عالمِ اسلام کے عظیم سائنسدان کو خراجِ تحسین
محمود احمد ملک
عالمِ اسلام کا عظیم سائنسدان اور مملکت پاکستان کا قابل فخر فرزند، دنیائے سائنس کے افق پر نصف صدی سے زائد روشن رہنے کے بعد آج سے ٹھیک ایک سال قبل ۲۱؍ نومبر ۱۹۹۶ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ (کل من علیھا فان)۔
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم و مغفور کی روشن اور تابناک حیات کے ۷۰ سال بعض پہلوؤں سے نہایت کڑوا سچ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد دنیا بھر کے اہل علم افراد، سیاسی راہنماؤں اور اسلامی قائدین کی طرف سے جس طرح آپ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’عقل کی روشنی کے اعتبار سے ڈاکٹر عبدالسلام کی فضیلت ساری دنیا میں مسلم ہے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۹؍نومبر ۹۶ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمائے۔
محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے قدموں پر دنیا بھر کی ۳۶ یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں نچھاور کیں ، آپ کی قابلیت کے اعتراف میں ۲۰ سے زائد بین الاقوامی میڈل اور انعامات پیش کئے گئے اور آپ کی خدمات کے پیشِ نظر ۲۴ سے زائد اکیڈیمیوں اور سوسائٹیوں نے آپ کی فیلوشپ اپنے لئے قابلِ فخر سمجھی۔ ان سارے اعزازات کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منفرد مقام کا حامل کوئی اور مسلمان سائنسدان کہیں اور دکھائی نہیں دے گا۔ اگرچہ ارضِ پاکستان کے بعض تنگ نظروں اور متعصب سوچ رکھنے والوں نے اپنے ہی وطن کو اس جوہر قابل کے بھرپوراستفادے سے محروم کردیا۔ چنانچہ جب سائنس کے میدان میں تحقیق و ترقیات کے ولولہ انگیز پروگرام اپنے خوابوں میں سجائے ہوئے نوجوان ڈاکٹر عبدالسلام یورپ کے شاندار تعلیمی ریکارڈ اپنی چھاتی پر سجاکر اپنے وطن پہنچا تو اہالیانِ وطن اور ارباب اقتدار کی طرف سے اس کی شایانِ شان پذیرائی تو درکنار ۔۔۔ اسے ہر پہلو سے مایوس کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ اس المناک روئداد کی ذمہ داری کسی ایک شخص یا ادارے یا رویے پر عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ ایسی قومی بے حسی کا ثبوت ہے جس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا۔ محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی پاکستان میں قدر ناشناسی کی پہلی وجہ یہی تھی کہ وہ ایک محب وطن سائنسدان تھے (کوئی فلمی سٹار یا کرکٹ کے کھلاڑی نہیں تھے) اور دوسری وجہ یہ تھی کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا تعلق جماعت احمدیہ مسلمہ سے تھا اور یہ نظریاتی اختلاف ہی ان کا ایک جرم بن گیا۔ لیکن اپنے مذہبی مسلک کے احترام میں گو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے سیاسی حکومتوں کے عطا کئے ہوئے عہدوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن قوم میں سائنسی علوم کے احیاء کے لئے کی جانے والی ہر کوشش کی عملاً بھرپور حوصلہ افزائی فرمائی اور مسلمانوں کو دوبارہ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں خودکفیل ہو جانے کے لئے ہرممکن راہنمائی اور مدد فرمائی۔
محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی وفات کے بعد دنیا بھر کے سرکردہ افراد نے جس طرح اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی خدمات کو سراہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رہتی دنیا تک محترم ڈاکٹر صاحب کا نام ایک عظیم مسلمان سائنسدان کے طور پر سنہری حروف میں لکھا جاتا رہے گا اور ہمیشہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پُر شوکت پیشگوئی پر مہرِ صداقت ثبت کرتا رہے گا کہ ’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کردیں گے‘‘۔
ذیل میں بعض غیر از جماعت اہم شخصیات اور دانشوروں کے پیغامات اور اخبارات کی خبروں اور اداریوں میں سے چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں جو محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اسلام ، سائنس اور ملک کے لئے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنائے گئے۔ لیکن اب اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ
مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ طوالت کے خوف سے متعدد ایسے مضامین زیر نظر نہیں لائے جاسکے جو محترم ڈاکٹر صاحب کے سوانحی خاکوں پر مشتمل تھے یا ان میں دیگر مضامین میں پیش کی جانے والی باتوں کو ہی دہرایا گیا تھا۔
پاکستان کے صدر، نگران وزیراعظم اور دیگر زعماء کا خراجِ تحسین
بیرونی دنیا میں پاکستان کے سفیر
* ’’صدرِ مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری اور نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے انتقال پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک و قوم کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا ہے ۔۔۔ صدر نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ با آسانی پُر نہیں کیا جاسکے گا۔ صدر نے اپنے پیغام میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام بیرونی دنیا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت رکھتے تھے اور وہ واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے نوبیل انعام حاصل کیا‘‘۔(روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ ۲۲؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* ’’ان کی وفات پر صدر فاروق لغاری اور نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد، ملک کے علمی اور سائنسی حلقوں نے گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ ۔۔۔ انہوں نے دنیائے سائنس میں پاکستان کا نام روشن کیااور قومی وقار میں اضافہ کیا۔ ان کی وفات سے قوم ایک عظیم فرزند سے محروم ہوگئی ہے‘‘ (روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور کا اداریہ ۲۳؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* ’’ایک تعزیتی پیغام میں وزیر اعظم نے پروفیسر عبدالسلام کی افسوسناک وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا عظیم کام صرف ان کے لئے ہی نوبیل پرائز جیتنے کا باعث نہیں بنا، اس سے بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان کو بھی فخر و تحسین حاصل ہوئی‘‘۔ (انگریزی اخبار ’’فرنٹیر پوسٹ‘‘ لاہور ۲۲؍نومبر ۹۶ء)
