حضرت عبداللہ بن جحشؓ
آپ کی والدہ اُمَیمہ بنت عبدالمطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ میں پھوپھی تھیں۔ اس طرح آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِارقم میں جانے سے قبل ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 89 عبد اللہ بن جحش مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
دارِارقم وہ مکان ہے یا مرکز ہے جو ایک نومسلم اَرقم بن اَرقم کا مکان تھا اور مکہ سے ذرا سا باہر تھا۔ وہاں مسلمان جمع ہوتے تھے اور دین سیکھنے اور عبادت وغیرہ کرنے کے لئے ایک مرکز تھا اور اسی شہرت کی وجہ سے اس کا نام دارالسلام کے نام سے بھی مشہور ہوا اور یہ مکہ میں تین سال تک مرکز رہا۔ وہیں خاموشی سے عبادت کیا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسیں لگا کرتی تھیں اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا تو پھر کھل کر باہر نکلنا شروع کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ اس مرکز میں اسلام لانے والے آخری شخص تھے۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 129)
بہرحال یہ مرکز بننے سے پہلے ہی حضرت عبداللہ بن جحش نے اسلام قبول کر لیا تھا اور پھر روایت میں آتا ہے کہ مشرکین قریش کے دست ظلم سے آپ کا خاندان بھی محفوظ نہیں تھا۔ آپ نے اپنے دونوں بھائیوں حضرت ابواحمد اور عبید اللہ اور اپنی بہنوں حضرت زینب بن جحش، حضرت اُمّ حبیبہ اور حِمنہ بنت جحش کے ہمراہ دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان کے بھائی عبیداللہ حبشہ جا کر عیسائی ہو گئے تھے اور وہیں عیسائی ہونے کی حالت میں ان کی وفات ہوئی جبکہ ان کی بیوی حضرت اُمّ حبیبہ بنت ابوسفیان ابھی حبشہ میں ہی تھیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس وقت نکاح کر لیا۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 89 عبد اللہ بن جحش مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
حضرت عبداللہ بن جحش مدینہ ہجرت سے قبل مکہ آئے اور یہاں سے اپنے قبیلہ بنو غنم میں دُوْدَان کے تمام افراد کو (یہ سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے) ساتھ لے کر مدینہ پہنچے۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے مکہ کو اس طرح خالی کر دیا تھا کہ محلہ کا محلہ بے رونق ہو گیا اور بہت سے مکانات مقفّل ہو گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 49 عبد اللہ بن جحش مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
یہی حالات آجکل پاکستان میں بھی بعض جگہ احمدیوں کے ساتھ ہیں۔ بعض گاؤں خالی ہو گئے ہیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب بنو جحش بن رِئَاب نے مکہ سے ہجرت کی تو ابوسفیان بن حرب نے ان کے مکان کو عمرو بن علقمہ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ جب یہ خبر مدینہ میں حضرت عبداللہ بن جحش کو پہنچی تو انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ خدا اس کے بدلہ میں تجھ کو جنت میں محل عنایت کرے۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں راضی ہوں۔ تو آپ نے فرمایا پس وہ محل تیرے واسطے ہیں‘‘۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 352 باب ہجرۃ الرسولﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)۔ یعنی یہ مکانات جو تم نے چھوڑے ہیں ان کی جگہ تمہیں جنتوں میں جگہ ملے گی وہاں محل تیار ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن جحش کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں وادیٔ نخلہ کی طرف بھیجا جس کا ذکر کتب میں اس طرح ملتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن جب عشاء کی نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش کو فرمایا کہ صبح کو اپنے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آنا تمہیں ایک جگہ بھیجنا ہے۔ چنانچہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش کو اپنے تیر و ترکش، نیزہ اور ڈھال سمیت اپنے گھر کے دروازے پر انتظار کرتے ہوئے کھڑا پایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُبّی بن کعب کو بلوایا اور انہیں ایک خط لکھنے کا حکم دیا جب وہ خط لکھا گیا تو حضرت عبداللہ بن جحش کو بلا کر اس خط کو ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں اس جماعت کا نگران مقرر کرتا ہوں جو آپ کی قیادت میں بھیجا گیا تھا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ اس سے پہلے آپ نے اس جماعت پر حضرت عبیدہ بن حارث کو مقرر کیا تھا لیکن روانگی سے پہلے جب وہ رخصت ہونے کے لئے اپنے گھر گئے تو ان کے بچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر رونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش کو ان کی جگہ امیر بنا کر بھیجا اور حضرت عبداللہ بن جحش کو بھیجتے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب امیر المومنین رکھا۔ سیرۃ الحلبیۃ میں یہ لکھا ہوا ہے۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن جحش وہ پہلے خوش نصیب صحابی تھے جن کا دور اسلام میں امیر المومنین لقب رکھا گیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 217 سریۃ عبد اللہ بن جحش الیٰ بطن نخلۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ(البقرۃ: 218) کی تفسیر میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورۃ تشریف لائے تو اس کے بعد بھی مکہ والوں کے جوش غضب میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ انہوں نے مدینہ والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ چونکہ تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ اس لئے اب تمہارے لئے ایک ہی راہ ہے کہ یا تو تم ان سب کو قتل کر دو یا مدینہ سے باہر نکال دو ورنہ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیں گے اور تم سب کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اور پھر انہوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ایام میں یہ کیفیت تھی کہ بسا اوقات آپ ساری ساری رات جاگ کر بسر کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کرتے تھے تا کہ رات کی تاریکی میں دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے۔ ان حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو مدینہ کے قریب، قرب و جوار میں بسنے والے قبائل سے معاہدات کرنے شروع کر دئیے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہو تو وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے کہ قریش حملہ کی تیاری کر رہے ہیں آپ نے 2 ہجری میں حضرت عبداللہ بن جحش کو بارہ آدمیوں کے ساتھ نخلہ بھجوایا اور انہیں ایک خط دے کر ارشاد فرمایا کہ اسے دو دن کے بعد کھولا جائے۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے دو دن کے بعد کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ تم نخلہ میں قیام کرو اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر ہمیں اطلاع دو۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس دوران میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ جو شام سے تجارت کا مال لے کر واپس آ رہا تھا وہاں سے گزرا۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر ان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کفار میں سے ایک شخص عمرو بن الحَضْرَمِی مارا گیا اور دو گرفتار ہوئے اور مال غنیمت پر بھی مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب انہوں نے مدینہ میں واپس آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑائی کی اجازت نہیں دی تھی اور مال غنیمت کو بھی قبول کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔
ابن جریر نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے ساتھیوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ابھی رجب شروع نہیں ہوا حالانکہ رجب کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی تیس جمادی الثانی ہے۔ رجب کا آغاز نہیں ہوا۔ بہرحال عمرو بن الحَضْرَمِی کا مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جانا تھا کہ مشرکین نے اس بات پر شور مچانا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کو ان مقدس مہینوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں رہا جن میں ہر قسم کی جنگ بند رہتی تھی‘‘۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بیشک ان مہینوں میں لڑائی کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکا جائے اور خدا تعالیٰ کی توحید کا انکار کیا جائے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کیا جائے اور اس کے باشندوں کو بغیر کسی جرم کے محض اس لئے کہ وہ خدائے واحد پر ایمان لائے تھے اپنے گھروں سے نکال دیا جائے۔ تمہیں ایک بات کا خیال تو آ گیا مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم خود کتنے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو اور خدا اور اس کے رسول کا انکار کر کے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کر کے اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال کر کتنے ناپسندیدہ افعال کے مرتکب ہوئے ہو۔ جب تم خود ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو چکے ہو تو تم مسلمانوں کو کس منہ سے اعتراض کرتے ہو۔ ان سے تو صرف نادانستہ طور پر ایک غلطی ہوئی ہے۔ مگر تم تو جانتے بوجھتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 474-475 زیر آیت یَسْئَلُوْنَکَ عن الشھر الحرام … الخ البقرۃ 218)
