حضرت عبداللہؓ بن رواحہ
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہؓ بن رواحہ تھے جو عرب کے مشہور شاعر بھی تھے اور شاعرِ رسول کے لقب سے بھی جانے جاتے تھے۔ (سیرۃ الصحابہ جلد 3 صفحہ409 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)
غزوۂ بدر کے ختم ہونے کے بعد فتح کی خبر مدینہ پہنچانے والے بھی آپ ہی تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 398باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت عبداللہ بن رواحہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت، محبت اور غیرت کے اظہار کے بھی واقعات ہیں جن کا ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے۔ عُروہ سے روایت ہے کہ حضرت اُسامہ بن زیدنے انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا۔ اس کے نیچے فدک کے علاقے کی چادر تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے اُسامہ کو بٹھایا ہوا تھا۔ آپ حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے بنوحارث بن خزرج قبیلہ میں تشریف لے گئے۔ یہ بدر کے واقعہ سے پہلے کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین اور یہود ملے جلے بیٹھے تھے۔ ان میں عبداللہ بن اُبیّ بھی تھا اور اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔ جب مجلس کے قریب پہنچے تو وہاں سواری کی وجہ سے تھوڑی سی گرد اڑی۔ عبداللہ بن اُبیّ نے اپنی ناک اپنی چادر سے ڈھانپ لی۔ پھر کہنے لگا کہ ہم پر گردنہ ڈالو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں السلام علیکم کہا۔ پھر ٹھہرے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور ان پر قرآن پڑھا۔ عبداللہ بن اُبیّ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کہ اے شخص یہ اچھی بات نہیں۔ جو تم کہتے ہو اگر سچ ہے تو پھر بھی ہماری مجالس میں ہمیں تکلیف نہ دو اور اپنے ڈیرے کی طرف لوٹ جاؤ اور جو تمہارے پاس آئے اس کے پاس بیان کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ وہاں بیٹھے ہوئےتھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلس میں تشریف لایا کریں۔ ہم یہ پسند کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فی دعا النبیﷺ و صبرہ … الخ حدیث 4659)
انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی کہ یہ جو اُن کا سردار ہے وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ آپ کا غیرت اور محبت کا بے اختیار اظہار تھا جو عبداللہ بن رواحہ نے کیا اور ان سرداروں اور دنیاداروں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔
حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم میں اصحاب کو بھیجا جن میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی شامل تھے۔ جمعہ کا دن تھا۔ مہم میں شامل باقی اصحاب تو صبح کو روانہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں پیچھے رہ کر جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کر کے پھر ان سے جا ملوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا کہ مسجد میں موجود ہیں تو نماز جمعہ کے بعد ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہونے سے روک رکھا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری بے حد خواہش اور تمنا تھی کہ میں نماز جمعہ میں حضور کے ساتھ شریک ہو کر حضور کا خطبہ سن لوں اور پھر پیچھے سے جا کر اس دستے سے جا ملوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین میں جو کچھ ہے اگر وہ سب بھی تم خرچ کر ڈالو تو جو لوگ حسب ہدایت علی الصبح مہم پر روانہ ہو کر سبقت لے گئے وہ اجر اور ثواب تم ہرگز نہیں پا سکتے۔ (سنن الترمذی ابواب الجمعہ باب ما جاءفی سفر یوم الجمعۃ حدیث 527)
تو یہاں ضروری ہے کہ جو اطاعت ہے وہ فرض ہے۔ اس کے بعد روایات میں آتا ہے کہ جب کسی غزوے پر یا مہم پر جانا ہوتا تو حضرت عبداللہ بن رواحہ سب سے پہلے اس دستہ میں شامل ہوتے اور سب سے آخر میں مدینہ واپس لوٹا کرتے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 236 عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
ایک روایت میں آتا ہے اور یہ حضرت عُروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ کو سردار لشکر بنایا اور فرمایا کہ اگر یہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر بن ابی طالب امیر لشکر ہوں گے اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ قیادت سنبھالیں گے۔ اگر عبداللہ بھی شہید ہوں تو مسلمان جس کو پسند کریں اس کو اپنا سردار بنا لیں۔ اس لشکر کی روانگی اور الوداع کا وقت آیا تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رونے لگے۔ لوگوں نے کہا کہ عبداللہ روتے کیوں ہو؟ کہنے لگے کہ خدا کی قسم مجھے دنیا سے ہرگز کوئی محبت نہیں ہے۔ اس کا کوئی شوق نہیں۔ لیکن میں نے اس آیت کہ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا(مریم: 72) کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر ایک شخص کو ایک دفعہ ضرور آگ کا سامنا کرنا ہے۔ پس میں نہیں جانتا کہ پل صراط پر چڑھنے کے بعد پار اترنے پر میرا کیا حال ہو گا۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
