حضرت عبداللہ بن جُبَیْرؓ

خطبہ جمعہ 28؍ دسمبر 2018ء

حضرت عبداللہ بن جُبَیْر ان ستر انصار میں سے تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے اور آپ غزوۂ بدر اور اُحُد میں شریک ہوئے اور غزوۂ اُحُد میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 362 عبد اللہ بن جُبَیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت اَبُوالْعَاص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کے شوہر تھے جنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے تھے اور حضرت عبداللہ بن جُبَیر نے انہیں قید کیا تھا۔(المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب ابی العاص بن ربیع حدیث 5037 جلد 3 صفحہ 262 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ:

’’آنحضرتؐ کے داماد ابوالعاص بھی اسیران بدرمیں سے تھے ان کے فدیہ میں ان کی زوجہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینبؓ نے جو ابھی تک مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں ۔ اُن میں اُن کا ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہار وہ تھا جو حضرت خدیجہؓ نے جہیز میں اپنی لڑکی زینبؓ کو دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو مرحومہ خدیجہؓ کی یاد دل میں تازہ ہو گئی اور آپؐ چشم پُرآب ہو گئے اور صحابہ سے فرمایا اگر تم پسند کرو تو زینبؓ کا مال اسے واپس کر دو۔ صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی زینبؓ کا مال فوراً واپس کر دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائمقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جا کر زینبؓ کو مدینہ بھجوا دیں اور اس طرح ایک مؤمن روح دارِ کفر سے نجات پا گئی۔ کچھ عرصہ بعد ابوالعاص بھی مسلمان ہو کر مدینہ میں ہجرت کر آئے اور اس طرح خاوند بیوی پھر اکٹھے ہو گئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 368)

غزوہ اُحُد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جُبَیر کو ان پچاس تیر اندازوں کے دستے کا سالار مقرر فرمایا جسے آپؐ نے مسلمانوں کے عقب میں واقع درّے کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ باقی تفصیل تو عبداللہ بن حُمَیِّر کے واقعہ میں بیان ہو گئی ہے اور کچھ مزید یہ ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہی لکھی ہے کہ

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اُحُد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا ایسے طریق پر کہ اُحُد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آ گئی اور مدینہ گویا سامنے رہا اور اس طرح آپؐ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا … آپؐ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جُبَیر کی سرداری میں پچاس تیر انداز صحابی وہاں متعین فرما دئیے اور ان کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہو جاوے وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور دشمن پر تیر برساتے جائیں ۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 487)

جیسا کہ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس درے کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن جُبَیر سے یہ تکرار سے فرمایا کہ دیکھو یہ درّہ کسی صورت میں خالی نہ رہے اور اگر فتح بھی ہو جائے، دشمن پسپا ہو کر دوڑ جائے تب بھی تم نے جگہ نہیں چھوڑنی اور مسلمانوں کو اگر شکست ہو جائے اور دشمن ہم پہ غالب آ جائیں تب بھی تم نے نہیں چھوڑنی۔

حضرت بَرَاء بن عَازِب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُحُد کے دن پیادہ فوج پر حضرت عبداللہ بن جُبَیر کو مقرر فرمایا اور یہ پچاس آدمی تھے اور ان سے فرمایا کہ اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا خواہ دیکھو کہ پرندے ہم پر جھپٹ رہے ہیں ۔ اپنی جگہ پر رہنا تاوقتیکہ میں تمہیں نہ بلا بھیجوں اور اگر تم ہمیں اس حالت میں بھی دیکھو کہ لوگوں کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں ہم نے روند ڈالا ہے تب بھی یہاں سے نہ سرکنا جب تک کہ میں تمہیں نہ کہلا بھیجوں ۔ چنانچہ مسلمانوں نے ان کوشکست دے کر بھگا دیا۔ حضرت براء کہتے تھے کہ بخدا میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ بھاگ رہی تھیں اور وہ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں ۔ (اس زمانے میں فوجوں کے ساتھ عورتیں بھی ان کے جذبات ابھارنے کے لئے جایا کرتی تھیں ۔) ان کی پازیبیں اور پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھیوں نے یہ دیکھ کر کہا کہ لوگو! چلو غنیمت حاصل کریں ۔ تمہارے ساتھی غالب ہو گئے تم کیا انتظار کر رہے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جُبَیر نے کہا کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمائی تھی؟ انہوں نے یعنی ان لوگوں نے جو جگہ چھوڑنا چاہتے تھے کہا کہ بخدا ضرور ہم بھی ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور غنیمت کا مال لیں گے۔ یہ باقی وہاں غنیمت کا مال لے رہے ہیں تو ہم بھی جائیں گے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو ان کے منہ پھیر دئے گئے اور شکست کھا کر بھاگتے ہوئے لوٹے یعنی پھر دشمن نے حملہ کیا اور یہ جو فتح ہے وہ الٹی پڑ گئی۔ حضرت بَرَاء لکھتے ہیں کہ یہی وہ واقعہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جبکہ رسول تمہاری سب سے پچھلی جماعت میں کھڑا تمہیں بلا رہا تھا۔ آل عمران کی آیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی نہ رہا اور کافروں نے ہم میں سے ستر آدمی شہید کئے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جنگ بدر میں مشرکوں کے 140آدمیوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ ستر قیدی اور ستر مقتول۔

ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا، (یہ سارا واقعہ جنگ اُحُد کا ہی بیان ہو رہا ہے) کہ کیا ان لوگوں میں محمد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ کافروں کی جو شکست تھی وہ جب فتح میں بدل گئی ہے اور انہوں نے دوبارہ حملہ کر کے درے سے مسلمانوں کو زیر کر لیا۔ تب اس نے کہا کہ کیا تم میں محمد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا کیا لوگوں میں ابوقحافہ کا بیٹا ہے یعنی حضرت ابوبکر ہیں ؟ پھر تین بار پوچھا کیا ان لوگوں میں ابن خطاب ہے یعنی حضرت عمر کے بارے میں پوچھا؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دفعہ پوچھنے پر یہی فرمایا تھا کہ جواب نہیں دینا۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ جو تھے وہ تو مارے گئے۔ یہ تین ان کے لیڈر ہو سکتے تھے یہ تینوں تو مارے گئے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے اے اللہ کے دشمن! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے۔ جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں ۔ جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لئے بہت کچھ باقی ہے۔ ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکے کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی فتح۔ تم ان لوگوں میں سے کچھ ایسے مردے پاؤ گے جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں یعنی مُثلہ کیا گیا ہے۔ اُس نے کہا کہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا اور میں نے اسے برا بھی نہیں سمجھا۔ پھر اس کے بعد وہ یہ رَجزیہ فقرہ پڑھنے لگا۔ اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ھبل کی جَے، ھبل کی جَے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اب اسے جواب نہیں دو گے؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپؐ نے فرمایا تم کہو اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔ اللہ ہی سب سے بلند اور بڑی شان والا ہے۔ پھر ابوسفیان نے کہا کہ عُزَّی نامی بت ہمارا ہے اور تمہارا کوئی عُزَّی نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم اسے جواب نہیں دو گے۔ حضرت بَرَاء بن عَازِب کہتے ہیں کہ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ۔ کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب……حدیث نمبر 3039)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ پر کافی تفصیلی بحث کی ہے۔ اور غزوۂ احد پہ روشنی ڈالی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’وہ صحابہؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گر د تھے اور جو کفّار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئیے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کے جسم مبارک کو انہوں نے اٹھایا اور ایک صحابی عُبَیْدَہ بن الجَرّاحؓ نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور صحابہؓ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دئیے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں ۔ بھاگا ہوا لشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامن کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (ﷺ) کو مارد یا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر حملہ کر دے۔‘‘ کیونکہ مسلمان ابھی کمزور حالت میں تھے ’’اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں ۔ جب اسلامی لشکر سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں ۔ پھر ابوسفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفّار کو یقین ہو گیا کہ اسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ …‘‘حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرمارہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفّار کا لشکر لَوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں ۔ اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپ کی روح بیتاب ہو گئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہ کی طرف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! ہم کیا کہیں ؟ فرمایا کہو اَللہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔اَللہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے۔ اور اس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اس کے کہ ان کی امیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے ان کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا لیکن اس نعرے کو سن کے، یہ جوش دیکھ کر وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح ان کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 252-253)