* ’’مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شہرت یافتہ سائنسدان اور نوبیل انعام پانے والے ڈاکٹر عبدالسلام کی غمناک وفات پر گہرے رنج کا اظہار کیا۔ ان کی وفات پر اظہار افسوس کرنے والوں میں وفاقی وزراء حاجی فرید اللہ خاں (وزیر مذہبی امور۔ ناقل) جاوید جبار اور سینیٹر شفقت محمود اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ مسٹر ظفراللہ خان جمالی شامل ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات کو عالمی سطح پر سائنسی ترقی کے لئے عموماً اور ان کے آبائی وطن پاکستان کے لئے خصوصاً بہت بڑا خسارہ قرار دیا ۔۔۔ انہوں نے سائنس کی ترقی کیلئے ان کی خدمات کی بے حد تعریف کی اور ڈاکٹر عبدالسلام کو اس صدی کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیا۔ طبیعات کے میدان میں مرحوم کی کامیابیاں جدید سائنس کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ پاکستان کے اس نامی گرامی سپوت نے دنیا کے کناروں تک مادرِ وطن کا نام روشن کردیا۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح پر رحمتیں نازل فرمائے اور پاکستان کو ایسے نعم البدل عطا فرمائے جو مرحوم ہی کی طرح مادرِ وطن کی خدمت کریں‘‘۔(اخبار ’’فرنٹیر پوسٹ‘‘ لاہور ۲۲؍نومبر ۹۶ء)
* گورنر بلوچستان جنرل عمران اللہ خان اور نگران وزیر اعلیٰ میر ظفراللہ خان جمالی نے بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ۔۔۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے اپنی محنت اور صلاحیت سے نوبیل انعام حاصل کرکے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ (روزنامہ ’’خبریں‘‘ ۲۳؍نومبر ۹۶ء)
پاکستان کا قابلِ فخر فرزند
* ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے نوبل انعام یافتہ ممتاز پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے انتقال سے جہاں پاکستان اپنے قابل فخر فرزند سے محروم ہوا ہے وہاں دنیائے سائنس کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔۔۔‘‘۔ (روزنامہ ’’امن‘‘ کراچی)
ایک عظیم سائنسدان
* سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزیر بیگم عابدہ حسین نے بھی پروفیسر سلام کی موت پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان ایک عظیم سائنسدان سے محروم ہوگیا ہے۔ (بحوالہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ۴؍دسمبر ۱۹۹۶ء)
پاکستان کی پہچان
* ’’وزیر تعلیم بیگم ثریا انور نے کہا ہے کہ پروفیسر عبدالسلام کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور جب تک یہ دنیا رہے گی ان کا نام زندہ رہے گا ۔۔۔ڈاکٹر صاحب کی نت نئی تحقیقات اور سائنسی علوم میں خدمات نے پاکستان کا پوری دنیا میں نام روشن کیا لیکن دوسری جانب یہ بات قابل افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں کسی بھی حکومت نے ان کی ایسی خدمت کو اتنا نہیں سراہا جتنا سراہا جانا چاہئے تھا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں جو کارنامے انہوں نے انجام دیئے ہیں وہ آج پاکستان کی پہچان بن چکے ہیں اس لئے ہمیں اپنے ملک کے اس فرزند پر فخر ہے‘‘۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ ۵؍دسمبر ۹۶ء)
قومی اخبارات کی خبروں سے
پاکستان کے تمام اخبارات نے محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات پر نمایاں خبریں شائع کیں اور آپ کی قابلیت اور خدمات کو سراہتے ہوئے شاندار اداریے رقم کئے۔ اس سلسلے میں محض چند اقتباسات ہدیہ قارئین ہیں:
* انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ لاہور نے لکھا:
’’ان کے نزدیک ترقی یافتہ مما لک کے درمیان فرق دولت کا نہیں تھا بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا تھا۔ جب ۱۹۸۹ء کے موسم سرما میں ان کی گرتی ہوئی صحت کے آثار نمایاں ہونے لگے تو انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ’’میری ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ میں پاکستان واپس لوٹ آؤں۔ میں بوڑھا آدمی ہوں، میں پاکستان میں مرنا پسند کروں گا۔ ان کو سب سے بڑا دکھ یہی تھا ’میں اپنے ملک کی خدمت نہیں کر پایا۔ بدقسمتی سے مجھے اس کا موقع نہیں دیا گیا‘ ۔۔۔ انہیں ۱۹۷۹ء میں نشانِ امتیاز پاکستان سے نوازا گیا‘‘۔ (انگریزی اخبار ’’نیوز‘‘ لاہور ۲۲؍نومبر ۹۶ء)
* روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں
’’پاکستان کے واحد نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے ۴۲ سال برطانیہ میں رہنے کے باوجود نہ صرف وہاں کی شہریت حاصل نہ کی بلکہ جواہر لال نہرو کی طرف سے بھارتی شہریت کی پیشکش بھی ٹھکرادی۔ وہ پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تھے‘‘۔ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ ۲۲؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* ’’پروفیسر عبدالسلام شمال اور جنوب کے درمیان پل بنے ہوئے تھے۔۔۔‘‘ (اخبار’’ گارڈین‘‘ لندن۔ بحوالہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ ۲۷؍نومبر ۹۶ء)
اخبارات کے اداریئے
اول نمبر کے سائنسدان اور انسانیت کے خدمتگار
* روزنامہ ’’فرنٹیر پوسٹ‘‘ کے مدیر نے محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو خراج تحسین یوں پیش کیا:
’’وطن عزیز کے اول نمبر کے سائنسدان اور انسانیت کے خدمتگار ڈاکٹر عبدالسلام ستر برس کی عمر میں وفات پاگئے ہیں۔۔۔ ان کی وفات سے پاکستان بلکہ درحقیقت مسلم دنیا کی سائنس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ وہ واحد سائنسدان تھے جن کا طبیعات میں کارہائے نمایاں دکھانے کی وجہ سے عزت و احترام کیا جاتا تھا۔۔۔ وہ مکمل طور پر سائنس خصوصاً طبیعات کیلئے وقف تھے، انہیں کسی اور چیز سے غرض نہ تھی۔ انہیں ایک اور چیز سے بھی عشق تھا ۔۔۔ پاکستان سے ۔۔۔ اس حقیقت کی وجہ سے کہ وہ احمدی تھے، علماء ان کی غیرمعمولی کامرانیوں سے ناخوش تھے۔ کوئی قوم کس قدر ناشکری ہوسکتی ہے اس کا مظاہرہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی شدت مرض سے عمومی طور پر بے خبری رہی ۔۔۔ڈاکٹر عبدالسلام کو الگ تھلگ کردینا اہلِ علم و فراست کیلئے نہایت دکھ کا موجب ہوا ہے۔ یہ تو اس شخص کی عظمت کا ثبوت ہے کہ مذہبی حلقوں کی طرف سے اشتعال دلائے جانے کے باوجود اس نے پاکستان کے نوجوان سائنسدانوں کی امداد اور سرپرستی جاری رکھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام ترقی پذیر ممالک کے لئے سائنس کے سب سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ترجمان تھے ۔۔۔ہمیں اپنی ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی کرنا چاہئے ۔ ان کو بہترین خراج تحسین یہ ہوگا کہ ملک کی بہترین یونیورسٹی کا نام ان کے نام پر رکھا جائے‘‘۔ (روزنامہ ’’فرنٹیر پوسٹ‘‘ کا اداریہ ۲۳؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے مدیر نے تحریر کیا:
’’ڈاکٹر عبدالسلام کا شمار دنیا کے نامور ترین سائنسدانوں میں ہوتا تھا ۔۔۔ اپنی قابلیت، صلاحیت اور کارناموں کی وجہ سے (انہوں نے) پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا اور قابل فخر کردار ادا کیا۔ جیسا کہ اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین منیر احمد خان نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سابق صدر ایوب خان کو ملک میں ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ لگانے کا مشورہ دیا تھا۔۔۔ سائنس کی دنیا میں انہیں ایک نامور اور بڑے انسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘‘۔ (روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کا اداریہ ۲۳؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے اداریے سے ایک اقتباس :
’’۔۔۔ وہ مسلم ممالک کی مالی اور مغربی ممالک کی ٹیکنیکی اعانت سے ایک ایسا ریسرچ سنٹر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے اب تک متعدد پاکستانیوں سمیت تیسری دنیا کے ہزاروں نوجوان سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرکے اپنے اپنے ممالک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کی خدمات کے صلے میں ستارہ پاکستان، پرائڈ آف پرفارمنس اور نشانِ امتیاز سے نوازا‘‘۔ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا اداریہ ۲۳؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* روزنامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور نے اپنے اداریے بعنوان
ایک یگانہ روزگار عبقری کا انتقال
میں تحریر کیا:
’’۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان سے شیفتگی کے کئی مظاہر دیکھنے میں آئے انہوں نے نوبیل انعام حاصل کرتے وقت قومی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ انہوں نے ایٹمی کمیشن اور کراچی میں ایٹمی بجلی گھر کے قیام کے ضمن میں جو تحریک کی اس سے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ وہ ملکی اور قومی ترقی کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے بلیغ تھے۔۔۔‘‘ (روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور ۲۳؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* انگریزی روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ کے اداریے سے ایک اقتباس پیش ہے:
’’ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات سے دنیا ہمارے زمانہ کے ایک عظیم الشان سائنسدان سے محروم ہوگئی ہے ۔۔۔پاکستان میں سائنس کی ترقی کے مقصد کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دینے کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ وہ ہمارے ملک کے واحد نوبیل لارئیٹ تھے۔ اگرچہ ہم ان جیسا ذہین اور قابل انسان تیار کرنے کا پورا اعزاز لینے کے حقدار نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تحقیق کا زیادہ تر کام مغربی ممالک میں انجام دیا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ اپنے دل سے ہمیشہ پاکستانی رہے اور ساری دنیا میں پاکستانی سائنسدان کے طور پر جانے جاتے تھے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سپارکو (خلائی مرکزَ تحقیق) کے بانی اور ۶۱ء سے ۷۵ء تک گورنمنٹ پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ رہے لیکن یہاں پر رہائش پذیر ہونا ان کے لئے ناممکن ہوگیا تھا کیونکہ وہ ایک ایسے فرقہ سے تعلق رکھتے تھے جس کو بعض مذہبی گروہ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔۔۔۔ ‘‘ (روزنامہ ’’نیشن‘‘ لاہور کا اداریہ ۲۴؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ نے اپنے اداریے میں محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو خراج عقیدن یوں پیش کیا:
ایک عبقری کی وفات
’’عوام الناس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ڈاکٹر عبدالسلام کے لئے کوئی ایسا کلمہ تحسین پیش کرسکیں جو اس عظیم شخصیت کی عظمت میں اضافہ کرسکے۔ تیسری دنیا میں کم ہی ایسے ماہرین سائنس ہوئے ہیں جن کا انسانی علم کی ترقی میں اتنا بڑا حصہ ہو۔۔۔ درحقیقت ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۵۰ء سے ذراتی طبیعات کے میدان میں ہونے والی تقریباً ہر پیش رفت میں ان کا حصہ ہے ۔۔۔جو چیز انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا انسانیت کے لئے گہرا احساس تھا‘‘۔ (روزنامہ ’’ڈان‘‘ ۲۲؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت نے اپنے ترجمان ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مارچ ۹۷ء کے شمارہ کو ’’عبدالسلام نمبر‘‘ کے طور پر شائع کیا۔ اس شمارے کے مدیر جناب ابوالکلام قاسمی نے محترم ڈاکٹر صاحب کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا:
’’پروفیسر عبدالسلام محض علم طبیعات کے محقق اور نظریہ ساز ہی نہیں تھے بلکہ برصغیر کی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے مشرقی اقوام کو عقلی اور سائنسی دنیا میں اعتبار اور وقار بخشنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور جہاں تک عالم اسلام کا تعلق ہے تو اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ عالم اسلام میں اس پایے کے سائنس دان کا ماضی قریب میں فقدان رہا ہے۔ پروفیسر عبدالسلام اپنے تخصص کے میدان کے علاوہ اسلام اور عالم اسلام کی سربلندی کے تمنائی اور عظمت رفتہ کی بازیافت کے خواہاں تھے۔ ۔۔۔
وہ چونکہ ایک موحد تھے اور خالق کائنات کی مرکزیت کا مشاہدہ کائنات کی بکھری ہوئی اور بظاہر منتشر، غیرمربوط اور مختلف الجہات قوتوں میں کرنا چاہتے تھے اسی لئے ان کے لئے طبیعات کی تحقیق بھی کائنات کے مرکزی نکتے کی تلاش و جستجو سے عبارت تھی۔۔۔‘‘ (ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مارچ ۹۷ء کا اداریہ)
* اور اب ہفت روزہ ’’مہارت‘‘ لاہور کے مدیر کے ایک اداریے سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک عالم‘‘ کی موت
