حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام زمانہ جاہلیت میں عَبدِ عَمْرو تھا اور دوسری روایت کے مطابق عَبْدُالْکَعْبَہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ دیا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو زُہرہ بن کِلَاب سے تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 92 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
سَہْلَہ بنت عاصِم بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ سفید، خوبصورت آنکھوں والے، لمبی پلکوں، لمبے ناک والے تھے۔ سامنے کے اوپر والے دانت میں سے کچلی والے دانت لمبے تھے۔ کانوں کے نیچے تک بال تھے۔ گردن لمبی، ہتھیلیاں مضبوط اور انگلیاں موٹی تھیں۔ (الاستیعاب جلد 2 صفحہ 847 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الجیل بیروت)
اِبراہیم بن سَعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ دراز قد، سفید رنگ جس میں سرخی کی آمیزش تھی، خوبرو، نرم جلد والے تھے۔ خضاب نہیں لگاتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاؤں سے لنگڑے تھے۔ آپؓ کی یہ لنگڑاہٹ اُحُد کے بعد ہوئی کیونکہ اُحُد کے میدان میں راہ حق میں زخمی ہوئے تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 292 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ان دس اصحاب میں شامل تھے جن کو ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی۔ آپؓ ان اصحابِ شوریٰ کے چھ افراد میں سے ایک ہیں جن کوحضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لیے مقرر فرمایااور ان افراد کے بارے میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت ان سب سے راضی تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 290 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ عَامُ الفِیل کے دس سال بعد پیدا ہوئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ان قلیل افراد میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ابتدائی آٹھ اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دارِ ارقم کو تبلیغی مرکز بنایا تو آپؓ اس سے بھی پہلے حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے اسلام قبول کر چکے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ حبشہ کی طرف جانے والی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے۔ (ماخوذ از روشن ستارے صفحہ 103-104) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 92 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ بیان کرتے ہیں جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سَعْد بِن رَبیعؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ تو سَعْد بِن رَبیعؓ نے کہا کہ مَیں انصار میں سے زیادہ مالدار ہوں۔ (یہ روایت سَعْد بِن رَبیعؓ کے ذکر میں بھی آ چکی ہے لیکن بہرحال یہاں بھی ذکر کرتا ہوں۔) سو میں تقسیم کر کے نصف مال آپ کو دے دیتا ہوں اور میری دو بیویوں میں سے جو آپ پسند کریں میں آپ کے لیے اس سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے آپ نکاح کر لیں۔ یہ سن کر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کے اہل اور مال میں آپؓ کے لیے برکت رکھ دے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا یہاں کوئی بازار ہے جس میں تجارت ہوتی ہو۔ حضرت سعدؓ نے بتایا کہ قَیْنُقَاع کا بازار ہے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ یہ معلوم کر کے صبح سویرے وہاں گئے۔ وہاں کاروبار کیا اور انہوں نے وہاں پنیر اور گھی منافع کے طور پر بچایا اور اسے لے کر حضرت سعدؓ کے گھر والوں کے پاس واپس پہنچے۔ پھر اسی طرح ہر صبح آپؓ وہاں بازار میں جاتے اور کاروبار کرتے رہے اور منافع کماتے رہے۔ ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ آئے اور ان پر زعفران کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کس سے؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی ایک عورت سے۔ فرمایا کتنا مہر دیا ہے؟ عرض کیا ایک گٹھلی کے برابر سونا یاکہا سونے کی گٹھلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولیمہ بھی کرو خواہ ایک بکری کا ہی سہی۔ (صحیح البخاری کتاب البیوع باب وقول اللّٰہ تعالیٰ واحل اللّٰہ البیع الخ حدیث 2048-2049)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے آپ کو اس حالت میں بھی دیکھا کہ اگر میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا تو امید کرتاکہ نیچے سونا یا چاندی ملے گی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت میں اتنی برکت رکھ دی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 93 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ غزوۂ بدر، اُحد سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 95 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
جنگِ بدر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ مَیں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں چھوٹی ہیں۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہوتا جو ان سے زیادہ جوان اور تنو مند ہوتے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا ہاں بھتیجے !تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ سے اس کی آنکھ جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدّر ہے۔ مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا۔ حضرت عبدالرحمٰن کہتے ہیں پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا۔ ابھی تھوڑا عرصہ گذرا ہو گا کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا۔ میں نے کہا دیکھو یہ ہے تمہارا وہ ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اسے اتنا مارا کہ اس کو جان سے مار ڈالا اور پھر لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے۔ دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیاتم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے تلواروں کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے۔ اس کا سامانِ غنیمت مُعَاذ بن عَمْرو بن جَمُوْح کو ملے گا اور ان دونوں کا نام مُعَاذ تھا۔ مُعَاذ بن عَفْراء اور مُعَاذ بن عَمْرِو بن جَمُوْح۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
ابوجہل کے قتل کے سلسلہ میں یہ وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے۔ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ بعض روایات میں ہے کہ عَفراء کے دو بیٹوں مُعَوِّذؓ اور مُعَاذؓ نے ابو جہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا اور بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ امام ابنِ حَجَر نے اس احتمال کا اظہارکیا ہے کہ مُعَاذ بن عَمْرو اور مُعَاذ بن عَفْراء کے بعد مُعَوِّذ بِن عَفْراء نے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔ یہ بھی شرحِ بخاری فتح الباری میں لکھا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب حدیث 3141، کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3961-3962) (فتح الباری شرح صحیح بخاری جزء 7 صفحہ 295-296المکتبۃ السلفیۃ)
