حضرت عامر بن ربیعہؓ
ان کا خاندان حضرت عمر کے والد خطاب کا حلیف تھا جنہوں نے حضرت عامر کو متبنّٰی بنایا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پہلے عامر بن خطاب کے نام سے مشہور تھے لیکن جب قرآن کریم نے ہر ایک کو اپنے اصلی آباء کی طرف انتساب کا حکم دیا تو اس کے بعد عامر بن خطاب کے بجائے اپنے نسبی والد ربیعہ کی نسبت سے عامر بن ربیعہ پکارے جانے لگے۔
یہاں ان لوگوں کے لئے اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے جو اپنے رشتہ داروں کے، عزیزوں کے بچے adopt کرتے ہیں اور بڑے ہونے تک ان کو یہی نہیں پتہ ہوتا کہ ان کا اصل والد کون ہے اور شناختی کارڈ وغیرہ سرکاری کاغذات وغیرہ پر بھی اصل والد کے نام کے بجائے اس والد کا نام ہوتا ہے جس نے ان کو adopt کیا ہوتا ہے۔ اور پھر بعد میں اس وجہ سے بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر لوگ خطوط لکھتے ہیں کہ اس طرح کر دیا جائے، اس طرح کر دیا جائے۔ اس لئے ہمیشہ قرآنی حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے سوائے ان بچوں کے جو اداروں کی طرف سے ملتے ہیں یا لئے جاتے ہیں، adopt کئے جاتے ہیں اور ان کے والدین کے بارے میں بتایا نہیں جاتا۔ بہرحال اس وضاحت کے بعد آگے ان کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔ یہ جو بیان ہوا تھا کہ ان کے حلیف تھے اس حلیفانہ تعلق کے باعث حضرت عمر اور حضرت عامر میں آخر وقت تک دوستانہ تعلقات قائم رہے۔ یہ بالکل ابتداء میں ایمان لے آئے تھے۔ جب ایمان لائے اس وقت تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دارِاَرقم میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ (سیر الصحابہ جلد 2صفحہ 333 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) حضرت عامر اپنی بیوی لیلی بنت ابی حَثْمَہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر اس کے بعد مکہ لوٹ آئے۔ وہاں سے اپنی بیوی کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت عامر بن ربیعہ کی اہلیہ کو سب سے پہلے مدینہ ہجرت کرنے والی عورت کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ بدر اور تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ کی وفات 32 ہجری میں ہوئی۔ آپ قبیلہ عَنْزسے تھے۔
حضرت عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص تم میں سے جنازہ کو دیکھے اور اس کے ساتھ جانا نہ چاہے تو چاہئے کہ کھڑا ہو جائے یہاں تک کہ وہ جنازہ اسے پیچھے چھوڑ دے یا رکھ دیا جائے۔
عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ حضرت عثمان کی بابت اختلاف کر رہے تھے۔ اس وقت فتنہ کا آغاز ہو گیا تھا اور حضرت عثمان پر طعن کرتے تھے تو کہتے ہیں کہ نماز کے بعد وہ سو گئے تو خواب میں انہوں نے دیکھا کہ انہیں کہا گیا کہ اٹھ اور اللہ سے دعا مانگ کہ تجھے اس فتنہ سے نجات دے جس سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نجات دی ہے۔ چنانچہ حضرت عامر بن ربیعہ اٹھے اور انہوں نے نماز پڑھی اور بعد اس کے اسی حوالے سے دعا مانگی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ بیمار ہو گئے اور پھر وہ خود گھر سے نہیں نکلے۔ ان کا جنازہ ہی نکلا۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 118-119عامر بن ربیعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتنہ سے بچنے کی یہ صورت بنائی۔
حضرت عامر بن ربیعہ کرتے ہیں کہ میں طواف کے دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ مجھے دیں میں ٹھیک کر دیتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ترجیح دینا ہے اور میں ترجیح دئیے جانے کو پسندنہیں کرتا۔ (شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 49 الفضل الثانی فیما اکرمہ اللہ تعالیٰ بہ من الاخلاق الزکیۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) اس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر particular تھے کہ اپنے کام خود کرنے ہیں۔ ایک شخص حضرت عامر بن ربیعہ کا مہمان بنا انہوں نے اس کی خوب خاطر تواضع کی اور اکرام کیا اور ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی بات کی۔ وہ آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حضرت عامر کے پاس آیا اور کہا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی وادی بطور جاگیر مانگی تھی کہ پورے عرب میں اس سے اچھی وادی نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا فرما دی ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اس وادی کا ایک ٹکڑہ آپ کو دے دوں جو آپ کی زندگی میں آپ کا ہو اور آپ کے بعد آپ کی اولاد کے لئے ہو۔ حضرت عامر نے کہا کہ مجھے تمہارے اس ٹکڑے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جس نے ہمیں دنیا ہی بھلا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُعْرِضُوْنَ (الانبیاء: 2)۔ (حیاۃ الصحابہ از محمد یوسف الکاندھلوی جلد 2 صفحہ 523 باب انفاق الصحابہ فی سبیل اللہ مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ ناشرون 1999ء) کہ لوگوں کے لئے ان کا حساب قریب آ گیا ہے اور وہ باوجود اس کے غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی یہ حالت تھی ان چمکتے ہوئے ستاروں کی۔ اور یہی وہ لوگ تھے جو حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے تھے۔
حضرت عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ زید بن عمرو نے کہا میں نے اپنی قوم کی مخالفت کی۔ ملّت ابراہیمی کی اتباع کی۔ مجھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک نبی کے ظہور کا انتظار تھا جن کا اسم گرامی احمد ہو گا۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ میں انہیں پا نہ سکوں گا۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ نبی ہیں۔ اگر تمہیں ان کا عہدنصیب ہو جائے تو میرا سلام پیش کرنا۔ میں تمہیں ان کی ایسی علامات بتاتا ہوں کہ وہ تمہارے لئے مخفی نہیں رہیں گے۔ وہ نہ طویل قامت ہیں، نہ ہی پست قامت۔ ان کے بال نہ کثیر ہوں گے، نہ قلیل۔ ان کی آنکھوں میں سرخی ہر وقت رہے گی۔ ان کے کندھوں کے مابین مہر نبوت ہو گی۔ ان کا نام احمد ہو گا۔ یہ شہر مکّہ ان کی جائے ولادت اور بیعت کی جگہ ہو گی۔ پھر ان کی قوم انہیں یہاں سے نکال دے گی۔ وہ ان کے پیغام کو ناپسند کرے گی۔ پھر وہ یثرب کی طرف ہجرت کریں گے۔ پھر ان کا امر غالب آ جائے گا۔ ان کی وجہ سے دھوکہ میں نہ پڑنا۔ میں نے دین ابراہیمی کی تلاش میں سارے شہر چھان مارے ہیں۔ میں نے یہودیوں، عیسائیوں اور آتش پرستوں سب سے پوچھا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ دین تمہارے پیچھے ہے۔ انہوں نے مجھے وہی علامات بتائیں جو میں نے تمہیں بتائی ہیں۔ انہوں نے بتایا ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عامر نے کہا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زید کے بارے میں بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اسے جنت میں دیکھا ہے وہ اپنا دامن گھسیٹ رہا تھا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد اوّل صفحہ 116 فیما اخبربہ الاحبار والرھبان … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
یہ جو روایت ہےکہ نبی نہیں آئے گا۔ اس سے یہ بھی مرادنہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّتی نبی کی جو پیشگوئی کی تھی وہ غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہی آخری شرعی نبی ہیں اور کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی اور جو بھی آنے والا آئے گا آپ کی غلامی میں ہی آئے گا۔ یہی ہمیں احادیث سے اور قرآن کریم سے بھی پتہ لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر کی حضرت یزید بن مُنْذَر سے مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 296 ومن حلفائ بنی عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) حضرت عامر بن ربیعہؓ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے چند دن بعد وفات پائی۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 119 عامر بن ربیعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)