حضرت صُہَیب بن سنانؓ
حضرت صُہَیب کے والد کا نام سِنَان بن مالک اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت قَعِید تھا۔ حضرت صُہَیب کا وطن موصَل تھا۔ حضرت صُہَیب کے والد یا چچاکسریٰ کی طرف سے اُبُلَّہ کے عامل تھے۔ اُبُلَّہ دَجلہ کے کنارے ایک شہر ہے جو بعد میں بَصرہ کہلایا۔ رومیوں نے اس علاقے پر حملہ کیا تو انہوں نے حضرت صُہَیب کو قیدی بنا لیا جبکہ وہ ابھی کم عمر تھے۔ ابوالقاسم مغربی کے مطابق حضرت صُہَیبؓ کا نام عُمَیرہ تھا، رومیوں نے صُہَیب نام رکھ دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ169-170 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4 صفحہ33-34 صُہَیْب بن سنان، دارالفکر بیروت 2001ء)(معجم البلدان جلد1 صفحہ 99 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت صُہَیب کا رنگ نہایت سرخ تھا۔ قدنہ لمبا تھا اور نہ ہی چھوٹا اور سر پر گھنے بال تھے۔ (اسد الغابہ جلد3 صفحہ 41 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
حضرت صُہَیبؓ نے رومیوں میں پرورش پائی۔ ان کی زبان میں لکنت تھی۔ کَلب نے انہیں رومیوں سے خرید لیا (یہ ایک اَور شخص تھا) اور انہیں لے کر مکہ آ گیا۔ پھرعبداللہ بن جُدْعَان نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ حضرت صُہَیب عبداللہ بن جدعان کی وفات تک اس کے ساتھ مکے میں رہے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوگئی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت صُہَیب کی اولاد کہتی ہے کہ حضرت صُہَیب جب عقل و شعور کی عمر کو پہنچے تو روم سے بھاگ کر مکےآ گئے اور عبداللہ بن جدعان کے حلیف بن گئے اور ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ170 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک غلام صُہَیب تھے جو روم سے پکڑے ہوئے آئے تھے۔ یہ عبداللہ بن جُدعان کے غلام تھے جنہوں نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔ یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپؐ کے لیے انہوں نے کئی قسم کی تکالیف اٹھائیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 443)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اس ضمن میں بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں جو ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں یا غلاموں کی مدد سے بنا لیا ہے تو اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ یہ غلام تو مسلمان ہونے کی وجہ سے مصائب اور ظلموں کا نشانہ بنے تو کیا انہوں نے یعنی ان غلاموں نے ان تکلیفوں کو اپنے اوپر وارد کرنے کے لیے، سہیڑنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ چھپ کے مدد کی یہ ظاہر بھی ہوا اور پھر نہایت ثابت قدمی سے مصائب اور ظلم برداشت بھی کیے تو اس بات کو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ یہ انتہائی بودا اعتراض ہے۔ یہ تو ان مومنین کا، ان لوگوں کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان تھا جس نے انہیں ثابت قدم رکھا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام سیکھا اور اللہ تعالیٰ کی وحی پر ایمان لائے تو بہرحال اس ضمن میں یہ بیان تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 441تا 443)
حضرت عمار بن یاسرؓ کہتے ہیں کہ میں صُہَیبؓ سے دارِ ارقم کے دروازے پر ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے؟ صُہَیبؓ نے مجھ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپؐ کا کلام سنوں۔ حضرت صُہَیبؓ نے کہا کہ مَیں بھی یہی چاہتا ہوں۔ حضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ پھر ہم دونوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ہمارے سامنے اسلام پیش کیا جس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا۔ ہم سارا دن وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ہم نے شام کی۔ پھر ہم وہاں سے چھپتے ہوئے نکلے۔ حضرت عمارؓ اور حضرت صُہَیبؓ نے تیس سے زائد افراد کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ171صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں عرب میں سبقت رکھنے والا ہوں۔ صُہَیبؓ روم میں سبقت رکھنے والا ہے۔ سلمانؓ اہلِ فارس میں سبقت رکھنے والا ہے۔ اور بلالؓ حبش میں سبقت رکھنے والا ہے۔ (اسد الغابہ جلد3 صفحہ39 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ پر شریعت اتری تھی اور ابوبکرؓ اور عمارؓ اور ان کی والدہ سمیہؓ اور صُہَیبؓ اور بلالؓ اور مقدادؓ۔۔۔
پھر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت صُہَیبؓ ان مومنین میں سے تھے جنہیں کمزور سمجھا جاتا تھا اور جنہیں مکے میں اللہ کی راہ میں اذیّت دی جاتی تھی۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ171 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء) تکلیفوں سے ان کو بھی بہت زیادہ گزرنا پڑا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسرؓ کو اتنی تکلیف دی جاتی کہ انہیں معلوم نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہی حالت حضرت صُہَیبؓ، حضرت ابوفَائِدؓ، حضرت عامر بن فُہَیْرہؓ اور دیگر اصحاب کی تھی۔ ان اصحاب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰہَدُوْا وَصَبَرُوْا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النحل: 111) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ34صُہَیْب بن سنان، دارالفکر بیروت 2001ء)