اس واقعے کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ابوجہل جو مکہ کے تمام گھرانوں کا سردار اور کفار کی فوج کا کمانڈر تھا جب بدر کی جنگ کے موقعے پر وہ فوج کی ترتیب کر رہا تھا حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ جیسا تجربہ کار جرنیل کہتا ہے کہ میں نے اپنے دائیں بائیں دو انصاری لڑکوں کو دیکھا جو پندرہ پندرہ سال کی عمر کے تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر کہا آج دل کی حسرتیں نکالنے کا موقع نہیں۔ بدقسمتی سے میرے ارد گردناتجربہ کار بچے اور وہ بھی انصاری بچے کھڑے ہیں جن کو جنگ سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ مَیں اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ دائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی۔ مَیں نے سمجھا کہ دائیں طرف کا بچہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور میں نے اس کی طرف اپنا منہ موڑا۔ اس نے کہا چچا ذرا جھک کر بات سنو۔ میں آپ کے کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں تا کہ میرا ساتھی اس بات کو سن نہ لے۔ وہ کہتے ہیں جب مَیں نے اپنا کان اس کی طرف جھکایا تو اس نے کہا چچا وہ ابوجہل کون سا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر دکھ دیا کرتا تھا۔ چچا میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں اس کو ماروں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس کی یہ بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ میرے بائیں پہلو میں کہنی لگی اور مَیں اپنے بائیں طرف کے بچہ کی طرف جھک گیااور اس بائیں طرف والے بچہ نے بھی یہی کہا کہ چچا وہ ابوجہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا دکھ دیا کرتا تھا؟ میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اس کو ماروں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ ابوجہل جو فوج کا کمانڈر تھا، جو تجربہ کار سپاہیوں کے حلقہ میں کھڑا تھا اس کو میں مار سکتا ہوں۔ میں نے انگلی اٹھائی اور ایک ہی وقت میں ان دونوں لڑکوں کو بتایا کہ وہ سامنے جو شخص خود پہنے زرہ میں چھپا ہوا کھڑا ہے جس کے سامنے مضبوط اور بہادر جرنیل ننگی تلواریں اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں وہ ابوجہل ہے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ میں ان کو بتاؤں کہ تمہارے جیسے ناتجربہ کاربچوں کے اختیارسے یہ بات باہر ہے مگر وہ، (عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ) میری وہ انگلی جو اشارہ کر رہی تھی ابھی نیچے نہیں جھکی تھی کہ جیسے باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے اسی طرح وہ دونوں انصاری بچے کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے ابوجہل کی طرف دوڑنا شروع ہوئے۔ ابوجہل کے آگے عکرمہ اس کا بیٹا کھڑا تھا جو بڑا بہادر اور تجربہ کار جرنیل تھا مگر یہ انصاری بچے اس تیزی سے گئے کہ کسی کووہم و گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ کس مقصد کے لیے یہ آگے بڑھے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ابوجہل پر حملہ کرنے کے لیے کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے عین پہرہ داروں تک جا پہنچے۔ ننگی تلواریں اپنے ہاتھ میں لیے جو پہرے دار کھڑے تھے وہ وقت پر اپنی تلواریں بھی نیچے نہ لا سکے۔ صرف ایک پہرے دار کی تلوار نیچے جھک سکی اور ایک انصاری لڑکے کا بازو کٹ گیا مگر جن کو جان دینا آسان معلوم ہوتا تھا ان کے لیے بازو کا کٹنا کیا روک بن سکتا تھا۔ جس طرح پہاڑ پر سے پتھر گرتا ہے اسی طرح وہ دونوں لڑکے پہرہ داروں پر دباؤ ڈالتے ہوئے ابوجہل پر جا گرے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کفار کے کمانڈر کو جا گرایا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں جنگ کے آخری وقت میں وہاں پہنچا جہاں ابوجہل جان کندنی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا سناؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا مر رہا ہوں۔ پر حسرت سے مر رہا ہوں کیونکہ مرنا تو کوئی بڑی بات نہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ دل کی حسرت نکالنے سے پہلے انصار کے دو چھوکروں نے مجھے مار گرایا۔ مکہ کے لوگ انصار کو بہت حقیر سمجھا کرتے تھے۔ اس لیے اس نے افسوس کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور کہا یہی حسرت ہے جو اپنے دل میں لیے مر رہا ہوں کہ انصار کے دو چھوکروں نے مجھے مار ڈالا۔ پھر وہ ان سے کہنے لگا میں اس قدر شدید تکلیف میں ہوں۔ عبداللہ بن مسعود کو ابوجہل نے کہا کہ میں بڑی شدید تکلیف میں ہوں۔ کیا تم مجھ پر، میرے پر ایک احسان کروگے۔ اگر تلوار کے ایک وار سے میرا خاتمہ کر دو مگر دیکھنامیری گردن ذرا لمبی کاٹنا کہ جرنیل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی گردن لمبی کاٹی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کی یہ بات تو مان لی کہ مجھے قتل کر دو اور اس دکھ سے بچا لو مگر انہوں نے ٹھوڑی کے پاس سے اس کی گردن کوکاٹا۔ گویا مرتے وقت اس کی یہ حسرت بھی پوری نہ ہوئی کہ اس کی گردن لمبی کاٹی جائے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 100-101)
حضرت مصلح موعودؓ نے قربانیوں کے ضمن میں یہ ذکر، یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح بچوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت تھی اور کس طرح آپؐ کے دشمن سے وہ بدلہ لینا چاہتے تھے۔
یہ واقعہ پہلے بھی ایک دو دفعہ بیان ہو چکا ہے لیکن بہرحال یہ قربانیاں تھیں، یہ محبت تھی اور ان سب کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عشق تھا جس کی وجہ سے ان کو اپنی جانوں کی پروا نہیں تھی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا باقی ذکر جو ہے ان شاء اللہ آئندہ کروں گا۔
گذشتہ خطبے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ذکر ہو رہا تھا اور اس کا کچھ حصہ رہ گیا تھا جو آج مَیں بیان کروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے اُمَیَّہ بن خَلَف کے ساتھ پرانے دوستانہ تعلقات تھے۔ اس کی بابت ایک تفصیلی واقعہ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے جس میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے امیہ بن خلف کو خط لکھا کہ وہ مکے میں میرے مال اور جائیداد کی حفاظت کرے اور مَیں اس کے مال و اسباب کی مدینہ میں حفاظت کروں گا۔ جب مَیں نے اپنا نام عبدالرحمٰن لکھا تو امیہ نے کہا کہ مَیں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا۔ تم مجھے اپنا وہ نام بتاؤ، وہ نام لکھو جو جاہلیت میں تھا۔ کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے اپنا نام عبدِعمرو لکھا۔ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو مَیں ایک پہاڑی کی طرف نکل گیا جبکہ لوگ سو چکے تھے تا مَیں اس کی حفاظت کروں تو بلالؓ نے اسے کہیں دیکھ لیا چنانچہ حضرت بلالؓ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ امیہ بن خلف ہے۔ اگر یہ بچ نکلا تو میری خیر نہیں۔ اس پر حضرت بلالؓ کے کچھ لوگ ہمارے یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور امیہ بن خَلَف کے تعاقب میں نکلے کیونکہ یہ اس کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پناہ میں لینے کے لیے نکلے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں ڈرا کہ وہ ہمیں پا لیں گے۔ ہمیں پکڑ لیں گے اس لیے مَیں نے اس کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے ساتھ لڑائی میں مشغول ہو جائیں یعنی بیٹے کے ساتھ وہ مسلمان لوگ جو پیچھے آ رہے تھے لڑائی میں مشغول ہو جائیں اور ہم ذرا آگے نکل جائیں۔ مَیں ان کو محفوظ جگہ پر لے جاؤں۔ چنانچہ انہوں نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بیٹے کو ان لوگوں نے مار ڈالا۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے میرا داؤ کارگر نہ ہونے دیا اور ہمارا پیچھا کیا۔ امیہ چونکہ بھاری بھرکم آدمی تھا اس لیے جلدی ادھر ادھر نہ ہو سکا۔ آخر جب انہوں نے ہمیں پا لیا تو مَیں نے اسے کہا بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ مَیں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ ان میں سے ایک کی تلوار سے میرے پاؤں پر بھی زخم آ گیا۔ (صحیح البخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وکل المسلم حربیا فی دار الحرب حدیث 2301)