’’ڈاکٹر صاحب نے اپنی سائنسی خدمات کی بناء پر پوری دنیا میں ارض وطن کی نیک نامی میں اضافہ کیا اور وطن عزیز کو دنیا کے ان ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا جنہیں سائنسی خدمات کے حوالے سے خصوصی عزت و توقیر کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔۔۔ زندگی بھر اپنے نظریات کو حب الوطنی کی اساس پر استوار رکھا۔۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محض نظریاتی اختلاف کی بنا پر ایک عظیم سائنسدان کی تحقیقات و خدمات سے جس طرح وطن عزیز کو محروم رکھا گیا اور ان کے ساتھ جس طرح کے طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا وہ کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی، ان کی سائنسی خدمات اور اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے ملک کو محروم رکھ کر گویا ہم نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی چلائی جس کا ازالہ شاید ہم کبھی بھی نہ کرسکیں۔‘‘(ہفت روزہ ’’مہارت ‘‘ لاہور)
BBC کی نشریات
* بی بی سی نے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں مختلف پروگراموں میں جو نشریات پیش کیں انہیں مکرم مرزا خلیل احمد صاحب نے قلمبند کیا ہے۔ ۲۱؍نومبر کے پروگرام ’’سیربین‘‘ میں بیان کیا:
’’۔۔۔ انہوں نے اپنی زندگی میں عقائد سے بلند ہوکر انسان کے دکھ درد کو دیکھا اور اس جدوجہد میں اپنی زندگی گزار دی کہ محروم دنیا علم و فن سے آگاہ ہو جائے۔۔۔۔ وہ ریاضی کی اعلیٰ ترین سند ٹرائی پاس میں اول پوزیشن لے کر رینگلر کہلائے۔ کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں Ph.Dسے پہلے ہی سمتھ پرائز دیا ۔۔۔ میکس ویل میڈل حاصل کرنے والے وہ سب سے پہلے سائنسدان تھے۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کو پوری دنیا میں غیرمعمولی عزت و احترام حاصل تھا لیکن ان کا دل اس بات پر زخمی تھا کہ ان کے اپنے وطن میں وہ رتبہ حاصل نہ ہوسکا جس کی انہیں توقع تھی‘‘۔
* بی بی سی نے ۲۲؍نومبر کو اپنی پہلی مجلس کے پروگرام ’’دریافت‘‘ میں نشر کیا:
’’انٹرنیشنل سنٹر فارتھیوریٹیکل فزکس کے موجودہ ایگزیکٹو پروفیسر مینگودیا سارو نے ڈاکٹر سلام کے انتقال پر کہا کہ پروفیسر عبدالسلام ایسے شخص تھے جنہوں نے تیسری دنیا کے لوگوں کو عالمی سطح پر عزت اور وقار عطا کیا ۔۔۔ سائنسی دنیا میں ان کے کارنامے دیر تک یاد رکھے جائیں گے۔ ۔۔۔ وہ پوری دنیا میں فزکس کے غیرمتنازعہ سکالر سمجھے جاتے تھے‘‘۔
مادر علمی کا خراج تحسین
* ’’عالمی شہرت کے حامل نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات پر کالج (گورنمنٹ کالج لاہور۔ ناقل) کی انتظامیہ اور سٹاف نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔۔۔۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر خالد آفتاب نے کہا کہ مرحوم سائنس کی دنیا میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی وفات کے ساتھ ہی پوری دنیا ایک عظیم پاکستانی سائنسدان سے محروم ہوگئی ہے اور سائنس کی دنیا کا پاکستانی باب اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ ۔۔۔ آخر میں اجلاس کے شرکاء نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے ۔۔۔‘‘۔ (روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور ۲۲؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* گورنمنٹ کالج لاہور میں ڈاکٹر عبدالسلام کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ’’گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر خالد آفتاب نے ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے پیش نظر کالج کی سنٹرل لائبریری کو ڈاکٹر سلام لائبریری کا نام دینے، ہر سال ’’پروفیسر سلام میڈل‘‘ فزکس اور ریاضی کے شعبے میں شروع کرنے اور فزکس ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹر سلام کے نام کی چیئر رکھنے کا اعلان کیا‘‘۔ (روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ ۵؍دسمبر ۹۶ء)
* پاکستان کے معروف سائنسدان، دانشور اور ماہر تعلیم، اسلام آباد قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں:
’’ایک ہیرو رخصت ہوگیا‘‘
’’پروفیسر عبدالسلام کی وفات سے دنیا برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہونے والے سب سے عظیم دانشور سے محروم ہوگئی ہے ۔۔۔ سلام صاحب کی زندگی کے دو ہی بڑے عشق تھے۔ فزکس کی ریسرچ شدت سے ان پر حاوی تھی۔۔۔ وہ صرف ایسے مسائل ہی کے متعلق غور و فکر کرتے تھے جو کہ ان کے اپنے میدان میں انتہائی مشکل ہوتے تھے۔ ایسے مسائل جن کو حل کرنے کی کوشش صرف عظیم ترین آدمی ہی کر سکتے ہیں۔ ۔۔۔ اس کی مثال ان کی شاندار تخلیق سپرفیلڈز ہے۔ اس طاقتور ریاضیاتی تصور کے بغیر فزکس کے سائنسدانوں کے لئے بنیادی قوانین قدرت کے سلسلے میں ایک خاص نقطہ سے آگے ترقی کرنا بہت مشکل امر ہوتا۔
سلام کا دوسرا عشق پاکستان تھا۔ مجھے کبھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ اپنے مادر وطن کے لئے کیوں اس قدر شدید جذبات رکھتے تھے حالانکہ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے اس ملک نے ان کو ایک طرح سے جلاوطن کر رکھا تھا ۔۔۔ سلام ہم سے بچھڑ چکے ہیں۔ کوئی پاکستانی سائنسدان بلکہ کسی بھی مسلم ملک کا کوئی بھی سائنسدان ایسا نہیں جو ان کے قد و قامت کے قریب تک پہنچ سکے۔ یہ نقصان ناقابل تلافی ہے‘‘۔ (روزنامہ ’’ڈان‘‘ ۲۲؍نومبر ۱۹۹۶ء)
* جناب عبدالعزیز خالد اپنے مضمون مطبوعہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ ۵؍دسمبر ۹۶ء میں لکھتے ہیں:
وطن میں اجنبی
’’اپنے مضامین میں بار بار یہ صاحبِ دل شخص (یعنی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ ناقل) عالمِ اسلام اور خصوصاً ارضِ پاکستان کی سائنس اور علوم و معارف سے بے اعتنائی و محرومی پر رنجیدہ و دل گرفتہ نظر آتا ہے۔ وہ بار بار مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی پر آنسو بہاتا ہے۔ انہیں انکے اسلاف کے عملی کارناموں کی یاد دلاتا ہے، ۔۔۔ مگر ہم اہلِ پاکستان نے اپنے اس جلیل القدر فرزند کے ساتھ کس سردمہری ، بیگانگی اور لاتعلقی کا سلوک کیا؟ ہم نے اپنے پندار میں اس زریں اصول کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے، ہر انسان کو عقائد کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ عقائد میں اختلاف کی بناء پر کسی انسان کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
* جناب اصغر علی گھرال اپنے کالم ’’گپ شپ‘‘ میں رقمطراز ہیں:
۔۔۔ گم نام تھا وطن میں!!
