صحابہ رسول اور ذکر الٰہی
خدا کا ذکر ان کی روح کی غذا بن گیا تھا
سید میر محمود احمد ناصر
ایک روز حضرت معاویہ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں اور ذکر الٰہی کاحلقہ بناہوا ہے ۔ آپ نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کیوں بیٹھے ہو انہوں نے جواب دیا کہ ذکر الٰہی کرتے ہیں۔ پوچھا کہ صرف اسی لئے یہاں بیٹھے ہو۔ انہوں نے جواب دیاکہ ہاں یہاں بیٹھنے کامقصد صرف ذکر الٰہی ہے۔ حضرت معاویہؓ نے کہا کہ ایک بار آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف لائے اور کچھ صحابہ ؓ کوحلقہ باندھے بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ آ پ نے فرمایا کہ تم کس مقصدسے یہاں بیٹھے ہو ۔انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں اس لئے بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور اس نے جو احسانات ہم پر کئے ہیں اور دین کی طرف جو ہدایت ہمیں دی ہے اس پراس کی حمد کریں ۔ آ پ ؐنے فرمایا کیاخدا کی قسم کھا کرکہتے ہو کہ تمہارا مقصد صرف یہی ہے ؟ صحابہؓ نے جوا ب دیا ہاں خدا کی قسم ہمارا مقصد صرف یہی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا میں نے یہ قسم تمہیں اس لئے نہیں دلوائی کہ مجھے تم پر کوئی شک تھا صرف بات یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتاہے۔(مسلم)
صحابہ کرامؓ کے حالات وواقعات پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کاذکر ان کی روح کی غذا اور ان کے دل کی لذت بن گیا تھا اور ان کی زبانوں پر سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ، لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ، اَللّٰہُ اَکْبَر ، لاَحَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّبِاللّٰہ جاری رہتے تھے۔ ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پرایمان ورثہ میں نہیں ملا تھا بلکہ انہوں نے جان اور مال اور عزت اور جذبات اوروقت کی قربانی کرکے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کو حاصل کیاتھا اور جب مکہ کی پتھریلی زمین پر تپتی دوپہر میں ننگے بدن ان کو لٹاکر گھسیٹاجاتاتھا تب بھی ان کی زبان سے خدائے واحد کا ذکر بلند ہوتاتھا اور آیات کریمہ کے مطابق صبح وشام، رات اور دن، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ان کا دل و دماغ ذکر الٰہی سے معطر رہتاتھا ۔ اسی کانتیجہ تھاکہ ہمارے سید و مولیٰ ﷺ فداہ نفسی نے فرمایااللہ اللہ فِی اَصْحَابِی کہ میرے صحابہ میں خدا ہی خدا ہے ۔
صحابہ کرامؓ کے دن رات کے ذکر الٰہی کی کیفیت کا اندازہ اس روایت سے ہو سکتاہے کہ ایک بار آنحضرتﷺ نے حضرت حارثؓ سے پوچھا کہ کیا حال ہے ؟۔ بولے یارسول اللہ خدا پرصدق دل سے ایمان رکھتاہوں۔ آ پؐ نے فرمایا ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے تمہارے ایمان کی حقیقت کیاہے ؟ بولے دنیا سے میرا دل بھر گیا ہے اس لئے را ت کو جاگتاہوں ، دن کو بھوکا پیاسا رہتاہوں گویامجھ کو خدا کا عرش علانیہ نظر آتاہے اور اہل جنت کو باہم ملتے جلتے دیکھ رہاہوں اور گویا اہلِ دوزخ مجھے چیختے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ آپؐنے فرمایا تم نے حقیقت کو پا لیا اب اس پرقائم رہو۔(اسدالغابہ)
ذکرِالٰہی کے لئے صحابہ کرامؓ کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ جب نماز سے فارغ ہوتے تو نہایت بلند آہنگی سے ذکر الٰہی کرتے جب میں یہ غلغلہ سنتا توسمجھ جاتا کہ صحابہؓ نمازپڑھ کر واپس آتے ہیں۔ (مسلم)۔