تاریخ طبری میں اس کی مزید تفصیل یوں بیان ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مکّے میں امیہ بن خلف میرا دوست تھا۔ اس وقت میرا نام عبدعمرو تھا۔ مکّہ ہی میں جب مَیں اسلام لایا تو میرا نام عبدالرحمٰن رکھا گیا۔ اس کے بعد وہیں جب کبھی وہ مجھ سے ملتا تو کہتا اے عبد عمرو !کیا تم اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام سے اعراض کرتے ہو؟ مَیں کہتا ہاں۔ اس پر وہ کہتا مگر مَیں رحمٰن کو نہیں جانتا۔ مناسب یہ ہے کہ کوئی اَور نام تجویز کرو اس سے مَیں تمہیں مخاطب کروں گا کیونکہ اپنے سابق نام پر تم مجھے جواب نہیں دیتے اور جس بات سے مَیں ناواقف ہوں اس کے نام کے ساتھ مَیں تمہیں نہیں پکاروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ جب وہ مجھے‘اے عبد عمرو!’کہہ کر پکارتا تو مَیں اسے جواب نہیں دیتا تھا۔ مَیں نے کہا کہ اے ابوعلی! اس کے متعلق تم جو چاہو مقرر کر دو۔ یہ جو ہے یہ پرانا نام ہے تو مَیں اس کا جواب نہیں دوں گا۔ اس نے کہا اچھا تمہارا نام عبدِالٰہ بہتر ہو گا۔ مَیں نے کہا اچھا۔ چنانچہ اس کے بعد جب مَیں اور وہ ملتے تو وہ مجھے عبدِالٰہ کے نام سے پکارتا۔ مَیں اسے جواب دیتا اور اس سے باتیں کرتا یہاں تک کہ بدر کا دن آگیا۔ مَیں امیہ کے پاس سے گزرا۔ وہ اپنے بیٹے علی بن امیہ کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ میرے پاس کئی زرہیں تھیں جنہیں مَیں نے حاصل کیا تھا۔ مَیں ان کو لیے جا رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر آواز دی کہ اے عبدعمرو! مَیں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تب اس نے کہا اے عبدِالٰہ! مَیں نے کہا ہاں کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کیا مَیں تمہارے لیے ان زِرہوں سے جن کو تم لیے جا رہے ہو زیادہ بہتر نہیں ہوں؟ مَیں نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو آ جاؤ۔ مَیں نے زِرہیں وہاں پھینک دیں یعنی اسے پناہ دینے کے لیے اور اس کا اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا آج کے جیسا دن میرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ جیسا کہ آج دن گزرا ہے مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ مَیں ان دونوں کو ساتھ لے کر چل دیا۔ مَیں باپ بیٹے کے بیچ میں ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے چلا جا رہا تھا۔ امیہ نے مجھ سے پوچھا کہ اے عبدِالٰہ ! تم میں وہ کون ہے جس کے سینے پر شتر مرغ کا پَر بطور نشان آویزاں تھا۔ مَیں نے کہا وہ حمزہ بن عبدالمطلبؓ ہے۔ اس نے کہا ہماری یہ حالت اسی کی بدولت ہے۔ یہ جو ہمارا بُرا حال ہوا ہے اس کی بدولت ہے۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں ان کو لیے چلا جا رہا تھا کہ بلالؓ نے اسے میرے ہمراہ دیکھ لیا۔ یہ امیہ مکّے میں حضرت بلالؓ کو اذیتیں دیتا تھا تا کہ وہ اسلام ترک کر دیں۔ وہ ان کو مکےکی صاف چٹان پر جب وہ دھوپ سے خوب تپ جاتی لے جاتا اور اس پر ان کو پیٹھ کے بل لٹا دیتا۔ پھر ایک بڑے پتھر کے متعلق حکم دیتا جس پر وہ پتھران کے سینے پر رکھ دیا جاتا اور پھر کہتا کہ جب تک تو محمدؐ کے دین کو ترک نہیں کرے گا تجھے سزا ملتی رہے گی مگر باوجود اس عذاب کے بلال یہی کہتے‘اَحَد، اَحَد’۔ یعنی وہ ایک ہے، وہ ایک ہے۔ اس لیے اب جب اس کی نظر اس پر پڑی یعنی حضرت بلالؓ کی امیہ پر جب نظر پڑی تو کہنے لگے کہ امیہ بن خَلَف کفر کا سرغنہ ہے۔ مَیں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اے بلال !یہ دونوں میرے قیدی ہیں۔ بلالؓ نے پھر کہا مَیں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا اے ابن سَوداء! تم سنتے ہو۔ بلال نے پھر کہا میں نجات نہ پاؤں اگر یہ بچ جائے۔ پھر حضرت بلالؓ نے نہایت زور سے چِلّا کر کہا اے اللہ کے انصار! یہ کفار کا سرغنہ امیہ بن خلف ہے۔ میں ہلاک ہو جاؤں اگر یہ بچ جائے۔ ان کی اس آواز پر لوگوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا اور قید سا کر لیا۔ میں اسے بچانے لگا۔ ایک شخص نے اس کے بیٹے پر تلوار ماری اور وہ گر پڑا۔ اس وقت امیہ نے اس زور سے چیخ ماری کہ میں نے اس جیسی کبھی نہیں سنی۔ میں نے کہا بھاگ جاؤ مگر بھاگ نہیں سکتے۔ اللہ کی قسم ! مَیں تیرے کسی کام نہیں آ سکتا۔ اتنے میں حملہ آوروں نے ان دونوں پر اپنی تلواروں سے حملہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کا کام تمام کر دیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ بلالؓ پر رحم کرے۔ میری زرہیں بھی گئیں اور قیدی کو انہوں نے زبردستی مجھ سے چھین لیا۔ (تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 35 باب ذکر وقعۃ بدر الکبری مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جنگِ اُحُد میں بھی شامل ہوئے۔ غزوہ احد کے دن جب لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 95 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
غزوۂ احد کے دن حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اکیس زخم آئے اور پاؤں میں ایسا زخم آیا کہ آپؓ لنگڑا کر چلتے تھے اور سامنے کے دو دانت بھی شہید ہوئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء3 صفحہ 476 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان چھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی قیادت میں سات سو آدمیوں کو دُوْمَۃُ الْجَندل کی طرف بھیجا۔ اپنے دست مبارک سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ رنگ کا عمامہ ان کے سر پر باندھا جس کا شملہ ان کے کندھوں کے درمیان رکھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا ابو محمد! مجھے دُوْمَۃُ الْجَندل کی طرف سے تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ وہاں مدینے پر حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع ہو رہا ہے۔ تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ادھر روانہ ہو جاؤ۔ سات سو مجاہد تمہارے ساتھ جائیں گے۔ دُوْمَۃُ الْجَندل پہنچ کر وہاں کے سردار اور اس کے قبیلہ کلب کو پہلے اسلام کی دعوت دینا لیکن اگر لڑائی کی نوبت آئے تو دیکھنا کسی کو دھوکا نہ دینا۔ خیانت اور بدعہدی نہ کرنا۔ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور خدا کے باغیوں سے دنیا کو پاک کر دینا۔ ان احتیاطوں کے ساتھ پھر جنگ کی اجازت ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے دُوْمَہ پہنچ کر ان کو تین دن تک اسلام کی دعوت دی۔ وہ تین دن تک انکار کرتے رہے۔ پھر اَصْبَغْ بِنْ عَمْرْو کَلْبِی جو عیسائی تھا اور ان کا سردار تھا اس نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال لکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس سردار کی بیٹی تُمَاضِرْ سے شادی کر لو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اس سے شادی کی اور اس کے ہمراہ مدینہ واپس آئے۔ تُمَاضِرْبعد میں اُمِّ اَبُو سَلَمَہ کہلائیں۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 106) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ96 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت) (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 875البدر پبلیکیشنز لاہور)
عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ چودہ ہجری میں جنگ جِسْر کے موقعےپر حضرت عمرؓ کو جب حضرت اَبُو عُبَید بن مسعودؓ کی شہادت کی اطلاع ملی۔ یہ جو جنگِ جِسر ہے پہلے بھی یہ بیان ہو چکا ہے۔ فارسیوں کے ایک ہاتھی نے ان کو کچل دیا تھا۔ بہرحال جب اطلاع ملی اور معلوم ہوا کہ اہل فارس نے آلِ کسریٰ میں سے ایک شخص کو تلاش کر کے اپنا بادشاہ بنایا ہے تو آپؓ نے مہاجرین اور انصار کو دعوتِ جہاد دی اور مدینہ سے روانہ ہو کر صِرَارْ مقام پر قیام کیا۔ صِرار مدینہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ یہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عراق کے راستے پر واقع ایک جگہ ہے۔ بہرحال وہاں آپؓ نے قیام کیا اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو آگے روانہ کیا تا کہ وہ اَعْوَصْ پہنچ جائیں۔ آپؓ نے مَیْمَنَہ یعنی فوج کا جو دایاں بازو تھا اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اور مَیْسَرَہ جو فوج کا بایاں بازو تھا اس پر زُبیر بن عوامؓ کو مقرر فرمایا اور حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر کر آئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مشورہ کیا۔ سب نے آپؓ کو فارس جانے کا مشورہ دیا۔ یہ قافلہ جب روانہ ہوا تھا تو صِرار آنے تک حضرت عمرؓ نے کسی سے مشورہ نہیں کیا تھا۔ یہاں پہنچ کر آپؓ نے مشورہ کیا۔ حضرت طلحہؓ واپس آئے تو وہ بھی ان لوگوں کے ہم خیال تھے۔ پہلے حضرت طلحہؓ وہاں نہیں تھے۔ جب واپس آئے تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے آگے جانا چاہیے۔ مگر حضرت عبدالرحمٰنؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپؓ کو جانے سے روکا اور روکنے کی وجہ بیان کرتے ہوئےحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ آج سے پہلے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان نہیں کیا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا کروں گا مگر آج کہتا ہوں کہ اے وہ کہ جس پر میرے ماں باپ فدا ہوں اس معاملے کا آخری فیصلہ آپؓ مجھ پر چھوڑ دیں۔ حضرت عمرؓ جو اس وقت خلیفہ تھے آپؓ نے ان کو یہ جواب دیا۔ آپؓ وہاں یعنی صِرَار کے مقام پر رک جائیں اور ایک بڑے لشکر کو روانہ فرما دیں۔ شروع سے لے کر اب تک آپؓ دیکھ چکے ہیں کہ آپؓ کے لشکروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ رہا ہے۔ اگر آپؓ کی فوج نے شکست کھائی تو وہ آپ کی شکست کی مانندنہ ہو گی۔ انہوں نے کہا، جواز پیش کیا کہ اگر ابتدا میں آپؓ قتل ہو گئے یا شکست کھا گئے تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر مسلمان کبھی تکبیر نہیں پڑھ سکیں گے اور نہ ہی لا الہ الا اللّٰہکی شہادت دے سکیں گے۔ اس وقت جب یہ ساری باتیں ہو رہی تھیں تو حضرت عمرؓ کسی شخص کی تلاش میں تھے جس کوفوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا جائے۔ اسی دوران ان کی خدمت میں، حضرت عمرؓ کی خدمت میں حضرت سعدؓ کا خط آیا۔ حضرت سعدؓ اس وقت نجد کے صدقات پر مامور تھے۔ حضرت عمرؓ نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی باتیں سن کے فرمایا اچھا پھر مجھے کوئی آدمی بتلاؤ کس کو بنایا جائے؟ کس کے سپرد کیا جائے؟ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کہ آدمی تو آپ کو مل گیا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا وہ کون ہے؟ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کچھار کا شیر سعد بن مالکؓ۔ یعنی یہ بہت بہادر انسان ہے۔ بڑا اچھا کمانڈر ہے۔ اس کو کمانڈر بنا کے بھیجیں۔ باقی لوگوں نے بھی اس مشورے کی تائید کی۔ یہ بھی تاریخ طبری کا حوالہ ہے۔ (تاریخ الطبری جزء 3 صفحہ 381-382باب ذکر امر القادسیۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء) (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ287 سنۃ 13 ذکر وقعۃ قس الناطف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 172 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں مختلف قبیلوں اور صحابہ کو رہائش کے لیے جگہ عطا کی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے قبیلے کو مسجدنبویؐ کے عقب میں کھجوروں کے ایک جھنڈ میں رہائش کے لیے زمین عطا کی۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت عمرؓ کو بطور جاگیر بھی زمین عطا فرمائی۔ آلِ عمر سے یہ جاگیر پھر حضرت زبیرؓ نے خرید لی۔ حضرت عمرؓ کی اولاد سے پھر یہ جاگیر حضرت زبیرؓ نے خرید لی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے وعدہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب مسلمانوں کے ہاتھ پر شام فتح کرے گا تو تمہارے لیے فلاں حصہ زمین ہو گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب ملکِ شام میں اسلام کو فتوحات ملیں تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ان کی زمین دی گئی۔ اس علاقے کا نام سَلِیْل تھا جہاں انہیں زمین دینے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 105-106)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ سعادت بھی ملی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے نماز پڑھی۔ چنانچہ حضرت مُغِیرہؓ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے۔ حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے فجر کی نماز سے پہلے تشریف لے گئے۔ میں نے آپؐ کے ساتھ پانی کا مشکیزہ اٹھایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف واپس آئے جہاں میں فاصلے پہ کھڑا تھا تو میں مشکیزے سے آپؐ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا اور آپؐ نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرۂ مبارک دھویا۔ پھر آپؐ اپنے بازوؤں کو اپنے جبے سے باہر نکالنے لگے لیکن جبہ کی آستینیں تنگ تھیں اس لیے اپنے ہاتھ جبے کے اندر داخل کیے اور اپنے بازو ؤں کو جبے کے نیچے سے نکال کر کہنیوں تک دھوئے۔ پھر آپؐ نے اپنے موزوں پر مسح کر کے ان کو صاف کیا۔ پھر آگے چل پڑے۔ مغیرہؓ کہتے ہیں میں بھی آپؐ کے ساتھ آگے چلا یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو پایا کہ وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو آگے کر چکے تھے اور وہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو میں سے ایک رکعت پائی یعنی اس وقت تک فجر کی نماز کی ایک رکعت ہو چکی تھی۔ دوسری رکعت تھی صف میں کھڑے ہو گئے اور آپؐ نے دوسری رکعت لوگوں کے ساتھ پڑھی۔ جب عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے سلام پھیرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ دوسری رکعت جو رہ گئی تھی پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اس بات نے مسلمانوں میں گھبراہٹ پید اکر دی اور بکثرت تسبیح کرنے لگے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز ختم کر لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا یا یہ کہا کہ اچھا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اپنے وقت پر ادا کرنے کی وجہ سے ان پر رشک کا اظہار کیا کہ بہت اچھا کیا۔ حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ جب ہم پہنچے تھے تو اس وقت میں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت عبدالرحمٰن کو پیچھے کر دوں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رہنے دو۔ ان کو نماز پڑھانے دو۔ نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی اپنی زندگی میں امت کے کسی نیک آدمی کے پیچھے نماز ضرور پڑھتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم اذا تاخر الامام حدیث 274) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ95من بنی زھرۃ بن کلاب دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک اَور بڑا اعزاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بخشا۔ نہ صرف یہ کہا کہ بڑا اچھا ہے، نماز پڑھائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ نبی کا، میرا تمہارے پیچھے نماز پڑھنا اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ تم نیک آدمی ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ظہر سے پہلے لمبی نماز پڑھا کرتے تھے یعنی نفل پڑھا کرتے تھے۔ جب اذان سنتے تو فوراً نماز کے لیے تشریف لے آتے۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 107)
ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا عبدالرحمٰنؓ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور یہ دعا کر رہے ہیں کہ ’اللہ! مجھے نفس کے بخل سے بچائیو۔‘ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 110)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ جس سال حضرت عمرؓ خلیفہ منتخب ہوئے اس سال آپؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو امیر حج مقرر کیا تھا۔ (تاریخ الطبری جلد 3صفحہ379-380 باب ذکر ابتداء امر القادسیہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰنؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جوؤں کی کثرت کی شکایت لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ ! کیا آپؐ مجھے اجازت فرمائیں گے کہ میں ریشمی لباس پہن لوں۔ اس وقت کسی وجہ سے جوئیں پیدا ہو گئیں۔ سر میں شاید پیدا ہو گئی ہوں گی۔ عام جو سادہ کاٹن کا لباس ہے اس میں ختم نہیں ہو رہی تھیں تو اس وقت آپؓ نے اجازت لی کہ ریشمی لباس پہن لوں۔ اس سے ذرا بچت ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت عطا فرما دی کہ ٹھیک ہے پہن لیا کرو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ وفات پاگئے اور حضرت عمرؓ خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اپنے بیٹے ابو سلمہ کے ساتھ حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوئے۔ ابو سلمہ نے ریشمی قمیض پہن رکھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ کیا پہن رکھا ہے؟ پھر انہوں نے یعنی حضرت عمرؓ نے ابو سلمہ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر قمیض پھاڑ دی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت عنایت فرمائی تھی۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو اس لیے اجازت عطا فرمائی تھی کہ آپؓ نے ان کے حضور جوؤں کی شکایت کی تھی۔ یہ اجازت آپؓ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 96 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک چادر پہنا کرتے تھے یا کسی وقت ایک چادر پہنی ہوئی تھی جس کی قیمت چار یا پانچ سو درہم تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 97 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
