حضرت عبداللہ بن جَدّ ؓ

خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2018ء

حضرت عبداللہ بن جَدّ کے والد کا نام جدّ بن قیس تھا۔ ان کی کنیت ابووَہْب تھی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو سلَمہ سے تھا جو انصار کا ایک قبیلہ تھا۔ حضرت معاذ بن جبل والدہ کی طرف سے آپؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ بن جدّ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شریک ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 430 عبد اللہ بن الجدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 196 عبد اللہ بن الجدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جدّ کے والد ابووہب سے کہا کہ ابووہب کیا تم اس سال ہمارے ساتھ جنگ کے لئے نکلو گے؟ ابووہب نے کہا کہ آپؐ مجھے اجازت دیں اور فتنہ میں مبتلا نہ کریں۔ مَیں نہیں جا سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو اس نے بہانہ کیا، عجیب بہانہ ہے کہ میری قوم جانتی ہے کہ مَیں عورتوں کا بہت دلدادہ ہوں۔ اگر میں بنو اصفر یعنی رومیوں کی عورتوں کو دیکھوں گا تو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کرتے ہوئے اسے اجازت دے دی۔ ٹھیک ہے، بہانہ بنا رہے ہو، چھٹی دے دی، نہ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن جدّ کو یہ پتہ لگا تو اپنے والد کے پاس آئے، اور ان سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا کیوں انکار کیا ہے؟ اللہ کی قسم آپ تو بنو سلمہ میں سب سے زیادہ مالدار ہیں اور آج موقع ہے کہ اس میں حصہ لیں۔ نہ آپ خود غزوہ کے لئے نکلتے ہیں نہ ہی کسی کو سواری مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے! اب یہاں بیٹے کے سامنے ایک اور بہانہ ہے اور وہی حقیقت ہے کہ میرے بیٹے میں کیوں اس گرمی اور تنگی کے موسم میں بنو اصفر کی طرف نکلوں۔ اللہ کی قسم میں تو خُربیٰ (جہاں بنوسلمہ کے گھر تھے) میں موجود اپنے گھر میں بھی ان کے خوف سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ رومیوں کا بڑا خوف تھا، ڈر تھا۔ یہ بزدل آدمی تھے۔ تو کیا میں ان کے خلاف جاؤں اور ان کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ اے بیٹے اللہ کی قسم! میں تو گردش زمانہ سے خوب آگاہ ہوں۔ مجھے پتہ ہے حالات کیا ہوتے ہیں، آج کچھ ہیں کل کچھ ہیں۔ ان کی یہ باتیں سن کر حضرت عبداللہ اپنے والد سے سختی سے پیش آئے اور کہا کہ اللہ کی قسم آپ میں تو نفاق پایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن میں نازل کرے گا جسے سب پڑھ لیں گے، اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ آپ منافقین میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ کے والد نے اس پر اپنا جوتا اتار کر ان کے منہ پر مارا۔ عبداللہ وہاں سے چلے گئے اور اپنے والد سے بات نہیں کی۔(کتاب المغازی للواقدی جلد دوم صفحہ381 غزوۂ تبوک دار الکتب بیروت 2004ء)، (وفائ الوفاء جلد 4 صفحہ 67 مطبوعہ المکتبۃ الحقانیہ پشاور)

جَدّ بن قیس جو حضرت عبداللہ کے والد تھے، ایک جگہ اُسُد الغابہ میں لکھا ہے کہ ان کے بارے میں نفاق کا گمان کیا گیا ہے۔ یہ حدیبیہ میں شریک تھے مگر جب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو اس وقت یہ بیعت میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے توبہ کر لی تھی اور ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں ہوئی۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 521 جد بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)