بخاری کی ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نےسریّہ عبداللہ بن جحش کے مثبت نتائج کا ذکر کرتے ہوئے اس کی وضاحت میں لکھا کہ ’’واقعات بتاتے ہیں کہ اس وفد کو جس غرض کے لئے روانہ کیا گیا تھا اس میں ان کو پوری کامیابی ہوئی اور انہوں نے قیدیوں کے ذریعہ سے قریش مکہ کے منصوبے اور ان کی نقل و حرکت سے متعلق یقینی اطلاعات حاصل کیں۔ حَضْرَمِی کے قافلے کا واقعہ ایک ضمنی اور اتفاقی حادثہ تھا اور بعض مؤرخین نے جو اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس مہم کے بعض افراد کو مہاجرین کے غصب شدہ اموال کی تلافی کا خیال پیدا ہوا تھا یہ رائے صحیح نہیں۔ بلکہ اس مہم کا اصل مقصد صرف یہ تھا کہ حَضْرَمِی والے قافلے کے ذریعہ ابوسفیان بن حرب کی قیادت میں جانے والے قافلے کی غرض و غایت اور قریش مکہ کے منصوبہ جنگ کے بارہ میں یقینی معلومات حاصل ہو جائیں اور یہی کام بصیغہ راز ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس مختصر قافلے کو اپنے قبضہ میں لانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ یہ خیال بہت دُور کا ہے کہ وہ بھیجے تو گئے تھے قریش مکہ کی جنگی تیاریوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے لیکن انہوں نے قافلے کے لُوٹنے پر قناعت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس ہونے کو کافی سمجھ لیا۔
حضرت عبداللہ بن جحش بڑے پائے کے صحابی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قابل اعتماد رازدار کو اس مہم کے لئے منتخب فرمایا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش مکہ کی جنگی تیاریوں کے متعلق علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تیاری شروع کر دی اور اس تیاری میں پوری رازداری سے کام لیا۔ (ماخوذ از صحیح البخاری ترجمہ و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 8 صفحہ 15 کتاب المغازی باب قصہ غزوۃ بدر مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
وہ لکھتے ہیں کہ بیشک مغازی میں ایسی روایتیں آتی ہیں یعنی جو جنگوں کی روایات ہیں ان میں یہ آتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش اور آپ کے ساتھیوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ لیکن یہ ناراضگی اس لحاظ سے بجا تھی کہ ان کی مہم سے متعلق ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی جو فتنہ کا موجب بن سکتی تھی۔ مگر بسااوقات بعض امور جو بظاہر غلطیاں معلوم ہوتے ہیں منشائے الٰہی کے تحت صادر ہوتی ہیں اور بعض معمولی واقعات عظیم الشان نتائج پر منتج ہو جاتے ہیں۔ پس عین ممکن تھا کہ حضرت عبد اللہ بن جحش کی مہم نہ بھیجی جاتی اور ان سے جو کچھ ہوا وہ نہ ہوتا اور ابوسفیان کی سرکردگی میں شام سے آنے والا قافلہ مکّہ میں بلا خطر پہنچ جاتا تو قریش اس قافلے سے فائدہ اٹھا کر بہت بڑی تیاری کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے جس کا مقابلہ کرنا قلیل التعداد بے سروسامان صحابہ کے لئے ناگوار صورت رکھتا۔ لیکن حضرت عبداللہ بن جحش کے واقعہ سے مغرور سرداران قریش آگ بگولہ ہو گئے اور اس طیش اور غرور میں جلدی سے وہ ایک ہزار کے لگ بھگ مسلح افواج کے ساتھ اس زعم میں مقام بدر پر پہنچ گئے کہ وہ اپنے قافلے کو بچائیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ وہیں ان کی موت مقدر ہے۔ اور دوسری طرف اس بات کا بھی امکان تھا کہ اگر صحابہ کرام کو یہ معلوم ہوتا کہ ایک مسلح فوج کے مقابلہ کے لئے انہیں لے جایا جا رہا ہے تو ان میں سے بعض تردّد میں پڑ جاتے۔ پس رازداری نے وہ کام کیا جو جنگ میں ایسے مورچے کام دیتے ہیں جنہیں آجکل جنگی اصطلاح میں اَوٹ کہا جاتا ہے یا camouflageبھی کہا جاتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از صحیح البخاری ترجمہ و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 8 صفحہ17 کتاب المغازی باب قصہ غزوۃ بدر مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
تاریخ میں لکھا ہے ’’خدا اور رسول کی محبت نے ان کو تمام دنیا سے بے نیاز کر دیا تھا۔ انہیں اگر کوئی تمنا تھی تو صرف یہ کہ جان عزیز کسی طرح راہ خدا میں نثار ہو جائے۔ چنانچہ ان کی یہ آرزو پوری ہوئی اور اَلْمُجَدَّعُ فِی اللّٰہ۔ (خدا کی راہ میں کان کٹا ہوا) ان کے نام کا امتیازی نشان ہو گیا۔‘‘ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 90 عبد اللہ بن جحش مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