یعنی ایسے حالات تھے کہ انتہائی قیمتی لباس بھی پہنتے تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھیں کہ جب ہجرت کی تو کچھ بھی پاس نہیں تھا لیکن اس کے بعد قیمتی ترین لباس بھی پہنا اور بے شمار جائیداد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پیدا کر دی۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مرض الموت کے وقت حضرت عمرؓ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیا تھا۔ جب آپؓ نے اس کا ارادہ کیا تھا اس وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو بلایا اور ان سے کہا کہ بتاؤ عمرؓ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اے خلیفۂ رسولؐ !وہ اَوروں کی بنسبت آپؓ کی رائے سے بھی افضل ہیں مگر ان کے مزاج میں ذرا شدّت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ یہ شدّت اس وجہ سے تھی کہ وہ مجھ کو نرم دیکھتے تھے۔ میں بہت نرم تھا اس لیے وہ ذرا شدّت دکھاتے تھے تا کہ معاملہ balancedرہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جب معاملہ ان کے سپرد ہو گا تو اس قسم کی اکثر باتیں وہ چھوڑ دیں گے۔ پھر اس میں شدّت نہیں دیکھو گے۔ پھر فرمایا اے ابومحمد! مَیں نے ان کو بغور دیکھا ہے کہ جس وقت کسی شخص پر کسی معاملے میں مَیں غضبناک ہوتا تھا یعنی حضرت ابوبکرؓ فرما رہے ہیں جب مجھے کسی بات پر غصہ آتا تھا تو عمر مجھ کو اسی پر راضی ہونے کا مشورہ دیتے تھے۔ اس وقت حضرت عمرؓ کا مشورہ نرمی کا ہوتا تھا۔ اور جب کبھی میں کسی پر نرم ہوتا تھا تو مجھ کو اس پر سختی کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اے ابومحمد! یہ باتیں جو مَیں نے تم سے کہی ہیں تم ان کا کسی اَور سے ذکر نہ کرنا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اچھا۔ (تاریخ الطبری جلد 3ذکر استخلافہ عمر بن خطاب صفحہ 352 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
فتح مکہ کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اطراف میں کچھ وفود بھیجے تو حضرت خالد بن ولیدؓ کو بنو جَذِیْمَہ کی طرف بھیجا۔ بنو جَذِیْمَہ نے جاہلیت میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے والد عوف اور حضرت خالد کے چچا فاکِۃْبن مغیرہ کا قتل کیا تھا۔ حضرت خالد سے وہاں غلطی سے اس قبیلے کےایک شخص کا قتل ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کا علم ہوا تو آپؐ نے ناپسند کیا۔ آپؐ نے اس کی دیت بھی ادا کی اور جو کچھ حضرت خالدؓ نے ان سے لیا تھا اس کی قیمت ادا کر دی۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو حضرت خالدؓ کے اس فعل کا علم ہوا تو حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت خالدؓ کو کہا کہ تم نے اس کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے تمہارے چچا کو قتل کیا تھا؟ حضرت خالدؓ نے جواب میں سختی سے کہا کہ انہوں نے تمہارے باپ کو بھی قتل کیا تھا۔ حضرت خالدؓ نے مزید کہا تم جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے تو تم ان دنوں کو بہت لمبا کرنا چاہتے ہو یعنی ان سے تم بڑا فائدہ اٹھانا چاہتے ہو۔ یعنی کہ تم ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہو اس لیے بڑا اعزاز سمجھتے ہو۔ اس وجہ سے مجھے یہ بات کہہ رہے ہو۔ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی کیونکہ حضرت خالدؓ نے ذرا غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا میرے اصحاب کو چھوڑ دو۔ قَسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو ان کے معمولی خرچ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان لوگوں کا یہ بہت بڑا مقام ہے۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 108-109) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 479 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ان ابتدائی صحابہ کی قربانیاں بہت زیادہ تھیں ان کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے سرداروں کے سردار ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عبدالرحمٰن آسمان میں بھی امین ہے اور زمین میں بھی امین ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 2 صفحہ 846 عبد الرحمٰن بن عوف دار الجیل بیروت)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک دفعہ اتنے سخت بیمار ہوئے کہ غشی طاری ہو گئی۔ ان کی اہلیہ کے منہ سے چیخ نکل گئی یعنی کافی بُری حالت ہو گئی تو اس غم کی حالت میں ان کی چیخ نکلی۔ بہرحال جب ان کو اس کے بعدصحت میں بہتری بھی آ گئی۔ طبیعت میں جب ان کو افاقہ ہوا تو کہنے لگے کہ مجھے جب غشی طاری ہوئی تھی تو میرے پاس دو شخص آئے۔ اس وقت جو نظارہ میں نے دیکھا کہ اس حالت میں دوشخص آئے اور انہوں نے کہا چلو غالب امین ذات کے سامنے تمہارا فیصلہ کراتے ہیں۔ تو ان دونوں کو ایک شخص اَور ملا، ایک تیسرا شخص ملا اور کہنے لگا اسے مت لے جاؤ کیونکہ یہ ماں کے پیٹ سے ہی سعادت مند ہے۔ یہ نظارہ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے اپنے بارے میں د یکھا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ291 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
نَوْفَل بن اِیَاس ھُذَلِی کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عَوفؓ ہماری مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہ بہترین ساتھی تھے۔ ایک دن وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ غسل کر کے باہر آئے اور ہمارے پاس ایک برتن لائے جس میں روٹی اور گوشت تھا۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ رونے لگے۔ ہم نے پوچھا ابومحمد! آپؓ کیوں رو رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اہل خانہ جَو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یعنی جَو کی روٹی بھی پوری طرح نہیں ملتی تھی۔ پھر فرمایا کہ مَیں نہیں سمجھتا کہ جس چیز کے لیے ہمیں تاخیر ملی وہ ہمارے لیے بہتر ہو۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ291 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
یعنی ہمیں جو اتنا عرصہ زندہ رہنے کا موقع ملا ہے یہ ہمارے لیے بہتر ہے یا کوئی ابتلا یا امتحان ہے۔ یہ تھے صحابہ کے جذبات۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کا خوف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والوں کے لیے جذبات کا اظہار۔ انہی جذبات کا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان سے تعلق نہیں تھا بلکہ صحابہ کے لیے بھی اس مثالی محبت کا یہ اظہار ہوتا تھا جو آپس میں صحابہ کو ایک دوسرے سے تھی۔ اسی ضمن میں ایک واقعہ آتا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے پاس ایک روز افطاری کے وقت کھانا لایا گیا۔ انواع و اقسام کے کھانے جب دستر خوان کی زینت بنے تو حضرت عبدالرحمٰنؓ نے ایک لقمہ اٹھایا۔ مختلف قسم کے کھانے آئے اور ایک لقمہ اس میں سے آپؓ نے کھانے کے لیے اٹھایا۔ جب لقمہ منہ میں ڈالا تو رقت طاری ہو گئی اور یہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اٹھا لیے کہ مصعب بن عُمیرؓ احد میں شہید ہوئے۔ وہ ہم سے بہتر تھے۔ ان کی چادر کا ہی کفن پہنایا گیا۔ یعنی کفن کے لیے کپڑا نہیں تھا تو جو چادر انہوں نے اوڑھی ہوئی تھی اسی کاکفن پہنایا گیا اور اس کفن کی کیا حالت تھی؟ اگر پاؤں ڈھانکتے تو سرننگا ہو جاتا تھا، سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن کہنے لگے کہ حمزہؓ شہید ہوئے۔ وہ بھی مجھ سے بہتر تھے لیکن ہمیں مالی فراخی اور دنیاوی آسائش عطا کی گئی اور ہمیں اس سے حصہ وافر ملا۔ مجھے ڈر ہے کہ ہماری نیکیوں کا اجرہمیں جلد اس دنیا میں مل گیا۔ اس کے بعد وہ رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔ یہ خوف تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خشیت تھی۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 111-112)
