حضرت عامر بن فُہَیْرَۃؓ
حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ کا کافی لمبا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ اسلام کی تاریخ کے بعض اہم واقعات میں بھی ان کا کردار ہے۔ انہیں ان کا حصہ بننے کی توفیق ملی۔ اور وہ واقعات ایسے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا بھی ضروری ہے۔
ان کی کنیت ابو عمرو تھی اور قبیلہ اَزْدسے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اخیافی بھائی طُفَیل بن عبداللہ بن سَخْبَرَۃْ کے غلام تھے۔ یہ بھی سیاہ فام غلام تھے۔ اخیافی بھائی وہ ہوتے ہیں جو ماں کی طرف سے بھائی ہوں ۔ باپ مختلف تھے۔ آپ اسلام لانے والے سابقین میں شامل تھے۔ پہلے اسلام لانے والوں میں شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں جانے سے قبل اسلام لا چکے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد کافروں کی طرف سے آپ کو بڑی تکالیف پہنچائی گئیں ۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔
ہجرت مدینہ کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ غار ثور میں تھے تو آپؓ حضرت ابوبکر کی بکریاں چراتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں حکم دیا تھا کہ بکریاں ہمارے پاس لے آیا کرنا۔ پس آپ سارا دن بکریاں چراتے تھے اور شام کو حضرت ابوبکر کی بکریاں غار ثور کے قریب لے جاتے تھے۔ تو آپ دونوں اصحاب خود بکریوں کا دودھ دوہ لیتے تھے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ۔ جب عبداللہ بن ابی بکر ان دونوں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس جاتے تھے تو حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ ان کے پیچھے پیچھے جاتے تھے تا کہ ان کے قدموں کے نشان مٹ جائیں ۔ پتہ نہ لگے کہ حضرت ابوبکر کے بیٹے کہاں جارہے ہیں ، کفار کو کسی قسم کا شک نہ پڑے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر غار ثور سے نکل کر مدینہ کو روانہ ہوئے تو اس وقت حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی۔ حضرت ابوبکر نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ اس وقت ان کو راستہ دکھانے والا بَنُو اَلدِّیْل کا ایک مشرک شخص تھا۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 134 عامر بن فھیرہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ اور حضرت حارث بن اوس بن مُعَاذ کے درمیان مؤاخات قائم کروائی تھی۔ حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ غزوۂ بدر اور احد میں شریک تھے اور بئرِ معونہ کے موقع پر چالیس سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 174 عامر بن فھیرہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ابوبکرؓ نے ہجرت سے قبل سات ایسے غلاموں کو آزاد کروایا تھا جن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف دی جاتی تھی جن میں سے ایک حضرت بلالؓ تھے اور حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ بھی شامل تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 319 عبد اللہ بن عثمان ابو بکر الصدیقؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم حضرت ابوبکر کے گھر ٹھیک دوپہر کے وقت بیٹھے ہوئے تھے، یعنی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی کہنے والے نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر کپڑا اوڑھے ہوئے آ رہے ہیں ۔ آپؐ ایسے وقت آئے کہ جس میں آپؐ ہمارے پاس نہیں آیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! خدا کی قسم آپؐ جو اس وقت تشریف لائے ہیں تو ضرور کوئی بڑا کام ہے۔ کہتی تھیں اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے اور جب آپؐ پہنچے تو اندر آنے کی اجازت مانگی۔ حضرت ابوبکر نے اجازت دی۔ آپؐ اندر آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے کہا جو تمہارے پاس ہیں انہیں باہر بھیج دو۔ حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! گھر میں تو صرف آپؐ ہی کے گھر والے ہیں یعنی عائشہؓ اور ان کی والدہ اُمّ رومان۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تم بھی میرے ساتھ چلو۔ پھر حضرت ابوبکر نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! ساتھ چلنا ہے تو پھر میری ان دو سواری کی اونٹنیوں میں سے ایک آپؐ لے لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں قیمتاً لوں گا۔ حضرت عائشہ کہتی تھیں چنانچہ ہم نے جلدی سے دونوں کا سامان تیار کر دیا اور ہم نے ان کے لئے توشہ تیار کر کے چمڑے کے تھیلے میں ڈال دیا۔ حضرت ابوبکر کی بیٹی حضرت اسماء نے اپنے کمر بند سے ایک ٹکڑہ کاٹ کر تھیلے کے منہ کو اس سے باندھا اس لئے ان کا نام ذَاتُ النِّطَاق ہو گیا۔