’’پاکستان کے عظیم سائنسدان کے ساتھ سائنسی نظریات کے حوالے سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں تھا، مگر مذہبی عقائد کے اختلاف کی بناء پر ایک عظیم انسان کو اپنے ہی وطن میں جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور جن حسرتوں کو دل ہی میں لے کر چل بسا، یہ ایک المیہ ہے، نہ جانے ہمارے علماء کب اتنے فراخ دل ہوں گے کہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کے فلسفے پر خود بھی عمل کرسکیں اور انہیں اپنی زیادتی کا احساس ہو۔ ۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ قوم کو اس عظیم سائنسدان کے ساتھ اس بے اعتنائی کے لئے یقیناًاحساس جرم ہوگا۔۔۔!!۔
گجرات میں تھنکرز فورم کے زیر اہتمام ایک تعزیتی تقریب میں معروف سکالر اکبر علی ایم۔اے نے صدارتی تقریر میں کہا کہ ۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام ایسے عظیم سائنسدان کے لئے برطانیہ، بھارت اور اٹلی ہی نہیں دنیا کا ہر ملک فخر سے شہریت اور زیادہ سے زیادہ حقوق و مراعات نچھاور کرنے پر تیار تھا مگر انہیں اپنے وطن سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ انہوں نے سائنس کی دنیا میں اپنے ملک کی شہرت اور عظمت کو چار چاند لگائے، مگر یہاں تو وہ اپنی مادر علمی میں لیکچر تک نہیں دے سکتے تھے، یہ ہماری جہالت اور تعصب کا بیرومیٹر ہے۔ ۔۔۔ حیرت ہے کہ ہم کرسچین دنیا کے سائنسدانوں کو تو بسروچشم قبول کر لیتے ہیں، مگر مادر وطن کے ایک عظیم فرزند کومحض عقیدے کی بناء پر مسترد کر دیتے ہیں۔ ۔۔۔ چودھری بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ نوبل انعام یافتہ عظیم سائنسدان کی ناقدری سے خود پاکستان کو نقصان ہوا ہے اور ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے، ڈاکٹر عبدالسلام کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
معروف دانشور سید آفتاب احمد نے محترم ڈاکٹر عبدالسلام کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ۔۔۔ کئی واقعات سنائے اور بتایا کہ فزکس کے نئے نصاب کے سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر عبدالسلام کو بلوایا مگر ۔۔۔ ایک سیاسی مذہبی جماعت کی طلبہ تنظیم نے انہیں بڑا پریشان کیا حتی کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی بے بس ہوگئے۔ ۔۔۔ ایک دفعہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ملک کے وزیر اعظم نے اس ادارے کے قابل فخر فرزندوں کے نام گنوائے لیکن وہ پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ عظیم سائنسدان کا نام گول کرگئے۔۔۔ اس سے ملک میں جہالت پسندی کا اندازہ کرلیں۔
کتنے ظلم کی بات ہے کہ ملک کا ایک غریب دیہاتی بچہ، جو دنیا میں آسمانِ عظمت پر ایک تارا بن کر چمکا اور اپنے وطن کا نام چاردانگ عالم میں روشن کرگیا، وہ اپنے وطن میں اجنبی رہا بلکہ اسے یوں احساس دلایا جاتا رہا کہ جیسے اس نے کوئی جرم کیا ہے۔‘‘ (روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور یکم دسمبر ۹۶ء)
* جناب قاضی جاوید نے اپنے مضمون میں محترم ڈاکٹر صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا:
ہیرو کی موت
’’ڈاکٹر عبدالسلام سے زیادہ کسی اور ایشیائی شخصیت کو جدید سائنس کی دنیا میں احترام حاصل نہیں ہوا، ان کی اہمیت کا اندازہ ۷۹ء میں ملنے والے طبیعات کے نوبل پرائز سے زیادہ اس امر سے لگانا چاہئے کہ پارٹیکل فزکس میں گزشتہ نصف صدی کے دوران جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ کسی نہ کسی طور پر ڈاکٹر صاحب کی مرہون منت ہے۔ ۔۔۔
یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنے ملک سے جو گہری محبت تھی وہ زندگی کے آخری سانس تک قائم رہی، حالانکہ ان کے ملک نے نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی قدر نہ کی تھی بلکہ ان کے ساتھ اچھوتوں سے بھی برا سلوک کیا تھا ۔۔۔ قرونِ وسطی میں مذہبی اختلاف کے باعث کبھی کبھار کسی جینئس (Genius) کے ساتھ اس قسم کی بدسلوکی کی مثالیں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ہمارے سلوک سے پتہ یہ چلتا ہے کہ ہم انسانی تاریخ کے تاریک دور سے ابھی باہر نہیں نکل سکے‘‘۔ (روزنامہ ’’پاکستان‘‘ یکم دسمبر ۹۶ء)
* جناب مسعود حسن نے اپنے ایک مضمون بعنوان
ضمیر کا سوال
مطبوعہ روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ ۲۹؍نومبر ۹۶ء میں قومی میڈیا کی اس بے حسی پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے جو انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام جیسے عظیم سائنسدان کی وفات کے بعد ان کے جنازہ اور وفات کے واقعہ کو کوریج دیتے ہوئے برتی۔ وہ لکھتے ہیں ’’جنازہ کی جو تصویر لاہور کے تین انگریزی روزناموں میں سے دو میں شائع کی گئی وہ ایک ایسے زاویے سے لی گئی جس میں صرف تابوت، جنازہ پڑھنے والا امام اور اس کے پیچھے درجن بھر مقتدیوں کو دکھایا گیا تھا۔ ایک کونے میں دو تین آدمیوں کو بلاوجہ ادھر ادھر گھومتے دکھایا گیا جو کہ ظاہر ہے جماعت میں شامل نہیں تھے۔ ۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر سلام کے جنازہ میں چار سے پانچ ہزارلوگوں نے شرکت کی جن سے علاقہ اقبال روڈ پر واقع (بیت احمدیہ) کھچاکھچ بھری ہوئی تھی اور اس اجتماع کی تصویر کسی زاویے سے بھی لی جاتی وہ ایک بہت بڑے اجتماع کو ظاہر کرتی۔۔۔۔ یہ صحافت نہیں ہے اور یہ بات کسی بھی معیار اور پیمانے سے پرکھی جائے شرمناک ہی کہلائے گی۔ میں اپنے ملک کی اکثریت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اسے کسی طرح ہضم نہیں کرسکتا۔۔۔۔ اتنی ہی افسوسناک بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر سلام کی میت لاہور پہنچی تو نہ تو گورنر اور نہ ہی وزیر اعظم، اس وقت ایرپورٹ پر حاضر ہوسکے۔ کیا واقعی ایسا کرنا ان کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوتا۔ ۔۔۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں میں اس وقت بھی وہی پریشانی اور گھبراہٹ کارفرما تھی جس قسم کی پریشانی اور گھبراہٹ اس وقت رپورٹ کی گئی تھی جب ڈاکٹر سلام نے بہت سال پہلے نوبل انعام حاصل کیا تھا ۔۔۔ اور یہ صورتحال اس وقت تک رہی جب تک کہ یہ فیصلہ نہ کیا جاسکا کہ ڈاکٹر سلام کو اپنایا جائے یا نہ اپنایا جائے۔۔۔۔