اسی جوش وخروش کی وجہ سے ایک سفر میں دعا اور ذکرالٰہی کی صدائیں اتنی بلند ہوئیں کہ آنحضرت ﷺ فداہ نفسی نے ازراہ شفقت اس شدت اور بلند آوازی سے صحابہؓ کو منع فرمایا ۔
ذکرِالہی کے لئے یہ ذوق و شوق کمزور اور غریب صحابہؓ تک محدود نہ تھا بلکہ امیر وغریب صحابہ سب کے سب اس میں برابر کے شریک تھے۔ حدیث میں آتاہے کہ ایک دفعہ غریب مہاجرین آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور اہل ثروت لوگ بڑے درجا ت پا گئے ہیں کیونکہ وہ ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری طرح ہی روزے رکھتے ہیں مگر ان کے پاس زائدمال ہے جس کے ذریعہ وہ حج اورعمرہ اور جہاد اور صدقہ میں شریک ہوتے ہیں (مگرہم ایسا نہیں کر سکتے )۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیامیں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جس کے ذریعہ تم اپنے سے پہلوں سے بھی اور بعد میں آنے والوں سے بھی آگے بڑھ جاؤگے اور کوئی شخص تم سے فضیلت نہ لے جا سکے گا مگر بایں شرط کہ وہ بھی وہی کرنے لگے جو تم کرتے ہو۔انہوں نے کہا یا رسول اللہ ضر ور بتائیے ۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ تم نماز کے بعد ۳۳ ۔۳۳ دفعہ تسبیح تحمید اور تکبیر کیاکرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ غریب مہاجرین پھر حضور ؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور یہ ذکرِالٰہی انہوں نے بھی شروع کر دیاہے ۔حضور ؐ نے فرمایا کہ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ کہ پھر یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
قیامِ نماز
نماز باجماعت ذکر الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ کہ میرے ذکر کے لئے نماز باجماعت قائم کرو۔صحابہؓ کو نماز خصوصاً نماز باجماعت کے اہتمام کا اس قدر احساس تھا کہ بخاری میں آتاہے کہ جب جماعت ہونے لگتی تو کثرت سے صحابہ کے نماز کی طرف رخ کرنے سے شور ہو جاتاتھا۔ سخت سے سخت مصروفیت میں بھی جب نماز کا وقت آتا تو تمام کاروبار چھوڑ کر سیدھے مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے تھے ۔ حضرت سفیان ثوریؓ ،صحابہؓ کے متعلق فرماتے تھے کہ ’’ صحابہؓ بیع و شراء کرتے تھے لیکن نماز مفروضہ کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے تھے‘‘۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آ گیا ۔ تمام صحابہ دوکانیں بند کر کے مسجد چلے گئے ۔ قرآن مجید کی آیت رِجَالٌ لاَ تُلْہِیْہِمْ ان ہی لوگوں کی شان میں ناز ل ہوئی۔(فتح الباری)
ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ نماز باجماعت سے صرف ایساشخص ہی الگ رہتا تھا جس کانفاق معروف ہوتا تھا مگر صحابہؓ کو نماز باجماعت کی ایسی پابندی تھی کہ بعض لوگ دو آدمیوں کے سہارے سے مسجد میں آ کر شریک جماعت ہوتے تھے۔(نسائی)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسجد کی طرف جو قدم اٹھتاہے اس پرثواب ملتاہے اس لئے بعض نماز کو آتے تو قریب قریب قدم رکھتے کہ قدموں کی تعداد بڑھ جائے اور اس پر ثواب ملے ۔(نسائی)
نماز باجماعت میں شرکت کے لئے صحابہ ہر قسم کی تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہوتے اور گرمی ، تاریکی ، موسم کی خرابی اور اندھیرے راستوں میں سانپ، بچھو کی پرواہ نہ کرتے۔ ظہر کی نماز کے متعلق ابوداؤد میں روایت ہے کہ گرمی کی شدت سے زمین اس قدر گرم ہو جاتی کہ بعض صحابہؓ مٹھی میں کنکریاں اٹھا کر اس کو ٹھنڈا کرتے تھے پھر سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرتے تھے۔(ابوداؤد)