حضرت مصلح موعود مزید فرماتے ہیں ایک آیت کی تشریح میں کہ

’’فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ۔یعنی جو لوگ اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا وہ کسی دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں چنانچہ دیکھ لو…‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ دیکھ لو کہ ’’جنگ احد میں اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پہاڑی درّہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر فرمائے تھے اور یہ درّہ اتنا اہم تھا کہ آپ نے اُن کے افسر عبداللہ بن جُبَیرؓ انصاری کو بلا کر فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کر دیا تو اس درّہ پر جو سپاہی مقرر تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے۔ اَب ہمارا یہاں ٹھہرنا بے کار ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہونے کا ثواب لے لیں ۔ اُن کے افسر نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ اس لئے مَیں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہاکہ رسول کریم…‘‘(ان کے باقی ساتھیوں نے یہ کہا کہ) ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے پھر بھی تم نے نہیں ہلنا۔ آپ کا مقصد تو صرف تاکید کرنا تھا۔ اب جبکہ فتح ہو چکی ہے ہمارا یہاں کیا کام ہے۔ چنانچہ انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر…‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اس درّہ کو چھوڑ دیا۔ صرف اُن کا افسر اور چند سپاہی…‘‘ (یعنی عبداللہ بن جُبَیر اورچند سپاہی) ’’باقی رہ گئے۔ جب کفّار کا لشکر مکہ کی طرف بھاگتا چلا جا رہا تھا تو اچانک خالد بن ولید نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو درّہ کو خالی پایا۔ انہوں نے عمرو بن العاص کو آواز دی یہ دونوں ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور کہا دیکھو کیسا اچھا موقعہ ہے آؤ ہم مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں ۔ چنانچہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ چند مسلمان جو وہاں موجود تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسلامی لشکر پر پشت پر سے حملہ کر دیا۔ کفار کا یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ مسلمان جو فتح کی خوشی میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے ان کے قدم جم نہ سکے۔ صرف چند صحابہؓ دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ بیس تھی مگر یہ چند لوگ کب تک دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ آخر کفار کے ایک ریلے کی وجہ سے مسلمان سپاہی بھی پیچھے کی طرف دھکیلے گئے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تن تنہا رہ گئے۔ اسی حالت میں آپ کے خَود پر ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خَود کے کیل آپ کے سر میں چبھ گئے اور آپ بیہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے۔‘‘ (جو کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ پھر ایک صحابی نے وہ کیل نکالے اور ان کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔) ’’جو بعض شریروں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچانے کے لئے کھود کر ڈھانپ رکھے تھے۔‘‘ (ایک گڑھا بنایا ہوا تھا اور اس پر گھاس پھوس رکھا ہوا تھا۔ پتہ نہیں لگ رہا تھا یہ گڑھا ہے۔ اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرے۔) ’’اس کے بعد کچھ اور صحابہؓ شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپ کے جسم مبارک پر جا گریں اور لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں ۔ مگر وہ صحابہؓ جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گردجمع ہو گئے اور انہوں نے آپ کو گڑھے میں سے باہر نکالا۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور آپ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں اور آپ انہیں ساتھ لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔

اسلامی لشکر کوکفار پرفتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لئے لگا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے…‘‘ (اب یہ سننے والی بات ہے۔ آپؓ اب نتیجہ نکال رہے ہیں کہ اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لئے لگا۔ اس لئے نقصان پہنچا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے) ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا۔ اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکتِ قلب کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہیں ۔ اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو کوئی نقصان پہنچتا‘‘۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پوری اطاعت نہیں بجا لاتے اور ذاتی اجتہادات کو آپ کے احکام پر مقدم سمجھتے ہیں ۔‘‘ (اپنی ذاتی توجیہیں نکالتے ہیں یا خود ہی تشریحیں کرنے لگ جاتے ہیں یا حکموں کی تاویلیں کرنے لگ جاتے ہیں ۔) ’’انہیں ڈرنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں کہیں اُن پر کوئی آفت نہ آ جائے یا وہ کسی شدید عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔ گویا بتایا کہ اگر تم کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھو اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاؤ۔ جب تک یہ روح زندہ رہے گی مسلمان بھی زندہ رہیں گے اور جس دن یہ روح مٹ جائے گی اس دن اسلام تو پھر بھی زندہ رہے گا مگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان لوگوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کرنے والے ہوں گے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 410 تا 412)

آج دیکھ لیں کہ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ان سے اٹھ گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ آنے والے مسیح و مہدی کو مان لینا، اُسے میرا سلام پہنچانا اور اسے حکَم اور عدل سمجھنا ان سب باتوں کی تاویلیں اب یہ لوگ کرنے لگ گئے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی یہ دیکھ لیں ۔ پس یہاں احمدیوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، ایک تنبیہ ہے کہ مسیح موعودؑ کو قبول کر کے پھر کامل اطاعت ہی کامیابیوں اور فتوحات کی ضمانت ہے۔ پس ہر ایک کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اس کے اطاعت کے معیار ہیں ۔

یہاں پہلے بیان ہوا تھا کہ ابو سفیان کے ساتھ عکرمہ بن ابوجہل تھے۔ دوسرے ایک حوالے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دوسرے صحابی عمرو بن عاص کا ذکر کیا کہ انہوں نے درّے پر حملہ کیا۔ بعض دوسری روایات میں دوسرے نام بھی ہیں ۔ اس بارے میں ریسرچ سیل نے جو مزید تحقیق کی ہے وہاں بھی کتبِ سیرت میں خالد بن ولید کے ساتھ عکرمہ کے حملے کا ذکر ہی ملتا ہے۔ (شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 412 غزوہ احد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

لیکن یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ مشرکین نے اپنے لشکر کے گھڑ سواروں کو جن کی قیادت میں دیا تھا ان میں سے ایک عمرو بن عاص بھی تھے۔ (تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 191 غزوہ احد دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء)