کہتی تھیں کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ثور پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے اور اس میں تین راتیں چھپے رہے۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکر ان دونوں کے پاس جا کر رات ٹھہرتے اور اس وقت وہ چالاک اور ہوشیار جوان تھے یعنی کہ اچھی ہوش و حواس میں تھے اور اندھیرے میں ہی ان کے پاس سے چلے آتے تھے۔ صبح صبح اندھیرے منہ ہی واپس آ جاتے تھے اور مکہ میں قریش کے ساتھ ہی صبح کرتے تھے جیسے وہیں رات گزاری ہے۔ جو تدبیر بھی ان کے متعلق یعنی کفار کے متعلق سنتے وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیتے اور جب اندھیرا ہو جاتا تو غار میں پہنچ کر ان کو بتا دیتے۔ مکہ میں جو سارا دن رہتے تھے تو کفار کے جو بھی منصوبے تھے وہ شام کو آپ کو بتایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر کا غلام عامر بن فُہَیْرَۃ بکریوں کے ریوڑ میں سے ایک دودھیل بکری ان کے پاس چراتا رہتا اور جب عشاء کے وقت سے کچھ گھڑی گزر جاتی تو وہ بکری ان کے پاس لے آتا اور وہ دونوں تازہ دودھ پی کر رات گزارتے۔ اور یہ دودھ ان دونوں کی دودھیل بکری کا ہوتا۔ عامر بن فُہَیْرَۃ رات کے پچھلے پہر گلّے میں چلا جاتا اور بکریوں کو آواز دینا شروع کر دیتا۔ تین رات تک وہ ایسا ہی کرتا رہا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر نے بنو دیل کے قبیلے کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر رکھ لیا تھا اور وہ بنو عبد بن عدی سے تھا۔ بہت ہی واقف کار راستہ بتانے کا ماہر تھا۔ اس شخص نے عاص بن وائل کے خاندان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے اپنا ہاتھ ڈبویا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے مذہب پر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر دونوں نے اس پر اعتبار کیا۔ گو وہ کافر تھا اور قریش کا ہی زیادہ پروردہ بھی تھا لیکن بہرحال آپؐ نے اس پہ اعتبار کیا اور اپنی سواری کی اونٹنیاں اس کے سپرد کر دیں اور اس سے یہی وعدہ ٹھہرایا کہ وہ تین دن کے بعد صبح کے وقت ان کی اونٹنیاں لے کر غار ثور پر پہنچے گا ۔ عامر بن فُہَیْرَۃ اور رہبر ان دونوں کے ساتھ چلے۔ وہ رہبر ان تینوں کو سمندر کے کنارے کے راستے سے لے کر چلا گیا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبیؐ … الخ حدیث 3905)
سراقہ بن مالک بن جُعْشَمْ کہتے تھے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے ایلچی آئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ان دونوں میں سے ہر ایک کی دیت مقرر کرنے لگے اس شخص کے لئے جو ان کو قتل کرے یا قید کرے۔ اسی اثناء میں کہ میں اپنی قوم بنو مُدْلِجْ کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک شخص سامنے سے آیا۔ یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ کس طرح پکڑا جائے یا قتل کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر، حضورؐ پر کس طرح حملہ کیا جائے۔ کہتے ہیں یہ باتیں ہماری مجلس میں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص آیا اور آ کر ہمارے پاس کھڑا ہو گیا اور ہم بیٹھے تھے۔ کہنے لگا: سُرَاقہ! مَیں نے ابھی سمندر کے کنارے کی طرف کچھ سائے دیکھے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی ہیں ۔ سُرَاقہ کہتے تھے کہ مَیں نے شناخت کر لیا کہ وہی ہیں مگر مَیں نے اسے کہا کہ وہ ہرگز نہیں ہیں بلکہ تم نے فلاں فلاں کو دیکھا ہے جو ہمارے سامنے گئے تھے اور اس کی بات ٹال دی۔ پھر میں اس مجلس میں کچھ دیر ٹھہرا رہا۔ سُرَاقہ کو اس وقت لالچ بھی تھا کہ کہیں یہ نہ پیچھے چلا جائے اور پھر یہ انعام کا حق دار ٹھہر جائے۔ تو کہتے ہیں بہرحال میں نے ٹال دیا اور کچھ دیر کے بعد اٹھا اور گھر گیا اور اپنی لونڈی سے کہا کہ میری گھوڑی نکالو۔ وہ ٹیلے کے پرے ہی رہے۔ یعنی پیچھے جو ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا اس کی طرف میری گھوڑی لے جاؤ، اور وہیں رکھو۔ وہاں اس کو میرے لئے تھامے رکھو۔ چنانچہ میں نے اپنا نیزہ لیا اور اس کو لے کر گھر کے پیچھے کی طرف سے نکلا۔ مَیں نے نیزے کے بھال کو زمین پر رکھا اور اس کے اوپر کے حصے کو نیچے جھکایا اور اس طرح اپنی گھوڑی کے پاس پہنچا اور اس پر سوار ہو گیا۔ یعنی گھوڑی پر سوار ہونے کے لئے اپنا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ نیزہ کا سہارا لیا اور گھوڑی پر سوار ہو گیا۔ میں نے اس کو چمکایا یعنی تھوڑی سی اس کو تھپکی دی اور اس کو دوڑایا اور وہ سرپٹ دوڑتی ہوئی مجھے لے گئی یہاں تک کہ جب ان کے قریب پہنچا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو میری گھوڑی نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ میں اس سے گر پڑا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ جھکا کر میں نے اس سے تیر نکالا اور اس سے فال لی کہ آیا ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں یعنی جو میرا قتل کا یا پکڑنے کا ارادہ ہے وہ میں کر سکوں گا یا نہیں ۔ کہتا ہے کہ پس وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا۔ یعنی فال میرے خلاف نکلی۔ یہی کہ میں نہیں پکڑ سکتا۔
