حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ
حضرت طلحہؓ کا تعلق قبیلہ بنو تَیْم بن مُرّہ سے تھا۔ ان کے والد کا نام عبیداللہ بن عثمان اور والدہ کا نام صَعْبَہ تھا جو عبداللہ بن عِماد حضرمی کی بیٹی اور حضرت عَلَاء بن حضرمی کی بہن تھیں۔ حضرت طلحہؓ کی کنیت ابومحمد تھی۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِی کے والد کا نام عبداللہ بن عماد حضرمی تھا۔ حضرت عَلَاء حضرموت سے تعلق رکھتے تھے اور حَرب بن امیہ کے حلیف تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بحرین کا حاکم مقرر فرمایا۔ یہ تاوفات بحرین کے حاکم رہے۔ ان کی وفات 14؍ ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔ ان کا ایک بھائی عامر بن حضرمی بدر کے دن کفر کی حالت میں مارا گیا اور دوسرا بھائی عمرو بن حضرمی مشرکوں میں سے پہلا شخص تھا جس کو ایک مسلمان نے قتل کیا اور اس کا مال پہلا تھا جو بطور خُمس کے اسلام میں آیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 160 ومن بنی تیم بن مرۃ طلحہ بن عبید اللہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 71 العلاء بن الحضرمی دار الکتب العلمیہ بیروت 2008ء)
ساتویں پشت میں حضرت طلحہؓ کا نسب نامہ مُرَّہ بن کعب پر جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے اور چوتھی پشت میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ۔ ان کے والد عبید اللہ نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا لیکن والدہ نے لمبی زندگی پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر صحابیہ ہونے کا شرف پایا۔ ہجرت سے قبل یہ اسلام لے آئی تھیں۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 128)
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ غزوۂ بدر میں شامل نہیں ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا تھا۔ ان کی جنگِ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے قافلے کی شام سے روانگی کا اندازہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روانگی سے دس روز پہلے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو قافلے کی خبررسانی کے لیے بھیجا۔ دونوں روانہ ہو کر حَوْرَاء پہنچے تو وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ قافلہ ان کے پاس سے گزرا۔ حَوراء بحیرۂ احمر پر واقع ایک پڑاؤ ہے جہاں سے حجاز اور شام کے درمیان چلنے والے قافلے گزرتے تھے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت طلحہؓ اور حضرت سعیدؓ کے واپس آنے سے پہلے ہی یہ خبر معلوم ہو گئی۔ آپؐ نے اپنے صحابہ کو بلایا اور قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوئے مگر قافلہ ایک دوسرے راستے یعنی ساحل کے راستے سے تیزی سے نکل گیا۔ اس کا پہلے بھی ایک جگہ ذکر ہو چکا ہے۔ اور قافلہ والے تلاش کرنے والوں سے بچنے کے لیے دن رات چلتے رہے۔ یہ قافلہ کافروں کا، مکّے والوں کا تھا۔ حضرت طلحہ بن عُبیداللہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ مدینے کے ارادے سے روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے کی خبر دیں۔ ان دونوں کو آپؐ کی غزوۂ بدر کے لیے روانگی کا علم نہیں تھا۔ وہ مدینہ اس دن پہنچے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں قریش کے لشکر سے جنگ کی۔ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینے سے روانہ ہوئے اور آپؐ کی بدر سے واپسی پر تُرْبَان میں ملے۔ تُرْبَان بھی مدینے سے انیس میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس میں کثرت سے میٹھے پانی کے کنویں ہیں۔ غزوۂ بدر کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام فرمایا تھا۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت سعیدؓ جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو حصہ عطا فرمایا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے۔ پس وہ دونوں بدر میں شاملین ہی قرار دیے گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (السیرۃ النبویۃ فی ضوء القرآن والسنۃ جلد 2 صفحہ123 مطبوعہ دار القلم دمشق) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ75زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت طلحہؓ غزوۂ احد اور باقی دیگر غزوات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی موجود تھے۔ یہ ان دس اشخاص میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی۔ ان آٹھ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ان پانچ لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے ذریعہ سے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ حضرت عمرؓ کی قائم کردہ شوریٰ کمیٹی کے چھ ممبران میں سے ایک تھے۔ یہ وہ احباب تھے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت راضی تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ 317 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت) (الاصابہ جلد 3 صفحہ 430 طلحہ بن عبید اللہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
یزید بن رُوْمَان روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ دونوں حضرت زبیر بن عوامؓ کے پیچھے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا اور ان دونوں کو قرآن پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے شرف کا وعدہ کیا۔ اس پر آپ دونوں یعنی حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہؓ ایمان لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! میں حال ہی میں ملک شام سے واپس آیا ہوں جب واپسی پر مَعَان، یہ بھی ایک جگہ کا نام ہے جو مؤتہ سے پہلے واقع ہے۔ غزوۂ مؤتہ کے موقع پر اس جگہ پہنچ کر مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رومیوں کا دو لاکھ کا لشکر مسلمانوں کے لیے تیار ہے تو صحابہؓ یہاں دو دن ٹھہرے رہے۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ میں جب واپسی پر مَعَان اور زَرْقَاء، یہ بھی مقام مَعَان کے ساتھ واقع ہے، کے درمیان پہنچا اور ہمارا وہاں پڑاؤ تھا۔ ہم سوئے ہوئے تھے کہ ایک منادی کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ اے سونے والو! جاگو کہ احمدؐ مکے میں ظاہر ہو چکا ہے۔ پھر ہم وہاں سے واپس پہنچے تو آپؐ کے بارے میں سنا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ40، عثمان بن عفان، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2012ء) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 279 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء) (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 173 الزرقاء المکتبۃ العصریۃ بیروت 2014ء)
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بُصریٰ (جو ملکِ شام کا ایک عظیم شہر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کے ہمراہ تجارتی سفر کے دوران اس شہر میں قیام فرما ہوئے تھے تو کہتے ہیں کہ میں بُصریٰ) کے بازار میں موجود تھا کہ ایک راہب اپنے صَوْمَعَہ یعنی یہودیوں کی عبادت گاہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ قافلے والوں سے پوچھو کہ ان میں کوئی شخص اہلِ حرم میں سے بھی ہے؟ میں نے کہا ہاں ! میں ہوں۔ اس نے پوچھا کیا احمدؐ ظاہر ہو گیا ہے؟ تو حضرت طلحہؓ نے کہا کہ کون احمد؟ اس نے کہا عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں وہ ظاہر ہو گا اور وہ آخری نبی ہو گا۔ ان کے ظاہر ہونے کی جگہ حرم ہے اور ان کی ہجرت گاہ کھجور کے باغ اور پتھریلی اور شور اور کلر والی زمین کی طرف ہو گی۔ تم انہیں چھوڑ نہ دینا۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ اس نے جو کچھ کہا وہ میرے دل میں بیٹھ گیا۔ میں تیزی کے ساتھ روانہ ہوا اور مکے آ گیا۔ دریافت کیا کہ کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا ہاں محمد بن عبداللہ امین، مکہ والے آپؐ کو امین کہا کرتے تھے، امین نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ، حضرت ابوبکرؓ کی کنیت تھی انہوں نے ان کی پیروی کی ہے۔ کہتے ہیں میں روانہ ہوا اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا تم نے ان صاحب کی پیروی کی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ تم بھی ان کے پاس چلو اور ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ حق کی طرف بلاتے ہیں۔ حضرت طلحہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو راہب کی گفتگو بیان کی۔ حضرت ابوبکرؓ حضرت طلحہؓ کو ساتھ لے کر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کو حاضر کیا۔ حضرت طلحہؓ نے اسلام قبول کیا اور جو کچھ راہب نے کہا تھا اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 161 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