لیکن ان اللہ کا خوف رکھنے والوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین انجام کی جو خبر دی اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ موتہ کے امرائے لشکر کے بارےمیں فرمایا کہ میں نے ان کو جنت میں سونے کے تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 238باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
پس یہ لوگ اپنی مراد کو پانے والے تھے۔ ان کا جذبہ شہادت ان کے ایک شعر سے یوں ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایسے تیر اور نیزے مجھے لگیں جو میری آنتوں سے گزر کر جگر کے پار ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کے ہاں میری شہادت قبول ہو جائے۔ اور جب لوگ میری قبر سے گزریں تو یہ کہیں کہ خدا اس کا بھلا کرے کیسا عظیم غازی تھا۔ جنگ موتہ جس میں یہ شہید ہوئے تھے اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ موتہ کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ غسّانیوں نے مسلمانوں کے خلاف ہرقل شاہ روم سے مدد طلب کی ہے اور اس نے دو لاکھ کا لشکر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے بھجوایا ہے۔ اس موقع پر مسلمان امرائے لشکر نے باہم مشورہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجنا چاہئے کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے کمک بھجوائی جائے یا پھر جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہو اس پر عمل کیا جائے۔ اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے مسلمانوں کے بہت حوصلے بڑھائے اور ان کی رزمیہ شاعری بھی خوب کام آئی۔ مسلمانوں کا تین ہزار کا لشکر دولاکھ کے لشکر کے مقابلے میں اکیلے آگے بڑھا۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
حضرت عبداللہ بن رواحہ کی تمنائے شہادت کا ذکر حضرت زید بن ارقم یوں بیان کرتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ مجھے اپنی اونٹنی کے پیچھے سوار کر کے غزوہ موتہ میں ہمراہ لے گئے۔ زید بن ارقم کو حضرت عبداللہ بن رواحہ نے ایک یتیم بچے کے طور پر لے کر پالا اور ان کی تربیت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا جس میں اپنے اہل خانہ کی یاد کے ساتھ یہ ذکر تھا کہ اب میں کبھی لَوٹ کر واپس گھر نہیں جاؤں گا۔ بڑے مزے سے وہ شعر گنگنا رہے تھے جن میں حضرت عبداللہ اپنی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جمعرات کی وہ شام جب تم نے میرے اونٹ کے پالان کو سفر جہاد کے لئے درست کیا تھا اور آخری دفعہ میرے قریب ہوئی تھی تیری وہ حالت کیا خوب اور مبارک تھی۔ تجھ میں کوئی عیب یا خرابی تو نہیں مگر اب مَیں اس میدان جنگ میں آ چکا ہوں اور اس سے لَوٹ کر میں تمہاری طرف کبھی واپس نہیں آؤں گا۔ گویا اپنے اہل خانہ کو یہ ان کا غائبانہ الوداع تھا۔ کم سن زیدنے یہ سنا تو افسردہ ہو کر رو دئیے۔ حضرت عبداللہ نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ اے ناسمجھ! اگر اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائے تو تیرا کیا نقصان بلکہ تم تو میری سواری لے کر اکیلے آرام سے اس پر بیٹھ کر واپس لوٹو گے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 236-237باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
میدان جہاد میں حضرت عبداللہ بن رواحہ نے بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ حضرت نعمانؓ بن بشیر بیان کرتے تھے کہ حضرت جعفر کی شہادت ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ لشکر کے ایک جانب تھے لوگوں نے ان کو بلایا۔ وہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے یہ رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے میرے نفس! کیا تم اس طرح لڑائی نہیں لڑو گے کہ جان دے دو۔ موت کے تالاب میں تم داخل ہو چکے ہو۔ شہادت کی جو خواہش تم نے کی تھی اسے پورا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ اب اگر جان کا نذرانہ پیش کرو تو شایدنیک انجام پا جاؤ۔