پھر تیرا رب یقینا ًان لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ فتنہ میں مبتلا کیے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقیناً تیرا رب اس کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
ایک روایت کے مطابق مدینے کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے جو سب سے آخر پر آئے وہ حضرت علیؓ اور حضرت صُہَیب بن سنانؓ تھے۔ یہ نصف ربیع الاوّل کا واقعہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قُبَا میں قیام پذیر تھے ابھی مدینہ کے لیے روانہ نہیں ہوئے تھے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ172 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت صُہَیبؓ جب ہجرتِ مدینہ کے لیے نکلے تو مشرکین کے ایک گروہ نے آپؓ کا تعاقب کیا تو اپنی سواری سے اترے اور ترکش میں جو کچھ تھا وہ نکال لیا اور کہا اے قریش کے گروہ! تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ماہر تیر اندازوں میں سے ہوں۔ اللہ کی قسم ! تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ جتنے تیر میرے پاس ہیں وہ سب تمہیں مار نہ لوں۔ پھر مَیں اپنی تلوار سے تمہیں ماروں گا یہاں تک کہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے۔ لہٰذا تم لوگ جو چاہو کرو اگر میرا مال چاہتے ہو تو میں تمہیں اپنے مال کے بارے میں بتا دیتا ہوں کہ میرا مال کہاں ہے اور تم میرا راستہ چھوڑ دو۔ ان لوگوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ حضرت صُہَیبؓ نے بتا دیا اور جب وہ، حضرت صُہَیبؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئےتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سودے نے ابو یحیٰ کو فائدہ پہنچایا۔ سودا نفع مند ہوا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ (البقرۃ: 208) (الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ171-172 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت صُہَیب مکہ سے ہجرت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت آپؐ قبا میں تھے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی تھے۔ یعنی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی تھے۔ اس وقت ان سب کے سامنے تازہ کھجوریں تھیں جو حضرت کلثوم بن ہِدْمؓ لائےتھے۔ راستے میں حضرت صُہَیبؓ کو آشوب چشم ہو گیا تھا، آنکھوں کی تکلیف ہو گئی تھی اور انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ سفر کی وجہ سے تھکان بھی تھی۔ حضرت صُہیبؓ کھجوریں کھانے کے لیے لپکے تو حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! صُہَیب کی طرف دیکھیں اسے آشوبِ چشم ہے اور وہ کھجوریں کھا رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاقاً فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہیں آشوبِ چشم ہے۔ آنکھیں سوجی ہوئی ہیں، بہ رہی ہیں۔ حضرت صُہَیبؓ نے عرض کیا میں اپنی آنکھ کے اس حصہ سے کھا رہا ہوں جو ٹھیک ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ پھر حضرت صُہَیبؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہجرت میں مجھے ساتھ لے کر جائیں گے مگر آپ چلے آئے اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے مجھے ساتھ لے کر جانے کا وعدہ کیا تھا تاہم آپؐ بھی تشریف لے آئے اور مجھے چھوڑ آئے۔ قریش نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے محبوس کر دیا اور میں نے اپنی جان اور اپنے گھر والوں کو اپنے مال کے عوض خریدا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سودا نفع مند ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَءُوْفٌ بِالْعِبَادِ (البقرۃ: 208)
اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے۔ حضرت صُہَیبؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! میں نے ایک مُدّ، تقریباً آدھا کلو آٹا زادِ راہ کے طور پر لیا تھا۔ اسے میں نے اَبواء مقام پر گوندھا تھا یہاں تک کہ مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 172 صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2017ء)
اس سفر میں صرف اتنا کھایا۔ یہی خوراک تھی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’صُہَیبؓ ایک مالدار آدمی تھے۔ یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے۔‘‘ اب تو غلام نہیں رہے تھے ’’قریش ان کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپؐ کے بعد صُہَیبؓ نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے ان کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو؟ ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے۔ صُہَیبؓ نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپؓ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے۔ آپؐ نے فرمایا صُہَیبؓ ! تمہارا یہ سودا سب پہلے سودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کر لیا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 194-195)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صُہَیبؓ کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے اور حضرت حارث بن صِمَّہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت صُہیبؓ غزوۂ بدر، اُحُد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد3 صفحہ39 صُہَیْب بن سنان مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)