تاریخ کی ایک کتاب طبقات الکبریٰ میں اس کا ذکر ہے۔ جب حضرت طلحہؓ اسلام لائے تو نوفل بن خُوَیْلَد بن عَدَوِیَّہ نے انہیں اور حضرت ابوبکرؓ کو ایک رسی سے باندھ دیا۔ اس لیے انہیں اور حضرت ابوبکرؓ کو قَرِیْنَیْن یعنی دو ساتھی بھی کہتے تھے۔ نوفل قریش میں اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان کو باندھنے والوں میں ان کا بھائی یعنی حضرت طلحہؓ کا بھائی عثمان بن عبیداللہ بھی تھا۔ باندھا اس لیے تھا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکیں اور اسلام سے باز آ جائیں۔ امام بیہقی نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! عَدَوِیَّہ کے شر سے انہیں بچا۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 129-130)
حضرت مسعود بن خراشؓ سے روایت ہے کہ ایک روز میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک نوجوان کا پیچھا کر رہے ہیں جس کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ طلحہ بن عبید اللہؓ بے دین ہو گیا ہے اور ان کی والدہ صَعْبَہ ان کے پیچھے پیچھے غصے میں ان کو گالیاں دیے جا رہی تھی۔ (التاریخ الصغیر لامام بخاریؒ جلد اوّل صفحہ 113 دارالمعارفہ بیروت)
عبداللہ بن سعدنے اپنے والد سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی طرف ہجرت کرتے ہوئے خَرَّارْ، یہ بھی ایک وادی ہے جو حجاز کے قریب واقع ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مدینےکی وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ بہرحال جب یہ خَرَّارْ مقام سے روانہ ہوئے تو صبح کے وقت حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ملے جو شام سے قافلے کے ہمراہ آئے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کو شامی کپڑے پہنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ اہلِ مدینہ بہت دیر سے منتظر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلنے میں تیزی اختیار فرمائی اور حضرت طلحہؓ مکے چلے گئے۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ کے گھر والوں کو اپنے ہمراہ لے کر مدینے پہنچ گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 161 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 400 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے مکے میں جب اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل ان دونوں کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی اور جب مسلمان ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔
ایک دوسرے قول کے مطابق ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی اور ایک تیسری روایت یہ ہے کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت اُبی بن کعبؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ جب حضرت طلحہؓ نے مدینے ہجرت کی تو وہ حضرت اسعد بن زُرارہؓ کے مکان پر ٹھہرے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 85 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃبیروت 2003ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت طلحہؓ کی بعض مالی قربانیوں کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فیاض قرار دیا تھا۔ بہت فیاض ہیں۔ چنانچہ غزوۂ ذی قرد کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک چشمے پر سے ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپؐ کو بتایاگیا کہ اس کنویں کا نام بِئْسَانْ ہے اور یہ نمکین ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں اس کا نام نُعْمَان ہے اور یہ میٹھا اور پاک ہے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے اس کو خریدا اور وقف کر دیا۔ اس کا پانی میٹھا ہو گیا۔ جب حضرت طلحہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ واقعہ بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا طلحہ! تم تو بڑے فیاض ہو۔ پس ان کو‘طلحہ فیاض’کے نام سے پکارا جانے لگا۔
موسیٰ بن طلحہ اپنے والد طلحہؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن حضرت طلحہ کا نام طَلْحَۃُ الْخَیْر رکھا۔ غزوۂ تبوک اور غزوۂ ذی قرد کے موقعے پر طَلْحَۃُ الْفَیَّاض رکھا اور غزوۂ حنین کے روز طَلْحَۃُ الْجُود رکھا۔ اس کا مطلب بھی فیاضی ہے، سخاوت ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 478 باب یذکر فیہ صفتہﷺ الباطنۃ۔ ۔ ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 85 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت)
سَائِب بن یَزید سے مروی ہے کہ میں سفر و حضر میں حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ کے ہمراہ رہا مگر مجھے عام طور پر روپے اور کپڑے اور کھانے پر طلحہؓ سے زیادہ سخی کوئی نہیں نظر آیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ167 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی۔ جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تھی تو وہ ثابت قدم رہے اور وہ اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے۔ بیعت کرنے والے لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت طلحؓ ہ، حضرت سعؓ د، حضرت سہل بن حُنَیفؓ اور حضرت ابودُجَانہؓ شامل تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء 3 صفحہ 431 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت طلحہؓ احد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ثابت قدم رہے اور آپؐ سے موت پر بیعت کی۔ مالک بن زُھَیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیر مارا تو حضرت طلحہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے بچایا۔ تیر ان کی چھوٹی انگلی میں لگا جس سے وہ بے کار ہو گئی۔ جس وقت انہیں تیر لگا، جو پہلا تیر لگا تو تکلیف سے ان کی‘سی’کی آواز نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ بسم اللہ کہتے تو اس طرح جنت میں داخل ہوتے کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے۔ بہرحال اس روز، تاریخ کی ایک کتاب میں آگےلکھا ہے کہ جنگِ احد کے اس روز حضرت طلحہؓ کے سر میں ایک مشرک نے دو دفعہ چوٹ پہنچائی۔ ایک مرتبہ جبکہ وہ اس کی طرف آ رہے تھے۔ دوسری دفعہ جبکہ وہ اس سے رخ پھیر رہے تھے۔ اس سے کافی خون بہا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162-163 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اسی واقعہ کی اور تفصیل سیرۃ الحلبیہ میں ایک روایت میں اس طرح بھی ہے کہ قیس بن ابو حَازِمْ کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ہاتھ کا حال دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں سے بچاتے ہوئے شل ہو گیا تھا۔ ایک قول ہے کہ اس میں نیزہ لگا تھا اور اس سے اتنا خون بہا کہ کمزوری سے بیہوش ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان پر پانی کے چھینٹے ڈالے یہاں تک کہ ان کو ہوش آیا۔ ہوش آنے پر انہوں نے فوراً پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا وہ خیریت سے ہیں اور انہوں نے ہی مجھے آپؓ کی طرف بھیجا ہے۔ حضرت طلحہؓ نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَہٗ جَلَلٗ کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔ ہر مصیبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھوٹی ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 324 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
