حضرت عاصمؓ بن ثابت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے۔ ان کے والد تھے ثابت بن قیس اور ان کی والدہ کا نام شَمُوْسْ بنت ابو عامر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت عبداللہ بن جَحْش کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ غزوہ اُحد کے موقع پر جب کفار کے اچانک شدید حملے کی وجہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچی تو حضرت عاصم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامزد تیر اندازوں میں یہ شامل تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز3صفحہ 243عاصمؓ بن ثابت دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) ان کا تعلق قبیلہ اَوس سے تھا۔ جنگ بدر میں بھی شریک تھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ 5عاصمؓ بن ثابت، مکتبہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن صحابہ سے پوچھا کہ جب تم دشمن کے مدّ مقابل آؤ گے تو ان سے کیسے لڑو گے؟ حضرت عاصم نے عرض کیا یا رسول اللہ جب کوئی قوم اتنی قریب آ جائے گی کہ ان تک تیر پہنچ سکیں تو ان پر تیر برسائے جائیں گے۔ پھر جب وہ ہمارے اور قریب آ جائیں کہ ان تک پتھر پہنچ سکیں تو ان پر پتھر پھینکتے جائیں گے۔ پھر آپ نے تین پتھر ایک ہاتھ میں اٹھائے اور دو دوسرے میں اور پھر کہا کہ جب وہ ہمارے اتنے قریب آ جائیں کہ ہمارے نیزے ان تک پہنچ سکیں تو ان کے ساتھ نیزہ بازی کی جائے گی۔ پھر جب نیزے بھی ٹوٹ جائیں گے تو انہیں تلواروں کے ذریعہ قتل کیا جائے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح جنگ لڑی جاتی ہے۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ جو کوئی قتال کرے جنگ کرے تو عاصم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جنگ کرے۔ (المعجم الکبیراز حافظ ابو قاسم سلیمان احمد طبرانی جلد 5صفحہ 34رفاعۃ بن المنذر….داراحیاء التراث العربی 2002ء)
اس زمانے میں تو تیر اور نیزے اور تلواریں ہی تھیں جن سے جنگ کی جاتی تھی اور یہی جنگ کا طریق تھا بلکہ پتھر بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ آجکل کی طرح نہیں کہ معصوم شہریوں پر بمباری کر کے معصوموں اور بچوں کو بھی مار دیا جائے۔ ایک غیر مسلم نے کتاب لکھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہو کہ انہوں نے جنگیں کیں مگر ان کی جنگوں میں تو چند سو یا ہزار لوگ مرے ہوں گے اور تم جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ اور انسانیت کے ہمدرد سمجھتے ہو تم نے صرف ایک جنگ میں (اس نے جنگ عظیم دوم کا حوالہ دیا کہ) سات کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مار دیا جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔‘‘ لیکن آج بدقسمتی سے مسلمان بھی ان لوگوں سے ہی مدد لے رہے ہیں اور بلا امتیاز مسلمان مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ طریق کہ جب دشمن حملہ کرے اور دشمن قریب آئے تواس سے جنگ کرنے کے جو مختلف طریقے ہیں۔ (اس پر عمل کریں) یہ خود حملہ کر رہے ہیں اور معصوموں کو مار رہے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُحد والے دن اپنی تلوار کے ساتھ واپس آئے جو کثرت ِقتال کی وجہ سے مڑ چکی تھی۔ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ اس قابل ستائش تلوار کو رکھو۔ یہ میدان جنگ میں خوب کام آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سنی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے آج کمال کی تلوار زنی کی ہے تو سہل بن حُنَیف اور ابودُجانہ اور عاصم بن ثابت اور حارث بن صِمَّہ نے بھی تلوار زنی میں کمال دکھایا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین از حافظ ابو عبداللہ محمدبن عبداللہ کتاب المغازی والسرایاجلد 5صفحہ 1623حدیث 4309مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ مکرمہ ریاض 2000ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں میں سے ابو عَزَّہ عمرو بن عبداللہ جو کہ ایک شاعر تھا، پر احسان کرتے ہوئے اسے آزاد کر دیا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری پانچ بیٹیاں ہیں اور میرے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے۔ پس آپ مجھے ان کی وجہ سے بطور صدقہ آزاد کر دیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا۔ اس پر ابوعَزَّۃ نے کہا کہ میں آپ سے پختہ عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ نہ تو آپ سے جنگ کروں گا اور نہ ہی کسی کی جنگ کے لئے معاونت کروں گا۔ اس بات پر آپ نے اسے واپس بھجوا دیا اور بغیر کسی معاوضہ کے چھوڑ دیا۔ جب قریش اُحد کی طرف نکلنے لگے تو صفوان بن اُمیّہ آیا اور اس نے اسے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ نکلو۔ اس نے کہا کہ میں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ عہد کیا ہے کہ میں کبھی بھی آپ سے جنگ نہیں کروں گا اور نہ ہی جنگ کے لئے معاونت کروں گا۔ انہوں نے صرف مجھ پر یہ احسان کیا ہے اور میرے علاوہ کسی پر یہ احسان نہیں کیا۔ تو صفوان نے اسے ضمانت دی کہ اگر وہ قتل کر دیا گیا تو اس کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں بنا لے گا اور وہ زندہ رہا تو اسے مال کثیر دے گا جس سے صرف اس کا عیال ہی کھائے گا۔ (اسے لالچ دیا کہ تم فکر نہ کرو۔ جنگ میں ہمارا ساتھ دو۔ اگر جنگ میں قتل ہو گئے تو تمہاری بیٹیوں کو بھی بیٹیوں کی طرح رکھوں گا اور اگر بچ گئے تو بہت زیادہ مال دوں گا۔) اس پر ابوعَزَّۃ عرب کو بلانے اور اکٹھا کرنے نکلا۔ (یہی نہیں کہ خود شامل ہوا بلکہ دوسرے قبائل کو، دوسرے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اکٹھا کرنے کے لئے نکلا۔) پھر قریش کے ساتھ جنگ احُد کے لئے بھی نکلا اور دوبارہ پھر جنگ میں قید کیا گیا۔ اس کے علاوہ قریش میں سے کسی کو قیدنہیں کیا گیا تھا۔ جب پکڑا گیا تو پوچھا گیا کہ تم نے تو عہد کیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں مجبوراً نکلا ہوں اور میری بیٹیاں ہیں۔ پس مجھ پر احسان کر۔ (دوبارہ وہی بات کی کہ میری بیٹیاں ہیں۔ مجھ پر احسان کرو۔ پہلے تو احسان کرتے ہوئے یہ چھوڑا گیا تھااور پھر جنگ کے لئے نکلا تھا۔) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا وہ عہد کہاں گیا جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ (اب یہ نہیں ہو سکتا۔) اللہ کی قَسم! اب تم مکہ میں یہ نہیں کہتے پھرو گے کہ میں نے دو دفعہ محمد کو(نعوذ باللہ) دھوکہ دیا اور بیوقوف بنایا۔ ایک اور روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ پھر آپ نے حکم دیتے ہوئےعاصم بن ثابت کو کہا کہ اس کو قتل کر دو۔ پس عاصم آگے بڑھے اور اس کی گردن اڑا دی۔‘‘ (کتاب المغازی از ابوعبداللہ محمد بن عمر جلد 1صفحہ 110-111بدر القتال، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2004ء)