حضرت عَائِذ بن عَمروؓ سے روایت ہے کہ حضرت سلمانؓ، حضرت صُہَیبؓ اور حضرت بلالؓ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھےکہ ان کے پاس سے ابو سفیان بن حَرْب کا گزر ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تلواریں ابھی اللہ کے دشمن کی گردن پر نہیں چلیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیا تم قریش کے سرکردہ اور سردار کے بارے میں ایسا کہتے ہو؟ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ ! شاید تم نے انہیں غصہ دلا دیا ہے۔ اگر تم نے انہیں غصہ دلایا ہے تو تم نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو غصہ دلایا ہے۔ پس حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کے پاس واپس گئے اور کہا کہ اے ہمارے بھائیو! شاید تم ناراض ہو گئے ہو۔ انہوں نے کہا نہیں اے ابوبکرؓ ! اللہ آپؓ سے مغفرت فرمائے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 885 حدیث عائذ بن عمرو، عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت صُہَیبؓ بیان کرتے ہیں کہ جس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے مَیں اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی بیعت لی میں اس میں موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی سریہ روانہ فرمایا مَیں اس میں شامل تھا اور آپؐ جس غزوے کے لیے بھی روانہ ہوئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھا۔ مَیں آپؐ کے دائیں طرف ہوتا یا بائیں طرف۔ لوگ جب سامنے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں لوگوں کے آگے ہوتا۔ جب لوگ پیچھے سے خطرہ محسوس کرتے تو میں ان کے پیچھے ہوتا۔ اور میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے اور اپنے درمیان نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہو گئی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ35 صُہَیْب بن سنان، دارالفکر بیروت 2001ء)
حضرت صُہَیبؓ بڑھاپے میں لوگوں کو جمع کر کے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کارناموں کے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2صفحہ268صُہَیْب بن سنان مکتبہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت صُہَیبؓ کی زبان میں عجمیت تھی یعنی عربوں والی فصاحت نہیں تھی۔ زَید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ وہ حضرت صُہَیبؓ کے ایک باغ میں داخل ہوئے جو عالیہ مقام میں تھا۔ حضرت صُہَیبؓ نے جب حضرت عمرؓ کو دیکھا تو کہا یَنَّاسْ یَنَّاسْ۔ حضرت عمرؓ کو لگا کہ اَلنَّاسکہہ رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اسے کیا ہوا ہے؟ یہ لوگوں کو کیوں بلا رہا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ وہ اپنے غلام کو بلا رہےہیں جس کا نام یُحَنَّسْہے۔ زبان میں گرہ کی وجہ سے وہ اسے ایسا کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہاں باتیں ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ اے صُہَیبؓ ! تین باتوں کے علاوہ میں تم میں کوئی عیب نہیں دیکھتا۔ اگر وہ تم میں نہ ہوتیں تو میں تم پر کسی کو فضیلت نہ دیتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان عجمی ہے۔ اور تم اپنی کنیت ابو یحیٰی بتاتے ہو جو ایک نبیؑ کا نام ہے۔ اور تم اپنا مال فضول خرچ کرتے ہو۔ حضرت صُہیبؓ نے جواب میں کہا جہاں تک میرے مال فضول خرچ کرنے کاتعلق ہے تو میں اسے وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں خرچ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ فضول نہیں کرتا۔ جہاں تک میری کنیت کا تعلق ہے تو وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو یحیٰیرکھی تھی اور میں اس کو ہرگز ترک نہیں کروں گا۔ اور جہاں تک میرے عرب کی طرف منسوب ہونے کا تعلق ہے تو رومیوں نے مجھے کم سنی میں قیدی بنا لیا تھا اس لیے میں نے ان کی زبان سیکھ لی۔ مَیں قبیلہ نَمِرْ بِن قَاسِطْ سے تعلق رکھتا ہوں۔ حضرت عمرؓ حضرت صُہَیبؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اعلیٰ گمان رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو آپؓ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صُہَیبؓ پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت کروائیں گے یہاں تک کہ اہل شوریٰ اُس پر متفق ہو جائیں جس نے خلیفہ بننا ہے۔
حضرت صُہَیبؓ کی وفات ماہ شوال 38؍ ہجری میں ہوئی، بعض کے مطابق 39؍ ہجری میں وفات ہوئی۔ وفات کے وقت حضرت صُہَیبؓ کی عمر تہتر برس تھی، بعض روایات کے مطابق ستر برس تھی۔ آپؓ مدینہ میں دفن ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد3 صفحہ 41صُہَیْب بن سنان، دارالکتب العلمیہ بیروت2016ء)