حضرت عاقل بن بُکَیرؓ
حضرت عاقلؓ کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن لیث سے تھا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 462-463 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت عاقِلؓ کا پہلا نام غَافِل تھا لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عاقل رکھ دیا۔ آپؓ کے والد کا نام تاریخ و سیرت کی زیادہ تر کتب میں بُکَیر آیا ہے تاہم چند کتابوں میں ابوبُکَیر بھی لکھا ہے۔ آپؓ کے والد بُکَیر زمانہ جاہلیت میں حضرت عمرؓ کے جدّ ِامجدنُفَیل بن عَبْدُالْعُزّٰی کے حلیف تھے۔ اسی طرح بُکَیر اور ان کے سارے بیٹے بنو نُفَیل کے حلیف تھے۔ حضرت عاقلؓ، حضرت عامرؓ، حضرت اِیَاسؓ، اور حضرت خالدؓ یہ چاروں بھائی بُکَیر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے اکٹھے دارِارقم میں اسلام قبول کیا اور یہ سب دارِ ارقم میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے۔ حضرت عاقلؓ، حضرت خالدؓ، حضرت عامرؓ اور حضرت اِیاسؓ ہجرت کے لیے مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنے تمام مرد و زن کو اکٹھا کر کے ہجرت کی۔ سب عورتیں بچے وغیرہ سب نے اکٹھے ہجرت کی۔ یوں ان کے گھروں میں کوئی مکہ میں پیچھے باقی نہیں رہا، یہاں تک کہ ان کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ان سب لوگوں نے حضرت رِفَاعہ بن عَبْدُالْمُنْذِرؓ کے ہاں مدینہ میں قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاقلؓ اور حضرت مُبَشِّرْ بن عَبْدُالْمُنْذِرؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمائی، بھائی چارہ قائم فرمایا، بھائی بھائی بنایا۔ آپ دونوں غزوۂ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ ایک قَول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاقلؓ اور حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَاد کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا تھا۔ حضرت عاقل غزوۂ بدر کے روز 34؍سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے۔ آپؓ کو مالک بن زُھَیر جُشَمِی نے شہید کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 208، عاقل بن ابی البکیر ؓ، داراحیاء التراث العربی 1996ء) (اسد الغابہ جلد3 صفحہ113، عاقل بن البکیر، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء) (الاصابہ جلد 3 صفحہ466، عاقل بن البکیر، دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء)
ابن ِاسحاق کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت اِیاسؓ اور ان کے بھائیوں حضرت عاقِلؓ، حضرت خالدؓ اور حضرت عامرؓ کے علاوہ کوئی بھی چار ایسے بھائی معلوم نہیں جو غزوۂ بدر میں اکٹھے شریک ہوئے ہوں۔ (الاصابہ جلد1، صفحہ 310، ایاس بن البکیر ؓ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ابوبُکَیر کے لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ یعنی یہ جو چاروں بھائی تھے ان میں سے کچھ بھائی یا چاروں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی بہن کے رشتے کے لیے حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے رشتہ کے متعلق ان سے پوچھا۔ تسلی نہیں تھی تو چلے گئے۔ وہ لوگ دوسری مرتبہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ بلالؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اس بات پر وہ پھر چلے گئے۔ پھر وہ لوگ تیسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟پھر مزید فرمایا کہ ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اہلِ جنت میں سے ہے؟ اس پر ان لوگوں نے حضرت بلالؓ سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 126، بلال بن رباح، داراحیاء التراث العربی بیروت1996ء)