اک مرد باوفا ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد
ح م ا، فاضل عربی ، استاذ الحدیث
ہر چند کہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے شرف نیاز حاصل کرنے والے سعادت مندوں کی صف میں ہم بہت بعد میں شامل ہوئے مگر پھر بھی حضرت میاں صاحب کے جلو میں موجود دیگر خدام کی طرح آپ کی شفقتوں اور احسانات کے موردضرور رہے ۔ بلاشبہ آپ اللہ کے نشانوں میں سے ایک نشان تھے اس لئے آپ کا ذکر خیر بھی موجب برکت و سعادت ہے۔ اور یوں بھی آپ ایک مرد باوفا تھے ۔ آپ کے ساتھ وفا کا ایک ادنیٰ تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کی خوبصورت یادیں زندہ رکھی جائیں اور تازہ بھی کی جائیں تا کہ آپ کے لئے دعا کی تحریک ہو اور ہم نسلاً بعد نسلٍ اپنے بزرگ اسلاف کے پاکیزہ اخلاق اور شاندار اقدار کے امین بنتے چلے جائیں کہ یہی ہمارا دینی ورثہ اور قومی اثاثہ ہے۔
آپ کے حسنِ وفا کا اندازہ اس چھوٹے سے واقعہ سے خوب ہوتا ہے جو آپ نے ایک دفعہ بیان فرمایا کہ قادیان میں بچپن کے زمانہ میں سب سے پہلے جس بزرگ نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ پہلے دایاں جوتا پہننا چاہئے اور بایاں جوتا پہلے اتارنا چاہئے آج بھی جوتا پہنتے ہوئے اس بزرگ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ پچاسی سال بعد بھی ایک چھوٹی سی نیکی کو یاد رکھ کر اپنے محسن کے لئے دعا کرنا جہاں آپ کی گہری وفا کو ظاہر کرتا ہے وہاں آپ کے حافظہ کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔ حافظے کی یہ غیر معمولی استعداد آخر عمر تک رہی ۔ خاص طور پر اعدادوشمار اور حسابی چیزیں آپ خوب یاد رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے انجمن کے بجٹ آمدو خرچ خزانہ اوردیگر اہم مدات کے اعدادو شمار اکثر برنوک زبان ہوتے تھے۔ خود فرماتے تھے کہ جو اعدادو شمار ایک دفعہ میرے سامنے سے گزر جائیں پھر بھولتے نہیں ۔ اسی طرح لوگوں کی شکلیں خوب یاد رہتی ہیں مگر نام بھول جاتا ہے ۔خاکسار خیال کرتاہے کہ یہ آپ کے حافظے کی کمزوری نہ تھی بلکہ آپ ایسے بے نفس اور بے طمع تھے کہ کسی کا نام یاد رکھنے کے لئے دماغ پر زور ہی نہیں دیتے ہونگے اور ضرورت کی جس بات پر زور دیتے تھے اسے یاد رکھنے کا خوب ملکہ تھا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت میاں صاحب نے قادیان کے نہایت پاکیزہ ماحول میں آنکھیں کھولیں ، حضرت اماں جان کی تربیت اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میسر آئی جس کی گہری چھاپ آپ کے کردار و سیرت میں جھلکتی تھی۔
حضرت میاں صاحب نہایت بے نفس اور منکسر المزاج انسان تھے ۔ بہت کم گو تھے ۔ آپ اس دنیا میں آئے اور ایک خاموش درویشانہ اور بے ریاء مگر بامقصد زندگی گزار کر چلے گئے ۔ کبھی نام و نمود کی خواہش نہیں ہوئی۔ مجھے یاد ہے بطور صدر خدام الاحمدیہ جب بھی آپ کو بحیثیت امیر مقامی مجلس کی کسی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے لئے عرض کیا تو اپنی اسی طبیعت اور مزاج کے باعث اکثر معذرت فرما دیتے اور اگر کبھی اصرار کرنے پر ازراہ شفقت درخواست قبول فرما ہی لیتے تویہ وعدہ ضرور لیتے کہ تقریر نہیں کروں گا البتہ جہاں اپنے امام کاحکم ہوتا وہاں تقریر بھی فرماتے مگر اسی طبعی حجاب کے ساتھ۔ چنانچہ جماعت کی سالانہ شوریٰ کے موقعہ پر آپ کے مختصر خطاب خوب یاد ہیں ۔ اب خیال آتا ہے کہ وہ باتوں کے نہیں کام کے دھنی تھے ۔عمل پیہم اورجہد مسلسل کے قائل تھے ۔ طبعاً مشقت پسند تھے اور ذاتی طور پر محنت کے عاد ی تھے ۔قادیان کے زمانے میں اپنے مختلف النوع کے کارخانوں سے منسلک رہے شاید اسی لئے تیکنیکی کاموں سے خاص شغف تھا اور آخر وقت تک صحت کی حالت میں اپنے تیکنیکی آلات میں کچھ وقت گزارتے تھے اور چھوٹی موٹی خرابیاں خود درست فرما لیتے تھے۔ احمدی نوجوانوں کے لئے بھی یہی پسند فرماتے تھے کہ محنتی اورجفاکش ہوں۔ ایک دفعہ ذکر فرمایا کہ ’’موجودہ دور میں تو بالعموم نوجوانوں کی عادتیں بگڑ رہی ہیں اور انہیں محنت اور قناعت کی عادت نہیں رہی ۔ میں نے تو اپنے بچوں کو ہائی سکول کے زمانے تک عمداً بائیسکل اس لئے خرید کر نہیں دی تھی تا کہ جفاکشی کی عادت قائم رہے‘‘۔
محنت و مشقت کی یہ تربیت دراصل آپ نے خدام الاحمدیہ کے زمانے سے حاصل کی تھی ۔ خود بیان فرماتے تھے کہ قادیان کے زمانے میں ہم نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور نظام کی عظمت و وقار قائم کرنے کے لئے عزت نفس کی بھی قربانی دی ہے۔ چنانچہ اس وقت کے صدر حضرت مرزا ناصراحمد صاحب کی قیادت میں ہم افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام بطور خاص رضاکارانہ طور پر بعض سزائیں ازخود قبول کرتے تھے مثلاً بوجھ اٹھا کر چلنے کی سزا وغیرہ اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ تنظیم کا ایک رعب اور احترام قائم ہو اور عام نوجوانوں میں بھی اطاعت کی روح پیدا ہو۔ فرماتے تھے کہ میں نے خود بعض دفعہ رضاکارانہ طور پر بوجھ اٹھا کر چلنے کی سزا قبول کی ہے۔
حضرت میاں صاحب کے اس مزاج اور طبیعت کا اندازہ آپ کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی خوب ہو گیا تھا ۔ یہ غالباً دسمبر ۱۹۷۶ء کی بات ہے خاکسار جامعہ احمدیہ کے درجہ خامسہ میں طالب علم تھا اورجلسہ سالانہ کی ڈیوٹی کے سلسلے میں بیرونی مہمانوں کی خدمت پر متعین تھا۔جلسہ سالانہ کے بعد بیرونی مہمانوں کے اعزاز میں دئے گئے استقبالیہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہٗ اللہ کی تشریف آوری سے پہلے حضرت میاں صاحب سرائے فضل عمر میں تشریف لائے ۔ آپ اس وقت ناظر اعلیٰ تھے ۔ دیگر موجود احباب کے ساتھ خاکسار نے بھی آگے بڑھ کر آپ کے استقبال اور مصافحے کی سعادت پائی اور اپنے خیال میں ازراہ ادب نہایت نرمی اور ملاطفت سے ہاتھ ملائے مگر آپ نے مضبوط آہنی ہاتھوں کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے فرمایا پتہ نہیں آج کل کے نوجوانوں کوکیا ہو گیا ہے۔ اس طرح ڈھیلے ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں جیسے جان ہی نہیں۔ سو اس پہلی ملاقات میں آپ کی مضبوط گرفت ایک پختہ یاد بن گئی اور آئندہ ہمیشہ آپ سے گرمجوشی سے ملا کئے۔ بعد میں آپ کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملا تو کھلا کہ ان آہنی ہاتھوں کے پیچھے ایک مردآہن کا آہنی عزم تھا۔ ایک ایسا مرد قلندر جسے کوئی خوف یا طاقت اپنے موقف سے ہٹا نہیں سکتی تھی۔ ہمت و حوصلہ اور یقین محکم میں بھی آپ یگانہ روزگار تھے۔ آپ کی صحبت کی چند لمحے بھی ہمیشہ ایمان کی تازگی کا موجب ہوا کرتے تھے ۔ نظار ت علیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ربوہ سے عدم موجودگی میں امارت مقامی کا اہم منصب اس نازک دور میں آپ کے سپرد رہے جس میں ۱۹۷۴ء اور پھر ۱۹۸۴ء کے بعد کا طویل دور ابتلاء شامل ہے۔ مگرائمہ جماعت کی قیادت اور نمائندگی میں کمال جرات ، بہادری اور فرض شناسی اور پوری حزم و احتیاط سے آپ نے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور ائمہ جماعت کا منشا سمجھتے ہوئے ا ن کے احکام پوری قوت سے نافذ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
آپ کے راضی برضا رہنے اور توکل علی اللہ کی یہ شان تھی کہ کوئی دلخراش سانحہ ہو، کسی احمدی کی راہ خدا میں جان قربان ہو یا کوئی اور جماعتی نقصان آپ ہمیشہ ایک بلند ہمت قائد کی طرح عزم و استقامت کے ساتھ ایستادہ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہی نظرآئے ۔ایسے موقع پر کبھی اظہار افسوس کیا جاتا توہمیں تسلی دیتے ، دنیا کی بے ثباتی کا ذکر فرماتے اور مثال دے کر سمجھاتے کہ دیکھو آئے دن دنیا میں کتنے لوگ حادثات میں ہلاک ہورہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ بطو ر خاص حفاظت فرماتا ہے ۔ باقاعدہ حساب لگا کر بیان فرماتے کہ اپنی تعداد کے لحاظ سے عام حالات میں حادثات کی جو نسبت جماعت میں ہونی چاہئے اس سے جماعت خدا کے فضل سے محفوظ ہے۔ باقی مرنا تو ایک دن ہے ہی لیکن خدا کی راہ میں جان قربان کرنے کا جو اجر ہے کوئی دوسری چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ الغرض آپ سے ملاقات کے بعد ہمارے حوصلے بھی بلند ہو جاتے۔ اپنے ذاتی معاملات میں بھی یہی تو کل آپ کا شیوہ تھا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے بیان فرمایا کہ اپنے زمیندارے کے معاملات میں بھی پوری دلچسپی لیتے اور کاشتہ فصل کے بارے میں اندازے معلوم کرتے رہتے تھے لیکن اگر کسی وجہ سے اوسط پیدا وار یا آمد میں کمی آ جاتی تو کبھی ذرہ برابر بھی ملال نہیں ہوا۔ یہی فرماتے کہ جو مل گیا ہے اسی پر خدا کا شکر کرو۔
الغرض آپ ایک ایسے کامل موحد انسان تھے جسے ’’حنیف‘‘ کہا جاسکے ۔خدا کے سواہر دوسری چیز سے بے خوف ونڈر ۔ جس بات کو حق جانتے بلا خوف لومۃ لائم اس کا برملا اظہار فرما دیتے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی آپ کی وفات پر ذکر فرمایا تھا واقعی آپ باطل کے خلاف ایک شمشیر برہنہ تھے ۔ جب کسی بات کو علی وجہ البصیرت ناحق جانتے تو پیش کرنے والا خواہ ادنیٰ اہلکار ہو یااعلیٰ افسر یاکوئی قریبی عزیز اس کی کوئی رعایت نہ فرماتے اور دو ٹوک لفظوں میں غلط بات رد فرما دیتے تھے۔ آپ کی اس صفت کی وجہ سے آپ کو ایک خداداد رعب عطا ہوا تھا جس سے آپ کے تمام مصاحب اور صدر انجمن کے جملہ ممبران خوب واقف ہیں۔خود فرماتے تھے کہ اپنی اس عادت کی وجہ سے بعض دفعہ مشکل میں بھی گرفتار ہو ا اور بزرگوں کی وقتی ناراضگی بھی مول لی ۔ ایک واقعہ تقسیم ملک کے بعد کا سناتے تھے کہ جب ربوہ میں کچے گھروں میں آ کر آباد ہوئے تو ان دنوں قادیان جلد واپسی کے تذکرے زبان زدعام تھے کہ اگلی فصلوں کی کٹائی سے پہلے قادیان واپسی ہو جائے گی ۔ میں نے اپنے خیال کے مطابق برملا یہ اظہار کیا کہ قادیان واپسی اتنی جلدی کا معاملہ نظر نہیں آتا۔ اس پر حضرت اماں جانؓ کی جھڑکیاں بھی کھائیں۔
