حضرت عاصم بن عدیؓ
حضرت عاصمؓ کے والد کا نام عدی تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عجلان بن حارثہ سے تھا جو قبیلہ بنو زید بن مالک کا حلیف تھا۔ حضرت عاصمؓ بنو عجلان کے سردار اور حضرت معن بن عدیؓ کے بھائی تھے۔
حضرت عاصمؓ کی کنیت ابوبکربیان کی جاتی ہے جبکہ بعض کے نزدیک ان کی کنیت ابوعبداللہ، ابو عمر اور ابوعمرو بھی تھی۔ حضرت عاصمؓ میانہ قد کے تھے اور بالوں پہ مہندی لگایا کرتے تھے۔ حضرت عاصمؓ کے بیٹے کا نام اَبُوالْبَدَّاح تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 354-355 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 111 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت عاصمؓ کی بیٹی کا نام سہلہ تھا جس کی شادی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ساتھ ہوئی اور ان کے اس شادی سے چار بچے تھے تین بیٹے: معن، عمر، زید اور ایک بیٹی امۃ الرحمٰن صغریٰ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 94عبدالرحمٰن بن عوف، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصم بن عدیؓ کو قبا اور مدینہ کے بالائی حصہ ’’عالیہ‘‘ پر امیر مقرر فرمایا۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ روحاء مقام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصمؓ کو مدینہ کے بالائی حصے عالیہ پر امیر مقرر کرتے ہوئے واپس بھیج دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصمؓ کو واپس بھجوایا لیکن آپؓ کو اصحابِ بدر میں شمار کیا اور ان کے لیے اموالِ غنیمت میں سے بھی حصہ مقرر فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 463 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعے کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے کہ ’’مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مکتومؓ کومدینہ کاامیر مقرر کیا تھا۔ مگر جب آپؐ روحاء کے قریب پہنچے جومدینہ سے 36میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکرقریش کی آمد آمد کی خبر کاتقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کاانتظام مضبوط رہے آپؐ نے ابولبابہ بن منذر کومدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوادیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوٰة رہیں۔ مگر انتظامی کام ابولبابہ سرانجام دیں۔ مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لیے آپؐ نے عاصم بن عدی کو الگ امیر مقرر فرمایا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 354)
حضرت عاصمؓ غزوۂ احد اور غزوۂ خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت عاصمؓ نے 45ہجری میں حضرت معاویہؓ کے دور ِحکومت میں مدینے میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر115 سال تھی۔ بعض کے نزدیک انہوں نے 120سال کی عمر میں وفات پائی۔ جب حضرت عاصمؓ کی وفات کا وقت آیا تو ان کے گھر والوں نے رونا شروع کیا اس پر انہوں نے کہا کہ مجھ پر نہ روؤ کیونکہ میں نے تو اپنی عمر گزار لی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 464 عاصم بن عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) اور بہت لمبی عمر گزار لی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک بھی فرمائی اور اس پر مختلف لوگوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قربانی پیش کی۔ اسی موقعے پر حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ نصف چھوڑ کے آیا ہوں۔ اس موقعے پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک سو اَوقیہ دیے۔ ایک اَوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اس موقعے پر عورتوں نے بھی اپنے زیورات پیش کیے۔ اسی موقعے پر حضرت عاصم بن عدیؓ، جن کا ذکر ہو رہا ہے انہوں نے ستر وَسق کھجوریں پیش کیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع تقریباً اڑھائی سیر کا ہوتا ہے، یا اڑھائی کلو کا تو اس طرح کھجوروں کا کل وزن 262من بنتا ہے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 183-184 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) (لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 82‘‘ اوقیہ ’’جلد 4 صفحہ487 ’’وسق‘‘۔ جلد 2 صفحہ 648 ’’صاع‘‘ ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
ایک من تقریباً چالیس سیر کا پاکستان کا وزن ہے یا انتالیس کلو کا یا اڑتیس کلو کا ہوتا ہے۔ بہرحال حضرت عاصمؓ نے بھی اس موقعے پر جو اُن کے پاس کھجوریں تھیں وہ پیش کیں اور بڑی مقدار میں پیش کیں۔ حضرت عاصم بن عدیؓ ان صحابہ میں سے تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار گرانے کا حکم دیاتھا۔ اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ بنو عمرو بن عوف نے مسجد قبا بنائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور اس میں نمازپڑھیں۔ جب بنو غنم بن عوف کے کچھ لوگوں نے اس مسجدکو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی ایک مسجد بناتے ہیں جیسے بنو عمرو نے بنائی ہے تو ان کو ابو عمرو فاسق جو بڑا مخالف تھا۔ یہ فتنہ پیدا کرنے والا تھا۔ اس نے کہا کہ تم بھی ایک مسجد بناؤ اور حتی الوسع اس میں اسلحہ بھی جمع کرو۔ اس کی نیت یہ تھی کہ اس کو فتنے کا مرکز بنایا جائے۔ کہنے لگا کہ میں روم کے بادشاہ قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور وہاں سے ایک رومی لشکر لاؤں گا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا۔