مصعب بن شیبہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زید اور حضرت جعفر بھی شہید ہو گئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ میدان میں آگے تشریف لائے۔ جب انہیں نیزہ لگا تو خون کی ایک دھار جسم سے نکلی۔ آپ نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور ان میں خون لے کر اپنے منہ کے اوپر مل لیا۔ پھر وہ دشمن اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان گر گئے مگر آخری سانس تک سردار لشکر کے طور پر مسلمانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور نہایت مؤثر جذباتی رنگ میں مسلمانوں کو انگیخت کرتے ہوئے اپنی مدد کے لئے بلاتے رہے کہ دیکھو اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی کا لاشہ دشمنوں کے سامنے پڑا ہوا ہے۔ آگے بڑھو اور دشمنوں کو اپنے اس بھائی کے راستے سے دور کرو اور ہٹاؤ۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس موقع پر بڑے زور کے ساتھ کفار پر حملہ کیا اور پے در پے حملے کرتے رہے یہاں تک کہ اس دوران حضرت عبداللہ کی شہادت بھی ہو گئی۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237-238باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
ان کی ایک خصوصیت کے بارے میں ان کی بیوہ نے ان کی شہادت کے بعد بتایا۔ ان کی بیوہ کی شادی ہوئی تو اس شوہر نے کہا کہ عبداللہ بن رواحہ کی پاکیزہ سیرت کے بارے میں مجھے کچھ بتاؤ۔ تو اس خاتون نے کیا ہی خوبصورت گواہی دی۔ کہنے لگیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کبھی گھر سے باہر نہیں جاتے تھے جب تک کہ دو رکعت نفل نماز ادا نہ کر لیں۔ اسی طرح جب گھر میں داخل ہوتے تھے تو آپ کا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ وضو کر کے دو رکعت نفل نماز ادا کیا کرتے تھے۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحابہ جلد 4 صفحہ 74 عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
یہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں اور ہر وقت یاد رکھنے والے تھے۔
ان کی اطاعت کے معیار کا روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابولیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس دوران آپ نے فرمایا کہ لوگو! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ مسجد سے باہر خطبہ سننے کے لئے حاضر ہو رہے تھے۔ وہ وہیں پر بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا عَلَی طَوَاعِیَۃِ اللّٰہِ وَطَوَاعِیَۃِ رَسُوْلِہٖ۔ کہ اے عبداللہ بن رواحہ! اللہ اور رسول کی اطاعت کا تمہارا یہ جذبہ اللہ تعالیٰ اور بڑھائے۔
دینی باتیں کرنے، دینی مجالس لگانے، بامقصد گفتگو کرنے، ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کے لئے ان لوگوں کے کیا معیار تھے۔ اس بارہ میں حضرت ابودرداء بیان کرتے تھے کہ میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے اوپر کوئی ایک ایسا دن آئے جب میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یادنہ کروں۔ ہر روز میں ان کو یاد کرتا ہوں اور اس کی وجہ ان کی، حضرت عبداللہ بن رواحہ کی، یہ خوبی ہے کہ جب بھی میرے سے ملاقات ہوئی اگر وہ پیچھے سے آ رہے ہوتے تو اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیتے اور سامنے سے آ رہے ہوتے تو سینے پر ہاتھ رکھتے اور فرماتے کہ اے ابو درداء! آؤ ذرا مل بیٹھیں اور ایمان تازہ کریں۔ کچھ ایمان کی باتیں کریں۔ پھر وہ میرے ساتھ بیٹھتے اور جب تک ہمیں موقع ملتا ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے۔ پھر فرماتے کہ اے ابودرداء! یہ ایمان کی مجالس ہیں۔‘‘ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 236باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
پس ان ایمان کی مجالس لگانے والوں نے وہ نمونے قائم کئے ہیں جو ہمارے لئے اُسوہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی باتوں اور مجلسوں کو کس طرح سند عطا فرمائی۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کو عادت تھی کہ جب اپنے کسی صحابی سے ملتے تو ان کو یہ تحریک کرتے تھے کہ تَعَالَ نُؤْمِنْ بِرَبِّنَا سَاعَۃً۔ آؤ تھوڑی دیر اپنے رب پر ایمان لے آئیں۔ ایک دن انہوں نے یہی بات ایک آدمی سے کہی تو وہ غصہ میں آ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! ابنِ رواحہ کو تو دیکھئے۔ یہ لوگوں کو آپ پر ایمان لانے سے موڑ کر تھوڑی دیر کے لئے ایمان کی دعوت دے رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یَرْحَمُ اللہُ ابْنَ رَوَاحَۃ۔ کہ اللہ عبداللہ بن رواحہ پر رحم کرے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ان مجلسوں کو پسند کرتے ہیں جن پر فرشتے بھی فخر کرتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 676 حدیث 13832 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیہ بیروت 1998ء)