ایک اور واقعہ یہ سنایا کہ قادیان میں ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر لنگر میں ڈیوٹی تھی کھانے کی تقسیم کے موقع پر ایک شخص نے بے ضابطگی کرتے ہوئے نظام میں رخنہ ڈالنا چاہا ۔ میں نے اس شخص کو روکنا چاہا اور اس کے انکار پر اس سے سختی کی۔ یہ واقعہ دیکھنے والے جماعت کے ایک معتبر شخص نے (جو اس وقت سیشن جج کے عہدہ پر فائز تھے) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں شکایت کر دی۔ حضرت صاحب نے تحقیق کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سربراہی میں کمیشن مقرر فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ جلسہ سالانہ میں میری تقریر سے پہلے مجھے اس کی رپورٹ ملنی چاہئے کہ غلطی کس کی ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مجھے فرمایا کہ آپ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے تو معافی مانگ لیں۔ میں نے عرض کیا کہ میری غلطی ہو تو ضرور معافی مانگوں گا لیکن میرا تو اب بھی یہ موقف ہے کہ نظام شکنی کی جس قسم کی حرکت اس شخص نے کی ہے اگر وہ دوبارہ ایسی حرکت کرے تو میں پھر بھی اس کے ساتھ یہی سلوک کروں گا کیونکہ نظام کو درست رکھنا میری ذمہ داری ہے۔ کمیشن کی رپورٹ پیش ہوئی اور آپ بری ٹھہرے۔الغرض اصول کی بات ہو تو آپ فولاد کی طرح سخت تھے ورنہ ریشم کی طرح نرم۔
آپ کی خداترسی اور مخلوق خدا سے محبت کا وہ بے ساختہ اظہار مجھے کبھی نہیں بھولتا جو مخالفین احمدیت کے حق میں ایک موقع پر ظاہر ہوا۔ جب ربوہ کے نواح میں منعقد ہونے والی مخالفین کی ایک کانفرنس کے بارہ میں اچانک یہ غیر مصدقہ اطلاع ملی کہ ایک سازش کے تحت جلسہ گاہ میں کوئی بم دھماکہ کر کے ہمارے سر ڈالنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تو طبعاً فکر دامن گیر ہوئی۔ خاکسار نے بطور صدر خدام الاحمدیہ یہ اطلاع مکرم ناظر صاحب امور عامہ مولانا محمد شفیع اشرف صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ ہم دونوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ اگر یہ ساز ش کامیاب ہو گئی تو اس کا ردعمل جماعت کے حق میں بہت مضر ہوگا۔ مکرم ناظر صاحب امور عامہ فرمانے لگے کہ معاملہ نازک ہے ، امیر مقامی صاحب سے مشورہ کرتے ہیں چنانچہ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں گھر میں حاضر ہوئے ۔ آپ فوراً تشریف لا ئے ، معاملہ پیش ہوا اور ہم نے اپنی فکر مندی کا اظہارکیا۔ آپ نے کمال صبر اور حوصلہ سے فرمایا آئندہ ظاہر ہونے والے ردعمل کو چھوڑو پہلے یہ سوچو کہ اگر خدا نخواستہ یہ حادثہ ہو گیا تو بے گناہ انسانی جانوں کا کیا بنے گا؟ اور ہم اس صورت میں ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ یہ ہے احمدی قیادت کی امتیازی شان کہ انسانیت کے حوالہ سے دشمن کے حق میں بھی دل ایسا کشادہ جس کی نظیر باید وشاید ہی ملے۔
