حضرت طُلَیْب بن عُمَیْرؓ
حضرت طُلَیْب بن عُمَیْرؓ کی کنیت ابو عَدِی تھی۔ ان کی والدہ کا نام اَرْوٰی تھا جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں، جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپؓ کی کنیت ابو عدی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا اور آپؓ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارِارقم میں تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 93‘‘ طُلَیْب بن عُمَیْر ’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء)
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ حضرت طُلَیْب بن عُمَیْر دارِارقم میں ایمان لائے تھے۔ پھر آپؓ وہاں سے نکل کر اپنی والدہ کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیارکر لی ہے اور اللہ ربُّ العالمین پر ایمان لے آیا ہوں۔ آپؓ کی والدہ نے کہا کہ تمہاری مدد اور تعاون کے زیادہ حقدار تمہارے ماموں کے بیٹے ہی ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔ انہوں نے تائید کی۔ بڑا اچھا کیا تم ایمان لے آئے۔ پھر کہنے لگیں کہ خدا کی قسم! اگر ہم عورتوں میں بھی مردوں جیسی طاقت ہوتی تو ہم بھی ان کی پیروی ضرورکرتیں اور ان کی حمایت اور دفاع کرتیں۔ حضرت طُلَیْب نے اپنی والدہ سے کہا پھر آپ اسلام قبول کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیوں نہیں کر لیتیں؟ اب یہ جذبات ہیں آپ کے تو انہوں نے کہا کہ آپ کے بھائی حمزہؓ بھی تو مسلمان ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی بہنوں کا رویہ دیکھ لوں پھر میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گی۔ حضرت طُلَیْب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے کہتا ہوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جائیں اور انہیں سلام کہیں اور ان کی تصدیق کریں اور گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر آپ کی والدہ کہنے لگیں کہ میں بھی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی زبان کے ساتھ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتی تھیں اور اپنے بیٹے کو بھی آپؐ کی مدد اور اطاعت کا کہا کرتی تھیں۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 266 کتاب معرفة الصحابہ ذکر مناقب طُلَیْب بن عُمَیْرؓ حدیث 5047 دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
ان کے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں سب سے پہلے کسی مشرک کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی وجہ سے زخمی کیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ عَوف بن صَبْرَۃ سَہْمِی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ حضرت طُلَیْب نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور اسے مار کر زخمی کر دیا۔ کسی نے ان کی ماں اَرْویٰکو شکایت کی کہ آپ دیکھتی نہیں کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ
اِنَّ طُلَیْبًا نَصَرَ ابْنَ خَالِہٖ
وَاسَاہُ فِی ذِی دَمِہٖ وَمَالِہٖ
یعنی طُلَیْب نے اپنے ماموں کے بیٹے کی مدد کی ہے۔ اس نے اپنے خون اور اپنے مال کے ذریعہ اس کی غمخواری کی۔ بعض کے مطابق آپؓ نے جس شخص کو مارا تھا اس کا نام اَبُو اِھَاب بن عَزِیْز دَارمی تھا اور بعض روایات کے مطابق وہ شخص جس کو حضرت طُلَیْبؓ نے زخمی کیا تھا وہ ابولہب یا ابوجہل تھا۔ ایک روایت کے مطابق جب آپؓ کے حملہ کرنے کے متعلق آپؓ کی والدہ سے شکایت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ طُلَیْبؓ کی زندگی کا سب سے بہترین دن وہی ہے جس دن وہ اپنے ماموں کے بیٹے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے ساتھ آیا ہے۔ (الاصابہ جلد 3 صفحہ 439 طُلَیْب بن عُمَیْر، دارالکتب العلمیہ بیروت 1995ء) (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 4 صفحہ 57 کتاب معرفة الصحابہ ذکر ارویٰ بنت عبدالمطلب حدیث 6868 دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت طُلَیْبؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں شامل تھے لیکن جب حبشہ میں قریش کے مسلمان ہونے کی افواہ پہنچی تو حبشہ سے کچھ مسلمان واپس مکہ تشریف لے آئے۔ حضرت طُلَیْبؓ بھی ان میں شامل تھے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 169 ذکر ما لقی رسول اللہﷺ من قومہ من الاذی، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے خیال میں تو بعض مؤرخین ہیں، سب نہیں (جنہوں نے یہ بیان کیا ہے) کہ ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اڑتی ہوئی افواہ پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکہ بالکل امن میں آ گیا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے واپس آ گئے اور پھر پتا لگا کہ خبر جھوٹی ہے۔ اس کی تفصیل مَیں چند ہفتوں پہلے خطبوں میں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال واپس آئے، تو پتا لگا۔ جب حقیقت پتا لگی تو کچھ نے وہاں مکہ کے رئیسوں کی پناہ لی، سرداروں کی پناہ لی اور کچھ واپس چلے گئے کیونکہ وہ تو بالکل جھوٹ تھا اور کیوں یہ افواہ ہوئی تھی اس کا بیان میں پہلے بھی کر چکا ہوں اس لیے یہاں بیان کی ضرورت نہیں ہے۔
بہرحال جب وہ صحابہ اس وجہ سے واپس چلے گئے تھے کہ قریش کے ظلم اور ایذا رسانی جو تھی وہ روز بروز بڑھ رہی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اَور مسلمان بھی خفیہ طور پر آہستہ آہستہ ہجرت کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاجرین حبشہ کی تعداد 101 تک پہنچ گئی تھی جن میں اٹھارہ خواتین بھی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت تھوڑے مسلمان رہ گئے تھے۔ اس واپس آنے کے بعد جو دوبارہ ہجرت کی اور اس کے بعد بھی جو مسلمان ہجرت کر کے گئے اسی ہجرت کو مؤرخین ہجرت حبشہ ثانیہ کہتے ہیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے 147، 149)
حضرت طُلَیْبؓ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؓ نے حضرت عَبدُاللّٰہ بن سَلَمَہ عَجْلَانِی کے ہاں قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طُلَیْبؓ اور حضرت مُنْذِر بِن عَمْروؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا۔ حضرت طُلَیْبؓ نے غزوۂ بدر میں شرکت کی اور آپؓ کا شمار کبار صحابہ میں سے ہوتا ہے۔ آپؓ جنگ اَجْنَادَیْن میں شامل ہوئے جو جُمَادِی الاولیٰ 13 ہجری میں ہوئی اور اسی جنگ کے دوران 35 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔ اَجْنَادَیْن شام میں واقع ایک علاقے کا نام ہے جہاں 13؍ ہجری میں مسلمانوں اور اہلِ روم کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ لیکن بعض کے مطابق آپؓ جنگ یرموک میں شہید ہوئے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 91 طُلَیْب بن عُمَیْر، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 94 ’’طُلَیْب بن عُمَیْر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2003ء) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 129 ’’اجنادین‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)