آپ ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کے شعراء میں حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسّان بن ثابت کے علاوہ یہ تیسرے بلند پایہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری رزمیہ تھی۔ معجم الشعراء کے مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ زمانہ جاہلیت کی شاعری میں بھی بہت قدر و منزلت رکھتے تھے اور زمانہ اسلام میں بھی ان کو بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک شعر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے ایسا کہا کہ اسے آپ کا بہترین شعر کہا جا سکتا ہے۔ وہ شعر آپ کی دلی کیفیت کو خوب بیان کرتا ہے جس میں حضرت عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
لَوْلَمْ تَکُنْ فِیْہِ آیَاتٌ مُّبَیِّنَۃٌ
کَانَتْ بَدِیْھَتُہُ تُنْبِیْکَ بِالْخَبَرِ
(الاصابۃ فی تمیز الصحابہ جلد 4 صفحہ 75 عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر سچائی اور صداقت کا اظہار کرنے کے لئے وہ تمام کھلے کھلے اور روشن نشانات نہ بھی ہوتے جو آپ کے ساتھ تھے تو بھی محض آپ کا چہرہ ہی آپ کی صداقت کے لئے کافی تھا جو خود آپ کی سچائی کا اعلان کر رہا تھا۔ یہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھ کر ہی حق کو پہچانا۔
پھر تاریخ میں ہمیں دو چھوٹی عمر کے بھائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے جن کی جرأت حیرت انگیز تھی۔ حضرت مُعاذ بن حارث بن رفاعۃ اور حضرت مُعَوَّذ بن حارث بن رفاعۃ۔ غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ ابوجہل کے قتل میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔ بدر کا جو میدان تھا اس میں شدید جنگ ہو رہی تھی اور مسلمانوں کے سامنے ان سے تین گنا زیادہ جماعت تھی جو ہر قسم کے سامان حرب سے آراستہ تھی اور اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ ہم نےاسلام کا نام و نشان مٹا دینا ہے۔ مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے تھے۔ اس سارے واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنی کتاب سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے۔ اور مسلمانوں کی غربت اور بے وطنی کی حالت تھی۔ ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے جو مسلمان لوگ تھے یہ چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں ایسا بنا دیا تھا۔ وہ ایسے اس جذبہ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ جس سے زیادہ اس وقت طاقتور دنیا میں اور کوئی چیز نہیں تھی اور یہ ایمان تھا۔ ان کا زندہ ایمان جس نے ایک غیرمعمولی طاقت ان کے اندر بھر دی تھی۔ اس وقت میدان جنگ میں وہ خدمت دین کا ایک ایسا نمونہ دکھا رہے تھے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر ایک شخص دوسرے سے بڑھ کر خدا کی راہ میں جان دینے کے لئے بیقرار نظر آتا تھا۔ انصار کے جوش کا، اخلاص کایہ عالم تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی۔ مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو میں کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کہ ایسی جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر انحصار ہوتا ہے اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔ مگر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مَیں اس خیال میں ہی تھا کہ یہ بچے میری کیا حفاظت کریں گے کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھے آہستہ سے پوچھا جیسے دوسرے سے اپنی بات چھپانا چاہتا ہو کہ چچا! وہ ابو جہل کہاں ہے جو مکّہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا۔ لڑکا کہنے لگا میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ میں اسے قتل کروں گا یا قتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا۔ کہتے ہیں میں نے ابھی اس کا جواب نہیں دیا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا تو مَیں ان کی جرأت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کیونکہ ابوجہل گویا سردارِ لشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی موجود تھے۔ بڑے تجربہ کار سپاہی تھے۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی دیکھتے رہ گئے اور ابوجہل کو نیچے گرا لیا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا۔ وہ اپنے باپ کو تو نہیں بچا سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذ پر ایسا وار کیا کہ ان کا دایاں بازو کٹ گیا اور لٹکنے لگا۔ معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ گئے۔ چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں روک پیدا کر رہا تھا تو معاذ نے اسے زور کے ساتھ کھینچ کر اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا اور پھر لڑنے لگ گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 362)