جس دن حضرت عمرؓ کو زخم لگا جس سے آپ کی شہادت ہوئی اسی رات کی صبح کو لوگوں نے نمازِفجر کے لئے جگایا تو خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے کہا ہاں جو شخص نماز چھوڑ دے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔چنانچہ اسی حالت میں کہ زخم سے مسلسل خون جاری تھا نماز فرض ادا کی ۔(مؤطا)
حضرت ابی ابن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری مسلما ن کا گھر میرے علم کے مطابق مسجد سے سب سے زیادہ دور تھا لیکن جماعت کے ساتھ اس کی ایک نماز بھی چھٹتی نہ تھی۔ کسی نے اس سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ تم ایک گدھا خرید لو اور دوپہر کی گرمی اوررات کے اندھیرے میں اس پرسوار ہو کر مسجد آیاکرو۔اس نے جواب میں کہا کہ میں تو یہ بھی پسند نہ کروں گاکہ مجھے مسجد کے پہلو میں رہائش کے لئے مکان مل جائے کیونکہ میرا دل چاہتاہے کہ میرے مسجد کوچل کر آنے اور گھرواپس جانے کاثواب میرے اعما ل نامہ میں لکھا جائے ۔ آنحضرت ﷺنے اس کاجواب سن کر فرمایا’’ قَدْجمَعَ اللّٰہ لَکَ ذٰلِک‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ سب ثواب اکٹھا کر کے تمہارے لئے رکھا ہے۔
نوافل سے رغبت
نوافل ذکر الٰہی کاخصوصی ذریعہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور کان بن جاتاہے ۔ صحابہ کرامؓ کو نوافل سے جو رغبت اور الفت تھی اس کا تذکرہ کتب حدیث و سیرۃ میں جابجا ملتاہے۔ بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ مغرب کی نماز سے قبل اذان ہوتے ہی کبار صحابہؓمسجد کے ستونوں کے قریب تیزی سے جاتے اور حضور ﷺکی امامت کے لئے تشریف لانے تک نوافل میں مصروف رہتے۔(بخاری)
اس بارہ میں صحابہؓ کے شوق کا یہ عالم تھا کہ اگر بیرون جات سے آیا ہوا کوئی شخص اس وقت مسجد میں پہنچتا تو اس کو یہ غلط فہمی ہو تی کہ شاید نماز باجماعت ہو چکی ہے اور نمازی سنتوں کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ بلالؓ سے فرمایا کہ اسلام لاکر تم نے ثواب کی امید پرجو کام کئے ہیں ان میں سے بہترین کام مجھے بتاؤ کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی۔ حضرت بلالؓ نے عرض کی کہ میرے خیال میں میرا سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ میں نے رات یادن کی کسی گھڑی میں کبھی وضو نہیں کیا مگر لازماً اس کے ساتھ جتنے نفل کی توفیق ملی وہ بھی ادا کئے ہیں۔
صحابہ کے نوافل کے حسن اور طول کا یہ عالم تھا کہ حضرت انسؓ رکوع کے بعداور قیام میں اوردونوں سجدوں کے درمیان اس قدر دیر لگاتے کہ لوگ سمجھتے کہ کچھ بھول گئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو معلوم ہوتاکہ کوئی ستون کھڑا ہے۔ایک دن رکوع میں اس قدر جھکے رہے کہ ایک شخص نے قرآن مجید کی بقرہ ، آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں پڑھ ڈالیں مگر انہوں نے اس دوران میں سر نہ اٹھایا ۔
تہجد کی عادت