جب مسجد مکمل ہو گئی تو ان کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم نے یہ مسجد بیماروں اور معذوروں کی آسانی کے لیے بنائی ہے کہ وہ زیادہ دور نماز پڑھنے نہیں جا سکتے اور ساتھ ہی آپؐ سے یہ بھی درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت سفر کی تیاری میں مصروف ہوں۔ سفر پہ جا رہے تھے، ان شاء اللہ جب ہم واپس آئیں گے تو مَیں نماز پڑھاؤں گا۔ یہ غزوۂ تبوک کا سفر تھا۔ غزوۂ تبوک سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے سے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ ذی أوان، اس کے اور مدینہ کے درمیان ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے وہاں قیام فرمایا تو آپؐ کو مسجد ضرار کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی جس کا قرآن شریف میں سورۂ توبہ میں ذکر ہے کہ
وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفۡرًا وَّ تَفۡرِیۡقًۢا بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَیَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ۔ (توبہ: 107)
اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے پہلے ہی لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ہے ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مالک بن دخشم اور معن بن عدی کو بلایا اور ان کو مسجد ضرار گرانے کا حکم دیا۔ کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عاصم بن عدی اور عمرو بن سکن اور وحشی، جس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا اور سوید بن عباس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لیے بھیجا۔ شرح زرقانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو افراد کو بھجوایا ہو پھر مزید چار افراد ان کی اعانت کے لیے بھجوائے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد ضرار کی طرف جانے کا ارشاد فرمایا کہ اسے گرا دیں اور آگ لگا دیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ تیزی سے قبیلہ بنو سالم پہنچے جو کہ حضرت مالک بن دخشم کا قبیلہ تھا۔ حضرت مالک بن دخشمؓ نے حضرت معنؓ سے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دو یہاں تک کہ میں گھر سے آگ لے آؤں۔ چنانچہ وہ گھر سے کھجور کی سوکھی ٹہنی کو آگ لگا کر لے آئے۔ پھر وہ مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد ضرار کے پاس پہنچے اور وہاں جا کر اسے آگ لگا دی اور اس کو زمین بوس کر دیا۔ یہ کچھ حصہ میں نے پہلے حضرت مالک بن دخشم کے ضمن میں بیان کیا تھا۔ بہرحال اس وقت اس مسجد کے بنانے والے وہاں موجود تھے لیکن آگ لگنے کے بعد وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسجد والی جگہ عاصم بن عدی کو دینی چاہی کہ وہ اس جگہ کو اپنا گھر بنا لیں (جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے) لیکن عاصم بن عدیؓ نے کہا کہ میں جگہ نہیں لوں گا۔ اس لیے معذرت کی کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو نازل کرنا تھا کر دیا یعنی کہ یہ تو ایسی جگہ بنی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی عمارت وہاں پسندنہیں آئی تھی اس لیے میں نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر ثابت بن اقرم کو دے دیا کیونکہ ان کے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ ہاں عاصم بن عدیؓ نے کہا کہ میرے پاس گھر بھی ہے اور مجھے انقباض بھی ہو رہا ہے۔ معذرت چاہتا ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ اسے ثابت بن اقرم کو دے دیں اور وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس گھر نہیں۔ وہ یہاں اپنا گھر بنا لیں گے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسجد، مسجد ضرار والی وہ جگہ جو تھی ثابت بن اقرم کو دے دی۔
ابنِ اسحاق کے مطابق مسجد ضرار بنانے والے منافقین کے نام یہ ہیں۔ خِذام بن خالد، معتب بن قشیر، ابو حبیبۃ بن أزعر، عباد بن حُنیف، جاریہ بن عامر اور اس کے دونوں بیٹے مُجَمَّع بن جاریہ اور زید بن جاریہ، نفیل بن حَرْث، بَحْزَج بن عثمان، ودیعہ۔ تو بہرحال یہ لوگ تھے جو ابو عامر رہب جس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسق رکھا تھا اس کے ساتھ یہ سب ملے ہوئے تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 470تا 472 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء) (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ الجزء الرابع صفحہ 97-98 ثم غزوۃ تبوک۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)