اسی جنگ کے واقعےکی ایک روایت ایک تاریخ میں اس طرح ملتی ہے کہ حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ نے چٹان پر چڑھنا چاہا مگر زرہوں کے وزن کی وجہ سے اور سر اور چہرے پر چوٹ سے خون بہنے کی وجہ سے، (آپؐ زخمی ہوئے تھے اس کے بعد کا یہ واقعہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکمزوری ہو گئی تھی تو چٹان پہ چڑھ نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کو نیچے بٹھایا اور ان کے اوپر پیر رکھ کر چٹان پر چڑھے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ طلحہؓ نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 85 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت) (السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ321 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
پھر ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت طلحہؓ کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی جس کی وجہ سے وہ صحیح چال کے ساتھ چل نہیں سکتے تھے۔ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا تو وہ بہت کوشش کر کے اپنی چال اور اپنے قدم ٹھیک رکھ رہے تھے تا کہ لنگڑاہٹ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کی لنگڑاہٹ دور ہو گئی۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 322 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
عائشہ اور ام اسحاق جو حضرت طلحہؓ کی بیٹیاں تھیں، ان دونوں نے بیان کیا کہ احد کے دن ہمارے والد کو چوبیس زخم لگے جن میں سے ایک چوکور زخم سر میں تھا اور پاؤں کی رَگ کٹ گئی تھی۔ انگلی شَل ہو گئی تھی اور باقی زخم جسم پر تھے۔ ان پر غشی کا غلبہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے آپؐ کا چہرہ بھی زخمی تھا۔ آپؐ پر بھی غشی کا غلبہ تھا۔ حضرت طلحہؓ آپؐ کو اٹھا کر، اپنی پیٹھ پر اس طرح الٹے قدموں پیچھے ہٹے کہ جب کبھی مشرکین میں سے کوئی ملتا تو وہ اس سے لڑتے یہاں تک کہ آپؐ کو گھاٹی میں لے گئے اور سہارے سے بٹھا دیا۔ یہ طبقات الکبریٰ کا حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 163 طلحہ بن عبید اللہ قریشی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
غزوۂ احد کے دن جب خالد بن ولیدنے مسلمانوں پر اچانک حملہ کیااور مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے جو تفصیل مختلف روایتوں سے لے کے بیان فرمائی ہے، وہ جو پچھلے واقعات گزر چکے ہیں ان کی مزید تفصیل ہے۔ وہ حضرت طلحہؓ کی ثابت قدمی اور قربانی کے معیارکا ایک عجیب نظارہ پیش کرتی ہے۔ پہلے بھی اسی سے جو دیکھ چکے ہیں، سن چکے ہیں اسی سے یہ معیار نظر آرہا ہے لیکن بہرحال اس کی تفصیل کچھ اور اس طرح ہے جو آپؓ نے بیان فرمائی۔ فرماتے ہیں کہ
’’چند صحابہؓ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔ کفار نے شدت کے ساتھ اس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہؓ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔‘‘ یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن اس وقت بے تحاشا تیر مارتے تھے۔ ’’اس وقت طلحہؓ نے جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے، یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا مگر جانباز اور وفا دار صحابیؓ اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہؓ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بے کار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا۔ سالہا سال بعد اسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہؓ کو کہا ٹُنڈا۔ اس پر ایک دوسرے صحابیؓ نے کہا ہاں ٹُنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹُنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے طلحہؓ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹُنڈا ہوا تھا۔ احد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپؓ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپؓ کو دردنہیں ہوتی تھی اور کیا آپؓ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہِل جائے اور تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آ گرے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20صفحہ 250)
غزوۂ حمراء الاسد کے موقعے پر تعاقب میں روانہ ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہیں؟ حضرت طلحہؓ نے عرض کیا کہ قریب ہی ہیں۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے گئے اور اپنے ہتھیار اٹھا لائے حالانکہ اس وقت طلحہؓ کے صرف سینے پر ہی احد کی جنگ کے نو زخم تھے۔ ان کے جسم پر کل ملا کر ستر سے اوپر زخم تھے۔ حضرت طلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کے متعلق زیادہ فکرمند تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ تم نے دشمن کو کہاں دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیاکہ نشیبی علاقے میں۔ آپؐ نے فرمایا یہی میرا بھی خیال تھا جہاں تک ان کا یعنی قریش کا تعلق ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو ہمارے ساتھ آئندہ کبھی اس طرح کا معاملہ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مکے کو ہمارے ہاتھوں سے فتح کر دے گا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 350-351 غزوہ احد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
غزوۂ تبوک کے موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بعض منافقین سُوَیْلَم یہودی کے گھر جمع ہو رہے ہیں اور اس کا گھر جَاسُوم مقام کے قریب تھا۔ جاسوم کو بِئرِ جَاسِم بھی کہتے ہیں۔ یہ شام کی سمت میں رَاتِجْ کے نواح میں ابو ھَیْثَم بن تَیِّھَان کا کنواں تھا اور اس کا پانی بہت عمدہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پانی پیا تھا۔ بہرحال وہ اس کے گھر جمع ہو رہے تھے اور وہ منافق ان لوگوں کوغزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے روک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کو بعض اصحاب کی معیت میں اس کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ سُوَیْلِمْ کے گھر کو آگ لگا دی جائے۔ حضرت طلحہؓ نے ایسا ہی کیا۔ ضَحَّاک بن خلیفہ گھر کے عقب سے بھاگنے لگا۔ اس دوران اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اس کے باقی اصحاب فرار ہو گئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد دوم صفحہ 517 غزوہ تبوک: تحریق بیت سویلم شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفیٰ البالی مصر 1955ء) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 84 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہؓ اور زبیرؓ جنت میں میرے دو ہمسائے ہوں گے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 86 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
غزوۂ تبوک میں پیچھے رہنے والوں میں سے ایک حضرت کعب بن مالکؓ بھی تھے۔ ان کا بائیکاٹ ہوا۔ چالیس روز کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور معافی کا اعلان ہوا اور یہ مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر حضرت کعبؓ سے مصافحہ کیا۔ ان کو مبارک باد دی۔ سوائے حضرت طلحہؓ کے مجلس سے کوئی نہ اٹھا تھا۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت طلحہؓ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 145)