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ آئے اور کہا کہ اے میری ماں ! مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ انہوں نے جواب دیا بیٹا خرچ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو کوئی ہلاکت کا سوال نہیں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی کے بعد وہ دوبارہ مجھے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے یعنی بعض لوگ ایسے ہوں گے کہ اس مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمرؓ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کو یہ بات بتائی تو حضرت عمرؓ خود حضرت ام سلمہؓ کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتائیے کہ کیا میں ان میں سے ہوں؟ یہ جو آپؓ نے بتایاتھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھ سے نہیں ملیں گے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے مَیں ان میں سے ہوں؟ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا نہیں۔ حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ نہیں آپؓ ان میں سے نہیں ہیں لیکن آپؓ کے بعدمیں کسی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکیں گے یا نہیں۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء 2 صفحہ 848، 849 عبد الرحمٰن بن عوف دار الجیل بیروت)
یعنی کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ آپؐ کو ضرور دیکھیں گے لیکن یہ بھی واضح ہو جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تو ان لوگوں میں سے ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے جن کو جنت کی بشارت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی لیکن پھر بھی ان لوگوں میں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اتنی تھی کہ ہر وقت فکر میں رہتے تھے اور حضرت ام سلمہؓ کی یہ بات سن کے بھی آپؓ نے فوراً بہت زیادہ صدقہ و خیرات کی۔
ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ شام کی طرف نکلے یہاں تک کہ وہ سَرْغْ مقام پر پہنچے۔ سَرْغْ جو ہے وہ شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں واقع وادیٔ تبوک کی ایک بستی کا نام ہے جو مدینے سے تیرہ راتوں کی مسافت پر ہے۔ یعنی اس وقت جو سواریوں کا انتظام تھا ان کے ساتھ تیرہ راتیں مسلسل چلتے رہیں تو اس کی اتنی مسافت تھی۔ وہاں پہنچے تو آپؓ کی ملاقات فوجوں کے کمانڈر حضرت ابوعُبَیدہ بن الْجرَّاحؓ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ یہ واقعہ اٹھارہ ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شام کی فتوحات کے بعد کا ہے۔ ان لوگوں نے حضرت عمرؓ کو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے پاس مشورے کے لیے اولین مہاجرین کو بلاؤ۔ شروع کے جو مہاجرین ہیں ان کو بلاؤ۔ وہ کیا مشورہ دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی۔ بعض کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے یعنی سفر جاری رکھنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ واپس چلا جائے۔ حضرت عمرؓ نے مہاجرین کو بھجوا دیااور پھر انصار کو مشورے کے لیے بلایا۔ ان سے مشورہ لیا مگر انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا۔ کچھ نے کہا واپس چلے جائیں اور کچھ نے کہا آگے چلیں۔ حضرت عمرؓ نے انصار کو بھجوایااور پھر فرمایا: قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ۔ قریش کے اُن بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے۔ ان کو بلایا گیا انہوں نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں۔ کوئی ضرورت نہیں۔ وہاں وبا پھوٹی ہوئی ہے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ حضرت عمرؓ نے ان کا مشورہ مان کے لوگوں میں واپسی کا اعلان کروا دیا۔ حضرت ابوعُبیدہ بن جَرَّاحؓ نے اس موقعےپر سوال کیا‘کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے؟’آپؓ اس وبا کے ڈر سے واپس جا رہے ہیں تو یہ تو اللہ کی تقدیر ہے، بیماری پھیلی ہوئی ہے کیا آپؓ اس سے فرار ہو سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ اے ابوعبیدہ! کاش تمہارے علاوہ کسی اَور نے یہ بات کہی ہوتی۔ ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی ایک دوسری تقدیر کی طرف جاتے ہیں۔ پھر حضرت عمرؓ نے آگے ان کو اس کی مثال دی کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کیا ہے۔ مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں۔ ایک سرسبز ہو اور دوسرا خشک تو کیا ایسا نہیں کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سرسبز جگہ پر چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چراؤ تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہے۔ اب اللہ کی تقدیر نے تمہارے اوپر دو آپشن دے دیے ہیں ایک سبز چراگاہ ہے ایک جہاں بالکل خشک جگہ ہے، بنجر ہے، اکا دکا جھاڑیاں ہیں یا تھوڑا بہت گھاس ہے۔ اب تم کہہ دو کہ یہ سبزہ اپنی تقدیر سے اگا ہے اور یہ جو خشکی ہے وہ کسی اور تقدیر سے ہے۔ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیریں ہیں۔ اب تم نے فیصلہ کرنا ہے۔ کون سی بہتر آپشن لینی ہے۔ ظاہر ہے تم سرسبز جگہ پر چراؤ گے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ان کو یہ باتیں کہیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی آ گئے جو پہلے اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا آپ لوگوں سے مشورہ لے رہے ہیں میں بتاتا ہوں مجھے اس کا علم ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر مت نکلو۔ جہاں وبا پھوٹ پڑی ہے وہاں جانا نہیں اور جس علاقے میں رہتے ہو وہاں وبا ہے تو پھر وہاں سے اس وقت باہر نہ نکلو اور اپنے آپ کو وہیں رکھو تا کہ وہ مرض اور وبا جو ہے وہ باہر دوسرے لوگوں میں نہ پھیلے۔
آج کل لاک ڈاؤن میں دنیا اس پر جو عمل کر رہی ہے جنہوں نے وقت پہ کیا وہاں کافی حد تک اس کو محدود کر لیا۔ بیماری کو containکر لیا۔ جہاں نہیں کر سکے اور لاپروائی کی وہاں یہ پھیلتی جا رہی ہے۔ بہرحال یہ بنیادی نکتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں اپنے صحابہ کو بتا دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی اور واپس لَوٹ گئے۔ (صحیح بخاری کتاب الطب باب ما یُذکر فی الطاعون حدیث نمبر 5729)
حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطابؓ جب صحیح حالت میں تھے تو آپ سے درخواست کی جاتی کہ آپؓ کسی کو خلیفہ مقرر فرما دیں لیکن آپؓ انکار فرماتے۔ پھر ایک روز آپؓ منبر پر تشریف لائے اور چند باتیں کہیں اور فرمایا: اگر میں مر جاؤں تو تمہارا معاملہ ان چھ افراد کے ذمے ہو گا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں چھوڑا ہے جبکہ آپؐ ان سب سے راضی تھے۔ حضرت علی بن ابوطالبؓ اور آپؓ کے نظیر حضرت زُبیر بن العوامؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور آپؓ کے نظیر حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت طلحہ بن عُبَیداللہؓ اور آپؓ کے نظیر حضرت سعد بن مالکؓ۔ فرمایا خبردار ! مَیں تم سب کو فیصلہ کرنے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور تقسیم میں انصاف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ ابوجعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطابؓ نے شوریٰ کے اراکین سے کہا کہ اپنے معاملے میں آپس میں مشورہ کرو پھر اگر دو دو ہوں تو پھر دوبارہ مشورہ کرو اور اگر چار اور دو ہوں تو اکثریت کی تعداد کو اختیار کرو۔ زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر تین اور تین کی رائے متفق ہو جائے تو جس طرف حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں گے اس طرف کے لوگوں کی سنو اور اطاعت کرو۔