نوافل میں نماز تہجد کو جو اہمیت حاصل ہے محتاج بیان نہیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی نمازتہجد کاذکر خود خداتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓکے متعلق ان کے صاحبزادہ سالم روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فرمایا عبداللہ کتناہی اچھا آدمی ہے اگر وہ را ت کونفل پڑھا کرے۔سالم کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کے بعد ابن عمر رات کو تھوڑاہی سوتے تھے اور زیادہ وقت نماز تہجد میں گزارتے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا گھر رات بھر ذکرِالٰہی سے اس طرح معمور رہتا تھا کہ انہوں نے اور ان کی بیوی اور خادم نے رات کے تین حصے کر لئے تھے اور ان میں سے ایک جب تہجد سے فا رغ ہو چکتا تھا تو دوسرے کو نماز کے لئے جگا دیتا تھا۔ بعض صحابہ کو نماز تہجد میں اتناغلو ہو جاتا تھا کہ حضور ﷺ ان کو اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتے اور اپنے نفس کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرماتے ۔
حضرت زینب بنت جحشؓ برابر نماز میں مصروف رہتیں اور جب تھک جاتیں تو دو ستونوں میں ایک رسی باندھ رکھی تھی اس سے سہارا لے لیتی تھیں تاکہ نیند نہ آنے پائے ۔ آنحضرت ﷺنے رسی کو دیکھا تو فرمایا کہ ان کو صرف اسی قدر نماز پڑھنی چاہئے جو ان کی طاقت میں ہو اور اگر تھک جائیں تو بیٹھ جانا چاہئے۔ چنانچہ حضور ﷺنے وہ رسی کھلوا کر پھینکوا دی ۔(بخاری)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ وبن عاص کی روایت ہے کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اپنی تمام زندگی دن کوروزہ رکھوں گا اور تمام رات نفل پڑھوں گا۔حضور ؐکو میرے اس ارادہ کی خبر ہوئی تو آپ ؐنے پوچھا کیایہ بات صحیح ہے ۔ میں نے جواب دیا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ ؐپر قربان ہوں یہ بات صحیح ہے ۔ آپؐ نے فرمایا ایسانہ کرو ۔ روزہ بھی رکھو اور افطاربھی کرو۔ نماز کے لئے بھی اٹھو اور کچھ دیر رات کو سو کر گزارو اور ہر ماہ تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتاہے۔ میں نے کہا حضور مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے۔فرمایا دو دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دو۔ میں نے کہامجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے ۔ فرمایا تو پھر حضرت داؤد علیہ السلام کی سنت کے مطابق ایک دن روزہ رکھو ایک دن چھوڑ دو اس سے زیادہ روزہ رکھنا فضیلت کی بات نہیں۔
تلاوت کا ذَوق
قرآن مجید کی تلاوت ذکرالٰہی کا ایک بہت مبارک طریق ہے کیونکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال اور اس کی صفات حسنہ اوراحسانات عالیہ کے تذکرہ سے بھرپور ہے۔ صحابہؓ کا تلاوت قرآن اورحفظ قرآن اور تدبّر قرآن کا ذوق و شوق معروف ہے۔ اہل عرب کو اپنی شاعری پر جو ناز تھا اور شاعرکو ان کے معاشرہ میں جو عظمت حاصل تھی وہ کسی پر مخفی نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے عرب کے ایک چوٹی کے شاعرکو جو مسلمان ہو گئے تھے فرمایا کہ اپنے کچھ اشعار سناؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اسلام لانے کے بعد میں شاعری ترک کر چکاہوں کیونکہ قرآن شریف کی سورتوں کی تلاوت نے اب مجھے شاعری سے مستغنی کر دیا ہے ۔ صحابہؓ کے شوق تلاوت قرآن کا یہ عالم تھا کہ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن عمرؓکی کثرت تلاوت دیکھ کر فرمایا کہ پورے ایک مہینہ میں ایک بار قرآن ختم کرو ۔ انہوں نے عرض کی کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتاہوں ۔ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بیس دن میں۔ گزارش کی میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتاہوں ۔ فرمایا پندرہ دن میں ، بولے کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ ارشاد ہوا کہ دس دن میں عرض کی مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے ۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا اچھا سات دن میں ہی قرآن مجید ایک بار پڑھ لیاکرو اوراب اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ۔(ابوداؤد)