حضرت سعید بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نو لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی گواہی دوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا۔ کہا گیا یہ کیسے ممکن ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ ٹھہرا رہ اے حِراء! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ عرض کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو حضرت سعیدؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں۔ یہ نو لوگ تھے۔ پوچھا گیا دسویں کون ہیں؟ تو انہوں نے تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا کہ وہ مَیں ہوں۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی الاعور وا سمہ سعید بن زید حدیث 3757)
حضرت سعید بن جبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کا مقام ایسا تھا کہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے لڑتے تھے اور نماز میں آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الثانی صفحہ 478 سعید بن زید دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو وہ طلحہ بن عبیداللہؓ کو دیکھ لے۔
حضرت موسیٰ بن طلحہؓ اور حضرت عیسیٰ بن طلحہؓ اپنے والد حضرت طَلْحہ بن عُبَیْداللہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے کہ ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پوچھتا ہوا حاضر ہوا کہ مَنْ قَضٰى نَحْبَہٗ یعنی وہ جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا، سے کون مراد ہے؟ اعرابی نے جب آپؐ سے پوچھا تو آپؐ نے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر اس نے پوچھا تو آپؐ نے جواب نہیں دیا۔ پھر اس نے پوچھا مگر پھر بھی، تیسری دفعہ بھی آپؐ نے جواب نہیں دیا۔ پھر وہ یعنی حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ پھر میں مسجد کے دروازے سے سامنے آیا۔ میں نے اس وقت سبز لباس پہنا ہوا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، حضرت طلحہؓ کو دیکھا تو فرمایا کہ وہ سائل کہاں ہے جو پوچھتا تھا کہ مَنْ قَضٰى نَحْبَہٗ سے کون مراد ہے؟ اعرابی نے کہا یا رسول اللہؐ ! میں حاضر ہوں۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں آپؐ نے میری طرف اشارہ کیا اور فرمایا دیکھو یہ مَنْ قَضٰى نَحْبَہٗ کا مصداق ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 86 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت)
عبدالرحمٰن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا۔ کوئی شخص ہمارے پاس ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا۔ جب حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں سے موافقت اختیار کی جنہوں نے اسے کھا لیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالتِ احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھا لیا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ7 مسند ابو محمد طلحہ بن عبید اللہ حدیث 1383 مؤسسۃ الرسالۃ 2001ء)
حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے جسم پر دو کپڑے دیکھے جو سرخ مٹی میں رنگے ہوئے تھے حالانکہ وہ احرام میں تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ اے طلحہ! ان دونوں کپڑوں کا کیا حال ہے یعنی یہ رنگے کیوں ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا امیر المومنین! میں نے تو انہیں مٹی میں رنگا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اے صحابہ کی جماعت! تم امام ہو۔ لوگ تمہاری اقتدا کریں گے۔ اگرکوئی جاہل تمہارے جسم پر یہ دونوں کپڑے دیکھے گا تو کہے گا کہ طلحہؓ رنگین کپڑے پہنتے ہیں حالانکہ وہ حالت احرام میں ہیں۔ اعتراض کرے گا کہ سفید کی بجائے رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں چاہے جس چیز میں بھی تم نے مرضی رنگا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا احرام باندھنے والے کے لیے سب سے اچھا لباس سفید ہے۔ اس لیے لوگوں کو شبہ میں نہ ڈالو۔
حضرت حسنؓ سے مروی ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے اپنی ایک زمین حضرت عثمان بن عفانؓ کو سات لاکھ درہم میں فروخت کی۔ حضرت عثمانؓ نے یہ رقم ادا کر دی۔ جب حضرت طلحہؓ یہ رقم اپنے گھر لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کے پاس رات بھر اس قدر رقم پڑی رہے تو کیا معلوم اس شخص کے متعلق رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا حکم نازل ہو جائے۔ زندگی موت کا کچھ پتا نہیں۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ نے وہ رات اس طرح بسر کی کہ ان کے قاصد اس مال کو لے کر مستحقین کو دینے کے لیے مدینےکی گلیوں میں پھرتے رہے یہاں تک کہ جب صبح ہو گئی تو اس رقم میں سے ان کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ164-165 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ حضرت عثمانؓ سے اس وقت ملے جبکہ آپؓ مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے کہا کہ آپؓ کے پچاس ہزار درہم میرے پاس تھے وہ میں نے حاصل کر لیے ہیں۔ آپؓ انہیں وصول کرنے کے لئے کسی شخص کو میری طرف بھیج دیں۔ یعنی کسی وقت لیے تھے اب انتظام ہو گیا اب وہ وصول کر لیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے ان سے فرمایا کہ آپؓ کی مروت کی وجہ سے وہ ہم نے آپؓ کو ہبہ کر دیے ہیں۔ (البدایۃ والنہایۃ لابن اثیر جلد 4 جزء 7 صفحہ 208 سنۃ35 ہجری، فصل فی ذکر شیئ من خطبہ…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت طلحہؓ کی شہادت جنگِ جمل میں ہوئی تھی۔ اس بارے میں روایت ہے۔ قیس بن ابو حازم سے مروی ہے کہ مَروان بن حَکم نے جنگِ جمل کے دن حضرت طلحہؓ کے گھٹنے میں تیر مارا تو رگ میں سے خون بہنے لگا۔ جب اسے ہاتھ سے پکڑتے تھے تو خون رک جاتا اور جب چھوڑ دیتے تو بہنے لگتا۔ حضرت طلحہؓ نے کہا اللہ کی قسم! اب تک ہمارے پاس ان لوگوں کے تیر نہیں آئے۔ پھر کہا زخم کو چھوڑ دو کیونکہ یہ تیر اللہ نے بھیجا ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ جنگِ جمل کے دن 10؍جمادی الثانی 36؍ ہجری میں شہید کیے گئے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 64 سال تھی۔ ایک روایت کے مطابق 62سال عمر تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ167-168 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
سعید بن مُسَیِّب سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی برائی بیان کر رہا تھا۔ حضرت سعد بن مالکؓ یعنی حضرت سعد بن ابی وَقَّاصؓ نے اسے منع کیا اور فرمایا کہ میرے بھائیوں کو برا بھلا نہ کہو۔ وہ نہ مانا۔ حضرت سعدؓ اٹھے اور انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی۔ بعد اس کے دعا مانگی کہ اے اللہ! اگر یہ باتیں جو یہ کہہ رہا ہے تیری ناراضگی کا باعث ہیں تو اس پر میری آنکھوں کے سامنے کوئی بلا نازل فرما دے اور اس کو لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دے۔ پس وہ شخص نکلا تو اس کا سامنا ایک ایسے اونٹ سے ہوا جو لوگوں کو چیرتا ہوا آ رہا تھا۔ اس اونٹ نے اس شخص کو ایک پتھریلے میدان میں جا پکڑا اور اس شخص کو اپنے سینے اور زمین کے درمیان رکھا اور اسے پیس کر مار ڈالا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ حضرت سعدؓ کے پیچھے یہ کہتے ہوئے جا رہے تھے کہ اے ابو اسحاق! آپ کو مبارک ہو۔ آپ کی دعا قبول ہو گئی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 88طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت)