تو اس ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید نے پہاڑ کے درّے پر خالی جگہ دیکھ کر گھڑ سواروں کے ساتھ حملہ کیا اور عکرمہ بن ابوجہل ان کے پیچھے پیچھے آیا۔ یوں ان تینوں امور کو اگر ایک طرف سے دیکھا جائے تو پھر حضرت مصلح موعود کے اس حوالے میں بھی اور باقی تاریخ کی کتابوں میں بھی اس طرح مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے کہ چونکہ مشرکین کے گھڑ سواروں کے نگران حضرت عمرو بن عاص تھے اس لئے یہ بھی ساتھ ہوں گے۔ یعنی خالد بن ولید، عکرمہ اور عمر ابن العاص تینوں ساتھ ہوں گے۔ اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پھر روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔

حضرت عبداللہ بن جُبَیر کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل حملہ آور ہوئے تو حضرت عبداللہ بن جُبَیر نے تیر چلائے یہاں تک کہ آپ کے تیر ختم ہو گئے۔ پھر آپ نے نیزے سے مقابلہ کیا حتٰی کہ آپ کا نیزہ بھی ٹوٹ گیا۔ پھر آپ نے اپنی تلوار سے لڑائی کی یہاں تک کہ آپ شہید ہو کر گرے۔ آپ کو عکرمہ بن ابوجہل نے شہید کیا۔ جب آپ گر گئے تو دشمنوں نے آپ کو گھسیٹا اور آپ کی نعش کا بدترین مُثلہ کیا۔ آپ کے جسم کو نیزے سے اتنا چیرا کہ آپ کی انتڑیاں بھی باہر نکل آئیں ۔

حضرت خَوَّاتْ بن جُبَیر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جُبَیر کی جب یہ حالت ہوئی تو اس وقت مسلمان وہاں گھوم کر پہنچ گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ کہتے ہیں کہ میں اس مقام پر ہنسا جہاں کوئی نہیں ہنستا، (اپنی حالت بیان کر رہے ہیں ) اور اس مقام پر اونگھا جہاں کوئی نہیں اونگھتا اور اس مقام پر میں نے بخل کیا جہاں کوئی بخل نہیں کرتا۔ (یہ تینوں چیزیں ایسی حالت میں کسی انسان سے نہیں ہو سکتی۔ ان سے کہا گیا کہ یہ کیا کیفیت ہے؟ آپ نے یہ کیوں کیا؟ حضرت خَوَّاتْ نے کہا کہ میں نے دونوں بازوؤں سے اورابُو حَنَّہ نے دونوں پاؤں سے پکڑ کر حضرت عبداللہ کو اٹھایا۔ میں نے اپنے عمامے سے ان کا زخم باندھ دیا۔ جس وقت ہم انہیں اٹھائے ہوئے تھے مشرکین ایک طرف تھے۔ میرا عمامہ ان کے زخموں سے کھل کر نیچے گر پڑااور حضرت عبداللہ بن جُبَیر کی آنتیں باہر نکل پڑیں ۔ میرا ساتھی گھبرا گیا اور اس خیال سے کہ دشمن قریب ہے اپنے پیچھے دیکھنے لگا۔ اس پر میں ہنس پڑا (کہ یہ اس وقت کیا کر رہا ہے۔) پھر ایک شخص اپنا نیزہ لے کر آگے بڑھا اور وہ اسے میرے حلق کے سامنے لا رہا تھا کہ مجھ پر نیند غالب آ گئی اور نیزہ ہٹ گیا۔ (یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ایک مدد ہوئی۔ کہتے ہیں اونگھ کیوں آئی؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی اونگھ آ گئی۔ اس حالت میں مَیں کر تو کچھ سکتا نہیں تھا۔ نیزہ میرے بالکل گلے کے قریب تھا لیکن پھر وہ نیزہ ہٹ گیا) اور جب میں حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے لئے قبر کھودنے لگا تو اس وقت میرے پاس میری کمان تھی۔ چٹان ہمارے لئے سخت ہو گئی تو ہم اس کی نعش کو لے کر وادی میں اترے اور میں نے اپنی کمان کے کنارے کے ساتھ قبر کھودی۔ کمان میں وَتر بندھی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ میں اپنی وتر کو خراب نہیں کروں گا۔ پھر میں نے اسے کھول دیا اور کمان کے کنارے سے قبر کھود کر حضرت عبداللہ بن جُبَیر کو وہاں دفن کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 362-363 عبد اللہ بن جُبَیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت عبداللہ بن جُبَیر اور ان کے ساتھیوں کو وفا کے ساتھ اور حکم کی روح کو سمجھنے والا بنایا تھا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اسی طرح حکم کو سمجھنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے ہوں اور اس طرح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں ۔