ڈاکٹر سلام کی تدفین کے آخری لمحات کے وقت ۔۔۔کوئی PTv کے کیمرے موجود نہیں تھے اور اس لئے قوم تقریباً تیس ہزار کے قریب پاکستانیوں کو نہ دیکھ سکی جو کہ ملک کے پہلے اور شائد آخری نوبل لارئیٹ کو اپنا آخری سلام پیش کرنے کے لئے جمع تھے۔۔۔۔ مجھے خیال آیا کہ کاش ہم صرف ایک دن کے لئے یہ نظر انداز کر دیتے کہ ڈاکٹر سلام کس جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کو وہ عظمت دیتے جس کے وہ حقدار تھے۔ یہ اس لئے نہیں کہ انہوں نے یہ بہت زبردست انعام جیتا تھا بلکہ بوجہ اسکے کہ وہ واقعی ایک عظیم انسان تھے اور ایک نہ جھکنے والے محب وطن تھے۔ ۔۔۔‘‘
* جناب افضل توصیف نے اپنے مضمون بعنوان
۔۔۔جلاوطنی ختم ہوئی آخر
میں اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور عوام نے دانستہ ڈاکٹر عبدالسلام کو جلاوطن کئے رکھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اپنے وطن کے لئے محبت کے جذبات کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے مضمون کے اختتام سے پہلے لکھتے ہیں ’’جب ان کی ریٹائرمنٹ کے اعزازکا جشن ہوا۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس کا اعلیٰ درجے کا اجلاس بھی ہوا۔ یہ کوئی معمولی اجلاس نہیں تھا، دنیا کے عظیم سائنسدانوں اور دانشوروں کا اجتماع تھا کہ جس میں فزکس کے تین اور نوبل انعام یافتہ بھی شریک تھے۔ ۔۔۔یہ جشن سائنسی فتوحات کا جشن تھا۔ اصل میں ڈاکٹر سلام کی دریافتوں کا جشن تھا۔ ۔۔۔ اس شاندار جشن کی تقریبات کے اختتام پر ایک ناقابل فراموش منظر اس طرح سے بنا کہ وہ سب یعنی بین الاقوامی سائنس برادری کے معتبر انسان سینکڑوں کی تعداد میں منظم قطاریں باندھ کر ڈاکٹر عبدالسلام کو مبارکباد پیش کرنے کے لئے آگے بڑھے اور اپنی باری کے لئے صبر سے کھڑے ہوگئے۔ تب ایک پریشان حال سا نوجوان اپنی باری آنے پر عظیم سائنسدان کے آگے جھکا اور کہنے لگا ’’جناب! میں ایک پاکستانی طالبعلم ہوں۔۔۔ ہمیں آپ پر فخر ہے‘‘۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے کندھے ہلے اور آنسوؤں کی دو دھاریں ان کے چہرے پر بہنے لگیں۔ ایک عام سے طالبعلم کی مبارکباد میں کیا بات تھی؟ مگر وہ خاص مبارکباد تھی۔ ساری دنیا کے ممتاز سائنسدانوں کے درمیان ایک ہم وطن کی آواز تھی۔ اس عظیم ہستی کے لئے وہی آواز اپنی تھی‘‘۔ (روزنامہ ’’خبریں‘‘ ۲۹؍نومبر ۹۶ء)
* روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے کالم نگار جناب انور سدید اپنے کالم ’’گفتنی‘‘ مطبوعہ ۲۷؍نومبر ۹۶ء میں
ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات پر خدا سے دعا
کے زیر عنوان محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی عظیم کامیابیوں اور ترقیات کو بیان کرنے کے بعد مضمون کا اختتام یوں کرتے ہیں:
’’ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق قادیانی فرقے سے تھا جس سے پاکستان کے عامۃ الناس کو اختلاف ہے۔ ۔۔۔ ہمارے عقیدے کے مطابق وہ اللہ کے ایک بڑے انعام سے محروم رہے۔ حکومت نے انہیں حسن کارکردگی کا تمغہ، نشان امتیاز اور ستارہ پاکستان کے اعزازات پیش کئے۔ ایک عالم نے ان کو تحسین کی نظر سے دیکھا۔ خدا نے ان پر سائنس کی بشارتیں اتاریں ۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات پر میرے دل سے دعا نکل رہی ہے ’’اے خدا، سائنسی علوم کے چند زاویے ہم جیسے گنہگار مسلمانوں پر بھی منکشف فرما۔ اے خدا، ہمیں معصیت کے سمندر سے نکال۔ اے خدا، اپنا ابر کرم ہم پر بھی برسا، اس شوریدہ زمین سے کوئی ابن سینا، کوئی ابن رشد پیدا کر ۔۔۔ اے خدا، اے خدا!!‘‘۔
* پاکستان کے معروف دانشور اورسائنسدان جناب ڈاکٹر انیس عالم صاحب اپنے مضمون مطبوعہ روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ لاہور ۲۹؍نومبر ۹۶ء میں بعنوان’’ ڈاکٹر سلام کی یاد میں‘‘ رقمطراز ہیں:
’’وہ سب سے بڑا سائنسدان جو پاکستان نے کبھی پیدا کیا یعنی ڈاکٹر عبدالسلام۔ آپ ۲۱؍نومبر ۹۶ء کی صبح کو وفات پاگئے۔ اس طرح سے پاکستانی سائنس کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔۔ عبدالسلام کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ محبوب اور معزز پاکستانی سائنسدان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق میں انہوں نے سب سے اونچے لیول پر مقابلہ کیا اور اپنی برتری منوائی۔۔۔ ڈاکٹر سلام نے ایک بھرپور اور فعال زندگی گزاری۔ ان کی کامیابیاں عظیم الشان ہیں۔ وہ نہ صرف اس صدی کے سب سے بڑے سائنسدانوں میں سے ایک تھے بلکہ وہ ایک ہمہ پہلو شخصیت تھے۔ تیسری دنیا کے سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم، تاریخ، فلاسفی، مذہب، اقتصادیات، سیاست کلچر اور دیگر عام مسائل پر ان کے خیالات بہت اہم، خیال افروز، اور بہت قیمتی تھے۔ ۔۔۔ آئیے ہم ایک ایسا ماحول پیدا کریں جس میں سلام جیسے لوگ پیدا ہوسکیں۔ اور پھر ان کو اپنے ہی ملک میں ترقی کرنے کا موقعہ دیں۔ یہی بات ڈاکٹر سلام کی یاد کو بہترین رنگ میں قائم رکھنے والی ہوگی‘‘۔
* جناب ایس اے مرزا ہفت روزہ ’’مہارت‘‘ لاہور میں شائع ہونے والے اپنے مضمون بعنوان
وطن کی مٹی کا گوہرِ نایاب
میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ انہوں نے اپنی انتھک لگن اور بے مثال جدوجہد سے تیز رفتار دنیا میں اپنے لئے ایسا مقام بنایا جو ان کے علاوہ ان کی جنم بھومی کو ابد تک اعلیٰ شناخت فراہم کرے گا۔ ۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے عزت و شہرت کی بلندیوں پر کھڑے ہوکر بھی وطن کی محبت کا ترانہ گایا۔ ۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام جدید سائنس کی قدآور ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان کی موت کو ایک عظیم خلا تصور کیا جا رہا ہے۔ ساری دنیا میں علم شناس ان کے غم میں سوگوار ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے اور جرائد نے ان کی موت کے سانحہ کو نمایاں انداز میں پیش کیا ہے۔ مگر ان کے اپنے وطن کے نشریاتی اداروں اور جرائد کی کارروائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ صرف ایک طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ٹیلی ویژن کی خبروں میں ڈاکٹر عبدالسلام کی تدفین کا ایک اشارہ تو دیا گیا مگر اس بات کی ضرورت محسوس نہ کی گئی کہ وطن کے اس عظیم اور عالمی شناخت کے باعث فرزند پاکستان کے آخری دیدار یا دفن کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کیا جاتا‘‘۔
* پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین اور محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے طالبعلمی کے زمانے کے دوست جناب ڈاکٹر منیر احمد خان کا ایک مضمون روزنامہ ’’آج کل‘‘ ۳۰؍نومبر ۹۶ء میں شائع ہوا ہے: وہ لکھتے ہیں:
ڈاکٹر عبدالسلام کی رحلت ۔ ایک قومی المیہ
’’بہت کم پاکستانیوں نے پروفیسر عبدالسلام کی طرح پاکستان کا وقار بڑھایا ہے۔ وہ نہ صرف پاکستان کے سب سے بڑے سائنسدان تھے بلکہ شاید اس صدی کے دوران مسلم ممالک میں پیدا ہونے والے عظیم ترین سائنسدان بھی تھے۔ ۔۔۔ عالمی شہرت کے حامل سائنسدان ہونے کے علاوہ ایک تخیل پرست، محب وطن، اپنی سرزمین کے خادم اور سب سے بڑھ کر ایک منکسرالمزاج شخص تھے۔ سائنس کی سرحدوں میں وسعت پیدا کرنے میں ان کی کامیابی نے ان کی منکسرالمزاجی میں مزید اضافہ کیا اور ہم وطنوں کے ساتھ ان کا رشتہ مزید گہرا ہوگیا ۔۔۔اگرچہ انہوں نے ہمارے لئے اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کیلئے بہت کچھ کیا لیکن ہمارے پاس ان کا قرض چکانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔
اس کے بعد مضمون نگار بعض چشمدید حقائق کی لمبی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ کیسے محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی پاکستان میں سائنسی تحقیق کی ترویج کی کوششوں کو مسلسل ناکامی کا مونہہ دیکھنا پڑا اور پھر لکھتے ہیں:
’’سائنس کی دنیا کے لئے عبدالسلام ہمارا دریچہ تھا کیونکہ تمام دنیا کے عظیم ترین سائنسدان ان کا احترام کرتے تھے۔ ۔۔۔ کئی ممالک کے سربراہان کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ ایک مرتبہ چین کے دورہ کے دوران مجھے بتایا گیا کہ چینی اکیڈمی نے ان کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا ہے جس میں وزیر اعظم شریک ہوں گے لیکن تمام تر پروٹوکول کو توڑتے ہوئے چین کے صدر نے بھی اس ڈنر میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ۔۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے اپنے ملک نے ان کے ساتھ بے انصافی اور تعصب کا برتاؤ کیا لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان سے شدیدمحبت کرتے تھے ۔۔۔ ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں ہم اس قابل ہو جائیں کہ تعصب سے بالاتر ہوکر انہیں تسلیم کریں اور ان کی موت کے بعد انہیں وہ کچھ دے سکیں جو ان کی زندگی میں ان کا حق تھا‘‘۔
* ونگ کمانڈر (ر) پروفیسر حمید اے بھٹی پروفیسر سلام کی یاد میں روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’۔۔۔ اس مضمون کے لکھنے کی اصل غرض یہ نہیں ہے کہ ان کو خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ مجھ سے بہت بڑے لوگ یہ کام پہلے ہی ان کی زندگی میں بہت اچھے طریقے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر سلام جیسی شخصیت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہے اور ہم نے ان کا صحیح اعزاز و اکرام نہیں کیا۔ لیکن اگر ہم نے اس پیغام کی طرف توجہ نہ دی جو کہ ڈاکٹر سلام زور شور سے پچھلے تین دہاکوں سے پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کو پہنچانے کی کوشش کرتے رہے تھے تو دنیا کے اس حصے میں ایک بہت افسوسناک صورتحال پیدا ہونے سے اللہ تعالیٰ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔
۔۔۔ ڈاکٹر سلام کی موت سے پاکستان کی بیوروکریسی اب اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے گی کیونکہ اب یہ وفات یافتہ انسان اس کے چھوٹے چھوٹے گھٹیا مفادات کے لئے خطرہ نہیں بن سکے گا۔ لیکن اس کا اپنا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ اس وفات یافتہ لیکن عظیم انسان کا پیغام اسی کے ساتھ دفن نہ ہونے دے۔ ۔۔۔ ڈاکٹر سلام جیسی اعلیٰ پایہ کی شخصیات شہرت یا پبلسٹی کی کوئی پرواہ نہیں کیا کرتیں۔ وہ دنیاوی جاہ و جلال اور عزت سے بالاتر ہوتے ہیں‘‘۔ (بحوالہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ۱۵؍مارچ ۹۷ء)
* پروفیسر خواجہ مسعود اپنے ایک پُر اثر مضمون میں ڈاکٹر سلام کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
سلام ۔ دو دنیاؤں کا انسان
’’ڈاکٹر سلام اب ہم میں موجود نہیں ہے۔ وہ زندہ جاوید ہوگئے ہیں۔ پرومیتھئیس نے آسمانوں سے انسانیت کی بہبود کے لئے آگ چرائی اور اولیمپس دیوتاؤں نے اسے اس طرح سزا دی کہ اسے چٹانوں کے ساتھ باندھ کر گِدھوں کے تشدد کے حوالے کردیا۔ سلام نے قدرت کی چار طاقتوں میں سے دو کو متحد کرکے سائنسی طور پر وحدت کی تھیوری کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور اسے بھی جلاوطنی کی اذیت برداشت کرنی پڑی۔ یہ اس لئے ہوا کہ وہ ایسے مذہبی اعتقادات رکھتے تھے جو ان کے ہم وطنوں کی اکثریت کے اعتقادات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اس اکثریت نے قرآن مجید کا وہ حکم بھلادیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ تمہارا مذہب تمہارے لئے اور میرا مذہب میرے لئے ، اور یہ کہ دین میں کوئی جبر جائز نہیں ہے۔ ۔۔۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم سائنسدان تھے یا یوں کہئے کہ بیسویں صدی نے جتنے بھی عظیم سائنسدان پیدا کئے وہ ان میں سے ایک تھے۔لیکن وہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔‘‘
اسکے بعد مضمون نگار متعدد واقعات کی روشنی میں ڈاکٹر سلام کی پُر خلوص کاوشوں کے جواب میں پاکستانی حکومتوں کے منفی کردارکا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر احمد موہاتار کی جگہ لینے کی دوڑ لگی ہوئی تھی تو اس وقت کی پاکستان کی حکومت نے صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ڈاکٹر سلام پر ترجیح دی حالانکہ ڈاکٹر سلام کی کامیابی یقینی تھی کیونکہ وہ اس عہدے کے لئے تمام شرائط پر پورا اترتے تھے۔ ان شرائط میں اس میدان میں بین الاقوامی سطح کا عالم ہونا اور خصوصی طور پر نوبل پرائز کا حامل ہونا اور خصوصاً تیسری دنیا میں نمایاں قابلیت، تعلیم، سائنس اور کلچر کے سلسلے میں سیاسی پہلوؤں سے آگاہی وغیرہ شامل تھیں۔ ڈاکٹر سلام ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے اس میدان میں مغرب اور مشرق کے درمیان بڑے متوازن طریق پر اثر قائم کیا ہوا تھا اور ان کی ذات سوویت یونین کے لئے بھی قابلِ قبول تھی۔ اٹلی کی حکومت نے اس عہدے کے لئے ڈاکٹر سلام کو اپنی طرف سے نامزد کرنے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اس لئے انکار کردیا کہ وہ صرف ایک پاکستانی کے طور پر ہی زندہ رہنا اور مرنا چاہتے تھے۔۔۔۔‘‘