علی بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت طلحہؓ کو خواب میں دیکھا جو فرماتے ہیں کہ میری قبر دوسری جگہ ہٹا دو۔ مجھے پانی بہت تکلیف دیتا ہے۔ اسی طرح پھر دوبارہ انہیں خواب میں دیکھا۔ غرض متواتر تین بار دیکھا تو وہ شخص حضرت ابن عباسؓ کے پاس آیا اور ان سے اپنی خواب بیان کی۔ لوگوں نے جا کر انہیں دیکھا تو ان کا وہ حصہ جو زمین سے ملا ہوا تھا پانی کی تری سے سبز ہو گیا تھا۔ پس لوگوں نے حضرت طلحہؓ کو اس قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیا۔ راوی کہتے تھے کہ گویا میں اب بھی اس کافور کو دیکھ رہا ہوں جو ان کی دونوں آنکھوں میں لگا ہوا تھا۔ اس میں بالکل تغیرنہ آیا تھا۔ صرف ان کے بالوں میں کچھ فرق آ گیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گئے تھے۔ لوگوں نے حضرت ابوبَکْرَ ہؓ کے گھر میں سے ایک گھر دس ہزار درہم پر خریدا اور اس میں حضرت طلحہؓ کو دفن کر دیا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 88طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کو عراق کی زمینوں سے چار اور پانچ لاکھ دینارمالیت کا غلہ ہوتا تھا۔ اور علاقہ سَرَاۃْ جو جزیرہ نما عرب کے مغربی طرف شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے اس کو جبل السَّراء بھی کہتے ہیں وہاں سے کم از کم دس ہزار دینار کی مالیت کا غلہ ہوتا تھا۔ ان کی دیگر زمینوں سے بھی غلہ حاصل ہوتا تھا۔ بنو تَیم کا کوئی مفلس ایسا نہ تھا کہ انہوں نے اس کی اور اس کے عیال کی حاجت روائی نہ کی ہو۔ ان کی بیواؤں کا نکاح نہ کرایا ہو۔ ان کے تنگ دستوں کو خادم نہ دیا ہو یعنی خدمت کرنے کے لیے تنگ دستوں کی بھی مدد کی۔ اور ان کے مقروضوں کا قرض نہ ادا کیا ہو، سب کے قرض بھی ادا کیا کرتے تھے۔ نیز ہر سال جب انہیں غلے سے آمدنی آتی تو حضرت عائشہؓ کو دس ہزار درہم بھیجتے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ166 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 147 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت معاویہ نے موسیٰ بن طلحہ سے پوچھا کہ ابومحمدیعنی حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے کتنا مال چھوڑا؟ انہوں نے کہا کہ بائیس لاکھ درہم اور دو لاکھ دینار۔ ان کا سارا مال غلے سے حاصل ہوتا تھا جو کئی مختلف زمینوں سے آمد ہوتی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ166 طلحہ بن عبید اللہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ان کی شہادت جو جنگِ جمل میں ہوئی تھی۔ اس میں جنگِ جمل کے بارے میں اٹھنے والے بعض سوالات ہیں ان کے بھی کچھ حد تک جواب مل جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے قبل خلافت کی بابت ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ تفصیل لکھی گئی ہے کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت قریب تھا تو لوگوں نے کہا امیر المومنین وصیت کر دیں۔ کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں۔ انہوں نے فرمایا میں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں سے بڑھ کر اَور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپؐ ان سے راضی تھے اور انہوں نے یعنی حضرت عمرؓ نے پھر حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر، ؓ حضرت طلحہؓ، اور حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام لیا اور کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ تمہارے ساتھ شریک رہے گا لیکن اس خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ گویا یہ بات عبداللہ کو تسلی دینے کے لیے کہی ہے۔ اگر خلافت سعد کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو۔ ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعد سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے اس کو اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ کوئی خیانت کی تھی۔ نیز فرمایا میں اُس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے ادا کریں اور ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ اور میں انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے اپنے گھروں میں ایمان کو جگہ دی۔ جو ان میں سے کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے۔ اور میں سارے شہر کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی اس کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے محصل ہیں اور دشمن کے کُڑھنے کا موجب ہیں۔ اور یہ کہ ان کی رضا مندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے۔ اور میں اس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ عربوں کی جڑ ہیں اور اسلام کا مادہ ہیں اور یہ کہ ان کے ایسے مالوں سے لیا جائے جو ان کے کام کے نہ ہوں۔ اور پھر انہی کے محتاجوں کو دے دیا جائے۔ اور میں اس کو اللہ کے ذمے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کرتا ہوں۔ جن لوگوں سے عہد لیا گیا ہو ان کاعہد ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان سے مدافعت کی جائے اور ان سے بھی اتنا ہی لیا جائے جتنا ان کی طاقت ہو۔
جب آپؓ فوت ہو گئے تو ہم ان کو لے کر نکلے اور پیدل چلنے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حضرت عائشہؓ کو السلام علیکم کہا اور کہا عمر بن خطابؓ اجازت مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو اندر لے آؤ۔ چنانچہ ان کو اندر لے گئے اور وہاں ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھ دیے گئے۔ جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دو۔ حضرت زبیرؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو دیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ سے کہا آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہوں۔ اور وہ ان میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ہے۔ اس بات نے دونوں بزرگوں کو خاموش کر دیا یعنی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کیا آپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں اور اللہ میرا نگران ہے کہ جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا۔ ان دونوں نے کہا اچھا۔ پھر عبدالرحمٰنؓ ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑکے الگ لے گئے اور کہنے لگے آپ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ کا تعلق ہے اور اسلام میں بھی وہ مقام ہے جو آپ بھی جانتے ہیں۔ اللہ آپ کا نگران ہے۔ بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے؟ اور اگرمیں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ اس کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے؟ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ دوسرے کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی ویسے ہی کہا۔ جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو کہنے لگے عثمان آپ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور انہوں نے ان سے بیعت کی اور حضرت علیؓ نے بھی ان سے بیعت کی اور گھر والے اندر آ گئے اور انہوں نے بھی ان سے بیعت کی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃالبیعۃ حدیث 3700)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتخابِ خلافت حضرت عثمان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کا یوں ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپؓ نے محسوس کیا کہ اب آپؓ کا آخری وقت قریب ہے تو آپؓ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں گے۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمانؓ۔ حضرت علیؓ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ۔ حضرت سعد بن وقاصؓ۔ حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپؓ نے اس مشورے میں شامل کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے صہیبؓ کو امام الصلوٰۃ مقر ر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن اسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں اور فرمایا کہ جس پر کثرتِ رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمرؓ ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔ اگر اس فیصلے پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں وہ خلیفہ ہو۔ آخر پانچوں اصحابؓ نے مشورہ کیا۔ کیونکہ طلحہؓ اس وقت مدینہ میں نہ تھے مگر کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کہاپھر باقی دو نے۔ حضرت علیؓ خاموش رہے۔ آخر انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ فیصلے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے عہد کیا اور سب کام حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تین دن مدینے کے گھر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے؟ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظور ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے۔ (ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15صفحہ 488-489)