کہتا ہے میں پھر اپنی گھوڑی پر سوار ہو گیا اور پانسے کے خلاف عمل کیا یا جو بھی فال نکلی تھی اس کے خلاف عمل کیا۔ گھوڑی پھر سرپٹ دوڑتے ہوئے مجھے لئے جا رہی تھی اور اتنا نزدیک ہو گیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھتے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے اور حضرت ابوبکر کثرت سے مڑ مڑکر دیکھتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد کیا ہوا، جب میں قریب پہنچا تو میری گھوڑی کی اگلی ٹانگیں زمین میں گھٹنوں تک دھنس گئیں اور میں گر پڑا۔ پھر میں نے گھوڑی کو ڈانٹا اوراٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اپنی ٹانگیں زمین سے نکال نہ سکتی تھی۔ آخر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی اور بڑا زور لگا کر سیدھی کھڑی ہوئی تو اس کی دونوں ٹانگوں سے گرد اٹھ کر فضا میں دھوئیں کی طرح پھیل گئی۔ یعنی اتنی دھنسی ہوئی تھی کہ نکالتے ہوئے زور لگایا تو مٹی جو باہر نکلی وہ اتنی زیادہ تھی کہ لگتا تھا کہ غبار چھا گیا ہے۔ کہتا ہے اب میں نے دوبارہ تیروں سے فال لی تو وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا یعنی وہ جو میں چاہتا تھا اس کے خلاف فال نکلی یعنی کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو نہیں پا سکتا۔ تب میں نے انہیں آواز دی کہ تم امن میں ہو۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا کہ اب آپ امن میں ہیں اور پھر وہ ٹھہر گئے۔ یعنی اب میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میری بدنیت نہیں ہے۔ کہتے ہیں اب میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا۔ جب نیت ٹھیک ہو گئی تو گھوڑی بھی چل پڑی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی یا وہ لوگ بھی کچھ دیر پیچھے آئے یا ٹھہر گئے۔ کہتا ہے کہ ان تک پہنچنے میں مجھے جو روکیں پیش آئیں ان کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی بول بالا ہو گا۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپؐ کی قوم نے آپؐ کے متعلق دیت مقرر کی ہے اور مَیں نے ان کو وہ سب چیزیں بتائیں جو کچھ کہ لوگ ان سے کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یعنی کفار کے جو بھی بد ارادے تھے اس کی ساری تفصیل بتا دی۔ اور پھر میں نے ان کے سامنے زاد اور سامان پیش کیا۔ میں نے کہا کہ یہ سامان ہے۔ آپ سفر میں جا رہے ہیں تو سفر کا کھانے پینے کا کچھ سامان پیش کیا مگر انہوں نے مجھ سے نہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا کہ نہیں ۔ انہیں ضرورت نہیں ۔ اور نہ ہی مجھ سے کوئی اور فرمائش کی سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ہمارے سفر کے متعلق حال پوشیدہ رکھنا یعنی کسی کو بتانا نہ کہ کس راستے سے ہم جا رہے ہیں ۔ کہتا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اور اب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، کہ آپ میرے لئے امن کی ایک تحریر لکھ دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فُہَیْرَۃ، یہی جو حبشی غلام تھے اور آزاد تھے سے فرمایا کہ تحریر لکھ دو اور اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے۔
ابن شہاب کی روایت ہے کہ عروۃ بن زبیر نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ میں حضرت زبیرؓ سے ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آ رہے تھے۔ حضرت زبیرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کو سفید کپڑے پہنائے اور مدینہ میں مسلمانوں نے سن لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل پڑے ہیں ۔ اس لئے وہ ہر صبح حَرَّۃ میدان تک جایا کرتے تھے اور وہاں آپؐ کا انتظار کرتے تھے یہاں تک کہ دوپہر کی گرمی انہیں لوٹا دیتی تھی۔ یعنی دوپہر تک انتظار کرتے تھے، شدید سورج جب چڑھ جاتا تھا تو پھر گرمی کی وجہ سے واپس چلے جاتے تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچیں ۔ کہتے ہیں ایک دن ان کا بہت دیر انتظار کرنے کے بعد جو لَوٹے اور اپنے گھروں پر جب پہنچے تو ایک یہودی شخص اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے کے لئے چڑھا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو دیکھ لیا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ سراب ان سے آہستہ آہستہ ہٹ رہا تھا۔ یعنی دور سے ایک ہیولہ نظر آتا تھا لیکن آہستہ آہستہ شکلیں واضح ہوتی گئیں ۔ یہودی سے رہا نہ گیا اور بے اختیار بلند آواز سے بول اٹھا۔ اے عرب کے لوگو! مدینہ والوں کو آواز دی کہ یہ تمہارا وہ سردار ہے جس کا تم انتظار کر رہے ہو۔ پتہ تھا اس کو کہ مسلمان روزانہ ایک جگہ جاتے ہیں اور انتظار میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔ یہ سنتے ہی مسلمان اٹھ کر اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے اور حرۃ کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔ آپؐ انہیں ساتھ لئے ہوئے اپنی داہنی طرف مڑے اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں ان کے ساتھ اترے اور یہ دوشنبہ یعنی سوموار کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے۔ اور انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا آئے اور حضرت ابوبکر کو سلام کرنے لگے یہاں تک کہ دھوپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگی۔ یعنی کافی دیر ہو گئی۔ دھوپ ذرا چڑھ گئی۔ جو ذرا سایہ تھا وہ پرے ہٹ گیا تو حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کیا۔ اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے محلے میں دس سے کچھ اوپر راتیں ٹھہرے اور وہ مسجد بنائی گئی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔
پھر آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگ آپؐ کے ساتھ پیدل چلنے لگے اور وہ اونٹنی مدینہ میں وہاں جا کر بیٹھی جہاں اب مسجد نبویؐ ہے۔ ان دنوں وہاں چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور وہ سہیل اور سہل کے کھجوریں سکھانے کی جگہ تھی۔ ایک کھلا میدان تھا جہاں یہ دو لڑکے اپنی فصل کی کھجوریں سکھایا کرتے تھے۔ جو دو یتیم بچے تھے۔ یہ بچے حضرت سعد بن زُرَارَۃکی پرورش میں تھے۔ جب آپؐ کی اونٹنی نے آپؐ کو وہاں بٹھا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہیں ہماری قیامگاہ ہو گی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو لڑکوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت کی تااسے مسجد بنائیں تو ان دونوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! ہم آپؐ کو یہ زمین مفت دیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ زمین مفت لینے سے انکار کیا اور اسے ان سے خریدا اور پھر مسجد بنائی ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد کے بنانے کے لئے لوگوں کے ساتھ اینٹیں ڈھونے لگے اور جب اینٹیں ڈھو رہے تھے تو ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے
ھٰذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَیْبَر
ھٰذَا اَبَرُّ رَبَّنَا وَاَطْھَر
کہ یہ بوجھ خیبر کے بوجھ جیسا نہیں بلکہ اے ہمارے رب! یہ بوجھ بہت بھلا اور پاکیزہ ہے۔ نیز فرماتے تھے
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَۃ
فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃ
کہ اے اللہ اصل ثواب تو آخرت کا ثواب ہے۔ اس لئے تُو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔ یہ بھی بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبیؐ … الخ حدیث 3906)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ ہجرت کے بارے میں تحریر فرمایا ہے۔ آپؓ نے اسے اپنے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے اس لئے تھوڑی سی یہ تفصیل بھی مَیں بیان کر دیتا ہوں ۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ
’’ آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔ صرف چند غلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکہ میں رہ گئے۔ جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو رؤساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے۔ خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آپؐ کے قتل کی تاریخ آپؐ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی۔ جب مکہ کے لوگ آپؐ کے گھر کے سامنے آپؐ کے قتل کے لئے جمع ہو رہے تھے تو آپؐ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔‘‘ (ایک طرف کفار اکٹھے ہو رہے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جو آپؐ کی رہنمائی فرمائی تو اسی وقت آپ باہر نکل رہے تھے۔) ’’مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ ان کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہوگی مگر پھر بھی جب آپؐ ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپؐ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپؐ سے چھپنے لگ گئے‘‘ (کہ یہ نہ ہو کہ یہ جو کوئی اَور شخص تھا جا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دے کہ ہم اکٹھے ہو رہے ہیں ) ’’تا کہ ان کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر نہ ہو جائے۔