دُعا کی لذّت
ذکر الٰہی میں دعا کو جو مقام حاصل ہے محتاج تفصیل نہیں۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:
’’ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ‘‘عبادت کا مغز دعا ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے نفوس میں جو غیر معمولی تبدیلی پیداکی اور زمانہ میں جو زبردست انقلاب پیدا کیاوہ ذوق دعا کازبردست ثبوت ہے ۔ صحابہؓکی دعا سے الفت کی ایک ٹھوس مثال وہ بے شمار دعائیں ہیں جو روزانہ زندگی کے مختلف کاموں اور پہلوؤں کے متعلق انہوں نے تفصیلاً آنحضرت ﷺ سے سن کر یاد رکھیں اور اگلی نسلوں تک لفظاً لفظاً اس رنگ سے پہنچائیں کہ وہ کتب حدیث میں محفوظ اورمدوّن ہو کر آج سینکڑوں سال گزر جانے پر بھی ہمارے پاس موجودہیں۔ صحابہؓ کے ذوق دعا اور ذکرالٰہی کی ایک مثال بطور نمونہ یہ ہے کہ ایک بار حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ سوار ہونے لگے تو بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا، پشت پر پہنچے تو الحمدللہ کہا ، پھر یہ آیت پڑھ کر خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کی پھر اور دعا کی ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا ۔۔۔الخ‘‘ پھر تین بار اَلْحَمْدُلِلّٰہ اور تین بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہا ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی’’سُبْحَانَکَ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ اِنَّہٗ لاَ یَغْفِرالذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ ‘‘۔پھر حضرت علیؓ ہنس پڑے۔ لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی ۔ بولے ایک بار رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح سوار ہوئے اور اسی طرح حضورﷺ نے دعائیں اوراذکار پڑھے اور پھرہنس پڑے ۔ ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعاکرتاہے تو خدااس سے خوش ہوتا ہے‘۔(ابوداؤد)
گداز دِل
ذکرالٰہی کے ساتھ دل میں نرمی، طبیعت میں خشیت اور آنکھوں میں آنسو لازمی ہیں۔ صحابہؓ کے دل بعد کے آنے والے خشک زاہد اور کھوکھلے صوفیوں کی طرح سخت نہ تھے بلکہ موم کی طرح نرم اور گداز تھے ۔قرآن مجید اور آنحضرت ﷺکے مواعظات سننے اور ذکر الٰہی اور دعا کے ساتھ ان میں رقت پیدا ہوتی تھی۔ روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ جب قرآن مجید کی آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا۔۔۔‘‘ پڑھتے تو بے اختیار رو پڑتے تھے اور دیر تک روتے تھے۔ ایک بار انہوں نے حضرت عمرؓ کو یہ آیت پڑھتے سنا ’’فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْد‘‘ تواس قدر روئے کہ داڑھی اور گریبان دونوں ترہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بہت رونے والے شخص تھے ۔ جب قرآن پڑھتے تو آنسو ؤں کوروک نہیں سکتے تھے۔ کفار مکّہ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو گھبرا گئے اور ان کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں عورتیں اور بچے اسلام کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔
خدا ہر چیز پر مقدم ہے
