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 393-394 شماس بن عثمانؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء) ابن ہشام نے حضرت شماس بن عثمان کے نام شمّاس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شماس رضی اللہ عنہ کا نام عثمان ہے اور شماس کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں کا ایک مذہبی لیڈر جس کو شماس کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں مکہ آیا۔ وہ عیسائی لیڈر بہت خوبصورت تھا۔ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مکہ کے لوگ متعجب ہوئے۔ عتبہ بن ربیعہ جو عثمان کے ماموں تھے انہوں نے کہا کہ میں اس شماس سے زیادہ ایک حسین لڑکا تم کو دکھاتا ہوں اور پھر اپنے بھانجے عثمان کو لا کر دکھایا۔ اس وقت سے لوگ عثمان کو شماس کہنے لگے۔ حضرت شماس کا نام شماس ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کا نام شماس آپ کے چہرے کی سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے تھا گویا کہ آپ سورج کی مانند ہیں۔ پس اس وجہ سے شماس نام آپ کے اصل نام پر حاوی ہو گیا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 462 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم جلد 3 صفحہ 187 بحوالہ المکتبۃ الشاملہ)
حضرت شماس بن عثمان اور آپ کی والدہ حضرت صفیہ بنت ربیعہ بن عبد شمس حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شامل تھیں۔ حضرت شماس کی والدہ شَیبہ اور عُتبہ (سرداران مکہ جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے) کی بہن تھیں۔ حضرت شماس بن عثمان نے حبشہ سے واپسی پر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت شماس بن عثمان نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد حضرت مبشر بن عبد منذر کے ہاں قیام کیا۔ سعید بن مُسَیَّب کہتے ہیں کہ حضرت شماس بن عثمان غزوہ اُحد میں شہید ہونے تک حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شماس بن عثمان اور حضرت حنظلہ بن ابی عامر کے درمیان مؤاخات قائم کروائی۔ حضرت شماس کے بیٹے کا نام حضرت عبداللہ تھا اور آپ کی اہلیہ اُمّ حبیب بنت سعید تھیں۔ ابتدائی ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے تھیں۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 394مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء) (سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 324 شماس بن عثمانؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 130مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت شماس بن عثمان غزوہ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے۔ آپ غزوہ اُحد میں بہت جانفشانی سے لڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی جب آپ پر حملہ ہوا اور پتھر آکے لگا۔ حضرت شماس نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپ شدید زخمی ہو گئے اور آپ کو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا۔ آپ میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ آپ کو حضرت عائشہ کے ہاں لے جایا گیا۔ حضرت اُمّ سلمہ نے کہا کہ کیا میرے چچازاد بھائی کو میرے سوا کسی اور کے ہاں لے جایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں حضرت اُمّ سلمہ کے پاس اٹھا کر لے جاؤ۔ پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر وفات پائی۔ وہاں اُحد سےزخمی ہو کے آئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت شماس کو مقام اُحد میں لے جا کر انہی کپڑوں میں دفن کیا گیا۔ جب جنگ کے بعد آپ کو زخمی حالت میں اٹھا کر مدینہ لایا گیا تھا تو وہاں ایک دن اور ایک رات تک زندہ رہے تھے اور اس دوران کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں، انتہائی کمزوری کی حالت تھی بلکہ بیہوشی کی حالت تھی۔ حضرت شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 34 سال کی عمر میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 131مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)