عبدالرحمٰن بن سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: صہیبؓ تم لوگوں کونماز پڑھائیں گے یعنی حضرت صہیبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا اور یہ بات آپؓ نے تین مرتبہ کہی۔ اپنے اس معاملے میں مشاورت کرو اور یہ معاملہ ان چھ افراد کے سپرد ہے۔ جو شخص تمہارے حکم میں تردّد کرے یعنی جو تمہاری مخالفت کرے تو اس کی گردن اڑا دو۔ اگلا حکم جو ہے جب ضرورت پڑے، جب انتخاب خلافت ہو تو ان چھ افراد پر ہو گا۔ اس وقت تک حضرت صہیبؓ جو ہیں وہ امامت کرواتے رہیں گے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے کچھ گھڑی قبل حضرت ابوطلحہ کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا اے ابوطلحہؓ ! تم اپنی قوم انصار میں سے پچاس افراد کو لے کر ان اصحابِ شوریٰ کے پاس چلے جاؤ اور انہیں تین دن تک نہ چھوڑنا یہاں تک کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر نہ منتخب کر لیں۔ اے اللہ ! تُو ان پر میرا خلیفہ ہے۔
اسحاق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہؓ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کچھ دیر حضرت عمرؓ کی قبر پر رکے۔ پھر اس کے بعد اصحابِ شوریٰ کے ساتھ رہے۔ پھر جب ان اصحابِ شوریٰ نے اپنا معاملہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد کر دیا کہ وہ اختیار رکھتے ہیں کہ جس کو بھی امیر مقرر کر دیں تو حضرت ابوطلحہؓ اپنے ساتھیوں سمیت اس وقت تک حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے گھر کے دروازے پر رہے جب تک کہ حضرت عثمانؓ کی بیعت نہ کی گئی۔
حضرت سلمہ بن ابو سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ پھر اس کے بعد حضرت علیؓ نے۔ حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام عمر بن عَمِیْرَہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔ پھر اس کے بعد سب لوگوں نے بیعت کی۔ (الطبقات الکبریٰ جزء3صفحہ44تا46ذکر الشوریٰ وماکان من امرھم، ذکر بیعۃ عثمان…، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1990ء)
بخاری کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نماز کے شروع میں ہی جب آپ نے اللہ اکبر کہا اور پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت زخمی حالت میں حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لیے آگے کر دیا، وہ قریب تھےاور اس وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے مختصر نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃ البیعۃ و الاتفاق علی عثمان بن عفان حدیث 3700)
حضرت مصلح موعوؓ د حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا کردار بیان کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں۔ پہلے دو روایتیں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک جگہ صرف یہ اختلاف ہے۔ باقی تو وہی باتیں ہیں۔ بہرحال حضرت مصلح موعوؓ د فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپؓ نے محسوس کیا کہ اب آپؓ کا آخری وقت قریب ہے تو آپؓ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپؓ نے اس مشورے میں شریک کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے حضرت صہیبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مِقداد بن اسوؓ د کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں۔ پچھلی روایتوں میں حضرت طلحہؓ کا ذکر آ رہا ہے لیکن آپؓ نے مختلف جگہ سے اپنا جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ مقداد بن اسود کے سپرد پہرہ کیا گیا تھا جب تک انتخاب خلافت ہو رہا ہے اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمرؓ ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔ اگر اس فیصلے پر راضی نہ ہوں تو جس طرف حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں وہ خلیفہ ہو۔ حضرت مصلح موعوؓ د کے مطابق حضرت طلحہؓ اس وقت مدینہ میں نہیں تھے۔ اس لیے پانچ افراد تھے۔ پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا مگر کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ آخر پانچ افرادنے مشورہ کیا۔ حضرت طلحہؓ کے علاوہ جو باقی پانچ افراد تھے انہوں نے مشورہ کیا۔ کوئی نتیجہ برآمدنہیں ہوا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کہا۔ پھر باقی دو نے۔ حضرت علیؓ خاموش رہے۔ آخر انہوں نےحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپرد ہو گیا۔ یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جو بھی فیصلہ کریں گے۔ کوئی رعایت نہیں، طرف داری نہیں ہو گی۔ جب عہد ہو گیا تو سارا کام حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تین دن مدینےکے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے۔ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظور ہے چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے۔ (ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15صفحہ 484-485)
اس مضمون کی ایک اَور روایت بھی ہے۔ وہ کافی لمبی ہے۔ باقی حصہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ذکر میں آئندہ بیان ہو گا تو اس کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی بعد میں علیحدہ بیان ہو جائے گی ان شاء اللہ۔ یا ہوسکتا ہے کہ وہ لمبی روایت جو میرے خیال میں حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ضمن میں ہے یا حضرت عمرؓ کی زندگی کے بارے میں ہے تو وہ وہاں بھی بیان ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس کے باوجود بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی زندگی کے واقعات کا، ان کی نیکیوں کا، ان کی سیرت کاکچھ حصہ ہے۔ وہ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں بیان ہو گا۔
گذشتہ خطبے میں بھی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ذکر کیا گیا تھا اور بقایا کچھ حصہ اس ذکر کا رہتا تھا جو آج بیان کروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی سخاوت بھی مشہور تھی اور مالی قربانیاں بھی انہوں نے بہت کیں۔ اس حوالہ سے آج اکثر حوالے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے وصیت کی تھی کہ جنگِ بدر میں شریک ہونے و الے ہر ایک کو چار سو دینار ان کے ترکہ میں سے دیے جائیں۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا اس وقت ان اصحاب کی تعداد سو تھی۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ293 عبد الرحمٰن بن عوف دار الفکربیروت1995ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرامؓ کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک بھی فرمائی۔ اس پر سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ آئے اور اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے تو انہوں نے عرض کیا نصف چھوڑ کر آیا ہوں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک سو اَوقیہ دیے۔ ایک اَوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ یعنی تقریباً چار ہزار درہم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے دو خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 184 غزوہ تبوک مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (لغات الحدیث جلد 4 صفحہ527زیر لفظ “اوقیہ”)