* جناب راس حسین صدیقی (کیلیفورنیا سے) اپنے ایک مضمون بعنوان:
ڈاکٹر عبدالسلام کا قصور
میں محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں:
’’وائے افسوس ان کو وہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوا جب آپ اپنے مادر وطن کو اس حالت میں رجوع کرتے کہ آپ کا ایک حقیقی بیٹے کی طرح استقبال کیا جاتا۔ دنیا کے ہر کونے میں پاکستانی آپ کی رحلت پر سوگ منائیں گے مگر اس کے ساتھ ہمیں اپنے احوال کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ہم من حیث القوم اس مادر وطن کے ان عظیم افراد کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں جو اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔ ہم نے پاکستان کے بہت سے لائق و فائق افراد کو ان کے عقائد کی وجہ سے اپنا بیگانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ عقیدہ رکھنا ان کا ایک بنیادی حق ہے۔ ۔۔۔ جب ہم شکارپور (سندھ) کی مٹھائی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو کیا یہ سوچتے ہیں کہ یہ کسی ہندو نے بنائی ہوگی؟ کیا احمدیوں نے ۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں نچھاور نہ کی تھیں؟ جب انہوں نے ارض وطن کے دفاع کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا تو ہم نے ان سے پوچھا تھا کہ تمہارا عقیدہ کیا ہے؟ ۔۔۔ ۔۔۔ میں حیران ہوں کہ مسلمان ممالک میں پیدا ہونے والے اور ابھرنے والے ایسے کتنے اور لوگ ہوں گے جو صحیح مذہبی فضا کے فقدان کی بناء پر ضائع ہو جائیں گے‘‘۔ (ہفت روزہ ’’پاکستان لنک‘‘ کیلیفورنیا۔ ۲۹؍نومبر ۹۶ء)
* روزنامہ ’’ڈان‘‘ ۲۳؍دسمبر ۹۶ء کے مطابق پاکستان فزیکل سوسائٹی نے لاہور پریس کلب میں ڈاکٹر سلام کی یاد میں ایک ریفرنس منعقد کیا۔ مقررین میں سابق چیف آف ایر سٹاف ایرمارشل (ر) ظفر چودھری، صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی۔اے۔ رحمان، مصنف افضل توصیف، پنجاب یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر انیس عالم اور سنٹر برائے سولڈ سٹیٹ فزکس کے ڈائریکٹر اور پاکستان فزیکل سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر پروفیسر سادات انور صدیقی شامل تھے۔
پروفیسر سلام نے تیسری دنیا میں عام طور پر اور پاکستان میں خاص طور پر سائنس کی ترقی کے لئے جو بے لوث خدمات کیں ان کی تعریف کی گئی ۔۔۔ تمام دنیا نے سائنس کے میدان میں ان کی خدمات کو تسلیم کیا سوائے ان کے اپنے ملک کے حالانکہ انہوں نے اپنی مادر وطن کو اپنے آخری سانسوں تک اپنے دل کے ساتھ لگائے رکھا ۔۔۔‘‘
* پروفیسر اسرار احمد (شعبہ طبیعات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اپنے ایک مضمون میں محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
ایک مجاہد سائنسداں
’’۔۔۔ستر سال کا زمانہ ۔ کائناتی پیمانہ پر اس کی حقیقت ایک خفیف ترین وقفہ سے زیادہ نہیں۔ البتہ جب یہی زمانہ کسی مردِ کامل کے ہاتھوں کائنات کی حقیقتوں پر پڑے ہوئے دبیز پردوں کو اٹھانے، منشائے تخلیق کی تہ تک پہنچنے اور مخلوق کائنات کے درد کو سمجھنے اور بانٹ لینے میں صرف ہو تو وہ مستقبل کو جذب کرکے ایک لامتناہی حجم اختیار کرلیتاہے۔ وہ جاوداں بن جاتا ہے اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتا ہے ۔۔۔
عبدالسلام کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔۔۔ عبدالسلام کی عظمت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ ایک عظیم سائنسداں تھے۔۔۔۔ کیا عجب قدرت نے توحید کے اس پرستار کو کائنات کی بظاہر مختلف چار قوتوں کے وحدت کے راز آشکار کرنے کے لئے چن لیا ہو۔ ۔۔۔ عبدالسلام کی عظمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق کی روحانی قدروں کے پرجوش علم بردار تھے ۔۔۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ وہ انتہائی کامیاب ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔۔۔ عبدالسلام کی شخصیت کا سب سے زیادہ روشن پہلو یہ ہے کہ وہ ایک دردمند دل کے مالک تھے، وسیع القلب اور منکسرالمزاج تھے اور یہی وہ پہلو ہے جو انہیں دنیا کے عظیم سائنسدانوں کے درمیان قد آور بناتا ہے۔ ۔۔۔عبدالسلام ایک فرد کا نہیں ایک تحریک کا نام تھا۔ یہ تحریک ہے علم و دانش کی، عمل و جفاکشی کی اور اپنے تہذیبی ورثے میں جائز فخر کی۔ یہ تحریک ہے دنیا سے غربت و جہالت مٹانے کی اور طاقتور ممالک کے ظلم و استحصال کے خلاف جہاد کی۔ ‘‘ (ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مارچ ۹۷ء)
* پروفیسر محمد رفیع شعبہ فزکس، فیکلٹی آف سائنس، شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ (سعودی عرب) نے اپنے ایک مضمون میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام کی تیسری دنیا کے لئے عظیم الشان خدمات کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد مضمون کا اختتام ان الفاظ میں کیا:
’’پروفیسر عبدالسلام نے مرکز برائے نظری طبیعات کو مثال بناکر پیش کیا اور پھر اپنی زندگی کا آخری تین چوتھائی حصہ تیسری دنیا میں سائنس کے فروغ اور ترقی کے لئے وقف کردیا جس کے لئے یقیناًپروفیسر عبدالسلام کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے‘‘۔ (ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مارچ ۹۷ء)
* ڈاکٹر اختر حسین آفتاب MAA School پٹنہ نے اپنے مضمون مطبوعہ ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مارچ ۹۷ء میں ذاتی تعلقات کے حوالے سے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھا:
’’پروفیسر عبدالسلام ایک عظیم انسان، ایک عظیم سائنسداں، اور ایک عظیم محقق تھے۔ ان کی رواداری کا یہ عالم تھا کہ نوبل پرائز ملنے کے بعد وہ کلکتہ آئے اور اپنے استاد سے ملے جنہوں نے انہیں لاہور میں پڑھایا تھا۔ انکے استاد جو مذہبی اعتبار سے برہمن تھے بہت خوش ہوئے اور انہیں بہت دعائیں دیں۔۔۔۔ پروفیسر عبدالسلام کی خدمت میں سب سے بڑا خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ہم اپنے دل اور دماغ کو علم اور عقل کی روشنی سے پوری طرح منور کریں اور سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں ٹھوس قدم آگے بڑھائیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق اور کردار پیدا کریں‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍نومبر ۱۹۹۷ء تا۴؍دسمبر ۱۹۹۷ء)