یہ تاریخوں کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کا بیان ہے۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت طلحہؓ حضرت عمرؓ کی وصیت کے وقت حاضر نہ تھے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اس وقت حاضر ہوئے جب حضرت عمرؓ کی وفات ہو چکی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت حاضر ہوئے جب مشاورت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق جسے زیادہ درست قرار دیا گیا ہے۔ وہ حضرت عثمانؓ کی بیعت کے بعد حاضر ہوئے تھے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 69 کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ حدیث 3700 مطبوعہ دار المعرفہ بیروت۔ از المکتبۃ الشاملۃ)
بہرحال حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوئے اور پھر یہ نظام معمول پر آنے لگا۔ جب حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علیؓ کی طرف دوڑتے ہوئے آئے جن میں صحابہؓ اور اس کے علاوہ تابعین بھی شامل تھے۔ وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ علیؓ امیر المومنین ہیں یہاں تک کہ وہ آپؓ کے گھر حاضر ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ پس آپؓ اپنا ہاتھ بڑھائیے کیونکہ آپؓ اس کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا یہ تمہارا کام نہیں ہے بلکہ یہ اصحابِ بدر کا کام ہے جس کے بارے میں اصحابِ بدر راضی ہوں تو وہ خلیفہ ہو گا۔ پس وہ سب اصحابِ بدر حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر انہوں نے عرض کی ہم کسی کو آپؓ سے زیادہ اس کا حق دار نہیں دیکھتے۔ پس اپنا ہاتھ بڑھائیں کہ ہم آپؓ کی بیعت کریں۔ آپؓ نے فرمایا طلحہؓ اور زبیرؓ کہاں ہیں؟ سب سے پہلے آپؓ کی زبانی بیعت حضرت طلحہؓ نے کی اور دستی بیعت حضرت سعدؓ نے کی۔ جب حضرت علیؓ نے یہ دیکھا تو مسجد گئے اور منبر پر چڑھے۔ سب سے پہلا شخص جو آپؓ کے پاس اوپر آیا اور انہوں نے بیعت کی وہ حضرت طلحہؓ تھے۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ اور باقی اصحابؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت کی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 4 صفحہ107 ذکر علی بن ابی طالب، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت طلحؓ ہ اور حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ وغیرہ نے حضرت علیؓ کی بیعت کی تھی یا نہیں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓ د فرماتے ہیں۔ یہ ذکر آپ اپنی ایک تقریر میں کر رہے ہیں جہاں خواجہ کمال الدین صاحب کے بعض اعتراضوں کے جواب میں آپؓ نے یہ ذکر فرمایا اور یہ ذکر بیان کرنا انتہائی ضروری ہے اس لیے میں بیان کر رہا ہوں۔ آپؓ، حضرت مصلح موعوؓ دنے فرمایا کہ
’’طلحہؓ اور زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ کے بیعت نہ کرنے سے آپ حجت نہ پکڑیں۔‘‘ یعنی خواجہ صاحب کو کہہ رہے ہیں۔ ’’ان کو انکارِ خلافت نہ تھا بلکہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا سوال تھا۔ پھر میں آپ کو بتاؤں جس نے آپ سے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی وہ غلط کہتا ہے۔ حضرت عائشہؓ تو اپنی غلطی کا اقرار کر کے مدینہ جا بیٹھیں اور طلحہؓ اور زبیرؓ نہیں فوت ہوئے جب تک بیعت نہ کر لی۔ چنانچہ چند حوالہ جات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔‘‘ خصائص کبریٰ کی جلد ثانی کا حوالہ ہے۔ حاکم نے روایت کی ہے۔ عربی حصہ ہے وہ میں چھوڑتا ہوں۔ ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔ ’’…… حاکم نے روایت کی ہے کہ ثور بن مجزاءنے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہؓ کے پاس سے گزرا۔ اس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ میں سے ہو؟ میں نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علیؓ کی جماعت میں سے ہوں تو کہنے لگے اچھا اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لوں۔‘‘ چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ’’اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے۔ میں نے آ کر حضرت علیؓ سے تمام واقعہ عرض کر دیا۔ آپؓ سن کر کہنے لگے۔ اللہ اکبر! خدا کے رسولؐ کی بات کیا سچی ثابت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے۔
آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ ’’……حضرت عائشہؓ کے پاس ایک دفعہ واقعہ جمل مذکور ہوا تو کہنے لگیں کیا لوگ واقعہ جمل کا ذکر کرتے ہیں؟ کسی ایک نے کہا جی۔ اسی کا ذکر ہے۔ کہنے لگیں کہ کاش جس طرح اَور لوگ اس روز بیٹھے رہے میں بھی بیٹھی رہتی۔ اس بات کی تمنا مجھے اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دس بچے جنتی جن میں سے ہر بچہ عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام جیسا ہوتا۔‘‘ پھر اگلی بات جو ہے وہ یہ ہے ’’……اور طلحہؓ اور زبیر عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں جن کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا سچا ہونا یقینی ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ انہوں نے خروج سے رجوع اور توبہ کر لی۔‘‘ (القول الفصل، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 318-319)
یہ حوالہ بھی حضرت مصلح موعوؓ دنے دیا۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت، حضرت علیؓ کی بیعت اور جنگِ جمل کا تذکرہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓ د فرماتے ہیں کہ
’’قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے دوسروں پر الزام لگاتے تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقعہ مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپؓ‘‘ یعنی حضرت علیؓ ’’کے ارد گرد حضرت عثمانؓ کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے تھے۔ اس لیے ان‘‘ مخالفین کو منافقین ’’کو الزام لگانے کا عمدہ موقعہ حاصل تھا۔ چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی۔ اس نے حضرت عائشہؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کریں۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہؓ کو اپنی مدد کے لیے طلب کیا۔ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے۔ انہوں نے‘‘ یعنی ان دونوں نے ’’جلدی کے جو معنی سمجھے تھے۔ وہ حضرت علیؓ کے نزدیک خلاف ِمصلحت تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے۔ پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے کیونکہ اوّل مقدم اسلام کی حفاظت ہے۔ قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح قاتلوں کی تعیین میں بھی اختلاف تھا۔ جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علیؓ کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علیؓ کو بالطبع شبہ نہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں۔ دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے۔ اس اختلاف کی وجہ سے طلحہؓ اور زبیرؓ نے یہ سمجھا کہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علیؓ نے پوری نہ کی تھی اس لیے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہؓ کا اعلان ان کو پہنچا تووہ بھی ان کے ساتھ جا ملے۔