صحابہ کرامؓ کے دل میں ذکر الٰہی سے جو محبت تھی اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتاہے کہ پسندیدہ سے پسندیدہ اور قیمتی سے قیمتی چیز بھی اگر صحابہ کے ذکر الٰہی اور نماز میں حارج ہوتی تو وہ ان کی نظر سے گر جاتی تھی۔ ایک دفعہ ایک صحابی حضرت ابوطلحہؓ انصاری اپنے باغ میں نمازپڑھ رہے تھے کہ ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی۔ باغ بہت گھناتھا اور درختوں کی شاخیں باہم ملی ہوئی تھیں اس لئے وہ چڑیا پھنس گئی اور نکلنے کی راہیں ڈھونڈنے لگی۔ ابوطلحہؓ کو باغ کی شادابی اور چڑیا کی اچھل کود کا یہ منظر پسند آیا اور تھوڑی دیر تک دیکھتے رہے پھر نماز کی طرف توجہ کی تو یہ یاد نہ آیا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ دل میں کہا اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا ۔ فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ یا رسول اللہ میں اس باغ کو صدقہ کرتاہوں۔
ایک اور صحابی اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ فصل کازمانہ تھا دیکھاکہ درخت پھل سے لدے پڑے ہیں۔ اس قدرفریفتہ ہوئے کہ نماز کی رکعتیں یاد نہ رہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر حضرت عثمانؓکی خدمت میں آئے اور کہا کہ اس باغ کی وجہ سے میں فتنہ میں مبتلا ہوگیا اس کو اموال صدقہ میں داخل کر لیجئے ۔ چنانچہ انہوں نے اس کو ۵۰ہزار پر فروخت کیا ۔ اس مناسبت سے اس باغ کانام خمسین پڑ گیا۔(مؤطا امام مالک)
جہاں محبوب سے محبوب چیزذکر الٰہی میں حارج ہونے کی وجہ سے صحابہؓ کو ناپسند ہو جاتی تھی وہاں ذکرالٰہی کی خاطر صحابہ ؓ بڑے سے بڑادکھ بھی بخوشی اٹھا لیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی ایک پہاڑی درّہ پر پہرے پر مامور تھے ان کے قریب ہی ان کے دوسرے ساتھی سو رہے تھے۔ اتفاقاً ایک مشرک آیا اور اس نے ان نماز پڑھنے والے صحابی پر تیر چلا کر تین تیر ان کے جسم میں لگا دئے مگر وہ صحابی برابر نماز پڑھتے رہے ۔ ان کے دوسرے ساتھی جو سورہے تھے بیدار ہوئے تو ان کے زخموں سے خون نکلتے دیکھ کر کہا مجھے پہلے کیوں نہ جگایا ۔ بولے کہ میں نماز میں ایک سورۃ پڑھ رہا تھا جس کوناتمام چھوڑنا مجھے پسند نہ آیا۔(ابوداؤد)
صحابہ کرامؓاگرچہ ذکر الٰہی کے دلدادہ تھے لیکن خشک صوفیوں کی طرح ان کی زندہ دلی میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ ادب المفرد میں جو امام بخاریؒ کی تصنیف ہے لکھا ہے کہ :
’’آنحضرت ﷺکے صحابہ مردہ دل اور خشک مزاج نہ تھے۔ ان کی مجلسوں میں دلچسپی کی باتیں ہوتی تھیں۔ جاہلیت کے واقعات کے تذکرے ہوتے اور اشعار پڑھے جاتے ۔ ہاں جب کوئی خدا کا کام آ جاتا تو ان کی آنکھیں پھر جاتیں اور وہ دیوانہ وار اس کام کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ۔
صحابہ کرام ؓ خوب ذکرالٰہی کرتے تھے مگر وہ عمل صالح کے مفہوم کو خوب سمجھتے تھے اور بعد کے زمانہ کے صوفیوں کی طرح ان کاذکر الٰہی ان کے جہاد فی سبیل اللہ اور اعلائے کلمہ حق اور خدمت دین میں رکاوٹ نہیں بلکہ ممد تھا۔ وہ جہاد کے وقت مصلّوں پر بیٹھ کر ہاؤ ہو کی ضربوں میں مصروف نہیں ہوجاتے تھے بلکہ ان کی راتیں مصلّوں پر گزرتی تھیں اور ان کے دن گھوڑوں کی پشتوں پر ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ۔ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیّ۔
(بشکریہ روزنامہ الفضل ربوہ ۔۱۰؍ اپریل ۱۹۹۹ء)
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۷؍مئی۱۹۹۹ء تا۱۳؍مئی ۱۹۹۹ء)