‘‘ (اس لئے سمٹ رہے تھے۔) آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’اس رات سے پہلے دن ہی آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابوبکرؓ کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی۔ پس وہ بھی آپؐ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے۔ جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے گئے ہیں تو انہوں نے ایک فوج جمع کی اور آپؐ کا تعاقب کیا۔ ایک کھوجی انہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپؐ کا کھوج لگاتے ہوئے ثور پہاڑ پر پہنچا۔ وہاں اس نے اس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپؐ ابوبکرؓ کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ اس کے اس اعلان کو سن کر حضرت ابوبکرؓ کا دل بیٹھنے لگا اور انہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن سر پر آ پہنچا ہے اور اب کوئی دم میں ‘‘ (تھوڑی دیر میں ) ’’غار میں داخل ہونے والا ہے۔ آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ ابوبکر ڈر ونہیں ۔ خدا ہم دنوں کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب میں کہا یا رسول اللہ! میں اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں ۔ مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا۔ یا رسول اللہ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو دنیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا کوئی پروا نہیں ۔ یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسرا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے۔ چونکہ اب وقت آ پہنچا تھا کہ خدا تعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا ۔خدا تعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور انہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کہ کیا انہوں نے اس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے اور پھر اس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں ۔ یہاں کوئی عقل مند پناہ نہیں لے سکتا اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھوجی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے۔
دو دن اسی غار میں انتظار کرنے کے بعد پہلے سے طَے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی روانہ ہوئے۔ ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور ان کے ملازم عامر بن فُہَیْرَۃ سوار ہوئے۔ مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا۔ اُس مقدس شہر پر جس میں آپؐ پیدا ہوئے، جس میں آپؐ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپؐ کے آباؤ اجداد رہتے چلے آئے تھے آپؐ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے مکہ کی بستی! تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا۔ ان لوگوں نے اپنے نبیؐ کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔
جب مکہ والے آپ کی تلاش میں ناکام رہے تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکرؓ کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اس کو سو (100)اونٹنی انعام دی جائے گی اور اس اعلان کی خبر مکہ کے ارد گرد کے قبائل کو بھجوا دی گئی۔ چنانچہ سُرَاقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپؐ کے پیچھے روانہ ہوا۔ تلاش کرتے کرتے اس نے مدینہ کی سڑک پر آپؐ کو جا لیا۔ جب اس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ہیں تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دوڑا دیا مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور سُرَاقہ گر گیا۔ سُرَاقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خود اس طرح بیان کرتا ہے۔ ‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 222 تا 224)
اور پھر وہ ساری تفصیل جو سُرَاقہ کے حوالے سے پہلے بیان ہو چکی ہے وہ آپؓ نے تحریر فرمائی ہے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ
جب عامر بن فُہَیْرَۃ نے حضورؐ کے ارشاد پر امن کا پروانہ لکھ دیا اور سُرَاقہ کو امن کا پروانہ دیا تو اس وقت جب سُرَاقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے سُرَاقہ کے آئندہ حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیب سے ظاہر فرمادئے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غیب کے ذریعہ ظاہر فرمایا کہ آئندہ سُرَاقہ کے ساتھ کیا حالات ہونے ہیں اور ان کے مطابق آپؐ نے اسے فرمایا۔ سُرَاقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ سُرَاقہ نے حیران ہو کر پوچھا، کسریٰ بن ہُرمُز شہنشاہِ ایران کے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ! آپؐ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بہ لفظ پوری ہوئی۔
سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلے میں کچلے گئے۔ (ایرانیوں نے حملے شروع کئے تھے۔) کسریٰ کا دارالامارۃ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔ جو مال اس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضے میں آیا اس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسریٰ ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا۔ سُرَاقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اسے پیش آیا تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطَب کر کے فرمایا تھا کہ سُرَاقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموال غنیمت لا کر رکھے گئے اور ان میں انہوں نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ حضرت عمرؓ کے سامنے،آپؓ کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سُرَاقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپؐ کے پیچھے اس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اس وقت آپؐ کا سُرَاقہ سے کہنا کہ سُرَاقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ کتنی بڑی پیشگوئی تھی۔ کتنا مصفّٰی غیب تھا۔ کتنی صاف غیب کی خبر تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ انہوں نے کہا سُرَاقہ کو بلاؤ۔ سُرَاقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں ۔ سُرَاقہ نے کہا۔ اے خدا کے رسولؐ کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے۔ ٹھیک ہے مردوں کے لئے سونا پہننا منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں ۔ یہ وہ موقع نہیں ہے جہاں منع ہو۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے۔ یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا کیونکہ اب تو یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اس کا باقی حصہ بھی تمہیں پورا کرنا ہو گا۔ سُرَاقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلے کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ سُرَاقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 226-222)
بعض کتب کے مطابق سُرَاقہ بن مالک کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے والے الفاظ آپؐ نے ہجرت کے موقع پر نہیں فرمائے تھے بلکہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حُنَین اور طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو جِعْرانَہ کے مقام پر فرمائے۔(بخاری بشرح الکرمانی جزء 14 صفحہ 178 کتاب بدء الخلق باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث 3384 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1981ء)
لیکن عموماً روایت یہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ہجرت کے موقع پر ہی کہا تھا جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے۔
جب عامر بن فُہَیْرَۃ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہاں آ کر بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو آپ تندرست ہو گئے تھے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آپ کے بعض صحابہ بیمار ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عامر بن فُہَیْرَۃؓ، حضرت بلالؓ بھی بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی عیادت کی اجازت مانگی تو آپؐ نے ان کو اجازت عطا فرما دی۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا کہ آپؓ کا کیا حال ہے تو انہوں نے جواب میں یہ شعر پڑھا۔
کُل امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِی اَھْلِہِ
وَالْمَوْتُ اَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہٖ
کہ ہر شخص جب اپنے گھر میں صبح کو اٹھتا ہے تو اسے صبح بخیر کہا جاتا ہے بحالیکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی نزدیک تر ہو تی ہے۔ یعنی کہ جب وہ سو کر اٹھتا ہے تو ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ موت تو ایک دن آنی ہی آنی ہے۔ پھر آپ نے حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھاکہ
اِنِّیْ وَجَّدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِہِ
اِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُہُ مِنْ فَوْقِہِ