‘‘ یعنی حضرت عائشہؓ کے ساتھ ’’اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے۔ بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہؓ اور زبیرؓ نے صرف اکراہ سے اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علیؓ کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب حضرت علیؓ کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کی طرف بھیجا۔ وہ آدمی پہلے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپؓ کا ارادہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے اس کے بعد اس شخص نے طلحہؓ اور زبیرؓ کو بھی بلوایا اور ان سے پوچھا کہ آپؓ بھی اسی لیے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔‘‘ جو وجہ بتائی تھی۔ ’’اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے۔ اس کا نتیجہ تو فساد ہے۔ اِس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے تو اَور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔ پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے۔ حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی۔ یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علیؓ کا یہی عندیہ ہے تو وہ آ جائیں ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں۔ اس پر اس شخص نے حضرت علیؓ کو اطلاع دی اور طرفین کے قائمقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں صلح ہونی چاہیے۔
جب یہ خبر سبائیوں کو (یعنی جو عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمانؓ تھے) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی۔ اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لیے اکٹھی ہوئی۔ انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لیے سخت مضر ہو گی کیونکہ اسی وقت تک ہم حضرت عثمانؓ کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے۔ اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانہ کہیں نہیں۔ اس لیے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی پہنچ گئے اور آپؓ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپؓ کی اور حضرت زبیرؓ کی ملاقات ہوئی۔ وقتِ ملاقات حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپؓ نے میرے لڑنے کے لیے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے؟ آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی۔ کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا۔ اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی جب کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے؟ اس پر حضرت طلحہؓ نے کہا وہ بھی حضرت زبیرؓ کے ساتھ تھے۔‘‘ اس پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جو حضرت زبیرؓ کے ساتھ تھے ’’کہ آپؓ نے حضرت عثمانؓ کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں۔ پھر حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ کیا تم کو یادنہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم تُو علیؓ سے جنگ کرے گا اور تُو ظالم ہو گا۔ یہ سن کر حضرت زبیرؓ اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے ہرگز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی۔ جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہو گی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لیے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا اور جو اُن کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شب خون مار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا۔ جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علیؓ نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہؓ کو اطلاع دے۔ شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اَور بھی خطرناک نکلا۔ مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی۔ حضرت عائشہؓ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کیے۔ حضرت عائشہؓ نے زور زور سے پکارنا شروع کیا کہ اے لوگو! جنگ کو ترک کرو۔ اور خدا اور یومِ حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپؓ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے۔ چونکہ اہلِ بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو حضرت عائشہؓ کے ارد گرد جمع ہوا تھا۔ ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور ام المومنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حدنہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے۔ اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہؓ کا اونٹ جنگ کا مرکزبن گیا۔ صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ انہوں نے نہ چھوڑی۔ حضرت زبیرؓ تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقیّ نے ان کے پیچھے سے جا کر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا۔ حضرت طلحہؓ عین میدانِ جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ جب جنگ تیز ہو گئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہو گی جب تک حضرت عائشہؓ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیے اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی۔ اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علیؓ کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا۔ جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہؓ کی نعش ملی تو حضرت علیؓ نے سخت افسوس کیا۔
ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہؓ کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلانِ عثمانؓ کی ہی تھی اور یہ کہ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ حضرت علیؓ کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علیؓ کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی۔‘‘ (انوار خلافت، انوا رالعلوم جلد 3 صفحہ 198تا 201)
جنگِ جمل اور حضرت طلحہؓ کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور جگہ فرماتے ہیں کہ انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو ان کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت سعیدؓ وہ لوگ تھے جو بڑے سمجھے جاتے تھے۔ مگر ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو آرام زیادہ میسر آتا تھا بلکہ ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ تھی کہ دین کی خاطر انہوں نے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ حضرت طلحہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈر حضرت طلحہؓ حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ تھے لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے۔ آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ سرِدست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو۔ بعد میں ہم ان لوگوں سے بدلے لے لیں گے۔ اس گروہ کے لیڈر حضرت علیؓ تھے۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ نے الزام لگایا کہ علیؓ ان لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے اور حضرت علیؓ نے الزام لگایا کہ ان لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں۔ اسلام کا فائدہ ان کو مدّنظر نہیں۔ گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی۔ ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہؓ نے لشکر کی کمان کی۔
حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی اس لڑائی میں شامل تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ شروع میں مخالفین میں شامل تھے۔ پھر حضرت زبیرؓ تو حضرت علیؓ کی بات سن کر علیحدہ ہو گئے تھے اور دوسرے بھی صلح کرنا چاہتے تھے لیکن پھر مخالفین جو تھے انہوں نے، اور جو منافقین تھے یا جو فتنہ پردازتھے انہوں نے پھرفتنہ ڈالا لیکن بہرحال دو گروہ تھے یہ اور لڑائی میں شامل تھے اور دونوں فریق میں جنگ جاری تھی تو ایک صحابی حضرت طلحہؓ کے پاس آئے اور ان سے کہاطلحہ تمہیں یاد ہے کہ فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا طلحہؓ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اَور لشکر میں ہو گے اور علیؓ اَور لشکر میں ہو گا اور علیؓ حق پر ہو گا اور تم غلطی پر ہو گے۔ حضرت طلحہؓ نے یہ سنا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا ہاں ! مجھے یہ بات یاد آ گئی ہے اور پھر اُسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے۔ جب وہ لڑائی چھوڑ کر جا رہے تھے تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کی جائے تو ایک بدبخت انسان جو حضرت علیؓ کے لشکر کا سپاہی تھا اس نے پیچھے سے جا کر آپؓ کو خنجر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جو حضرت طلحہؓ کا قاتل تھا وہ اس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے حضرت علیؓ کو کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا کون دشمن؟ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے طلحہؓ کو مار دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اے شخص! مَیں بھی تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تُو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا جبکہ طلحہؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور مَیں بھی بیٹھا ہوا تھا کہ اے طلحہ !تُو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذلت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا۔
اس لڑائی میں جب حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کے لشکر کی صفیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں تو حضرت طلحہؓ اپنی تائید میں دلائل بیان کرنے لگے۔ یہ اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ایک صحابی نے انہیں حدیث یاد دلائی تھی اور وہ جنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ دلائل بیان کر ہی رہے تھے کہ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے ایک شخص نے کہا او ٹنڈے چپ کر۔ حضرت طلحہؓ کا ایک ہاتھ بالکل شل تھا وہ کام نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے کہا او ٹُنڈے چپ کر۔ تو حضرت طلحؓ ہ نے فرمایا کہ تم نے کہا تو یہ ہے کہ ٹُنڈے چپ کر مگر تمہیں پتا بھی ہے کہ میں ٹنڈا کس طرح ہوا ہوں۔ اُحد کی جنگ میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو تین ہزار کافروں کے لشکر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور انہوں نے اس خیال سے چاروں طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر برسانے شروع کر دیے کہ اگر آپؐ مارے گئے تو تمام کام ختم ہو جائے گا۔ اس وقت کفار کے لشکرکے ہر سپاہی کی کمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف تیر پھینکتی تھی۔ تب میں نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کر دیا اور کفار کے لشکر کے سارے تیر میرے اس ہاتھ پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میرا ہاتھ بالکل بیکار ہو کر ٹُنڈاہو گیا مگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔ (ماخوذ از آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی…، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 149تا 151)
جنگ ِجمل کے موقع پر ایک اَور جگہ حضرت طلحہؓ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ ٹنڈا مارا گیا۔ ایک صحابیؓ نے جو اس بات کو سن رہے تھے کہا کمبخت تجھے معلوم ہے کہ وہ ٹنڈا کیسے ٹنڈا ہوا! جنگِ احد کے موقع پر جب ایک غلط فہمی کی وجہ سے صحابہؓ کا لشکر میدان جنگ سے بھاگ گیا اور کفار کو یہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند افراد کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے ہیں تو قریباً تین ہزار کافروں کا لشکر آپؐ پر چاروں طرف سے امڈ آیا اور سینکڑوں تیر اندازوں نے کمانیں اٹھا لیں اور اپنے تیروں کا نشانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو بنا لیا تا کہ تیروں کی بوچھاڑ سے اس کو چھید ڈالیں۔ اس وقت وہ شخص جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو کھڑا کیا وہ طلحہؓ تھا۔ طلحہؓ نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑا کر دیا اور ہر تیر جو گرتا تھا بجائے آپؐ کے چہرے پر پڑنے کے طلحہ کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اس طرح تیر پڑتے گئے یہاں تک کہ زخم معمولی زخم نہ رہے اور زخموں کی کثرت کی وجہ سے طلحہ کے ہاتھ کے پٹھے مارے گئے اور ان کا ہاتھ مفلوج ہو گیا۔ تو جس کو تم حقارت کے ساتھ ٹُنڈا کہتے ہو اس کا ٹنڈا ہونا ایسی نعمت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس برکت کے لیے ترس رہا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 26 صفحہ 386 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ستمبر 1945ء)
رِبْعِیْ بِنْ حِرَاشْ سے مروی ہے کہ میں حضرت علیؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عمران بن طلحہ آئے۔ انہوں نے حضرت علیؓ کو سلام کیا۔ حضرت علیؓ نے ان کو کہا مَرْحَبَا۔ عمران بن طلحہ مَرْحَبَا۔ عمران بن طلحہ نے کہا اے امیر المومنین! آپ مجھے مَرْحَبَا کہتے ہیں حالانکہ آپؓ نے میرے والد کو قتل کیا اور میرا مال لے لیا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ تمہارا مال تو بیت المال میں الگ پڑا ہوا ہے۔ صبح کو اپنا مال لے جانا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؓ نے فرمایا میں نے اسے اپنے تصرف میں اس لیے لے لیا تھا کہ لوگ اسے اُچک نہ لیں۔ لے نہ جائیں کہیں اور جہاں تک تمہارا یہ کہناہے کہ میں نے تمہارے والد کو قتل کر دیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(الحجر: 48) اور ہم ان کے دلوں سے جو بھی کینے ہیں نکال باہر کریں گے، بھائی بھائی بنتے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 169من بنی تیم بن مرۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
محمد انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگِ جمل کے روز ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور کہا طلحہؓ کے قاتل کو اندر آنے کی اجازت دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو کہتے سنا کہ اس قاتل کو دوزخ کی خبرسنا دو۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 169 من بنی تیم بن مرۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت طلحہؓ جب شہید ہوئے اور حضرت علیؓ نے ان کو مقتول دیکھا تو ان کے، حضرت طلحہؓ کے چہرے پر سے مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا اے ابو محمد! یہ بات مجھ پر بہت شاق ہے کہ میں تجھ کو آسمان کے تاروں کے نیچے خاک آلودہ دیکھوں۔ پھر حضرت علیؓ نے یہ فرمایا کہ میں اللہ کے حضور اپنے عیوب اور دکھوں کی فریاد کرتا ہوں۔ پھر حضرت طلحہؓ کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا کہ کاش میں اس دن سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھی بہت روئے۔ حضرت علی نے ایک مرتبہ ایک شخص کو یہ شعر پڑھتے سنا:
فَتًی کَانَ یُدْنِیْہِ الْغِنٰی مِنْ صَدِیْقِہِ
اِذَا مَا ھُوَ اسْتَغْنٰی وَ یُبْعِدُہُ الفَقْرُ
وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو دولت مندی اور غنی ہونے کی حالت میں دوستوں سے مل جل کر رہتا تھا اور محتاجی کے وقت ان سے کنارہ کشی کرتا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اس شعر کے مصداق تو ابومحمد طلحہ بن عبیداللہؓ تھے۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 87طلحہ بن عبید اللّٰہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یہاں ان کا ذکر ختم ہوا۔