حضرت میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے فیاضی اور قلبی غنا کی صفت سے بھی خوب نوازا تھا۔ جس حد تک ممکن ہوتا کسی کی حاجت روائی میں کمی نہ کرتے بس ان تک پہنچنا شرط ہوتی تھی اور یہ بھی چنداں مشکل نہ تھا کیونکہ آپ کے دروازے ہر کس و ناکس کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ جو چاہتا اورجب چاہتا آپ کے دفتر کی چق اٹھا کر آپ کے دفتر میں داخل ہو سکتا تھا اس کے لئے البتہ تھوڑی سی ہمت جمع کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ خود بھی یہ اظہار فرمایا کہ میں ملاقات کے لئے پہلے وقت طے کرنے کے تکلف میں نہیں پڑتا ہر وقت دروازے کھلے ہیں جو چاہے آئے۔ اور یہ صرف دفتر کا ہی معاملہ نہ تھا گھر میں بھی یہی حال تھا۔ جب اور جس وقت بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے آپ نے شرف ملاقات بخشا بلکہ آپ کے ان مکارم اخلاق نے ہمیں کچھ زیادہ ہی دلیر کر دیا تھا ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ دفتر سے گھر تشریف لے جا چکے تھے ۔ ایک مربی سلسلہ کی کوئی غرض تھی جو ایسی فوری بھی نہ تھی مگر ان کے اصرار بغرض سفارش پر خاکسار مربی صاحب کے ہمراہ ہو لیا اور حضرت میاں صاحب کے گھر جا کر دستک دی۔ آپ فوراً ملاقات والی گیلری میں تشریف لے آئے۔صرف اتنا فرمایا کہ ابھی دفتر سے آ رہا ہوں و ہاں کیوں نہ مل لیا اور پھر کام بھی تو ایسا فوری نوعیت کا نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ صرف وہ کام کرنے کا وعدہ کیا بلکہ ایفاء بھی فرمایا۔
۱۹۸۴ء کے آرڈیننس کے بعد ا س پرآشوب دور میں ہمیں بھی آپ کے جلو میں شامل خدام کے ساتھ کسی قدر خدمت کی سعادت عطا ہوتی رہی۔ طرح طرح کی پابندیوں اور زبان بندی کا وہ دور بھی عجیب تھا۔ الفضل کا رابطہ بھی منقطع ہوا اور گاہے بگاہے منعقد ہونے والے جماعتی جلسوں کا سلسلہ بھی بکھرگیا ۔ اہل ربوہ پر یہ ابتلاء سب سے بھاری تھا ۔ جہاں مسجد اقصیٰ میں خطبہ کے لئے لاؤڈ اسپیکر بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ ایسے میں اہالیان ربوہ میں ربط باہم ، صبر و استقامت ، خدائی وعدوں پر ایمان و ایقان اور جذبہ قربانی بیدار کرنے کی بہت ضرورت تھی اور اس کا ایک اہم ذریعہ خطبہ بھی تھا ۔ مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد ان دنوں لندن میں مقیم تھے ۔ خدا معلوم حضرت میاں صاحب نے خطبہ کے لئے کوارٹرز جامعہ احمدیہ کے ایک کونے سے ہمیں کیسے ڈھونڈ نکالا ۔ ان دنوں جمعہ کے روز صبح نو بجے کے قریب حضرت امیر صاحب مقامی کا قاصد ( خادم مسجد مبارک) خطبہ دینے کے لئے آپ کا پیغام لاتا چنانچہ اسی وقت خطبہ لکھا جاتا پھر اس کی نقول تیار کروائی جاتیں۔ کیونکہ وہ خطبہ آلہ صوت کی بجائے جہر الصوت احباب کے ذریعہ سامعین تک پہنچانا ہوتا تھا۔ یہ ایک عجیب سماں ہوتا تھا جب خطیب کے ایک ایک فقرہ کو بیک وقت مسجد اقصیٰ کے مختلف اطراف میں کھڑے احباب بآوازبلند دہراتے تھے اورایک دلگداز کیفیت برپا ہوتی تھی ۔ حضرت میاں صاحب نے کسی موقع پر گھر کے کسی فرد سے خطبہ کے بارہ میں کوئی رائے سن کر اس عاجز کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی جو آپ کی کم گوئی کی عادت ہوتے ہوئے ایک غیر معمولی بات تھی۔