حضرت عبداللہ بن جحش کے بارے میں مزید تفصیل کہ آپ کی دعا کس طرح قبول ہوتی تھی۔ آپ کی شہادت سے قبل کی دعا کی قبولیت کا ایک واقعہ مشہور ہے۔ اسحاق بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحش نے میرے والد یعنی سعد سے غزوۂ اُحد کے دن کہا کہ آؤ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں چنانچہ دونوں ایک جانب ہو گئے۔ پہلے حضرت سعدنے دعا کی کہ اے اللہ جس وقت میں کل دشمنوں سے ملوں تو میرا مقابلہ ایسے شخص سے ہو جو حملہ کرنے میں سخت ہو اور اس کا رعب غالب ہو۔ پس میں اس سے لڑوں اور اس کو تیری راہ میں قتل کر دوں اور اس کے ہتھیاروں کو لے لوں۔ اس پر عبداللہ بن جحش نے آمین کہی۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن جحش نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! کل میرے سامنے ایسا شخص آئے جو حملہ کرنے میں سخت ہو اور اس کا رعب غالب ہو اس سے میں تیری خاطر قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے۔ وہ غالب آ کر مجھے قتل کر دے اور مجھ کو پکڑ کر میری ناک کان کاٹ ڈالے۔ پس جس وقت میں تیرے حضور حاضر ہوں تو تُو مجھ سے پوچھے کہ اے عبداللہ ! کس کی راہ میں تیری ناک اور تیرے دونوں کان کاٹے گئے۔ میں عرض کروں کہ تیری اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں۔ جواب میں تُو یہ کہے کہ تُو نے سچ کہا۔ حضرت سعد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحش کی دعا میری دعا سے بہتر تھی۔ اس لئے کہ اخیر دن میں مَیں نے ان کی ناک اور دونوں کانوں کو دیکھا کہ ایک دھاگے میں معلّق تھے۔ (ماخوذ از اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 90 عبد اللہ بن جحشؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)۔ یعنی کٹے ہوئے تھے اور انہیں پرویا ہوا تھا۔
یہ ظالمانہ فعل ہے جو وہ کافر کرتے تھے اور یہی آجکل بھی بعض دفعہ بعض شدت پسند مسلمان اسلام کے نام پر کر رہے ہیں۔ حضرت مطلب بن عبداللہ بن حَنْطَب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس روز اُحد کی جانب روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں مدینہ کے قریب ایک جگہ شیخین کے پاس رات قیام کیا جہاں حضرت اُمّ سلمہ ایک بُھنی ہوئی دستی لائیں جس میں سے آنحضورؐ نے نوش فرمایا۔ اسی طرح نبیذ لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیذ بھی پی۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک طرح ہریرہ ٹائپ کی کوئی چیز تھی۔ پھر ایک شخص نے وہ نبیذ والا پیالہ لے لیا اور اس میں سے کچھ پیا۔ پھر وہ پیالہ حضرت عبداللہ بن جحش نے لے لیا اور اس کو ختم کر دیا۔ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن جحش سے کہا کہ کچھ مجھے بھی دے دو۔ تمہیں معلوم ہے کہ کل صبح تم کہاں جاؤ گے؟ تو حضرت عبداللہ بن جحش نے کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملنا کہ میں سیراب ہوں۔ (یعنی اچھی طرح کھایا پیا ہو، ) اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس سے پیاسا ہونے کی حالت میں ملوں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 50 ومن بنی حلفاء بنی شمس … الخ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
صحابہ کا بھی اللہ تعالیٰ سے پیار کا یہ عجیب انداز ہے اور اس کے لئے ان کے تیاری کے بھی عجیب رنگ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن جحش اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ حضرت حمزہ حضرت عبداللہ بن جحش کے خالو تھے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر چالیس سال سے کچھ زائد تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ترکہ کے ولی بنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے کو خیبر میں مال خرید کر دیا۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 90 عبد اللہ بن جحشؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
حضرت عبداللہ بن جحش کو صائب الرائے ہونے کی فضیلت بھی حاصل تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے متعلق جن صحابہ سے مشورہ مانگا ان میں آپ بھی شامل تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 16 عبد اللہ بن جحشؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ اُحد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی پر حضرت عبداللہ بن جحش کی ہمشیرہ کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جو تاریخ میں اس طرح آیا ہے یا آپ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا کہ ’’اس جنگ میں یعنی اُحد کی جنگ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح بلند حوصلگی اور اپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور دلجوئی کی۔ اس جنگ کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ آپ اخلاق کے کتنے بلند ترین مقام پے کھڑے تھے اور اس جنگ میں صحابہ کی عدیم المثال قربانیوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب آپ جنگ ختم ہونے پر مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے۔ مدینہ کی عورتیں جو آپ کی شہادت کی خبر سن کر بیقرار تھیں۔ اب وہ آپ کی آمد کی خبر سن کر آپ کے استقبال کے لئے مدینہ سے باہر کچھ فاصلہ پر پہنچ گئی تھیں۔ ان میں آپ کی ایک سالی حِمنہ بنت جحش بھی تھیں۔ ان کے تین نہایت قریبی رشتہ دار جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو فرمایا کہ اپنے مُردہ کا افسوس کرو۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارا عزیز مارا گیا ہے۔ حِمنہ بنت جحش نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کس مُردہ کا افسوس کروں۔ آپ نے فرمایا تمہارا ماموں حمزہ شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت حِمنہ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور پھر کہا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے وہ کیسی اچھی موت مرے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اچھا اپنے ایک اور مرنے والے کا افسوس کر لو۔ حِمنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کا؟ آپ نے فرمایا تمہارا بھائی عبداللہ بن جحش بھی شہید ہو گیا ہے۔ حِمنہ نے پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور کہا الحمد للہ وہ تو بڑی اچھی موت مرے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا حِمنہ! اپنے ایک اور مُردے کا بھی افسوس کرو۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کا؟ آپ نے فرمایا تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا۔ یہ سن کر حِمنہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور اس نے کہا ہائے افسوس۔ یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب میں نے حِمنہ کو اس کے ماموں کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پڑھا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جب میں نے اسے اس کے بھائی کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پھر بھی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی پڑھا۔ لیکن جب میں نے اس کے خاوند کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا کہ ہائے افسوس اور وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور گھبرا گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کو ایسے وقت میں اپنے عزیز ترین رشتہ دار اور خونی رشتہ دار بھول جاتے ہیں لیکن اسے محبت کرنے و الا خاوند یاد رہتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے حِمنہ سے پوچھا تم نے اپنے خاوند کی وفات کی خبر سن کر ہائے افسوس کیوں کہا تھا؟ حِمنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اس کے بیٹے یاد آ گئے تھے کہ ان کی کون رکھوالی کرے گا۔‘‘ (یہاں خاوند کی محبت اپنی جگہ۔ ایک محبت کرنے والا خاوند ہو تو بیوی یاد رکھتی ہے۔ لیکن اس کے بچوں کی فکر تھی۔ اس کا اظہار انہوں نے کیا۔ اور اس میں آجکل کے مَردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی سبق ہے کہ محبت کرنے والے خاوند بنیں اور بچوں کی فکر کرنے والی مائیں بنیں۔ اور محبت کرنے والے خاوند بننے کے لئے بیوی اور بچوں کے حق ادا کرنے بھی ضروری ہیں جس کی آجکل بڑی شکایتیں ملتی ہیں کہ حق ادا نہیں ہو رہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیسا خوبصورت ارشاد فرمایا۔ ’’آپ نے حِمنہ کو فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی تمہارے خاوند سے بہتر خبر گیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کرے۔ یعنی بچوں کی خبر گیری کرنے والا کوئی بہتر شخص پیدا ہو جائے۔ چنانچہ اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ حِمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت طلحہ کے ساتھ ہوئی اور ان کے ہاں محمد بن طلحہ پیدا ہوئے۔ مگر تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت طلحہ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت نہیں کرتے تھے جتنی کہ حِمنہ کے پہلے بچوں کے ساتھ اور لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی کے بچوں کو اتنی محبت سے پالنے والا طلحہ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا‘‘۔ (ماخوذ از ’مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں‘، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 56-57)