کہ یقیناً مَیں نے موت کو اس کا ذائقہ چکھنے سے قبل ہی پا لیا ہے یقیناً بزدل کی موت اچانک آ جاتی ہے یعنی بہادر موت کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اوربزدل نے اس کے لئے تیاری نہیں کی ہوتی۔ پھر آپؓ نے حضرت بلالؓ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
یَالَیْتَ شِعْرِیْ ھَل اَبِیْتَنَّ لَیْلَۃً
بِفَجٍّ وَ حَوْلِی اِذْخِرٌ وَّ جَلِیْلُ
کاش مجھے معلوم ہو کہ آیا میں کوئی رات وادیٔ مکہ میں بسر کروں گا اور میرے ارد گرد اِذْخِر اور جَلِیل (مکہ کے گھاس) ہوں ۔ پھر آپؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپؐ کو ان اصحاب کے قول بتائے۔ بتایا کہ حضرت ابو بکر نے یہ کہا، عامر بن فُہَیْرَۃ نے یہ کہا، حضرت بلال نے یہ کہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا اور یہ دعا فرمائی
اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَاالْمَدِیْنَۃکَمَاحَبَّبْتَ اِلَیْنَامَکَّۃَ اَوْ اَشَدَّ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِھَا وَ فِیْ مُدِّھَا وَانْقُلْ وَبَاءَھَا اِلَی مَھَیْعَۃَ ۔
اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ تُو نے مکہ کو ہمارے لئے محبوب بنایا تھا یا اس سے بھی بڑھ کر۔ اے اللہ ہمارے لئے اس کے صاع میں اور اس کے مدّ میں (یہ دو وزن کے پیمانے ہیں ) برکت ڈال دے اور مدینہ کو ہمارے لئے صحت مند مقام بنا دے اور اس کی وباء کو مَھَیْعَہ مقام کی طرف منتقل کر دے یعنی ہم سے دور لے جا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 10 صفحہ 101-102 حدیث 25092مسند عائشہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2008ء)
حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ بئرِ معونہ کے واقعہ میں شہید ہوئے تھے۔ جب وہ لوگ بئرِ معونہ میں قتل کئے گئے اور حضرت عَمْرِو بن اُمَیَّہ ضَمَرَیْ قید کئے گئے تو عَامِر بن طُفَیل نے ان سے پوچھا یہ کون ہے؟ اور اس نے ایک مقتول کی طرف اشارہ کیا تو عمرو بن امیہ نے جواب دیا کہ یہ عامر بن فُہَیْرَۃ ہے۔ عَامِر بن طُفَیل نے کہا کہ میں نے دیکھا یعنی عامر بن فُہَیْرَۃ کو دیکھا کہ وہ قتل کئے جانے کے بعد آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں یہاں تک کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آسمان ان کے اور زمین کے درمیان ہے۔ پھر وہ زمین پر اتارے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خبر پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کئے جانے کی خبر صحابہ کو دی اور فرمایا تمہارے ساتھی شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے ربّ سے دعا کی ہے کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو بتا کہ ہم تجھ سے خوش ہو گئے اور تُو ہم سے خوش ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بتا دیا۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ الرجیع … الخ حدیث 4093) یہ بھی بخاری کی روایت ہے۔ غیر کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا دیا جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تھی۔
حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ کو کس نے شہید کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؓ کو عَامِر بن طُفَیل نے شہید کیا، جس نے یہ بات بیان کی ہے۔ (استیعاب جلد 2 صفحہ 796 عامر بن فھیرہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
عامر بن طفیل نے ہی پوچھا تھا نہ کہ کس نے شہید کیا تھا۔ یہ دشمنوں میں سے تھا۔ اور جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جَبَّار بن سَلْمِی نے شہید کیا تھا۔ بہرحال بئرِ معونہ کے وقت یہ شہید ہوئے تھے۔(استیعاب جلد 1 صفحہ 229-230 جبار بن سلمیؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت مصلح موعودؓ حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ کے شہادت کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’چنانچہ دیکھ لو اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ فتح پائی ہے جو دلوں میں اتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ میں اس قوم میں مہمان ٹھہرا ہوا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستر قاری شہید کر دئے تھے۔ جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اور کچھ ان کے مقابلے میں کھڑے رہے۔ چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان۔ اس لئے انہوں نے ایک ایک کر کے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کا نام عامر بن فُہَیْرَۃ تھا۔ بہت سے لوگوں نے مل کر اُن کو پکڑ لیا اور ایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینے میں مارا۔ نیزے کا لگنا تھا کہ ان کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کعبہ کے ربّ کی قَسم! میں کامیاب ہو گیا۔ جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا۔‘‘ یعنی حملہ کرنے والوں کے ساتھیوں میں سے وہی صحابی وہی جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ’’جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو میں حیران ہوا اور میں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے دور، اپنے بیوی بچوں سے دور اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہوا اور نیزہ اس کے سینہ میں مارا گیا مگر اس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ ’’کعبہ کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ کیا یہ شخص پاگل تو نہیں ؟ چنانچہ میں نے بعض اور لوگوں سے پوچھا یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا؟ انہوں نے کہا کہ تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں ۔ جب یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی۔‘‘ یہ کہتے ہیں کہ ’’میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا۔ چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دور ہے۔ اس کا کوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔‘‘ جب یہ شخص اس حملے کے بعد مسلمان ہوا تھا تو ’’اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ کے الفاظ پر پہنچتا تو اس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تو‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے زور سے نہیں ۔‘‘ (ماخوذ ازسیر روحانی، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 251-250)
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عامر بن فُہَیْرَۃ کی شہادت کے وقت آپؓ کے منہ سے جو الفاظ نکلے ان میں فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ اور فُزْتُ وَاللّٰہِ دونوں الفاظ ملتے ہیں ۔ دونوں روایتیں ہیں اور یہ الفاظ اَور صحابہ کے منہ سے بھی نکلے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے اور کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے۔ اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سکھ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا۔ مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وسط عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں حَرَام بن مِلْحَان اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس عَامِر بن طُفَیل کے پاس گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے۔ شروع میں تو عَامِر بن طُفَیل اور ان کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حرام بن مِلْحَان پر پیچھے سے نیزے کا وار کیا اور وہ گر گئے۔ گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اَللہُ اَکْبَر۔ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی مجھے کعبہ کے رب کی قَسم! مَیں نجات پا گیا۔ پھر ان شریروں نے باقی صحابہ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام عامر بنفُہَیْرَۃ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکر آتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فُہَیْرَۃ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا فُزْتُ وَاللہِ۔ یعنی خدا کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں ۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہؓ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔‘‘ (ایک آیت کی پُر معارف تفسیر، انوار العلوم جلد 18 صفحہ613-612)
پس بڑے خوش قسمت تھے وہ لوگ اور خاص طور پر عامر بن فُہَیْرَۃ جن کو حضرت ابوبکرؓ کی خدمت کا بھی موقع ملا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع ملا اور آپؐ کے ساتھ ہجرت کا بھی موقع ملا اور پھر یہ کہ غار ثور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا وغیرہ خوراک مہیا کرنے یا اس زمانے میں خوراک تو بکری کا وہ دودھ تھا، دودھ پہنچانے کے لئے ان کو مقرر کیا گیا اور یہ باقاعدگی سے تین دن وہاں بکری لے جاتے رہے اور بکری کا دودھ وہاں پہنچاتے رہے۔ پھر ان کو یہ بھی موقع ملا کہ سُرَاقہ کو امن کی تحریر انہوں نے لکھ کر دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر تھی۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شہادت کی خبر بھی ان کی دعا سے دُور بیٹھے ہوئے ملی۔ تو یہ وفا کے پتلے تھے جنہوں نے ہر موقع پر وفا دکھائی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