حضرت ام بکر بنت مِسْوَؓ ر روایت کرتی ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ سے ایک زمین چالیس ہزار دینار کے عوض خریدی اور بنو زُہْرَہ کے غرباء اور ضرورت مندوں اور امہات المومنین میں تقسیم فرما دی۔ مِسْوَر بن مَخْرَمہ کہتے ہیں کہ جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس زمین میں سے ان کا حصہ دیا تو حضرت عائشہؓ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے۔ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد تم سے حسن سلوک وہی کرے گا جو نہایت درجہ صبر کرنے والا ہو گا۔ پھر آپؓ نے دعا دی کہ اے اللہ ! عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو جنت کے چشمہ سلسبیل کا مشروب پلا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 98 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (روشن ستارےاز غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 119)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد میرے اہل خانہ کی خبرگیری کرنے والا شخص سچا اور نیکو کار ہی ہو گا۔ چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ امہات المومنینؓ کو ان کی سواریوں سمیت لے کر نکلتے۔ انہیں حج کراتے اور ان کے کجاووں پر پردے ڈالتے اور پڑاؤ کے لیے ایسی گھاٹیاں منتخب کرتے جن میں گزرگاہ نہ ہوتی تا کہ بے پردگی نہ ہو اور آزادی سے وہ پڑاؤ کر سکیں۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ292 عبد الرحمٰن بن عوف دار الفکربیروت1995ء)
ایک بار مدینے میں اجناس خوردنی کا قحط تھا۔ اسی اثنا میں شام سے سات سو اونٹوں پر مشتمل گندم، آٹا اور خوردنی اشیاء کا قافلہ مدینہ آیا جس سے مدینے میں ہر طرف شور مچ گیا۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا یہ شور کیسا ہے؟عرض کیا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا سات سو اونٹوں کا قافلہ آیا ہے جس پر گندم آٹا اور کھانے کی اشیاء لدی ہوئی ہیں۔ امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپؐ فرماتے تھے کہ عبدالرحمٰنؓ جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہو گا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی یہ روایت جب حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو پہنچی تو وہ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے ماں ! مَیں آپؓ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ یہ سارا غلہ اور خوردنی اشیاء اور یہ سب بار دانہ اور اونٹوں کے پالان تک میں نے راہِ خدا میں دے دیے تا کہ میں چل کر جنت میں جاؤں۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ478 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 110-111)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے انفاق فی سبیل اللہ کے بیشتر واقعات صحابہ کے حالات مدوّن کرنے والوں نے جمع کیے ہیں۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے تھے۔ ایک بار انہوں نے ایک دن میں تیس غلام آزاد کیے۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 110)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کو کچھ روپے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے قرض مانگا۔ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! آپؓ مجھ سے ہی کیوں مانگتے ہیں۔ آپؓ بیت المال سے بھی قرض لے سکتے ہیں اور عثمانؓ یا کسی اَور صاحبِ استطاعت سے بھی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ایسا اس لیے کرتا ہوں کہ شاید بیت المال کو رقم واپس کرنا بھول جاؤں اور کسی دوسرے سے لوں تو شاید وہ لحاظ یا کسی اَور وجہ سے مجھ سے رقم کی واپسی کا مطالبہ نہ کرے اور مَیں بھول جاؤں لیکن تم اپنی رقم مجھ سے مانگ کر بھی ضرورواپس لے لو گے۔ (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 882 البدر پبلیکشنز لاہور) آپس میں بے تکلفی کی یہ حالت تھی اور جب ان کو ضرورت ہوتی تو وہ لے بھی لیا کرتے تھے، لے سکتے تھے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے بیٹے ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابنِ عوف! تم جنت میں رینگتے ہوئے داخل ہوگے کیونکہ مالدار ہو۔ پس راہ خدا میں خرچ کرو تا کہ اپنے قدموں پر چل کر جنت میں داخل ہو سکو۔ یہ جو حضرت عائشہ والی پہلی روایت ہے اس سے بھی یہ ملتی جلتی روایت ہے۔ تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! راہِ خدا میں کیا خرچ کروں؟ فرمایا جو موجود ہے خرچ کرو۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا سارا؟ فرمایا ہاں۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ یہ ارادہ کر کے نکلے کہ سارا مال راہ خدا میں دے دوں گا۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوا بھیجا اور فرمایا کہ تمہارے جانے کے بعد جبرئیل آئے۔ انہوں نے کہا کہ عبدالرحمٰن کو کہو کہ مہمان نوازی کرے۔ مسکین کو کھانا کھلائے۔ سوالی کو دے اور دوسروں کی نسبت رشتہ داروں پر پہلے خرچ کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس کا مال پاک ہو جائے گا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 97 من بنی زھرۃ بن کلاب دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب صفحہ 112)
اور پاک مال، اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسا خرچ کیا ہوا مال جو ہے اس سے پھر گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ پاؤں پہ کھڑے ہو کے جنت میں جاؤ گے۔ نتیجہ آگے یہی نکلتا ہے۔ ایک بار اپنا آدھا مال جو چار ہزار درہم تھا راہ خدا میں دے دیا۔ پھر ایک مرتبہ چالیس ہزار درہم۔ پھر ایک بار چالیس ہزار دینار راہ خدا میں صدقہ دیا۔ ایک دفعہ پانچ صد گھوڑے راہ خدا میں وقف کیے۔ پھر دوسری دفعہ پانچ سو اونٹ راہ خدا میں دیے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ478 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 111)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے بیٹے ابو سَلَمہ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ابا نے امہات المومنینؓ کے حق میں ایک باغیچے کی وصیت فرمائی۔ اس باغیچے کی قیمت چار لاکھ درہم تھی۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 119)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے راہ ِخدا میں دینے کے لیے پچاس ہزار دینار کی وصیت کی تھی۔ ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزاربکریاں، سو گھوڑے تھے جو بقیع میں چرتے تھے۔ جُرْفجو مدینے سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے جہاں حضرت عمرؓ کی کچھ جائیداد تھی۔ اس مقام پر بیس پانی کھینچنے والے اونٹوں سے آپ زراعت کرتے تھے اور اسی سے گھر والوں کے لیے سال بھر کا غلہ مل جاتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ترکے میں اتنا سونا چھوڑا جو کلہاڑیوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں اس سے چھالے پڑ گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 100-101 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 118)(فرہنگ سیرت صفحہ87 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا انتقال اکتیس ہجری میں ہوا۔ بعض کے نزدیک بتیس ہجری میں ہوا۔ بہتّر (72) برس زندہ رہے۔ بعض کے نزدیک اٹھہتر برس اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ حضرت عثمانؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک قول کے مطابق حضرت زبیر بن العوامؓ نے جنازہ پڑھایا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جز ء4 صفحہ293 عبد الرحمٰن بن عوف دار الفکربیروت1995ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 100 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی وفات پر چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر حضرت سعد بن مالکؓ نے کہا۔ وَاجَبَلَاہ۔ کہ ہائے افسوس پہاڑ جیسی شخصیت اٹھ گئی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ابنِ عوف اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے دنیا کے چشمے سے صاف پانی پیا اور گدلا چھوڑ دیا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ابنِ عوف نے اچھا زمانہ پایا اور بُرے وقت سے پہلے چلے گئے۔ (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد دوم صفحہ 117)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اپنے پسماندگان میں تین بیویاں چھوڑیں۔ ہر ایک بیوی کو اس کے آٹھویں حصے میں سے اسّی اسّی ہزار درہم دیے گئے جبکہ ایک دوسری روایت میں آپ کی چار بیویاں تھیں اور ہر ایک کے حصے میں اسّی ہزار درہم آئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 101 عبد الرحمٰن بن عوف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)