اتنے ظلم کے بعد، ایسی عہد شکنی کرنے کے بعد جب سزا دی جاتی ہے تو پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے ظلم کیا۔ اب ہالینڈ کا سیاستدان وِلڈر (Wilder) جو ہےآجکل آپ کی ذات پر بڑے بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا ہے۔ اگر اس دنیا میں اپنے ملک میں بھی وہ ایسے معافی کے نمونے دکھائیں تو پھر سمجھ آئے گی کہ واقعی وہ کسی حد تک اعتراض میں جائز ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں وہ کبھی پیش نہیں کر سکتے۔
واقعہ رجیع اور حضرت عاصم کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم النبیین میں بھی کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ صفر چار ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپ کو اطلاع دیں۔ لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش معلوم کر کے بڑے خوش ہوئے اور وہی پارٹی جو خبررسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی۔ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو لَحْیَان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بنو لَحْیَان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ جب عَضَل اور قارہ کے یہ غدار لوگ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لَحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آ رہے ہیں تم(ان کو قتل کرنے کے لئے) آجاؤ جس پر قبیلہ بنو لَحْیان کے دو سو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آ پکڑا۔ دس آدمی جو مسلمان تھے وہ دو سو سپاہیوں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔ فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر مقابلے کے واسطے تیار ہو گئے۔ کفار نے جن کے نزدیک دھوکہ دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ۔ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے۔ اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے اللہ! تو ہماری حالت دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔ غرض عاصم اور اس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا۔ بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ (سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 513-514) آپ مزید یہ لکھتے ہیں کہ اسی واقعہ رجیع کے ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جو لوگ بنو لَحْیَان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابت بھی تھے تو چونکہ عاصم نے بدر کے موقع پر قریش کے ایک بڑے رئیس کو قتل کیا تھا اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اور آدمیوں کو تاکید کی کہ عاصم کا سر یا جسم کا کوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تا کہ انہیں تسلی ہو اور ان کا جذبہ انتقام تسکین پائے۔ ایک اور روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جس شخص کو عاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں سُلَافَہ بنت سعدنے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیئے گی۔ لیکن خدائی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں، بھڑوں اور شہد کی مکھیوں کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اور کسی طرح سے وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے۔ ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اور مکھیاں وہاں سے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخر مجبور ہو کر یہ لوگ خائب و خاسر واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد جلد ہی بارش کا ایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کو وہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔ لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پریہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ہر قسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پرہیز کریں گے حتی کہ مشرک کے ساتھ چھوئیں گے بھی نہیں۔ حضرت عمر کو جب ان کی شہادت اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ کہنے لگے کہ خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے۔ موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کو پورا کروایا اور مشرکین کے مس سے انہیں محفوظ رکھا۔ (سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 516) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحَمِيُّ الدَّبْرِ بھی کہا جاتا ہے یعنی جسے بھڑوں یا شہد کی مکھیوں کے ذریعہ بچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد بھی بھڑوں کے ذریعہ آپ کی حفاظت کی۔
حضرت عاصم اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر نماز فجرمیں قنوت فرمایا جس میں رِعل، ذَکْواَن اور بنو لَحْیَان پر لعنت کرتے رہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ 6مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2008ء)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عاصمؓ دشمن کے مقابلے میں تیر برساتے جاتے اور ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے کہ:
اَلْمَوْتُ حَقٌ وَالْحَیٰوۃُ بَاطِلُ
وَکُلُّ مَا قَضَی الْاِلٰہُ نَازِلُ
بِالْمَرْئِ وَالْمَرْئُ اِلَیْہِ اٰیِلُ
یعنی موت برحق ہے اور زندگی بیکار ہے اور خدا کسی انسان کے بارے میں جو فیصلہ کرے وہی نازل ہونے والا ہے اور اس انسان کو بھی اس فیصلہ کو قبول کرنا ہو گا۔ جب حضرت عاصم کے تیر ختم ہو گئے تو وہ نیزے سے لڑنے لگے۔ نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار نکال لی اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔ (السیرۃ الحلبیۃ از علامہ ابوفرج نورالدین علی بن ابراہیم جلد3صفحہ 234سریہ رجیع، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)