ایک واقف زندگی ہونے کے ناطے آپ نے اپنے آپ کو ہمیشہ جماعتی خدمات کے لئے وقف جانا ۔کبھی دورے پر جانے کی اطلاع و اجازت کی خاطریاگاہے کسی اور ضرورت کے لئے مجبوراً گھر میں آپ کو فون کرنے کی نوبت آتی تو آپ کی بزرگی اور دیگر عوارض کے پیش نظر یہی خیال ہوتا کہ آپ کو فون پر زحمت نہ دی جائے اور بات پیغام رسانی سے ہی طے ہو جائے مگر آپ کے انکسار ، احساس ذمہ داری اورمستعدی کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ خود فون پر تشریف لا کر بات کرتے تھے اور یہی طریق آپ کو پسند تھا۔
اکثر تو جماعتی دورہ جات پر جانے سے پیشتر دفتر میں ہی آپ سے ملاقات ہو جاتی تھی اوراسی طرح دورے سے واپسی پر بھی ۔ تب پوری دلچسپی سے روداد سفر سنتے ، مذاکروں وغیرہ میں ہونے والے سوالات کی تفصیل پوچھتے کہ لوگ آج کل کیا سوال کرتے ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی استفسار فرماتے کہ پھر آپ نے کیا جواب دیا۔ خاکسار جب مختصر جواب عرض کرتا تو ہمہ تن گوش ہو کر سنتے اوربسا اوقات چہرہ بشاشت سے کھل اٹھتا اور اس پر مسکراہٹیں بکھر جاتیں۔ بس یہی آپ کا اظہار خوشنودی ہوتا تھا جس سے ہمارے حوصلے بلند ہو جاتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی ترقی اور غلبہ کے بارہ میں پیشگوئیوں پر گہرا غیر متزلزل ایمان تھا۔ مختلف ملکی انقلابات یا سیاسی تبدیلیوں کے موقع پر کبھی گفتگو ہوتی تو بڑے کامل یقین کے ساتھ فرماتے کہ یہ ساری تبدیلیاں دراصل ہماری خاطر ہی ہیں بالآخر اللہ تعالیٰ انہیں انقلابات کی کوکھ سے ہمارے لئے خیر کے سامان پیدا فرما دے گا۔ اگرچہ آپ خود توتقریر نہیں فرماتے تھے مگر بسا اوقات آپ کی کوئی ایک مجلس یا صحبت ہمیں کئی تقاریر کامواد مہیا کر دیتی تھی۔
ہر چند کہ آپ کم گو اور خاموش طبع تھے مگر جب بولتے تو ایک دبدبہ کے ساتھ اورپھر اس پر طرہ آپ کی بارعب شخصیت اور وجاہت بھی ۔اس لئے شروع شروع میں آپ سے ملاقات میں جھجک ہوتی تھی مگر آپ کے قریب ہوئے تو حقیقت کھلی کہ دل کے نہ صرف بے حد حلیم ہیں بلکہ بے ضرر درویش اور در مولیٰ کے فقیر ہیں۔
کہتے ہیں کسی کے اخلاق کی جانچ کے لئے مسافرت شرط ہے۔ ہمیں حضرت میاں صاحب جیسی بزرگ ہستی کی معیت میں محض خدا کے فضل سے سفر کی سعادت بھی میسر آئی۔ یہ ۱۹۹۱ء کی بات ہے جب ہمارے پیار ے امام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز جلسہ سالانہ قادیان کی صدسالہ تقریبات میں شرکت کے لئے تشریف لا رہے تھے۔ ۱۶؍ دسمبر کو لند ن سے دہلی پہنچے۔ حضرت صاحب کے استقبال کے لئے ربوہ سے بھی ایک مرکزی وفد تیار ہوا جس میں اس عاجز کو بطور صدر خدام الاحمدیہ پاکستان نمائندگی کی سعادت عطا ہوئی۔ آخری وقت میں یہ فیصلہ ہوا۔ وقت بہت تنگ تھا ۱۳؍ دسمبر کواس وفد کی لاہورسے روانگی تھی اور پاسپورٹ وغیرہ ویزا کے لئے اسلام آباد بھجوائے ہوئے تھے ۔ انہی دنوں خاکسار کوگلے میں شدید سوزش کے باعث بخار بھی آیا ہوا تھا اور دعا بھی تھی کہ اس تاریخی موقع سے محرومی بھی نہ ہو اور ۱۳؍ دسمبر کو سفر مشکل بھی نظرآتاتھا ۔ خدا معلوم یہ حسن اتفاق تھا یا خدا تعالیٰ کی کوئی تقدیر خاص کہ سب پاسپورٹ ویزا لگ کر آ گئے سوائے حضرت میاں صاحب اور خاکسار کے پاسپورٹ کے۔ مگر یہ وقتی پریشانی جلد مسرت میں بدل گئی جب ایک دو روز بعد نہ صر ف پاسپورٹ مل گئے بلکہ ۱۵؍دسمبر کوجانے والی پرواز میں جگہ بھی مل گئی۔ اور یوں ہم حضرت میاں صاحب کی معیت میں اسی روز علی الصبح پہلے ربوہ سے لاہور پہنچے اور لاہور سے دلی تک اکٹھے سفر کیا، سوچا تھا کہ سفر میں حضرت میاں صاحب کی خدمت کی سعادت میسر آئے گی مگر اول تو آپ کو نہایت سادہ منش اور بہت قناعت شعار وجودپایا۔ آپ بہت مختصر ضروریات رکھتے تھے۔ دوسرے خودداری اتنی کہ اپنا کام حتی الوسع خود کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور اپنے مصاحب سے کوئی تقاضا کرنا یا اس پر بوجھ ڈالنا ہرگز پسند نہ فرماتے۔ لہذا سوائے چند معمولی ناگزیر خدمات کے بہت کم خدمت کا موقع دیا۔ البتہ قدم قدم پرحزم و احتیاط کا دامن خود بھی تھامے رکھا اورمجھے بھی اس کی تلقین فرمائی۔ سفر کا اکثر حصہ آپ نے دعاؤں میں گزارا اور دوران سفر جو تھوڑی بہت گفتگو ہوتی رہی اس میں آپ کو حضرت صاحب کی تشریف آوری اورجلسہ سالانہ قادیان میں شرکت میں بہت مسرو ر پایا۔ سفر سے واپسی پر ایک موقع پر بیان فرمایا کہ جب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مزار پر گیا تو دعا کرتے ہوئے یہ واضح اور صاف نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ سامنے کھڑی ہے ۔ ان دنوں کو شدت سے یاد کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ خوشگوار دن تو خواب کی طرح آئے اور گزر گئے۔
آپ میں خودداری اور قوت ارادی بلا کی تھی۔ ایک دفعہ اپنے دفتر میں کرسی سے اٹھ کر غسل خانے جانے لگے میں نے سہارے کے لئے آپ کا عصا اٹھا کر دینا چاہا فرمایا بالکل نہیں ، میں خود لوں گا۔ میں نے عرض کیا اس میں حرج کیا ہے۔فرمایا جس وقت تم یا کوئی اور پاس نہ ہوگا تب کیا کروں گا ۔نیز فرمانے لگے کہ اس دفعہ لندن میں ایک موقع پر کھڑا ہوا اور چکر آگیا حضرت صاحب نے سہارا دینا چاہا تو ان سے بھی یہی عرض کیا کہ مجھے سہارا نہیں چاہئے خود کھڑا ہونگا۔ پہلی دفعہ جب ۱۹۹۲ء میں آپ پر دل کا تشویشناک حملہ ہوا تو سب کو فکر دامنگیر ہوئی ۔آپ کئی روز فضل عمر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت میں رہے اس وقت بھی خدا کی توفیق سے آپ سے کمال قوت ارادی ظاہرہوئی جوبہت جلد صحت کو معمول پر لانے میں اتنی ممد ہوئی کہ آپ کے معالج حیران تھے۔ اور بہت جلد آپ نے معمول کی خوراک لینی اور چلنا شروع کر دیا۔ خاکسار فضل عمرہسپتال میں عیاد ت کے لئے حاضر ہوا تو حضرت میاں صاحب سے اس امر کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس غیر معمولی قوت ارادی سے اس شدید بیماری کا مقابلہ کر کے اس پر قابو پانے کی جو طاقت دی ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے ۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد ہی آپ نے معمول کی دفتری مصروفیات بھی شروع کر دیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس شدید علالت میں گویا دوسرے جہان سے واپس آیا ہوں ۔ بس ایک گہرا تاریک راستہ (Dark Passage) طے کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد خیر ہی خیر ہے ۔ ظاہر ہے یہ آپ کی اس ذاتی کیفیت کا اظہار ہے جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو موت کے کنارے سے بچا کر واپس لایا اور یوں حضرت مسیح موعود ؑ کا خلاف توقع عمر عطا فرمانے کا الہام آپ کی ذات میں پوری شان کے ساتھ دہرایا گیا۔ گزشتہ برس ۱۹۹۷ء میں جب جلسہ سالانہ لندن میں شرکت کے لئے آپ کو حضرت صاحب کا ارشاد موصول ہوا تو آغاز میں کچھ متذبذب تھے ۔ فرماتے تھے کہ اول تو ویسے ہی سفر سے میری طبیعت گھبراتی ہے پھر عوارض بھی لاحق ہیں۔ اس لئے فی الحال دس فیصد ارادہ ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ تذکرہ میں جہاں آپ کے بارہ میں خلاف توقع عمر اورامارت دئے جانے کے الہام ہیں انہیں کے تسلسل میں ایک یہ الہام خدائی حفاظت کا بھی ہے (تذکرہ ۷۲۰) یعنی اللہ تعالٰی بہترین حفاظت کرنے والا ہے اوروہ سب رحم کرنے والوں میں سے بڑھ کر رحیم ہے۔ یہ سن کر آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔ فرمانے لگے تذکرہ لاؤ۔ میں نے تذکرہ منگوایا اس میں انڈیکس نہ تھا اس لئے الہام تلاش کرنے لگا تو فرمانے لگے قادیان میں تو اس کثرت سے میں نے تذکرہ کا مطالعہ کیا تھا کہ قریباً حفظ ہو چکا تھا کہ کون سا الہام کس صفحہ پر ہے۔ بہرحال یہ الہام پڑھ کر آ پ کو ایک گونہ تسلی ہوئی اور بعد میں حضور انور کے منشاء کی تعمیل میں آپ لندن جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی الٰہی منشا ء تھی کہ سفر آخرت سے قبل حضرت صاحب سے اس کے وفاشعار نائب کی ملاقات بھی ہو جائے۔
خدا تعالیٰ کی ذات پر آپ کے محکم ایمان اور مقام توکل علی اللہ کا کچھ ذکر ہوا ہے ۔ احمدیت کی سچائی اور اس کی برکات پر بھی آپ کا بہت گہرا اور پختہ ایمان تھا۔۱۹۹۴ء میں جب جلسہ سالانہ لندن سے واپس تشریف لائے تو بتایاکہ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب کی خواہش تھی کہ امریکہ بھی جاؤں اور اپنا طبی معائنہ بھی وہاں کے ترقی یافتہ اعلیٰ معالجوں سے کروا لوں لیکن میری صلاح نہیں بنی ۔اور میرا تو ایمان ہے کہ احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اللہ نے زیادہ شفا رکھی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت پر ایمان کی برکت سے ایک ایسی بصیرت عطا فرمائی ہے جو دوسروں کو میسر نہیں ۔ پتہ نہیں کیوں لوگوں کواس بات کی سمجھ نہیں آتی۔دراصل یہ آپ کی گہری بصیرت تھی جو ان لطیف باتوں کا بھی کمال ادراک اور اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ۔ آپ کانافع الناس وجود ابتلاء کی تیز دھوپ میں بلا شبہ پاکستان کی احمدی جماعتوں کے لئے ایک گھنا ٹھنڈا سایہ تھا۔ اس دفعہ بھی جب آپ علیل ہوئے تو دلی تمنائیں یہی تھیں کہ خلافِ توقع عمر والا الہام پھر دوہرایا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی جس پر ہم راضی برضا ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت میاں صاحب کی نیک اقدار اوراعلیٰ کردار کا واقعی امین بنا دے ۔آمین۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)